جولائی ۲۰۰۸

فہرست مضامین

پیپلزپارٹی کادستوری تماشا! اب اس سے زیادہ گلشن کا شیرازہ پریشاں کیا ہوگا؟

پروفیسر خورشید احمد | جولائی ۲۰۰۸ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دستور کسی ملک کی سب سے اہم اور مقدس قانونی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ تمام اختیارات کا سرچشمہ اور ریاستی اداروں کے حدود کار، حکمرانی کے اصول و آداب اور خود قانون سازی اور پالیسی کے خطوط کار اور ان کی صورت گری کے دروبست کو متعین کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے قانون اساسی (fundamental law) کہا جاتا ہے اور اس میں ترمیم کو مشکل بنایا جاتا ہے بلکہ اب تویہ اصول بھی قبولِ عام حاصل کرچکا ہے کہ دستور کے بنیادی ڈھانچے اور ریاست کے کردار میں محض ترمیم دستور سے تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔اگر اس کی نوبت آئے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام سے استصواب کیا جائے تاکہ دستور کی تشکیل نو کے لیے وہ نئی دستورساز اسمبلی کی تشکیل کریں۔ وہ پارلیمنٹ جو ایک دستور کے تحت وجود میں آئی ہو اور خواہ اس دستور کے تحت وہ دستور میں ترمیم کا حق رکھتی ہو تب بھی وہ دستور کے مقاصد اور بنیادی ڈھانچے کے اندر رہ کر تو ترمیم کرسکتی ہے مگر خود ان بنیادوں کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ گویا ترمیم کا اختیار دو تہائی اکثریت کو بھی غیرمشروط اور لامتناہی (absolute and unlimited) نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور کے تحت اعلیٰ ترین عدالت اس قانون کو جو دستور سے متصادم ہو، خواہ اسے پارلیمنٹ نے منظور کیا ہو، غیردستوری (ultra vires of the constitution) قرار دے سکتی ہے اور دستور سے تصادم کی بنیاد پر ایسا قانون غیرمؤثر قرار دیا جاسکتا ہے۔

دستور کی اس اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے ان مجوزہ دستوری ترامیم کے جائزے کی ضرورت ہے جسے دستوری پیکج (constitutional package) کا نام دیا گیا ہے اور جو بظاہر عدلیہ کی آزادی اور بحالی اور دستور کے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحال کیے جانے کے لیے کی جارہی ہیں مگر فی الحقیقت دستور پر ایک نئے حملے کی شکل رکھتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ ان کو ان کی موجودہ شکل میں منظور کرلیا جاتا ہے تو اداروں اور اشخاص کے درمیان قائم کیا جانے والا تقسیم اختیارات اور توازنِ قوت کا پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور اس سے بھی زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ دستور اور اعلیٰ عدالتی نظام میں مخصوص افراد کو نوازنے اور کچھ کو پابند کرنے کے لیے فرد کی ضرورت کے تحت (person-specific) ترمیمات تجویز کی جارہی ہیں جن کے نتیجے میں یہ پورا عمل بُری طرح سیاست زدہ اور شخصی (personalize) ہوجاتا ہے۔ خطرہ ہے کہ اس سے وہ پنڈورا کا صندوق (pandora's box) کھلے گا جس سے نکلنے والے عفریت کو پھر قابو میں لانا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام نہاد دستوری پیکج دستور اور قانون پر گہری نظر رکھنے والوں نے نہیں بنایا بلکہ ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والوں نے اپنی پسند اور ناپسند کو دستور پر مسلط کرنے کے لیے دستور کی ۸۰ دفعات میں تراش خراش کی جسارت کی ہے۔ اس کا جہاں علمی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، وہیں اس سیاسی کھیل کے پردے کو بھی چاک کرنا ضروری ہے جو مخلوط حکومت کی سب سے بڑی پارٹی پیپلزپارٹی کی قیادت نے ملک و قوم کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی ہے۔

مینڈیٹ کا اصل تقاضا

ان دستوری سفارشات کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ اس بات کا تعین کرلیا جائے کہ ۲۰۰۷ء کے عدالتی بحران اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ کا اصل تقاضا کیا ہے اور اس سلسلے میں نئی حکومت کی اولین ذمہ داری کیا تھی۔ کیا یہ دستوری سفارشات اس ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ ہیں یا ان کے ذریعے کوئی نیا ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

سب سے پہلا مسئلہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو غیرقانونی طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی بحالی تھا جسے نئی حکومت کو برسرِاقتدار آتے ہی انجام دے دینا چاہیے تھا، مگر اس نے ایک متناقض موقف اختیار کرکے اصل تاریخی لمحے کو ضائع کردیا اور قوم کو ایک نئے سیاسی بحران میں مبتلا کردیا جس کے اثرات ملکی سیاست، انتظامِ حکومت، قانون کی حکمرانی اور معاشی مسائل کے مزید اُلجھ جانے کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف تو وزیراعظم صاحب نے قائد ایوان منتخب ہوتے ہی وزارتِ عظمیٰ کے حلف تک کے لینے سے پہلے ہی معزول ججوں کی رہائی کا حکم دے دیا اور ان کو رہا کر بھی دیا گیا لیکن دوسری طرف بار بار کے اس اعلان کے باوجود کہ جنرل پرویز مشرف کا ۳نومبر ۲۰۰۷ء کا اقدام غیرقانونی اور خلافِ دستور تھا، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے ان ججوں کو آج تک بحال نہیں کیا جو جائز جج ہیں اور ایک ناجائز (illegitimate) پی سی او کے تحت حلف لینے والے جج صاحبان آج بھی بلااختیار عدالت کا کاروبار چلا رہے ہیں اور اب کوشش کی جارہی ہے کہ حق دار اور بلاحق کام کرنے والوں کو ان ناروا دستوری ترامیم کے ذریعے برابری کے مقام پر لے آیا جائے۔ یہ ملک کے نظامِ عدل کو تہ و بالا کرنے کا مجرب نسخہ ہے اور جس کے دماغ کی بھی اختراع ہے اسے ملک و قوم کا مخلص قرار دینا مشکل ہے۔

اصل ضرورت صرف اتنی تھی کہ:

ا- ایک انتظامی حکم کے ذریعے ان ججوں کو جن کو ایک غیرقانونی حکم نامے کے ذریعے جبری طور پر معزول کیا گیا تھا ان کو اپنے اصل مقام پر بحال کیا جاتا اور جو غیرقانونی طور پر عہدوں پر فائز کرلیے گئے تھے انھیں کسی معقول طریقے سے فارغ ، یا ان کے ماقبل کے مقام پر بھیج دیا جاتا   یا زیادہ سے زیادہ کچھ کو ایڈہاک ججوں کے طور پر کچھ عرصے کے لیے رکھ لیا جاتا اور بالآخر انھیں فارغ کر دیا جاتا تاکہ ایک بھونڈے کام کو بھی سلیقے ہی سے انجام دیا جائے۔

ب- پارلیمنٹ ایک قرارداد کے ذریعے ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیرقانونی، خلافِ دستور، ناقابلِ قبول قرار دیتی اور وزیرعظم کو ہدایت دیتی کہ وہ خوش اسلوبی سے اس کے غلط اقدامات اور اثرات سے ملک کو پاک اور محفوظ کرنے کے لیے جملہ اقدام کریں۔

ج- ۳ نومبر کے اقدام کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جاتی، البتہ جو قوانین، فیصلے اور اقدام ہوچکے ہیں ان کے صرف ناگزیر پہلوئوں کو بہ اکراہ تحفظ دیتے ہوئے آیندہ کے لیے غیرمؤثر کیا جاتا اور متبادل جائز قانونی یا انتظامی احکام کے ذریعے جن چیزوں کو باقی رکھنا ضروری ہے انھیں باقی رکھا جائے۔

اس پورے کام کے لیے کسی دستوری ترمیم کی ضرورت نہ تھی۔ ملک کے چوٹی کے قانون دانوں اور دستور کے ماہروں کی یہی راے تھی اور ہم بھی اس راے کو صائب سمجھتے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے امریکا اور برطانیہ کی سفارت کاری کے ذریعے جو معاملات پیپلزپارٹی کی قیادت بالخصوص جناب آصف علی زرداری اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان طے ہوئے تھے اور جن کے نتیجے میں ایک آرڈی ننس کے ذریعے قومی مفاہمت کے نام پر لوٹ کھسوٹ اور سیاسی اور مالی بدعنوانیوں حتیٰ کہ فوجداری جرائم تک سے درگزر کر کے ان کے مرتکبین کو معافی اور فارغ خطی کا پروانہ دے دیا گیا تھا اور اس کا فائدہ اٹھانے والوں میں ہزاروں افراد تھے جن میں سب سے اہم پیپلزپارٹی کی قیادت کے نمایاں افراد اور ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکن تھے۔ ان کا پلڑا بھاری رہا ہے اور ان ہی کی مرضی آگے بڑھائی جارہی ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر یہ احساس بھی صحیح ہی معلوم ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت نے اصل مسئلے یعنی عدلیہ کی بحالی اور پرویز مشرف سے نجات کو تو پس پشت ڈال دیا ہے اور دستوری پیکج کے نام پر این آر او (قومی مصالحتی آرڈی ننس) کے تحفظ اور عدلیہ کو ایک ایسے شکنجے میں کسنے کا کھیل شروع کردیا ہے جس کے نتیجے میں عدلیہ کبھی بھی سیاسی قیادت کی گرفت سے باہر نہ نکل سکے اور جنرل پرویز مشرف کی صدارت اور این آر او کی ضمانت کو چیلنج نہ کیا جاسکے۔

جو کام سیدھے سیدھے انتظامی حکم اور زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ کی قرارداد کے ذریعے ہوسکتا تھا اسے تعویق میں ڈال کر غیرمتعلقہ معاملات میں الجھا دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں پوری قوم فکری انتشار، سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران سے دوچار ہے۔ ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کو امید کی جو کرن رونما ہوئی تھی اور عوام نے نئی زندگی اور سیاست دانوں کے نئے کردار کا جو خواب دیکھا تھا وہ زرداری صاحب کی مصلحتوں کی بنا پر چکنا چور ہوتا نظر آرہا ہے۔ مشرف صاحب کی مقبولیت تو خاک میں مل چکی ہے لیکن اب زرداری صاحب کی مقبولیت کا گراف بھی تیزی سے نیچے جا رہا ہے جس کا اندازہ ہر سیاسی کارکن کو ہورہا ہے اور جس کی کچھ جھلک راے عامہ کے اس تازہ ترین جائزے میں دیکھی جاسکتی ہے جو ایک امریکی ادارے Terror Free Tomorrow نے ۲۵مئی سے یکم جون تک لیا ہے اور جس کے مطابق پاکستان کی آبادی کا ۷۳ فی صد مشرف کی اقتدار سے علیحدگی چاہتا ہے۔ اس وقت مقبول ترین قیادت وہ ہے جو ججوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس مطالبے کو ۹۵فی صد آبادی کی تائید حاصل ہے۔ یہی وہ پہلوہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے سرپرست نواز شریف سب سے زیادہ مقبول ہیں جب کہ پیپلزپارٹی کی حکومتی کارکردگی پر لوگ مطمئن نہیں اور اس کی مقبولیت کم ہوکر ۲۶ فی صد رہ گئی ہے، جب کہ اس کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی مقبولیت صرف ۱۳ فی صد پر آگئی ہے۔ (نواے وقت، ۲۲ جون ۲۰۰۸ئ)

دستوری تجاویز یا زھـر کی گولیاں

ججوں کی بحالی، عدلیہ کی حقیقی آزادی، صحافت کی آزادی اور مشرف سے نجات کے سلسلے میں جو رویہ زرداری صاحب کے زیراثر پیپلزپارٹی نے اختیار کیا ہے اس نے عوام میں مایوسی پیدا کی ہے اور وہ اسے ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ سے کھلا کھلا انحراف تصور کرتے ہیں اور دستوری ترامیم کے پشتارے کا جو ڈراما رچایا جا رہا ہے اسے مسئلے کو الجھانے اور قوم کے اہداف کو غتربود کرنے کا کھیل سمجھ رہے ہیں۔ ہم ان باتوں کا اظہار بڑے دکھ سے کر رہے ہیں کہ ہماری پوری خواہش تھی کہ آمریت سے نجات اور جمہوریت کی طرف پیش قدمی کا سفر مخلوط حکومت کے ہاتھوں انجام پاتا لیکن نظرآرہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے کچھ قائدین اور اس کے ووٹروں کی شدید  خواہش کے باوجود آصف علی زرداری اور ان کے زیراثر جماعتی قیادت روایتی ہیئت حاکمہ (establishment) ہی کے مقاصد پورے کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ پرویزمشرف پر نمایشی دبائو تو کبھی کبھی ڈال دیا جاتا ہے مگر نہ ان سے نجات پانے کے لیے ضروری اقدام کیے جا رہے ہیں اور نہ عدلیہ کی بحالی کی کوئی مؤثر کوشش کی گئی ہے جس سے ملک کا نظامِ عدل بحال ہوسکے اور عوام کے لیے حصولِ انصاف کے دروازے کھل سکیں۔ بلکہ دستوری ترامیم کا جو پیکج پیش کیا گیا ہے اس نے تو رہی سہی امید بھی خاک میں ملادی ہے اور اگر خدانخواستہ دستور میں یہ ترامیم ہوجاتی ہیں تو پھر جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کا قصر چکنا چور ہوجائے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ پیپلزپارٹی کی قیادت اس میں کامیاب نہیں ہوگی اس لیے کہ عوام ان کی بھرپور اور مؤثر مخالفت کریں گے اور وکلا اور اہم سیاسی کارکنوں نے اس عزم کا اظہار بھی کردیا ہے۔ البتہ اس امر کی ضرورت ہے کہ ان ترامیم اور ان کے مضمرات کو اچھی طرح سمجھا جائے اور چند مفید چیزیں جو ان میں شامل ہیں ان سے دھوکا نہ کھاتے ہوئے جو اصل کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کا پردہ چاک کیا جائے اور ملک کو اس آفت سے محفوظ رکھا جائے۔

آیئے دیکھیں ان تجاویز میں کتنی کڑوی گولیاں بلکہ زہر کی گولیاں ہیں جو شکر میں لپیٹ کر اس قوم کو دی جارہی ہیں:

۳ نومبر کے اقدام کا تحفظ

ان کا پہلا اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان میں کھلے اور صاف الفاظ میں ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدام کو رد نہیں کیا گیا اور اس کے مرتکبین کو موجب سزا قرار نہیں دیا گیا، بلکہ کمال ہوشیاری سے اس اقدام کو اور اس کے تحت عدلیہ کو تباہ کرنے والوں اور ان کے شرکاے کار کو تحفظ دیا گیا ہے، عدلیہ میں ۳ نومبر کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں کے لیے مستقل گنجایش پیدا کی گئی ہے، ان کے ان تمام اقدامات کو جو ۳نومبر کے بعد کیے گئے ہیںتحفظ دیا گیا ہے اور صاف لفظوں میں کہے بغیر اس سب کو سندجواز دی گئی ہے جو ایک قومی جرم ہے۔ ۱۸فروری کے انتخاب کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کا تو مینڈیٹ ہی یہ ہے کہ وہ ۳نومبر کے غیرقانونی اقدامات کا قلع قمع کرے اور ہمیشہ کے لیے ملک و قوم کو ایسی طالع آزمائی اور اس کی معاونت کرنے والوں سے محفوظ کرے لیکن ان ترامیم کے ذریعے وہی ظلم کیا جا رہا ہے جو ۱۹۵۸ئ، ۱۹۶۹ئ، ۱۹۷۷ئ، ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدامات کو تحفظ دے کر ماضی میں کیا گیا ہے۔ جو کچھ جسٹس منیر، جسٹس انوارالحق، جسٹس ارشاد اور جسٹس ڈوگر نے کیا، جناب زرداری صاحب اور فاروق نائیک صاحب وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس حمودالرحمن نے اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے والے غاصبوں سے ڈیل کرنے کا جو مبنی برحق و انصاف راستہ دکھایا تھا اسے یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے اور ہوشیاری کے ساتھ آرٹیکل AAA۲۷۰ اور CC ۲۷۰ کے ذریعے اس پورے سیاہ دور کو تحفظ عطا فرمایا گیا ہے البتہ کمالِ عنایت سے دفعہ ۶ میں ترمیم کر کے کل کلاں ایسا کرنے والوں کو سزا کی وعید سنائی جا رہی ہے۔ حالانکہ اگر آج کے مجرموں کو سزا نہیں ملتی تو پھر گویا کبھی بھی مجرموں کو سزا نہیںمل سکے گی۔ یہ ترامیم دستور کی ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحالی کی نوید سے یکسر خالی ہیں اور دستور کو مزید مسخ کرنے اور جو سلوک اس کے ساتھ ماضی کی ترامیم جن میں خصوصیت سے پہلی، تیسری، چوتھی، پانچویں، چھٹی، ساتویں، آٹھویں اور ۱۷ویں ترامیم قابلِ ذکر ہیں جن کے ذریعے عدلیہ کو پابند یا متاثر کرنے اور دستور کے پارلیمانی کردار کو مسخ کرنے کی خدمت انجام دی گئی اور فوجی آمریتوں کی کارگزاریوں کو تحفظ دیا گیا۔ بدقسمتی سے پیپلزپارٹی کی قیادت کی مجوزہ ترامیم اسی قبیل کی ہیں بلکہ ان کی بدترین صورت ہیں۔

این آر او کا تحفظ

ان ترامیم کا دوسرا پہلو این آر او کا تحفظ ہے جس کے لیے ایک بار نہیں دو بار آرڈی ننس کی چار ماہ کی عمر کو غیرمؤثر قرار دیتے ہوئے اس این آر او کو، جس نے بدعنوانی اور کرپشن پر سفیدی پھیردی ہے اور اس کے مرتکبین کو ہمیشہ کے لیے مکمل طور پر بری کردیا ہے، مکمل تحفظ دیا گیا ہے۔ ہم نے بار بار اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ جہاں یہ غلط اور بدترین ظلم ہے کہ کسی معصوم انسان کو محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر بدعنوانی اور کرپشن کا ملزم بنایا جائے، وہیں یہ بھی اتنا ہی غلط اور ایسا ہی ظلم ہے کہ سیاسی مصالح اور اپنی صف بندیوں کو محفوظ کرنے کی خاطر ان لوگوں کو جو بدعنوانیوں کے مرتکب ہوئے ہوں اور جنھوں نے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہو اور ملک کی دولت کو لوٹا ہو، ان کو مکمل معافی اور چھٹی دی جائے۔

این آر او ایک شرمناک قانون ہے اور اس کے تحت پاک دامنی کا دعویٰ کرنے والے کبھی پاک دامن تسلیم نہیں کیے جاسکتے۔ اس مسئلے کا واحد حل وہ ہے جسے خود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت میں تسلیم کیا ہے مگر ان ترامیم میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ اس میثاق میں دونوں نے قوم سے عہد کیا ہے کہ جہاں سیاسی بنیادوں پر انتقامی کارروائی سے اجتناب کیا جائے گا وہیں احتساب کے لیے ایک اعلیٰ عدالتی نظام قائم کیا جائے جو بے لاگ انداز میں سیاسی قیادت اور دوسرے ان تمام افراد کا جو ذمہ داریوں کے مناصب پر فائز رہے ہوں، احتساب کرے۔

این آر او کے ’پاک بازوں‘ کے دامن کو تو اس وقت تک صاف اور بے داغ قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک وہ کسی معتبر عدالتی ادارے میں اپنی پاک دامنی ثابت نہ کرلیں، لیکن جس محنت اور غیرمعمولی اہتمام سے ان ترامیم میں این آر او کو تحفظ دیا گیا ہے وہ شکوک و شبہات کو بڑھانے والا ہے، ختم کرنے والا نہیں۔

اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ این آر او کو تحفظ ہرگز نہیں دینا چاہیے، اعلیٰ عدالت کو تمام حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور آیندہ کے لیے اس کا مستقل انتظام ہونا چاہیے کہ کوئی بھی اختیارات کا ناجائز استعمال اور قومی وسائل کو ذاتی منفعت کے لیے استعمال کرنے کی جرأت نہ کرسکے اور جو کرے وہ قانون اور احتساب کی گرفت سے نہ بچ سکے۔ یہ عمل سیاسی دراندازیوں اور انتقامات اور شک و شبہے سے پاک اور بالکل شفاف ہو۔ یہ سب کے لیے ہو اور جو بھی اجتماعی زندگی میں سرگرم ہے اسے اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ دستوری ترامیم کے ذریعے این آر او کو دوام بخشنا ایک قومی جرم ہے اور اس کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

عدلیہ پر پانچ وار

ان ترامیم کا تیسرا بڑا ہی تباہ کن پہلو عدلیہ کے پورے نظام کو سیاسی مصلحتوں کے تابع کرنا ہے۔ اس کے پانچ بڑے بڑے پہلو ایسے ہیں جن کا پردہ چاک کرنا ضروری ہے تاکہ ان کا کھل کر مقابلہ کیا جاسکے۔

ا- عدلیہ کی آزادی کا انحصار جن چیزوں پر ہے ان میں عدلیہ میں نئے ججوں کی تقرری بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس عمل کو خالص میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے جس میں قانونی مہارت کے ساتھ دیانت و امانت اور اصول اور حق پرستی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہ عمل سیاسی اثراندازیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ بلاشبہہ یہ کام مشکل ہے اور دنیا کے تجربات اس ضمن میں  بڑی ملی جلی تصویر پیش کرتے ہیں۔ خود ہمارے یہاں جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ ہرگز قابلِ فخر نہیں۔ ایک نہیں متعدد ججوں کی خود نوشتیں طبع ہوچکی ہیں اور وہ ایسی داستانوں سے بھری ہوئی ہیں جن پر سر شرم سے جھک جاتا ہے، لیکن جو تجویز اب جناب فاروق نائیک نے جناب زرداری صاحب کی ہدایت پر پیش کی ہے، اس کے بعد تو سیاست کا عمل دخل آسمان پر پہنچ جائے گا اور خواہی نہ خواہی یہ ادارہ بالکل تباہ ہوجائے گا۔ مرکزی اور صوبائی وزراے قانون کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ ایک مشترک پارلیمنٹری کمیٹی آخری فیصلہ کرے گی۔ پاکستان کے حالات میں پارلیمانی کمیٹی کے سپرد اس کام کو کرنا اپنے اندر بڑے خطرات رکھتا ہے اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر عدلیہ پر یہ ضرب ملک کو بڑی مہنگی پڑے گی۔یہ مسئلہ بڑی سنجیدہ سوچ بچار کا تقاضا کرتا ہے۔ خود امریکا میں بھی اس نظام پر شدید تنقید کی جارہی ہے اور بش کے تو ۲۰۰۰ء کے انتخاب ہی کو سیاسی عدلیہ کا فیصلہ قرار دیا جارہا ہے۔

ب- دوسرا مسئلہ ججوں کی میعاد (tenure) کی حفاظت کا ہے۔ اگر جج کو میعاد کی ضمانت نہ ہو تو یہ پورے نظامِ عدل کو متزلزل کردیتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کی جو نئی شکل تجویز کی جارہی ہے وہ خطرناک، بھونڈی اور ناقابلِ عمل ہے۔ چیف جسٹس اور اعلیٰ ججوں کی قسمت، سابق ججوں اور سیاسی عناصر کے ہاتھوں میں دی جارہی ہے اور اس جلادی تجویز کے ساتھ کہ کسی بھی جج بشمول چیف جسٹس اگر کوئی بھی شخص اس کے خلاف استغاثہ دائر کردے تو صدر فی الفور اسے جبری رخصت پر بھیج سکتا ہے۔ جبری رخصت کے سلسلے میں ۲۰جولائی کے سپریم کورٹ کے فل بنچ نے بڑا واضح فیصلہ دیا ہے مگر اسے بالکل نظرانداز کر کے ترمیم میں وہ موقف اختیار کیا گیا ہے جو جنرل پرویز مشرف کا تھا۔

مجوزہ کمیشن کے سابق ججوں کے لیے صلاحیت، دیانت، تجربہ، شہرت کی کوئی شرط نہیں۔ اگر کوئی شرط ہے تو یہ کہ وہ ’غیرسیاسی‘ ہوں مگر غیرسیاسی کی کوئی تعریف متعین نہیں کی گئی۔ کون سا جج سیاسی ہے اور کون سا غیرسیاسی___ اور حاضر سروس چیف جسٹس اور تمام اعلیٰ ججوں کی قسمت کا فیصلہ پانچ سابق ججوں اور تین دوسرے سیاسی عمل سے نامزد افراد کو سونپا گیا ہے۔ یہ بھی بڑا خطرناک کھیل ہے اور ہمیں اپنی عدلیہ کو ایسے خام تجربات کے لیے تختۂ مشق ہرگز نہیں بنانا چاہیے۔

ج- ایک بنیادی خرابی اس پوری تجویز میں پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججوں سے عزت سے نجات حاصل کرنے کے بجاے انھیں عدالت کا حصہ بنانا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف عدالت کا وقار اور اس پر عوام کا اعتماد مجروح ہوگا بلکہ عدلیہ بھی مستقل کش مکش اور باہم تنائو کا شکار رہے گی اور اس طرح سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس اپنا دستوری کردار ادا کرنے کے لائق نہیں رہیں گے۔ ۱۹۹۰ء میں بھی عدلیہ کے بٹ جانے اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا تلخ معاملہ پیش آچکاہے اور اب تو باضابطہ انداز میں عدالت پر اس کو مسلط کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو انصاف کے نظام کو قتل کرنے کے مترادف ہوگا۔

د- ایک اور ظلم جو ان تجاویز میں کیا گیا ہے اور بڑے معصوم انداز میں کیا گیا ہے وہ   سپریم کورٹ کو اس اختیار ہی سے محروم کردینا ہے جس کے تحت وہ عوام کے ساتھ کیے جانے والے مظالم اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر عوام کی داد رسی کے جواب میں یا ازخود نوٹس لے کر ان کو انصاف مہیا کرنے کے لیے کرسکتے تھے۔ دفعہ (۳) ۱۸۴ میں ایک معصوم سی ترمیم کے ذریعے ظلم اس ملک کے عوام کے ساتھ کیاجا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو قابلِ نفاذ حکم (mandatory) سے نکال کر محض اعلان (declaratory) بنانے کی جسارت کی جارہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ عدالت بس وعظ و نصیحت اور مشورہ اور تجویز کرسکے گی اور اس کا حکم ان معاملات میں آپ سے آپ لاگو نہیں ہوسکے گا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اعلیٰ انتظامیہ کو جو سبق سکھایا تھا، غالباً یہ اس کا جواب ہے! اور وہ بھی کسی پولیس یا آرمی افسر یا بیوروکریٹ کی طرف سے نہیں عوام کے نمایندے جناب زرداری صاحب اور جناب فاروق نائیک کی طرف سے!

ر- پانچواں مسئلہ ججوں کی میعاد (tenure) کی مدت یعنی ریٹائرمنٹ کی عمر کا ہے اور چیف جسٹس صاحبان کے بحیثیت چیف جسٹس مدت کے تعین کا۔ اس وقت سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر ۶۵ سال اور ہائی کورٹس کے ججوں کی ۶۲سال ہے۔ اب اسے بڑھا کر ۶۸ اور ۶۵کرنے کی تجویز ہے۔ اس تجویز پر خالص میرٹ کی بنیاد پر غور ہوسکتا ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے لیے لازمی ریٹائرمنٹ کی کوئی مدت مقرر نہیں بلکہ موت، استعفا یا معذوری ہی کی شکل میں وہ اپنے منصب سے فارغ ہوتے ہیں اور اس طرح انھیں میعاد کی مکمل  ضمانت حاصل ہوتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کسی دیگر نفع بخش کام کی فکر سے بھی آزاد رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں یہ مسئلہ خاص افراد کے لیے جگہ بنانے یا چیف کے درجے تک ترقی ممکن بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے جو ناقابلِ قبول ہے۔ یہی کھیل ایل ایف او میں بھی کھیلنے کی کوشش کی گئی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔ یہ اس کا replay ہے اور پہلے سے بھی زیادہ بھونڈے انداز میں! اسی طرح عدلیہ کی بحالی کی صورت میں ایک خاص جج کی بحالی کو ناممکن بنانا بھی فرد کے لیے مخصوص (person-specific) ترمیم کے زمرے میں آتا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کو باہر رکھنے کے لیے یہ تجویز لائی جارہی ہے۔ چیف جسٹس کی میعاد کی تحدید تین سال ہو یا پانچ سال، یا اس سے کم زیادہ بھی اسی قبیل کی شے ہے۔ ایک خاص شخص سے نجات اورکسی خاص شخص کو اس عہدے پر لانے کے لیے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے جو دستور کے ساتھ بددیانتی بلکہ بدفعلی کے مترادف ہے۔ جوقیادت عدلیہ کے ساتھ یہ کھیل کھیل رہی ہے اور ساتھ ہی عدلیہ کی آزادی کے بلندبانگ دعوے کرتی ہے اس کی عقل کا ماتم کیا جائے یا دیانت کا نوحہ!

صدر اور وزیراعظم کے اختیارات

صدر کے اختیارات کم کرنے اور وزیراعظم کو اختیارات کا محور اور مرکز بنانے کے لیے بھی اس میں متعدد ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ ہم خود صدر کے صواب دیدی اختیارات کے خلاف ہیں اور پارلیمانی نظام میں وزیراعظم اور وزرا، جو عوام کے بلاواسطہ منتخب کردہ ہیں، وہی اصل انتظامی اختیار کے مستحق ہیں لیکن اس سلسلے میں بھی چند باتوں کا لحاظ ضروری ہے اور علم سیاست کے جدید مباحث میں ان پر کھلے انداز میں گفتگو ہورہی ہے۔ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم کے ڈکٹیٹر بننے کا خطرہ موجود ہے اور اس کے لیے علم سیاست میں آج کل ایک دل چسپ اصطلاح استعمال کی جارہی ہے یعنی Prime Ministerial System۔ پارلیمانی نظام کو پارلیمانی نظام ہی رہنا چاہیے، اسے وزیراعظمی نظام نہیں بن جانا چاہیے۔ تقسیم اختیارات کے معنی یہ ہیں کہ وزیراعظم اپنے سے مساوی افراد میں پہلا ہو، خود ہی سب کچھ نہ بن جائے۔

اس کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ایک کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری، دوسرے ہر وزیر کے اپنے اختیارات جو وہ وزیراعظم کی مداخلت کے بغیر انجام دے سکے، تیسرے وزیراعظم کی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی جس کے لیے خصوصی وقفہ سوالات کا نظام قائم کیا گیا ہے۔ کچھ ممالک میں وزیراعظم کو وزرا کے انتخاب کا اختیار دیا گیا ہے مگر ہروزیر اور اس کے شعبے کی پارلیمنٹ میں توثیق ضروری ہے اور جسے پارلیمنٹ اعتماد نہ دے وہ وزیر نہیں بن سکتا۔ نیز وزیراعظم پر بے اعتمادی کا ووٹ بھی اسی نوع کی ایک تدبیر ہے۔ اب جو دستوری ترامیم پیپلزپارٹی کی قیادت لائی ہے اس میں وزیراعظم کو نہ صرف یہ کہ کلّی اختیارات دے دیے گئے ہیں بلکہ ایک ایسی ترمیم بھی تجویز کی ہے جو ۱۹۷۳ء میں دستور سازی کے وقت رکھی گئی تھی اور جسے اس اسمبلی نے، جس نے دستور کو منظور کیا، رد کردیا تھا اور بڑی سخت تنقید کے بعد رد کیا تھا۔ تجویز یہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک اس وقت تک نہیں لائی جاسکتی جب تک اس تحریک میں متبادل قائد ایوان کا نام نہ شامل ہو۔ گویا ایک وزیراعظم پر بے اعتمادی اور دوسرے شخص پر اعتماد کا اظہار ایک ہی قرارداد کے ساتھ ہو۔ یہ سرتاسر غیرمعقول تجویز ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی تحریک آہی نہ سکے۔ جب ۱۹۷۳ء کے دستور میں یہ تجویز رکھی گئی تھی تو محمود علی قصوری صاحب نے اس پر بڑی سخت تنقید کی تھی اور صرف اپوزیشن ارکان نے ہی نہیں سرکاری اتحاد کے لوگوں نے بھی اسے رد کردیا تھا۔ معلوم نہیں فاروق نائیک صاحب اس مسترد تجویز کو قبر میں سے نکال کر پھر سے کیوں لے آئے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی صاحب کے تحفظ کے لیے تو یہ ہو نہیں سکتی۔ کیا زرداری صاحب اپنے آیندہ تحفظ کا ابھی سے یہ سامان کرنا چاہتے ہیں؟

صدر کے اختیارات میں کمی ___ تین شبھات

ویسے تو صدر کے اختیارات کو کم کرنے کا کام انجام دیا گیا ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ وہ صواب دیدی اختیارات ہیں جن کی وجہ سے صدر پارلیمنٹ اور انتظامیہ پر حاوی ہوگیا تھا یعنی ۵۸ (۲-بی) اور اہم تقرریوں کے بارے میں اس کے کُلی اختیارات۔ ان امور پر صدر کو وزیراعظم اور کابینہ کی ایڈوائس کا پابند کرنا ضروری ہے اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ البتہ اس سلسلے میں تین چیزیں ایسی ہیں جو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں:

ا- آرٹیکل ۴۵ کا تعلق معافی (amnesty ) کے معروف مسئلے سے ہے جس کے تحت صدر عدالتوں سے دی جانے والی سزائوں میں تخفیف یا معافی کا حق رکھتا ہے۔ بلاشبہہ اسلامی قانون کے تحت حدود کے معاملے میں اسے یہ اختیار نہیں لیکن باقی امور میں مروجہ قانونی روایات کی روشنی میں اس کی گنجایش ہے۔ اس دفعہ میں ایک نئی ترمیم کے ذریعے صدر کو سندجواز عطا کرنے (validation) کا ایسا لامحدود (open ended) اختیار دیا جا رہا ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور جسے اگر غلط استعمال کیا جائے تو انتظامیہ اس کے سہارے پر قانون اور ضابطے کے پورے عمل کو سبوتاژ کرسکتی ہے۔ ایک تو معاملات کے دائرے کو عدالتی فیصلوںکے دائرے سے نکال کر عالم گیر وسعت دینا اور پھر ہر معاملے کو سندجواز عطا کرنے کا اختیار اس کو دیا جا رہا ہے جو انصاف، اصولِ حکمرانی اور جمہوری احتساب ہر عتبار سے غلط ہے۔ اس وقت جو دفعہ ہے وہ یہ ہے:

دفعہ ۴۵: صدر کو کسی عدالت ٹریبونل یا دیگر ہیئت مجاز کی دی ہوئی سزا کو معاف کرنے، ملتوی کرنے اور کچھ عرصے کے لیے روکنے اور اس میں تخفیف کرنے، اسے معطل یا تبدیل کرنے کا اختیار ہوگا۔

تجویز ہے کہ amnesty کے بعد اضافہ کردیا جائے۔

"or indemnify any act whatsoever".

دیکھیے اس ایک جملے سے معاملے کی نوعیت ہی بدل گئی۔ اب عدالتی عمل کے تحت دی جانے والی سزا میں جو تخفیف یا معافی کی گنجایش تھی وہ بدل کر ہر قسم کی بدعنوانی، لاقانونیت، ضابطے کی خلاف ورزی، اختیار کے غلط استعمال، استحصال گویا کسی بھی اقدام کو indemnify (قانونی ذمہ داری سے بَری) کرنے کا اختیار دیا جا رہا ہے۔ دراصل یہ حق انتظامیہ اپنے لیے لے رہی ہے۔ یہ دستور کی دفعہ ۲۷۰ کا ایک بدل ہے کہ جب اور جس عمل کو سندجواز دینا (validate) ہو، صدر کو اس کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔ یہ انصاف، قانون، ضابطہ اور اخلاق ہر ایک کا خون ہے اور قانون کی خلاف ورزی کے لیے دروازے کھول دینے کے مترادف ہے۔

ب- افواج کے سربراہان (service chiefs) کے تقرر کا اختیار بھی صدر کو حاصل ہے۔ یہ بھی صواب دیدی اختیار تھا مگر اسے ۱۷ویں ترمیم میں وزیراعظم سے مشورے سے مشروط کیا گیا تھا۔ نہ معلوم کیوں اب وزیراعظم کے مشورے کے حصے کو حذف کیا جا رہا ہے۔ غالباً اس بنیاد پر کہ صدر وزیراعظم کے مشورے (advice) پر یہ کام کرے گا لیکن بات صراحت کے ساتھ واضح نہیں ہورہی۔ موجودہ سربراہوں کو تین نام اپنی ترجیح کے مطابق دینے کی شرط عائد کی جارہی ہے، جب کہ عملاً یہ پہلے سے ہو رہا ہے البتہ اس وقت صدر کو یہ اختیار ہے کہ وہ تجویز کردہ ناموں کے باہر سے بھی تقرر کرسکتا ہے اور کئی تقرریاں چھے اور سات افراد کو پھلانگ کرکے بھی کی گئی ہیں۔ نئی تجویز میں ریٹائر ہونے والے سربراہ کو فیصلہ کن پوزیشن دے دی گئی ہے جو محل نظر ہے۔ ایک تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ تقرری صدر کرے گا یا صدر وزیراعظم کے مشورے پر کرے گا جیساکہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھا۔ البتہ اس نازک معاملے کے صحیح صحیح انجام پانے کے لیے کچھ دوسری احتیاطیں بھی ضروری ہیں جن پر اس وقت غور کرنا چاہیے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ بالعموم یہ تقرری سینیارٹی کی بنیاد پر ہونی چاہیے جس کے نتیجے میں سروس میں بھی اطمینان ہوگا کہ ہرشخص کو اس کے حق اور صلاحیت کے مطابق موقع ملے گا اور تقرری کی دوڑ میں جو سیاسی یا رقابتی اثرات کارفرما ہوجاتے ہیں ان سے  بچا جاسکے گا۔ البتہ اس کی گنجایش رکھی جاسکتی ہے کہ کسی غیرمعمولی صورت میں کسی اعلیٰ کمیشن کے مشورے سے اس قاعدے میں نرمی ہوسکتی ہے لیکن وجوہ ریکارڈ پر لاکر، ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر نہیں۔ لیکن ایک دوسری بات کا اہتمام بھی ضروری ہے جسے ہماری نگاہ میں دستوری ترمیم کا حصہ ہونا چاہیے کہ یہ عہدے اپنی میعاد کے ساتھ متعین ہوں گے۔ ان میں توسیع کا امکان بالکل ختم ہونا چاہیے۔ ہمارے یہاں بڑا بگاڑ اسی راستے سے آیا ہے کہ جو بھی چیف آف اسٹاف بنا ہے اس نے مدت عہدہ میں توسیع کی کوشش کی ہے۔ جنرل ایوب سے اس کا آغاز ہوا اور جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اسے استعمالِ بد کی حد تک پہنچا دیا۔

بھارت میں گذشتہ ۶۱سالوں میں کوئی ایک بھی مثال ایسی نہیں ہے کہ کسی بھی سروس کے چیف کو اس کی مدت پوری ہونے کے بعد توسیع دی گئی ہو۔ امریکا، برطانیہ اور مغربی ممالک میں بھی یہی روش ہے۔ اگر توسیع کے دروازے کو بند کردیا جائے اور خالص میرٹ پر سینیارٹی کی بنیاد پر افواج کے سربراہان کی تقرریاں ہوں تو فوج کی پیشہ ورانہ مہارت میں اضافہ ہوگا اور سیاست پر شب خون مارنے کی راہیں بھی مسدود ہوں گی۔

اسلام پر کاری ضرب

ان ترامیم میں اسلام پر بھی ایک کاری ضرب لگائی گئی ہے اور بڑے معصوم انداز میں۔ وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ کار کو پہلے ہی روزاول سے محدود کیا ہوا ہے اور آرٹیکل بی-۲۰۳ کے پیراگراف (سی) کے تحت بہت سے قوانین کو اس کے دائرۂ اختیار سے باہر رکھا گیا ہے، خاص طور دستور، عائلی قانون، عدالتی ضابطے وغیرہ لیکن ملک کے مالیاتی اور محصولاتی نظام کو صرف دس سال کے لیے اس کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا جو ۱۹۹۵ء میں ختم ہوگیا ہے۔ اسی کی روشنی میں وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعہ بنچ نے سود کے مسئلے پر اس مدت کے ختم ہوجانے کے بعد اپنے فیصلے دیے ہیں۔ اب اس ترمیم کے ذریعے دس سال کی مدت والے جملے کو حذف کیا جا رہا ہے لیکن اس چابک دستی کے ساتھ کہ ملک کا پورا مالیاتی اور محصولاتی نظام ایک بار وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار سے باہر ہوجائے۔ اگر دلیل یہ ہے کہ دس سال کی مدت ہوچکی اور یہ حصہ اب غیر ضروری ہے تو پھر دس سال سے شروع ہونے والے جملے کو اختتام تک حذف کرنا چاہیے تھا تاکہ موجودہ قانونی پوزیشن مستقل ہوجائے۔ لیکن دراصل جس طرح یہ ترمیم تجویز کی جارہی ہے وہ سودی نظام کے تحفظ کی شرمناک اور اللہ سے بغاوت کی ایک بے باک کوشش ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر شریعت کورٹ کے دائرۂ اختیار سے یہ تمام امور نکل جائیں گے جو دس سال کے استثنا کے بعد اب اس کے اختیار میں ہیں۔

یہ قرآن وسنت کے کھلے احکام کے خلاف قانون سازی کی ایک افسوس ناک کوشش ہے جسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایک طرف سینیٹ متفقہ طور پر تجویز کر رہا ہے کہ پورے ملک میں اسلامی فنانس اور بنکاری کو فروغ دیا جائے اور دوسری طرف ملک کے پورے مالیاتی اور محصولاتی نظام کو دوبارہ اور ہمیشہ کے لیے وفاقی شریعت کورٹ کے دائرۂ اختیار سے باہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تفو برتو چرخ گرداں تفو!

ایک عجوبہ ترمیم

ان ترامیم میں ایک عجوبہ وہ ترمیم ہے جو بظاہر دستور توڑنے والوں کے لیے سزا اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے فوجیوں اور دستور میں دیے ہوئے حلف کے برعکس حلف لینے والے ججوں کو بغاوت کا مرتکب قرار دینے اور مستوجب سزا بنانے کے لیے کی جارہی ہے مگر فی الحقیقت  جو زبان اور انداز اختیار کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں سزا ایسے جج کو نہیں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو دی جائے گی اور اسی ترمیم (آرٹیکل ۲۷۶) میں "a person" کے لفظ کو اتنے ڈھیلے (loose) انداز میں استعمال کیا گیا ہے کہ اس کی زد میں پارلیمنٹ کے ارکان تک آسکتے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ اس سزا کا اطلاق ان لوگوں پر نہیں ہوتا جنھوں نے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء یا ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو دستور کی تخریب (subvert )کی، اور وہ جج بھی اس سے مستثنیٰ ہیں جو دستور کی اس تخریب کو سندجواز دینے والے ہیں بلکہ اس کا اطلاق صرف مستقبل پر ہوگا۔ یہ عجیب جرم ہے کہ اس کے آج کے ارتکاب کرنے والے محفوظ ہیں مگر یہ صرف آنے والوں کے لیے انتباہ ہے، چاہے آج کے مجرم دندناتے ہی کیوں نہ پھر رہے ہوں۔

عدالت کے سلسلے میں ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ججوں کی جگہ any court including a high court and the supreme court (کوئی بھی عدالت بشمول کوئی عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ عدالت کے بنچ کے  ان ججوں کو بھی سزا ہوگی جنھوں نے اکثریت کے فیصلے سے اختلاف کیا ہو اور مارشل لا یا دستور کی تخریب کی تائید نہ کی ہو؟ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی سزا کی کیا شکل ہوگی؟ کیا یہ عدالتیں قانون کی نظر میں ایک فرد ہیں یا ان عدالتوں کو تباہ کردیا جائے گا___ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!

اسی طرح فوج کے ذمہ داروں کی طرف سے حلف کی خلاف ورزی کی بات بڑی مبہم ہے۔ حلف میں تو صرف سیاست میں حصہ نہ لینا ہے___ کیا ایک فوجی کا کسی سیاسی شخصیت سے ملنا، کسی سیاسی جلسے میں شرکت خواہ وہ انتخابی جلسہ ہی کیوں نہ ہو، حلف کی خلاف ورزی ہوگا؟ دستور توڑنا، اقتدار پر قبضہ اور چیز ہے اور ایک فوجی کا کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینا دوسری چیز۔ جرم اور سزا میں مطابقت بھی انصاف کا اساسی اصول ہے۔ غداری (high treason) کا تعین واضح طور پر ہونا چاہیے۔ اتنی مبہم بات کہ حلف کی پاسداری نہ کرے، یا دستور میں دیے گئے حلف کے الفاظ سے ہٹ کر حلف لے، وہ غداری کا مرتکب ہوگا، محل نظر ہے۔ ان معاملات کو زیادہ سوچ سمجھ کر اور قانون کی باریکیوں اور اس کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر طے ہونا چاہیے۔ جس طرح یہ ترامیم تیار کی گئی ہیں، اس سے بے حد جلدبازی کا اظہار ہو رہا ہے۔


ان ترامیم میں ایسی چیزیں بھی ہیں جن پر ہمدردی سے غور ہوسکتا ہے مثلاً صدر کی طرف سے نظرثانی کے لیے قانون یا ایڈوائس بھیجنے کی مدت میں کمی، سینیٹ میں بجٹ پر غور کی مدت میں اضافہ، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ادارے کو بحال اور متحرک کرنا، دستور کے بہت سے فالتو (redundant) حصوں کو حذف کردینا، مصالحتی (reconciliation) کمیٹی کے طریق کار کو ختم کردینا، صدر کی جگہ وفاقی حکومت کو اختیار دینا وغیرہ۔

بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی حکمت اور مصلحت کے باب میں ایک سے زیادہ آرا ہیں مثلاً اقلیتوں کا مطالبہ تھا کہ جداگانہ انتخاب کا طریقہ ختم کیا جائے اور اس کے لیے ملک اور ملک سے باہر سیکولر اور لبرل لابی نے مہم چلائی جس کی بنیاد حکمت و مصلحت اور نمایندگی کے حقوق سے کہیں زیادہ نظریاتی تھی۔ لیکن جب انھیں مخلوط انتخاب مل گیا تو پھر اب جداگانہ نمایندگی کا مطالبہ چہ معنی دارد؟___ اگر مخلوط انتخاب چاہتے ہیں تو اس کے آداب اور اصولوں کا بھی احترام کیجیے اور عام سیاسی پارٹیوں کے ذریعے سب کے ووٹ سے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں تشریف لایئے۔ ہم نے تو جداگانہ انتخاب کے طریق کار کے ذریعے اقلیتوںکی نمایندگی اور موجودگی کو یقینی بنایا تھا، اسے آپ نے نظریاتی بنیادوں پر رد کردیا۔ اب مخلوط انتخاب کے ساتھ مخصوص نمایندگی کا مطالبہ انمل بے جوڑ ہے۔ اب مخلوط قومیت کا وہ نظریہ کیا ہوا؟ انگریزی محاورے میں You want to eat your cake and have it too.۔ یہ سراسر تضاد اور زیادتی بھی! نیز یہ دیانت کے اصولوں سے بھی ہم آہنگ نہیں۔

الیکشن کمیشن، قومی مالیتی کمیشن، قومی معاشی کونسل، مشترک مفادات کی کونسل وغیرہ کے سلسلے میں ترامیم میں کئی چیزیں اچھی اور مناسب ہیں اور کچھ میں مزید اصلاح کی گنجایش ہے۔ خصوصیت سے قومی اقتصادی کونسل اور قومی مالیاتی کمیشن میں سینیٹ سے نمایندگی کے مسئلے پر غور ہونا چاہیے جو وفاق کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ مشترک فہرست میں سے صرف چند کو خارج کرنا اور باقی پر مرکز کی قانون سازی کے حق کو باقی رکھنا بھی صحیح نہیں۔ مشترک فہرست کو مکمل طور پر ختم ہوجانا چاہیے اور یہ صوبائی خودمختاری کا کم سے کم تقاضا ہے۔ اس کا وعدہ ۱۹۷۳ء میں کیا گیا تھا کہ دس سال میں یہ کام ہوجائے گا۔ آج ۳۵ سال کے بعد بھی پیپلزپارٹی کی قیادت اس کے لیے تیار نہیں حالانکہ بلوچستان کمیٹی میں دستوری ترامیم کی بحث کے موقعے پر پیپلزپارٹی نے مشترک فہرست کو ختم کرنے کے حق میں اظہار کیا تھا، اور غالباً میثاقِ جمہوریت میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا تھا، آخر یہ رجعت قہقہری کیوں؟

یہ اور دوسرے متعدد امور ایسے ہیں جن پر کھلی بحث ہونی چاہیے اور افہام و تفہیم اور عوامی خواہشات کی روشنی میں دستوری اصطلاحات کا کام ہونا چاہیے۔ کچھ اور دستوری امور ایسے ہیں  جن کو ان ترامیم میں شامل کرنے کی ضرورت ہے مثلاً آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی،    ذیلی (subordinate) قانون سازی کے نام پر پارلیمنٹ کو قانون سازی کے ایک بڑے دائرے سے باہر کردینا اور اسے مکمل طور پر انتظامیہ کے ہاتھوں میں دے دینا حتیٰ کہ یہ قانون سازی اور ضوابط کاری پارلیمنٹ کے علم تک میں نہیں آتی ہے۔ اسی طرح بیرونی معاہدات اور مالیاتی معاہدوں کوپارلیمنٹ میں آنا چاہیے۔ ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کے باب میں پارلیمنٹ کے عمل دخل کو بڑھانے اور ان میں سے کچھ کو قابلِ داد رسی (justiciable) بنانے کا مسئلہ بھی اہم ہے اور اس پر ازسرنو غور کی ضرورت ہے۔ اسلامی قانون سازی اور ملکی قوانین کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے دستور نے سات سال کی مہلت رکھی تھی، آج اس مدت کو ختم ہوئے ۲۸سال ہورہے ہیں۔ اسی طرح قومی زبان اُردو کے نفاذ کے لیے ۱۵ سال کی مدت رکھی گئی تھی، اس مدت کو ختم ہوئے ۲۰ سال ہو گئے ہیں۔ کیا ان سب امور پر غور اور دستور کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے نئی تدابیر اختیار کرنے کا وقت نہیں آیا۔ کیا دستور میں دی ہوئی مدت میں متعین کام نہ کرنا اور مسلسل ٹال مٹول کرنا دستور کی خلاف ورزی اور تخریب (subversion) نہیں ہے اور ایسی صورت میں دفعہ ۶ کا اطلاق کس پر ہوگا؟ قومی اسمبلی کی مدت (پانچ سال یا چار سال) اور اس مدت کے خاتمے کے بعد نئے انتخابات کا انعقاد یا اس مدت کے پوری ہونے سے قبل انتخابات کا معاملہ جیساکہ ۱۷ویں ترمیم کے ذریعے تبدیلی سے پہلے تھا۔ ہمارے خیال میں اسے اصل شکل میں بحال کرنا بہتر ہوگا۔ یہ اور بہت سے دوسرے امور ہیں جن پر بھی اس موقع پر غور ہوسکتا ہے تاکہ دستوری ترامیم زیادہ سے زیادہ جامع ہوں اور باربار یہ کام انجام نہ دینا پڑے۔

دستوری ترامیم کا ہمارا یہ جائزہ اس معنی میں ہرلحاظ سے مکمل نہیں کہ اس میں تمام امور کا احاطہ کیا گیا ہو۔ ہم نے صرف چند بنیادی اور مرکزی اہمیت کے امور کو موضوع بحث بنایا ہے،  جب کہ اس سلسلے میں اصل دستاویز کے شق وار مطالعہ اور اتفاق راے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اہم ہے مگر وقت طلب بھی ہے اور اس کا حق ادا کیا جانا چاہیے۔ دستور میں روز روز ترمیم نہیں ہوتی اور آج جن ترامیم کی ضرورت ہے مناسب معلوم ہوتا ہے قومی بحث و مباحثہ اور پارلیمنٹ میں کھلے تبادلۂ خیال کے ذریعے انھیں کرلینا چاہیے۔ اس میں نہ غیرضروری تاخیر کی جائے،         نہ غیرمناسب عجلت سے یہ کام انجام دیا جائے۔ اس لیے ہم ایک بار پھر اس امر کا اعادہ کرتے ہیں کہ عدلیہ کی بحالی کے مسئلے کو کسی تاخیر کے بغیر حل کیا جائے تاکہ عدالتی نظام اور اس پر اعتماد بحال ہو۔ اس وقت جواعلیٰ عدالتیں ہیں، ہمیں دکھ سے کہنا پڑتا ہے، کہ ان پر نہ قوم کو ان پر اعتماد ہے اور نہ  وکلا برادری کو۔ یہ سلسلہ جلداز جلد ختم ہونا چاہیے۔ بجٹ منظور ہوگیا ہے۔ اب اولیت اس مسئلے کو  دی جائے اور بجٹ کے بعد پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر اس مسئلے کو حل کردیا جائے۔ رہا معاملہ دستوری ترامیم کا، تو اس پر گفتگو ساتھ ساتھ چلنی چاہیے۔ عملی تجربات کی روشنی میں ان تمام اہم امور کا احاطہ کیا جائے جن کی اصلاح وقت کا تقاضا ہے۔ یہی زندہ قوموں کا شعار ہے۔ ہمیں اپنی ترجیحات صحیح کرنی چاہییں۔ اسی کے نتیجے میں قوم کے اندر تعاون کی بہتر فضا قائم ہوسکتی ہے۔

 

(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ،لاہور۔ قیمت: ۷ روپے)