حالاتِ حاضرہ پر تحریر ۱۵ سال میں پرانی ہوجانا چاہیے، لیکن محترم خرم مراد کی یہ تحریر پڑھیں تو بالکل آج کی تحریر معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے نبض پر ہاتھ رکھ کر مرض کی تشخیص کی ہے اور نسخۂ شفا تجویز کیا ہے۔ لیکن شفا کے لیے شرط نسخے کے استعمال کی ہے۔ (ادارہ)
موجودہ پاکستان اور ہماری ذمہ داریوں کے حوالے سے اگر مختصراً جائزہ لیا جائے تو اس کے دو پہلو ہیں۔پہلے ایک نظر موجودہ پاکستان پر ڈالنا ضروری ہے، اور پھر اس کے حوالے سے ہم اور آپ کیا کر سکتے ہیں، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ پاکستان اُس پاکستان سے بالکل مختلف ہے جو ۱۹۴۷ء میں معرض وجود میں آیا تھا، جغرافیائی طور پر بھی اور معنوی و روحانی طور پر بھی۔ یہ وہ پاکستان بھی نہیں ہے جس کا خواب دیکھ کر برعظیم کے مسلمانوں نے خاک وخون کے دریا سے گزر کر پاکستان کو وجود بخشا تھا۔ جغرافیائی طور پر اپنے وجود کے لحاظ سے جو پاکستان ۱۹۴۷ء میں تھا، وہ دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ اب اس کا آدھا حصہ ہے جو اس وقت پاکستان کے نام سے موجود ہے۔ اس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ، بلکہ اکثریتی حصہ پاکستان سے الگ ہوچکاہے۔ جس دھڑکے دو حصے ہو جائیں وہ خود اپنی جگہ پر اس بات کی علامت ہے کہ وہ شدید انتشار اور مسائل سے دو چار ہے۔
معنوی اعتبار سے جب پاکستان وجود میں آیا تھا تو عزائم اور امیدوں کے خزانے لوگوں کے دلوں میںموج زن تھے۔ مگر منزل کی طرف پیش رفت کے لیے جو ہمتیں اور حوصلے اور جوجذبے اور آرزوئیں اُس وقت عوام کے دلوں میں موج زن تھیں، آج وہ ناپیدہیں۔ ان کی جگہ ایک مایوسی، قنوطیت، بے ہمتی اور بے حوصلگی کی کیفیت ہے۔
جب پاکستان وجود میں آیا تواس وقت عزائم بلند تھے، امنگیں توانا تھیںاور بازوئوں اور دلوں میں جذبہ اور قوت تھی۔ آج جدھر بھی چلے جائیں___ میں نے اس ملک کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کا حوالہ دیا ہے___ لوگ سنجیدگی سے پوچھتے ہیں اوران کو پوچھنے کا حق ہے___ اس لیے کہ ماضی ان کی نگاہوں کے سامنے ہے___ کیا پاکستان سلامت رہے گا؟ اندر اور باہر کے لوگ بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اس پاکستان کا سلامت رہنا ناممکن نہیں تومشکل ضرور ہے۔
وہ پاکستان جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا کہ یہ ملت اسلامیہ کی امنگوں کا ترجمان اور مظہر ہوگا، یہاں زندگی اس تہذیب و ثقافت، اس عقیدے اور ایمان اور اس نظام کے مطابق تشکیل پائے گی جو بحیثیت مسلمان ہمارا نظام ہے، مگر وہ منزل بظاہر آج قریب نہیں، بلکہ دور نظر آتی ہے۔
اگر ہم معنوی طور پر دیکھیں تو یہ کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ یہ ملک ہمارے لیے ایک کشتی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں ہم سب کشتی کے مسافر کی طرح سوار ہیں۔ اس کو جو حادثہ پیش آئے گا اس میں ہم برابر کے شریک ہوں گے۔ یہ کشتی ایک ایسے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے کہ اس کا تختہ تختہ ہل رہا ہے۔ جو لوگ اخلاقی اور دینی حوالے سے اپنے آپ کو بلند اور اس کشتی کے پاکیزہ حصے سے متعلق سمجھتے ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ نچلے حصے کے لوگ، اور نچلے حصے سے مراد طبقاتی یا مادی یا علمی نچلا پن نہیں ہے بلکہ اخلاقی اور ایمانی لحاظ سے جو لوگ نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس کشتی میں چھید کر رہے ہیں۔پانی اندر آرہا ہے، کشتی پانی سے بھر رہی ہے اور جوکشتی پانی سے بھر جائے، اس کی سلامتی مخدوش ہو جاتی ہے، بلکہ وہ تباہ و برباد ہو سکتی ہے اور سمندر کی نذر ہوسکتی ہے۔
یہی کیفیت ہمارے ملک کی ہے۔ یہ نچلا طبقہ جس میں ان مناصب پر بھی لوگ فائز ہیں جو پاکستان کے اعلیٰ ترین مناصب ہیں، اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو لائن مین ہوں یا میٹر ریڈر، سٹرک پر کھڑا ہوا کانسٹیبل ہو یا پٹواری جو زمین کی حدبندی کرتا ہے___ہر شخص اور ان کی بہت بڑی تعداد کشتی میں چھید کرنے میں مصروف ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ قانون نام کی چیز کتابوں میں پائی جاتی ہے لیکن قانون کی پابندی سے ہر ایک اپنے آپ کو بالاتر سمجھتا ہے۔ صدر ریاست بھی قانون توڑتے ہیں، کمانڈر انچیف بھی قانون توڑتے ہیں، وزیراعظم بھی قانون توڑتے ہیں، سول سرونٹ بھی قانون توڑتے ہیں، اور خود قانون کے محافظ، قانون کے نگراں، قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی قانون توڑتے ہیں۔ قانون شکنی اس ملک کا ایک عام رواج ہے اور قانون کی پابندی ایک استثنا ہے جو بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔
سیاسی طور پر یہ ملک اس قدر غیر مستحکم ہے کہ نصف صدی گزرنے کے باوجود بھی کسی حکومت کے بارے میں یہ اعتبار نہیں ہوتاکہ وہ قائم رہے گی، اور اپنے مقام پر اپنے فرائض انجام دے سکے گی۔ پچھلے چند انتخابات ہمارے سامنے ہیں اور وہ حکومتیں جو بظاہر بڑی مستحکم رہی ہیں جو قوت اور اسلحے کے بل پر قائم ہوئیں، وہ جب رخصت ہوئیں تو ملک کو مزید غیرمستحکم کرکے رخصت ہوئیں۔ سید مودودیؒ کے الفاظ میں: گویا کہ مین ہول یا گٹر پر ڈھکن رکھا ہوا تھا اور پانچ پانچ، دس دس سال کے اندر جو گندگی اور سٹراند جمع ہوتی رہی، وہ لوگ دیکھ نہیں سکے تھے لیکن جیسے ہی حکمران رخصت ہوئے، وہ منظر عام پر آگئی۔
پہلی ۱۰سالہ جبری حکومت رخصت ہوئی تو تحفے میں ملک کی تقسیم اور پیپلز پارٹی کی حکومت کا تحفہ دے کر گئی۔ ملک دو لخت ہو گیا اور پاکستان کی باگ ڈورپیپلز پارٹی کے ہاتھ میں آگئی۔
دوسری حکومت رخصت ہوئی تو مسلسل چھے سال تک زلزلے کا عالم ملک کے سیاسی نظام پر طاری رہا۔ معاشی گرانی اور بے روزگاری نے کمر توڑ کر رکھ دی اور عالمی امداد کی آڑ میں پاکستان کو بھکاری بنا کر رکھ دیا گیا۔
پہلے ہی دن سے گداگری کو پاکستان کا شیوہ بنا دیا گیا۔ بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ پاکستان بننے کے دو ماہ بعد پاکستان کے پہلے گورنرجنرل کا سفیر، واشنگٹن خیرات کی درخواست لے کر پہنچا اور اس زمانے میں دوہزار ارب ڈالر کی امداد دی گئی۔ یہ اتنی بڑی رقم تھی کہ اس کے ملنے کا خواب بھی آدمی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کے بدلے میں یہ یقین دلایا گیا کہ اس علاقے میں امریکا کے مفادات کے ہم محافظ ہیں ، اور اس کے جو سامراجی بین الاقوامی عزائم ہیں، ان کی تکمیل کا ذریعہ بنیں گے۔ اس امداد کے لیے جن اشیا کی فہرست دی گئی تھی، اس کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اس لیے کہ اسی میں سپاہیوں کی تنخواہیں بھی امداد کے طور پر امریکا سے طلب کی گئی تھیں۔ اس سے انکار نہیں ہے کہ پاکستان جس بے سروسامانی اور کس مپرسی کے عالم میں وجود میں آیا تھا، ان حالات میںشاید باہر سے امداد لینا ضروری ہوتا لیکن امداد لینے والوں اور خیرات لینے والوں نے امداد کے نام پر اس ملک کی آزادی کو آزاد ہوتے ہی بیرونی قوتوں کے ہاتھ میں گروی اور رہن رکھ دیا۔ سیاسی طور پر ان کا سفیر یہاں کا وائسراے کہلانے لگا، اورمعاشی طور پر امداد کے سنہرے جال میں ہمارا بال بال بندھ گیا۔ یہاں تک کہ آج جو کچھ بھی ہم بجٹ میں بھاری ٹیکس لگا کروصول کرتے ہیں اس کا بڑا حصہ قرضوں کی ادایگی میں ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے بجٹ کا یہ بڑا حصہ ابتدا ہی سے ترقیاتی کاموں پر لگاتے تو وہ رقم اس سے کہیں زیادہ ہوتی جو ہم نے امداد کے طور پر حاصل کی۔ پھر قرض کا یہ تناسب بڑھتاچلا جائے گا اور ایک وقت آئے گا کہ شاید پوری آمدنی دے کر بھی ہماری جان نہیں چھوٹے گی۔
دوسری طر ف اس الزام کے باوجود کہ ہم بجٹ کا۳۷ فی صد اسلحے اور فوج پر خرچ کرتے ہیں، یہ حقیقت تاریخ کے صفحات کے اندر موجود ہے کہ ہر سال اپنا پیٹ کاٹ کے تعلیم کو قربان کرکے، صحت کو قربان کرکے اور پائی پائی جوڑ کے ہم فوج کی صورت میں جو قوت پالتے رہے ہیں، وہ ہمارے ملک کو دو ٹکڑے ہونے سے نہیں بچا سکی۔ شروع سے لے کر آج تک کے کمانڈر انچیف واشنگٹن ’حج‘ پر جاتے ہیں اور وہاں کے ’باب ملتزم‘ سے چمٹ کر امداد کی درخواستیں کر کے، امداد لے کر واپس لوٹتے ہیں۔
ہماری نیوکلیئر پالیسی ہو یا کشمیر پالیسی یا افغان پالیسی، سب پر امریکا کی نظر ہے۔ ہمارے سر پر تلوار لٹکتی رہتی ہے کہ ابھی ہم نے تمھیں دہشت گرد قرار نہیں دیا لیکن اس تمام تر صورت حال پر ہم گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہر دو ہفتے یا ایک ماہ بعد یہ خبر آتی ہے کہ اب ملک کو دہشت گرد قرار دیا جانے والا ہے۔ اس پر ہم اور ہمارے حکمران کانپ اٹھتے ہیں، اور پھر اطمینان دلایا جاتا ہے کہ نہیں ابھی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ مسلسل خوف میں رکھنا ٹارچر اور تعذیب کا ایک بڑا معروف طریقہ ہے۔ اپنی مرضی کے کام کرانے کے لیے ہلاک کرنے سے اتنا فائدہ نہیں ہوتا جتنا مسلسل خوف اور ڈر کے اندر مبتلا رکھنے سے ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد آدمی زیادہ فائدہ دیتا ہے،اور وہ سب کام کرتا ہے جو کہ کرانے والا چاہتا ہے۔
ہمارے ملک کے اندر خوںریزی اور قتل و غارت کا جو بازار گرم ہے، یہ نبی کریمؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس امت کوجو نصیحتیں فرمائی تھی کہ تمھارے مال، تمھارے خون اور تمھاری عزتیں ایک دوسرے کے اوپر اس طرح حرام ہیں جس طرح آج کے دن کی ، اس شہر کی اور اس مہینے کی حرمت ہے، اور دیکھو، میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ پنجابی ہو یا بنگالی ،عرب ہو یا ترک، یمن ہو یا مصر، شام ہو یا عراق… کبھی حجاج بن یوسف جیسے حکمرانوں کے ہاتھوں اور کبھی آپس میں نسلی اور لسانی تفرقوں کے ہاتھوں، جب کہ یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر، کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، مگر زبان ، نسل اور رنگ کی خاطر کلمہ پڑھنے والے ایک دوسرے کا خون بہانے میں مصروف ہیں۔ اس میں ریاستی ادارے، فوج اور پولیس،ڈکٹیٹر اور حکمران اور عام آدمی، سب ہی شامل ہیں۔ فرقہ واریت کی خاطر خون بہانا بالکل ایک عام رواج بن گیا ہے۔
الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَo وَاِذَا کَالُوْھُمْ اَوْ وَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَo (المطففین ۸۳:۲-۳) جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں، اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انھیں گھاٹا دیتے ہیں۔
ان سب امراض سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس لیے بھی کہ انھی امراض نے پہلی قوموں اور امتوں کو ہلاک کر دیا تھا۔اسی وجہ سے انھوں نے اللہ نے جو حرمتیں قائم کر دی ہیں، یعنی جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت ، ان کو حلال کر دیا۔
یہ مرض تو رگ رگ اور ریشے ریشے میں پھیل چکا ہے۔ مغربی تہذیب دنیا کی محبت اور زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کی فکر کا نام ہے۔ اسی لیے مغرب دجّال کی یہی جنت لے کر آیا کہ اگر انکار کرو گے تو پستی ، پسماندگی اور افلاس کی جہنم میں جلو گے اور ایمان لائو گے، تو ہماری ترقی کے نظارے دیکھو گے۔ یہ موٹروے، یہ کارخانے، یہ ٹیلی ویژن اور بے شمار سائنسی ایجادات اسی ترقی کا نتیجہ ہیں۔ گویا معاشی ترقی ہی سب کچھ ہے۔ اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ اول جماعت سے انگریزی پڑھو گے تو ترقی نصیب ہوگی، کارخانے بنائو گے تو معاشی بہبود نصیب ہوگی۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ۴۰سال کی معاشی ترقی کے بعد بھی لوگ ویسے ہی غریب، پسماندہ اور جاہل ہیں۔ انگریزی پڑھ کے نہ ہم نے وہ سائنس دان پیدا کیے اورنہ وہ علما، نہ وہ فلاسفر پیدا کیے اور نہ وہ مفکر ین جو مغرب پیدا کر رہا ہے۔ گویا تعلیم میں بھی افلاس سے دوچارہیں اور معاشی طور پر بھی افلاس اور بدحالی میں مبتلاہیں۔
مغرب نے معاشی ترقی کو دیوی بنا کر اس کی پرستش کی ہے۔ یہ وہ سونے کا بچھڑا تھا جومغرب کے سامری نے گھڑ کے ہمارے سامنے رکھ دیا اور مسلمان ملت ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اس کی پرستش میں مصروف ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ شاید یہ امت بنی ہی اس لیے تھی کہ کارخانے بنائے، اور مال و دولت جمع کرے۔
جب مال بنانے کی حرص وہوس اور دینے میں بخل اور کنجوسی اور اغراض رگ رگ میں پھیل جائے تو پھر یہ باہمی افتراق و انتشار اور پستی و بدحالی کا سبب بنتے ہیں۔ جب معاشی ترقی ہی حاصل ٹھیری تو پھر ذاتی اغراض اور مفاد ہی مقدم ہوتے ہیں۔ پھر شاید میرے محلے، میری نسل اور میری قوم کی بات بہت دور جا کرآخر میںکہیں آتی ہے۔ آج جو خوں ریزی پائی جاتی ہے اس کی جڑ بھی اسی میں موجود ہے۔
مختصراً میں نے آپ کے سامنے موجودہ پاکستان کا نقشہ کھینچا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ؎
تن ہمہ داغ داغ شد
پنبہ کجا کجا نہم
گویا پورا جسم زخموں سے چور ہے، آدمی مرہم کہاںکہاں رکھے، کس کس طرف آدمی انگلی اٹھائے کہ یہ اور یہ جرائم ہیں۔
بظاہر جو پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ طبقہ ہے، جس سے ہم اور آپ بھی متعلق ہیں،وہ چند ایک شعبوں میں کامیابی سے ہم کنار ہونے کے بعدسمجھتا ہے کہ ہماری ذمہ داری ادا ہوگئی۔لیکن یہ رویہ انبیاؑ کی روش نہیں تھی۔ ان کی قومیں جس جاہلیت کے اندر مبتلا تھیں، وہ اس سے کہیں زیادہ تھی۔ بسااوقات ایک بھی صاحب ِخیر مشکل سے نظر آتا تھا۔ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ o (ھود ۱۱: ۷۸) کی صدا وہ بلند کرتے تھے لیکن ایک بھی آدمی نہیںملتا تھا جو صحیح بات کہنے والا ہو۔ حتیٰ کہ ایک ہزار سال کی دعوت اور جدوجہد کے بعد بھی وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌo (ھود ۱۱: ۴۰) کا منظر ہوا کرتا تھا۔ اس سب کے باوجود وہ مایوس نہ ہوئے بلکہ اپنی قوم کے درد اور سوز میں تڑپتے تھے، مضطرب رہتے تھے کہ کسی طرح قوم صحیح راستے پر آجائے۔ بُرا بھلا کہہ کر مرثیہ پڑھ کر بیٹھ نہیںجایا کرتے تھے،بلکہ ان کی روش تو یہ تھی:
فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَo (اعراف ۷:۹۳) اب میں اُس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبولِ حق سے انکار کرتی ہے۔
یہاں تک کہ جب عذاب کی آخری گھڑی بھی آجاتی تو کہتے تھے کہ ہم نے تو نصیحت کی کوشش کی اور روتے ہوئے رخصت ہوا کرتے تھے کہ قوم کا یہ انجام ہوا۔ لہٰذا قوم کو برا بھلا کہنے یا مرثیہ پڑھنے سے ہماری اور آپ کی ذمہ داری ادا نہیں ہوتی۔ ماضی کے جائزے اور مسائل کے تذکرے کا بنیادی مقصد اس بات کا احساس دلانا ہوتاہے کہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ نبی کریمؐکے ارشاد کے مطابق: کلکم راعٍ و کلکم مسُٔول عن رعَیْـتِہٖ، تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
اس لیے وہ لوگ جن کے پاس دین کافہم اور دین کا علم ہے اور جنھوں نے دین کے لیے حلف اٹھایا اور عہد کر رکھا ہے، ان سے بڑھ کر کون راعی ہوگا، اور ان سے بڑھ کر کس کو اپنی رعیت کا سوز اور درد و غم ہونا چاہیے۔ ان کو تو گھلنا چاہیے یہاں تک کہ گلا گھٹنے لگے جیسا کہ نبی کریمؐ کی حزن کی کیفیت تھی۔
فَلَا یَحْزُنْکَ قُوْلُھُمْ اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَo (یٰسٓ ۳۶:۷۶) اچھا ،جو باتیںیہ بنا رہے ہیں وہ تمھیں رنجیدہ نہ کریں، ان کی چُھپی اور کھلی سب باتوں کو ہم جانتے ہیں۔
یہ اس کیفیت کی عکاسی ہے جو حضوؐرکے اوپر طاری تھی۔آپؐ جانتے تھے کہ جب میری قوم نے میرا انکار کر دیا اور مجھے نکال باہر کیا تو پھر اس کا مقدر ہلاکت اور تباہی ہو گا۔ ہم تو اس مقام پر بھی نہیں ہیں۔ یہ تو انبیا کی خصوصیت ہے کہ جب ان کی قوم رد کر دے تو قوم ہلاکت و تباہی میں مبتلا ہو جاتی ہے۔
ہم تو یہ بھی نہیںکہہ سکتے ہیں کہ ہم نے پہنچانے کا حق اور ذمہ داری ادا کر دی ہے۔ لیکن یہ ہماری اور آپ کی ذمہ داری ہے۔ اللہ نے جن کو دین کا علم اور دین کا فہم دیا ہے، سب سے پہلے ان سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ہم سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس کی فکر ہونی چاہیے اس لیے کہ لوگ اس بنیاد پر ہماری گردن پکڑ سکتے ہیں۔ قرآن مجید نے وہ جن کے پاس علم ہو اور جواس کو دوسروں تک نہ پہنچائیں اور اس کا حق ادا نہ کریں جیسا کہ اس نے سب سے عہد لیا ہے کہ اسے لوگوں تک پہنچائیں اور اس کو بیان کریں، ان کے بارے میں بڑی وضاحت سے فرمایا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَامِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْم بَعْدِ مَا بَیَّـنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ لا اُولٰٓئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَo اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْھِمْ ج وَاَنَاالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُo اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَo خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ج لَا یُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ وَلَاھُمْ یُنْظَرُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۹-۱۶۲) جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانوکہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ البتہ جو اس روش سے باز آجائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے، اسے بیان کرنے لگیں، ان کو معاف کر دوں گا اور میں بڑا درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔ جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کو سزا میں تخفیف ہو گی اور نہ انھیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’’امتِ وسط‘‘بنایا ہے، تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو۔
اور اس کی تعبیر بھی سامنے رکھ دی ہے۔ اب سب سے بڑھ کر یہ ہمارے پاس امانت ہے، اورہمارا اور آپ کا فرض ہے کہ یہ قوم جو تباہی کے کنارے لگ چکی ہے، وہ کشتی جس کا تختہ تختہ اس طوفان نے ہلا کر رکھ دیا ہے، اس کی سلامتی کے لیے ہم اٹھ کھڑے ہوں اور اپنا حق اور فرض اداکریں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اگر ہم ایک ایک زخم کے اوپر مرہم رکھتے جائیں گے، اورایک ایک پھوڑے کا علاج کریں گے تودوسرا نکل آئے گا، اور گذشتہ ۴۵سال سے ہم یہی منظر دیکھ رہے ہیں۔ حالات کو بہتر کرنے کے لیے اور قوم کی قسمت سنوارنے کے لیے مدعی آتے ہیں اور اپنی اپنی جگہ کوشش کرتے ہیں مگر جب جاتے ہیں تو قوم کی قسمت مزید بگڑی ہوئی ہوتی ہے، حالات مزید خراب ہو چکے ہوتے ہیں۔
فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ (البقرہ ۲:۱۰) ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے۔
فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُوْرِo (الحج ۲۲:۴۶) حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میںہیں۔
وہ سب قوتیں اور عناصر جو اس ملک کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں، جو اس دھرتی کے سینے میں چھید کرنے میںلگے ہوئے ہیں، جو ملکی وسائل اور خزانے کو لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں، جو ملک کی سلامتی کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں، ان کی آنکھیں خوب دیکھ رہی ہیں، ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہیں، ان کو خوب معلوم ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیںلیکن ان کے دل اندھے ہو گئے ہیں۔
یہ دلوں کا اندھا پن زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی ہوس اور نہ دینا، روکے رکھنا، جمع کرنا، گن گن کے رکھنا اور حق نہ ادا کرنے کا نتیجہ ہے۔ سیاست میں کسی دوسرے کو جگہ نہ دینا ،ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا، روا داری کا مظاہرہ نہ کرنا،اس کی بنیادی وجہ دل کی تنگی ، بخل اور کنجوسی ہے۔ جب دل کھلتا ہے تو مال و دولت بھی آدمی دونوں ہاتھوں سے دیتا ہے۔ پھرغصے، نفرت اور انتقام کے طوفان بھی دل کے اندر سما جاتے ہیں اور تھم جاتے ہیں۔ اہلِ ایمان کی حقیقت تو یہ بتائی گئی ہے:
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط ( اٰل عمرٰن ۳:۱۳۴) جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔
یہ دونوں صفات ساتھ ساتھ اور پہلو بہ پہلو ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ آدمی سخی ہو اور دل کا تنگ بھی ہو، معاف کرے اور انتقام بھی لے۔ لیکن یہاں تو دونوں طرح کی کنجوسی اور بخل چھایا ہواہے۔ اس کی چربی دل کی آنکھوں پر چڑھ گئی ہے۔ اس نے دلوں کو اندھا کر دیا ہے۔
ہمارا کام تو یہ ہے کہ ہم دلوں کو جگائیں، دلوں کو بیدار کریں، دلوں کی بستی کو آباد کریں۔ ان میں خدا کی محبت پیدا کریں اور دنیا سے بے نیازی پیدا کریں۔ اس کے بغیر اس قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ ہم چاہیں کہ اوپر سے کوئی لیپ پوت کرکے یہ قوم صحیح راہ پہ آ جائے، تو ایسا نہیں ہوسکتا۔ دلوں کے اوپر جوتالے پڑے ہوئے ہیں، ہم اگر ان کو ایمان اور خدا کی محبت کی کنجی سے نہیں کھولیں گے تو قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر اس قوم میں بے پناہ قوت کے خزانے پوشیدہ ہیں۔ یہ کام ہے جو ہمارے آپ کے کرنے کا ہے۔
ہزار وعظ کیے جائیں کہ یہ غلط ہے اور وہ صحیح، یہ کرواور وہ نہ کرو،مگر جن کے دل پتھر کی طرح سخت ہو چکے ہوں، ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا پتھروں سے بھی چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور پانی رسنے لگتا ہے، اورخدا کی خشیت اور خوف سے بھی پتھر گر پڑتے ہیں، اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیںمگر جو دل پتھر سے زیادہ سخت ہوں ان پر کلام نرم و نازک بے اثر ہو جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ قرآن کہتا ہے:ـ
فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثَاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً (المائدہ ۵:۱۳) پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کر دیے۔
قرآن نے اس کی وجہ صاف بیان کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وعظ بھی ہوتے ہیں، درس بھی ہوتے ہیں، قرآن بھی پڑھے جاتے ہیں، دعائیں بھی مانگی جاتی ہیں لیکن اثر نہیں ہوتا، پتھروں سے پانی نہیں بہتا، اس لیے کہ دل تو پتھر کی طرح سخت ہیں۔
یہی ایک نسخہ ہے جس سے پوری قوم کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ جب کسی قوم اور افراد کے سامنے کوئی مقصد ہو اور کسی چیز سے محبت ہو تو اس کے بعد ہی اصلاح ممکن ہوتی ہے اور کسی کو عمل پر ابھارا جا سکتا ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ ایسا محض وعظ و نصیحت اور علم و شعورسے ہو جائے تو ایسا ممکن نہیں۔ اس لیے کہ علم تو شیطان کے پاس بھی بہت تھا۔ علم تو مستشرقینِ اسلام کا بھی بہت ہے۔ علم کی ضرورت و اہمیت اپنی جگہ ،لیکن علم کے ساتھ دل کی بیداری بھی ضروری ہے۔ علم کی امانت ہمارے پاس ہے مگر علم خود فی نفسہٖ کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ بڑے بڑے علما گزر گئے مگر جن کے دل سخت تھے ان کا کچھ نہیں کر سکے، اپنی قوم کو کچھ نہیں دے سکے۔یہی وہ بات ہے جس کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے ؎
زندگانی را بقا از مدعاست
کاروانش را درا از مدعاست
کارواں کے لیے منزل و مقصد کا استحضار، بانگِ درا کی حیثیت رکھتا ہے جو قافلے کے متحرک رہنے کی علامت ہے۔گویا قوموں کی زندگی اگر باقی رہتی ہے تو مقصد سے وابستگی، مقصدسے محبت اور لگن سے باقی رہتی ہے۔
جب ہم قوم کو اُس مقصد کے لیے بیدار کر دیں، اُس راہ پر لگا دیں اور اُس مقصد سے وہ چمٹ جائے، جو مقصد اللہ کے عہد کے حوالے سے ہمارے اوپر عائد ہوتا ہے، تو اس کی زندگی کو بقا مل سکتی ہے۔ یہ عہد اور مقصد ایک لنگر اور پتوار ہے جس سے طوفان میں ڈوبتی کشتی بچ سکتی ہے، اس کا تختہ تختہ ہلنا بند ہوجائے گا، اور پھر اس کے بعد یہ اپنی منزل کی طرف بڑھے گی۔
ہم اگر اور کچھ نہ کرسکیں توکم از کم یہ آرزو اپنے دلوں کے اندر زندہ رکھیں اور دوسروں کے دلوں کے اندر بیدارکردیں اور اس کی جستجو اور سعی میں لگے رہیں ؎
زندگی در جستجو پوشیدہ است
اصلِ او در آرزو پوشیدہ است
جستجو ہی زندگی کا راز ہے، زندگی تو اسی میں ہے کہ آدمی جستجو میں لگ جائے، یہ کام کرجائے، اس مقصد کے لیے تگ و دو کرے، اور اسی کی آرزو دل میں سلگتی رہے ؎
آرزو را در دِلِ خود زندہ دار
تانگردد مشتِ خاکِ تو مزار
لہٰذا اس آرزو کا چراغ کم از کم دل میں جلائے رکھو، اس آرزو کو دل میں سلگنے دو۔ اگر یہ بھی ختم ہو گئی تو پھر یہ مٹھی بھر مٹی کے پتلے چلتی پھرتی قبریں بن جائیں گے۔
حضرت مسیحؑ بنی اسرائیل سے مخاطب ہو کر کہا کرتے تھے کہ تمھاری مثال تو ان قبروں کی طرح ہے جن کے باہر تو سفیدی کر دی گئی ہے، اور اندر گندگی اور مردہ ہڈیاں اورخون اور پیپ جمع ہے۔ آج امیر طبقوں سے لے کر نچلے طبقوں تک وضع قطع، کلام، سب کچھ دیکھ لیں، ان کی کیفیت ایسی ہی ہے۔
موجودہ حالات میں بگاڑ کو روکنے اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے دراصل یہی ایک راہ ہے اور یہی ہماری ذمہ داری ہے۔ میں نے آپ کے سامنے کوئی لمبی چوڑی فہرست نہیں پیش کی بلکہ اصلاحِ عمل کے لیے لوگوں میں خدا کی محبت جگانا اور دنیا سے بے نیازی پیدا کرنی ہے۔یہی کرنے کا کام ہے اور اسی میں آج کے پاکستان کی بقا اور نجات ہے۔ (کیسٹ سے تدوین: امجدعباسی)
(تقسیمِ عام کے لیے کتابچہ دستیاب ہے، ۴۰۰ روپے سیکڑہ، منشورات، منصورہ، لاہور)