ہر طرح کی ترقی، آسایش اور راحت کے سامان فراہم کرلینے کے باوجود آج کا انسان اضطراب اور بے چینی کا شکار ہے۔ ہم اپنے ملک میں غالباً یہ سمجھتے ہیں کہ اگر معاشی ترقی کرلیں تو ہمارے سب دلدّر دُور ہوجائیں گے۔ ہماری اجتماعی اور انفرادی سعی و جہدبیش تر اسی کے گرد گھومتی ہے۔ لیکن ہم کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرجائیں، کتنے ہی وسائل کیوں نہ فراہم کرلیں، کیا ہم، مثلاً برطانیہ سے آگے نکل جائیں گے؟ برطانیہ کا معاشرہ ایک ترقی یافتہ معاشرہ ہے۔ ہماری نظر میں ترقی کی معراج پر پہنچا ہوا ہے۔ گذشتہ ۵۰ برسوں میں وہاں کے باشندوں کو سائنسی ایجادات، ٹکنالوجی کے تنوعات اور وسائل کی فراوانی نے کیا کچھ نہ دے دیا۔ لیکن آج وہاں کی پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی جس میں سب پارٹیوں کے نمایندے شامل ہیں، اپنی رپورٹ میں بتاتی ہے کہ ’’ہمارے اسکولوں میں خوشی و مسرت پر کورس کروائے جا رہے ہیں اور برطانوی معاشرے کی خوبیوںپر گفتگو ہورہی ہے، لیکن برطانیہ میں رہنے والوں کا حال زیادہ قابلِ رحم (miserable) ہوتا جا رہا ہے‘‘۔
برطانیہ کے اخبار ٹائمز نے اس رپورٹ پر اپنی نامہ نگار رتھ گلڈہل (Ruth Gledhill) کی اسٹوری (۱۲ مئی ۲۰۰۸ئ)شائع کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’برطانیہ میں خوشیوں سے محرومی کی اصل وجہ دولت کی کمی نہیں ہے بلکہ خدا اور مذہب پر اعتقاد سے محرومی ہے۔ اس منصوبے کے پیچھے ہماری اصل فکر یہ تھی کہ اس ملک کے باشندے بددلی، عدمِ اطمینان اور بیگانگی کے شدید احساسات کا شکار ہیں، اطمینان اور خوشی کی کیفیت بہت زیریں سطح پر آگئی ہے۔ لوگ زندگی سے ’کچھ اور‘ کے متمنی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سوچ محدود ہے۔ مسائل پر پیسہ پھینک دینے سے کام نہیں چلتا، اپنا روایتی خول اُتار کر ان پر گفتگو کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ عمل اور تدبیر نہ کی جائے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے پالیسی ساز ان باتوں کو محسوس کرتے ہیں مگر انھیں نہیں معلوم کہ اس کے بارے میں کیا کیا جائے۔
رپورٹ میں ایک بڑی پتے کی بات کہی گئی ہے جو ہمارے لیے بھی قابلِ غور ہے۔ قدرتی بات ہے کہ رپورٹ عیسائی پس منظر میں لکھی گئی ہے مگریہ کہا گیا ہے کہ اس کا اطلاق دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر بھی ہوتا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ: ’’مذہبی گروہوں کی قیادت کے لیے یہ ایک عظیم موقع ہے مگر اسی صورت، جب کہ وہ ایک دوسرے کی برائیاں بیان کرنے، اور ہرچیز کی مخالفت کرنا ترک کردیں اور مثبت رویہ اپنائیں۔ یہ پیغام جس طرح راے سازوں کے لیے ہے، اسی طرح مذہب کے علَم برداروں کے لیے بھی ہے‘‘۔
رپورٹ کے مصنفین مقدمے میں لکھتے ہیں:’’ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ حالیہ برسوں کی تمام ترقیوں کے باوجود انسانی فلاح کا احساس، جسے آپ مسرت بھی کہہ سکتے ہیں، عام کیوں نہیں ہے؟‘‘ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس بے اطمینانی کی وجہ مادی نہیں ہے بلکہ کچھ خاص کلیدی اقدار کا ترک کرنا ہے۔ ’’اس لیے ہماری سفارشات میںنئے قوانین یا نئے ٹیکسوں کی تجویز نہیں دی گئی بلکہ یہ ایک پیغام ہے کہ معاشرے کے ہر دائرے میں جو بھی فیصلے کیے جا رہے ہیں ان کا جائزہ زندگی تبدیل کرنے والے اہم اصولوں کی روشنی میں لیا جائے‘‘۔ انھوں نے ہر فیصلے کے لیے پانچ ٹیسٹ تجویز کیے ہیں کہ آیا یہ اقدام اہلِ خاندان سے مثبت تعلقات کو فروغ دے گا اور کیا یہ اقدام اجتماعی اور عالمی طور پر ایک ذمہ دارانہ اقدام ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ جن اقدار کی جڑیں یہودی اور عیسائی اقدار میں ہیں، جو کبھی مغربی فلسفۂ قانون کی بنیاد تھے، ان پر زور دیا جائے گا تو سب کی بھلائی میں اضافہ ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’مسرت کے راستوں کو بتانے والی کتابوں سے آج کتابوں کی دکانیں بھری پڑی ہیں لیکن ہر طرح کی مادی اور اجتماعی ترقی کے باوجود ہمارا معاشرہ بالکل غیرمطمئن ہے۔ ہمارے لوگوں نے معاشی ترقی کی خاطر ایک دوسرے کا احترام، رشتوں کا تقدس اور ماحول کی نگہداشت، سب کچھ قربان کردیا ہے۔ لیکن خوش حالی کے باوجود ہم ۵۰سال پہلے سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ ہمیں مسرت کو پونڈ/اسٹرلنگ میں نہیں تولنا چاہیے اور نہ کامیابی کو یونی ورسٹی کی ڈگریوں سے‘‘۔
یہ رپورٹ ہمارے لیے بھی چشم کشا ہے۔ اگر ہمیں معاشرے کی بھلائی کی واقعی فکر ہے تو ہماری پارلیمنٹ بھی کوئی ایسی کمیٹی بنا سکتی ہے جو ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کرے کہ پاکستانی معاشرے میں لوگ کس طرح پُرسکون زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بنیادی فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہمارا مسئلہ معاشی ہے یا اخلاقی۔ آج ہم کسی بھی پریشانی کا جائزہ لیں تو اس کی بنیاد میں اخلاقی مسئلہ نظرآئے گا۔ ہماری پریشانیوں کی بظاہر بڑی وجہ معاشی نظر آتی ہے، گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو ہماری معاشی ناکامی کی اصل وجہ بھی اخلاقی نظر آئے گی۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ ایک ایسے دین کو مانتے ہیں جو دنیوی اور اُخروی فلاح، دونوں کے لیے مکمل ہدایات دیتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے فرض کرلیں کہ سب اچھے مسلمان بن جائیں، یعنی خدا سے ڈرنے والے ہوں، اُخروی زندگی کو اولیت دیتے ہوں تو ہمارے کتنے بہت سے بہ شمول معاشی مسائل حل ہوجائیں گے۔ آپ سوچیں کہ صرف ٹیکس ہی ایمان داری سے دیے جائیں اور ایمان داری سے وصول کیے جائیں اور ترقیاتی منصوبے خداخوفی کے ساتھ عمل میں لائے جائیں تو وصولی موجودہ سے دو گنا اور ترقیاتی کام چار گنا زیادہ ہوسکتے ہیں۔ ۶۰ سالوں میں اگر ایسا ہوتا تو آج ہم نام نہاد ترقی یافتہ معاشروں سے زیادہ خوش حال ہوتے، اور ہماری زندگیاں سکون و اطمینان اور اُس مسرت سے مالا مال ہوتیں جسے آج برطانیہ کا معاشرہ تلاش کر رہا ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ کی کمیٹی اقدار اور پیمانے تلاش کر رہی ہے۔ہم تو سب کچھ جانتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس یقین سے محروم ہوگئے ہیں کہ حقیقی فلاح دین پر مکمل عمل کرنے میں ہے۔ قیادت کو اس پر یکسو ہونا چاہیے۔ حکومتی پالیسی ہونا چاہیے کہ ہرفیصلے کو اللہ و رسولؐ کے احکام کی میزان پر تولا جائے، نیز آخرت کی جواب دہی کو کتابوں اور وعظوں تک نہ رکھا جائے بلکہ معاشرے کی زندہ حقیقت بنانے کے لیے حکومتی اقدامات کیے جائیں۔ دستور میں سب لکھا ہے لیکن دستور کا دم بھرنے والے دستور پر عمل تو کریں۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو ہم بحیثیت قوم خَسِرَ الدّنیا والآخِرۃ کے مصداق بن جائیں گے۔ آخرت کا نقصان بھی اٹھائیں گے اور برطانیہ جیسی ’خوش حالی‘ کی طرف بھی دوڑتے ہی رہیں گے۔