محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ عرصۂ دراز سے دفاعِ توہینِ رسالتؐ کا فریضہ عدالت کے ایوانوں میں سرانجام دے رہے ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں اُن کی درخواست پر عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ ’قانون توہینِ رسالتؐ، کو عملی طور پر نافذ کیا جائے۔ مصنف کی آٹھ کتابیں اسی موضوع پر شائع ہوچکی ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت انگریزی میں اب ہوئی ہے، تاہم اسی موضوع پر ۱۹۹۴ء میں اُردو میں کتاب: ناموسِ رسولؐ بھی شائع ہوچکی ہے۔
زیرتبصرہ کتاب ۱۳ ابواب اور سات ضمیموں پر مشتمل ہے۔ کتاب کے ابتدائی ابواب میں عہدنامۂ قدیم کے علاوہ جدید مغربی مفکرین، مثلاً کارلائل، مائیکل ہارٹ، کیون آرمسٹرانگ، شہزادہ چارلس،لین پول کی جنابِ رسالت مآبؐ اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کے بارے میں آرا درج کی گئی ہیں۔ مصنف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مغرب اسلام سے خوف زدہ بھی ہے اور ناواقف بھی۔ اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ ۱۰۹۵ء سے اسلام کے خلاف مسیحیت نے جو جنگ جاری کی تھی، اُس میں کوئی وقفہ نہیں آیا۔ ۲۰ویں اور ۲۱ویں صدی میں حملے کے انداز تبدیل ہوئے ہیں ورنہ قرآن، رسالت مآب کی ذات اور اسلامی تعلیم جہاد کو ہر دور میں ہدفِ تنقید بنایا جاتا رہا ہے۔
مصنف نے صحابہ کرامؓ کے دور سے لے کر صلاح الدین ایوبی اور دورِ اندلس کے علما کے حوالے سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قانونِ توہینِ رسالتؐ کے مرتکب افراد کو ہر دور میں سزا کا مستحق گردانا گیا۔ وہ سلمان رُشدی کے معاملے پر بھی تفصیلی بحث کرتے ہیں اور مغرب نے جس قسم کا تعصب روا رکھا اُس کو زیربحث لائے ہیں۔ یاد رہے پاکستان میں قانونِ توہینِ رسالتؐ کی سزا میں اب تک کسی کو عدالتی سزا نہیں ملی ہے۔ امریکا، برطانیہ کے اہم قانونی تعلیمی اداروں اور مغرب کے انصاف پسند حلقوں نے قانون توہینِ رسالتؐ کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا ہے اُس کا تذکرہ اس کتاب میں تفصیل سے شامل ہے۔
عالمِ عرب کے علما کی راے درج کرنے کے بعد وہ بھارت کے عالمِ دین وحید الدین خان کی راے پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی بھی فرد کو ’مصالح‘ کے پیش نظر شانِ رسالتؐ کے مسئلے پر کمزوری دکھانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف دساتیر میں آزادیِ راے کی حیثیت، نیز پاکستان کے نمایاں علما کے خیالات کو بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ عامر عبدالرحمن چیمہ شہید، نیز ڈنمارک میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بارے میں بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے یہ احساس اُبھرتا ہے گویا کہ اس کے مخاطب مسلمان ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مغربی ممالک اور مغرب کا پروردہ ذہن جن دلائل کو قبول کرتا ہے انھیں اہمیت دی جائے۔ قانونِ توہین رسالتؐ، جہاد، دہشت گردی جیسے موضوعات پر بحث مباحثہ ختم ہونے والا نہیں ہے، اس بارے میں جس قدر جامع تحریریں، منظرعام پر آسکیں، مفید ہیں۔ (محمد ایوب منیر)
پوری دنیا میں عموماً اور دنیاے اسلام میں خصوصاً غیراسلامی تجارتی اصولوں سے بے زاری اور اسلامی تجارتی طریقوں کی آگاہی اور اس میں تیز پیش رفت اسلامی بنکاری میں انقلاب برپا کرچکی ہے۔ اسلامی مالی اداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور روایتی بنکوں میں اسلامی بنکاری کی خصوصی سہولتوں کا قیام عام لوگوں کی اسلامی بنکاری کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس دوران ایک بنکار کو اسلامی بنکاری سے مناسب آگاہی نہ صرف بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے میں مدد دے سکتی ہے بلکہ اسلامی بنکاری کی تیزترین ترقی کا انحصار بھی اسی پر ہے۔
زیرتبصرہ کتاب میں اسلامی معاشی نظام اور اس کے مختلف اداروں کے تعارف کے ساتھ ساتھ ۱۹۸۰ء میں شروع ہونے والی اسلامی بنکاری اور آج ہونے والی اسلامی بنکاری کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اسلامی بنکاری کی اصل بنیاد اور سود کی اصل متبادل اساس، یعنی مشارکہ اور مضاربہ کے تصور، شرائط اور عملی طور پر استفادہ کے حوالے سے تفصیلات، ڈائیگرام کے ذریعے پیش کی گئی ہیں۔ یہ کتاب کی انفرادیت ہے۔
مشارکہ اور مضاربہ کے علاوہ دیگر ذرائع میں اجارہ، مرابحہ، توارق سلم، استصناع وغیرہ کی تفصیلات اور عملی شکلوں پر بحث کی گئی ہے۔ اسی طرح زرعی شعبے اور صارفین کے لیے وسائل کی فراہمی کے ذرائع کا جائزہ لیتے ہوئے گھرفنانس، کار فنانس، بدلہ کا کاروبار، کریڈٹ کارڈ، ڈیبٹ کارڈ، چارج کارڈ اور ATM کے تصورات کا شرعی تقاضوں کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے۔
مزید برآں کاروباری معاملات میں ملازمین و آجرین کے حقوق و فرائض، عام کاروباری معاملات، طویل المدت اور قلیل المدت بچتوں اور ان کے استعمال، ٹیکس کاری اور اس کے مسائل، انشورنس، بنک گارنٹی، مارکیٹنگ، تکافل، فنانشل رپورٹنگ اور زکوٰۃ کے مختلف مسائل کا جائزہ پیش کیا گیا ہے اور ان کی شرعی حیثیت کا تعین کیا گیا ہے۔
اس کتاب کی خاص بات ان موضوعات پر سہل اور تفصیلی بحث ہے جو نہ صرف اسلامک بنکاری میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ آنے والے دور میں جدید اسلامی بنکاری کی بنیاد ہوسکتے ہیں اور جن کا جاننا ایک اچھے بنکار کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کتاب کی ایک اور خاص بات اس کے عنوانات کا ترتیب وار سلسلہ ہے جو قاری کو آسان سے پیچیدہ اسلامی تصورات کی طرف کسی رکاوٹ کے بغیر بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یہ کتاب جدید اسلامی بنکاری کے تقاضوں پر نہ صرف پورا اُترتی ہے بلکہ علومِ اسلامی بنکاری میں مفید اضافہ ہے۔ مصنف اسلامی بنکاری کے میدان میں اس عظیم کاوش پر خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ (محمد محمود شاہ خان)
لغت کا ایک لفظ ہے ’یلغار‘۔ اس لفظ کے ساتھ فوری طور پر یہ تصویر ذہن میں بنتی ہے کہ ایک گروہ یا لشکر اپنی قوت کے بل بوتے پر دوسرے کو پچھاڑنے، بے بس کرنے یا اپنی مرضی کا تابع بنانے کے لیے اُمڈا چلا آرہا ہے۔ گذشتہ سو ڈیڑھ سو برس سے دین اسلام کے کچھ ’ہمدردوں‘ نے تو واقعی اس لفظ کے پردے میں خود اسلام کی ’تشکیل نو‘ کے لیے یلغار کر رکھی ہے۔ وہ جو دین کی ابجد سے بھی واقف نہیں اور وہ جو اس لفظ کے دائرۂ اثر کی نزاکتوں اور عملی سطح پر اس کی وسعتوں تک سے بے خبر ہیں وہ بھی اس لفظ کو اس زعم میں گھما پھرا کر اسلامی فکریات کے ایوان پر دے مارتے ہیں کہ گویا اہلِ دین تو دین اور دنیا سے بے خبر بیٹھے ہیں اور عقل و دانش کی دولت بس اس یلغاری گروہ کی ملکیت ہے۔ یہ ایک عجیب منظر ہے۔ مولانا زاہدالراشدی اس کتاب میں مذکورہ صورت حال پر نظر دوڑانے کے ساتھ علماے کرام کو دین، ایمان اور عقل کی بنیاد پر وسعت نظر، منصبی ذمہ داری اور قوتِ عمل کی دعوت دیتے ہیں: ’’ایک طرف سرے سے اجتہاد کی ضرورت سے انکار کیا جا رہا ہے، اور دوسری طرف اجتہاد کے نام پر اُمت کے چودہ سو سالہ علمی مسلمات اور اجتماعی اصولوں کا دائرہ توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، جب کہ حق ان دونوں انتہائوں کے درمیان ہے‘‘۔ (ص ۲۸۷)
زیرنظر کتاب اجتہاد کے حوالے سے اس بحث کے پس منظر، عملی جہتوں، اس کے مقدمات، نظائر، امکانات اور مضمرات کو اس طرح پیش کرتی ہے کہ قاری بڑی حد تک معاملے کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھ لیتا ہے۔ چونکہ یہ کتاب مولانا راشدی کے ان بیش تر اخباری کالموں پر مشتمل ہے، جو انھوں نے اکتوبر ۱۹۹۰ء سے تاحال سپردِ قلم کیے (مگر اخباری کالم ہونے کے باوجود ان میں گہرائی اور تازگی ہے)، چنانچہ اس عرصے کے دوران میں زیربحث موضوع کے بارے میں اُٹھنے والے مناقشوں کا ایک ریکارڈ بھی سامنے آجاتا ہے۔ مصنف نے استدلال کے لیے عام فہم نظائر اورمثالوں کو خوبی سے چن چن کر فکروخیال کا دیوان سجایا ہے۔ چند در چند ناہمواریوں کے باوجود اہلِ دین ان کی اس کاوش کو یقینا خوش آمدید کہیں گے۔
مصنف کو علمی حلقے ایک معتدل شخصیت کے طور پر جانتے ہیں، تاہم زیرتبصرہ کتاب میں یہ نثرپارہ ان کی مذکورہ حیثیت کو متاثر کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مولانا [عبیداللہ] سندھیؒ اور ابوالکلام آزادؒ کے علمی تفردات پر ان کے شاگردوں اور معتقدین نے دفاع اور ہر حال میں انھیں صحیح ثابت کرنے کی وہ روش اختیار نہیں کی، جو خود مولانا مودودی اور ان کے رفقا نے ان کی تحریروں پر علما کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات پر اپنا لی تھی۔ چنانچہ اس روش کے نتیجے میں وہ جمہور علما [؟] کے مدمقابل ایک فریق کی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے‘‘ (ص ۳۱۷)۔ اس ٹکڑے میں الزام تراشی اور مبالغہ آمیزی کا وہ لحن کارفرما ہے جو گذشتہ صدی کے پانچویں اور چھٹے عشرے میں منظر پر چھایا ہوا تھا [موصوف نے یہ عجب دعویٰ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودی نے اس غوغا آرائی کا جواب نہ ہونے کے برابر دیا، اور ان کے رفقا نے گنتی کی چند چیزوں کے سوا کوئی جواب نہیں دیا، جب کہ دوسری جانب سے تنقید کا ایک طوفان اٹھایا جاتا رہا]۔ سبحان اللہ، ان ’جمہور علما‘ میں سے واقعی کتنے حضرات نے خدا ترسی اور علمی مناسبت سے تنقید کی اور کتنے حضرات نے عصبیت کی چوکھٹ پر سچائی، اخلاق، علم اور شائستگی کا خون کیا؟ مذکورہ بالا فردِ جرم کا جائزہ اور ’جمہورعلما‘ کے اسلوبِ نگارش کا گل دستہ اس مختصر تبصرے میں پیش کرنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ’کرم فرمائوں‘ کو خوش رکھے۔ (سلیم منصور خالد)
۲۳ سال بعد، یہ اس کتاب کی طبع نو ہے۔ یہ محترم خرم مراد کے اپنی اہلیہ کے نام خطوط کے آئینے میں ایوب خاں کے اس دور کی تصویر ہے جب حکومت اپنی دانست میں جماعت اسلامی کا نام و نشان مٹانے کے درپے تھی اور اس پر پابندی لگا کر تمام رہنمائوںکو پابندِسلاسل کردیا تھا۔ خرم مراد اس وقت جماعت اسلامی ڈھاکا کے امیر تھے۔ ڈھاکا جیل کے شب و روز سے زیادہ، یہ خطوط آزمایش کے اس مرحلے میں ، ایک مومن کے جو جذبات و کیفیات ہونا چاہییں اس کے آئینہ دار ہیں۔ اپنے رب سے تعلق، قرآن سے تعلق، تحریک کے اس مرحلے پر ایمان افروز تبصرے، کامیابی کا یقین، ساتھ ہی اپنی رفیقۂ حیات کو صبروحوصلے کی تلقین، قاری ایمان و یقین کی ایک کیفیت سے گزرتا ہے۔
یہ تحریک کے ہر کارکن کے لیے ذاتی تربیت و تزکیہ کی کتاب ہے۔ خرم مراد سے جو واقف ہیں، ان کے لیے اس میں مزید لطف ہے۔ ان کی اہلیہ محترمہ لمعت النور نے ان خطوط کو خود مرتب کیا ہے، اور ’اسلامی جمعیت طلبہ کی نوخیز زندگیوں‘ کو ہدیہ کیا ہے۔ (محمد اسماعیل)
وقت ہی زندگی ہے۔ انسان کے لیے مہلت عمل ہے۔ اسی وقت کے صحیح یا غلط استعمال پر آخرت کی ابدی تکلیف یا راحت کا انحصار ہے۔ انتظامیات اور کیریر کے حوالے سے آج یہ مغربی دنیا کا مقبول موضوع ہے جس پر بہت مفید چیزیں لکھی جارہی ہیں۔ محمد بشیر جمعہ نے، جنھیں اُردو میں ان موضوعات پر لکھنے کا پہل کار (pioneer) قرار دیا جاسکتا ہے، زیرتبصرہ کتاب میں سلف و حال کے ۲۰رجال کی ۲۶ تحریریں چھے عنوانات کے تحت جمع کردی ہیں۔ ان کے مطالعے سے وقت کے بارے میں صحیح دینی تصور اُبھر کر سامنے آتا ہے اور انسان کو ذاتی زندگی کے لیے قیمتی عملی رہنمائی، نہ صرف دنیاوی کیریر کے لیے بلکہ اخروی کیریر کے لیے بھی ملتی ہے۔ حافظ ابن رجب، امام غزالی، حسن البنا، شیخ عبدالرحمن السدیس، مولانا اشرف علی تھانوی، حفظ الرحمن سیوہاری، مولانا عبدالمالک، ڈاکٹر حسن صہیب مراد، خالد رحمن، ڈاکٹر منصور علی اور خود بشیرجمعہ لکھنے والوں میں شامل ہیں۔ ان سب کو جو زندگی میں کچھ کرنا چاہتے ہیں (تاکہ آخرت میں کامیاب ہوں) خصوصاً اداروں میں کام کرنے والوں اور نوجوان طلبہ و طالبات کو اس کا خصوصی مطالعہ کرنا چاہیے۔ دعوتِ دین کے کارکن بھی اس کی روشنی میں اپنے کو منظم کریں تو اپنی سرگرمیوں کو کئی گنا زیادہ مؤثر کرسکتے ہیں۔ (مسلم سجاد)
زیرنظر کتاب ایک زائر حرم کی طلب صادق اور وارداتِ قلبی کا نام ہے۔ مختصر مگر دل کی تاریں ہلانے اور آنکھیں نمناک کر دینے والایہ سفرنامہ خوب صورت الفاظ ، اردو، پنجابی اور انگریزی اشعار، برجستہ جملوں اور سیدھے سادے انداز کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ تصنع ہے نہ بناوٹ، ذاتی واردات اور تاریخی روایات و حکایات کا مجموعہ ہے۔ یہ سفرنامہ طبعی بذلہ سنجی، شوخی اور جدت کی تلاش و جستجو کا مرقع ہے۔ عزیزوں، دوستوں سے ملنے کا تذکرہ جابجا نظر آتا ہے مگر قاری کی دل چسپی قائم رہتی ہے۔ اس کتاب کو سفرحج پر جانے والوں کے لیے ہلکے پھلکے انداز میں لکھی جانے والی ایک راہنما کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ سعود عثمانی کے پیش لفظ نے کتاب کے حسن میں مزید اضافہ کیا ہے۔ (عمران ظہورغازی)
زیرنظر کتاب میں پروفیسر عبدالحمید ڈار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کو جمع کیا ہے جن میں آپؐ نے ناپسندیدہ امور کی نشان دہی کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی، وعید اور عتاب، سرزنش و ممانعت اور اظہار براء ت کا اعلان فرمایا ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں ان احادیث کی وضاحت کے ساتھ ساتھ ہماری روزمرہ روش پر تبصرہ بھی کیا گیا ہے۔ اس طرح نبی کریمؐ کے اسوۂ حسنہ کا وہ پہلو بھی نمایاں ہوکر سامنے آجاتا ہے جس میں آپؐ نے عقائد، عبادات اور معاملات میں ایک مومن کی شخصیت کے ناپسندیدہ عناصر کی نشان دہی فرمائی ہے۔ چند موضوعات: نمازباجماعت بلاعذر ترک کرنا، زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لیے وعید، جاہلیت کی پکار پر اظہار ناراضی، اموردین میں تشدد، احکاماتِ شریعت کو کھیل بنانا، پڑوسی کو دین کی تعلیم دینے میں کوتاہی پر سرزنش، عیب چینی پر گرفت، مصنوعی افزایش حُسن پر لعنت، زرپرستی کی مذمت، لین دین میں بددیانتی پر زجر، غاصب کے لیے شدید وعید، مسلمان پر ہتھیار اٹھانے کی مذمت، حکمرانوں کے جھوٹ کو سچ کہنے اور ظلم میں مدد پر وعید وغیرہ۔ گویا ایک آئینہ فراہم کردیا گیا ہے کہ اپنا احتساب کیا جائے اور خدا کے غضب سے بچا جائے۔(امجدعباسی)
احادیث مبارکہ کا یہ دل نشیں مجموعہ دوسری دفعہ کئی موضوعات اور ۲۵۰ صفحات کے اضافوں کے ساتھ شائع ہواہے۔ عبادات، معاملات، فضائل و رذائل اخلاق اور نظامِ حکومت سے متعلق احادیث کی تشریح شیخ عمرفاروق صاحب نے خود بھی کی ہے لیکن بیش تر یہ اہتمام ہے کہ کسی مستند اور مقبول کتاب سے متعلقہ حصہ اخذ کر کے پیش کردیں۔ اس طرح مطالعہ کرنے والوں اور درس و تدریس کرنے والوں کے لیے ایک حسین گلدستہ تیار ہوگیا ہے (مزید تعارف کے لیے دیکھیے: تبصرہ پہلا اڈیشن ستمبر ۲۰۰۴ئ)۔ شائقین بلامعاوضہ حاصل کرسکتے ہیں لیکن کڑی شرط یہی ہے کہ آکر لی جائے، ترسیل کا انتظام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ شیخ عمر فاروق کو جزاے خیر دے کہ ایسی ہی دوسری کتابوں کے ذریعے خیر کے چشمے جاری کر رکھے ہیں۔ (م - س)