رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَـآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o (الحشر: ۵۹:۱۰) اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکھ‘ اَے ہمارے رب! تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔
[اس آیت سے قبل فَے کی تقسیم کا مسئلہ زیربحث ہے۔ فَے وہ مال ہے جو دشمن سے بغیر لڑائی کے مسلمانوں کو حاصل ہو۔] اس آیت میں اگرچہ اصل مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ فَے کی تقسیم میں حاضر و موجود لوگوں کا ہی نہیں‘ بعد میںآنے والے مسلمانوں اور ان کی آیندہ نسلوں کا حصہ بھی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ اس میں ایک اہم اخلاقی درس بھی مسلمانوں کو دیا گیا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے لیے بغض نہ ہونا چاہیے‘ اور مسلمانوں کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے حق میں دعاے مغفرت کرتے رہیں‘ نہ یہ کہ وہ اُن پر لعنت بھیجیں اور تبرّا کریں۔ مسلمانوں کو جس رشتے نے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے‘ وہ دراصل ایمان کا رشتہ ہے۔ اگر کسی شخص کے دل میں ایمان کی اہمیت دوسری تمام چیزوں سے بڑھ کر ہو تو لامحالہ وہ ان سب لوگوں کا خیرخواہ ہوگا جو ایمان کے رشتے سے اس کے بھائی ہیں۔ ان کے لیے بدخواہی اور بغض اور نفرت اس کے دل میں اسی وقت جگہ پا سکتی ہے، جب کہ ایمان کی قدر اس کی نگاہ میں گھٹ جائے اور کسی دوسری چیز کو وہ اس سے زیادہ اہمیت دینے لگے۔ لہٰذا یہ عین ایمان کا تقاضا ہے کہ ایک مومن کا دل کسی دوسرے مومن کے خلاف نفرت و بغض سے خالی ہو۔ اس معاملے میں بہترین سبق ایک حدیث سے ملتا ہے جو نسائی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ تین دن مسلسل یہ ہوتا رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اپنی مجلس میں یہ فرماتے کہ اب تمھارے سامنے ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے‘ اور ہر بار وہ آنے والے شخص انصار میں سے ایک صاحب ہی ہوتے۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کو جستجو پیدا ہوئی کہ آخر یہ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر حضورؐ نے ان کے بارے میں بار بار یہ بشارت سنائی ہے۔ چنانچہ وہ ایک بہانہ کر کے تین روز مسلسل ان کے ہاں جا کر رات گزارتے رہے تاکہ ان کی عبادت کا حال دیکھیں۔ مگر ان کی شب گزاری میں کوئی غیرمعمولی چیز اُنھیں نظر نہ آئی۔ ناچار انھوں نے خود ہی ان سے پوچھ لیا کہ بھائی‘ آپ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر ہم نے حضوؐر سے آپ کے بارے میں یہ عظیم بشارت سُنی ہے؟ انھوں نے کہا: میری عبادت کا حال تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔ البتہ ایک بات ہے جو شاید اس کی موجب بنی ہو‘ اور وہ یہ ہے کہ: ’’میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے خلاف کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی بھلائی پر جو اللہ نے اسے عطا کی ہو‘ اس سے حسد کرتا ہوں‘‘۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اگر کسی دوسرے مسلمان کے قول یا عمل میں کوئی غلطی پاتا ہو تو وہ اسے غلط نہ کہے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہرگز نہیں ہے کہ مومن غلطی بھی کرے تو اس کو صحیح کہا جائے‘ یا اس کی غلط بات کو غلط نہ کہا جائے۔ لیکن کسی چیز کو دلیل کے ساتھ غلط کہنا اور شائستگی کے ساتھ اُسے بیان کر دینا اور چیز ہے ‘ اور بغض و نفرت‘ مذمت و بدگوئی اور سبّ و شتم بالکل ہی ایک دوسری چیز۔ یہ حرکت زندہ معاصرین کے حق میں کی جائے تب بھی ایک بڑی بُرائی ہے‘ لیکن مرے ہوئے اسلاف کے حق میں اس کا ارتکاب تو اور زیادہ بڑی بُرائی ہے‘ کیونکہ وہ نفس ایک بہت ہی گندا نفس ہوگا جو مرنے والوں کو بھی معاف کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اور ان سب سے بڑھ کر شدید بُرائی یہ ہے کہ کوئی شخص اُن لوگوں کے حق میں بدگوئی کرے جنھوں نے انتہائی سخت آزمایشوں کے دَور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی رفاقت کا حق ادا کیا تھا اور اپنی جانیں لڑا کر دنیا میں اسلام کا وہ نور پھیلایا تھا جس کی بدولت آج ہمیں نعمت ایمان میسّر ہوئی ہے۔ اُن کے درمیان جو اختلافات رونما ہوئے اُن میں اگر ایک شخص کسی فریق کو حق پر سمجھتا ہو اور دوسرے فریق کا موقف اس کی راے میں صحیح نہ ہو، تو وہ یہ راے رکھ سکتا ہے اور اسے معقولیت کے حدود میں بیان بھی کرسکتا ہے۔ مگر ایک فریق کی حمایت میں ایسا غلو کہ دوسرے فریق کے خلاف دل بغض و نفرت سے بھر جائے اور زبان و قلم سے بدگوئی کی تراوش ہونے لگے‘ ایک ایسی حرکت ہے جو کسی خدا ترس انسان سے سرزد نہیں ہوسکتی۔ قرآن کی صریح تعلیم کے خلاف یہ حرکت جو لوگ کرتے ہیں وہ بالعموم اپنے اس فعل کے لیے یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ قرآن مومنین کے خلاف بغض رکھنے سے منع کرتا ہے‘ اور ہم جن کے خلاف بغض رکھتے ہیں، وہ مومن نہیں بلکہ منافق تھے۔ لیکن یہ الزام اُس گناہ سے بھی بدتر ہے جس کی صفائی میں یہ بطور عذر پیش کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی یہی آیات‘ جن کے سلسلۂ بیان میں اللہ تعالیٰ نے بعد کے آنے والے مسلمانوں کو اپنے سے پہلے گزرے ہوئے اہلِ ایمان سے بغض نہ رکھنے اور ان کے حق میں دعاے مغفرت کرنے کی تعلیم دی ہے‘ اُن کے اس اِلزام کی تردید کے لیے کافی ہیں۔ اِن آیات میں یکے بعد دیگرے تین گروہوں کو فَے کا حق دار قرار دیا گیا ہے: اوّل مہاجرین‘ دوسرے انصار‘ تیسرے اُن کے بعد آنے والے مسلمان۔ اور اِن بعد کے آنے والے مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے ایمان لانے میں سبقت کی ہے، ان کے حق میں دعاے مغفرت کرو۔ ظاہر ہے کہ اس سیاق و سباق میں سابقین بالایمان سے مراد مہاجرین و انصار کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اِسی سورئہ حشر کی آیات ۱۱ تا ۱۷ میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ منافق کون لوگ تھے۔ اِس سے یہ بات بالکل ہی کُھل جاتی ہے کہ منافق وہ تھے جنھوں نے غزوئہ بنی نضیر کے موقع پر یہودیوں کی پیٹھ ٹھونکی تھی‘ اور ان کے مقابلے میں مومن وہ تھے جو اس غزوئہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ شامل تھے۔ اِس کے بعد کیا ایک مسلمان ‘ جو خدا کا کچھ بھی خوف دل میں رکھتا ہو‘ یہ جسارت کر سکتا ہے کہ اُن لوگوں کے ایمان کا انکار کرے جن کے ایمان کی شہادت اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے؟
امام مالکؒ اور امام احمد ؒنے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ راے ظاہر کی ہے کہ فَے میں اُن لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہے جو صحابۂ کرام کو بُرا کہتے ہیں (احکام القرآن لابن العربی‘ غایۃ المنتھٰی)۔ لیکن حنفیہ اور شافعیہ نے اس راے سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کو فَے میں حصہ دار قرار دیتے ہوئے ہر ایک کے ایک نمایاں وصف کی تعریف فرمائی ہے‘ مگر ان میں سے کوئی تعریف بھی بطور شرط نہیں ہے کہ وہ شرط اس گروہ میں پائی جاتی ہو تو اسے حصہ دیا جائے ورنہ نہیں۔ مہاجرین کے متعلق فرمایا کہ ’’وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی حمایت کے لیے کمربستہ رہتے ہیں‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس مہاجر میں یہ صفت نہ پائی جائے وہ فَے میں سے حصہ پانے کا حق دار نہیں ہے۔ انصار کے متعلق فرمایا کہ ’’وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ بھی اُن کو دے دیا جائے اس کے لیے اپنے دلوں میں کوئی طلب نہیں پاتے‘ خواہ وہ خود تنگ دست ہوں‘‘۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ فَے میں کسی ایسے انصاری کا کوئی حق نہیں جو مہاجرین سے محبت نہ رکھتا ہو اور جو کچھ اُن کو دیا جا رہا ہو اسے خود حاصل کرنے کا خواہش مند ہو۔ لہٰذا تیسرے گروہ کا یہ وصف کہ ’’اپنے سے پہلے ایمان لانے والوں کے حق میں وہ دعاے مغفرت کرتا ہے اور اللہ سے دعا مانگتا ہے کہ کسی مومن کے لیے اس کے دل میں بغض نہ ہو‘‘، یہ بھی فَے میں حق دار ہونے کی شرط نہیں ہے بلکہ ایک اچھے وصف کی تعریف اور اس امر کی تلقین ہے کہ اہلِ ایمان کا رویّہ دوسرے اہلِ ایمان کے ساتھ اور اپنے سے پہلے گزرے ہوئے مومنین کے معاملے میں کیا ہونا چاہیے۔ (تفہیم القرآن، ج۵، ص ۴۰۳- ۴۰۵)
[سورئہ اعراف میں ہے]: ’’وہ اہلِ جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے‘‘ (۷:۴۳)، یعنی دنیا کی زندگی میں ان نیک لوگوں کے درمیان اگر کچھ رنجشیں، بدمزگیاں اور آپس کی غلط فہمیاں رہی ہوں تو آخرت میں وہ سب دُور کردی جائیں گی۔ ان کے دل ایک دوسرے سے صاف ہوجائیں گے۔ وہ مخلص دوستوں کی حیثیت سے جنت میں داخل ہوں گے۔ اُن میں سے کسی کو یہ دیکھ کر تکلیف نہ ہوگی کہ فلاں جو میرا مخالف تھا اور فلاں جو مجھ سے لڑا تھا اور فلاں جس نے مجھ پر تنقید کی تھی، آج وہ بھی اس ضیافت میں میرے ساتھ شریک ہے۔ اسی آیت کو پڑھ کر حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اور عثمانؓ اور طلحہؓ اور زبیرؓ کے درمیان بھی صفائی کرا دے گا۔
اس آیت کو اگر ہم زیادہ وسیع نظر سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صالح انسانوں کے دامن پر اس دنیا کی زندگی میں جو داغ لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان داغوں سمیت انھیں جنت میں نہ لے جائے گا بلکہ وہاں داخل کرنے سے پہلے اپنے فضل سے انھیں بالکل پاک صاف کردے گا اور وہ بے داغ زندگی لیے ہوئے وہاں جائیں گے۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص ۳۰-۳۱)