جولائی ۲۰۰۸

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جولائی ۲۰۰۸ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

ہستیِ باری تعالیٰ سے متعلق چند سوال

سوال: ذہن میں چند سوالات اٹھتے ہیں، ان کی وضاحت فرما دیجیے:

۱- شیطان اللہ کا مقرب تھا اور اللہ کی مخلوق بھی۔ شیطان کو اللہ کے آگے انکار کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟

۲- اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو چھے دنوں میں کیوں بنایا، اس کی کیا حکمت ہے؟     وہ ایک دن میں بھی تو بنا سکتا تھا، جب کہ وہ کُن فیکون سے کام کرسکتا ہے۔

۳- جنتیوں کو جنت میں رکھنے اور جہنمیوں کو جہنم میں رکھنے کا اللہ کو کیا فائدہ ہوگا؟ کیا وہ غفور و رحیم اور ستارالعیوب نہیں ہے؟

۴- اے اللہ! درود و سلام ہو محمدؐ اور اس کی آل پر جس طرح تو نے درود و سلام بھیجا ہے ابراہیم ؑ اور اس کی آل پر۔ وہ کون سے انعامات ہیں جو اللہ نے ابراہیم ؑ اور ان کی آل پر بھیجے جو ہم بھی ہر نماز کے وقت اللہ سے طلب کرتے ہیں؟

جواب: ۱- شیطان کو اللہ تعالیٰ کے آگے انکار کرنے کی جرأت اس لیے ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار دیا ہوا تھا کہ چاہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو قبول کرے اور چاہے تو انکار کردے۔   اس نے اختیار کا غلط استعمال کیا۔ اللہ تعالیٰ کے مدمقابل کھڑا ہوگیا، تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں اپنی عقل کا استعمال کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کو غلط جانا، آدم کو سجدہ کرنا، اس کی تعظیم کرنا، اس کی خلافت کو تسلیم کرنا، اس کے نزدیک صحیح نہ تھا۔ اس کے نزدیک اللہ کا فرمان غلط تھا۔ اسے اس بات کا علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے، مالک ہے، وہ اختیار کو سلب بھی کرسکتا ہے۔ اس کے باوجود اس نے اللہ کے حقِ حاکمیت کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ ط قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ (اعراف۷:۱۲) ’’جب میں نے تجھے سجدے کا حکم دیا تو پھر کس چیز نے تجھے سجدے سے منع کردیا۔ اس نے جواب میں کہا: میں آدم سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے‘‘۔ شیطان اس جسارت اور بے باکی کے سبب راندۂ درگاہ ہوگیا اور شیطان کی طرح جنوں اور انسانوں میں سے اس کے نقشِ قدم پر چلنے والے بھی اس کی طرح مردود اور ملعون ہوگئے۔

آپ نے جو سوال اٹھایا ہے اس کا تعلق صرف شیطان سے نہیں ہے، بلکہ جنوں اور انسانوں میں سے ہر اس گروہ سے ہے جس نے اللہ کی مخلوق ہونے اور اللہ کی نعمتوں سے مالامال ہونے کے بعد کفر کیا۔ کفر اور شرک اور اللہ کی ہدایات اور اس کے احکام اور اس کی حاکمیت کے انکار کا کسی کے پاس کیا جواز ہے؟ جو بھی ایسا کرے گا، وہ بلاجواز کرے گا اور دنیا جو ’دارالابتلا‘ آزمایش و امتحان گاہ ہے، اس سے چلے جانے کے بعد کافر کے لیے دوزخ کا عذاب تیار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ (البقرہ ۲:۲۸) ’’تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کس بنیاد پر کفر کرتے ہو، حالانکہ تم     بے جان تھے تو اسی نے تم کو زندہ کیا، پھر تمھیں موت دے گا، پھر تمھیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جائو گے‘‘۔

شیطان کو ان ساری باتوں کا علم تھا، اس لیے اس نے اللہ تعالیٰ سے مہلت طلب کی تو اسے مہلت دے دی گئی۔ سورۂ اعراف میں ہے: قَالَ اَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ o قَالَ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ o قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ o ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْم بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِھِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَo قَالَ اخْرُجْ مِنْھَا مَذْئُ وْمًا مَّدْحُوْرًا لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکُمْ اَجْمَعِیْنَo (۱۵ تا ۱۸) ’’شیطان نے کہا: مجھے مہلت دے دیجیے اس دن تک جب لوگوں کو دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تجھے مہلت دیے جانے والوں میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس نے کہا: اس سبب سے کہ تو نے مجھے گمراہ کردیا ہے، میں انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے تیرے سیدھے راستے پر رکاوٹ بن کر بیٹھ جائوں گا، پھر ان کے سامنے سے، ان کے دائیں سے، ان کے بائیں سے ان کو روکوں گا۔ پھر ان میں سے اکثر کو تو شکرگزار نہ پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نکل جا تو اس جنت سے ملعون و مذموم ہوکر، ان میں سے جس نے تیری پیروی کی، میں جہنم کو تم سب سے بھر دوں گا‘‘۔

شیطان کفر، تکبر، غرور و جہالت کا ایک ماڈل ہے۔ اس ماڈل کو تمام کفار و مشرکین اور حاکمیت ِالٰہی کے منکرین نے اپنے سامنے رکھا ہوا ہے۔ یہ آیات کفر و شرک کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ شیطان اور اس کی ذُریت سب نے اللہ کی ہدایت اور فیصلوں کے مقابلے میں اپنی عقل اور نفسانیت کی پیروی کی اور اسی لیے سب کا انجام بھی وہی ہے جو شیطان کا انجام ہے۔ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ یہ تمھارا ایسا دشمن ہے کہ اس نے اپنی دشمنی کو چھپایا نہیں،بلکہ کھول کر بیان بھی کردیا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo (البقرہ ۲: ۲۰۸) ’’اے ایمان والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا  کھلا دشمن ہے‘‘۔ شیطان کے مقابلے میں دوسرا ماڈل اللہ تعالیٰ کے پہلے نبی اور خلیفہ حضرت آدم ؑ اور دوسرے انبیاے کرام ؑ کا ہے۔ یہ تمام ماڈل جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ میں جمع ہیں۔

پس ایک طرف ابلیس کا ماڈل ہے اور دوسری طرف نبی اکرمؐ اور آپؐ کی جماعت   اُمت مسلمہ کا ماڈل ہے جسے قرآن پاک میں شروع سے لے کر آخر تک بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ  (الاحزاب ۳۳:۲۱)’’تمھارے لیے رسولؐ اللہ میں بہترین نمونہ ہے‘‘ جس کی پیروی کی جانی چاہیے۔ اہلِ ایمان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکرگزار اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے سر جھکانے والے اور بلاکم و کاست ماننے والے ہیں،جب کہ کفار اور ان کے پیروکار منافقین اللہ تعالیٰ کی حکمرانی پر مطمئن نہیں ہیں۔ وہ اللہ کے احکام میں کمی بیشی کرنا چاہتے ہیں، ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے احکام میں نقص ہے، اس لیے   ان کے نزدیک یہ احکام بلاچون و چرا قابلِ قبول نہیں ہیں۔ یہ کش مکش جو ابلیس نے اللہ تعالیٰ   سے شروع کی، آج بھی جاری ہے۔ کفار و مشرکین و منافقین ابلیس کا کردار ادا کر رہے ہیں اور  اہلِ ایمان حضرت آدم ؑاور حضراتِ انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کے کردار کی پیروی کر رہے ہیں۔ یہ کش مکش تاقیامت جاری رہے گی۔ ان شاء اللہ اس دنیا میں بھی اہلِ ایمان کو ابلیس اور اس کی ذُریت پر غلبہ حاصل ہوگا اور آخرت میں بھی اہلِ ایمان جنت میں داخل ہوکر سرخ رُو اور کامیاب و کامران ہوں گے، اور ابلیس اور اس کے پیروکار دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔

۲- اللہ تعالیٰ نے کائنات کو اپنے علم، قدرت اور حکم سے بنایا ہے۔ اپنے کام کی حکمتیں وہی بہتر جانتا ہے۔ نظر یہ آتا ہے کہ کائنات کے مزاج میں اس نے تدریج رکھی ہے۔ یہاں ہر کام تدریجاً ہوتا ہے، دفعتاً نہیں۔ کائنات کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح چھے دن رات میں پیدا کیا، اس طرح اسے ایک دن میں بھی پیدا کرسکتا تھا، لیکن اُس نے اپنی مرضی سے ایسا نہیں کیا۔ ایک انسان ماں کے پیٹ میں چھے دن رات نہیں، بلکہ نو مہینے گزارتا ہے۔ اس طرح فصل، پھل اور دیگر زمینی پیداوار بھی پانچ یا چھے مہینے میں تیار ہوتی ہے۔ بچہ دو سال دودھ پیتا ہے، اس کے بعد آہستہ آہستہ نشوونما پاتا ہے اور ۱۵ سال کی عمر میں بلوغت کو پہنچتا ہے۔ تعلیم بھی ایک دن اور ایک سال میں نہیں بلکہ عمر کے طویل عرصے میں حاصل کرتا ہے۔ اس طرح کائنات کے باقی تمام معاملات کو     آپ دیکھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ کوئی کام بھی آناً فاناً نہیں ہوتا، اس میں وقت لگتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن پاک ۲۳ برس میں نازل اور نافذ ہوا اور اتنے ہی عرصے میں سرزمینِ عرب   اسلام کے لیے مسخر ہوئی۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو یہ کام اس سے کم عرصے میں بھی کرا سکتے تھے، اور پیچھے جائیں تو حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ساڑھے نو سو سال دعوت کا کام کیا۔ تب جاکر     اللہ تعالیٰ نے زمین کو کفر اور کفار سے پاک کیا۔ حضرت نوحؑ اور آپ ؑ کے پیروکاروں کے لیے  زمین کفار سے خالی فرما دی۔ حضرت نوحؑ روے زمین پر حکمران بن گئے۔ ان کے پیروکار ان کی اُمت کی حیثیت سے سرخ رُو ہوگئے۔

۳- جنتیوں کو جنت میں اور دوزخیوں کو دوزخ میں رکھنے کا اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ سارے فائدے انسانوں کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے میرے بندو! اگر تمھارے اگلے تمھارے پچھلے، تمھارے انسان، تمھارے جِن سب کے دل سب سے زیادہ متقی اور پاکیزہ بندے کے دل کی طرح ہوجائیں تو اس سے میرے اقتدار میں ذرہ برابر اضافہ نہ ہوگا۔  اے میرے بندو! اگر تمھارے اگلے تمھارے پچھلے، تمھارے انسان، تمھارے جِنّ، سب کے دل اس آدمی کی طرح ہوجائیں جو سب سے زیادہ بدکردار اور فاجر آدمی ہے، تو اس سے میرے اقتدار میں کوئی کمی نہیں آئے گی‘‘۔(حدیث قدسی، بخاری، مسلم)

دنیا میں جِن اور انسان آزمایش کے طور پر آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جسم و جان اور زمین کے خزانوں اور آسمان کی نعمتوں سے نوازا ہے ۔ انسان اور جِن میں سے کسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنی خواہشِ نفس کی حکمرانی قائم کرے یا دوسرے انسانوں کی خواہشِ نفس اور عقلی بے راہ روی کی حکمرانی قائم کر کے شیطان کے پیچھے چلے اور اللہ کے مقابلے میں شیطان کی حکومت قائم کرے۔ اگر ایسا کرتا ہے تو ظلم کا مرتکب ہوتا ہے اور ظالم کو پھر سزا     ملنی چاہیے، جو اس کے ظلم کے برابر ہو۔ شیطان کی پیروی اس کی حکمرانی قائم کرنا، سب سے بڑا ظلم ہے اور ظلم کے برابر وہ سزا ہے جو دائمی ہو، اور وہ سزا دوزخ کا عذاب ہے۔ اور اللہ کی حکمرانی قائم کرنا سب سے بڑا عدل ہے اور اس کی جزا بھی سب سے بڑی جزا ہونی چاہیے جوکہ جنت ہے۔

۴- حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی آل پر اللہ کی یہ رحمتیں ہوئیں کہ ہدایت کا ذریعہ انھیں اور ان کی اولاد کو بنادیا۔ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل دونوں حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے ہیں، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے ہیں اور ان کی دعائوں کا مظہر ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اپنے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی دعا اور حضرت عیسٰی ؑ کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ کی فضیلت اظہرمن الشمس ہے، یہ مقام اور مرتبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر درود و سلام کا نتیجہ ہے۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تاقیامت ہدایت آپؐ کے دامن سے وابستہ ہے۔ اب اللہ کی طرف سب راستے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار سے ہوکر جاتے ہیں۔ آپؐ کی حیثیت اور شان فرق کرنے والے کی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں، جو آپؐ  کے دامن سے وابستہ ہوگیا وہ جنتی ہے، اور جو آپؐ  کے دامن سے برگشتہ ہوا وہ دوزخی ہے۔ اب روے زمین پر ہدایت اور اللہ تعالیٰ کے دین کا غلبہ آپؐ  سے وابستہ ہے۔ روے زمین پر جتنی عبادات اللہ تعالیٰ کی آپؐ کے ذریعے سے ہوئیں اتنی کسی اور کے ذریعے سے نہ ہوسکیں۔ آپؐ اور آپؐ کی اُمت کے ذریعے پوری زمین سے کفر   مٹ جائے گا۔ آپؐ  نے فرمایا: ’’میں ہوں مٹانے والا، میرے ذریعے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائے گا‘‘۔ روے زمین سے کفر مٹ جائے گا اور ساری دنیا دارالاسلام بن جائے گی۔ دنیا میں آپ کی امامت، نبوت و رسالت کا سورج طلوع ہوگا اور آپ پر نازل کردہ نظامِ کتاب و سنت نافذ ہوگا۔

یہ اسی طرح کی رحمت اور صلوٰۃ و سلام کا مظہر ہے جس کا ظہور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حق میں ہوا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ ابراہیم ؑ کی امامت چونکہ مسلّم اور مشہور ہے، اس لیے آپؐ کی امامت کے ساتھ تشبیہہ دی گئی۔ ان کی امامت بھی اپنی اولاد کے واسطے سے اپنے دور میں تمام روے زمین کے لیے ہے اور آپؐ  کی امامت بھی تمام روے زمین کے لیے ہے۔ آپؐ تمام انبیاے علیہم السلام سے افضل اور سیداولادِ آدم ؑہیں اور آپؐ  نے تمام انبیاؑ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے جو مقام آپؐ کو دیا، کسی اور کو نہیں دیا۔ آپؐ کو شفاعت کبریٰ اور مقامِ محمود پر فائز کیا گیا۔ آپؐ  قیامت میں تمام انبیاؑ کی قیادت فرمائیں گے۔ سب سے پہلے   جنت میں آپؐ داخل ہوںگے۔ یہ تمام فضائل و مناقب آپؐ پر صلوٰۃ و سلام کا مصداق ہیں، اور صلوٰۃ و سلام کا فائدہ پڑھنے والے کو ہوتا ہے۔ آپؐ کو تو یہ فضائل اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیے ہیں، فرمایا: وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی (الضحٰی۹۳:۵) ’’اور عنقریب تمھارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہوجائو گے‘‘۔ درود شریف پڑھ کر حضرت ابراہیم ؑ اور جنابِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فضائل و مناقب کو اہلِ ایمان اپنے ذہن میں تازہ کرتے رہتے ہیں تاکہ آپؐ  کی محبت اور اطاعت میں اضافہ ہوجائے۔ اس لیے کہ ہدایت پانے کے لیے منارۂ نورِ ہدایت سامنے ہو تو پھر انسان راستے سے اِدھر اُدھر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی،اپنے محبوبوں اور اپنے محبوب دین اور اپنے محبوب نبیؐ کی محبت و اطاعت عطا فرمائے۔ آمین! (مولانا عبدالمالک)


مختلف دن منانے کا رجحان

س: آج کل مختلف ایام منانے کا رجحان سامنے آیا ہے، مثلاً مدرز ڈے، ٹیچرز ڈے، سینیرسٹیزن ڈے، ویلنٹائن ڈے وغیرہ۔ یہ رجحان بنیادی طور پر مغرب ہی سے    آیا ہے۔ دن منانے کی اس نئی روایت کے بارے میں ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟   کیا سرے سے اسے غیرمسلموں کا کام سمجھیں، یا موقع کے لحاظ سے فیصلہ کریں،     نہ منائیں یا اپنا رنگ دیں؟

ج: مخصوص دن، وقت یا مواقع پر تقریبات اور مجالس و محافل کے انعقاد کا تعلق نہ کسی خاص مذہب سے ہے نہ کسی خطے سے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں جہاں کہیں بھی تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں بعض مخصوص دن مذہبی یا غیرمذہبی رسموں کے لیے اجتماعی اور انفرادی طور پر  منائے جاتے ہیں۔ پھولوں کا تبادلہ، مٹھائی تقسیم کرنا یا اپنی خوشی کے اظہار کے لیے چراغاں کرنا اور بعض تہذیبوں میں ناچ گانے اور مشروبات کا استعمال بھی مخصوص دنوں اور اوقات کے ساتھ  وابستہ ہے۔

قرآن کریم نے تمام دنوں کو اللہ کے لیے یکساں قرار دیا، قدیم تہذیبوں کے اوہام و اساطیر پر مبنی تقدس کا رد کیا اور سال میں صرف دو دن ایسے قرار دیے جب باوقار انداز میں اللہ کے بندے اپنے رب کا شکر ادا کریں اور خالق کائنات کے نام کو بلند کرنے کے لیے اس کے حضور سجدہ ریز ہوکر اور بآواز بلند، اس کی عظمت و کبریائی اور اپنے عجز و عبدیت کو ظاہر کریں۔ چنانچہ رمضان المبارک کی ایک ماہ کی عبادت کی تکمیل پر اور حج مبرور کی ادایگی پر عالمی طور پر اپنی خوشی، خوش قسمتی اور  بندگیِ رب کے اظہار کے لیے دو دن مقررکردیے گئے۔ ان دو دنوں کے دوران میں اپنے اہلِ خانہ، اعزہ و اقربا و احباب حتیٰ کہ اجنبی افراد کے ساتھ بھی اخوت و محبت و احترام کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ان کی خاطر تواضع اور مہمان داری کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

قرآن و سنت پر نظر ڈالی جائے تو جمعہ کا دن بھی وہ مقام نہیں رکھتا جو یہودیوںنے سبت کو یا عیسائیوں نے یومِ احد یا اتوار کو دے کر آرام یا صرف عبادت کا دن قرار دے کر اختیار کرلیا۔ بلاشبہہ احادیث میں جمعہ کے دن کی فضیلت ہے لیکن نہ اس دن کام کی ممانعت ہے، نہ یہ آرام کرنے کا دن ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر، یاد، تسبیح، تعظیم اور اس کے حضور نماز کی شکل میں شکر ادا کرنے کے بعد کاروبارِ حیات میں، اللہ کے ذکر کوتازہ رکھتے ہوئے، مصروف ہوجانے والا دن ہے۔

اگر دنوں کا کوئی تقدس ہوتا تو انبیاے کرام کے یومِ ولادت کو یہ مقام ضرور دیا جاتا اور سال کے ۱۲ مہینوں اور ۳۶۵ دنوں میں سے ناممکن طور پر ایک لاکھ ۲۴ ہزار سے زیادہ دن     مقدس دنوں کے طور پر منائے جاتے۔ بالفرض تمام انبیاے کرام ؑکے ایامِ ولادت منانے مشکل ہوتے تو کم از کم انبیاے بنی اسرائیل جن کا ذکر سابقہ صحیفوں میں اور خود قرآن کریم میں پایا جاتا ہے ان کے حوالے سے ضرور کچھ دن مخصوص کردیے جاتے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا حتیٰ کہ ولادت باسعادت کو بھی صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین نے نہ چھٹی کا دن قرار دیا، نہ اسے مقدس دن سمجھا۔     اس لیے کہ وہ قرآن کریم کے اس اصول سے آگاہ تھے کہ سب دن اللہ کے لیے ہیں کیونکہ وہی خالق اور مالکِ حقیقی ہے۔ لہٰذا ہمارے ہاں دن منانے کے اہتمام کی روایت نہیں ہے۔ البتہ اگر موقع کے لحاظ سے والدین یا استاد کو کوئی تحفہ دے دیا جائے تو اس کی کوئی ایسی ممانعت بھی نہیں۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹیچرز ڈے ہو یا سینیرسٹیزن ڈے، مدرز ڈے ہو یا فادرز ڈے، مغربی تہذیب میں ان کی معاشرتی اہمیت کے پیش نظر سال میں ایک مرتبہ انھیں پھولوں کا تحفہ دے کر یا ایک کارڈ بھیج کر اظہارِ تشکر اور ان کی اہمیت کا اظہار کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ یہ اس سے تو بہتر ہے کہ پورے سال میں ایک مرتبہ بھی ان میں سے کسی کو یاد نہ رکھا جائے لیکن اگر واقعی ان کے احسانات کے پیش نظر ایسا کرنا مقصود ہے تو یہ سراسر تکلف ہے۔ والدین ہوں یا استاد، ان کا شکر تو اپنے اچھے اخلاق اور طرزِعمل سے ہی ادا ہوسکتا ہے، جسے قرآن کریم عملِ صالح کہتاہے۔ والدین اپنی محبت کے سایے میں ایسے وقت، جب اولاد قرآن کی زبان میں کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں ہوتی، اپنی توجہ اور تمام وسائل کو اس کی نشوونما اور تربیت پر لگا دیتے ہیں تو سال میں ایک دن تو کیا سال کے ہر دن، ان کا شکر و احترام کرنے کے بعد بھی کیا ان کا حق اور ان کا شکریہ ادا ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے والدین سے احسان کے رویے کی تلقین کی ہے اور ان کے ساتھ بے رُخی یا گستاخی پر سرزنش کی ہے۔

رہا ویلنٹائن ڈے یا اس قسم کے دیگر بے معنی دن تو حقیقت یہ ہے کہ ایسے دنوں کا تعلق جاہلیت اور جاہلی تہذیب سے تو ہوسکتا ہے، اسلامی تہذیب و ثقافت میں ان کے لیے کوئی گنجایش نہیں۔ ایسے دنوں کا منانا دیگر اقوام کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا اور ان کی جاہلیت پر مبنی روایات کو اپنانا ہے۔ بسنت بھی اسی قسم کا تہوار ہے جس کا کوئی تعلق مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت سے نہیں۔ یہ خالصتاً غیرمسلم طریقہ ہے اور اس کا اختیار کرنا گمراہی کا باعث ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)