جولائی ۲۰۰۸

فہرست مضامین

استعمار سے نجات

روبینہ نعیم | جولائی ۲۰۰۸ | بحث و نظر

Responsive image Responsive image

یوسف الخباز کا مضمون ’استعمار کی ذہنی غلامی، اثرات اور نجات‘ (فروری ۲۰۰۸ئ) ایک نقطۂ نظر کے طور پر شائع کیا گیا۔ یہ ایک چشم کشا مضمون ہے جس کے مطالعے کے بعد استعمار کی حقیقت اور اثرات و مضمرات سے بھرپور آگاہی ہوئی اور دل و دماغ میں حیرت انگیز شعوری اور  فکری بیداری محسوس ہوئی۔ اس سلسلے میں اپنا محاسبہ کیا اور دوسروں کے خیالات جاننے کی بھی کوشش کی تو استعمار کے کئی پہلو سامنے آئے اور استعمار کے اثرات سے چھٹکارا پانے کے لیے عملی اقدامات کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔

سب سے پہلی ضرورت یہ محسوس ہوئی کہ استعمار کی حقیقت سے آگاہی عام کی جائے اور یہ ان لوگوں کا فرض ہے جو اس خطرے کی حقیقت سے آگاہ ہوچکے ہیں۔ جو لوگ حقیقت شناس، باشعور اور فکری گہرائی رکھنے والے ہوں وہ مزید ایسے افراد کار تیار کریں جو استعمار کی اصلیت اور اس سے نجات کے لیے ٹھوس لائحہ عمل طے کریں۔ اس حوالے سے لٹریچر، ورکشاپوں اور لیکچروں سے مدد لیں۔ میڈیا میں موجود صالح عناصر سے بھی مدد لی جائے۔ یہ ارباب عقل و دانش کا اولین فرض ہے کہ وہ ملت کو اس تباہی و بربادی سے آگاہ کریں۔ ذہنی غلامی کے اس مرض کی تشخیص کریں اور ایسی پالیسی مرتب کریں جو اس کا شافی علاج کرسکے۔

اگر ہم اپنے طرزِ زندگی کا جائزہ لیں تو بے شمار ایسی اشیا ملیں گی جو واقعی ہماری ضرورت نہیں لیکن ماحول اور معاشرے کے زیراثر ہم ان کو ضرورت سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ معاشرے کا عام رنگ ڈھنگ ہم پر غالب نہیں ہے مگر ہم ایک حد تک اس کو اپناتے ہیں یا اس کو ردکرنے کا حوصلہ افزا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرتے۔ آپ ایک تجربہ کریں اور یقینا ایک   حیران کن نتیجہ آپ کا منتظر ہوگا جیساکہ ان دو ماہ کے دوران میرے ساتھ ہوا۔ آپ اپنی نجی اور  سماجی زندگی میں ہرسطح پر استعمار سے مفاہمت کے بجاے اس کو رد کردیں اور اس کے متبادل تمام اسلامی اصول اپنائیں۔ وہاں پر بھی جہاں آپ یہ سمجھتے ہوں کہ ایک جدید معاشرے میں رہتے ہوئے ہمیں کسی حد تک مفاہمت کرنی پڑے گی۔ ہر اُس مقام پر جہاں ہماری ذاتی راے یا معاشرے کا چلن اللہ کے قوانین سے ٹکراتا ہو اللہ کے قانون کو ترجیح دیں۔ میں حیران ہوں کہ اس کے نتیجے میں جو سکون ملتا ہے اور قلب کی کیفیات میں تبدیلی آتی ہے اور اللہ رب العزت سے جو قربت محسوس ہوتی ہے اس کی حلاوت سے اتنا عرصہ کیوں محروم رہی؟ مسائل کا ایسا حل اس میں ہے کہ خود ہمارا ہی دامن تنگ پڑنے لگتا ہے۔

کرنے کے کام

  • جدید دور کی سہولیات کو اللہ کی عطا کردہ نعمت سمجھ کر شکر کے ساتھ ان کا فائدہ اٹھایا جائے۔ نتیجے میں بچ جانے والے وقت کو اللہ کی راہ میں صَرف کیا جائے اور ان جدید سہولیات کو نمایش کا ذریعہ نہ بنایا جائے، نہ ان کا استعمال آرام طلبی کی خاطر ہی کیا جائے۔
  • استعمار کا ایک حربہ مسلمانوں کو ظاہری چکاچوند کا شکار کردینا ہے۔ ہمارا قیمتی وقت، سرمایہ اور ذہنی صلاحیتیں، لباس کی تزئین و آرایش، خوراک کے نت نئے ذائقوں، شان دار گھریلو آرایش میں ضائع ہو رہی ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہر سطح پر نمود و نمایش، بے جا آرایش و زیبایش کے تقلیدی رویوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ لباس، خوراک، اور رہایش، ان تینوں معاملات میں    فقط دو حرفی اصول اپنایا جائے: ’صاف اور سادہ‘۔

ہم اپنے گھر میں موجود سامان کی فہرست بنائیں اور اس فہرست کا موازنہ دورِ صحابہ کرامؓ سے کریں (ہمارے سر شرم سے جھک جائیں گے)۔ پھر اس فہرست میں سے محبوب اشیا اور غیرضروری اشیا نکال باہر کریں۔ ان اشیا کو تلاش کریں جن کو ہماری ناقص عقل ناگزیر خیال کرتی ہے اور ان کے بغیر چند دن گزاریں (ان شاء اللہ ایسا سکون ملے گا کہ نتیجے میں ہمیشہ کے لیے غیرضروری اشیا سے نجات مل جائے گی)۔

  • میڈیا کی حشرسامانیوں کا ’منبع‘ دنیا بھر کے شیطانی چیلنجوں کا مرکز اگر ہماری اور ہمارے اہلِ خانہ کی زندگیاں آلودہ نہیں کر رہا تو بہترین… لیکن اگر ایسا ہے تو اس سے نجات اتنی اشد ضروری ہے جتنی گلے سے لپٹے کسی زہریلے سانپ سے۔
  • اپنے اوقات کار سنت مطہرہ کے مطابق ترتیب دیں۔ فجر سے عشاء تک کے اوقات میں نمازوں کے مطابق کاموں کو ترتیب دیں نہ کہ ٹی وی ڈراموں اور دیگر مشاغل کے پیش نظر۔
  • تقلید، اور وہ بھی استعمار کی اندھا دھند تقلید کا پہلا عمل ’احساس مرعوبیت‘ ہے۔ دوسرا عمل ’تقلید‘ ہے۔ اب تقلید کی معراج تک پہنچنے کے لیے پائوں آبلہ پا ہوجاتے ہیں۔ حرص اتنی بڑھتی ہے کہ ہوس اور تشنہ آرزوئوں کے نتیجے میں ذہنی و نفسیاتی بیماریاں اور دیگرجسمانی عوارض گھیر لیتے ہیں۔ کیا چھوٹا طبقہ، کیا بڑا، سب بیماریوں کا مجموعہ بن چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں قسم کے ٹیسٹ، ادویات وغیرہ زندگی بھر کے لیے جینے کے لطف سے محروم کردیتے ہیں۔ یہ بھی استعمار کا عطاکردہ تحفہ ہے۔ ورنہ وہ لوگ بھی ہیں جو دین کے عطا کردہ نظام پر مطمئن رہتے ہیں، خواہشات کے پلندے نہیں باندھتے اور روکھی سوکھی کھا کر بھی تندرست اور مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔ ہمیں اپنی ’اصل‘ کی طرف لوٹنا ہو گا اور ایسا لازماً کرنا ہوگا، کیونکہ اس کے علاوہ عزت سے جینے کا اور  کوئی راستہ نہیں۔ استعماری تہذیب کا عفریت منہ پھاڑے ہمیں نگلنے کو تیار ہے اور دوسری طرف جنگی سامان سے لیس دور جدید کا فرعون ہماری دہلیز پر نہیں بلکہ دہلیز کے اندر پائوں رکھ چکا ہے۔  لہٰذا قوموں کی زندگی میں مشکل فیصلوں کا جو وقت آیا کرتا ہے آج ہمارے سر پر کھڑا جواب طلب کررہا ہے۔ بروقت اور صحیح فیصلے اور عمل کی قوت وقت کا تقاضا ہے!

ـ