سماجی زندگی میں تعلیم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ تعلیم فرد کے تصورِ زندگی کو مثبت بنیادوں پر تعمیر اورانسانیت کو بلندیوں سے ہم کنار کرتی ہے، اور پھر تعلیم ہی کے ہاتھوں ایک اچھا بھلا انسان، خاصا مختلف بلکہ انسانیت کُش رویوں کا نمونہ بن جاتا ہے۔ اس مفروضے کی بنیادیں بڑی گہری اور وسیع ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیں کہ اسی معاشرے میں، انھی گلیوں اور دیہات میں بیک وقت پروان چڑھنے والے وہ بچے جنھیں عام مدارس اور اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور وہ بچے جنھیں اعلیٰ طبقاتی اور عیسائی مشنری تعلیمی اداروں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے کے مواقع میسر آتے ہیں، فی الحقیقت دو مختلف دنیائوں کی نمایندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس چیز کا اصل سبب تعلیم و تربیت، ماحول اور اس سے بڑھ کر تصورِ زندگی ہے۔
آج کے پاکستان میں، بجاے اس کے کہ زبوں حالی کے شکار قومی نظامِ تعلیم کو درست بنیادوں پر تعمیر کیا جاتا اور اس میں پائی جانے والی خامیوں کا ازالہ کیا جاتا، اہلِ اقتدار نے اس قومی نظامِ تعلیم کو تباہی کے بھنور میں دھکیل کر، برطانیہ کی سرزمین سے دوسرے درجے کا نظامِ تعلیم ایک برتر نظام کے طور پر متعارف کرانے کا راستہ منتخب کیا۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجے کے لیے جی سی ایس ای (GCSE) نظام ہے، جب کہ ہم جیسے کالے انگریزوں کے لیے وہاں کی ایک یونی ورسٹی نے جی سی ای (GCE) نظام دیا ہے، جسے برطانیہ میں تو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ اس نظامِ تعلیم کے دریچے ’او‘ لیول اور ’اے‘ لیول ہیں، جو ہمارے ہاں حکمرانی، شائستگی، علم اور معیارِ معاشرت کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔
گذشتہ دو برسوں کے دوران میں قومی نظام تعلیم میں بالخصوص اسلامیات کے نصاب کو فوجی حکمرانوں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور بار بار یہ فرمایا کہ: ’’اسلامیات کے نصاب میں تاریخ اور اختلاف کی چیزیں نہیں ہونی چاہییں، بلکہ اس کی جگہ معاملاتِ زندگی سے متعلق دینی ہدایات پڑھائی جانی چاہییں‘‘۔
اس پروپیگنڈے کے زور پر قومی نصابِ تعلیم کی کافی ’تطہیر‘ کی گئی اور بہت سے بنیادی دینی اور تاریخی حقائق کو قلم زد کرکے نصاب سے خارج کردیا گیا۔ اس مقصد کے لیے ایس ڈی پی آئی (Sustainable Development Policy Institute) کی رپورٹ کو ’فتویٰ دانش‘ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ انھی مغرب پرست حکمرانوں نے خود مغرب کے پروردہ نظام جی سی ای یا ’او‘ لیول میں اسلامیات کی جس کتاب کو متعارف کرایا ہے، وہ حددرجہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو پروان چڑھانے کا سامان مہیا کرتی ہے۔
اس کتاب کا نام ہے Islamiat for Students۔ فرخندہ نورمحمد اس کی مؤلفہ ہیں اور اسے فیروز سنز، لمیٹڈلاہور نے ۲۰۰۸ء میں پانچویں اڈیشن کی شکل میں شائع کیا ہے۔ یہ کتاب ’او‘لیول کے پاکستانی بچوں اور بچیوں کو اسلامیات کا فہم عطا کرنے کا ذریعہ قرار دی گئی ہے۔ اس میں فنی اعتبار سے جو کوتاہیاں موجود ہیں، سردست وہ زیربحث نہیں ہیں۔
اس مختصر تحریر کا مقصد اس پہلو کی جانب توجہ دلانا ہے کہ یہ کتاب درحقیقت، خود مسلمانوں کے مابین فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ بن جائے گی۔خلافت، امامت، دورِ صحابہ اور تدوین حدیث کے اختلافات کو جس غیر دانش مندانہ، غیرحکیمانہ اور حددرجہ غیرمحتاط انداز سے بیان کیا گیا ہے، وہ ۱۳برس کے بچوں کے لیے کلاس روم کی فضا کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ، خود پڑھانے والے اساتذہ کے لیے آزمایش اور ہر دو مکاتب فکر کے بچوں کے مابین محبت و یگانگت اور دینی بھائی چارے کی فضا کو بھی ضعف پہنچانے کا ذریعہ بنیں گے۔ اس تدریسی مواد کی فراہمی کسی مکتب ِفکر کی کاوش کا نتیجہ نہیں ہے، لیکن فضا کی خرابی میں چاروناچار مذہبی افراد کو وہ بوجھ اٹھانا پڑے گا، جس کے ذمہ دار وہ نہیں ہیں۔
دراصل ایک مخصوص طبقہ اس نوعیت کی کاری گری کے ذریعے ان راہوں کو کشادہ کرتا ہے، جن پر براہِ راست چل کر حملہ آور ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کتاب کے مندرجات میں یہی اہتمام بہ کمال کیا گیا ہے کہ اسلامیات کے مضمون سے جان چھڑانے کا طریقہ یہی ہے کہ اسے متنازع بنادیا جائے، اور پھر کہا جائے کہ: ’’جب بھی اسلام پر بات ہوگی تو لوگوں کے درمیان دُوریاں بڑھیں گی،اس لیے اس مضمون ہی کو ختم کردیا جائے‘‘۔ یہ ماڈل مغرب نے بالعموم اور امریکا نے بالخصوص مسلم دنیا میں بڑی کامیابی سے آزمایا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں، جہاں مختلف مکاتب فکر ایک مضبوط تشخص کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، وہاں پر حکمت اور دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ کم از کم تعلیمی اداروں میں اشتعال پھیلانے اور بچوں کے دلوں کو مذہبی سطح پر زخمی کرنے کی حماقت نہ کی جائے۔ ایمانیات، تاریخ اور معاملاتِ زندگی کے ایسے متناسب نصاب کو کلاس روم میں پیش کیا جائے کہ استاد، طالب علم اور والدین میں سے کسی کے لیے بھی نصابی متن باعثِ آزار نہ بنے۔
اس نوعیت کی ایک بڑی کامیاب کاوش مدیر ترجمان القرآن پروفیسر خورشید احمد نے چھٹے عشرے میں کی تھی۔ انھوں نے کراچی یونی ورسٹی کے بی اے، بی ایس سی اور بی کام کے طلبہ و طالبات کے لیے اسلامی نظریۂ حیات کے نام سے ایسی درسی و علمی کتاب مرتب کرکے متلاشیانِ حق کے سامنے پیش کی تھی، جسے تمام مکاتب ِفکر کے جید علما کے رشحاتِ قلم سے سجایا گیا تھا۔ تمام مکاتب ِفکر اسے اپنا موقف سمجھتے تھے اور تمام مکاتبِ فکر کے طالب علموں کے لیے اس میں اسلامی نظامِ زندگی کے سرچشموں کے بارے میں رہنمائی موجود تھی۔ کراچی یونی ورسٹی کی اس پیش کش کو آج بھی ایک زندہ درسی کتاب کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔
آج کی ضرورت یہ ہے کہ ’او‘ لیول اور ’اے‘ لیول کے لیے بھی اسی انداز کی معیاری کتب تیار کی جائیں اور حکومت زیرنظر کتاب کا فی الفور جائزے کا اہتمام کرے، اور اسے تبدیل کرے۔