جولائی ۲۰۰۸

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| جولائی ۲۰۰۸ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

مولانا ایاز احمد ‘چارسدہ

’دہشت گردی کے خلاف ___کس کی جنگ؟‘ (جون ۲۰۰۸ئ) میں آپ نے امریکی حکومت کے ناپاک عزائم کو بہت تفصیل سے واضح فرمایا ہے۔ موجودہ حکومت کو قوم نے ووٹ اس لیے دیا تھا کہ ہمیں امریکی حملوں سے نجات ملے گی لیکن افسوس کہ امریکا نے ایک بار پھر مہمند ایجنسی پر حملہ کیا اور سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ساتھ بے گناہ اور نہتے لوگوں پر بھی بم باری کی جس میں کئی لوگ شہید اور زخمی ہوگئے۔ یہ سلسلہ پتا نہیں کب تک رہے گا۔ ایک ایٹمی طاقت کے عوام کتنے غیرمحفوظ اور بے آسرا ہیں۔ موجودہ حکمران بھی صدر مشرف اور اُن کے رفقا کے طریقے پر عمل پیرا ہیں۔ ملک میں بدامنی اور مہنگائی ہے، لوگ نانِ جویں کے لیے ترس رہے ہیں اور حکمران ہیں کہ خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کی حفاظت فرمائے۔ ضرورت ہے کہ پوری قوم اجتماعی توبہ کرے، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اس کی نافرمانی اور سرکشی کی روش ترک کر کے مکمل بندگی و اطاعت اختیار کرے۔


عبدالمتین اخوندزادہ ‘کوئٹہ

جون کا ترجمان القرآن ظاہری حُسن کے ساتھ باطنی حُسن و مقصدیت بھی لیے ہوئے ہے۔ ’اشارات‘ اور ’شذرات‘ کے ساتھ ساتھ’قرآن کی دعوت کا مخاطب، قلب‘ اچھی تذکیر ہے۔ انسانی خدمت کے وسیع تصور میں نبی اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ کے ساتھ اسلامی اداروں کے خدمت کے مستحکم نیٹ ورک کا تعارف و جائزہ بھی آنا چاہیے، خاص کر حماس، حزب اللہ اور ترکی کا تذکرہ۔ مختصر لباسی پر ڈاکٹر لیونڈ کیتالیف کا مضمون مختصر ہونے کے باوجود اس شمارے کی جان ہے۔ یہ مغرب کے گھر کی گواہی ہے۔ سلیم منصور خالد کی اچھی کاوش ہے۔


شمس الرحمٰن عثمانی ‘ہزارہ

ارض فلسطین، لبنان، شام، اسرائیل اور عرب دنیا کی تازہ ترین صورت حال اور مستقبل کے امکانات پر محترم عبدالغفار عزیز نے چشم کشا تجزیہ پیش کیا (جون ۲۰۰۸ئ)۔ میں ان کے لیے دعاگو ہوں کہ وہ اُمت کو بصائر و عبر سے آگاہ کرتے رہیں۔


عرفان منور گیلانی ‘ڈنمارک

’مختصر لباسی کی تباہ کاری‘ (جون ۲۰۰۸ئ) اگرچہ ایک مغربی محقق کا مضمون ہے، غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود مغرب اپنی عریانی سے باز نہیں آتا۔دوسری طرف مسلم معاشرے، جن کی اسی روسی محقق نے تعریف کی ہے، جانتے بوجھتے اسی عریانی کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ عریانی دراصل جھوٹی آزادی کا عنوان ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں عورت کو اس کا حقیقی مقام دیا جائے جو قرآن وسنت نے اسے دیا ہے۔ وہ رسوم و رواج کے بندھنوں سے آزاد ہو۔ تب اس کے لیے مغرب کی دی ہوئی آزادی (یعنی عریانی) میں کوئی کشش نہ رہے گی، بلکہ مغرب بھی اس طرف آئے گا۔


سمیع اللّٰہ بٹ ‘لاہور

’مختصر لباسی کی تباہ کاری‘ (جون ۲۰۰۸ئ) روسی محقق و دانش ور کا دل چسپ اور چشم کشا مضمون ہے۔ مغرب کی ملحدانہ اور زوال پذیر معاشرت کے قابلِ عبرت پہلو پر ایک گھر کا بھیدی مہرتصدیق ثبت کررہا ہے۔ مسلمان معاشروں کے روشن خیال اور جدیدیت کے علَم بردار طبقے جو ’مُلاازم اور طالبان کے اسلام‘ کی آڑ میں اسلامی معاشرت، لباس اور طرزِ زندگی پر آئے روز طنز کرتے یا اس سے وحشت محسوس کرتے ہیں، انھیں اس طرح کی تحقیقات اور اعترافات سے سبق اور عبرت حاصل کرنا چاہیے۔


سیمیں نذیر ‘کراچی

’حکمت مودودی‘ کے تحت ’طاغوت‘ (مئی ۲۰۰۸ئ) میں مولانا مودودیؒ نے آنکھیں کھول کر رکھ دیں، اور ضمیر پر کاری ضرب لگی کہ کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتاجب تک کہ طاغوت کا منکر نہ ہو۔ اللہ کرے کہ پاکستان میں بھی سرکشی و طغیان مٹ جائے اور خدا کا قانون نافذ ہوجائے۔ ڈاکٹر فوزیہ ناہید مرحومہ کی زندگی  قابلِ رشک ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو اللہ نے زندگی کے ہر میدان اورشعبۂ زندگی میں خاص صلاحیتوں و جدوجہد سے ہمکنار کیا۔ تحریر پڑھ کر لگا کہ سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ محترمہ قانتہ ذکی بھی داد کی مستحق ہیں کہ انھوں نے مرحومہ کا دل نشیں پیرایے میں نقشہ کھینچا۔اگر وہ امریکا میں اسلامی تحریک پر مزید لکھیں تو بہت اچھا ہو۔


عبداللّٰہ خضر‘ کراچی

مغربی میڈیا کے بارے میں اب بھی یہ تاثر ہے کہ وہ معروضی نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ ہم یہ گمان بھی نہیں کرسکتے کہ وہ کس حد تک سفید جھوٹ پر انحصار کرتے ہیں۔ عراق پر امریکی حملے سے پہلے اکتوبر ۱۹۹۰ء میں ایک کویتی لڑکی نیّرہ نے امریکی کانگریسی کمیٹی کے سامنے روتے ہوئے یہ بیان دیا کہ عراقی فوجیوں نے کویتی ہسپتالوں میں معتدلہ (incubators)  میں پڑے ہوئے بچوں کو نکال کر باہر پھینک دیا تاکہ وہ مرجائیں۔ یہ چشم دید بیان ایک تعلقات عامہ کی فرم Hill and Knowlton نے خوب اُچھالا اور بڑے بش نے اس کی مدد سے صدام کی ہٹلر سے بھی بدتر تصویر کھینچی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ عراقی قبضے کے دوران نیّرہ کویت گئی ہی نہیں اور نہ کمیٹی کے سامنے یہ حقیقت آئی کہ وہ امریکا میں کویت کے سفیر کی بیٹی ہے۔ جنگ کے بعد کینیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے اس جھوٹ کا پول کھولا جب اس نے برٹش کولمبیا کے ایک پروفیسر کا یہ بیان نقل کیا کہ وہ دورانِ جنگ کویت کے ہسپتالوں میں گیا ہے۔ وہاں کبھی کسی نے incubators کے اس واقعے کے بارے میں سنا ہی نہیں (کریسنٹ انٹرنیشنل، جون ۲۰۰۸ئ)۔ اگر کوئی محنت کرے تو اس طرح کے     بے شمار مصدقہ جھوٹوں اور غلط بیانیوں پر پوری کتاب تیار ہوسکتی ہے جن کے سہارے امریکی پالیسی چلتی ہے۔


فیضان احمد‘سیکرٹری جنرل اسلامی سنگھ نیپال

یہ اطلاع دیتے ہوئے مسرت ہو رہی ہے کہ الحمدللہ نیپالی ترجمۂ قرآن کے رسم اجرا کا پروگرام نہایت کامیاب رہا۔ یہ ترجمہ تحریک اسلامی نیپال، اسلامی سنگھ نیپال کی پانچ سالہ محنتوں کا ثمرہ ہے۔ مولانا علائوالدین فلاحی، فارغ التحصیل جامع الفلاح اور سابق طالب علم بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کو ترجمے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مختلف علماے کرام کی نظرثانی کے ساتھ ساتھ تین ماہر لسانیات سے بھی اس کی زبان کی  تصحیح کروائی گئی ہے۔ یہ عربی متن کی نیپالی زبان میں ترجمانی ہے۔ اس کی تیاری میں قرآن مجید کے مشہور   اُردو تراجم: تفہیم القرآن، تدبر القرآن، احسن البیان، معارف القرآن اور انگریزی زبانوں میں موجود تراجم کے ساتھ ساتھ متداول عربی تفاسیر سے بھی مدد لی گئی ہے۔رسمِ اجرا کے موقع پر منعقدہ پروگرام میں سیاسی و سماجی کارکنان، مختلف مسالک کے نمایندے، ہندو، بودھ، عیسائی اور جین مذاہب کے           اعلیٰ عہدے داروں سمیت بڑی تعداد میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے شرکت کی۔