جدیدیت دراصل ان نظریاتی ، تہذیبی ، سیاسی اور سماجی تحریکوں کے مجموعہ کا نام ہے جو ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی کے یورپ میں روایت پسندی (Traditionalism) اور کلیسائی استبداد کے رد عمل میں پیدا ہوئیں۔
یہ وہ دور تھا ، جب یورپ میں کلیسا کا ظلم اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا ۔تنگ نظر پادریوں نے قدیم یونانی فلسفہ اور عیسائی معتقدات کے امتزاج سے کچھ خود ساختہ نظریات قائم کررکھے تھے اور ان نظریات کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی آواز کو وہ مذہب کے لیے خطرہ سمجھتے تھے ۔شاہی حکومتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے انھوں نے ایک ایسا استبدادی نظام قائم کر رکھا تھا جس میں کسی بھی آزاد علمی تحریک کے لیے کوئی گنجایش نہیں تھی۔
دوسری طرف اسپین کی اسلامی تہذیب کے ساتھ طویل تعامل کی وجہ سے عیسائی دنیا میں بھی حریت فکر کی ہوائیں آنے لگی تھیں۔ قرطبہ اور غرناطہ میں حاصل شدہ تجرباتی سائنس کے درس رنگ لارہے تھے ۔ اور یورپ کے سائنس دان آزاد تجربات کرنے لگے تھے۔ حریتِ انسانی اور مساوات کے اسلامی تصور کے اثرات نے جنوبی اٹلی اور صقلیہ میں انسان دوستی (Humanism) کی جدید تحریکیں پیدا کی تھیں۔۱؎
ان سب عوامل نے مل کر کلیسا کے استبداد کے خلاف شدید رد عمل پیدا کیا اور جدیدیت کی تحریک شروع ہوئی۔ چونکہ اس تحریک سے قبل یورپ میں شدید نوعیت کی دقیانوسیت اور روایت پرستی کا دور دورہ تھا، اس لیے اس تحریک نے پورے عہدِ وسطیٰ کو تاریک دور قرار دیا۔ مذہبی عصبیتوں ، روایت پسندی اور تنگ نظری کے خاتمے کو اپنا اصل ہدف بنایا۔ شدید رد عمل نے اس تحریک کو دوسری انتہا پر پہنچادیا اور روایت پرستی اور عصبیت کے خلاف جدوجہد کرتے کرتے یہ تحریک مذہب اور مذہبی معتقدات ہی کے خلاف ہوگئی ۔
جدیدیت کی اس تحریک کی نظریاتی بنیادیں فرانسس بیکن ۲؎، رینے ڈیکارٹ۳؎، تھا مس ہوبس ۴؎، وغیرہ مفکرین کے افکار میں پائی جاتی ہیں، جن کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ یہ دنیا اور کائنات عقل، تجربے اور مشاہدے کے ذریعے قابلِ دریافت (knowable) ہے اور اس کے تمام حقائق تک سائنسی طریقوں سے ہی رسائی ممکن ہے۔ اس لیے حقائق کی دریافت کے لیے کسی اور سرچشمہ کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کا کہیں وجود ہے۔ صرف وہی حقائق قابلِ اعتبار ہیں جو عقل، تجربے اور مشاہدے کی مذکورہ کسوٹیوں پر کھرے ثابت ہوں۔ ان فلسفیوں نے مابعد الطبیعیاتی مزعومات (metaphysical contentions) اور مذہبی دعوئوں کو اس وجہ سے قابل رد قرار دیا کہ وہ ان کسوٹیوں پر پورے نہیں اترتے ۔ ڈیکارٹ نے "I think therefore I am" (میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں) کا مشہور اعلان کیا جو جدید مغربی فلسفے کی بنیاد سمجھا جاتا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خودی کا شعوری عمل (Conscious Act of Ego) سچائی تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔
پاسکل ، مانٹسکیو، ڈیڈاراٹ ، وسلی، ہیوم، والٹیر جیسے مفکرین نے بھی عقل کی لامحدود بالادستی اور واحد سرچشمۂ علم ہونے کے اس تصور کو عام کیا ۔ یہ افکار عقل پرستی (Rationalism) کہلاتے ہیں اور جدیدیت کی بنیاد ہیں۔ چنانچہ جدیدیت کی تعریف ہی یوں کی گئی: جدیدیت وہ روشن خیالی اور انسان دوستی ہے جو کسی بھی ہستی کی بالادستی اور روایت کو مسترد کرتی ہے اور صرف عقل اور سائنسی علوم کو ہی تسلیم کرتی ہے۔ یہ اس مفروضے پر قائم ہے کہ سچائی اور معنی کا واحد منبع خودمختار فرد کی عقل ہے___ کارتیسی اصول: فکر کردم پس ہستم ۵؎،
اس تحریک نے مذہبی محاذ پر الحاد اور تشکیک کو جنم دیا۔ والٹیر ۶؎ جیسے الحاد کے علَم برداروں نے مذہب کا کلیتاً انکار کردیا،جب کہ ہیگل جیسے متشکک مذہب کو تسلیم تو کرتے ہیں، لیکن اسے عقل کے تابع بتاتے ہیں اور مذہبی حقائق کو بھی دیگر عقلی مفروضات کی طرح قابل تغیر قرار دیتے ہیں۔
سیاسی محاذ پر اس تحریک نے انسانی حریت کا تصور پیش کیا ۔آزادیٔ فکر، آزادیٔ اظہار، اور حقوق انسانی کے تصورات عام کیے ۔ تھامس ہابس نے حتمی اقتدار اعلیٰ (Absolute Sovereignty) کے تصور کو سیاسی فلسفے کی بنیاد قرار دیا ۔ جان لاک نے اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے عوام کو اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ قرار دیا۔ والٹیر نے انسانی حریت کا تصور پیش کیا ۔ مانٹسکیو ۷؎ اور روسو ۸؎ نے ایسی ریاست کے تصورات پیش کیے جس میں انسانوں کی آزادی اور ان کے حقوق کا احترام کیاجاتا ہے ا ور حکمرانوں کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔
جدیدیت کی تحریک نے قوم پرستی اور قومی ریاستوں کا تصور بھی عام کیا ۔ انھی افکار کے بطن سے جدید دور میں جمہوریت نے جنم لیا ۔ اور یورپ اور شمالی امریکا کے اکثر ملکوں میں خود مختار جمہوری قومی ریاستیں قائم ہوئیں۔
معاشی محاذ پر اس تحریک نے اول تو سرمایہ دارانہ معیشت اور نئے صنعتی معاشرے کو جنم دیا جس کی بنیاد ایڈم اسمتھ کی معاشی فکر تھی جو صنعت کاری، آزادانہ معیشت اور کھلے بازار کی پالیسیوں سے عبارت تھی۔ ۹؎ نئے صنعتی معاشرے میںجب مزدوروں کا استحصال شروع ہوا تو جدیدیت ہی کے بطن سے مارکسی فلسفہ پیدا ہوا،جو ایک ایسے غیر طبقاتی سماج کا تصور پیش کرتا تھا، جس میں محنت کش کو بالادستی حاصل ہو۔ ۱۰؎
اخلاقی محاذ پر اس تحریک نے افادتیت (Utilitarianism) کا تصور عام کیا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اخلاقی قدروں کا تعلق افادیت سے ہے۔ جو رویے سماج کے لیے فائدہ مند ہیں، وہ جائز اور جو سماج کے لیے نقصان دہ ہیں، وہ ناجائز روییّ ہیں۔ اور یہ کہ افادیت اخلاق کی واحد کسوٹی ہے۔ افادیت کے تصورنے قدیم جنسی اخلاقیات اور خاندان کے روایتی ادارے کی افادیت کو چیلنج کیا، جس کے نتیجے میں جدید اباحیت (permissiveness) کا آغاز ہوا ۔
جدیدیت ہی کے بطن سے نئے صنعتی معاشرے میں نسائیت (Feminism) کی تحریک پیدا ہوئی جو مرد وزن کی مساوات کی علم بردار تھی اور عورتوں کو ہر حیثیت سے مردوں کے مساوی مقام دلانا اس کا نصب العین تھا ۔
انقلابِ فرانس، برطانیہ میں جمہوریت کی تحریک ، امریکا کی آزادی کی تحریک اور اکثر یورپی ممالک کی تحریکیں جدید یت کے ان افکار ہی سے متاثر تھیں ۔ ۲۰ویں صدی کے آتے آتے یورپ اور شمالی امریکا کے اکثر ممالک ان افکار کے پرجوش مبلغ اور داعی بن گئے ۔جدیدیت کو روشن خیالی (Enlightenment) اور نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے نام بھی دئیے گئے اور بڑی طاقتوں کی پشت پناہی سے روشن خیالی کا منصوبہ ایک عالمی منصوبہ بن گیا۔
چنانچہ ۲۰ویں صدی کے نصف آخر میں مغربی ممالک کا واحد نصب العین تیسری دنیا میں روایت پسندی سے مقابلہ کرنا اور جدیدیت کو فروغ دیناقرار پایا۔ آزادی، جمہوریت، مساواتِ مردوزن، سائنسی طرز فکر، سیکولرزم وغیرہ جیسی قدروں کو دنیا بھر میں عام کرنے کی کوششیںکی گئیں ۔ معاشی فکر کے معاملے میں مغرب سرمایہ دار انہ اور کمیونسٹ دھڑوں میں ضرور منقسم رہا، لیکن سیاسی ، سماجی اور نظریاتی سطح پر جدیدیت کے افکار بالاتفاق جدید مغرب کے رہنما افکار بنے رہے، جن کی دنیا بھر میں اشاعت اور نفاذ کے لیے ترسیل واشاعت کے علاوہ ترغیب وتنفیذ کے تمام جائز وناجائز طریقے اختیار کیے گئے ۔ تیسری دنیا میں ایسے پٹھو حکمرانوں کوبٹھایا گیا جو عوام کی مرضی کے خلاف زبردستی ترقی کے جدید ماڈل ان پر تھوپنے پر مامور رہے۔ اسلامی دنیا میں خصوصاً اسلامی تہذیبی روایات کی بیخ کنی کو جدیدیت کا اہم ہدف سمجھا گیا۔ ترکی ، تیونس اورسابق سوویت یونین میں شامل وسط ایشیا کے علاقوں میں مذہبی روایات سے مقابلے کے لیے ایک سخت ظالمانہ اور استبداد ی نظام قائم کیا گیا ۔
جدیدیت کے علم برداروں نے اپنے مخصوص افکار پر جس شد و مد کے ساتھ اصرا ر کیا اور ان کی تنفیذ کے لیے جس طرح طاقت اور حکومت کا بے دریغ استعمال ہوا اس نے فکری استبداد کی وہی صورت حال پیدا کردی ، جو عہد وسطیٰ کے یورپ میں مذہبی روایت پسندی نے پیدا کی تھی اور جس کے رد عمل میں جدیدیت کی تحریک برپا ہوئی تھی۔ اس استبداد کا لازمی نتیجہ شدید ردّ عمل کی شکل میں رونما ہوا۔ اور یہی رد عمل ما بعد جدیدیت (Post Modernism)کہلاتا ہے۔
مابعد جدیدیت ان افکار کے مجموعے کا نام ہے جو جدیدیت کے بعد اور اکثر اس کے ردعمل میں ظہور پذیر ہوئے۔ اس کے علَم بردار نہ تو کسی منظم نظامِ فکر کے قائل ہیں اور نہ منظم تحریکوں کے۔ اس لیے یہ فکر اشتراکیت یا جدیدیت کی طرح کوئی مبسوط یا منظم فکر نہیں ہے ۔ اور نہ اس کی پشت پر کوئی منظم تحریک ہی موجود ہے ۔ بلکہ مابعد جدیدیت کے علَم بردار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کسی نظریے کا نام نہیں ہے، بلکہ اُس عہد کا نام ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں اور اُن کیفیتوں کا نام ہے جو اس عہد کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ ۱۱ ؎ظاہر ہے کہ یہ محض دعویٰ ہے اور چونکہ وہ اپنے خیالات کی تائید میں کتابیں لکھ رہے ہیں ،فلسفیانہ مباحث چھیڑ رہے ہیں اور بحثیں کر رہے ہیں اس لیے دنیا ان کے خیالات کو ایک آئیڈیا لوجی ماننے پر مجبور ہے ۔
اکثر امور میں مابعد جدیدیت کے مفکروں میں اتفاق راے بھی نہیں ہے اور علمی حلقوں میں یہ اصطلاح مختلف معنوں میں استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس لیے اس کی تعریف بیان کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ تاہم بعض خیالات مابعد جدیدیت مفکرین میں مشترک بھی ہیں اور یہی مشترک فکر ان کا امتیاز ہے۔ لیوٹارڈ، جس کا اس فکر کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے، اس نے اس کی تعریف یوں کی ہے:
I define Postmodernism as incredulity towards meganarratives. ۱۲؎
(میرے نزدیک مابعد جدیدیت کا مطلب عظیم بیانات پر عدم یقین ہے ۔)
مابعد جدیدیت کے حامی کہتے ہیں کہ جدیدیت نے عقل کی بالاتری، آزادی، جمہوریت، ترقی، کھلی منڈی اور اشتراکیت جیسے خیالات عالم گیر سچائیوں کی حیثیت سے پیش کیے۔ یہ ایک کھلا فریب تھا۔ زمانہ کے امتداد نے ان ساری خود ساختہ حقیقتوںکا جھوٹ واضح کر دیا ہے، اس لیے اب اس عہد میں اس طرح کے عظیم بیانات (Meganarratives) نہیں چلیں گے۔ یہ اس عہد کا خاصہ ہے ۔اس میں جدیدیت کے تمام دعوئوں کی عمارت ڈھادی گئی ہے ۔ اور اس عہد کی یہ خصوصیت ہی مابعد جدیدیت ہے۔۱۳؎
مابعد جدیدیت کے تصور کے مطابق دنیا میں کسی آفاقی سچائی کا وجود نہیں ہے۔ بلکہ آفاقی سچائی کا تصور ان کے نزدیک محض ایک خیالی تصور (Utopia) ہے۔ جدیدیت کے علَم برداروں کا خیال ہے کہ جمہوریت ، آزادی ومساوات ، سرمایہ دارانہ نظام معیشت (یا اشتراکیوں کے نزدیک اشتراکیت) اور ٹکنالوجیکل ترقی وغیرہ پر مبنی جو ماڈل یورپ میں اختیار کیا گیا ، اس کی حیثیت ایک عالمی سچائی کی ہے اور ساری دنیا کو اپنی روایات چھوڑ کر ان عالمی سچائیوں کو قبول کرنا چاہیے ۔ چنانچہ ۲۰ویں صدی میں ساری دنیا کو جدید بنانے کا کام شروع ہوا۔ روایتی معاشروں سے کہا گیا کہ وہ صنعتیں قائم کریں، شہر بسائیں ، آزادی کی قدروں کو نافذ کریں، جمہوری طرز حکومت اپنائیں ، جدیدٹکنالوجی کو اختیار کریں اور اس طرح جدید بنیں کہ فلاح وترقی کا یہی واحد راستہ ہے ۔ مابعد جدیدی دوسری انتہا پر جاکر عالمی یا آفاقی سچائی کے وجود ہی سے انکار کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک چاہے سچائی ہو یا کوئی اخلاقی قدر، حسن وخوبصورتی کا احساس ہو یا کوئی ذوق، یہ سب اضافی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا تعلق انفرادی پسند و ناپسند اور حالات سے ہے۔ یعنی ایک ہی بات کسی مخصوص مقام پر یا مخصوص صورتوں میں سچ اور دوسری صورتوں میں جھوٹ ہوسکتی ہے۔ دنیا میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو ہمیشہ اور ہر مقام پر سچ ہو۔ تصورِ جہاں (World view)سچائی کی پیداوار نہیں ہوتا بلکہ طاقت کی لڑائی میں محض ایک ہتھیار ہوتا ہے۔ لوگوں نے دنیا پر حکومت کرنے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اپنے من پسند خیالات کو عالم گیر سچائیوں کے طور پر ان پر مسلّط کیا ہے۔ اس طرح وہ سرمایہ داری، جمہوریت اور اشتراکیت وغیرہ جیسے نظریات کے سخت ناقد ہیں، جو اپنے خیالات کو عالم گیر سچائی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ مذہبی عقائد اور تصورات کے بھی منکر ہیں کیونکہ مذاہب کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ ان کے معتقدات کی حیثیت اٹل حقائق کی ہے ۔۱۴؎
اس نظریے کی تائید میں ان کی دلیل یہ ہے کہ صدیوں کی علمی جستجو کے باوجود انسانی ذہن کسی ایک سچائی پر متفق نہیں ہوسکا۔ آج بھی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے اطراف کئی ایک اور بسااوقات باہم متضاد سچائیاں (یعنی سچ کے دعوے) پائی جاتی ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم سچائی سے متعلق اپنے نقطئہ نظر ہی کو بدل لیں اور یہ تسلیم کرلیں کہ سچائی نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ سچائی محض ہمارے مشاہدے کا نتیجہ ہوتی ہے اور مشاہدہ ہمارے ذہن کی تخلیق ۔ سچائی کی تلاش نہیں، بلکہ سچائی کی تشکیل ہوتی ہے ۔ حالات کے مطابق ہماراذہن سچائی کی تخلیق کرتا ہے ۔ اور چونکہ بیک وقت ایسی کئی تخلیقات ممکن ہیں اس لیے یہ ماننا چاہیے کہ کوئی بھی تخلیق حتمی نہیں ہے۔
مابعد جدیدیت کے ماننے والے سائنس کو بھی حتمی سچائی کی حیثیت سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیونارڈ لکھتا ہے: سائنس کی زبان اور اخلاقیات، اور سیاسیات کی زبان میں گہرا تعلق ہے اور یہ تعلق ہی مغرب کے تہذیبی تناظر کی تشکیل کرتا ہے۔۱۵؎
یعنی سائنس بھی مغرب کی سیاست اور اخلاقی فلسفوں سے آزاد نہیںہے۔
مابعد جدیدیت کے مطابق جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں ، اس کی حیثیت سچائی کی نہیںہے۔ اس کے علم برداروں کا خیال ہے کہ ہم وہی دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم وہی دیکھتے ہیں جو مخصوص وقت اور مخصوص مقام پر مخصو ص احوال خود کو دکھانا چاہتے ہیں۔ وہ دنیا کو حقیقی اور ٹھوس اشیا اور مناظر کی بجائے ایسے عکسوں (Images) اور مظاہر (representations) سے عبارت سمجھتے ہیں جو غیر حقیقی(unreal) اور غیرمحسوس (untangible)ہیں۔یعنی پوسٹ ماڈرن ازم کے نزدیک یہ دنیا محض ایک ویڈیو گیم ہے جس میں ہم اپنی پسند کی سچائیاں دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں ۔ ضیاء الدین سردار نے اس کی تشریح یوں کی ہے:
اس کا مطلب ہے کہ یہ دنیا ایک ایسا تھیٹر ہے جس میں ہر چیز مصنوعی طور پر تشکیل کردہ ہے۔سیاست عوامی استعمال کے لیے کھیلا جانے والا ایک ڈراما ہے۔ ٹیلی ویژن پر دستاویزی فلمیں تفریحات کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ صحافت حقیقت اور افسانے کے بیچ فرق کو دھند لا دیتی ہے۔ زندہ افراد، سوپ اوپیرا کے کردار بن جاتے ہیں اور افسانوی کردار زندہ انسانوں کی جگہ لے لیتے ہیں۔ ہر چیز اچانک واقع ہوتی ہے اور ہرشخص عالمی تھیٹر میں واقع ہونے والی ہر چیز کا برموقع نظارہ کرتا ہے۔۱۷؎
جیسا کہ عرض کیا گیا، مابعد جدیدیت کے نزدیک جمہوریت ،ترقی ،آزادی، مذہب ، خدا ، اشتراکیت اور اس طرح کے دعوئوں کی وہی حیثیت ہے جو دیو مالائی داستانوں اور عقیدوں کی ہے۔ اس لیے انھوں نے ان تمام دعوئوں کو عظیم بیانوں (meganarratives) کا نام دیا ہے ۔ جدیدیت کے مفکرین کا خیال ہے کہ انھوں نے بہت سی’سچائیاں‘تشکیل دی ہیں اور چاہے مذاہب ہوں یا جدید نظریات ، ان کی بنیاد کچھ خود ساختہ عالمی سچائیوں پر ہے، اس لیے جدیدیت کے دور کی تہذیب ، علم وغیرہ انھی مفروضہ سچائیوں پر استوار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان تشکیل شدہ سچائیوں کی رد تشکیل(deconstruction) کی جائے ،یعنی انھیں ڈھایا جائے۔ چنانچہ ادب، فنون لطیفہ، آرٹ، سماجی اصول وضابطے ہر جگہ ان کے نزدیک کچھ خود ساختہ سچائیاں اور عظیم بیانیے ہیں جن کی ردِّ تشکیل ضروری ہے تاکہ مابعد جدیدی ادب فنون لطیفہ وغیرہ میں ایسے ’غلط مفروضوں ‘ کا عمل دخل نہ ہو۔ جیساکہ مابعد جدیدیت کا ایک تجزیہ نگار لکھتا ہے:
ما بعد جدید مفکرین کا خیال ہے کہ ہماری طرح کے ایک آفاقی اور غیر مرکزی سماج میں خود بخودما بعد جدیدکی طرح کے رد عمل جنم لیتے ہیں۔ یعنی عظیم بیانات کے فکری استبداد کا استرداد، ساخت اور طرز کی وحدت کے روایتی سانچوں کی شکست و ریخت اور منطق کی مرکزیت اور اس طرح کے دیگر مصنوعی طور پر مسلّط کردہ نظاموں کو اٹھا کر پھینک دینے کا عمل۔۱۸؎
شاید بحث پیچیدہ اور فلسفیانہ ہوگئی ۔ لیکن چونکہ اس فکر کی بنیادیں فلسفیانہ ہیں اس لیے اس مختصر فلسفیانہ بحث کے بغیر اس نظریے پر کماحقہ روشنی نہیں ڈالی جاسکتی تھی۔
مابعد جدیدیت ایک دقیق فلسفیانہ بحث ہے ۔ لیکن اس کے پیش رو، جدیدیت کے افکا ر بھی ایسے ہی دقیق فلسفے تھے ۔ عام لوگ ان گہرے فلسفوں کا مطالعہ نہیں کرتے لیکن عملی زندگی میں ان کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ جدیدیت کے عروج کے زمانے میں بھی سب لوگ والٹیر اور روسو کی دقیق کتابیں نہیں پڑھتے تھے، لیکن آزادی ، مساوات، جمہوریت ، اپنے حقوق کا احساس، مساوات مردوزن ، روایات کے خلاف بغاوت اور عقل پر اصرار جیسی چیزیں عام آدمی کے رویوں کا بھی حصہ تھیں۔ ٹھیک اسی طرح ہمارے عہد میں بھی عام لوگ چاہے مابعد جدیدیت کی اصطلاحات اور بحثوں سے واقف نہ ہوں ، لیکن محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے اپنی عملی زندگی اور رویوں میں اس کے اثرات قبول کر رہے ہیں۔مسلمان اور بعض اوقات اسلام کے فروغ کے لیے کام کرنے والے بھی اس کے اثرات سے خود کو نہیں بچا پارہے ہیں۔
مابعد جدیدیت کا سب سے نمایاں اثر یہ ہے کہ افکار ، نظریات اور آئیڈیالوجی سے لوگوں کی دل چسپی نہایت کم ہوگئی ہے۔ عہد جدید کا انسان مخصوص افکار ونظریات سے وفاداری رکھتا تھا اور ان کی تبلیغ واشاعت کے لیے پرجوش و سرگرم رہتا تھا۔ مابعد جدید دور کے انسان کے نہ کوئی آدرش ہیں نہ اصول ۔ اس کے سامنے کسی بھی موضوع پر نظری بحث شروع کیجیے دامن جھاڑ کر اُٹھ جائے گا۔ اس لیے بعض مفکرین نے اس عہد کو’ عدم نظریہ کا عہد‘ Age of No Ideology قرار دیا ہے۔ ۱۹؎ اصول اور افکار کے مبسوط نظام (doctrine) کے بالمقابل مابعد جدید انسان کے پاس صرف جذبات واحساسات ہیں یا عملی مسائل (pragmatic issues)۔ مابعد جدیدیت کا کہنا ہے کہ زندگی کی تمام بحثیں ’مسئلہ‘ اور ’حل‘(problem and solution)تک محدود کی جاسکتی ہیں۔ اس لیے اصولوں اور نظریوں کے بجاے ایک ایک مسئلے کو الگ الگ لیا جانا چاہیے اور اس کے حل پر بات ہونی چاہیے۔ چنانچہ مابعد جدیدی انسان کی بحث وگفت گو کا سارا زور یا تو روز مرہ کے عملی مسائل پر ہے یا روابط و تعلقات کی جذباتیت پر ۔ مختلف فیہ اورمتنازعہ فیہ مسائل میں وہ باہم متضاد خیالات میں سے ہر خیال کو بیک وقت درست سمجھتا ہے، ان کی تنقیح اور درست فیصلے سے اسے کوئی دل چسپی نہیں ۔
مذہبی معاملات میں وحدت ادیان کا نظریہ بہت قدیم ہے۔ مابعد جدیدیت نے اس طرزِ فکر کو تقویت دی ہے۔ اب دنیا بھر میں لوگ بیک وقت سارے مذاہب کو سچ ماننے کے لیے تیار ہیں۔ اور بین المذاہب مکالمات ومباحث سے لوگوں کی دل چسپی روبہ زوال ہے ۔ جبکہ دوسری طرف الحاد ومذہب بیزاری کی شدت بھی ختم ہورہی ہے۔ چونکہ الحاد بھی ایک’دین ‘یا ایک ’دعویٰ‘ ہے، اس لیے مابعد جدید انسان اسے بھی ایک مسلک کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے اس عہد کو لادینیت کے خاتمے کا عہد (Age of Desecularisation) بھی کہا جاتا ہے۔۲۰؎ ایک شخص خدا پر یقین نہ رکھتے ہوئے بھی روحانی سکون کی تلاش میں کسی مذہبی پیشوا سے رجوع کرسکتا ہے ۔ا ور آج اسے کسی ہندو بابا کے ہاں سکون ملتا ہے تو کل کوئی عیسائی راہب اسے مطمئن کرسکتا ہے۔ یہ ما بعد جدیدیت ہے۔
قدروں کی اضافیت کے نظریے نے سماجی اداروں اور انضباطی عوامل (Regulating Factors)کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ خاندانی نظام اور شادی بیاہ کے بندھنوں کا انکار ہے نہ اقرار۔ عفت، ازدواجی وفاداری اور شادی کے بندھن مابعد جدیدیوں کے ہاں ’عظیم بیانات‘ ہیں۔ اسی طرح جنسوں کی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ رول کو بھی وہ آفاقی نہیں مانتے ۔ نہ صرف مرد عورت کے درمیان تقسیم کارکے روایتی فارمولوںکے وہ منکر ہیں، بلکہ جنسی زندگی میں بھی مرد اورعورت کے جوڑے کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ شادی مرد اور عورت کے درمیان بھی ہوسکتی ہے ، اور مرد مرد اور عورت عورت کے درمیان بھی، کوئی چاہے تو اپنے آپ سے بھی کر سکتا ہے۔ مرد اور عورت شادی کے بغیر ایک ساتھ رہنا پسند کریں تو اس پر بھی کوئی اعترض نہیں ہے۔ ایک ساتھ بھی نہیں رہنا ہے تو صرف تکمیل خواہش کا معاہدہ ہوسکتا ہے۔یہ سب ذاتی پسند اور ذوق کی بات ہے ۔ فیشن ، لباس، طرز زندگی ہر معاملے میںکوئی بھی ضابطہ بندی گوارا نہیں ہے ۔ مرد بال بڑھاسکتا ہے ، چوٹی رکھ سکتا ہے، اسکرٹ پہن سکتا ہے، زنانہ نام رکھ سکتا ہے، کسی بھی رنگ اور ڈیزائن کا لباس پہن سکتا ہے ۔ سوسائٹی کو کسی بھی رویے کو ناپسند کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی مادر زاد برہنہ رہنا چاہے تو سوسائٹی اس پر بھی معترض نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ بعض مابعد جدیدی، لباس کو آفاقی ضرورت قرار دینے پر معترض ہیں۔ آدمی اگر موسم اور اپنے ذوق کی مناسبت سے کوئی لباس پسند کرنا چاہے تو کرے اور اگرعریاں رہنا چاہے تو انسانی جسم سے بڑھ کر خوبصورت لباس اور کیا ہوسکتا ہے؟ وہ عریانیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اس طرز زندگی کے فروغ کے لیے ویب سائٹس ، ہیلپ لائینیں، ڈسکشن فورمز اورنہ جانے کیا کیا ہیں۔
سیاسی محاذ پر مابعد جدیدی، قوموں کے وجود اور قوم پرستی کے منکر ہیں۔ ان کے نزدیک قوم، قومی مفاد، قومی تفاخر، قومی کردار، قومی فرائض ، یہ سب ’عظیم بیانات‘ ہیں۔ ان کا نقطۂ نظریہ ہے کہ ضرورت اور مفاد کے مطابق افراد کسی بھی قسم کے دوسرے افراد سے تعامل کرتے ہیں اور اس طرح گروہوں کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہ تشکیل ضروری نہیں کہ قوم اور نسل کی بنیادوں پر ہو۔ قوموں کے اقتدارِ اعلیٰ کا تصور بھی ان کے نزدیک ’عظیم بیان‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد جدیدی سماج میں ایک طرف گلوبلائزیشن کے عمل کے نتیجے میں ریاست کے اقتدار اعلیٰ کو عالمی معاشی قوتوں کے تابع کر دیا گیا اور دوسری طرف مقامی معاشروں کے مفادات کو بھی ریاست کے اقتدار اعلیٰ پر فوقیت اور بالا تری دے دی گئی ۔اگر کوئی علاقہ، قبیلہ یا گروہ ریاست کے اقتدار سے خوش نہیں تو ریاست کو اس پر زبردستی کا کوئی حق نہیں۔۲۱؎
اس طرح پالیسی کی سطح پر ’ترقی‘ ٹکنالوجی وغیرہ جیسے تصورات کو چیلنج کیا گیا۔مابعدجدیدی ترقی کے ’یکساں فارمولے‘ کے مخالف ہیں۔یہ بات کہ جدیدشہروں کی شان وشوکت اور ٹکنالوجی پر مبنی تعیشات پس ماندہ علاقوں کی منزل اور ان کی کاوشوں کا ہدف ہونا چاہیے ، اب مسلمہ نہیں رہی۔ مابعد جدید تحریکوں نے دیہی زندگی اور روایتی معاشروں کی افادیت بھی اجاگر کی۔ اگر آدی باسی اپنے قبائلی طرزِ زندگی سے مطمئن اور خوش ہیں تو کوئی ضروری نہیں کہ انھیں جدید شہری ترقی کے لیے مجبور کیاجائے۔ ان کے نزدیک جنگل کی آزاد فضا ہی سچائی ہے۔ دیہی لوگوں کو ان کی زمین سے ہٹاکر وہاں نئی صنعتیں قائم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ، خواہ اس کے بدلے میں ان کو زیادہ آرام دہ زندگی ہی کیوںنہ میسر آئے۔ مابعد جدید پالیسی کا حاصل یہ ہے کہ ہر فرد کو اس کی مرضی اور پسندکی زندگی گزارنے کی آزادی دی جانی چاہیے اور تعلیم، سائنس، ٹکنالوجی، ترقی اورنہ تعیشات، کوئی بھی چیز اس پر مسلط نہیں کی جانی چاہیے۔
آرٹ اور فنون لطیفہ میں وہ ہر طرح کے نظم اور پابندی کے خلاف ہیں۔ جدیدیت نے ان محاذوں پر جو اصول تشکیل دیے تھے ، مابعد جدیدی ان کی رد تشکیل کرنا چاہتے ہیں۔ گوپی چند نارنگ کے الفاظ میں: ’’ہر طرح کی نظریاتی ادّعائیت سے گریز اورتخلیقی آزادی پر اصرار مابعد جدیدیت ہے‘‘۔۲۲؎ مابعد جدیدی کہتے ہیں کہ ادب اور فنون لطیفہ حقیقت کی ترجمانی کے لیے نہیں بلکہ حقیقت کی تخلیق کے لیے ہیں۔ اس لیے وہ آرٹ کو ہر طرح کے ادبی، سیاسی اور مذہبی دعوئوں سے آزاد کرانا چاہتے ہیں ۔
اس طرح مابعد جدیدیت کی تحریک نے سوسائٹی میںہر جگہ مقتدرہ افسرشاہی اور ضابطوں اور اصولوں کی سخت گیری کو چیلنج کیا۔ نظامِ مراتب (hierarchy) کے مقابلے میں انار کی ، بندشوں کے مقابلہ میںآزادی ، اختیارات کی مرکزیت (centralisation) کے مقابلہ میں غیر مرکزیت (decentralisation) اور ضابطے اور اصول کے مقابلے میں انفرادی پسند اور آزادی کا احترام وغیرہ اس تحریک کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ اس صورت حال نے منظم ہمہ گیر تحریکوں کے مقابلے میں ایشوز پر مبنی وقتی اور موضوعاتی تحریکیں ، سخت گیر بیوروکریٹک انتظام کے مقابلے میں ڈھیلی ڈھالی قیادت وغیرہ کی کیفیتیں پیدا کیں۔عملی زندگی کے مختلف معاملات میں مابعد جدیدی ہر طرح کی روایت، اصول اور ضوابط کی عالم گیری کے خلاف ہیں اور ذاتی پسند وناپسند کو اہمیت دیتے ہیں ۔ طرزہاے زندگی سے متعلق معاملات میں ذاتی پسند افراد کی ہوتی ہے ۔ اس کو منضبط کرنے کا معاشرے کو کوئی حق نہیں ہے اور اجتماعی معاملات میںپسند و ناپسند قبیلوں، آبادیوں، تنظیموں یا کسی بھی اجتماعی گروہ کی ہوسکتی ہے ۔ اس پر کنٹرول کرنے کا کسی عالمی یا قومی ادارے کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔(جاری)
۱؎ Nasr Seyyed Hossein (1993) A Young Muslim's Guide to the Modern World Cambridge :Cambridge University Press p.156
۲؎ بیکن کے افکار کے مطالعہ کے لیے دیکھیے اس کی کتاب:
Bacon Francis (1863) Novum Organum Tr. James Spedding, Robert Leslie Ellis, and Douglas Denon Heath, Boston : laggard and Thompson [As available in online library http://www.constitution.org/bacon/textnote.htm]
۳؎ ڈیکارٹ کے خیالات کے لیے دیکھیے:
Descartes Rene (1983) Principles of Philosophy Trans. V. R. Miller and R. P. Miller. Dordrecht: D. Reidel
۴؎ تھامس ہوبس کے افکار کی تفصیل کے لیے دیکھیے اس کی کتاب :
Hobbes Thomas (2007) Leviathan online available at eBooks@Adelaide, http://etext.library. adelaide. edu.au/h/hobbes/thomas/h681/. updated Mon Mar 12 20:24:47 2007
۵؎ Electronic Library http://elab.eserver.org/hfI0242.html
۶؎ والٹییر کے خیالات کے لیے ملاحظہ فرمائیے:
Voltaire Francois (1961) Philosophical Letters Translated by Ernest N. Dilworth, New York: Macmillan
۷؎ مانٹیسکیو کے نظریات کے لیے ملاحظہ کیجیے:
Montesquieu Baron de (1914), Secondat, Charles de, The Spirit of Laws Tr. by Thomas Nugent, London : G. Bell & Sons [As available at http://www.constitution.org/cm/sol.htm]
۸؎ روسو کے تصورات کے لیے دیکھیے:
Rosseau Jean-Jacques (2004) Emile Tr. By Barbara Foxley online available at http://www.gutenberg.org/etext/5427
۹؎ آدم اسمتھ کی معاشی فکر کے مطالعہ کے لیے دیکھیے اس کی کتاب:
Smith Adam (2007) An Inquiry into the Nature and Causes of the Wealth of Nations online available at http://metalibri.incubadora.fapesp.br/ portal/authors/ AnInquiryIntoTheNatureAndCausesOf TheWealthOfNations#books
۱۰؎ مارکسی فکر کے لیے کمیونسٹ مینی فیسٹو سب سے مستند سر چشمہ مانا جاتا ہے۔
Marx Karl and Engels Frederick(2006) The Communist Manifesto available at:
http://www.anu.edu. au/polsci/marx/classics/manifesto.html
۱۱؎ اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھیے:
Bauman, Zygmunt (2000) Liquid Modernity. Cambridge: Polity Press.
۱۲؎ Lyotard, J.-F.(1984) The Postmodern Condition: A Report on Knowledge, Geoff Bennington and Brian Massumi (trans.), Minneapolis: University of Minnesota Press p.xxiv
۱۳؎ Anderson, Walter Truett (1995) The Truth About Truth: De-confusing and Re-constructing the Postmodern World. New York: Penguin p 239-44.
۱۴؎ حوالہ سابق ، ص۱۱۱
۱۵؎ Lyonard, J.-F (1984) The Postmodern Condition: A Report on Knowledge, Geoff Bennington and Brian Massumi (trans.), Minneapolis: University of Minnesota Press p. 8
۱۶؎ حوالہ سابق p. xxiii
۱۷؎ Sardar, Ziauddin (1998) Postmodernism and the Other, the New Imperialism of Western Culture, London: Pluto Press p. 23
۱۸؎ Charles Upton (2001) The System of Antichrist Truth & Falsehood in Postmodernism & the New Age Sophia: Perennis p.45
۱۹؎ Stephens Mitchel (2007) We are all Postmodern ـNow, at journalism.nyu.edu/faculty/files/ stephens- postmodern.pdf
۲۰؎ لادینیت کے خاتمہ کی بحث کے لیے دیکھیے ایک دل چسپ کتاب:
Peter L. Berger (1999) The Desecularization of the World, Resurgent Religion and World Politics; Michigan: William B. Eerdmans Publishing Co.
۲۱؎ Anderson Walter Truett (1991) Postmodern Politics in 'In Context'#30 (Reclaiming Politics) Fall/Winter 1991, Langley p.32
۲۲؎ گوپی چند نارنگ، (۲۰۰۴ئ) ساختیات ، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، نئی دہلی: قومی کونسل براے فروغ اردو زبان ، ص ۵۳۰