بجٹ ایک ملک کے مالیاتی میزانیے سے کہیں زیادہ پہلوؤں کا حامل ہوتا ہے۔ بلاشبہہ اولین حیثیت سے یہ حکومت کی سالانہ آمدنی اور اخراجات کا آئینہ ہی ہوتا ہے لیکن اس سے زیادہ یہ حکومت کی معاشی اور مالیاتی پالیسی، اہداف اور ترجیحات کا عکاس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ملک کے بجٹ کا جائزہ لیتے وقت مالی حساب کاری کے ساتھ معاشی پالیسی، اس کی سمت اور اس صلاحیت کا تعین بھی ضروری ہے کہ کہاں تک اس میں حالات کے صحیح ادراک اور ان کی اصلاح کے لیے مناسب اقدام کا اہتمام کیا گیا ہے۔
ہمیں احساس ہے کہ مخلوط حکومت نے معاشی اعتبار سے بڑے نامساعد حالات میں زمامِ کار سنبھالی ہے اور اسے بجٹ سازی کے لیے مہلت بھی خاصی کم ملی ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف اور ان کی معاشی ٹیم نے آٹھ سال سے زیادہ جو کچھ ملک کی معیشت کے ساتھ کیا اس کے نتائج تو ۲۰۰۶ء ہی سے رونما ہونا شروع ہوگئے تھے لیکن ۰۸-۲۰۰۷ء میں ان کے دعووں کی قلعی بالکل کھل گئی اور جن مفروضوں پر معاشی ترقی کا ڈھول پیٹا جا رہا تھا وہ ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہوگئے۔ ہم نے اور دوسرے ماہرین معیشت نے بار بار اس طرف توجہ دلائی کہ قوم کے سامنے صحیح اعداد وشمار پیش نہیں کیے جارہے، غربت میں کمی کے دعوے حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ سالانہ ترقی کے ۷ اور ۸ فی صد کے دعوے اور اس رفتار کو جاری رکھنے کی باتیں درست نہیں اس لیے کہ ملک میں زراعت اور صنعت کے شعبے روبہ ترقی نہیں اور محض خدمات کے شعبے اور نودولتیوں کے صَرف (consumption) کے سہارے ترقی کبھی دیرپا نہیں ہوتی۔ بنیادی طور پر معاشی حالات بگاڑ کی طرف جارہے تھے اور حکومت کے ذمہ دار اور اس کے نشریاتی ادارے قوم کو گمراہ کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف تھے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ سالِ رواں میں ۷ فی صد سے زیادہ شرح ترقی کے ہدف کے مقابلے میں ترقی کی شرح صرف ۸ئ۵ فی صد رہی ہے۔ اس کا ۷۵ فی صد خدمات کے شعبے کا مرہونِ منت ہے۔ زراعت میں ۵ئ۴ فی صد کے ہدف کے مقابلے میں اضافہ صرف ۵ئ۱ فی صد تھا اور وہ بھی لائیوسٹاک کی وجہ سے جس کا حصہ زراعت میں ۵۲ فی صد ہے۔ اہم فصلوں کی پیداوار میں ۳ فی صد کمی واقع ہوئی اور ملک میں خوردونوش کی اشیا کی قلت اور مہنگائی دونوں نہ صرف رونما ہوئے بلکہ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا دوبھر ہوگیا اور کم آمدنی والے خاندان فقروفاقہ کا شکار ہونے لگے اور نوبت خودکشیوں اور اولاد فروشی تک جاپہنچی۔
اس کے باوجود حکومت کی شاہ خرچیوں میں اضافہ ہوتا رہا، بجٹ کا خسارہ ۵۰۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہوگیا، درآمدات بڑھتی گئیں اور برآمدات میں متناسب اضافہ نہ ہوسکا جس کے نتیجے میں تجارت کا خسارہ ۱۸ ارب ڈالر اور ادایگیوں کا خسارہ ۱۱ ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور ملکی اور بیرونی قرضوں کا بار اور بھی بڑھ گیا۔ دعوے تھے کشکول توڑنے کے مگر ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں ۰۸-۲۰۰۷ء میں بیرونی قرضے ۳۴ ارب ڈالر سے بڑھ کر ۴۵ ارب ڈالر تک پہنچ گئے اور اندرون ملک حاصل کیے جانے والے قرضوں میں ان آٹھ سالوں میں دو ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ افراطِ زر کا حال یہ ہے کہ جولائی ۲۰۰۷ء میں اس کی شرح ۴ئ۶ فی صد تھی جو اپریل ۲۰۰۸ء میں بڑھ کر ۲ئ۱۷ فی صد ہوگئی ہے اور اگر خوراک کی اشیا کا انڈکس لیا جائے تو اضافہ ۵ئ۸ سے بڑھ کر ۵ئ۲۵ فی صد ہوگیا ہے۔ حکومت اسٹیٹ بنک سے آنکھیں بند کر کے بگ ٹٹ قرضے لیتی رہی ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں کرنسی کی گردش کی رفتار میں ۱۹ فی صد سالانہ سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے___ اشیا کی قلت، عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں اضافہ، قرضوں کی بھرمار، زیر گردش کرنسی میں محیرالعقول بڑھوتری ___ اگر افراطِ زر کا طوفان اُمنڈ نہ آئے تو کیا ہو؟
ہمیں احساس ہے کہ موجودہ حکومت کو یہ مسائل اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ ورثے میں ملے ہیں مگر ایسا نہیں کہ یہ عالمی رجحانات اور خود ملک میں ۲۰۰۷ء میں رونما ہونے والے حالات اور ۲۰۰۸ء پر ان کے اثرات پردئہ غیب میں تھے۔ سیاسی جماعتوں کو ان کا ادراک ہونا چاہیے تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں بنیادی تیاری (home work) کی قائل نہیں۔ برسرِاقتدار جماعتوں میں سے کسی کے پاس بھی سیاسی نعروں کے سوا کوئی ٹھوس منصوبۂ عمل نہیں۔ ۰۹-۲۰۰۸ء کا بجٹ چند نمایشی چیزوں کے سوا اسی طرز پر بنایا گیا ہے جس پر اس سے پہلے کے بجٹ بنتے رہے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ بنانے والا ذہن وہی ذہن ہے اور محض بے نظیرکارڈ کے ذریعے بجٹ کو عوامی بنانے کی کوشش مسائل کا حل نہیں۔
سب سے پہلی ضرورت ملک میں معاشی پالیسی سازی کو بیرونی اداروں اور عالمی نظام کی زنجیروں میں گرفتار ذہن سے نجات دلانا ہے۔ موجودہ بجٹ کی بنیادی خامی یہ ہے کہ اس کے پیچھے مستقبل کا کوئی وژن نہیں۔ سارا اعدادوشمار کا گورکھ دھندا ہے کہ جمع تفریق کا تھوڑا سا کھیل کھیل کر اپنے کو دھوکا دینے اور دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کبھی اسے ترقی کا حامی (pro-growth ) کہا جارہا ہے اور کبھی غریبوں کا حامی (pro-poor) ___ حالانکہ نہ اس کے پیچھے ترقی کی کوئی قابلِ فہم حکمت عملی ہے اور نہ غربت کے خاتمے کا کوئی سوچا سمجھا دیرپا منصوبۂ عمل۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ معیشت میں حکومت کے کردار کے بارے میں ایک واضح پالیسی کے بغیر کوئی بڑی معاشی پیش رفت ممکن نہیں۔ جنرل ایوب کے زمانے میں سرمایہ دارانہ نظام کو ترقی کی بنیاد بنایا گیا اور غربت میں اضافے، معاشی ناہمواریوں میں ناقابلِ برداشت بڑھوتری اور علاقائی عدم توازن کے عفریت نے ملک و قوم کو اپنی گرفت میں لے لیا اور مشرقی اور مغربی پاکستان میں ایک ایسی آویزش نے جنم لیا جو دوسرے عوامل کے ساتھ مل کر ملک کو دولخت کرنے پر منتج ہوئی۔ پیپلزپارٹی نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۷ء تک قومی ملکیت اور حکومت کی مداخلت کی حکمت عملی اختیار کی مگر عملاً معیشت کو سیاست دانوں کی سیاست کاری، وقتی مصالح اور بیوروکریسی کی چیرہ دستیوں کی گرفت میں دے دیا۔ بدقسمتی سے آج پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)، دونوں ہی اپنے اپنے انداز میں پالیسیوں کے تسلسل کی باتیں کررہے ہیں حالانکہ وقت کا تقاضا بنیادی تبدیلی کا ہے، اور یہی اس بجٹ کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اس کے نتیجے میں حالات میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوسکے گی اور عوام کی مشکلات اور مایوسیوں میں اضافے کے خطرات ہی اُفق پر منڈلا رہے ہیں۔
جب تک آزاد پاکستانی اور مسلمان ذہن سے حالات کا جائزہ لینے کا اہتمام نہیں ہوتا اور پالیسی کا نیا فریم ورک قومی مقاصد و اہداف، ملک کی خودانحصاری ، دیرپا ترقی (sustainable develpment) اور عوام کی فلاح اور خوش حالی کو مرکزی اہمیت حاصل نہیں ہوتی، نیز محض مالیاتی نہیں بلکہ پیداواری عمل جس میں زراعت اور صنعت کا مرکزی کردار ہو، ترقی کا محور نہیں بنایا جاتا، معیشت کا قبلہ درست نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ بجٹ اور سالانہ منصوبہ بندی کا پورا نقشۂ کار صحیح قومی ترجیحات کا آئینہ دار ہو اور صرف بجٹ ہی نہیں سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام اور نجی شعبے کے لیے دائرۂ کار، محرکات اور مواقع کا ہمہ گیر نظام وضع کیا جائے، ورنہ ہم ماضی کی طرح ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔ اس بجٹ میں ان معاملات کا کوئی ادراک نظر نہیں آتا۔
تیسری بڑی بنیادی بات یہ ہے کہ بالکل واضح طور پر معیشت میں ریاست کے کردار کو صحیح طور پر متعین کیا جائے۔ نہ سوشلسٹ نعروں کے تحت قومی ملکیت اور معیشت کو سرکاری اداروں اور سیاسی عناصر اور بیوروکریسی کے تابع کرنا صحیح طریقہ ہے اور نہ ہرچیز کو مارکیٹ پر چھوڑ دینا، نج کاری کے نام پر ملک کے کمزور طبقوں کو امیروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا اور عالم گیریت اور آزاد روی (liberalization) کی ستم کاریوں کا نشانہ بن جانے اور ملکی منڈیوں کو عالمی ساہوکاروں اور لٹیروں کے لیے کھول دینے کا۔ یہ قومی مقاصد کے حصول، عوام کی خوش حالی اور دیرپا ترقی کے حصول کا راستہ نہیں۔ ستم ہے کہ جو افراد ابھی کل تک بائیں بازو کے گل ہاے سرسبد مانے جاتے تھے وہ اب مارکیٹ اکانومی، نج کاری اور لبرلائی زیشن کے راگ الاپ رہے ہیں۔بلاشبہہ ایسا سرکاری شعبہ جو سیاسی مصالح کے تابع ہو اور جسے بیوروکریٹس چلائیں،نامطلوب ہے لیکن صحیح خطوط پر ریاست اور حکومت کا ایک مثبت اور مؤثر کردار معاشی ترقی اور انصاف اور عوامی خوش حالی پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے۔ بجٹ اور حکومت کی پالیسیوں میں اس مسئلے کے ادراک کا فقدان ہے۔ آج بھی ساری پالیسی سازی انھی بنیادوں پر ہورہی ہے جن کی تباہ کاریوں کا نظارہ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے قوم کر رہی ہے۔
گذشتہ آٹھ سالہ معاشی حکمت عملی کی ایک اور بنیادی خامی یہ تھی کہ اس میں معیشت کا جو سب سے اہم حصہ ہے، یعنی اشیا کا پیداواری شعبہ (commodity producing sector) جس میں زراعت، چھوٹی صنعت اور بڑی صنعت مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، ان کا کردار معیشت میں برابر کم ہوا۔ ان کے لیے دیرپا اور مستحکم ترقی کی نہ کوئی پالیسی تھی اور نہ ان اداروں کو اہمیت دی گئی جو معیشت کے ان دائروں کی ترقی کے لیے ضروری تھے۔ اس مرکزی اہمیت کے شعبے کو تو نظرانداز کیا گیا اور ساری توجہ خدمات کے شعبے کی ترقی پر رہی، خصوصیت سے بنکاری، ٹیلی کمیونی کیشنز، انشورنس وغیرہ۔ بیرونی سرمایہ کاری بھی نج کاری اور تیل و گیس کی صنعت میں رہی یا پھر ان روزمرہ اشیاے صرف کی پیداوار کی طرف، جیسے دودھ اور برگر جو ملک کی پیداواری استعداد میں اضافے کا باعث نہیں ہوتے۔ اس نوعیت کی ترقی پوری معیشت کو متاثر نہیں کرتی بلکہ ترقی کے چند جزیرے وجود میں آجاتے ہیں جن کا رشتہ (linkage) پوری معیشت سے کمزور ہوتا ہے۔ اس نوعیت کی ترقی کا ماحصل یہ ہے کہ ہر ہاتھ میں سیل فون تو آجاتا ہے مگر ٹیلی فون بنانے کی ٹکنالوجی سے ملک محروم رہتا ہے اور اس کا انحصار باہر والوں پر بڑھتا رہتا ہے۔ نیز جلد ہی سرمایہ کا بہائو بھی باہر کی طرف ہوجاتا ہے کہ ایک طرف درآمدات بڑھتی ہیں اور دوسری طرف نفع ملک سے باہر جانے لگتا ہے۔
بنکاری کی صنعت نے بڑی ترقی کی ہے مگر آہستہ آہستہ ملک کا پورا بنکاری نظام ایک قومی بنک کو چھوڑ کر باہر کے بنکوں کی گرفت میں آرہا ہے۔ یہی حال مواصلات کا ہے۔ بنکوں کے کھاتے داروں کو جو سود ملتا ہے وہ شرح افراطِ زر سے کہیں کم ہے اور اس طرح وہ منفی return یعنی نقصان کا شکار ہیں لیکن Banking spread (سود کی وصولی اور ’منافع‘ کی ادایگی کی شرح میں فرق) بہت زیادہ ہونے کے باعث بنکوں کا منافع آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ بنکوں کا منافع ۲۰۰۳ء میں ۷ئ۴۳ ارب روپے تھا جو ۲۰۰۶ء میں بڑھ کر ۶ئ۱۲۳ ارب روپے ہوگیا ۔ بنکوں کے نفع پر ٹیکس اس زمانے میں ۶۰ فی صد سے کم ہوکر ۳۵ فی صد رہ گیا۔ سالِ رواں میں خدمات کے شعبے سے نفع کی مد میں ملک سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ منتقل کیے گئے۔ اگر اس اُلٹی گنگا کے بہائو میں سرمایہ کے فرار (flight of capital) کو شامل کرلیا جائے جو سیاسی وجوہ کے علاوہ اسٹاک ایکسچینج میں سٹہ بازوں کے کھیل کا نتیجہ ہے، تو یہ رقم ۳ارب ڈالر سے متجاوز ہوجاتی ہے۔ جب تک معاشی پالیسی کا مرکز اور محور تبدیل نہیں ہوتا اس وقت تک نمایشی تبدیلیاں تو ہوتی رہیں گی لیکن حقیقی معاشی ترقی اور خوش حالی خواب و خیال ہی رہیں گے۔
وقت کی اصل ضرورت ترجیحات کی تبدیلی ہے۔ نئے بجٹ میں زراعت کے لیے کچھ سہولتیں ضرور دی گئی ہیں مگر وہ نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ ایک واضح وژن اور مربوط (integrated) منصوبۂ عمل سے عاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی اثرانگیزی محدود رہے گی۔ زراعت کی زبوں حالی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ قومی دولت میں اس کا حصہ ۲۲ فی صد ہے، آبادی کے ۶۰ فی صد کو رزق اور روزگار اس سے فراہم کیا جا رہا ہے لیکن حالیہ بجٹ اور پی ایس ڈی پی میں اس کا حصہ جی ڈی پی کا صرف ۲ فی صد اور پی ایس ڈی پی کا صرف ۴فی صد ہے۔ سبسڈی ختم کرنے کی بات ہو رہی ہے مگر اس کے نتیجے میں پیداواری لاگت بڑھے گی اور ملک میں افراطِ زر میں مزیداضافہ ہوگا۔ ایک فی صد کے حساب سے سیلزٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ بھی ملک میں قیمتوں میں مزید اضافے کا باعث ہوگا۔ ان سب کے ساتھ اگر پانی، بیج، کھاد، ادویہ، قرض اور بجلی کی فراہمی کا حال دیکھا جائے جو ہراعتبار سے غیرتسلی بخش ہے تو زراعت میں نمایاں اضافہ مشکل نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ زراعت کے شعبے میں بڑی ناکامی ترسیل کے نظام (delivery system) میں ہے اور سب سے محروم طبقہ چھوٹا کاشتکار ہے جس کا حصہ پیداوار میں ۵۰ فی صد ہے لیکن وسائل کا ۵ فی صد بھی اسے مشکل سے میسر آتا ہے۔
دوسرے شعبے جو بری طرح بے توجہی کا شکاررہے ہیں، ان میں سرفہرست بجلی، گیس اور توانائی کا شعبہ ہے۔ اس کے ساتھ سڑکوں کی تعمیر، ریل کی ترقی اور ٹرانسپورٹ کا مؤثر ملک گیر اور بڑے شہروں کا اندرونی نظام وہ چیزیں ہیں جو مسلسل نظرانداز کی جاتی رہی ہیں۔ اب نوبت شہروں میں آٹھ آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تک آگئی ہے۔ بڑے ڈیم سیاست کی نذر ہیں اور توانائی کے متبادل ذرائع بشمول چھوٹے ڈیم، کوئلے سے تیار کی جانے والی بجلی، آبی، شمسی اور بائیوگیس سے فراہم کی جانے والی توانائی سب غفلت کا شکار ہیں۔ منصوبہ بندی کا شعبہ سب سے ناکام شعبوں میں سے ہے۔ ورلڈبنک کی ایک حالیہ رپورٹ کھلے الفاظ میں کہتی ہے کہ منصوبہ بندی کا پورا نظام نااہلیت (incompetence) کا شکار ہے۔ مالیاتی اعتبار سے کوئی منصوبہ ایسا نہیں جو اپنے بجٹ میں پورا ہوا ہو۔ اور جہاں تک پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے طے شدہ وقت کا سوال ہے تو ورلڈ بنک کے جائزے کی روشنی میں مختلف منصوبوں کی تکمیل میں تین سال سے ۲۰ سال تک کی تعویق واقع ہوئی ہے۔
تجارتی خسارہ، ادایگیوں کا خسارہ، بجٹ کا خسارہ تینوں اس حد تک پہنچ چکے ہیں جو معیشت کی صحت کے لیے خطرناک اور ملک کو دیوالیہ کرنے کی راہ پر دھکیلنے والے ہیں۔ قومی بچت کی سطح ترقی پذیر ممالک کے معیار پر بھی خطرناک حد تک کم ہے، یعنی ۱۳ فی صد، جب کہ دیرپا ترقی کے لیے ۲۵فی صد کی سطح بھی کمی کی خبر لاتی ہے۔ بھارت، چین اور بہت سے دوسرے ممالک ۳۰ سے ۴۰فی صد بچت کا ہدف حاصل کر رہے ہیں۔
پھر وہ شعبے جو معاشی ترقی اور انسانی خوش حالی کے لیے مرکزی اہمیت رکھتے ہیں، یعنی تعلیم، صحت اور گھر کی سہولت بری طرح وسائل کے قحط کا شکار ہیں۔ مرکزی بجٹ میں تعلیم کے لیے ۲۶ارب روپے اور صحت کے لیے ۵ئ۶ ارب روپے رکھے گئے ہیں جو تمام صوبوں کے اندر مختص رقوم کو جمع کر کے بھی جی ڈی پی کا بمشکل ۵ئ۲ (تعلیم و صحت) بنتے ہیں، جب کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی یہ شرح ۴ سے ۸ فی صد تک ہے۔ یہ تو صرف مالیات مختص کرنے کا حال ہے۔ اگر دیکھا جائے کہ میدان میں اصل حاصل کیا ہے، تو حالت اور بھی ناگفتہ بہ ہے۔ ایک حالیہ سروے کی رو سے ملک میں ۱۲ہزار ۵ سو اسکول ایسے ہیں جن کا عملاً کوئی وجود نہیں، یعنی نہ تو بلڈنگ ہے اور نہ اساتذہ!
اس بجٹ کا ایک نیا پہلو بے نظیر کارڈ کا اجرا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے ان ۷۰لاکھ گھرانوں کو جو انتہائی غربت کی حالت میں ہیں، ایک ہزار روپے ماہانہ کی نقد مدد کی جائے گی۔ اس کے لیے ۳۵ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اصولاً غریبوں کو روٹی اور صحت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے نقد مدد ایک اچھی اسکیم ہے لیکن زکوٰۃ اور بیت المال کے تجربات کی روشنی میں اس سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ اول تو رقم بہت کم ہے، یعنی کل ۳۵ ارب اور فی خاندان ایک ہزار روپے۔ ان سے ۷۰ کیا ۷ لاکھ خاندانوں کی مدد بھی محال ہے۔ پھر ہزار روپے میں ایک بے روزگار گھرانہ اپنی کون کون سی ضرورت پوری کرے گا؟ سب سے اہم سوال ضرورت مندوں کا صحیح تعین، ان تک مدد کی ترسیل کا شفاف نظام، اور اس پورے عمل کی نگرانی کا ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جن کا فقدان ہے۔ نادرا (NADRA)کے پاس جو معلومات ہیں وہ ان ضرورتوں کو سامنے رکھ کر حاصل نہیں کی گئی ہیں اور آبادی کا غریب ترین طبقہ نادرا کی خدمات سے محروم رہا ہے۔ یہ مسئلہ زیادہ گہرے غوروخوض اور مناسب منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔
پوری اسکیم کو ایک مربوط انداز میں ایک قومی سطح کی سوشل سیکورٹی اسکیم کا حصہ ہونا چاہیے۔ صرف وہ افراد جو روزگار اور محنت کے لائق نہ ہوں ان کو نقد مدد دی جانا چاہیے ،یعنی بچے (۱۰ سال تک)، بیوائیں جن کا کوئی سہارا نہ ہو، بوڑھے اور معذور افراد۔ باقی تمام افراد کے لیے روزگار کی فراہمی یا ایسے کاروبار کا انتظام جس کے ذریعے وہ خودکفیل ہوسکیں، اصل حل ہے۔ نیز تعلیم اور صحت کے لیے ایسی اجتماعی انشورنس کے نظام کا نفاذ جس میں ہرشخص خود بھی ایک حصہ دے اور اس کے علاوہ جس کاروبار یا ادارے میں وہ کام کرتا ہو وہ اور حکومت اپنا اپنا حصہ ادا کریں۔ اس میں بھی شبہہ ہے کہ ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ اور بجٹ میں خسارے کا جو اندازہ اس بجٹ میں دیا گیا ہے وہ ان حدود میں پورا ہوسکے گا جو متعین کی گئی ہیں یا نہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ مرکز اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم، اور ترقیاتی پروگرام کے بنانے اور ان کی تعمیل کرنے کی صلاحیت اور انتظامِ کار کا ہے۔ بجٹ اس سلسلے میں بھی خاموش ہے۔ جس ناانصافی اور غفلت کے نتیجے میں مرکز اور صوبوں میں بُعد اور بے اعتمادی رونما ہورہے ہیں ان سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ این ایف سی اوارڈ ۱۹۹۷ء کی بنیاد پر جاری ہے۔ ہائیڈل منافع اور گیس اور دوسری معدنیات کی رائلٹی کا مسئلہ معلق ہے۔ صوبے وسائل سے محروم ہیں اور مرکز ایک گلے سڑے نظام کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ یہ صورت حال فوری تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے۔
اس بجٹ اور ان معاشی پالیسیوں پر کاربند رہ کر ملک نہ دیرپا ترقی کرسکتا ہے، نہ ترقی کے ثمرات سے عوام فیض یاب ہوسکتے ہیں، نہ خودانحصاری کی طرف پیش رفت ہوسکتی ہے اور نہ مرکز اور صوبوں میں حقیقی تعاون اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہوسکتی ہے۔ وہی معاشی ترقی دیرپا اور خوش حالی کا ذریعہ بن سکتی ہے جو ملک و قوم کی اپنی اقدار اور اپنے عزائم کی روشنی میں بنے اور جس کا رخ بیرونی ساہوکاروں کو اپنے جسم سے گوشت کے ٹکڑے (pound of flesh) دینے کے بجاے اپنے وسائل سے اپنی قوم کو حق و انصاف کے مطابق عزت کی زندگی فراہم کرنا اور دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنا ہو۔ جب تک نقطۂ نظر تبدیل نہ ہو اور ترقی کا رخ درست نہ ہو، بہتر زندگی کی اُمید عبث ہے۔