ادارہ ترجمان القرآن کی جانب سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ اسلامی احیاء کے لیے کن فکری اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے؟ امید ہے کہ اس سوال کے جواب میں اہل فکرونظر کی جانب سے بہت سی مفید تجاویز سامنے آئیں گی۔ میں تفصیلی عملی تجاویز کے بجائے چند بنیادی نظری پہلوؤں کو اپنی تحریر میں زیر بحث لانا چاہتا ہوں۔
احیائے اسلام کے لیے سب سے پہلی ضرورت خود اُمت کے احوال میں تبدیلی ہے۔ صرف بیرونی اور دفاعی کوششیں اس کے لیے کافی نہیں ہیں، اصل توجہ اندر کی طرف مطلو ب ہے۔ سورۂ رعد اور اور سورۂ انفال کی دو مشہورآیات قوموں کے عروج و زوال کی بحث میں ہمیشہ نقل کی جاتی ہیں:
اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۰ۭ (الرعد۱۳:۱۱) اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے 'انفس میں تبدیلی نہ کرلے۔ ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۰ۙ (انفال ۸:۵۳)یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ ’’وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے 'انفس کو نہیں بدل دیتی‘‘۔
ان آیتوں میں دو بڑی تبدیلیوں کا ذکر ہے: ’تغیر اللہ‘ کا دائرہ قوم کے مجموعی حالات ہیں۔ جن میں عروج و احیاء، قوت و کمزوری، تمکین و تنزل، دولت و افلاس،علم و جہالت، عزت وسربلندی اور ذلت و پستی، وغیرہ شامل ہیں۔یہ تبدیلی قوم خود نہیں لاتی بلکہ اللہ تعالیٰ لاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ان ظاہری تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرکے احیاء و سربلندی کی کوئی تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔
دوسری تبدیلی ’تغیر القوم‘ ہے جس کا دائرہ 'انفس ہے۔ قوم جب اجتماعی طور پر اپنے 'انفس میں تبدیلی لاتی ہے تو اللہ تعالیٰ قوم کی حالت میں تبدیلی لاتا ہے۔گویا تبدیلی کا اصل ایجنٹ قوم کی اجتماعی نفسیات ہے۔ کسی قوم کو نہ اس کے دشمن ذلت و پس ماندگی کی کھائیوں میں دھکیل سکتے ہیں ، نہ اس کے دوست اور حلیف ، عروج و سربلندی کی چوٹیوں پر پہنچاسکتے ہیں، نہ حالات کے تھپیڑے اس کا مقدر بگاڑ سکتے ہیں اور نہ زمان و مکان کی خوش گواری اس کی قسمت چمکاسکتی ہے۔ حالت بدلتی ہے تو صرف اجتماعی نفسی کیفیت، یعنی انفس کی تبدیلی سے بدلتی ہے۔ تبدیلی کے بیج بوئے جاسکتے ہیں تو وہ صرف اور صرف افکار و خیالات،مزاج و نفسیات اور جذبات و احساسات کی زمین میں، یعنی انفس کی زمین میں بوئے جاسکتے ہیں۔
ہمارے خیال میں اسلام کے اوراُمت کے احیا کے لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ سب سے زیادہ اس چیز پر یعنی اُمت کے انفس پر یا اُمت کی اجتماعی نفسیات پر توجہ دی جائے۔ انفس کی دیگر تفصیلات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، ہم اس تحریر میں دو سب سے زیادہ اہم باتوں کو زیربحث لانا چاہتے ہیں: ایک اپنی حیثیت اور مقصد کا شعور، اور دوسرے اجتماعی اخلاق اور اساسی قدروں کے نظام کا استحکام۔
جدید علم انتظام اور علم قیادت میں اسٹرے ٹیجی (strategy) اور اسٹرے ٹیجک مینجمنٹ (strategic management) کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اسٹرے ٹیجی کے بغیر کسی اجتماعیت کو بامعنی اور باشعور اجتماعیت (mature organisation)سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اسٹرے ٹیجی میں مقصد و نصب العین کو مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ مقصد ونصب العین، اعتقادات یعنی belief system کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر کسی ادارےیا اجتماعیت کے عقائد کچھ اور ہوں، اورہدف کچھ اور،تو یہ ٹکراؤ اُسے کامیاب ہونے نہیں دیتا۔
اسی طرح اسٹرے ٹیجی کا ایک اہم حصہ اجتماعیت کی بنیادی اقدار (core values)ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی کامیاب اور باشعور اجتماعیتوں کے پاس اپنے عقائد، وژن اور قدروں یعنی کور ویلیوزکا نہایت مستحکم نظام پایا جاتا ہے۔ ان کا ایک دوسرے سے گہرا ربط و ارتباط ہوتا ہے اوراجتماعیت پر ان کی حکمرانی ہوتی ہے۔اُمت کی کم زوری کا ایک بڑا سبب اجتماعی نفسیات کی سطح پر اس پورے نظام کا درہم برہم ہونا ہے۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ اُمت کا عقیدہ کچھ اور ہے اور عملاً اس کے اجتماعی مقاصد کچھ اور ہیں۔قرآن و سنت کی تعلیم کے مطابق اخلاق کے تصورات کچھ اور ہیں اور عملاً رائج معمولات (social norms) کچھ اور ہیں۔ اس نظام کے درہم برہم ہونے کے نتیجے میں اُمت ایک کٹی پتنگ بن کر رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف اور متضاد سمتوں میں ہوا کے دوش پر ڈولتے ہوئے ہم وہ قوت حاصل نہیں کرپارہے ہیں، جو چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے اور عروج و احیاء کی سمت پیش رفت کے لیے ناگزیر ہے۔
جہاں تک نصب العین کا تعلق ہے، تحریکات اسلامی کی صد سالہ جدوجہد کے باوجود حقیقت واقعہ یہی ہے کہ لاشعور اور جذبے کی سطح پر اُمت کے سامنے آج بھی ایسا واضح نصب العین نہیں ہے، جو اُس کے عقیدے سے پوری طرح ہم آہنگ بھی ہو، اوراُمت کا مشترک نصب العین (shared vision) بھی بن سکے۔یعنی اُمت میں ہر آنکھ کا خواب اور ہر دل کی آرزو اور تمنا بن جائے۔حالانکہ ایسانصب العین، اللہ کی کتاب نے بڑی وضاحت سے اُمت کو دے دیا ہے۔ اُمت مسلمہ خود اپنے ایمان و عقیدے کے مطابق ایک خاص حیثیت و کردار کی مالک ہے۔ قرآن مجید میں اسے ’خیر اُمت‘ (بہترین اُمت) کہا گیاہے، اور واضح کیا گیاہے کہ وہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ’دیگر انسانوں کے لیے نکالی گئی‘ ہے (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) ۔ ’خیر اُمت‘ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے احادیث میں کہا گیا ہے کہ یہ اُمت خَیْرُ النَّاسِ لِلنَّاسِ ہے یعنی دوسرے انسانوں کے حق میں سب سے بہتر۔
ہمارے مفسرین نے مزید وضاحت کرتےہوئے لکھا ہے: والمعني أنهم خير الأ ممم و أنفع الناس للناس (اس کے معنی یہ ہیں کہ اُمت مسلمہ تمام اُمتوں میں سب سے بہتر اور انسانوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والی ، یعنی نافع اُمت ہے)۔ ’خیر اُمت‘ کے لقب سے پہلے قرآن مجید نے اس اُمت کو ایک اور لقب ’اُمت وسط‘ کا دیا ہے(البقرہ۲:۱۴۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں وسط سے مراد عدل ہے۔ مفسرین کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے: أَيْ أَعْدَلُهُمْ وَخَيْرُهُمْ (وہ، یعنی مسلمان، انسانوں میں سب سے بہتر اور سب سے زیادہ عدل کرنے والے ہوتے ہیں)۔
ان آیتوں سے اُمت مسلمہ کی ایک خاص حیثیت سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا تعلق سارے انسانوں سے ہے۔ خیر، نافعیت اورعدل اس کی اصل پہچان ہیں اور اس کی ان خوبیوں سے فائدہ اٹھانے والے صرف مسلمان نہیں بلکہ سارا عالم انسانیت ہے۔ اسے ساری انسانیت کی بھلائی کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ عدل و قسط پر مبنی ایک عالمی نظام اور امامت کبریٰ ،اُس کا اس دنیا میں منتہائے مقصود ہے۔
تحریروں اور تقریروں میں تو اس تصور کی اب ہر جگہ تکرار ہے، لیکن لاشعور اور جذبات کی گہرائیوں میں ابھی تک یہ تصور راسخ نہیں ہوسکا ہے۔ ذات، برادری، قبیلہ، نسل اور زبان کی اساس پر اجتماعی مفاد کو دیکھنے کا زاویہ آج بھی ہر جگہ کارفرما ہے۔ ’جدیدیت‘ نے اس میں قوم پرستی اور قومی ریاست کے تصورات کا اضافہ کردیا ہے۔
چنانچہ مسلم ممالک کے عوام میں بھی قومی ریاست کا ایک طاقت ور تصور ہرجگہ کارفرما نظر آتا ہے۔ حیثیت اور مقام کے بارے میں یہ کنفیوژن اُمت کو اس کے اصل مقصد سے دُور کردیتا ہے۔ جب مسلمان خود کو کسی نسل یا کسی برادری کا رکن سمجھنے لگتے ہیں تو محض اُس نسل یا برادری کا مفاد ان کا اصل مقصد بن جاتا ہے۔ جب وہ خود کو محض ایک قومی ریاست کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں تو صرف اس ریاست کی تعمیر وترقی ان کی دلچسپیوں کا محور بن جاتی ہے۔ اس وقت معاملہ چاہے مسلم اقلیتی ممالک کا ہو یا مسلم اکثریتی ممالک کا، ہر جگہ مسلمان اس فکری بحران سے دو چار ہیں۔
مسلم اقلیتی ممالک میں وہ خود کو ویسا ہی نسلی گروہ سمجھنے لگے ہیں جیسے اور گروہ پائے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں قومی و نسلی کش مکش میں انھوں نے خود کو فریق بنالیا ہے،اور محض مسلمانوں کے بقا و تحفظ یا ان کے حقوق اور مادی ترقی کی جدوجہد کو انھوں نے ’اسلامی جدوجہد‘ سمجھ رکھا ہے۔
مسلم اکثریتی ممالک میں قومی ریاستوں کے دیگر باشندوں کی طرح محض اپنے 'مسلمان ملک کی تعمیر و ترقی کو وہ اپنا اصل ہدف سمجھنے لگے ہیں۔
مغربی ملکوں میں وہ مہاجر کی حیثیت سے جاتے ہیں تو ان کی دلچسپیاں یا تو اپنے اپنے وطن کے امورومسائل تک محدود ہوتی ہیں، یا متعلق مغربی معاشرے میں مسلمان مہاجروں کے مسائل ان کی جدوجہد کا اصل محور و مرکز بن جاتے ہیں، یا زیادہ سے زیادہ مشنری انداز کے دعوتی کام میں کچھ لوگ دلچسپی لیتے ہیں۔
حالانکہ یہ حقیقت کہ ان کے مخاطب اللہ کے تمام بندے ہیں ، ساری دنیا کے لیے ان کے پاس ایک پیغام اور ان کی فلاح و بہبود کا ایک منفرد پروگرام ہے ، ہر ایک کے لیے عدل ان کا مقصد ِوجود ہے اور دنیا کے ہر انسان کی فلاح و بہبود اور نجات کی کوشش ان کے خیر اُمت ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ مگر عملی سطح پر یہ قدر پوری طرح نظر انداز ہوچکی ہے، اور ان کی اجتماعی نفسیات اور رویوں میں دور دور تک اس کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔
فکر کی سطح پر کرنے کا اصل کام یہی ہے کہ اُمت کے اندر اس شعور کو عام کیا جائے کہ اس کا دائرۂ عمل نہ مسلمان کمیونٹی تک محدود ہے، نہ کسی مسلمان ملک تک اور نہ دنیا کے مسلمانوں ہی تک۔ اسے نہ اپنے مسلمان ملک یا غیر مسلم ملک میں واقع اپنی ملت کے مفادات تک اپنی سوچ کومحدود رکھنا ہے، اور نہ محض عالمی سطح پرمسلمانوں کےمفادات کے تحفظ کو اپنا مقصد بنالینا ہے۔ وہ خیر اُمت اور اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وحی الٰہی کی روشنی میں وہ ساری دنیا اور سارے عالم انسانیت کے مفاد کو اپنا مفاد بنائے۔ جب تک یہ نہیں ہوگا، اللہ کا دین محض مسلمان نام کے نسلی گروہوں کا یا مسلمان ملکوں کا ’قومی دین‘ بنا رہے گا اور اُس عالم گیر نظریاتی کشش سے (مسلمانوں کے غلط رویوں کی وجہ سے ) عملاً محروم رہے گا، جو اس دین کی فطری خصوصیت ہے:
عمل کی سطح پراصل ضرورت اُمت کے ’اخلاقی احیاء‘ (Moral Renaissance)کی ہے۔ اخلاقی قوت، اجتماعی اخلاق کا نام ہے، جس کا اہم مظہر سماجی معمولات (Social Norms) ہوتے ہیں۔ اجتماعی اخلاق کا مطلب یہ ہے کہ اخلاقی رویے پوری قوم میں اس طرح عام ہوجائیں کہ وہ ان کی شناخت اور ان کی پہچان بن جائیں۔ ہرمعاشرے اور تہذیبی گروہ کے کچھ تصورات، معمولات (norms )، اخلاقی اقدار اور اصول ہوتے ہیں ۔ ان میں بعض قدریں بہت اہم اور اساسی ہوتی ہیں، ان پر کسی قسم کی مصالحت کے لیے معاشرہ کبھی تیار نہیں ہوتا۔ یہی قدریں اس کی شناخت بنتی ہیں ۔ اسے جدید اصطلاح میں ’مرکزی اقدار‘ (core values) کہا جاتا ہے۔
جدید اجتماعی نفسیات میں مرکزی اقدار کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اس لیے کہ کسی انسانی گروہ کے عملی رویے اصلاً مرکزی اقدار ہی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ قدریں افراد کی نہیں بلکہ پورے سماج کی اجتماعی قدریں ہوتی ہیں۔ ان پر اتفاق کا مطلب محض خیال اور رائے کی سطح کا اتفاق نہیں ہوتا بلکہ پورے معاشرے کی متفقہ گہری عملی وابستگی ہوتاہے۔ مثلاًبعض جنگجو معاشروں میں 'بہادری مرکزی قدر ہوتی ہے۔ 'غیرت، 'مہمان نوازی وغیرہ بہت سے روایتی قبائلی سماج کی مرکزی قدریں ہوتی ہیں۔ جدید مغربی معاشروں میں 'فرد کی آزادی، اظہار خیال کی آزادی، 'جمہوریت 'وغیرہ مرکزی قدریں ہیں۔ ان قدروں کے نفاذ کے لیے کسی بیرونی قوت کی ضرورت در پیش نہیں ہوتی ۔بے شک ان قدروں کا عام ہونا ، تاریخ کے کسی مرحلے میں مصلحین و قائدین کی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد ، ان کی تنفیذ (promulgation)کے لیے وعظ و نصیحت کی بڑی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی۔ وہ قوم کی فطرت کا حصہ بن جاتی ہیں۔
حضرت شاہ ولیؒ اللہ (م:۱۷۶۲ء)نے ایسے ہی معمولات کو ’رسوم‘ کہا ہے اور 'صالح اِرتفاقات کے لیے اچھی 'رسوم کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ اجتماعی اخلاق اور معاشرتی معمولات جتنے صالح، مفید اور نفع بخش ہوں گے، اخلاقی قوت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ہمارے خیال میں یہی ’انفس‘ ہے۔ اخلاق اس وقت اخلاقی قوت بنتے ہیں، جب مرکزی قدروں کا یہ نظام گہرا اور مضبوط ہوتا ہے۔ اخلاقی قوت بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جو قدریں اس طرح کی مرکزی قدروں کی حیثیت اختیار کرلیں، وہ ایسی ہوں جن سے عالم انسانیت کی فوز وفلاح اور عملی فائدہ بھی وابستہ ہو۔یعنی ان میں نافعیت کا پہلو ہو۔ مولانا ابوالکلام آزاد ؒ(م:۱۹۵۸ء)کے بقول قانون ’بقائے اصلح‘ اور ’بقائے انفع‘ ایک ہی قانون ہے۔وہی صالحیت مطلوب ہے جو نافع بھی ہو۔
سورۂ نحل: اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۹۰(النحل۱۶:۹۰)(اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو) کے مطابق، عدل، احسان، صلہ رحمی پر عمل اور برائی، بے حیائی اور ظلم وزیادتی سے گریز ہی مرکزی قدریں ہیں۔مرکزی قدروں کے فہم کے لیے اس آیت کی طرف رجوع کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ اس آیت کریمہ کو متعدد اہل علم نے قرآن کے فلسفۂ اخلاق کا خلاصہ قرار دیا ہے اور عمر بن عبدالعزیز ؒ (م:۷۲۰ء)کے حکم سے اور ان کے بعد سے مسلسل، یہ آیت خطبۂ جمعہ کا حصہ بنادی گئی۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے مشہور’اخلاق اربعہ‘ سے بھی اسلامی اخلاق کا جامع تصور اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ شاہ صاحب ؒکے مطابق طہارت (اندرونی و بیرونی پاکیزگی اور نفاست)، اخبات (خدا کے سامنے نیاز مندی اور عجز و انکسار)، سماحت (بردباری، ضبط نفس اور اعتدال) اور عدالت (ہر معاملے میں عدل و انصاف)، یہ چار نفسیاتی خصوصیات ہیں، جو تمام اخلاقی محاسن اور اچھی رسوم کی منبع و سرچشمہ ہیں۔شاہ صاحب کا بیان ہمارے خیال میں بہت ہی جامع بیان ہے اوراس سے اسلام کی مرکزی قدروں کا بہت ہی واضح تصور سامنے آتا ہے۔
اس بات سے انکار مشکل ہے کہ ساری مسلم دنیا میں ان اساسی اسلامی اخلاقی قدروں کا چلن بہت کم ہے۔ شایدہی کوئی مسلم معاشرہ ہوگا، جسے اس کی طہارت و پاکیزگی کے حوالے سے جانا جاتا ہوگا ۔ عدل وانصاف کا اساسی قدر ہونا تو دور کی بات ہے،طرح طرح کی ناانصافیوں کا عام چلن اکثر مسلم معاشروں کی پہچان ہے۔ اس پرمستزاد، اخلاقی احیاء پر جو توجہ مطلوب ہے، وہ نہ صرف مسلم معاشروں میں بلکہ اصلاحی تحریکات میں بھی مفقود ہے بلکہ اسلامی تحریکوں کو بھی اس کام پر جو توجہ دینی چاہیے تھی وہ نہیں دے سکی ہیں۔
اخلاقی احیاء کے لیے ہماری کوششوں میںبعض بنیادی تبدیلیاں مطلوب ہیں:
سب سے پہلی مطلوب تبدیلی ترجیحات کی تبدیلی ہے۔بعض بڑی خرابیاں وہ ہیں، جن کا تعلق اُمت کی مرکزی قدروں سے ہے مگر اس کےباوجود ان پر اصلاحی جدوجہد کی بہت کم توجہ ہے۔
دوسری تبدیلی ٹارگیٹ گروپ کی تبدیلی ہے۔ بعض بڑی خرابیاں وہ ہیں جن کا تعلق اُمت کے خواص سے ہے۔ جب تک خواص میں اصلاح نہیں ہوگی ، اصلاح کا عمل عوام تک نہیں پہنچ سکے گا۔
تیسری تبدیلی اپروچ اور طریق کار کی تبدیلی ہے۔ اخلاقی احیاء اور اخلاقی قدروں کے فروغ کا عمل جرأت و ہمت چاہتا ہے، اوراس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے عوام کی ناراضی مول لینے کا حوصلہ چاہتا ہے۔ جس کی کمی اب ہمارے مصلحین میں عام ہے۔
خلاصہ یہ کہ احیاء کے عمل کومہمیزدینےکے لیے اب ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ’بیرون‘ سے زیادہ ’اندرون‘ پر توجہ درکارہے۔ دشمنوں کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں بھی اسی وقت کامیاب ہوتی ہیں، جب ہم اندرونی طور پرکمزور ہوں اور ہماری کمزوری کااصل سبب مادی نہیں بلکہ فکری اور اخلاقی ہے۔ اس لیے جب تک ان اصل اسباب پر ہماری بھرپورتوجہ نہیں ہوگی، احیاءکا خواب حقیقت کا رُوپ اختیار نہیں کرے گا ۔
اقبال کی یہ پیش گوئی جدید مغربی تہذیب کے جن شعبوں میں پوری ہوتی ہوئی صاف نظر آرہی ہے ،اُن میں خاندان کا شعبہ سر فہرست ہے۔گذشتہ صدی کے وسط میں ساری مغربی دنیا میں اور ان کی نو آبادیات میں جدید نظریات کا غلغلہ تھا۔ لبرل مکتب فکر، مغربی دنیا کا مقبول ترین مکتب فکر تھا۔ اس نے خاندان کے بارے میں یہ تصور پیش کیا کہ یہ ’’پدر شاہی ‘‘ (Patriarchal) ادارہ ہے اور اس کا اصل مقصد عورت کا استحصا ل کرنا ہے‘‘۔مارکسی مفکرین نے اور آگے بڑھ کر کہا کہ ’’یہ بورژوا طبقہ کا ایک استحصالی آلہ کار ہے اور خاندان کے ادارے کا بنیادی مقصد دولت کی تقسیم کو روکنا اور بورژوا طبقے کی طاقت کو استحکام بخشنا ہے‘‘۔
ان سرگرم کار تصورات نے یہ یقین پیدا کیا کہ خاندان کی انسان کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ پہلے مرحلے میں شادی کے بغیر جنسی زندگی کا رواج شروع ہوا۔ میاں بیوی کی جگہ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ نے لے لی ۔ بغیر شادی کے اور بغیر کسی طویل مدتی عہدنامےکے، ساتھ رہنے کا سلسلہ چل پڑا۔ جنسی آوارگی عام ہوگئی اور خاندانی ادارہ تیزی سے معاشرے سے غائب ہونے لگا۔
دوسرے مرحلے میں کج روی پر مشتمل جنسی رجحانات کی نئی اقسام کا تصور عام ہوا۔ فلسفیوں نے اسے انصاف اور مساوات کے تصور سے جوڑ ڈالا۔کسی نے اسے ’صنفی انقلاب‘ کا نام دیا اور کسی نے کہا کہ: ’’جنسی تعلق مرد اور عورت کے درمیان ہی ہو، یہ ضروری نہیں ہے۔ فطرت نے کئی طرح کے جنسی جذبے پیدا کیے ہیں۔مرد اور مرد یا عورت اور عورت مل کر ہم جنسی خاندان بھی بناسکتے ہیں‘‘۔ کہا گیا کہ ’’یہ جذبات بھی فطری ہیں اور ایسے جذبات رکھنے والے اگرچہ جنسی اقلیت ہیں مگر ان کے حقوق کا تحفظ عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ ہم جنسیت کے خلاف کچھ بولنا یہ ظلم کی تائید اور ظلم کی راہ ہموار کرنا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔چنانچہ تمام مغربی معاشروں میں اور اس کے بعد مشرقی معاشروں میں ہم جنس جوڑے عام ہوگئے۔ کئی ملکوں میں ان کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہوگیا۔
تیسرے مرحلے میں مشینوں اور جنسی مصنوعات کے ساتھ صنفی تعلق کی ہمت افزائی کی جارہی ہے اور ایسے کھلونوں اور روبوٹوں کی یہ صنعت اب پچاس ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہے جس میں ۳۰فی صد سالانہ کی رفتار سے ترقی ہورہی ہے۔ ایسے جنسی روبوٹ (sexbot) تیزی سے عام کیے جارہے ہیں، جو شوہر یا بیوی کا کردار ادا کرسکیں۔
ان سب بے ہودہ تصورات اور رواجوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نظام پوری طرح تباہ ہوگیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سو سالوں کے دوران میں امریکا میں شادی کی شرح میں ۶۶فی صد کمی آئی ہے۔ گویا سو سال پہلے ہر سال جتنی عورتیں شادی کرتی تھیں، آج اس کے مقابلے میں آبادی میں اضافے کے باوجود ۶۶فی صد کم عورتیں شادی کررہی ہیں۔ شادی کی عمر والے افراد میں صرف ۲۵ فی صد امریکی ہی رشتہ ازدواج میں بندھے ہوئے ہیں۔ تقریباً آدھی آبادی ’خاندانی غلامی‘ سے ’آزاد‘ ہے۔ ۲۵فی صد بچے ’اکیلی ماں‘ کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ان میں سے اکثر کے باپ کا تعین ممکن ہی نہیں ہے۔دوتہائی امریکی آبادی یہ تسلیم کرتی ہے کہ دو مرد یا دو عورتیں مل کر بھی فیملی بناسکتے ہیں اور بچوں کی پرورش کرسکتے ہیں۔۳۹ فی صد امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ’’اب خاندان کا ادارہ اذکارِرفتہ (out date) اور متروک ہوتا جارہا ہے‘‘(تفصیلات دیکھیے: پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹThe Decline of Marriage and Rise of New Families)۔
ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف حالت یہ ہے کہ اب مغربی معاشروں میں یہ احساس بھی بڑھتا جارہا ہے کہ ’’خاندان کا تحفظ نہایت ضروری ہے اور خاندان کا بحران ایک بڑا سماجی بحران ہے‘‘۔محولہ بالا سروے میں ۹۶ فی صد امریکیوں نے کہا کہ ’’خاندان کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ قدروں کے عالمی سروے (World Values Survey) کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری مغربی دنیا میں اب بہت بھاری اکثریت خاندان کی ضرورت او راہمیت کو محسوس کرنے لگی ہے۔ ایسا سوچنے والوں کی تعداد سال بہ سال بڑھتی جارہی ہے۔
چنانچہ اب امریکا کے صدارتی انتخابات میں جن موضوعات پر بحثیں ہوتی ہیں ان میں خاندان اور خاندانی قدروں کا موضوع بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ یورپ کے کئی ملکوں میں بھی یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں تو ایک سیاسی جماعت اسی نعرہ کے ساتھ وجود میں آئی تھی اور اس کا نام ہی ’فیملی فرسٹ پارٹی‘ تھا۔ اسی نام سے یہ پارٹی گذشتہ پندرہ سالوں سے الیکشن لڑتی رہی اور اپنے نمایندوں کو منتخب کراتی رہی۔ تاہم اپریل ۲۰۱۷ء میں یہ پارٹی ایک اور پارٹی میں ضم ہوگئی۔
امریکا کا مشہور دانش ور فرانسس فوکویاما، ملک کی ترقی حتیٰ کہ معاشی ترقی کے لیے بھی ایک چیز کو ضروری قرار دیتا ہے، اور اس کو وہ سماجی سرمایہ (Social Capital) قرار دیتا ہے۔ اس سرمایہ کی ضرورتوں میں خاندانی قدروں کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔
مختصر یہ کہ اب مغرب کا انسان خاندانی ادارے کے انتشار سے تنگ آچکا ہے اور چاہتا ہے کہ مضبوط خاندان کی بنیادیں دوبارہ بحال ہوں، لیکن جو طرز زندگی، جو اخلاقی تصورات اور جو سماجی روایات اب وہاں عام ہوچکی ہیں، ان کے پیش نظر اب واپسی کا امکان باقی نہیں رہا۔
اب یہ مریضانہ معاملہ صرف مغربی معاشروں تک محدود نہیں ہے۔ جاپان میں گذشتہ عشرے میں طلاق کی شرح میں ۶۶فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اور وہاں کے مزدوروں میں ’اکیلی ماں‘ کا تناسب ۸۵فی صد ہے۔چین میں بھی خاندانی نظام تیزی سے زوال کا شکار ہے۔چلی میں ۷۰فی صد اور میکسیکو میں ۶۸فی صد بچے غیر شادی شدہ پیدا ہوئے ہیں۔ یہی صورت حال اسٹونیا، بلغاریہ جیسے ملکوں کی ہے۔ بھارت کے شہری علاقوں میں بھی ہم جنس خاندانوں اور طلاق کی شرح تیزی سے ’ترقی کی منازل‘ طے کررہی ہے۔
اس طرح سنجیدہ جائزہ اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ خاندان کا نظام، مغربی دنیا میں زوال پذیر ہونے کے بعد اب تیزی سے مشرقی معاشروں میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ دوسری طرف جدید سرمایہ دارانہ استعمار نے اپنے مقاصد کے لیے عورت کا بدترین استحصال کیا ہے۔ یہ صورت حال بھی اب ساری دنیا میں تیزی سے عام ہوتی جارہی ہے۔اور مشرقی معاشروں میں عورت کا روایتی کردار پامال ہورہا ہے۔جدید عورت کو اب یہ بات سمجھ میں آرہی ہے۔ عورت کے وجود کے تحفظ کا اب آخری قلعہ اسلام ہی باقی رہ گیا ہے۔
اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی قدریں، سماجی اور تاریخی روایات کی ناپائیدار بنیادوں پر نہیں کھڑی ہوئی ہیں۔ اسلام کی قدروں کی بنیاد نہایت مستحکم عقائد پر رکھی گئی ہے۔ ایک مسلمان معاشرہ خاندانی زندگی کی قدروں اور عورت کے نسوانی کردار کا تحفظ کرتا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہوتی کہ اس معاشرے کی قدیم روایتیں اس کا تقاضا کرتی ہیں، بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ معاشرہ اس پر پختہ ایمان رکھتا ہے کہ یہ خدا کے احکا مات میں شامل ہیں، جن میں تبدیلی کا اسے کوئی اختیار نہیں ہے۔یہ پختہ ایمان ہی اُس بلاخیز طوفان کا مقابلہ کرسکتا ہے جو جدید مغرب کی دانش گاہوں سے اٹھا اور اب ساری دنیا کے سماجی اور خانگی ڈھانچوں کو ملیامیٹ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ خاندان اور عورت کے نسوانی وجود کی آخری پناہ گاہ، اسلام ہی ہے۔
اسلام کی یہ خصوصیت بہت سے لوگوں کے لیے زبردست کشش کا باعث ہے تو اسلام مخالف طاقتوں کے لیے اسلام سے خوف کا بھی ایک اہم سبب ہے۔مشہور نومسلم دانش ور مراد ولفریڈ ہوف مین نے اپنی کتاب Religion on the Rising:Islam in the Third Millennium میں بہت تفصیل سے واضح کیا ہے کہ ’’خاندانی نظام اور خاندانی قدریں، اسلام کی بہت بڑی قوت ہیں اور مستقبل میں یہ مغربی دنیا میں اسلام کے لیے بہت بڑی کشش پیدا کریں گی‘‘۔
ایک مشہور فیمی نسٹ دانش ور تھیریسا کوربن نے اسلام قبول کرکے حجاب اختیار کرلیا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ ’’حجاب تو استحصال اور ظلم کی علامت ہے‘‘ جس کا تھریسا نے دل چسپ جواب دیا: ’’ہاں، میں اسکارف پہنتی ہوں۔میرا اسکارف پشت پر میرے ہاتھ نہیں باندھتا۔ یہ کیسے میرے استحصال کا ذریعہ ہوسکتا ہے؟میرا اسکارف نہ دماغ میں خیالات کے داخلے میں کوئی رکاوٹ بنتا ہے اور نہ منہ سے اس کے اظہار کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ آج مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میں ماضی میں کچھ ایسا ہی سمجھتی تھی۔میرا اسکارف البتہ مردوں کی ان ہوسناک نظروں کی راہ میں ضرور رکاوٹ بنتا ہے، جو عورت کے استحصال کی پہلی سیڑھی ہیں۔ یہ مجھے تحفظ اور احترام و عزّت عطا کرتا ہے… بلاشبہہ اسلام فیمی نسٹ تصورات سے ہم آہنگ نہیں ہے، لیکن فیمی نسٹ آئیڈیلز کی تکمیل کہیں ہوسکتی ہے تووہ صرف اسلام ہے۔ میری مراد یہ ہے کہ عورت کے وقار کی بحالی، تحفظ اور مقام‘‘۔
یہ صرف تھریسا کوربن کا ہی خیال نہیں ہے۔سفید فام عورتوں میں اب یہ تصور بہت تیزی سے عام ہوتا جارہا ہے۔ برطانیہ میں لگ بھگ ۵۰ہزار سفید فام برطانو ی ہر سال اسلام کی آغوش میں آتے ہیں۔ ان میں ۷۰فی صد خواتین ہوتی ہیں۔ ٹونی بلیر کی نسبتی بہن لارن بوتھ، بی بی سی کی نامہ نگار ایوان ریڈلی اور ایم ٹی کی میزبان کرسٹینا بیکر وغیرہ جیسی مشہور عورتیں بھی ان میں شامل ہیں۔چند سال پہلے کیمرج یونی ورسٹی کے سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز نے ایک دلچسپ مطالعہ کیا تھا۔ اس نے نومسلم برطانوی خواتین سے یہ وجہ جاننے کی کوشش کی کہ انھوں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ اس مطالعے کے سربراہ پروفیسر یاسر سلیمان نے برطانوی اخبار آبزرور کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
ہم جدیدیت کے زمانے میں ہیں۔ہماری زندگیوں کا غالب ڈھانچا سیکولر ہے۔ اور اس میں اسلام کوایسے مذہب کے روپ میں دیکھا اور دکھایا جاتا ہے، جو نہایت ظالم، پرتشدداور جدید دنیا کے عقلیت پسند رویے سے غیر ہم آہنگ ہے۔ اس کے باوجود ہرسال کچھ انتہائی ذہین، کامیاب اور دل چسپ لوگ اسلام کے عقیدے میں اپنی الجھنوں اور سوالوں کا جواب پاتے ہیں اور اسلام کی آغوش میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ سوال کی وجہ تلاش کرنا اس مطالعے کا ایک اہم مقصد ہے۔
چنانچہ یہ تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ مکمل ہوا اور مارچ ۲۰۱۳ء میں اس کی تہلکہ خیز رپورٹ Female Perspective: Narratives of Conversion to Islamکے نام سے شائع ہوئی۔ اس میں اُن اعلی تعلیم یافتہ خواتین نے قبول اسلام کے جو اسباب بیان کیے، ا ن میں سے بیش تر کا تعلق عورت اور خاندان سے متعلق اسلام کی تعلیمات سے ہے۔ مثال کے طور پر کئی خواتین نے اسلام میں نکاح کے تصور اور بیوی کے مقام و مرتبے کو قبولِ اسلام کا ایک اہم سبب گردانا۔ شوہر اور بیوی کے درمیان فرائض و اختیارات کی تقسیم نے کئی خواتین کو اپیل کیا۔بعض خواتین حجاب کے تصور سے متاثر ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حجاب ہی اصل فیمی نسٹ علامت ہے۔ اس لیے کہ اس سے نسوانی شخصیت کا باعزّت اظہار ہوتا ہے اور معاشرہ جس طرح عورت کو جنسی علامت بنادیتا ہے، اس کا رد ہوتا ہے۔ شوہر بیوی کے حقوق کا تصور، شوہر کی خانگی ذمہ داریوں کی تفصیلات وغیرہ نے بھی کئی خواتین کو متاثر کیا۔ حیرت انگیز طور پر ان جدید اعلیٰ تعلیم یافتہ انگریز عورتوں میں ایسی عورتیں بھی تھیں، جنھیں اسلام کے تعدد ازدواج کے اصول نے متاثر کیا۔ایک خاتون نے کہا ، ’’شوہر کی دوسری بیوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی خاندانی اور ازدواجی ذمہ داریاں آدھی ہوگئیں،جب کہ حقوق میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔میرے خیال میں یہ سودا تو عورت کے حق ہی میں ہے‘‘۔
دوسری طرف اسلام کے مخالفین، اسلام کی خاندانی زندگی کو اسلام سے خوف زدہ کرنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام کی ایسی طاقت ہے جس کا کوئی توڑ ان کے پاس نہیں ہے۔ڈیوڈ سیلبورن (David Selbourne)ایک مشہور ’اسلاموفوبک‘ [یعنی ’اسلام سے خوف زدہ کرنے والے‘] مصنّف ہے، اس کی کتاب Losing Battle with Islam (اسلام سے ہاری ہوئی جنگ ) بہت مشہور ہوئی۔ اس نے دس اسباب گنائے ہیں، جن کی وجہ سے اس کے خیال میں اسلام سے جنگ جیتنا امریکا اور مغرب کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان میں ساتواں سبب امریکا کا اخلاقی افلاس، قدروں کا بحران اور اس کے مقابلے میں اسلام کا نہایت مستحکم اخلاقی نظام ہے۔ جب وہ قدروں کی بات کرتا ہے توخاص طور پر خاندانی قدروں کو اسلام کی بڑی قوت قراردیتا ہے۔
اس بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا خاندانی نظام، اور عورت کو اسلام میں دیا گیا مقام، اُن امور میں شامل ہے، جن کی وجہ سے اسلام میں جدید دور کے لوگوں کو کشش محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی مخالف طاقتوں کا ایک اہم ہدف مسلمان عورت اور اسلامی خاندان ہے۔
آج ساری دنیا میں مسلمانوں کے حوالے سے جو کوششیں ہورہی ہیں، ان میں ایک اہم کوشش یہ ہے کہ مسلمان شریعت اور شریعت کے خانگی قوانین سے دست بردار ہوجائیں، یا ان میں ’اصلاحات‘ کے لیے تیار ہوجائیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے اس عظیم اثاثے کی حفاظت کریں اور اسے زیادہ سے زیادہ اسلام کے نظام رحمت کی عملی شہادت کا ذریعہ بنائیں۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم خاندان کے وجود کے زبردست وکیل اور عالمی سطح پر خاندان کے طاقت ور نگہبان کے طور پر سامنے آئیں۔ خاندان کی اہمیت پر بحث میں پرزور حصہ لیں۔ کسی تذبذب اور مداہنت کے بغیر اسلام کے عائلی اور خانگی احکام کی برکتوں کو اجاگر کریں۔
اس بات کو مستحکم سائنسی اور سماجی دلائل سے ثابت کیا جائے کہ خاندان انسانی معاشرے کی ضرورت ہے اور یہ کہ خاندان کے وجود کے لیے مردو عورت کے مخصوص صنفی و سماجی کرداروں کو تسلیم کیا جائے اور اس بنیاد پر قانونی طور پر تسلیم شدہ مرد ’شوہر‘ اور عورت ’بیوی‘ مل کر اپنے بچوں کی پرورش کریں___ نام نہاد غیر روایتی خاندان سے خاندان کاکوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔اور خاندان کی بقا کا کوئی راستہ اسلامی اخلاقیات کے سوا ممکن نہیںہے۔پھر اس بات کی زبانی شہادت کے ساتھ ساتھ عملی شہادت بھی دیں، جو اسی وقت ممکن ہے، جب ہمارے خاندانوں میں اسلامی احکام نافذ ہوں اور ہمارے خاندان، اسلام کی رحمتوں اور ثمرات کے عملی نمونے بن جائیں۔
جدیدیت اور اسلام کے تصوراتِ زندگی میں جو فرق ہے، ان میں ایک نمایاں فرق خاندان کے ادارے کے حوالے سے ہے۔ اسلام، خاندان کے ادارے کو اہمیت دیتا ہے۔صنفی عدل کے حوالے سے اسلام کے اور جدید نسائی تحریکات (Feminist Movement)کے تصورات میں جو اصل فرق ہے، اس کا تعلق درج ذیل تین سوالات سے ہے:
۱- مرد اور عورت مل کر ایک خاندان بنائیں، کیا یہ ایک تمدنی ضرورت ہے؟ کیا بچوں کا یہ حق ہے یا نہیں کہ انھیں پرورش کے لیے ایک شفیق خاندان کا آسرا میسرہو؟
۲- کیا خواتین کا علیحدہ تشخص ہے یا نہیں؟ کیا صنفی فرق صرف جسمانی ساخت کا فرق ہے یا سماجی اور نفسیاتی سطحوں پر بھی مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق پایا جاتا ہے؟ یعنی کیا دونوںکی صورت حا ل ایک جیسی ہے یا الگ الگ ہے؟
۳- اگر خاندان کی ضرورت ہے تو وہ کیسے چلے؟ اس میں مرد اور عورت کا الگ الگ کردار اور ذمہ داریاں ہوں یا نہ ہوں؟ کیا مرد اور عورت کے الگ الگ کردار، مصنوعی طور پر معاشرے کے پیدا کردہ ہیں یا فطری حقائق کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں؟
بہت سے فیمی نسٹ ان سوالوں کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک خاندان ایک ’پدرشاہی‘( Patriarchal)ادارہ ہے۔ اس لیے مساوات کا تقاضا ہے کہ اسے ختم کردیا جائے۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق صرف حیاتیاتی ہے، اور یہ حیاتیاتی فرق بھی ختم ہونا چاہیے‘‘۔ مشہور فرانسیسی فیمی نسٹ سیمون ڈی بوایر اپنی کتاب The Second Sex [دوسری جنس] میں عورت کے جسم اور اس کے حیاتیاتی وجود ہی کو ’’عورت کے ساتھ ناانصافی قراردیتی ہے‘‘۔ اس کے بقول چونکہ تولید کے عمل میں جن مشقتوں سے عورت کو گزرنا پڑتا ہے، اُن سے مرد نہیں گزرتا۔ اس میں مساوات کے لیے ضروری ہے کہ اس حیاتیاتی رکاوٹ پر قابو پایا جائے۔ حقیقی انصاف اس وقت ہوگا جب افراد کو اپنی جنس منتخب کرنے کا حق حاصل ہو‘‘۔
ان معاشروں کے نزدیک: ’’ مردوں اور عورتوں کے الگ الگ سماجی رول، روایتی معاشروں کے پیدا کردہ ہیں اور روایتی سماجوں میں ہمیشہ مردوں کا تسلط رہا ہے۔ اس لیے عورتوں کے استحصال کے لیے انھوں نے یہ تصورات گھڑ رکھے ہیں۔ اول تو خاندان ضروری نہیں ہے، لیکن اگر مرد اور عورت مل کر ہی خاندان بنائیں تو اس میں مرد کا الگ رول اور عورت کا الگ رول ضروری نہیں۔ ہرکام جو مرد کرسکتا ہے، وہ عورت بھی کرسکتی ہے۔ اس لیے سماج کا پیدا کردہ ہر فرق ختم ہونا چاہیے۔ ان افکار کے نتیجے میں تشکیل پانے والا تصور یقینا اس تصور سے مختلف ہوگا جو خاندان کے ادارہ کی اہمیت اور اس کے لازمی اور فطری تقاضوں کے شعور کے نتیجے میں تشکیل پاتا ہے۔ ان ’نسائی تصورات‘ نے مغربی معاشروں میں عورتوں اور مردوں کے درمیان بظاہر غیر فطری مساوات تو قائم کردی، لیکن خاندان اور خود عورت کی ذات کو اس کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصانات اب بہت واضح بھی ہوچکے ہیں۔
اسلام کے مطابق مرد اور عورت کو اللہ نے الگ الگ سماجی کردار ادا کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ دونوں اصناف سماجی حیثیت کے لحاظ سے یقیناً برابر ہیں، لیکن ان کے جسم ، نفسیات اور معاشرتی کرداراور ذمہ داریوں میں فرق ہے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے تکمیل کنندہ (complementary) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حیاتیاتی لحاظ سے بھی اور معاشرتی لحاظ سے بھی۔ مردعورت کے بغیر نامکمل ہے اور عورت مرد کے بغیر۔ اللہ نے ان کے درمیان حیاتیاتی فرق پیدا کیا ہے ، اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ ان دونوں سے الگ الگ حیاتیاتی کردار اور ذمے داریاں بھی متوقع ہیں۔
نہ مرد اکیلے بچے پیدا کرسکتا ہے اور نہ بچوں کی پیدائش میں وہ کردار ادا کرسکتا ہے جو عورت کے لیے مخصوص ہے۔اسی سے خود بخود سماجی فرق واقع ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی پرورش میں بھی بعض کردار ایک عورت ہی ادا کرسکتی ہے، مرد ادا نہیں کرسکتا۔ ماں کی کوکھ سے پیدا ہونے کی وجہ سے اور اس کا دودھ پینے کی وجہ سے جو ُانس اور قربت بچے ماں کے تئیں محسوس کرتے ہیں، وہ باپ سے نہیں کرتے۔بچوں کے باپ سے تعلق اور محبت کی نوعیت اور ماں سے تعلق کی نوعیت میں واضح فرق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان فطرت نے صرف جسمانی فرق نہیں رکھے بلکہ مزاج اور نفسیات کے بھی واضح فرق رکھے ہیں۔ عام طور پر ایک مرد، عورت سے زیادہ جسمانی طاقت رکھتا ہے۔ عام طور پر شیر خوار لڑکے بھی ٹرک اور کار کے کھلونے اٹھاتے ہیں اور شیرخوار لڑکیاں، گڑیاں اٹھاتی ہیں۔ اسکول میں لڑکے کچھ اور مضامین میں اچھے ہوتے ہیں اور لڑکیاں کچھ دوسرے مضامین میں۔ ان کے دماغ واضح طور پر ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ یہ سب حقائق اس بات کی دلیل ہیں کہ مردوں اور عورتوں میں معاشرتی کردار کے اعتبار سے بھی فرق ہے۔
جدید فیمی نسٹ تصور میں اور اسلام میں اصل فرق یہی ہے کہ اسلام کے نزدیک ’’خاندان ایک بڑی انسانی ضرورت ہے اور اس ادارہ کا تحفظ ہونا چاہیے۔ خاندان کے اس ادارہ کے تحفظ کا فطری طریقہ یہی ہے کہ مرد اور عور ت اپنے فطری دائروں میں اپنے اپنے رول ادا کریں۔دونوں کے رول چونکہ الگ الگ ہیں، اس لیے اس حوالے سے انصاف کے تقاضوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہوگا۔ کچھ خصوصی مراعات عورت کو اس کردار کی وجہ سے حاصل ہوں گی تو کچھ اضافی اختیارات مرد کو اس کے رول کی وجہ سے۔ ماں کے حقوق باپ سے زیادہ ہیں۔ بیوی کو خصوصی معاشی مراعات حاصل ہیں۔ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کی پرورش کا زیادہ ثواب ہے۔دوسری طرف مرد کو قوام کی حیثیت میں بعض اضافی اختیارات حاصل ہیں۔ اس فرق کا مقصد یہ ہے کہ دونوں اصناف اپنے اپنے دائروں میں اپنے تمدنی فرائض بہتر انجام دے سکیں اور اس کے نتیجے میں ایک خوش حال خاندان اور ایک خوش حال معاشرہ وجود میں آسکے‘‘___اسلام میں صنفی عدل کے تصور کو سمجھنے کے لیے ان بنیادی تصورات کو سمجھنا ضروری ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو خاندان کے سلسلہ میں اسلام کے وژن میں اور جدید فیمنسٹ وژن میں پایا جاتا ہے۔
چونکہ اسلام کے نزدیک خاندان، معاشرے اور تمدن کی بنیادی ضرورت ہے، اس لیے اس ضرورت کی تکمیل کے لیے اس نے مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض میں بعض فرق رکھے ہیں۔ پیدایش و رضاعت کی اہم تمدنی ضرورت کی تکمیل کے لیے عورت کو پُرمشقت مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ فرق کسی معاشرے کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ فطری ہے۔ بچوں کی یہ ضرورت ہے اور ان کا حق ہے کہ ان کی پرورش ماں کے شفیق آنچل کے زیر سایہ ہو۔ماں سے جو قربت وہ محسوس کرتے ہیں اور جس طرح اس کا اثر قبول کرتے ہیں، اس کاتقاضا ہے کہ ان کی شخصیت ساز ی میں وہ اہم رول ادا کرے۔ خاندان کی اہم اکائی اور ادارہ کا نظم و انتظام بھی وقت اور توجہ چاہتا ہے۔ان سب ضرورتوں کی تکمیل کا کام اسلام نے عورت کے سپرد کیا ہے۔
ان کاموں میں اور اس کی جسمانی و نفسیاتی خصوصیات میں گہری مطابقت ہے ۔ یہ مطابقت سماجی اور تاریخی عوامل کی پیدا کردہ نہیں ہے، بلکہ فطرت کی پیدا کردہ ہے۔چنانچہ اسلام نے ان فرائض کی انجام دہی کے لیے عورت کو معاشی ذمہ داریوں سے فارغ رکھا ہے۔ خاندان کی کفالت شوہر کے ذمے ہے۔ بیوی اگر مال دار ہو تب بھی اس کی کفالت شوہر ہی کے ذمے ہے۔ مالی ضروریات کی تکمیل کے علاوہ بیوی کا تحفظ اور اس کی دل جوئی بھی شوہر کی ذمہ داری ہے۔ قوّام کی حیثیت سے اس کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ خاندان کی تمام ذمہ داری قبول کرے اور اسے ادا کرے۔اسلام نے عورت کو معاشی مصروفیت سے منع نہیں کیا، بلکہ اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اور شریعت کے حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے، وہ معاشی مصروفیت بھی اختیار کرسکتی ہے، لیکن یہ اس کی بنیادی ذمہ داری نہیں ہے۔اس طرح اسلام کی خاندانی اسکیم میں معاشرے اور تمدن کی اہم ضروریات کا لحاظ بھی ہے اور مرد ، عورت اور بچوں کے ساتھ مکمل انصاف بھی۔
صنف کی بنیاد پریہ تقسیمِ کار، مغرب زدہ خواتین کو اس لیے کھٹکتی ہے کہ فیمی نسٹ تصورات کی ایک اہم بنیاد نسوانی شخصیت اور نسوانی رول کا استخفاف ہے۔ان کے نزدیک ہوائی جہاز میں مسافروں کی خدمت اور دفاتر استقبالیہ پر مہمانوں کی دل جوئی تو قابل احترام مصروفیت ہے، لیکن نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور خاندان جیسے بنیادی ادارے کا نظم و انصرام کوئی بڑا حقیر کام ہے۔ان تصورات نے عورت کے تشخص ، اس کے جذبات و نفسیات اور اس کے کردار کی قدر و منزلت کو اتنا گھٹا دیا کہ عورت اپنے عورت پن پر شرمندگی محسوس کرنے لگی۔ اسلام نے عورت ہی کو نہیں اس کے نسوانی وجود کو عزت و احترام بخشا ہے۔ اسلام میں عورت کو سماج میں قدر و منزلت حاصل کرنے کے لیے مرد بننا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا خاندان کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے کہ اسلام کا نہایت معتدل نقطۂ نظر عام کیا جائے۔
قرآنِ مجید میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہلِ ایمان کے سلسلے میں ہدایت دی گئی کہ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۸۸ (الحجر۱۵:۸۸)(تم ان [مومنین] کے لیے اپنی شفقت کے بازو پھیلا دو)۔ اور آپؐ کے بارے میں یہ گواہی دی گئی کہ لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۱۲۸ (التوبہ ۹:۱۲۹) (تمھارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے، جس کو تمھاری ہرتکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے، جسے تمھاری بھلائی کی دھن لگی ہوئی ہے، جو مومنوں کے لیے انتہائی شفیق اور نہایت مہربان ہے)۔ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے بارے میں یہ گواہی دی کہ کوئی مصافحہ کرتا تو آپؐ اُس کا ہاتھ نہیں چھوڑتے تھے، جب تک وہ الگ نہ کرلے۔ جس سے گفتگو فرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے۔ کوئی آپؐ سے بات کرتا ،تو پوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے اور ہرفرد یہی تصور کرتا کہ آپؐ مجھ کو ہی سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔
۲؍اپریل سہ پہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا پیرو اس دنیاے فانی سے رخصت ہوا، جس کے بارے میں اس وقت بلامبالغہ ہزاروں لوگ یہ محسوس کر رہے ہوں گے کہ وہ سب سے زیادہ مجھے چاہتا تھا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ اسوے کی پیروی کا بہترین عملی نمونہ، اپنی معاصر شخصیات میں، ہم نے سابق امیرجماعت اسلامی ہند مولانا محمد سراج الحسن رحمۃ اللہ علیہ میں دیکھا ہے۔
گرم جوش محبت اور بے لوث رفاقت، مولانا مرحومؒ کی دل نواز شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو تھا۔ ان کے وجود کی گرمی اور شخصیت کی مٹھاس کو ہرملنے والا ملاقات کی پہلی ساعت ہی میں محسوس کرلیتا۔ آنے والے کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے وہ استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے، نظرپڑتے ہی گرم جوشی سے گلے لگا لیتے۔ دیر تک سینے سے لگا کر انتہائی اپنائیت سے گفتگو کا آغاز فرماتے۔ ان کے کشادہ سینے اور اس سے کہیں زیادہ وسیع قلب کی گہرائیوں میں شکوے، شکایتیں اور مسائل و اُلجھنیں، آنِ واحد میں تحلیل ہوکر غائب ہوجاتیں۔ خوے دل نوازی اور جانِ پُرسوز کس طرح قائدین کی سب سے بڑی طاقت بن جاتی ہے، اس کا عملی مشاہدہ مولانا سراج الحسن کی سحرانگیز شخصیت میں کیا جاسکتا تھا۔
مرحوم قائدؒ نہ کوئی بڑے عالم دین تھے، نہ شعلہ نوا مقرر، اور نہ نام وَر دانش ور، نہ ان کے پاس اُونچی ڈگریاں تھیں اورنہ تحقیقی یا دل چسپ تصنیفات کا ذخیرہ۔ لیکن ذہانت ، معاملہ فہمی، دُوراندیشی، فکری توازن وغیرہ کے ساتھ اُن کا اصل اثاثہ ان کی انسان نوازی، اخلاقی بلندی اور تعلقات کی گرم جوشی تھا۔ ان اوصاف نے ان کی شخصیت میں غیرمعمولی کشش اور جاذبیت پیدا کردی تھی۔ اس اثاثے کو اللہ کے دین کی اشاعت اور جدوجہد کے لیے انھوں نے بہت شان دار طریقے سے استعمال کیا۔ تحریکی کارکن، ان سے مل کر لوٹتے تو نئی توانائی اور جوشِ عمل سے سرشار ہوتے۔ عام و خاص مسلمان ملتے تو تحریک کا اچھا اثر قبول کرتے،دُوریاں ختم ہوتیں اور تحریک کااثر بڑھتا۔ غیرمسلم ملتے تو اسلام، اس کی دعوت اور اس کے پیغام کے بارے میں ان کی راے بہترہوجاتی۔ ان سب نتائج کے اثرات پورے ملک میں بکھرے ہوئے ہیں اوربرسوں بعد آج بھی لوگ ان کو یاد کرتے ہیں۔ اللہ غریق رحمت فرمائے اور جو محبتیں انھوں نے اللہ کے بے شماربندوں پر اور اس کے دین کے مخلص کارکنوں پر لٹائی ہیں، اس کا عظیم صلہ اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمتوں کے نزول کے ذریعے عطا فرمائے، آمین!
محمد سراج الحسن صاحب ، ملک کی آزادی سے پندرہ سال پہلے، ریاست حیدرآباد دکن کے ایک دُورافتادہ قصبے میں ، ایک متمول زمیندارگھرانے میں جناب ابوالحسن کے ہاں ۳مارچ ۱۹۳۳ء کو پیدا ہوئے۔ ’جوالاگیرہ ‘(Jawalagera)نامی یہ قصبہ اب کرناٹک کے ضلع رائچور کے تعلقہ سندھنور میں واقع ہے۔ بچپن میں کسی بااثر راجا سے خاندانی تنازعے کی وجہ سے انھیں برسوں چھپ کر رہنا پڑا، جس کی وجہ سے ان کی باقاعدہ تعلیم منقطع ہوگئی۔ اسی دوران اسلامی لٹریچر کے گہرے مطالعے کا موقع ملا اور تحریک اسلامی سے تعارف حاصل ہوا۔ نظربندی کی طویل مدت سے آزاد ہوئے تو اللہ کے دین کی خاطر جدوجہد کا سودا سر میں سماچکا تھا۔ کم عمری میں رکن جماعت بنے اور ۲۶ سال کی عمر میں کرناٹک کے امیرحلقہ بنائے گئے۔ اس کے بعد پوری زندگی اللہ کے دین کی خاطر جدوجہد اور قربانیوں میں گزار دی۔ گھر کے آرام اور پُرتعیش طرزِ زندگی کو چھوڑ کر، ریاست کرناٹک کے دُوردراز کے علاقوں کے پُرمشقت دورے شروع کردیے۔ سیکڑوں خاندانوں کو متاثر کیا۔ بے شمار کارکن تیار کیے، اَن گنت لوگوں کے دلوں میں تحریک کی شناسائی، ہمدردی اور تعلق خاطر کے بیج بوئے۔ خود انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ اپنی دولت اس راہ میں کھپاکر اور متاعِ زندگی خدا کی راہ میں لٹاکر بے نیازی اور استغنا کی قابلِ رشک شان کے ساتھ، فانی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
اس وقت ذہن کے اسکرین پر بہت سی تصویریں چل رہی ہیں۔ عجیب و غریب ، حیرت انگیز لیکن نہایت حسین اور دل نواز۔ میری ان سے پہلی ملاقات، ایک اجتماع میں اس وقت ہوئی جب میں ۱۸سال کی عمر کا ’اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن‘ (SIO)میں ایک گمنام کارکن تھا۔ اس ملاقات کے بعد وہ کبھی میرا نام نہیں بھولے۔ پھر جگہ جگہ ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ایس آئی او کا کُل ہند صدر بنا تو کئی سال ان کے سایۂ شفقت میں مرکز کے قریب رہنے کا موقع ملا۔ اُس وقت مرکز کے جن ذمہ داروں سے ملنے اور بے تکلف بات کرنے میں ہم ایس آئی او کے کارکنوں کو کبھی کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی، ان میں ایک نمایاں نام خود امیرجماعت سراج الحسن صاحب کا تھا۔ ہم وقت لیے بغیر پہنچ جاتے، بے تکلف بات کرتے۔ کبھی اپنے دفتر ایس آئی او میں بھی دعوت دینے کی جسارت کرتے۔ ہلکی پھلکی تنقید اور تیکھے سوالات بھی کرڈالتے۔ کبھی مولانا کی باتوں سے متفق ہوتے، کبھی نہیں ہوتے، لیکن ان کے پاس سے کبھی مایوس یا دل شکستہ نہ لوٹتے۔ مولانا تحریک کے اُمور پر بھی بات کرتے، علمی و فکری مسائل پر بھی گفتگو ہوتی، لیکن ساتھ ہی بڑے غیرمحسوس انداز میں ہماری ذاتی زندگیوں کے بہت سے اُمور بھی زیربحث لے آتے۔ تعلیم کے بارے میں پوچھتے۔ والدین کے بارے میں سوال کرتے اور خاص بات یہ ہے کہ جو کچھ ہم ان سے کہتے، انھیں یاد بھی رکھتے تھے۔
یہ بات ہمارے نوجوان رفقا کے لیے انتہائی تعجب کا باعث ہوتی تھی کہ امیرجماعت کو ایک عام کارکن کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اس کا باپ بیمار ہے یا اس کا پورا خاندان اس کے بہن کے رشتے کے حوالے سے متفکر ہے، یا اسے انجینیرنگ کے دو فلاں فلاں پرچے پاس کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے، یا وہ کئی دنوں سے نوکری کی تلاش میں پریشان ہے۔ وہ صرف سوالات ہی نہیں کرتے تھے، بلکہ اُس کے ذاتی مسائل کو حل کرنے میں ممکنہ تعاون بھی کرتے۔ میری اس وقت تک شادی نہیں ہوئی تھی۔ کئی رشتوں کی نشان دہی کی۔ ایک آدھ رشتے کے بارے میں والد صاحب مرحوم سے بھی بات کی۔ مولانا مرحوم کی شخصیت، خوے دل نوازی کی ایسی بے شمار اداؤں کا مرقع تھی۔
مولانا سراج الحسن صاحب کو معلوم ہوتا کہ ہمیں کوئی سفر درپیش ہے تو ٹکٹ کے بارے میں پوچھتے۔ ریزرویشن کے کنفرمیشن کے بارے میں معلوم کرتے۔ اپنے تجربات کی روشنی میں ہدایات دیتے: ’’فلاں اسٹیشن سے فلاں اسٹیشن کےدرمیان چوریاں بہت ہوتی ہیں، دھیان رکھنا۔ فلاں ٹرین میں کھانا اچھا نہیں ملتا، ساتھ میں ٹفن لے لینا، فلاں روٹ پر دن میں عام مسافر بھی ریزرو ڈبوں میں چڑھ جاتے ہیں۔ رات ہی میں نیند اچھی مکمل کرلینا، وغیرہ‘‘۔
ملک بھر میں پھیلے ہوئے سیکڑوں لوگوں سے وہ پوسٹ کارڈوں کے ذریعے ربط میں رہتے۔ سفروحضر میں ہروقت ان کے پاس پوسٹ کارڈوں کا ایک بنڈل ساتھ ساتھ ہوتا۔ روزانہ کا کچھ حصہ خطوط لکھنے میں صرف ہوتا۔ جہاں جاتے دفتر یا ہوٹل کے بجاے اپنے رفقا کے گھروں میں قیام کو پسند فرماتے۔ ٹرین سے طویل سفر پر نکلتے تو راستے میں آنے والے اسٹیشنوں کے رفقا کو خبر کردیتے۔ وہ خوشی و مسرت کے ساتھ ملاقات کے لیے آتے۔ بعض اوقات آدھی رات کو بھی اُٹھ کر، اسٹیشن پر آنےوالے رفقا سے ملاقاتیں کرتے۔ کھانے پینے کی پسند بہت سادہ تھی۔ مرچی کے پکوڑے، جوار کی روٹی، اس جیسی سادی چیزوں کو اپنی مرغوب ترین چیزیں کہتے۔ رفقا ان سادی چیزوں کو لاکر اور کھلاکر بے حد خوشی محسوس کرتے۔یہ سب بھی تعلقات کے استحکام کے انوکھے انداز تھے، جنھیں بہت خوب صورتی سے برتتے تھے۔
غالباً ۲۰۰۲ء کی بات ہے، ایس آئی او کی کوئی کُل ہند مہم چل رہی تھی۔ میرے مسلسل دورے ہورہے تھے۔ ایک دفعہ بھوپال میں رات کا پروگرام کرکے مجھے اگلے دن میرٹھ میں ایک بڑے پروگرام کی صدارت کے لیے جانا تھا۔ رات بھوپال اسٹیشن پہنچے تو معلوم ہوا کہ میرٹھ کے لیے جس ٹرین کا ریزرویشن تھا، اس کی روانگی منسوخ ہوگئی ہے۔ کسی طرح دلی کا ٹکٹ بنایا گیا۔ وقت تنگ تھا۔ دلی سے میرٹھ، پروگرام کے وقت پر، اسی صورت میں پہنچ سکتے تھے، جب ٹرین وقت پر چلے۔ اسٹیشن پر فوری طور پر کار مل جائے اور دلی سے میرٹھ کا سفر تیزی سے مکمل ہوجائے لیکن کار اس وقت ہمارے پاس نہیں تھی۔ دلی میں موجود رفقا نے مرکز جماعت پہنچ کر درخواست کی اور یہ واقعات امیرجماعت کے علم میں آگئے۔ اس کے بعد مولانا کی بے چینی کا جو عالم تھا، وہ مَیں کبھی نہیں بھول سکتا۔ فون کرکے معلوم کیا کہ برتھ کنفرم ہوئی ہے یا نہیں؟ پھر دلی پہنچنے کے بعد فون آیا کہ کیا مرکز کی گاڑی وقت پر آگئی تھی؟ پھر میرٹھ پہنچنے کی اطلاع، پھر پروگرام میں بروقت پہنچ جانے کی اور پروگرام کے بخیروخوبی مکمل ہونے کی اطلاع، یہ سب اطلاعات وہ حاصل کرتے رہے۔ اور واپس آتے ہی حاضر ہونے کی ہدایت فرمائی اور تفصیل سے سفر کی رُودادسنی۔ شفقت، اپنائیت اور دل بستگی کا یہ انداز اللہ اللہ!
اسی طرح کا ایک واقعہ چند سال پہلے اس وقت پیش آیا، جب مولانا کو امارت سے فارغ ہوئے کافی عرصہ گزرچکا تھا۔ میرے ایک عزیز کا ایک پیچیدہ آپریشن ہونا تھا اور مَیں انھیں لے کر ، حیدرآباد سے مولانا کی خدمت میں دعا کے لیے حاضر ہوا تھا۔ ہمارے گھر کی بعض خواتین بھی ساتھ تھیں۔ شام میں دُعا سے فارغ ہونے کے بعد، مولانا نے پہلے رات میں آرام کرکے صبح جانے کے لیے کہا۔ہم نے مصروفیات کی وجہ سے معذرت کی تو فرمایا کہ ’’رات رُک نہیں سکتے تو پھر اب فوری نکل جاؤ، خواتین کے ساتھ دیر رات کا سفر مناسب نہیں‘‘۔ فوری طور پر ناشتے کا سامان منگوایا اور بغیر کسی تکلف کے، خود عجلت کرکے رخصت کردیا۔ یہ بھی مولانا کا مخصوص انداز تھا۔
انھیں روایتوں کی پاس داری سے زیادہ اپنے رفقا کے آرام اور ان کی بھلائی کی فکر رہتی اور اس معاملے میں کبھی تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔ مہمان کی مرضی کے خلاف اس کی پلیٹ میں باصرار کھانا ڈالنا اور اس کے کاموں میں حرج کرکے اس کو اپنے یہاں روکنا وغیرہ، ان کے نزدیک سخت ناپسندیدہ اور ناشائستہ حرکتیں تھیں۔ اس زمانے میں یہ بات مشہور تھی کہ مولانا کی یادداشت کافی متاثر ہوگئی ہے۔ اس کے باوجود یہ عالم تھا کہ حیدرآباد پہنچتے ہی مولانا کا فون آگیا کہ ’’کیسے پہنچے؟‘‘ اپنے عزیز کے آپریشن کی جو تاریخ اور وقت بتایا تھا، اس وقت فون، پھر آپریشن مکمل ہوتے ہی فون اور پھر ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کی تاریخ کو فون۔ عام کارکنوں سے یہ تعلق کسی مصنوعی کوشش کے ذریعے پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے، جو رؤف و رحیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکاروں کو وہ عطا کرتا ہے۔
ایک قائد تحریک کو بنیادی طور پر تین کام کرنے پڑتے ہیں: تحریک کے وژن اور سمت کا تعین، اس کے لیے افراد کار کی تربیت، اور اس کے حصول کے لیے مؤثر تنظیمی ماڈل___ سراج الحسن صاحب نے ان تینوں محاذوں پر بہت سے نئے تجربات کیے۔ان تجربات کا گہرا اور سنجیدہ مطالعہ ہونا چاہیے۔ ان کے وژن میں دعوتِ دین کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اپنی تقریروں کے ذریعے انھوں نے پوری جماعت میں اس کا شعور بیدار کیا۔ غیرمسلموں سے تعلقات و روابط کے نمونے خود بھی قائم کیے اور جماعت کو بھی اس کے لیے آمادہ کیا ۔ اس کے لیے کئی ادارے وجود میں لائے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان، ماضی پر فخر، بادشاہوں کے کارناموں کے تذکروں اور اپنے آپ میں رہنے کے بجاے، ا س وقت کی اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیں اور دعوتِ دین کے کام پر تمام توجہات کو مرکوز کردیں۔ دعوت کے کام کے لیے جس اخلاص، بے لوثی، قومی یا فرقہ وارانہ اور تاریخی عصبیتوں سے بالاتری وغیرہ درکار تھی، مولانا کی ذات، خود بھی اس کا نمونہ تھی اور وہ اپنی تقریروں سے ان صفات کو اپنے رفقا میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔
محترم سراج الحسن صاحب کا تنظیمی ماڈل کئی امتیازی خصوصیات کا حامل تھا۔ زیادہ سے زیادہ مشاورت اس ماڈل کی اہم خصوصیت تھی۔ کثرتِ مشورہ سے بعض لوگ پریشان بھی ہوجاتے، اور معترض بھی ہوتے لیکن مولانا نے ہمیشہ مشاورت کو بہت اہمیت دی۔ اسی طرح ان کے ماڈل کی ایک خصوصیت اختیارات کی تقسیم کارتھی۔ اپنے بہت سے کام اور اختیارات انھوں نے اپنے معاونین کو ڈیلی گیٹ (تفویض)کیے اور کام کے بھرپور مواقع ان کو فراہم کیے۔
وہ جانتے تھے کہ ہر کام وہ خود بھی نہیں کرسکتے۔ چنانچہ علمی و فکری رہنمائی کے لیے انھوں نے مولانا سیّد جلال الدین عمری، ڈاکٹر فضل الرحمان فریدیؒ اور ڈاکٹر عبدالحق انصاریؒ جیسی بلندپایہ علمی شخصیتوں کو آگے بڑھایا۔ تنظیمی اُمور میں محمد شفیع مونس صاحب اور محمد جعفر صاحب پر بھرپور اعتماد کیا۔ ملّی و سیاسی اُمور میں شفیع مونسؒ صاحب، سیّد محمد یوسفؒ صاحب، عبدالقیوم ؒ صاحب جیسے لوگوں کو کام کے بھرپور مواقع فراہم کیے۔ اس طرح اجتماعی قیادت کی ایک پوری کہکشاں مرکز جماعت میں روشن کر دی۔
نوجوانوں اور نئے لوگوں کو آگے لانا اور ان کو ذمہ داریاں دینا، اس تنظیمی ماڈل کی تیسری اہم خصوصیت تھی۔ اپنی پہلی اور دوسری میقات میں جو امراے حلقہ انھوں نے مقرر کیے، یہ سارے تقررات ان کے بڑے جرأت مندانہ فیصلے تھے۔ اکثر امراے حلقہ، اپنے اپنے حلقوں میں نہایت جونیئر تھے۔ لیکن ان کو آگے بڑھا کر انھوں نے جماعت کو تازہ دم کیا اور نئی توانائی اور قوت فراہم کی۔
نوجوانوں کی تربیت کے لیے ان کا انداز بھی نرالا تھا۔ ایک انوکھی روایت، دوروں میں نوجوان امراے حلقہ کو ساتھ رکھنے کی تھی۔ وہ کثرت سے دورے کرتے اور ریاستوں کے دُور دراز مقامات اور دیہات میں بھی تشریف لے جاتے۔ اس موقعے پر نوجوان امراے حلقہ کو ضرور ساتھ رکھتے۔ اس کے ذریعے امراے حلقہ کو ملک کے مختلف مقامات پر ہورہے اچھے تجربات سے روشناس کراتے۔ اپنے ساتھ رکھ کر اپنی صحبت سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتے اور تنظیمی مسائل اور تحریکی کاموں کے آداب اور طورطریقوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھنے اور سیکھنے کے موقعے بھی فراہم کرتے۔
بحیثیت صدر ایس آئی او مجھے بھی بعض دوروں میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ دوروں کے علاوہ دہلی میں جب سرکردہ شخصیتوں سے ملاقات یا اہم اجلاسوں میں شرکت کے لیے تشریف لے جاتے تو اس وقت بھی مجھے طلب فرماتے۔ بعض اہم اور حساس اجلاسوں میں بھی ان کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا۔ اجلاسوں میں پوری طرح اہمیت دیتے۔ دیگر بڑی شخصیتوں سے تعارف کراتے۔ کئی دفعہ بات کرنے کا بھی موقع فراہم کرتے۔ اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ نوجوانی کے اس دور میں تنظیمی اور قیادتی تربیت کے عمل میں ان صحبتوں سے غیرمعمولی فائدہ ہوا ہے۔
۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۱ء کی ایک میقات میں مجھے ان کے ساتھ مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن رہنے اور ساتھ میں اجلاسوں میں شرکت کرنے کا بھی موقع ملا۔ وہ میری پیدایش سے پہلے سے مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن چلے آرہے تھے۔ میری تحریکی و تنظیمی تربیت انھی کے بلکہ ان کے بعض شاگردوں کے زیرسایہ ہوئی تھی۔ لیکن کبھی شوریٰ کے مباحث کے دوران ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ان قدآور بزرگوں کی موجودگی میں ہم کو بات کرنے میں کوئی تکلف یا دشواری درپیش ہے۔ ہم آزادانہ بات کرتے اور تجویزیں پیش کرتے رہتے۔ اُن کی اور دیگر بزرگوں کی باتوں سے اختلاف بھی کرتے۔ بعض وقت گرما گرم بحثیں بھی کرتے اور وہ بڑی خوش دلی سے سنتے، سراہتے یا بڑی نرم دلی سے وضاحت کرکے اختلاف کو دُور کر دیتے۔یہ صالح شورائی روایات تحریک ِ اسلامی کے کلچر کی بہت بڑی خصوصیت ہے، جو مولاناؒ جیسے وسیع الظرف بزرگوں ہی کی روایت اور صدقۂ جاریہ ہے۔
اللہ سے گہرے تعلق اور اس کے بندوں سے گہرے روابط کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے۔ اللہ کی محبت ہی انسانوں کے اندر سچی انسان نوازی پیدا کرتی ہے۔ مولانا مرحومؒ کے تعبدی پہلو کو دوروں اور اسفار کے موقعوں پر قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ تہجد کے وقت اُٹھنے کی عادت انھوں نے مصروف سے مصروف دنوں میں بھی نہیں چھوڑی۔ صبح کاذب سے پہلے اُٹھ کر ٹھنڈے پانی سے غسل اور نماز اور باقاعدہ تلاوت سے اُن کے دن کی شروعات ہوتی۔ ذکر و اذکار کے معمول کی بھی سختی سے پابندی کرتے۔ اللہ نے بعض مخصوص بیماریوں کی شفا ان کے دم اور دُعا میں رکھی تھی۔ بواسیر، آدھے سر کا درد اور اس جیسے بعض امراض کے مریض ان کی دُعاؤں سے فوری شفایاب ہوجاتے۔ وہ جہاں بھی جاتے، ایسے مریض ضرور ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ہرجگہ پرانے سے پرانے امراض کی شفایابی کی حیرت ناک داستانیں سننے کو ملتیں۔
اللہ تعالیٰ سے گہرا تعلق ، اس کے بندوں سے بے پناہ محبت، تمام انسانوں کی ہدایت اور فلاح و کامرانی کی حرص، زندگی کا اعلیٰ و ارفع مقصد اور اس کی خاطر جان نچھاور کرنے اور اپنا سب کچھ لگا دینے اور لٹا دینے کا حوصلہ و جذبہ ___ یہی مومنانہ اوصاف شخصیتوں کو بلندی عطا کرتے ہیں۔ مولانا سراج الحسن مرحوم و مغفور اس حوالے سے یقینا بہت اُونچے اور بہت بلندوبالا کردار کے مالک تھے۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ ان کی عظیم قربانیوں اور محنت و جدوجہد کو قبول فرمائے، اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین!
بابری مسجد سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کا ۹نومبر ۲۰۱۹ء کو جو فیصلہ آیا ہے، وہ فیصلہ ہم سب کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور مایوسی کا باعث ہے۔سپریم کورٹ میں جس طریقے سے مقدمہ پیش کیا گیا تھا،جس قدرمضبوط دلائل و شواہد پیش کیے گئے تھےاورجس طرح سے ہمارے وکلا نے اس مقدمے کی پیروی کی تھی،اس سے ہم سب کو توقع اور غالب امید تھی کہ فیصلہ بابری مسجد کے حق میں آئے گا،مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا ۔
یہ بات درست ہے کہ مسلمانوں نے پہلے روز سے یہ بات کہی تھی کہ وہ عدالت کا فیصلہ تسلیم کریں گے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، کہ جو مسلمان ابھی کہہ رہے ہیں یا حکومت کی تبدیلی کے بعد سے یہ بات کہہ رہے ہیں۔ نہیں، بلکہ جب سے یہ مقدمہ چل رہا ہے ،اس وقت سے مسلمانوں کا موقف یہی ہے کہ ’’سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گا، اس کا احترم کریں گے ،اسے قبول کریں گے‘‘۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے احترام کی بات اس لیے کہی گئی ہے کہ رول آف دی لا (قانون کی حکمرانی) کی بڑی اہمیت ہے۔ کوئی بھی معاشرہ قانون کی حکمرانی کے بغیرامن کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ اسلام بھی فتنہ و فساد کو پسند نہیں کرتا اور ہم بھی پسند نہیں کرتے۔ قانون کی حاکمیت کے بغیر فتنہ و فساد کا تدارک نہیں ہو سکتا، نیز معاشرے میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے ہم نے یہ کہا تھا کہ ہم امن کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے، دلائل کے ساتھ، اپنی بات رکھیں گے اور سپریم کورٹ جو فیصلہ دے گا، اس کا احترام کریں گے۔ اس لیےسپریم کورٹ کے فیصلے کے احترام کی بات پر ہم آج بھی قائم ہیں۔حتمی طور پر جو فیصلہ ہوگا ، اس کا احترام کیا جائے گا۔
تاہم، فیصلے کے احترام کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم صدفی صد اس سے اتفاق بھی کریں۔ اس فیصلے میں جو غلط باتیں ہیں ، ان سے ہم اختلاف کریں گے اور اس اختلاف کا ہم اظہار بھی کریں گے۔یہ ہمارا جمہوری حق ہے۔سپریم کورٹ یا ملک کا قانون بھی یہ نہیں کہتا کہ آپ ہر حالت میں سپریم کورٹ کی باتوں پر ایمان لے آئیں ۔تاہم، فیصلے کے خلاف کوئی کام یا عملی اقدام آپ نہ کریں، یہ قانون کا مطالبہ ہے۔ ہم اس مطالبے پر عمل کریں گے، اور فیصلے کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ لیکن اس فیصلے میں جو نقائص ہیں ، جو کمزوریاں ہیں ، ہم ان کم زوریوں پر اظہارِ خیال بھی کریں گے۔
سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جناب ورما صاحب کا قول اس وقت میڈیا میں نقل کیا جارہا ہے کہ ’’سپریم کورٹ، سپریم ہے، لیکن غلطیوں سے پاک (infalliable) نہیں ہے۔غلطی اس سے ہو سکتی ہے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے میں بہت سی غلطیاں اور بہت سی کم زوریاں ہیں۔ جس طریقے سے ٹائٹل سوٹ، یعنی مقدمۂ ملکیت کا فیصلہ کیا گیا ہے، وہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بحث اور فیصلے میں بہت سی باتیں ایسی بھی سامنے آئی ہیں، جو مسلمانو ں کے موقف کی تائید کرتی ہیں۔ خاص طور پر جو بحث اور گفتگو، اس طویل عرصے میں بابری مسجد کے حوالے سے چلی ہے اور جس کی بنیاد پر ایک تاریخی بیانیہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مسلمانوں کے موقف کی تائیدکی ہے۔ مثلاً اس پورے فیصلے کی سب سے اہم بات جو فرقہ پرستوں کے پورے موقف کو ڈھیر کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے بقول: ’’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بابری مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی‘‘۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ غیر معمولی طور پر اہم بات ہے ۔ اس سےہم تاریخ کی بحث کا پورا دھارا موڑ سکتےہیں۔ عدالت نے فیصلہ دے دیا ہے ،لیکن ملک میں ضمیر کی عدالت کے سامنے آپ تفصیلات رکھ سکتے ہیں، اپنا موقف بیان کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بہت وضاحت کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ’’ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔ اس کا کوئی ثبوت ،کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے‘‘۔ اس فیصلے کے مطابق ’’اس زمین کے نیچے سے اسٹرکچر ضرور برآمد ہوا ہے مگر وہ اسٹرکچر کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔اگرچہ وہ اسلامی اسٹرکچر نہیں ہے،لیکن اس کے بھی شواہد نہیں ہیں کہ وہ ہندو اسٹرکچر ہے‘‘۔ فیصلے میں یہ بات بھی واضح طور پر کہی گئی ہے کہ ’’یہ اسٹرکچر بارھویں صدی کا اسٹرکچر ہے، جب کہ بابری مسجد سولھویں صدی میں بنی ہے۔بارھویں سے سولھویں صدی کے درمیان ۴۰۰سال کے دوران یہاں کیا تھا ؟ اس کا کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اس لیے اس کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے کہ مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی‘‘۔ میرے نزدیک یہ بہت اہم بیان ہے۔ اس سے وہ تاریخی موقف کہ جسے یہاں کے فسطائی اور فرقہ پرست عناصر کھڑا کرنا چاہتے تھے، اس کی پُرزور تردید ہوتی ہے۔ ہمیں اسے بھرپور طریقے سے ایک ایک فرد کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔
اسی طرح ۱۹۴۹ء میں مورتیاں رکھنے کے عمل کے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ’’بالکل غلط عمل تھا ۔ یہ توہین آمیز اور مجرمانہ فعل تھا۔ اسی طرح ۱۹۹۲ء میں مسجد کو گرادینے کا عمل بھی مجرمانہ عمل تھا‘‘۔
ایک بڑی اہم بات یہ کہ مذہبی عبادت کے مقدمات سے متعلق قانون The Places of Worship (Special Provisions) Act 1991 بھارتی پارلیمنٹ نے برسوں پہلے منظور کیا تھا۔ اس قانون کے تحت یہ بات کہی گئی ہے کہ ’’۱۹۴۷ءمیں مذہبی مقامات کی جو جو حیثیت تھی، وہی باقی رہے گی،سواے بابری مسجد کے‘‘۔ کیوں کہ بابری مسجد کا معاملہ اس وقت تک ایک اہم تنازعہ بن چکا تھا اور عدالت میں زیر غور تھا، اس لیے اس کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ لیکن باقی جومذہبی مقامات ہیں، ان کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ ’’۱۹۴۷ء کی پوزیشن باقی رہے گی۔ ۱۹۴۷ء میں جو مسجد تھی وہ مسجد رہے گی جو مندر تھا وہ مندر رہے گا۔ کوئی پرانا تاریخ کا دعویٰ لے کر مسجد کو مندر میں اور مندر کو مسجد میں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا‘‘۔
اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے اس قانون کو مضبوطی عطا کی ہے۔ اس کے نتیجے میں بنارس اور دیگر مقامات کے سلسلے میں ہندوانتہاپسند جو دعوے اُٹھا رہے ہیں،ان پر گویا سپریم کورٹ نے بند باندھا ہے۔ یہ بات بھی ہمیں بھارت کے عوام کے سامنے لانی چاہیے، کہ اب ان سارے دعووں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی، اور یہ کہ اب اس طرح کے تنازعات ختم ہوجانے چاہییں۔
بابری مسجد کے مقدمے کے سلسلے میں ہماری جوقانونی ذمہ داری ہو سکتی تھی، وہ ہم نے ادا کی ہے۔بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر یہ بات بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’اگر ہم مصالحت کے ذریعے مسجد دے دیتے تو اچھا ہوتا۔ کیوں اتنا لمبا مسئلہ چھیڑا گیا؟اتنی لمبی عدالتی لڑائی لڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ نتیجہ تو وہی نکلا۔ اگر پہلے ہی عزت سے دے دیتے تو مسئلہ بہت پہلے ختم ہوجاتا‘‘۔ ایسی باتیں سوشل میڈیا پر جگہ جگہ چل رہی ہیں۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح سجھ لینی چاہیے کہ یہ عدالتی لڑائی اور جد وجہد کس لیے تھی ؟ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا صبروتحمل اور ہماری یہ لڑائی اور جدوجہد اصلاً ملک میں قانون کی حکم رانی کو یقینی بنانے کے لیے تھی۔ اگر کمزوروں پر دباؤ ڈال کر ان کے حقوق غضب کیے جاتے رہیں اور کمزور دب کر صلح کرتے رہیں، تو معاشرے میں انارکی اور لاٹھی کا راج مسلط ہوجاتا ہے۔ صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ ملک کے تمام شہریوں کو مسلمانوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ مسلمانوں نے ایک طویل جدوجہد کے ذریعے قانون کی حکم رانی کو یقینی بنایا ہے ۔طاقت کو قانون کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا۔ اگر مسلمان درمیان کے کسی مرحلے میں مصالحت کرلیتے تو ’ہجومی طاقت‘ (Mob Lynching)کی بالادستی بھارت میں قائم ہو جاتی۔ یہ بات طے ہو جاتی کہ کوئی بھی گروہ، مشتعل ہجوم اکٹھا کرکے من مانے طریقے سے کچھ بھی کر سکتا ہے۔اس وقت جو فیصلہ آیا ہے، وہ غلط ہو یا صحیح، بہر حال سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ قانونی عمل مکمل ہوا ہے۔اس سے قانون کی حکم رانی مستحکم ہوئی ہے، جو ملک کے دستوری ڈھانچے اور ملک کے قانونی نظام کے لیے مسلمانوں کا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔
مسلمان توکّل الی اللہ پر یقین رکھتے ہیں۔ توکّل، اسلامی فلسفے کا بنیادی اور اہم تصور ہے، جس کا براہِ راست تعلق ایمان سے ہے۔ توکّل کیا ہے ؟ توکّل کی دو شرطیں ہیں: ایک تو معقول تدبیر اختیار کرنا اور آخری حد تک کرنا۔ آپ ؐنے ارشاد فرمایا: ’’اونٹ کو باندھ کر توکّل کرو، کھلا چھوڑ کر نہیں‘‘۔ مطلب آخری ممکنہ حد تک تدبیر اختیارکرو۔ الحمد للہ ،مسلمانوں نے اس معاملے میں آخری حد تک کوشش کی۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ گئے اور سپریم کورٹ میں گئے ۔ ملک کے ماہرترین قانون دانوں کی خدمات حاصل کیں ۔ میڈیا کے سامنے اپنا مقدمہ رکھا ۔ ملک کے عوام کے ضمیر کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ مصالحت کے نام پر طرح طرح سے دباؤ ڈالے جاتے رہے ،لیکن کبھی اس دباؤ کا شکار نہیں ہوئے۔ استقامت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے، اور اپنی آخری کوشش جواللہ کے گھر کی حفاظت کے لیے ہو سکتی تھی، الحمدللہ اسے ہم مسلمانوں نے انجام دیا۔ اس پر ہم سب کو اطمینان ہونا چاہیے کہ الحمدللہ، ہم نے آخری حد تک کوشش کی ۔ اس طرح توکّل کی پہلی شکل ’ آخری حد تک تدبیر‘ کو ہم نے اپنے امکان کی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ ان کوششوں کو قبول کرے اور ان میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو اسے معاف فرمائے۔
اب دوسری شرط کا مرحلہ ہے۔ توکّل کی دوسری شرط یہ ہے کہ آخری کوشش کے بعد جو فیصلہ ہو جائے ، جو نتیجہ نکلے ، وہ ہم اللہ پر چھوڑ دیں۔ہم یہ سوچیں کہ اللہ جو کرے گا، ہمارے لیے اچھا کرے گا ۔ اس میں کچھ نہ کچھ خیر ہوگا۔ بہ ظاہر شر نظر آتا ہے، مگر اس میں کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے یہ اُمید رکھیں ۔ یہ بھی توکل کی اہم شرط ہے۔ہم نے ممکنہ حد تک کوشش کی ۔ اب ہمارے وکلا دیکھ رہے ہیں کہ کیا اور بھی کسی کوشش کا امکان باقی ہے؟ ریویو پٹیشن وغیرہ کا امکان ہے؟ اگر ہے تو وہ بھی کر لیں گے۔ مگر ممکنہ حد تک جو کوشش ہوسکتی ہے، وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی ہم کریں گے، کیوں کہ ہم اس کے مکلف ہیں۔ جب ہماری ذمہ داری اور ممکنہ حدتک کوشش پوری ہو جائے گی، تو پھر ہم اس مسئلے کو اللہ پر چھوڑ دیں گے اور سمجھیں گے کہ ان شاءاللہ اس سے کچھ نہ کچھ خیر ضرور برآمد ہوگا۔ پوری اسلامی اورانسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ بظاہر شر نظر آنے والے واقعات سے اوربظاہر نامناسب نظر آنے والے معاملات سے اللہ تعالی نے غیرمعمولی خیر پیدا کیا ہے۔
سیّدنا یوسف علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحرا کے ایک تاریک کنویں کی وحشت ناک تنہائی کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مصر کے تخت وتاج کا پہلا زینہ بنایا ۔ پھر مصر کی جیل کی طویل قید کو دوسرا زینہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ مختلف طریقوں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس میں خیر کیا ہے، لیکن ہم ان شاء اللہ اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے ادا کریں گے، اور وہ ہم نے پہلے بھی کی ہے۔ اس کے بعد معاملے کو اللہ پر چھوڑدیں ۔
سوال یہ ہے کہ اس کے بعد ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
اس سلسلے میں یہ بات ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہے کہ ہماری اصل ذمہ داری، اس ملک میں دعوتِ دین کی ہے،جواس ملک میں ہمارے بہت سے مسائل کا حل ہے۔ ہم اس ملک میں اپنے آپ کو خیرِ اُمت سمجھیں ۔یہاں کے تمام انسانوں اور کروڑوں کی آبادی کواپنا مخاطب سمجھیں۔ انھیں اللہ کے بندے سمجھیں اور ان سے ربط و تعلق قائم کریں۔ ان سے برادرانہ رشتہ استوار کریں،ان کی غلط فہمیوں کو دُور کریں ، ان کے دل میں جو نفرت کے بیج ہیں، انھیں مٹائیں۔ ان کے دلوں کو جیتیں۔ عدل و انصاف اور اسلام کی تعلیمات ان کے سامنے پیش کریں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہمارا فریضہ ہے ۔ یہ احساس امت مسلمہ کے اندر پیدا ہوجائے گا تو یہ مسئلہ بھی حل ہوگا اور اس جیسے مزید سیکڑوں مسائل بھی حل ہوں گے ۔
ہمارا طویل المیعاد ایجنڈا،اصل مقصد اور نصب العین یہ ہے کہ ہمیں خیرِ اُمت بننا ہے، مثالی اُمت بننا ہے۔ انسانوں کے سامنے اللہ اور اس کے آخری رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچانا ہے۔ اپنے آپ کو اخلاق اور کردار سے طاقت ور بنانے کی کوشش کرنی ہے۔اس نصب العین پر ہماری توجہ رہے ۔اس عظیم نصب العین کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسی رکاوٹیں اس راہ میں آتی رہتی ہیں۔ہمیں ان رکاوٹوں کو دُور کرنے کی کوشش ضرور کرنی ہے، لیکن ان میں اُلجھ کر نہیں رہ جانا۔ بابری مسجد کےاس فیصلے سے جو تکلیف ہمیں پہنچی ہے وہ فطری بات ہے اور ایمان کا تقاضا ہے۔ لیکن اس تکلیف کے نتیجے میں ہم کو مستقل طور پر مایوس اور نااُمید نہیں ہونا ہے ۔ اپنے اصل کام کے سلسلے میں حوصلے اور ہمت کو نہیں ہارنا ہے۔
ہم اپنے اصل کام سے وابستہ رہیں گے تو ان شاءاللہ یہ مسئلہ بھی حل ہوگا اور ایسے اور بھی مسئلے حل ہوں گے اور ہمارا یہ سفراپنے نصب العین کی طرف جاری رہے گا۔ اس نازک گھڑی میں، مَیں یہی گزارش کروں گا کہ ہم سب اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف متوجہ ہوں، اور یکسوئی سے انھیں انجام دینے کی فکر کریں۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو اور ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
[ویڈیو سے مرتب: محب اللہ قاسمی]
انسانی تاریخ کے ہر دور میں علوم و فنون کا، مذہب اور اخلاقیات کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔عصرِحاضر کے مسائل کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اس دور میں یہ رشتہ بے وقعت ہوکر رہ گیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ جدید مغربی زندگی کی پوری عمارت سیکولر طرزِ فکر کی بنیادوں پر کھڑی کی گئی ہے۔ جدیدیت کے نظریہ سازوں کے نزدیک: ’’مذہبی اور اخلاقی تصورات کا نہ صرف سائنس اور علوم و فنون سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ تصورات علمی ترقی اور سماجی زندگی کی راہ میں رکاوٹ تھے‘‘۔ چنانچہ اس بات کی سنجیدہ کوشش کی گئی کہ خاص طور پر سائنسی اور ٹکنالوجیکل تحقیقات ہرطرح کے اخلاقی اثر سے آزاد ہوکر کی جائیں۔ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ جدید ٹکنالوجی نے جب اپنے سفر کا آغاز کیا تو اس وقت اس کے سامنے کوئی اخلاقی نصب العین نہیں تھا۔ پھر جدید مغربی تہذیب کے سامنے ایک اہم ہدف ’فطرت سے جنگ‘، یا ’فطرت پر فتح‘ کا حصول تھا۔ وہ انسان کی کامیابی کا کمال یہ سمجھتے رہے کہ فطرت کی تمام طاقتوں پر انسان کو مکمل کنٹرول حاصل ہوجائے۔ اس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ ٹکنالوجی فطرت سے ہم آہنگ نہیں رہ سکی۔ پھر دوسرا بڑا سانحہ یہ ہوا کہ اخلاقی تصورات سے آزاد ہوجانے کے بعد سائنس و ٹکنالوجی عملاً ’غیرجانب دار‘ (neutral) نہیں رہ سکی بلکہ تجارتی، سیاسی اور فوجی مفادات کے تابع ہوگئی۔
اس صورتِ حال نے درج ذیل شدید نقصانات سے عالمِ انسانیت کو دوچار کر دیا:
اس پس منظر نے ساری دنیا میں ’ٹکنالوجی کی اخلاقیات‘ (Techno-ethics) کا سوال پوری شدت کے ساتھ کھڑا کیا ہے۔ دو تین صدیوں کے تجربات کے بعد دنیا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ: ’’ٹکنالوجی اور سائنس و اطلاقی سائنس پر بھی کچھ اخلاقی بندشیں عائد ہونی چاہییں‘‘۔ یہ سوال کہ ’’کس ٹکنالوجی کی ایجاد ہونی چاہیے یا نہیں؟‘‘ یہ بھی اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر ہی طے ہونا چاہیے، اور: ’’جب کوئی ٹکنالوجی ایجاد ہوجائے، تو اس کا استعمال کن مقاصد کے لیے ہونا چاہیے اور کن مقاصد کے لیے نہیں؟‘‘، اس کا مناسب جواب بھی اخلاقی ضابطوں میں موجود رہنا چاہیے۔
دیر سے سہی، لیکن اب ’ٹکنالوجی کی اخلاقیات‘ ساری دنیا میں ایک اہم ڈسپلن کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ ٹکنالوجی سے متعلق کانفرنسوں اور علمی مباحث میں یہ مسئلہ اب اہم موضوع بنتا جارہا ہے۔ حکومتیں اس کی بنیاد پر ضابطہ بندیاں کر رہی ہیں اور تعلیم گاہوں میں ٹکنالوجی کے ہرکورس کا یہ لازمی حصہ بن رہا ہے۔
ٹکنالوجی کی اخلاقیات کا تعین کرتے ہوئے ، اسلام کے درج ذیل اہم تصورات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہی تصورات ، ٹکنالوجی کے بارے میں اسلامی اخلاقیات کی تشکیل کے لیے بنیاد کا کام کرتے ہیں اور دنیا بھر کو رہنمائی دیتے ہیں:
ان اصولوں کے اطلاق سے ٹکنالوجی کے لیے جو رہنما اصول وضع ہوتے ہیں، انھیں درج ذیل نکات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
یہاں گنتی کی چند مثالیں دی گئی ہیں۔ ان مثالوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کئی معاملات میں اسلامی اخلاقیات، ٹکنالوجی کی اخلاقیات سے متعلق ان تصورات سے ہم آہنگ ہے، جو اس وقت دنیا میں رائج ہیں یا جن پر بڑی حد تک اتفاق راے پایا جاتا ہے۔ لیکن ان کے علاوہ اسلام کے اپنے اخلاقی تصورات بھی ہیں۔ بہت سی ٹکنالوجیز ایسی ہیں جن میں موجودہ غالب قوتیں کوئی اخلاقی خرابی محسوس نہیں کرتیں لیکن اسلام کے نزدیک وہ سخت معیوب ہیں۔
اہلِ اسلام کی یہ ذمے داری ہے کہ اس وقت، جب کہ ساری دنیا میں ٹکنالوجی کی اخلاقیات (ٹیکنوایتھکس) کا موضوع زیربحث ہے، وہ اس بحث میں آگے بڑھ کر حصہ لیں۔ اسلامی فکرونظر کے حامل ماہرین ٹکنالوجی کی جہاں یہ ذمے داری ہے کہ وہ اخلاقی لحاظ سے نامناسب یا نقصان دہ ٹکنالوجیز کی روک تھام کریں، وہیں اسلام کے ان اخلاقی اصولوں کا تقاضا یہ بھی ہے کہ بہتر اور مفید تر ٹکنالوجیز فروغ دی جائیں۔
یہ اہلِ اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ٹکنالوجیز کو فروغ دیں، جو اسلام کے مقاصد کے مطابق، مثلاً ظلم و استحصال کو کم کرنے والی اور مساوات کو فروغ دینے والی ہوں۔ غریبوں کے صحت کے مسائل کو آج بھی وہ اہمیت نہیں مل سکی ہے کہ جس کے وہ مستحق ہیں۔ ایسی ٹکنالوجیز جن کے ذریعے حکومتوں کا کام زیادہ شفاف ہوجائے یا ظالم کے لیے ظلم کرنا مشکل ہوجائے، ابھی صرف ناولوں ہی میں پائی جاتی ہیں۔ وہ ٹکنالوجیز جو کم قیمت پر غریبوں کی دیہی زندگی کو آسان بنائیں اور دیہی معیشت کے لیے سہولتیں پیدا کریں یا کم قیمت پر صاف پانی، اور آسان اور ارزاں توانائی فراہم کریں، یا جو اُن حادثوں اور آفات سے حفاظت کی ضمانت دے سکیں، جو عام غریب انسانوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکت کا سبب بنتے ہیں، یہ سب خواب ہنوز تکمیل طلب ہیں اور اہلِ اسلام کی فکرمندی اور اقدام کے منتظر ہیں۔
گذشتہ صدی کے آخری حصے میں جرمن فلسفی ارنسٹ فریڈرک شومیکر [۱۹۱۱ء-۱۹۷۷ء]نے ’موزوں طرزیات‘ (Appropriate Technologies) کی تحریک شروع کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ: ’’اگر ٹکنالوجی کے ماہرین صرف بڑے سرمایہ دار آقائوں کی خدمت کرنے کے بجاے عام آدمی کی ضرورتوں کے بارے میں سوچیں، تو دنیا کے اربوں غریب عوام کی زندگیوں کو نہایت آسان اور سہولت بخش بنایا جاسکتا ہے، اور اُن سب مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے، جن کی وجہ سے تیسری دنیا کے غریب لوگ سخت مصیبتیں جھیل رہے ہیں‘‘۔ یہ تصورات بلاشبہہ اسلام کی پیش کردہ اخلاقیات سے ہم آہنگ ہیں۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کا جو کردار پیش کیا ہے، اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ انھوں نے ایک پریشان حال قوم کا ایک پیچیدہ مسئلہ حل کیا تھا اور ایسی دیوار تعمیر کر دی تھی جس سے قوم، یاجوج ماجوج کے شر سے محفوظ ہوگئی۔ اس واقعے کا اہم پہلو یہ ہے کہ ذوالقرنین نے افرادی قوت اسی قوم کی استعمال کی تھی: فَاَعِیْنُونِی بِقُوَّۃِ اجْعَلْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ رَدْمًا [الکہف ۱۸:۹۵] ’’تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمھارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں‘‘۔ اس قوم نے وسائل بھی بہم پہنچانے کی پیش کش کی تھی، لیکن ذوالقرنین نے اسے قبول نہیں کیا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کے پاس وسائل اور افرادی قوت موجود تھی لیکن وہ اِس فن سے واقف نہ تھی اور ذوالقرنین کے پاس آئیڈیا اور ٹکنالوجی تھی جس کا استعمال کرتے ہوئے انھوں نے اس قوم کا مسئلہ حل کر دیا۔ ٹکنالوجی کی اسلامی اخلاقیات پر بحث، صرف ممنوعات کی فہرست تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ مطلوب اور مفید ٹکنالوجیز کے فروغ اور ان کے ذریعے انسانی مسائل کے حل کا یہ ذوالقرنینی کردار، اس بحث کا اہم حصہ بننا چاہیے۔
ہرتہذیب اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اختراع و ایجاد کی ضرورت مند ہوتی ہے۔ کسی بھی تہذیب کا محل صرف مانگے کے چراغوں سے روشن نہیں ہوسکتا۔ اسلامی حدود میں فلم سازی، ٹی وی اور انٹرنیٹ کا استعمال، آج ہم کرنا چاہیں تو ضرور کریں، لیکن یہ نہ بھولیں کہ یہ سب اُس مخصوص تہذیب کی پیداوار ہیں، جو بے مقصد تفریح پر حد سے زیادہ اصرار کرتی ہے۔ جدید مغربی تہذیب کو ناچ گانے اور بے مقصد تفریحات سے جو دل چسپی ہے، اسی کے نتیجے میں آج دسیوں ٹکنالوجیز وجود میں آئی ہیں۔ شاید یہ ٹکنالوجی اسلامی تہذیب کے زیرسایہ وجود میں نہیں آتیں۔
لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسی بہت سی ٹکنالوجیز ہوسکتی ہیں، جو اسلامی تہذیب کی ضرورت ہوتیں اور چوںکہ مسلمان کئی صدیوں سے ٹکنالوجی میں پیچھے ہیں، اس لیے وہ وجود میں ہی نہیں آئیں۔ اسلام کے تہذیبی مقاصد اس کے اپنے تہذیبی ذرائع چاہتے ہیں، اور ان ذرائع کی کھوج، ذہانت اور اُپج اور اختراعی صلاحیتوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں، جو اسلام کے بھی مزاج شناس ہوں اور ٹکنالوجی بھی جانتے ہوں۔ ایسے لوگ تقلید جامد کی فضا سے نکل کر اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروے کار لائیں تو ایسی سیکڑوں نئی چیزیں، نئے فنون اور نئی ٹکنالوجیز ایجاد ہوسکتی ہیں، جو اسلام کے تہذیبی مقاصد کی تکمیل بھی کریں اور اس کے مزاج سے ہم آہنگ بھی ہوں۔ بلاشبہہ یہ ٹکنالوجی کی اسلامی اخلاقیات کا اہم تقاضا ہے۔
اقامت دین کے تصورات پر بعض مسلم دانش وروں کی جانب سے کی جانے والی تنقید دوطرح کی ہے: ایک تو وہ لوگ ہیں جو سرے سے اس بات کے قائل ہی نہیں ہیں کہ مملکت کے سیاسی اُمور او ر اجتماعی معاملات میں اسلام بھی کوئی رہنمائی کرتا ہے یا اگر کرتا بھی ہے تو آج کے زمانے میں اس کی پیروی لاز م نہیں ہے۔ عصر حاضر کے سیکولر افکار سے متاثر یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ: ’’اسلام سمیت تمام مذاہب کا دائرہ، افراد کی ذاتی زندگیوں تک محدود ہے۔ اجتماعی معاملات میں مذہب کی دخل اندازی فتنہ و فساد کا سبب بنتی ہے اور یہ مذہب کا دائرہ کا ر بھی نہیں ہے۔ اسلام کے وہ احکام جن کا تعلق ریاست کے انتظام اور پالیسی سے یا قانون سازی سے ہے، وہ ایک مخصوص دور کی ضرورتوں کے لیے تھے۔ آج اُن تعلیمات سے روشنی تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اُن کی ہوبہو پیروی نہ تو ممکن ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے‘‘۔اس تحریر میں ہم اس اعتراض کو زیر بحث نہیں لائیں گے کہ یہ اعتراض علیحدہ سے تفصیلی تجزیہ چاہتا ہے۔ اس مکتب فکر کا ذکر ابتدا ہی میں اس لیے کردیا کہ آگے کے مباحث میں اس کا حوالہ آئے گا۔
ہمارے پیش نظر مسلمان اہل علم کا وہ طبقہ ہے، جو اسلام کی جامعیت اور اجتماعی زندگی سے متعلق اس کی تعلیمات کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ لوگ مانتے ہیں کہ اسلام نے ریاست کا تصور بھی دیا ہے، ریاست کے لیے قوانین بھی تجویز کیے ہیں، اور یہ احکام، اسلام اور اسلامی شریعت کا جز ہیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’ان احکام کا تعلق عام مسلمانوں سے نہیں ہے۔ اس کے مخاطب حکمران ہیں۔ اگرکسی کو حکومت او ر اختیار مل جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانون سازی اور ریاست کے انتظام و انصرام میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرے، لیکن عام مسلمان، جنھیں حکومت یا اقتدار حاصل نہیں ہے، وہ نہ ان احکام کے مخاطب ہیں اور نہ وہ اس کے مکلف ہیں کہ اسلامی شریعت کے ان احکام کی تعلیم، ترویج اور تنفیذ کے لیے کوئی اجتماعی جدوجہد کریں۔ ان کافریضہ بس ذاتی زندگیوں میں اور معاشرے (society) کے جن امور پر انھیں اختیار حاصل ہے، انھی میں اللہ کے احکام کی تعمیل تک محدود ہے‘‘۔ یہاں پر اقامت ِ دین کے حوالے سے مولانا وحید الدین خان صاحب اور جناب جاوید احمد غامدی کے نقطۂ نظر کا خلاصہ پیش کرکے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم اس نقطۂ نظر کا جائزہ لیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ اقامت دین کے بارے میں تحریک اسلامی اور مولانا مودودی کے خیالات کا خلاصہ پیش کردیا جائے۔
جماعت اسلامی ہند کے دستور کی دفعہ ۴میںجماعت کا نصب العین اس طرح بیان کیا گیا ہے:’’جماعت اسلامی ہند کا نصب العین اقامت دین ہے، جس کا حقیقی محرک صرف رضاے الٰہی اور فلاح آخرت کا حصول ہے‘‘۔
اس نصب العین کی تشریح اس دفعہ میں اس طرح کی گئی ہے: ’’اقامتِ دین میں لفظ ’دین‘ سے مراد وہ دینِ حق ہے، جسے اللہ ربُّ العالمین اپنے تمام انبیا علیہم السلام کے ذریعے مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں میں بھیجتا رہا ہے اور جسے آخری اور مکمل صورت میں تمام انسانوں کے لیے اپنے آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نازل فرمایا، اور جو اَب دنیا میں ایک ہی مستند، محفوظ اور عنداللہ مقبول دین ہے اور جس کا نام ’اسلام‘ ہے۔ یہ دین انسان کے ظاہر و باطن اور اُس کی زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی گوشوں کو محیط ہے۔ عقائد، عبادات اور اخلاق سے لے کر معیشت، معاشرت اور سیاست تک انسانی زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہے، جو اس دائرے سے خارج ہو۔یہ دین جس طرح رضاے الٰہی اور فلاحِ آخرت کا ضامن ہے اسی طرح دنیوی مسائل کے موزوں حل کے لیے بہترین نظامِ زندگی بھی ہے، اور انفرادی و اجتماعی زندگی کی صالح اور ترقی پذیر تعمیر صرف اسی کے قیام سے ممکن ہے۔ اس دین کی اقامت کا مطلب یہ ہے کہ کسی تفریق و تقسیم کے بغیر اس پورے دین کی مخلصانہ پیروی کی جائے اور ہر طرف سے یکسو ہوکر کی جائے۔ اور انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام گوشوں میں اسے اس طرح جاری و نافذ کیا جائے کہ فرد کا اِرتقا، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل سب کچھ اسی دین کے مطابق ہو‘‘۔۱
دستورِجماعت کی دفعہ ۵ اس نصب العین کے حصول کے لیے اختیار کیے جانے والے طریق کار سے بحث کرتی ہے۔اس کے درج ذیل جملے قابل توجہ ہیں:
جماعت اپنے تمام کاموں میں اخلاقی حدود کی پابند ہوگی اور کبھی ایسے ذرائع یا طریقے استعمال نہ کرے گی، جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کش مکش اور فساد فی الارض رُونما ہو۔جماعت اپنے نصب العین کے حصول کے لیے تعمیری اور پُرامن طریقے اختیار کرے گی ۔یعنی وہ تبلیغ و تلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کرے گی اور اس طرح ملک کی اجتماعی زندگی میں مطلوبہ صالح انقلاب لانے کے لیے راے عامہ کی تربیت کرے گی۔۲
ان دفعات میں خاص طور پر درج ذیل باتیں قابل توجہ ہیں:
۱- ’اقامت دین‘ کا مطلب صرف ریاست کی سطح پر اسلامی احکام کانفاذ نہیں ہے بلکہ پوری زندگی میں اسلام کی پیروی ہے۔ اس میں ریاست بھی شامل ہے اور اس کے ساتھ افراد کا اللہ سے تعلق،ان کے جذبات و داعیات، ان کی عبادات،ان کے اخلاق اور معاشرے سے متعلق تمام اُمور و معاملات بھی شامل ہیں۔
۲- دین کا قیام یا زندگی کے تمام گوشوں میں اسے جاری و نافذ کرنے کا کام زور زبردستی کے ذریعے انجام نہیں پائے گا، بلکہ لوگوں کی ذہن سازی یا راے عامہ کی تربیت کے ذریعے انجام پائے گا۔
یہ باتیں اجتماعی کمٹ منٹ اور گہرے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ جماعت کے دستور سے بھی واضح ہیں اور ساتھ ہی مولانا مودودی ؒکے افکار میں بھی بڑی وضاحت کے ساتھ ان باتوں کا اعادہ ملتا ہے۔مولانا مودودی ؒ کی تحریروں میںدرج ذیل قسم کی باتیں ہم کو کثرت سے ملتی ہیں:
اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلد بازی ہی کی ایک صورت ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلائیے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں اُن کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا، جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلد بازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رُونما بھی ہوجائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اُسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔۶
یہ اقتباسات ہم نے اس لیے نقل کیے ہیں، تاکہ بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ واضح رہے کہ تحریک اسلامی اور مولانا مودودی کے نزدیک’ اقامت دین‘ کا مطلب اور اس منزل تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے؟ اقامت دین صرف حکومت کی تشکیل یا تبدیلی کا نام نہیں ہے۔ یہ افراد اور معاشرے کی ہمہ گیر اصلاح کا نام ہے۔ریاست کی تشکیل کا ہدف بھی یقیناً اس میں شامل ہے، لیکن اقامت دین کا تصور صرف ریاست کی اصلاح تک محدود نہیں ہے اور نہ یہ اقامت دین کا اصل ہدف ہے۔ اقامت دین کا جو تصور ان عبارتوں سے واضح ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام کی دعوت لوگوں کے سامنے پیش کی جائے گی۔ لوگ اس کے قائل ہوں گے، اور ان کے ذہن، اخلاق اور رویے اس دین سے ہم آہنگ ہوں گے، تو اس کے نتیجے میں مثالی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے راہ ہموار ہوگی اور راے عامہ کی تربیت کے نتیجے میں ریاست بھی اسلامی رنگ اختیار کرے گی۔اقامت دین کا ہدف جب بھی حاصل ہوگا ،دعوت دین اور پُر امن طریقے سے راے عامہ کی تربیت کا نتیجہ ہوگا۔
مولانا وحید الدین خان صاحب نے اس تصور اقامت دین پر جو اعتراضات کیے ہیں، ان کا خلاصہ درج ہے:۷
۱- سورۂ شوریٰ کی آیت میں دین کا مطلب، دین کا وہ حصہ ہے جو تمام انبیاؑ کی دعوت میں مشترک ہے۔ اور یہ حصہ صرف توحید، رسالت اور آخرت، یعنی اسلام کے بنیادی عقائد تک محدود ہے۔ اسی کے قیام کا، یعنی اس کی پیروی اور اس کی دعوت کا یہاں حکم دیا گیا ہے۔۸
۲- سورۂ صف کی آیت میں(اسی مضمون کی آیت سورۂ توبہ میں اور اس سے مماثل آیت سورۂ فتح میں بھی آئی ہے) کوئی حکم یا ہدایت نہیں ہے بلکہ صرف خبر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے دین کو اپنے نبی کے ذریعے غالب کرے گا، یہ اللہ کے ارادے کا اظہار ہے۔ اس میں مومنین کے لیے کوئی حکم نہیں ہے۔۹
۳- دین کا مقصد، بندے اور اللہ کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنا ہے۔ یہی ایک مسلمان کا نصب العین ہے۔ ایک مسلمان کو دین پر عمل کرنا چاہیے اور دین کی دعوت پیش کرنی چاہیے۔ حکومت کی تبدیلی کے لیے جدوجہد اس کا کام نہیں ہے۔
مولانا وحید الدین خان صاحب یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ دین کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے لیکن ان کا اصرار یہ ہے کہ سورۂ شوریٰ کی اس آیت میں ، جس میں دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، دین کا مطلب صرف ایمانیات ہے اور یہی معنی مفسرین نے لیے ہیں۔ہمارے خیال میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ جن مفسرین نے ایمانیات اور بنیادی باتوں کا ذکر کیا ہے، انھوں نے اس کے ساتھ طاعۃ اللہ فی اوامرہ و نواہیہ کو بھی دین کے مطلب میں شامل کیا ہے۔ اس میں دین کے تمام احکام آجاتے ہیں۔مفسرین کے تفصیلی حوالوں کا یہ مضمون متحمل نہیں ہے ۔مولانا رضی الاسلام ندوی نے اقامت دین اور نفاذِشریعت میں قتادہ، علامہ ابن العربی، زمخشری، قرطبی، خازن البغدادی، العمادی، آلوسی، بیضاوی، ابن کثیر ، رازی وغیرہم کے اقتباسات نقل کیے ہیں۱۰، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ مفسرین یہاں دین کے معنی کو صرف عقائد و ایمانیات تک محدود رکھتے ہیں ۔ اس آیت میں الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ (الرعد۱۳:۳۰) کا فقرہ بھی شامل ہے جس میں خود بخود وہ سارے احکام آجاتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے۔ واقعہ یہ ہے کہ انبیاے کرام ؑ کی تعلیمات صرف عقائد اور ایمانیات ہی کے معاملے میں مشترک نہیں ہیں بلکہ ان کی دعوت کی روح بھی ایک ہی ہے۔ ان کی شریعتوں کی بنیادی باتیں بھی ایک ہی ہیں۔ اگر شرائع میں کچھ اختلاف ہے تو وہ جزوی اور فروعی باتوں میں ہے۔اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے اس کی وضاحت مولانا صدر الدین اصلاحی [۱۳نومبر ۱۹۱۶ء-۱۹۹۸ء]نے اس طرح کی ہے:
ان حضرات (یعنی مفسرین کرام ) کے نزدیک دین کی اصولی تعلیمات اور تمام انبیا ؑکے لائے ہوئے دینوں کی مشترک و متفق علیہ ہدایات الٰہی میں ایک اصولی تعلیم اور متفق علیہ ہدایت یہ بھی تھی کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سارے اوامر کی بجا آوری کرنی ہوگی اور اس کے تمام نواہی سے رکنا پڑے گا۔ اس جامع اصولی ہدایت کا عملی مفہوم کیا ہوگا اور اس کی عملی تعمیل کس شکل میں ہوسکے گی؟ یہ کوئی ایسا سوال نہیں جس کے جواب میں دو باتیں کہی جاسکیں۔ یہ جواب لازماً ایک ہی ہوگا اور وہ یہ کہ امت ان سارے احکام دین و شریعت کی مکمل پیروی کرے گی، جو اسے اس کے پیغمبر کے ذریعے دیے گئے ہوں۔ یعنی مسلمانوں کے لیے اس پوری شریعت کی پیروی اور اقامت اس آیت کی رُو سے واجب ہوگی، جو حضرت محمد ؐ کے ذریعے انھیں عطا ہوئی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں دوسرے انبیا ؑ کے دینوں کا ذکر اسم موصول عام کے ذریعے کیا گیا ہے لیکن آںحضرت کے دین کا ذکر اسم موصول خاص (الذی) کے ذریعے کیا گیا ہے۔ ۱۱
یہی بات اس آیت سے سمجھ میں آتی ہے اور یہی عام طور پر اس کی تفسیر بھی کی گئی ہے۔ یہاں دین کو اورقیام دین کے حکم کو صرف عقائد و ایمانیات تک محدود کردینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
یہ کہنا کہ: ’’مومن کانصب العین رضاے الٰہی ہے اور قیام دین کی جدوجہد ، دین کا تقاضا تو ہوسکتا ہے نصب العین نہیں ہوسکتا‘‘، محض الفاظ اور طرز بیان کا فرق ہے۔ جماعت کے نصب العین کی جو عبارت ہم نے نقل کی ہے ، اس میں رضاے الٰہی اور فلاح آخرت کے حصول کو ’حقیقی محرک‘ کہا گیا ہے اور اس غرض کے لیے اجتماعی طور پر جس ہدف کی خاطر جدوجہدمطلوب ہے ، اُسے نصب العین کہا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اصل محرک اورحتمی ہدف تو رضاے الٰہی ہی ہے ۔ لیکن اللہ کی رضا کا حصول ایک خاص قسم کی جدوجہد پر منحصر ہے۔ اس جدوجہد کا نشانہ اور ہدف اقامت دین ہی ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی صرف دستور جماعت تک محدود نہیں ہے۔ مولانا مودودی اورجماعت کے پورے لٹریچر میں اس کا بار بار اعادہ کیا گیا ہے۔ اب اگر آپ رضاے الٰہی کے حصول کو نصب العین قراردیں اور اقامت دین کو اس کی ضرورت یا تقاضا کہیں تو الفاظ کی اس تبدیلی سے کوئی عملی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اقامت دین اس صورت میں بھی ایک فریضے کے طور پر باقی رہتا ہے۔
جناب جاوید احمدغامدی مدیر اشراق (لاہور) نے اس تصور پر تفصیلی تنقید اپنے مضمون ’تاویل کی غلطی‘ میں کی ہے، جو ان کی کتاب بُرہان میں شامل ہے۔ ۱۲ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی کئی ویڈیوز پر مبنی تقاریر میں بھی اس مسئلے پر اظہارِ خیال کیا ہے،اور اپنے دیگر مضامین اور تفسیر میں بھی اس سے متعلق اشارے فرمائے ہیں۔ ان کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے:
۱- اقامت کا مطلب قائم کرنا یا نافذ کرنا نہیں ہے، بلکہ پیروی کرنا اور قائم رکھنا ہے۔ اس لیے سورۂ شوریٰ کی آیت میں صرف دین کی پیروی کا حکم ہے۔
۲- غلبۂ دین کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا۔ اللہ کی سنت ہے کہ جب رسول مبعوث ہوتا ہے تو دین غالب ہوکر رہتا ہے۔یہ سنت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پوری ہوگئی ۔ ا ب عام مسلمان ان آیات کے مخاطب نہیں ہیں۔
۳- دین کے سیاسی اور اجتماعی احکام کے مخاطب حکمران ہیں اور وہی اس کے مکلف ہیں۔ عام مسلمانوں کا کام صرف اپنے دائرے میں دین پر عمل اور اس کی دعوت ہے۔
جاوید صاحب نے کلاسیکی عربی شاعری وغیرہ کے حوالوں سے تفصیلی بحث یہ ثابت کرنے کے لیے کی ہے کہ:’’اقیموا کے معنی قائم کرنا نہیں ہے بلکہ قائم رکھنا ہے‘‘۔ہمارا خیال یہ ہے کہ اقامت کا ترجمہ’ قائم کرنا‘ کیا جائے یا’ قائم رہنا‘ یا ’قائم رکھنا‘، اس سے اصل موضوع بحث پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مولانا مودودی نے ترجمہ ’قائم کرنا‘ کیاہے لیکن تفہیم القرآن میں ’قائم رکھنا‘ اِس ترجمے کی گنجایش کو بھی تسلیم کیا ہے۔ دین قائم کرنا یا دین پر قائم رہنا، دونوں کا مطلب یہی ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں دین کی پیروی کی جائے۔ اس بات کو جاوید صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں اور انھوں نے دین پر قائم رہنے کے معنوں میں قانون و شریعت اور جہاد و قتال وغیرہ سارے احکام شمار کیے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ان کا کہنا یہ ہے کہ: ’’اقیموا کا مطلب صرف دین کے اُس حصے پر عمل تک محدود ہے، جس کا تعلق ہماری ذات سے ہے، اور جن امور کا تعلق ہم سے نہیں ہے ان پر عمل کرانا یا انھیں نافذ کرنے کی جدوجہد کرنا اقیمواکے معنی میں شامل نہیں ہے‘‘۔یہ نقطۂ نظر مفسرین کے بیان کیے ہوئے مطالب سے مختلف ہے ۔
مولاناگوہر رحمٰن۱۳ اور مولانا رضی الاسلام ندوی۱۴ نے اپنی تحریروں میں اُن مفسرین کرام کے تفصیلی حوالوں سے بحث کی ہے، جن کے نزدیک اقیموا کے معنوں میں دوسروں پر دین کا نفاذ بھی شامل ہے۔ یہاں اگر جاوید صاحب کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ: اقیموا کے لغوی معنی صرف خود دین پر عمل کرنا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود دین کا کیا مطلب ہے؟ کیا دین کے دائرے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر، دعوت، جہاد ، اللہ کے دین کی نصرت، شہادت علی الناس وغیر ہ جیسے اُمور نہیں آتے، جن کی قرآن میں تسلسل سے تاکید کی گئی ہے؟ جب یہ سب احکامِ دین ہیں اور دین کا جز ہیں (اور جاوید صاحب بھی اسے تسلیم کرتے ہیں) تو اقیموا کے دونوں معنوں میں جو معنی بھی لیے جائیں ’اقامت دین ‘ کے اندر، یہ سب کام خود بخود شامل ہوجاتے ہیں۔ یعنی اگر اقیموا کا مطلب صرف یہ ہے کہ دین کے جو مطالبات میری ذات سے متعلق ہیں، ان کی تکمیل کی جائے تب بھی دعوت، جہاد، نصرت دین و غیرہ کے احکام میری ذات سے متعلق ہی ہیں۔ ان کی تعمیل تو اقامت دین کا تقاضا ہی ہوگا۔
واقعہ یہ ہے کہ اقامت دین کا حکم کسی ایک آیت تک محدود نہیں ہے۔ قرآن کی پوری اسکیم میں اسے مرکزی ذمہ داری کی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن نے اس کام کو کئی اصطلاحوں میں بیان کیا ہے۔ ’اظہارِ دین‘، ’قیامِ قسط‘، ’قیامِ عدل‘، ’شہادت علی الناس‘، ’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘، ’دعوتِ دین‘___ ان سب میں اقامت ِدین کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ ان سب احکام کا تقاضا یہی ہے کہ دین پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ باقی انسانیت کو دین کی طرف بلانے، دین پر انھیں مطمئن کرنے اور معاشرے میں اللہ کے احکام کی ترویج و تنفیذ کی ممکنہ کوشش کی جائے۔ مولانا مودودی اور اسلامی تحریکیں انھی باتوں کو ’اقامت دین‘ قرار دیتی ہیں۔
جاوید صاحب قرآن کے بہت سے احکام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص کردیتے ہیں۔ حالاںکہ عام قاعدہ یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے جو احکامات دیے ہیں ،وہ تمام مسلمانوں کے لیے ہیں اِلّا یہ کہ نبی کریم ؐکے لیے ان کی تخصیص کی کوئی واضح دلیل ہو۔ اظہارِ دین والی آیات کے سلسلے میں بھی موصوف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں اللہ کے وعدے اور سنت کا ذکر ہے ۔ وہ یہاں المشرکون کا ترجمہ ’عرب کے مشرک‘ اور دین کلہ کا ترجمہ ’عرب کے ادیان‘ کرتے ہیں۔ اس تخصیص کی بھی کوئی دلیل اس کے سوا نہیں دیتے کہ غلبۂ دین، رسولؐ کے سلسلے میں انبیا ؑکی سنت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دین کا غلبہ مکمل فرمایا۔سورۂ صف کی اس آیت میں لِیُظہرہ کے الفاظ دلالت کررہے ہیں کہ یہاں اظہار دین کو نبی کے مشن اور مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔یہاں صرف اللہ کے ارادے کا ہی اظہار نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن اور مقصد بعثت کا بھی اظہار ہے۔ صرف غلبۂ دین کے الٰہی ارادے کا اظہار مقصود ہوتا تو نبی کی بعثت کے ذکر اور اس کے بعد، اظہارِ دین کے ذکر کے ساتھ لامِ تعلیل (لِیُظہرہ) کی ضرورت نہیں تھی۔بے شک غلبۂ دین اللہ ہی کا منصوبہ ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے اس منصوبے کو نبی کے ذریعے مکمل کرنا چاہتا تھا ، اسی لیے اس نے نبی کو مبعوث کیا۔ اسی وجہ سے اسے نبی کا مشن کہا جاتا ہے۔اگر یہ نبی کا مشن اور اُن کا کام تھا تو نبی کے بعد آپؐ کی اُمّت کا کام کیوں نہیں ہوگا؟
جاوید صاحب، غلبۂ دین کی سنت الٰہی کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں کہ کہیں کہیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا اللہ تعالیٰ اس سنت کی تکمیل اپنے تکوینی امر کے ذریعے کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں فرقہ جبریہ نے خدا کے تکوینی اور تشریعی احکام میں بڑا مغالطہ کیا تھا۔زیر بحث فکر میں یہی مغالطہ غلبۂ دین کی سنت کے معاملے میں محسوس ہوتا ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ان آیات میں اِرسال رسول کا ذکر واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ اظہار دین کی سنت الٰہی ،نبی کی جدوجہد کے ذریعے پوری ہوگی۔ نبی اللہ کی رہنمائی میں لیکن اپنے آزاد ارادے کے ساتھ اظہارِ دین کی جدوجہد کرتا ہے، فیصلے کرتا ہے، حکمت ِعملی بناتا ہے، جہا د کرتا ہے، معاہدے کرتا ہے، جہاں ضرورت ہو لڑتا ہے اور جہاں ضرورت ہو صلح کرتا ہے۔ دعوت، ہجرت اور جہاد کے مراحل سے گزرتا ہے۔ سیاسی حکمت عملی بناتا ہے اور اپنی تدبیروں سے ، خدا کی مشیت کے تحت اس کی سنت کی تکمیل کرتا ہے۔
اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ قرار دیا ہے۔ آپؐ کا کام اب اس امت کو جاری رکھنا ہے۔ غلبۂ دین کے مشن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص کردینے اور امت کو اس سے مستثنیٰ کردینے کے لیے کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے خصوصاً اس لیے کہ دیگر اور نصوص ایسے موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا غلبہ بعد کے زمانوں میں بھی اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ قرآن مجید میں کہا گیا ہے:
وَلَاتَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹)، دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو۔
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ص وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْم بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا ، (النور ۲۴:۵۵) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اْنھوں نے اچھے عمل کیے ہیں، اْن سے اللہ کا وعدہ ہے کہ اْن کو وہ اِس سرزمین میں ضروراُسی طرح اقتدار عطا فرمائے گا، جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو اُس نے عطا فرمایا تھا اور اُن کے لیے اُن کے دین کو پوری طرح قائم کردے گا ۔
حدیث میں ہے: اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْ وَلَا یُعْلٰی عَلَیْہِ۱۵ ،یعنی اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لیے آیا ہے، سرنگوں ہونے کے لیے نہیں۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں کتاب الامارۃ کے تحت ایک پورا باب باندھا ہے، جس کا عنوان ہے: لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ ظَاہِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ ۱۶ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور اپنے مخالفوں پر غالب آئے گا۔اسی طرح کا ایک باب امام بخاری نے بخاری میں کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ میں باندھاہے ۔ان ابواب میں کئی حدیثیں بیان کی گئی ہیں، جن میں یہ کہا گیا ہے کہ اہل حق کا ایک گروہ اسلام کے لیے جدوجہد کرتا رہے گا اور اسے غلبہ ملے گا۔ مثلاًمسلم میں حضرت معاویہؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی گئی ہے:
مَنْ یُرِدِ اللہُ بِہٖ خَیْراً یُفَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَلَا تَـزَالُ عِصَابَۃٌ مِنْ الْمُسْلِمِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ عَلَی الْحَقِّ ظَاہِرِیْنَ عَلٰی مَنْ نَـاوَأَہُمْ اِلٰی یَـوْمِ الْقِیَامَۃِ ، ۱۷ جس شخص کی اللہ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دیتا ہے اور ہمیشہ ایک جماعت مسلمانوں کی حق پر لڑتی رہے گی اور غالب آئے گی ان پر جو ان سے لڑیں قیامت تک۔
اس مختصر مقالے میں تفصیلی شرعی دلائل کی گنجایش نہیں ہے۔ ضروری باتیں عرض کردی گئی ہیں۔ جو لوگ اور تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہیں وہ اس موضوع پر لکھی گئی بعض اہم کتابوں کو دیکھ سکتے ہیں۔اب تک جن کتابوں کے حوالے آچکے ہیں ان کے علاوہ،خصوصاً مولانا احمد عروج قادری کی کتاب اقامت دین فرض ہے اور اُمت مسلمہ کا نصب العین نیزمولانا صدر الدین اصلاحی کی کتاب فریضہ اقامتِ دین اور مولانا سیّد جلال الدین عمری کی کتاب معروف و منکر وغیرہ کا مطالعہ مفید ہوگا۔
اس موقعے پر اس موضوع کو عقل عام (Common Sense) کے پہلو سے بھی زیر بحث لاتے ہیں:
۱- دونوں معترض حضرات یہ بات مانتے ہیں کہ اسلام نے اجتماعی امور سے متعلق تفصیلی ہدایات دی ہیں۔ اور ان ہدایات کی تعمیل آج کے دور میں بھی ضروری ہے اور یہی انسان کی فلاح اور کامیابی کا خدائی نسخہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ نے اپنے بندوں کے لیے ایک اجتماعی نظام کو پسند کیا ہے، تو پھر آج بندوں کے درمیان اس کو متعارف کرانے، اور اسے جاری کرنے کا کیا انتظام ہے؟ ایک زمانے میں نفاذ کا یہ کام اللہ نے اپنے رسولؐ سے لیا تھا۔ اب اگر آج عام مسلمان اس کے نفاذ کی جدوجہد کے مکلف نہیں ہیں تو پھر یہ کام کس کے ذمہ ہے؟
یہ بات تو عقل عام کے خلاف ہے کہ اللہ نے انسانوں کے لیے ایک مکمل نظام زندگی نازل کیا، بڑی وضاحت کے ساتھ اس کی تفصیلات بتائیں، انھیں محفوظ رکھنے کا بھی انتظام کیا۔ ایک زمانے میں اپنے رسولؐ کے ذریعے اس کی تبلیغ و اشاعت اور اس کی تنفیذ کا بھی انتظام کیا ، لیکن بعد کے اَدوار میں انھیںانسانوں کے درمیان مقبول کرنے اور ا ن کے معاشروںمیں جاری و ساری کرنے کا کوئی انتظام ہی نہیں کیا۔یہ بات توکم از کم آج کے دور میں کوئی معقول آدمی نہیں کہہ سکتاکہ کوئی اجتماعی نظام زندگی صرف اس کے تعارف اور پیش کش کے ذریعے خود بخود نافذ ہوسکتا ہے۔اگر کوئی اس انتہائی سادہ لوح مفروضے پر یقین رکھتا ہے، تو آج کا سارا علمِ سیاسیات اور علمِ سماجیات اس کی تردید و تغلیط کے لیے موجود ہے۔ ہر نظریہ اور نظام اپنے نفاذ کے لیے انسانی جدوجہد چاہتا ہے، اور ایسی جدوجہد چاہتا ہے جو اجتماعی ہو اور مطلوب نظام زندگی کو ہدف بناکر کی جائے۔ اگر صرف نظریہ اور اصولوں کی موجودگی کافی ہوتی تو قرآن کا نزول کافی تھا، رسولؐ کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
انفرادی زندگی سے متعلق اسلامی احکام بھی انسانوں کی فلاح کے لیے ہیں اور یہی معاملہ اجتماعی زندگی سے متعلق احکام کابھی ہے۔جس طرح شرک اور جھوٹ ایک فرد کے لیے نقصان دہ ہے، اسی طرح سود اور قوم پرستی اور انسانوں کی غیر مشروط خود مختاری، یہ انسانی معاشروں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگر اپنے بندوں کی فوز و فلاح مقصود ہے ، اور صرف افراد کی نہیں بلکہ معاشروں کی اجتماعی فلاح بھی مقصود ہے، تو یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے نازل کردہ ان اصولوں کی تنفیذ کا کوئی انتظام ہی نہ کرے، جو انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہیں( ہم یہاں اس بحث کو نہیں چھیڑ رہے ہیں کہ افراد کی اصلاح کا بھی ایک بڑا پہلو سماجی اور معاشرتی اصلاح سے ہے)۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی ترویج و تنفیذ کا کام انسانوں ہی سے لیتا ہے۔ اسی لیے قرآنِ مجید میں اللہ نے اپنے بندوں سے دین کی نصرت اوراللہ کا مددگار بننے کا حکم دیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ (محمد ۴۷:۷) اے ایمان والو، اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم جمادے گا۔
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ ( الصف ۶۱: ۱۴)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو۔
اس کا مطلب اس کے سوااور کیا ہوسکتا ہے کہ دین کے معاملے میں منشاے الٰہی کی تکمیل کے لیے جدوجہد کی جائے۔اگر منشاے الٰہی یہ ہے کہ یہ دین زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی معاملے میں انسانوں کا رہنما بنے، تو اس منشا کی تکمیل کے لیے جدوجہد ہی دین کی نصرت قرار پائے گی۔ اسی جدوجہد کو اسلامی تحریکیں ’اقامت ِدین‘ کی جدوجہد کہتی ہیں۔
انسانی معاشروں میں ہمیشہ ایسی قوتیں کارفرما رہی ہیں، جو انسانی زندگی کی تنظیم گمراہ کُن شیطانی اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ کیا یہ بات اللہ کی مشیت اور اس کی اسکیم کا حصہ ہوسکتی ہے کہ معاشرے میں قوم پرستانہ فسطائیت اور کمیونزم کی منظم تحریک جاری و ساری ہو، انتہاپسندانہ سرمایہ داری کے قیام و نفاذ کی منظم جدوجہد ہوتی رہے، نسائیت پرست اور ہم جنس پرست منظم ہوکر اپنے اپنے سیاسی و معاشی تصورات کے نفاذ کے لیے سرگرم رہیں، لیکن اللہ کا مکمل دین اور انسانی فوز و فلاح کا حقیقی ضامن نظریۂ حیات صرف کتابوں میں بند رہے، یا ایسے حکمران کے انتظار میں راہ تکتا رہے، جو ا ن احکام کی تنفیذ کو اپنی ذمہ داری سمجھے؟ یہ بات بالکل عقلِ عام کے خلاف ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسانوں کے لیے کسی مخصوص نظریۂ حیات کو پسند کرتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ وہ اس کی تنفیذ کے لیے جدوجہد کی ذمہ داری کسی نہ کسی کے سپرد کرے۔ یہ فطری بات ہے کہ یہ ذمہ داری انھی کے سپر د کی جائے گی، جو اس نظریے کے ماننے والے اور اس کے امین ہیں۔
۲- اگر اجتماعی امور میں احکامِ دین کے نفاذ کی ذمہ داری صرف حکمرانوں کی ہے، تب بھی کیا عام مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے پابند نہیں ہیں؟ اگر حکمران اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کررہے ہیں اور اللہ کے احکام سے علانیہ انحراف کررہے ہیں، تو کیا یہ مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اس کی طرف اپنے حکمرانوں کو متوجہ کریں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ لِلہِ وَ لِکِتَابِہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِاَئِـمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَ عَامَّتِھِمْ ۱۸ ’’دین خیرخواہی کا نام ہے۔ خیر خواہی اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے اماموں کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے‘‘۔
ابو سعید خدری ؓکہتے ہیں کہ مروان نے عید کے دن منبر نکلوایا اور نماز عید سے پہلے خطبہ شروع کر دیا ، تو ایک شخص نے کہا : مروان ! آپ نے سنت کے خلاف کیا۔ ایک تو آپ نے اس دن منبر نکالا حالاںکہ اس دن منبر نہیں نکالا جاتا۔ پھر آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا ، حالاںکہ نماز سے پہلے خطبہ نہیں ہوتا۔ ابو سعید خدری ؓ نے کہا : اس شخص نے تو اپنا وہ حق جو اس پر تھا ادا کردیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ’’تم میں سے جو شخص کوئی بات خلافِ شرع دیکھے، تو اگر اسے ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے ہاتھ سے روک دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اس کو دل سے بُرا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔۱۹
ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا : سَتَکُوْنُ اُمَرَاءُ فَتَعْرِفُوْنَ وَ تُنْکِرُوْنَ فَمَنْ عَرَفَ بَرِیَٔ وَمَنْ اَنْکَرَ سَلِمَ وَلٰکِنْ مَنْ رَضِیَ وَ تَـابَعَ قَالُوْا اَفَلَا نُقَاتِلُہُمْ قَالَ لَا ، مَا صَلُّوْا ۲۰ ’’یعنی عنقریب ایسے حکمران ہوں گے جنھیں تم پہچانتے ہو گے اور ان کا انکار کرو گے، پس جس کسی نے ان (کی حقیقت) پہچان لی وہ بری ہوگا، جس کسی نے برملا ان کا انکار کیا وہ تو سلامتی کے راستے پر ہوگا سواے اس کے جو ان پر راضی ہوگیا اور ان کی اطاعت کرنے لگا (یعنی نہ وہ بری ہے اور نہ سلامتی کے راستے پر)‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیاایسے امرا کے خلاف ہمیں قتال نہیں کرلینا چاہیے؟ آپؐ نے فرمایا: جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں ایسا مت کرنا۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں جہاں اس حدیث کا باب باندھا ہے، اس باب کا موضوع ہی رکھا ہے: باب وجوب الانکار علی الامراء فیما یخالف الشرع وترک قتالھم ما صلو ونحو ذٰلک (یعنی اس بات کا باب کہ اگر امرا شریعت کی خلاف ورزی کریں تو ان کی نکیر واجب ہے…)۔ گویاجو حکمران اللہ کے احکام کی کھلی نافرمانی کریں ، ان کے خلاف خروج اور قتال کے لیے تو کچھ اور شرائط ہیں، لیکن ان کی نکیر اور ان کو معروف کی تلقین اور اسلام کے نفاذ کے لیے ان کو آمادہ کرنا، یہ کام تو ہر حال میں اہل ایمان کو انجام دینا ہے۔
۳- آج کے زمانے میں ملکوں کے نظام اور قوانین کے لیے صرف حکمران ذمہ دار نہیں ہوتے، عوام بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ دنیا کے بیش تر ملکوں میں تو جمہوری نظام ہیں۔جمہوری نظام کی تو تعریف ہی یہی ہے کہ وہاں قانونی طور پر عوام ہی اصل حکمران ہوتے ہیں۔ حکومت کے کام انھی کے منتخب نمایندے انجام دیتے ہیں۔ ملک کی قانون سازی اور پالیسی سازی عوامی رجحانات کے مطابق ہی ہوتی ہے۔ اس لیے اب تو یہ بحث بالکل غیر متعلق ہے کہ حکمرانی سے متعلق احکامِ دین کے مخاطب صرف حکمران ہیں، عوام نہیں ہیں۔ اب یہ بات ساری دنیا میں مسلمہ ہے کہ جمہوری حکومتوں میں جو پالیسیاں بھی بنتی ہیں، ان کے لیے عوام پوری طرح ذمہ دار ہیں۔عوام کے سامنے جواب دہ اور عوام کے ووٹ سے منتخب حکومت، اگر اللہ کے احکام کی کھلی خلاف ورزی کرتی ہے اور وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِـمَا اَنْزَلَ اللہُ کی تصویر بنی رہتی ہے، تو اس معاشرے میں رہنے والے مسلمان کیسے اس کی ذمہ داری سے بری ہوسکتے ہیں؟براء ت کی ایک ہی شکل ممکن ہے اور وہ یہ کہ وہ معاشرے کو اسلام کے نفاذ کے لیے تیار کرنے کی بساط بھر کوشش کرتے رہیں۔بلاشبہہ وہ کسی ایسے کام کے مکلف نہیں ہیں جو اُن کی طاقت اور استعدادسے باہر ہو لیکن جو کچھ ان کے بس میں ہے ، اُ س جدوجہد کی ذمہ داری سے وہ کیسے بری ہوسکتے ہیں؟ اسلام میں اجتماعی ذمہ داری کا تصور بھی پایا جاتاہے۔ ہم کو ایسے واضح نصوص بھی ملتے ہیں جن میں معاشرے کی اجتماعی خرابیوں کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے:
وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِO (الانفال ۸: ۲۵)،اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر انھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
جاوید صاحب خود اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
دنیا میں خدا کا قانون یہی ہے کہ بعض اوقات ایک گروہ کے جرائم کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے۔ یہ اْس سے متنبہ فرمایا ہے کہ اپنے رویے کی اصلاح کر لو، ورنہ اندیشہ ہے کہ اُس طرح کے کسی فتنے میں مبتلا ہو جاؤ گے جو پوری جماعت، بلکہ آیندہ نسلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتا ہے۔ اللہ کے دین میں اِسی بنا پر لوگوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی بھلائی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں۔۲۱
حدیث میں آیا ہے:
مَا مِنْ قَوْمٍ یعْمَلُ فِیھمْ بِالْمَعَاصِي فَلَمْ یُغَیِّرُوا إِلا أَوْشَکَ أَن یَعُمَّھُمُ اللَّہُ بِعِقَابٍ ۲۲ اگر کسی قوم میں گناہ کے کام کیے جاتے ہوں اور ان کاموں کو روکنے کی کوئی کوشش نہ کی جائے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب میں گرفتار کرلے۔
۴- کسی نظریے پر پختہ ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد کی جائے کہ یہی انسانی فطرت ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کے اجتماعی احکام پر عمل ضروری نہیں ہے( اس مکتب فکر کا ہم نے ابتدا میں ذکر کیا تھا) تو اس کا معاملہ مختلف ہے۔ لیکن اگر کسی کا یہ ایمان ہے کہ اسلام سیاست سمیت زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے، اور یہ رہنمائی ہی انسانوں کی فوزو فلاح کی واحد ضامن ہے، تو اس کے بعد، اس نظریے کے نفاذ کا خواب دیکھنا اور اس کے لیے ممکنہ جدوجہد کرنا خود بخود اس کی ذمہ داری بن جاتا ہے۔
زندگی کے مشن اور نصب العین کا گہرا تعلق اعتقاد (Belief )سے ہوتا ہے۔ ہر مشن اور نصب العین کسی اعتقاد کی پیداوار ہوتا ہے اور ہر پختہ عقیدہ کسی نہ کسی نصب العین کو لازماً جنم دیتا ہے۔اعتقاد اور زندگی کے مشن (Life Mission) کے درمیان یہ گہرا تعلق آج علم انتظامیات، سماجی نفسیات ، سماجیات وغیرہ علوم کا مسلمہ اصول ہے۔ان سب علوم میں یہ بحثیں موجود ہیں کہ آدمی اپنے بارے میں اور دیگر انسانوں اور کائنات کے بارے میں جو نقطۂ نظر یا اعتقاد رکھتا ہے اور جن قدروں (Values) اور اصولو ں کو اپنے لیے اور دیگر انسانوں کے لیے درست اور صحیح سمجھتا ہے، اسی نظامِ اقدار سے اس کی زندگی کا مشن تشکیل پاتا ہے۔ کسی بھی میدان میں تبدیلی کی ضرورت پر پختہ یقین آدمی کو اس تبدیلی کی تحریک چلانے پر مجبور کرتا ہے۔اس لیے، اقامت دین کا نصب العین اس عقیدے کا لازمی نتیجہ ہے کہ اسلام اللہ کا دین ہے اور اسی میں انسانوں کی نجات ہے۔ عقلی اعتبار سے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آدمی کا عقیدہ تو اسلام میں ہو، لیکن اسلام کا قیام اس کا نصب العین نہ بنے۔
اگر آج میں کینسر کی ایک نئی دوا ایجاد کرلو ں او ر میرے اندر یہ مستحکم یقین پیدا ہوجائے کہ اس دوا سے کینسر کا ہر مریض لازماً شفا پالے گا اور یہ کہ اس انمول دوا کی ترویج اس وقت عالم انسانیت کی ایک بڑی ضرورت ہے، تو اس عقیدے کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس دوا کی ترویج، اور ملک کے نظامِ صحت میں اس کی قبولیت میرا نصب العین بن جائے گا۔اگر اس دوا کے کارگر ہونے پر کامل یقین کے باوجود میں اسے لے کر گھر میں بیٹھا رہوں، تو میری یہ خاموشی انسانیت کے خلاف ہی تصور کی جائے گی اور میرے ضمیر بلکہ میری انسانی فطرت کے خلاف ہوگی۔ مختلف ازم کے علَم بردار اپنے اپنے نظریات کے قیام و نفاذ کے لیے اس بات کے محتاج نہیں ہیں کہ ان کی کتابوں کی عبارتوں کی لغات کے ذریعے تشریح کرکے بتایا جائے کہ اس کا قیام و نفاذ تمھاری ذمہ داری ہے۔ ان اصولوں کی صحت پر یقین اور اُن کے انسانوں کے لیے مفید اور موزوں ہونے پر یقین بذاتِ خود اس بات کے لیے کافی تصور کیا جاتا ہے کہ وہ ان کے نفاذ کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دے دیں۔
یقیناً اسلام نے یہ اصول دیا ہے کہ نفاذکا یہ کام زور زبردستی کے ساتھ نہیں ہوگا۔ میں کینسر کی دوا بھی کسی مریض کو بندوق کی نوک پر نہیں پلائوں گا۔ ڈاکٹروں کو بھی اس کی اجازت نہیں ہوتی۔میں دوسروں کا یہ حق بھی تسلیم کروں گا کہ اگر کوئی اس دوا کو مؤثر نہیں سمجھتا ہے یا نقصان دہ سمجھتا ہے تو وہ بھی اپنی بات لوگوں کے سامنے پیش کرے، لیکن میں آخری کوشش اس مقصد کے لیے ضرور کروں گا کہ لوگ اس کی افادیت کے قائل ہوجائیں، اس کے حق میں راے عامہ بن جائے اور اس کی تنفیذ ممکن ہوجائے۔ بالکل یہی کام مجھے اسلام کے سلسلے میں بھی کرنا ہے۔
۱- دستور جماعت اسلامی ہند، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی، مئی ۲۰۱۶، ص۷
۲- ایضاً، ص۸
۳- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، تحریک آزادی ہند اور مسلمان، دوم، لاہور، ص۱۷۵-۱۷۶
۴- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، تصریحات(مرتبہ: سلیم منصور خالد)، لاہور ص ۲۵۷- ۲۵۸
۵- ایضاً ،ص ۳۲۰ تا ۳۲۲
۶- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ،تفہیمات، سوم ، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ستمبر ۱۹۶۴ء، ص۱۶۲-۱۶۳
۷- تعبیر کی غلطی،مولانا وحید الدین خان ، مکتبہ الرسالہ ، نئی دہلی، تیسراایڈیشن، اکتوبر ۱۹۸۶
۸- سورۂ شوریٰ کی آیت ۴۲:۱۳ کی طرف اشارہ ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰی وَعِیْسٰیٓ اَنْ اَقِیْمُواالدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط (اُس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اْس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ!) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ، موسٰی اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اِس دین کو اور اْس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔[ترجمہ مولانا مودودیؒ])
۹- سورۂ صف کی آیت۶۱:۹ کی طرف اشارہ ہے: ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْن (وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو [ترجمہ مولانا مودودیؒ])۔ یہی بات سورۂ توبہ کی آیت ۳۳ میں بھی کہی گئی ہے اور اس سے مشابہ مضمون سورۂ فتح کی آیت ۲۸ میں بھی آیا ہے: ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ط وَکَفٰی بِاللہِ شَھِیْدًا ( وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے)۔
۱۰- ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، اقامت دین اور نفاذ شریعت، نئی دہلی، مئی ۲۰۱۲ء، ص۱۰ تا ۱۸
۱۱- مولانا صدر الدین اصلاحی، ’ خط مولانا صدر الدین ، ماہنامہ تجلّی، دیوبند ، فروری و مارچ ۱۹۶۵ء، ص۵۱
۱۲- جاوید احمد غامدی، تاویل کی غلطی ، مجموعہ مقالات بُرہان، المورد ، لاہور، ۲۰۱۰ء، ص ۱۶۹ تا ۱۸۰
۱۳- مولانا گوہر رحمٰن ، تفہیم المسائل، جلد پنجم، مکتبہ مدرسہ تفہیم القرآن، مردان، ۲۰۰۰ء،ص ۳۶۷ تا ۴۰۹
۱۴- ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، اقامت دین اور نفاذ شریعت، ص۲۷تا ۳۱
۱۵- بیہقی ، دارقطنی، البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
۱۶- مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث: ۳۶۳۶
۱۷- مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث: ۳۶۴۱
۱۸- صحیح مسلم ، کتاب الایمان، باب الدین النصیحہ، رواہ تمیم الداری، حدیث: ۱۰۷
۱۹- سنن ابن ماجہ، باب امر بالمعروف و نہی عن المنکر، رواہ ابو سعید الخدریؓ۔
۲۰- صحیح مسلم ، کتاب الامارۃ، روایت اُمِ سلمہؓ
۲۱- جاوید احمد غامدی، البیان ، تفسیر سورۂ انفال آیت ۲۵
۲۲- ابن ماجہ ۱۳/۱۲، نمبر ۳۹۹۹، مسند احمد ۱۹۵/۳۹، البانی نے اسے حسن قراردیا ہے۔
۲۳- سورۂ نور ، آیت ۵۵، ترجمہ جاوید احمد غامدی
مسلمانوں نے بالعموم اور ہندستانی مسلمانوں نے بالخصوص اپنی حالیہ تاریخ میں خود کو سب سے زیادہ نقصان اپنی جذباتیت سے پہنچایا ہے۔ جذباتیت صرف تشدد کا نام نہیں ہے ، بلکہ بسااوقات بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے پُرامن اقدامات بھی جذباتیت کا حصہ بن جاتے ہیں، جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے بعض صورتوں میں سخت مہلک ہوسکتے ہیں۔ یہ شدتِ جذباتیت ہی ہے جو بعض پر انتہاپسندی کا بخاری طاری کردیتی ہے اور بعض پر مایوسی و قنوطیت مسلط کردیتی ہے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم اپنے پسندیدہ لوگوں کی خرابیوں کو نہیں دیکھ پاتے اور ناپسندیدہ لوگوں کی خوبیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم دنیا اور اس کی ہرچیز کو سیاہ اور سفید کے انتہائی خانوں میں بانٹ دیتے ہیں اور گرے کا اندازہ نہیں کرپاتے۔ اسی شدت کے نتیجے میں بھارتی اکثریتی طبقے کے ذہن اور جذبات کو نہیں سمجھ پاتے اور نہ اس سے رابطہ کاری (communicate) کی راہیں تلاش کرپاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملّت ِ اسلامیہ ہند میں عوامی جذبات آگے ہیں اور قیادت پیچھے، بلکہ صحافت اور دانش وری کا کام بھی صرف عوامی جذبات کی ترجمانی تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
حالیہ انتخابی نتائج کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل کا جو طوفان اُمڈ آیا ہے، وہ اسی نفسیات کا مظہر ہے۔ کوئی یوپی کے مسلمانوں کو کوس رہا ہے کہ انھوں نے ’’بہار کے مسلمانوں کی طرح دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا‘‘، تو کسی نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ: ’’مسلمان تباہی گوارا کرتے ہیں، لیکن اتحاد پسند نہیں کرتے‘‘۔ کوئی ایک قدم آگے بڑھ کر مسلم سیاسی جماعتوں کو بی جے پی کا ایجنٹ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے اور کسی کے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی سیاسی جماعت کو چھوڑ کر ’غیروں‘ کو ووٹ دیا۔ غرض یہ کہ جتنے منہ ،اتنی باتیں۔
شدید ردعمل کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ چند دنوں تک جذبات کی آندھیاں چلتی ہیں، پھر حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ شدتِ جذبات کی اوجِ ثریا سے کمالِ سکون کے تحت الثریٰ تک کا یہ طویل سفر بس چند گھنٹوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارا یہی اجتماعی احتجاجی مزاج ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ وہ مزاج جو واقعات کے صرف انتہائی سُروں ہی کو سن پاتا ہے۔ جو اُمیدیں وابستہ کرنے میں بھی فراخ دل ہوتا ہے اور مایوس ہونے میں بھی دیر نہیں لگاتا۔ جو ہرکوشش کا نتیجہ فوری دیکھنا چاہتا ہے۔ ایسا مزاج اور ذوق، اصلاحِ احوال کی سنجیدہ، دھیمی اور طویل المیعاد کوششوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
واقعہ یہ ہے کہ نہ یوپی کے مسلمانوں نے کوئی غیرمعمولی غلطی کی ہے اور نہ جو کچھ ہوا ہے، وہ کوئی بڑی تباہ کن آفت ہے۔ واقعات کو ہمیں اس کے اصلی رنگ میں اور صحیح تناسب میں دیکھنا چاہیے، یہی معقول رویہ ہے۔ بہار میں اتحاد مسلمانوں کا نہیں، بلکہ سیکولر جماعتوں کاہوا تھا۔ یوپی کی سیاست میں ایسا اتحاد ممکن نہیں ہوسکا، اور اس پر مسلمانوں کا کوئی بس نہیں تھا۔ مسلمانوں نے کبھی متحد ہوکر ووٹ نہیں دیا۔ ذات پات اور سیاسی جماعتوں کی تقسیم ہمیشہ رہی ہے۔ اس بار عام مسلمانوں نے معقولیت کے ساتھ ووٹ دینے کی ہرممکن کوشش کی۔کئی مسلم سیاسی جماعتوں نے حالات کو دیکھ کر خود کو انتخابی معرکہ سے دُور رکھا، یہ خود ایک غیرمعمولی بات ہے، اور اس سے پہلے کسی صوبے میں ایسا نہیں ہوا۔ جن مسلم جماعتوں نے ان حالات میں بھی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، مسلمانوں نے عام طور پر انھیں لائقِ اعتنا نہیں سمجھا، جیساکہ ووٹوں کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلے غیرمسلم ووٹ منقسم رہتے تھے، اس دفعہ وہ متحد ہوگئے۔ متحد کیوں ہوئے؟ اس کی وجوہ کئی ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کا وفادار ووٹ بنک تو موجود ہے ہی۔ مسلمانوں کی جذباتی تقریریں، مذکورہ بالا قسم کے سوشل میڈیا پوسٹ، مسلم قائدین کی بے محل اور بے فیض اپیلیں، اُردو میڈیا کا شورشرابہ وغیرہ، فرقہ پرستوں کے وہ کارگر ہتھیار ہیں، جو مخلص مسلمانوں کے سادہ لوح ہاتھوں کے ذریعے پوری قوت سے استعمال ہوتے ہیں۔ انھوں نے منفی نتائج بخشنے کا کام خوب کیا۔ پھر بہت سے درمیانی ووٹرز بھی پلٹ گئے۔
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی ایک قابلِ ذکر آبادی ایسی ہے، جو فرقہ پرست نہیں ہے۔ لیکن فرقہ پرستی کا خاتمہ اس کا سب سے بڑا ایجنڈا بھی نہیں ہے۔ وہ متبادل، حوصلہ مند، نسبتاً زیادہ دیانت دار اور محنتی حکمران چاہتے ہیں ، اور اپنی سوچ کے مطابق موجودہ وزیراعظم میں انھیں یہ خوبیاں دکھائی دیں اور انھوں نے دوسروں پر انھیں ترجیح دیں۔
ذات پات اور طبقات میں بٹے ہوئے اس معاشرے کو کوئی طاقت ور مشترک خواب، کوئی مشترک اُمید اور کوئی نہایت حرکیاتی مشترک قیادت ہی متحد کرسکتی ہے۔ جوں ہی ملک کی بڑی آبادی کو یہ چیز میسر آئی، تو ذات پات کی دیواریں گرنے لگیں۔ مسلمانوں کو میسر آئے گی تو وہ بھی متحد ہوجائیں گے۔ ایسے کسی مشترکہ وژن اور متحدہ قیادت کے بغیر یہ اُمید کرنا کہ ہرمسلمان غیبی الہام کے ذریعے کسی ایک امیدوار کو متحد ہوکر ووٹ دے گا، خام خیالی ہے۔ بڑے سے بڑا تجزیہ نگار بھی بی جے پی کی مدمقابل پارٹی کی پوزیشن یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھا ،تو ایسے میں ایک عام مسلمان صحیح اندازہ کرکے ووٹ کیسے دیتا؟
رہی بی جے پی کے پردے میں آر ایس ایس کی جیت تو اس کی بنیاد پر مسلمانوں کو خواہ مخواہ احساسِ شکست کا شکار نہیں بننا چاہیے۔ نہ بی جے پی نے پہلی بار کسی ریاست میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور نہ یوپی میں پہلی بار کسی کو اتنی سیٹیں ملی ہیں۔ یہ صرف ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے، بلکہ ایک نظریاتی تحریک ہے۔ یہ تحریک ایک عرصے سے اس ملک میں سرگرم ہے اور بہت پہلے اس نے طاقت کے بہت سے مراکز پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ آزادی سے قبل اور فوری بعد، خود کانگریس کا ایک بڑا طبقہ اسی نظریے کی سیاسی نمایندگی کرتا تھا۔ اسی طبقے کی انتہاپسندانہ اور عدم رواداری کی سوچ کے نتیجے میں تقسیم ہند کا عمل تیز تر ہوا۔اسی طبقے نے فسادات کو ہندستان کی تاریخ کا مستقل حصہ بنایا۔ اسی نے منظم طریقے سے اُردو زبان کی جڑیں کاٹیں۔ جگہ جگہ مسجد مندر کے مصنوعی تنازعے پیدا کیے۔ پولیس اور انتظامیہ میں تعصب کا زہر پھیلایا۔ وقتی اور جذباتی مسائل میں مسلمانوں کو اُلجھایا۔ ان کی قیادتوں کو کمزور کیا۔ یاد رہے بھارت کا حقیقی اقتدار اصلاً بہت پہلے سے اسی طبقے کے کنٹرول میں ہے۔ اس لیے محض بی جے پی کے جیت جانے سے کسی بہت بڑے اس ’انقلاب‘ کا امکان نہیں ہے۔ انقلاب کا عمل آزادی کے بعد ہی سے جاری ہے۔ آزادی کے فوری بعد جس مقام پر کانگریس کھڑی تھی، اُس مقام پر آج بی جے پی کھڑی ہے۔ اُس وقت کانگریس کا ایک طبقہ مسلم دشمن تھا، آج بی جے پی کا ایک طبقہ مسلم دشمن ہے۔ اُس وقت وہ مقبول جماعت تھی اور آج یہ ہے۔ اُس وقت کانگریس میں لبرل اور انصاف پسند لوگ بھی تھے اور آج بی جے پی میں بھی ہیں (اگرچہ تعداد اور تناسب میں یہ کم زیادہ ہوسکتے ہیں)۔ ان فرقہ پرست قوتوں کو یقینا ہارنا چاہیے تھا، لیکن اگر وہ نہیں ہاریں تو ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں پر کوئی بالکل نئی اور غیرمتوقع قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ اصل قابلِ توجہ چیز اس ملک کے عوام کا ذہن ہے۔ خاص طور پر اس ملک کی نئی نسل اور تعلیم یافتہ نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟ یہ اصل مسئلہ ہے۔ اگر ذہن مثبت ہے تو بی جے پی بھی کوئی غیرمعمولی کام نہیں کرپائے گی اور کچھ کرے گی تو ٹک نہیں پائے گی اور اگر ملک کا اجتماعی ذہن منفی ہے تو سیکولر جماعتیں بھی مسلمانوں کی طرف داری کا خطرہ مول لے کر ’خودکشی‘ کا راستہ نہیں اختیار کریں گی۔ اَمرِواقعہ ہے کہ ان نتائج کے باوجود غیرمسلم اکثریت میں بدترین تعصب نہیں پایا جاتا۔ لیکن اب ذہن تیزی سے مسموم ہوتے جارہے ہیں اور ان کا بروقت نوٹس لینا ضروری ہے۔
کرنے کا اصل کام پہلے بھی یہ تھا اور آج بھی یہ ہےکہ ہم مسلمان ملک کی اکثریت کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کریں۔ ان کی غلط فہمیاں اور ان کے غلط شبہات اور اندیشے دُور کریں۔ پوری خوداعتمادی کے ساتھ دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیں اور اس دعوت کی عملی شہادت بھی دیں۔ انھیں دین اسلام کے بارے میں بھی بتائیں اور اپنے عمل سے بھی خود کو خیرخواہ ثابت کریں۔ قوموں نے انبیاے علیہم السلام کی مخالفت ضرور کی ہے، لیکن کسی نبیؑ کو ان کی قوم نے اپنا بدخواہ نہیں سمجھا۔ دعوت کے آغاز سے پہلے ہرنبیؑ کا امیج اپنی قوم میں ایک مخلص اور خیرخواہ فرد کا تھا۔ ہمارا ایسا امیج کا نہ ہونا دعوت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ بھی۔ یہاں کی آبادی سے خیرخواہی کا تعلق قائم کرنا اور اسے منوانا، اس وقت ہماری اصل ترجیح ہونی چاہیے۔
سیاسی سطح پر بڑی ضرورت بیدارمغز سیاسی قیادت کے اُبھرنے کی ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی و ملّی جماعتیں مل بیٹھ کر مشترکہ سیاسی قوت کو اُبھاریں۔ یاد رہے خود مسلم فرقہ پرستی دس گنا زیادہ طاقت ور ہندو فرقہ پرستی پیدا کرتی ہے، اس لیے ہماری سیاست کو فرقہ پرست اور مسلم قوم پرست رنگ کے بجاے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اصول پسند اور انصاف پسند سیاست کا رنگ اختیار کرنا چاہیے۔
یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ ہرجگہ انتخابات میں حصہ لینا ضروری ہے۔ ملک کے اکثر مقامات پر غیرانتخابی سیاسی اثراندازی کی حکمت ِ عملی ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔کہیں کہیں محدود پیمانے پر صرف مسلمانوں کی نہیں، بلکہ تمام طبقات کی نمایندگی کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ بھی لیا جاسکتا ہے، لیکن زیادہ تر ہماری قیادت کو سیاسی جماعتوں سے گفت و شنید اور مصالحت و معاہدات ، ووٹرز کی صحیح رہ نمائی کرنا اور منتخب نمایندوں سے کام کرانا جیسے عمل ہی کرنے ہوں گے۔ ایسی مشترکہ اور دانش مند قیادت اُبھرتی ہے تو وہ بی جے پی سے بھی بہت سے مفید کام کراسکتی ہے، اور ایسی قیادت کے بغیر من موہن سنگھ جیسے وزیراعظم کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود ’سچرکمیٹی‘ جیسے متعلق متعدد فیصلے بھی دس برس بعد بے اثر رہ جاتے ہیں۔
مابعد جدیدیوں کا یہ دعویٰ کہ دنیا میں کسی سچائی کا سرے سے وجود نہیں ہے ایک نہایت غیرمنطقی دعویٰ ہے۔اس دعویٰ میں بہت بڑا ریاضیاتی نقص ہے۔ یہ کہنا کہ ’ یہ سچ ہے کہ دنیا میں کوئی سچ نہیں‘ ایک بے معنی بات ہے ۔’’دنیا میں کوئی سچ نہیں ہے‘‘یہ بذات خود ایک دعویٰ اور ایک بیان ہے۔ اگر اس بیان کو درست مان لیا جائے تو اس کی زد سب سے پہلے خود اسی بیان پر پڑے گی، اور یہ بیان جھوٹا قرار دیا جائے گا۔ یہ ماننے کے لیے کہ ’’دنیا میںکوئی سچ نہیں ہے‘‘ کم سے کم اس ایک بات کو سچ ماننا پڑے گا۔
مابعد جدیدی ہرعالم گیر سچائی کے دعوے کو بڑا بول کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس پیمانے پر خود مابعد جدیدیت کو بڑا بول کیوں نہ قرار دیا جائے؟’خود ساختہ سچائیوں‘ کی رد تشکیل کی یہ فکر ایسا جال بچھاتی ہے کہ اس میں خود ہی پھنس جاتی ہے اور خود اپنے اصولوں کے ذریعے اپنے ہی اصولوں کا رد کرتی ہے ۔ غالباً یہ انسان کی فکری تاریخ کا نہایت منفرد واقعہ ہے کہ کوئی فکر اپنے تشکیل کردہ پیمانوں سے اپنی ہی بنیادوں کو ڈھائے۔
منطقی تضاد کے علاوہ اس فکر کے عملی اثرات بھی نہایت بھیانک ہیں۔ اگر سچائی اضافی ہے اور دنیا میں کوئی قدر آفاقی نہیں ہے اورسچائیاں مقامی تہذیبوں کی پیداوار ہیںتو سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر مثلاً نازی ازم کو غلط قرار دیا جائے گا؟آخر نازی ازم بھی ایک قوم کے اتفاقِ راے ہی کا نتیجہ تھا۔ یا مثلاً کس بنیاد پر ایک شخص کو دوسروں کی جیب کاٹنے سے روکا جائے گا؟ اس لیے کہ ہرجیب کترا جس مخصوص تہذیبی پس منظر میں پروان چڑھتا ہے وہ اسے جیب کترنے کے عمل کو ایک ناگزیر حقیقت کے روپ میں ہی دکھاتا ہے، یا اگر کوئی بزرگ افیم کھا کر چلتی ٹرین کے دروازہ میں سے یہ سمجھ کر نہایت صبر وسکون کے ساتھ باہر نکلنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے گھر کے چمن میں تشریف لے جارہے ہیں تو آخر کس دلیل سے انھیں اس حماقت سے روکا جائے گا؟ وہ نہایت ایمان داری کے ساتھ وہی سچائی دیکھ رہے ہیں جوافیم کے اثر سے پیدا شدہ ان کے ’مخصوص احوال‘ انھیں دکھارہے ہیں۔اس لیے تعدّد صداقت ('Pluralism of Truth') کے نظریے کا تقاضا ہے کہ ان کی اختیار کردہ سچائی کو بھی تسلیم کیا جائے ۔ سچائی کی اضافیت کے نظریے کو مان لینے کے بعد اس دنیا کا نظام چل ہی نہیں سکتا ۔ جب تک کچھ حقائق پر عالمی اتفاق راے نہ ہو اور انھیں قطعی حقائق کے طور پر قبول نہ کیا جائے ، اُس وقت تک تمدّن کی گاڑی ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ جہاں کچھ باتوں پر اختلاف رائے تمدن کو رنگا رنگی اور تنوع بخشتا ہے وہیں کچھ باتوں پر اتفاق تمدّن کو استحکام عطا کرتا ہے۔ اس لیے اختلاف اور اتفاق دونوں کی بیک وقت ضرورت ہے۔
سچائی کی اضافیت کا نظریہ اسلامی نقطئہ نظر سے ایک باطل نظریہ ہے۔ اسلام اس بات کا قائل ہے کہ عقل انسانی کے ذریعے مستنبط حقائق یقینا اضافی ہیں اورشک وشبہ سے بالا تر نہیں ہیں۔ اس حد تک مابعد جدیدیت اسلامی فکر سے ہم آہنگ ہے۔ لیکن اسلام کے نزدیک جن حقائق کا سرچشمہ وحیِ الٰہی ہے وہ حتمی اور قطعی ہیں۔ ان کی جزوی تشریحات وتعبیرات(جس میں فہم انسانی اور عقل انسانی کا دخل ہے) تو اضافی ہوسکتی ہیں، لیکن ان کے واضح معنٰی ہر اعتبار سے حتمی اور قطعی ہیں۔
اس ساری بحث میں اسلام کا نقطۂ نظر نہایت معتدل ، متوازن اور عقل کو اپیل کرنے والا ہے ۔ اس نقطئہ نظر میں مابعد جدیدی مفکرین کے اٹھائے ہوئے سوالا ت کے جوابات بھی موجود ہیں اور اُن تضادات کی بھی گنجایش نہیں ہے جو مابعد جدیدیت میںپائے جاتے ہیں۔
یہ بات کہ انسانی عقل حتمی نہیں ہے اور بسا اوقات دھوکا کھا جاتی ہے، اسلام کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے کوئی نئی فکر نہیں ہے۔ جدیدیت نے جس طرح عقلِ انسانی کو حتمی اور قطعی مقام دیا اور عقلیات کو حتمی سچائی کے طورپر پیش کیا، اس پر مابعد جدیدی مفکرین سے بہت پہلے اسلامی مفکرین نے جرح کی۔ بلکہ یہ مبحث صدیوں قبل امام غزالی ؒ اور امام ابن تیمیہؒ کے افکار میں بھی ملتا ہے ۔
امام غزالی ؒ نے تہافۃ الفلاسفہ میں ارسطو کی منطق پر خود اسی منطق کے اصولوں کا استعمال کرتے ہوئے جو تنقید کی ہے اس کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عقل کے ذریعے معلوم حقائق کو محض واہمہ قرار دیتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ کائنات کی وسعتیں اور وقت لامحدود ہے اور انسانی عقل لامحدود کا ادراک نہیں کرسکتی۔ اس لیے اس کے مشاہدات اضافی ہیں اور ان مشاہدات کی بنیاد پر اخذ کردہ نتائج بھی اضافی ہیں۔۲۳؎ اپنی کتاب معیار العلم، میں اس بحث کوآگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے مختلف مثالوں سے ثابت کیا ہے کہ انسانی حسیّات کے ذریعے حاصل شدہ معلومات اکثر اوقات دھوکے کا باعث ہوتی ہیں۔ صرف آنکھ سے دیکھا جائے تو ستارے چھوٹے چھوٹے ذرات معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً ان میں سے کئی ستارے زمین اور سورج سے بھی بڑے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر آنے والے حقائق بھی ضروری نہیں کہ حقائق ہوں۔ وہ محض حقیقت کا سایہ یا واہمہ ہوسکتے ہیں ۔ حسیّات کا دھوکا عقل سے معلوم ہوتا ہے اور عقل کا دھوکا کسی ایسے ذریعے سے معلوم ہوگا جو عقل سے بالا تر ہے (یعنی وحیِ الٰہی)۔۲۴؎
علّت و معلول کے سلسلے میں امام غزالیؒ اور ابن رُشدؒ کی بحث بھی پڑھنے کے لائق ہے۔۲۵ ؎ ان کا نقطۂ نظر ہے کہ خالص عقلی طریقوں سے دنیا یا انسان کے بارے میں کسی آفاقی بیان تک نہیں پہنچاجاسکتا، اس لیے کہ جو بیان بھی تشکیل دیا جائے گا وہ اپنے عہد کے مخصوص مادی پس منظر سے ماورا نہیں ہوگا۔ جو لوگ اس موضوع پر تفصیل سے پڑھنا چاہیں وہ خاص طور پر امام غزالیؒ کی تہافۃ الفلاسفہ اور معیارالعلم کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
انسانی فکر کی پہلی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علم کی غلطی اور محدودیت کا اثر لازماً پایا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس خدائی فکر میں غیر محدود علم اور صحیح علم کی شان بالکل نمایاں ہوتی ہے ۔ جو چیز خدا کی طرف سے ہوگی اس میں آپ ایسی کوئی چیز نہیں پاسکتے جو کبھی کسی زمانے میں کسی ثابت شدہ علمی حقیقت کے خلاف ہو یا جس کے متعلق یہ ثابت کیا جاسکے کہ اس کے مصنف کی نظر سے حقیقت کا فلاں پہلو اوجھل رہ گیا۔۔۔۔ ان کے (علمی قیاسات) غلط ہونے کا اتنا ہی امکان ہوتا ہے جتنا ان کے صحیح ہونے کا،اور تاریخِ علم میں ایسے بہت کم قیاسات و نظریات کی نشان دہی کی جاسکتی ہے جو بالآخرغلط ثابت نہیں ہوئے ہیں‘‘۔۲۶؎
عقلِ بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات
فکر بے نور ترا، جذبِ عمل بے بنیاد
سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شبِ تارِحیات
یا
وہ علم ، کم بصری جس میں ہم کنار نہیں
تجلیاتِ کلیم و مشاہداتِ حکیم
اسلام کا نقطئہ نظر یہ ہے کہ علمِ حقیقی (یا حتمی اور قطعی سچائی) کا سرچشمہ باری تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اس نے اپنے علم سے انسان کو اتناہی معمولی ساحصہ بخشا ہے جتنا وہ چاہتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَایَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ o (اٰل عمرٰن ۳:۵) بیشک اللہ وہ ہے جس سے نہ زمین کی کوئی چیز مخفی ہے نہ آسمان کی۔
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَاشَآئَ (البقرہ ۲:۲۵۵) جوکچھ ان کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جوکچھ ان سے اوجھل ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے اور لوگ اس کے علم میں کسی چیز پر بھی حاوی نہیں ہو سکتے بجز ان چیزوں کے جن کا علم وہ خود ان کو دینا چاہے۔
اس طرح جو حقائق علم حقیقی کے سرچشمہ یعنی باری تعالیٰ کی جانب سے وحیِ الٰہی یا اس کے پیغمبر کی منصوص سنت کی صور ت میں ظہور پذیر ہوئے ہوں وہ حتمی صداقت (absolute truth) ہیں اوران کے ماسوا دنیا میں حقیقت کے جتنے دعوے پائے جاتے ہیں ، ان کی دوقسمیں ہیں۔ اگر وہ وحیِ الٰہی سے متصادم ہیں تو وہ باطل مطلق (absolute false) ہیں اور اگر متصادم نہیں ہیں تو ان کی حیثیت اضافی صداقت یا relative truth کی ہے جو صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔ مختلف معاملات میں عقلی غلطی کا امکان عام انسان تو کجا نبیؐ کے لیے بھی موجود ہے۔ مسئلے کی نزاکت کے پیشِ نظر ہم اس بات کو علامہ سید سلیمان ندویؒ کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
اس میں بھی شک نہیں کہ وحی اور ملکۂ نبوت کے علاوہ نبی میں نبوت ورسالت سے باہر کی چیزوں میںوہی عقل ہوتی ہے جو عام انسان کی ہوتی ہے اور جس میں اجتہادی غلطی کا ہر وقت امکان ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒ صاحب کے نزدیک اجتہاد کی یہی وہ دوسری قسم ہے جس میں نبی سے بھی غلطی ہوسکتی ہے کہ اس کا مدار وحی والہام اور ملکۂ نبوت پر نہیں بلکہ انسانی علم وتجربہ پر ہوتا ہے ۔۲۴ ؎
اس بحث سے یہ بات واضح ہے کہ وحیِ الٰہی سے منصوص حقائق کے ماسوا تما م امور، خواہ وہ سائنسی اصول وضوابط ہوں یا ریاضی ومنطق، یا معاشیات وسیاسیات یاسماجیات وعمرانیات سے متعلق امور ، تمام دعوے اضافی ہیں۔
عملی زندگی میں قانون سازی اور ضابطہ سازی کے معاملے میں بھی اسلام نے یہی موقف اختیار کیا ہے ۔ جدیدیت کی طرح نہ وہ ہر ضابطے اور اصول کو آفاقی حیثیت دیتا ہے اور نہ مابعدجدیدیت کی طرح ہر آفاقی ضابطہ واصول سے انکار کرتا ہے ۔ وحیِ الٰہی کی صورت میں وہ بنیادی اصولوں اور سمت کو آفاقی حیثیت دیتا ہے، ان اُصولوںکو زمان و مکان (Time and Space) سے بالاتر یاماورا قرار دیتا ہے اور ان آفاقی اصولوں کی روشنی میں مخصوص وقت ، مخصوص مقام اور مخصوص احوال کے لیے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھتا ہے ۔ بلکہ اجتہادی اور غیر منصوص احکام میں ’عرف‘ کا لحاظ رکھتا ہے ۔ جسے مابعد جدیدی، تہذیبی اتفاق راے (Cultural Consensus) کہتے ہیں۔
ضیاء الدین سردار نے اسلام کو مابعد جدیدیت کے مقابلے میں ماوراے جدیدیت (transmodernity) کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔۲۸؎ بنیادی اصولوں(قرآن وسنت کی تعلیمات) سے گہری وابستگی کے ساتھ تغیر پذیر زمانے کے مطابق تبدیلیوں کو اختیا رکرنے کا عمل ماوراے جدیدیت ہے۔ ا سلامی معاشروں میں ابدی قدروں سے وابستگی موجود ہے۔ اس لیے وہ جدید یا مابعد جدید نہیں ہیں اور چونکہ یہ قدریں حیات بخش ہیں اور ان کے اندر نہ صرف نئے زمانے کا ساتھ دینے کی صلاحیت موجود ہے، بلکہ نئے ضابطوں اور طرز ہاے حیات کی تشکیل کی صلاحیت اور گنجایش بھی موجود ہے، اس لیے ان کی بنیاد پر قائم سماج کو ماقبل جدید (Premodern) یا روایت پرست بھی نہیں کہاجاسکتا ۔ وحیِ الٰہی کی بنیادوں پر چند آفاقی قدروں اور اصولوں کی حتمیت اور ان کے دائرے کے باہر وسیع تر معاملات میںوحیِ الٰہی کی روشنی میں نئے طریقوں، ضابطوں اور راستوں کی تشکیل کا راستہ ایک ایسامعتدل راستہ ہے جو اسلام کو بیک وقت دائمی، آفاقی،تغیر پذیر اور مقامی احوال کے مطابق بنا تا ہے اور زمان ومکان کے اختلافات سے ماوراکردیتا ہے ۔ اس لیے اسلام کی بنیاد پر صحیح طور پر بننے والا معاشرہ ماوراے جدید (Transmodern) معاشرہ ہوتا ہے۔
ختم نبوت کا نظریہ یعنی یہ عقیدہ کہ آنحضرتؐ کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی مبعوث ہونے والا نہیں ہے اور وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا اور اب قیامت تک قرآن ہی اللہ کی کتاب اور بنی نوع انسان کی ہدایت کا ذریعہ ہے، اسلام کا ایک بنیادی نظریہ ہے۔ اس نظریے کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اب زمانے میںکسی ایسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیںہے جو بنیادی اصولوں میں کسی ترمیم کی متقاضی ہو۔ آنے والی ہر جدت کی نوعیت جزوی اور ذیلی ہی ہوگی۔ اس لیے یہ کہنا کہ اب ہم جدیدیت کے عہد میں ہیں، اس لیے ماقبل جدیدیت کے عہد کی ہر چیز تبدیل ہونی ہے یا یہ کہ اب ہم مابعد جدیدیت کے عہد میںہیں اس لیے جدیدیت کی ہرجڑ کی رد تشکیل ضروری ہے، ایک نہایت لغو بات ہے ۔ انسانی حیات میں بیک وقت دائمی اور تغیر پذیر دونوں طرح کے عناصر کارفرما ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے اس مسئلے پر اپنی تحریر ’دین حق‘ میں بہت دل چسپ اور دل نشیں انداز میں بحث کی ہے۔ لکھتے ہیں:
کیا یہ واقعہ نہیں کہ تمام جغرافیائی ، نسلی اور قومی اختلافات کے باوجودوہ قوانینِ طبعی یکساں ہیں جن کے تحت انسان دنیا میں زندگی بسر کررہا ہے ۔ وہ نظامِ جسمانی یکساں ہے جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ وہ خصوصیات یکساں ہیں جن کی بنا پر انسان دوسری موجودات سے الگ ایک مستقل نوع قرار پاتا ہے ۔ وہ فطری داعیات اور مطالبات یکساں ہیں جو انسان کے اندر ودیعت کیے گئے ہیں ۔ وہ قوتیں یکساں ہیں جن کے مجموعے کو ہم نفس انسانی کہتے ہیں ۔ بنیادی طورپر وہ تمام طبعی، نفسیاتی، تاریخی، تمدنی، معاشی عوامل بھی یکساں ہیںجو انسانی زندگی میں کارفرما ہیں۔ اگر یہ واقعہ ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ واقعہ نہیں ہے تو جو اصول انسان بحیثیت انسان کی فلاح کے لیے صحیح ہوں، ان کو عالم گیر ہوناچاہیے۔۲۹؎
زمانہ ایک حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری قصۂ جدید و قدیم
مابعد جدیدیت اور فروغِ اسلام
مابعد جدیدیت کا نظریہ اسلام اور اسلامی تحریک کے لیے بیک وقت چیلنج کی بھی حیثیت رکھتا ہے اور امکان (opportunity) کی بھی۔ جدیدیت کی طرح اس تحریک نے بھی بعض سنجیدہ نظریاتی مسائل کھڑے کیے ہیں جن سے مسلمانوں کو فکری سطح پرنبردآزما ہونا ہے ۔ جدیدیت کے زمانے میں مفکرینِاسلام نے اس کے اٹھائے ہوئے سوالا ت کے مسکت جواب دیے تھے، لیکن ساتھ ہی جدیدیت نے جو حالات اور رویے پیدا کیے تھے، تحریک اسلامی نے اپنی حکمت عملی میں ان کا لحاظ بھی کیا تھا۔ جدیدیت نے عقل کو اہمیت دینے کا مزاج بنایا تھا تو تحریک نے عقلی طریقوں سے اسلام کی دعوت پیش کی تھی۔ تحریک کی صورت گری اور اس کے لیے بنائی گئی جماعت کے ڈھانچے کی تشکیل میں بھی جائز حدود میں جدید طریقوں کا استعمال کیا گیاتھا۔
ٹھیک یہی رد عمل مابعد جدیدیت کے بارے میں بھی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ان فکری چیلنجوں کا مقابلہ کرناہے جو مابعد جدیدیت نے پیش کیے ہیں اور دوسری طرف اسلام کی دعوت ، اس کے مباحث اور طریق کار میں ان کیفیتوں، مزاجوں اور رویوں کا لحاظ رکھنا ہے جو مابعد جدیدیت نے پیدا کیے ہیں۔
اسی پس منظر میں مسلمان مفکرین اور اسلام کے فروغ اور غلبے کے لیے کام کرنے والے درج ذیل نکات کے حوالے سے لائحہ عمل بنا سکتے ہیں۔ یہ حرفِ آخر نہیں، ان پر گفتگو ہوسکتی ہے، بلکہ ہونا چاہیے۔
۱- تحریک اسلامی کا مقابلہ آج بھی جدیدیت کے فلسفوں سے ہے۔ مابعد جدیدیت کی طاقت ور تحریک کے باوجود اب بھی عقلیت کا فریب پوری طرح بے نقاب نہیں ہوپایا ہے۔ سیاسی سطح پر عالمی استعماری قوتیں اسلامی قوتوں کی اصل حریف ہیں اور وہ آج بھی جدیدیت ہی کی مظہر ہیں۔اسلامی دنیا میںاسلامی تحریکوں کو کچلنے والے تمام حکمران جدیدیت کے منصوبے ہی کے علَم بردار ہیں۔ اس تناظر میں مابعد جدیدی ہمارے اہم حلیف ثابت ہو سکتے ہیں۔ مابعد جدیدی مفکرین مغرب اورمغربی تہذیب کی شان و شوکت، سرمایہ دارانہ معیشت کی چکاچوند اور مغربی افکار اور عقلیت کے سحر کو توڑنے میں ہمارے معاون بن سکتے ہیں۔ تحریک اسلامی کو بڑا چیلنج اُن قوتوں سے درپیش ہے، جو تحریک کو رجعت پسندی قرار دیتے ہیں اور اسلام کے مقابلے میں جمہوریت، مردوزن کی مساوات وغیرہ کے مغربی تصورات کو اسلامی معاشروں کے لیے راہِ نجات قرار دیتے ہیں۔ مابعد جدیدیت کے علَم بردار بڑے زور و شور سے ان ’عظیم بیانات‘ کی رد تشکیل میں مصروف ہیں۔ لہٰذا اس معاملے میںیہ ہمارے حلیف ثابت ہوسکتے ہیں۔ مابعد جدیدی مفکرین نے جدید مغرب کے ’عظیم بیانات‘ پر جو سوالات کھڑے کیے ہیں ہمیں ان کا مؤثر استعمال کرنا چاہیے اور جدیدیت اور جدید مغرب کو شکست دینی چاہیے۔
۲- مابعد جدیدیت نے روحانیت اور روایات (Traditions)کا احیا کیا ہے اور مذہب کی طرف واپسی کی راہیں ہموار کی ہیں۔ اگرچہ مابعد جدیدی مذہب کوآفاقی سچائی کا مقام دینے کے لیے تیار نہیں، لیکن اگر روحانی سکون کے لیے کوئی شخص مذہب اختیار کرتا ہے یا کوئی معاشرہ اپنے لیے مذہبی قانون پسند کرتا ہے تو مابعد جدیدی مفکرین اسے قابل اعتراض نہیں سمجھتے۔ یہ صورتِ حال بھی تحریک کے لیے سازگار ہے ۔
۳- اس وقت دنیا بھر میں تکثیری معاشرے (pluralistic societies) وجود میں آرہے ہیں۔ ان معاشروں میںاہل اسلام کے لیے ایک بڑا مسئلہ اپنی اسلامی شناخت اور تشخّص کے تحفّظ کا ہے۔ مابعد جدیدی افکار یہاں بھی تحریک کے لیے معاون بنتے ہیں۔ مثلاً یکساں سول کوڈ کا تصور جدیدیت کا تصورہے، جب کہ مابعد جدیدی مفکرین کے نقطۂ نظر سے ایک ہی ملک میں اپنی اپنی پسند کے علاحدہ علاحدہ قوانین کی نہ صرف گنجایش ہے، بلکہ یہ تکثیریت قابلِ تحسین ہے۔ میرا خیال ہے کہ تحریک اسلامی مابعد جدیدیت کے علَم برداروں کو دوسری مذہبی اقلیتوں کے لیے اسلامی تعلیمات کے حق میں ہموار کرسکتی ہے جن کے مطابق ہرمذہبی گروہ کو اپنے مذہبی قوانین کے مطابق اپنے معاملات چلانے کا حق حاصل رہتا ہے۔
۴- مابعد جدید مفکرین کے ساتھ اس تال میل کے ذریعے، تحریکِ اسلامی کو سچائی اور قدروں کی اضافیت کے نظریے کو پُرزور طریقے سے چیلنج کرنا چاہیے ۔ ان مفکرین کے اٹھائے ہوئے سوالات پر اسلام کا متوازن موقف گذشتہ سطور میں واضح کیا جاچکا ہے۔ یہ موقف مابعد جدیدیت کے اندرونی تضاد سے بھی پاک ہے اور جدیدیت کی ان الجھنوں کو بھی نہایت خوبصورتی سے حل کرتا ہے جن کے حل کے لیے مابعد جدیدیت کی تحریک برپا ہوئی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ موقف پُرزور طریقے سے دنیا کے سامنے لایا جائے۔
۵- اس وقت دنیا بھر کے مذہبی اور نظریاتی فلسفے اپنے پیغام اور طرز پیش کش کو مابعد جدید ذہن کے حسب حال بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیتھولک چرچ نے تو اس کی باقاعدہ منظم کوشش شروع کی ہے ۔اور عیسائی مطالعات میں Postmodern Evangelism باقاعدہ ایک ڈسپلن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ۔۳۰؎ مارکسزم کی نئی پیش کش نیومارکسزم کی صور ت میں سامنے آرہی ہے ۔ اسلام کے داعیوں کو بھی اپنی پیش کش میں بدلے ہوئے ذہن کا لحاظ رکھنا ہوگا۔
ابھی تک ہمارا مخاطب جدید دور کا وہ قاری تھا جس کے اپنے نظریات اور خیالات تھے۔ ہمارا ہدف یہ تھاکہ اس کے نظریات اور خیالات کو غلط ثابت کیا جائے اور اس کے مقابلے میں اپنی دعوت کی معقولیت ثابت کی جائے۔ اب ہماراسامنا ایک ایسے ذہن سے ہے جو کسی نظریے اور خیال کی ضرورت کا ہی قائل نہیں ہے۔ وہ بیک وقت ہماری دعوت اور ہمارے مخالف کی دعوت دونوں کوصحیح اور دونوں کو غلط سمجھتا ہے ۔ وہ نظریہ اور فکر کے معاملے میں سنجیدہ ہی نہیں ہے۔ وہ مذہب کے ساتھ ساتھ فکر اور نظریے کو بھی انسان کا انفرادی معاملہ سمجھتا ہے جس پر بحث کرنے اور لڑنے کی کوئی ضرورت ہے نہ جواز۔ یہ بدلی ہوئی صورت حال علمی وفکری مباحث کے پورے منظرنامے کو بدل کررکھ دیتی ہے ۔اور اس کا لحاظ کیے بغیر ہم اپنی حکمت عملی کا صحیح طور پر تعین نہیں کرسکتے۔
۶- مابعد جدیدیت نے معقولیات اور علمی دلائل کی اہمیت اس قدر گھٹادی ہے کہ فلسفہ ، سماجیات، تہذیبی مطالعات وغیرہ میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے بالکل نئے طریقے وجود میں آچکے ہیں ۔ معقولات کے مقابلے میں کہانیاں، قصے اور داستانیں ، عقل کے مقابلے میں جذباتی اپیل اور منظم اور مربوط بحث کے مقابلے میں ہلکی پھلکی اپیلیں مابعد جدیدذہن سے زیادہ قریب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعدیؒ اور رومیؒ اس وقت اسلامی دنیا سے زیادہ مغربی دنیا میں مقبول ہیں۔ ہمیں اپنی دعوت کی پیش کش میں اس تبدیلی کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا اورایسے مطالعات تیار کرنے ہوں گے جن کے مقدمات مابعد جدید ذہن کو اپیل کر سکیں۔
۷- معلومات اور اطلاعات کی اُس غیر معمولی اہمیت کا جسے مابعد جدید عہد میں طاقت کے سب سے بڑے سرچشمے کا مقام مل چکا ہے ،تقاضا ہے کہ تحریک اسلامی اس محاذ پر توجہ دے ۔ کہا جارہا ہے کہ مابعد جدید دور میں سب سے بڑی قوت معلومات کی قوت ہی ہے۔ لیونارڈ نے لسانی کھیلوں کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ نئے دور میں معلومات کی ہر چال طاقت کی ایک وضع کی حامل ہے۳۱؎ اور بین ملکی طاقت کے کھیل میں کمپیوٹرائزڈ معلومات کا بڑا حصہ ہوگا۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ قوموں اور ملکوں کی آیندہ رقابتیں اور دشمنیاں معلومات کے ذخیروں پر قدرت حاصل کرنے کے لیے ہوں گی یعنی معلومات گیری ملک گیری کی طرح عالمی سطح پر ہوس کا درجہ اختیار کرلے گی۔۳۲؎
اسی صورت حال کا نتیجہ ہے کہ تقریباً ہر ملک اپنی معلوماتی پالیسی (Knowledge Policy) وضع کر رہا ہے اور معلومات کے انتظام (Information Management) کو غیرمعمولی اہمیت دے رہا ہے۔ اس تناظر میں تحریک اسلامی بھی معلومات سے صرفِ نظر نہیں کرسکتی۔ اسے معلومات اور ڈاٹا (data) کے جمع و انتظام اور استعمال پر خصوصی توجہ دینی ہوگی اور اپنی معلوماتی پالیسی وضع کرنی ہوگی۔
۸- جہاں تک تحریک کے جماعتی ڈھانچے کا سوال ہے مابعد جدیدیت کے بعض طالب علموں کا خیال ہے کہ یہ جدیددور کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے اور مابعد جدیدی عہد کی کیفیتوں کا ساتھ دینے کی اس میں صلاحیت نہیں ہے۔ یہ ایک انتہا پسندانہ نقطۂ نظر ہے ۔ دنیا بھر میں بڑی بڑی تنظیمیںمخصوص نظم جماعت کے ساتھ کامیابی سے کام کر رہی ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ نئے تقاضوں کا ساتھ دینے کے لیے ہمارے تنظیمی سانچے میںبعض بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ علم انتظامیات (Management Sciences) کے تصورات میںمابعد جدیدی افکار نے بڑی انقلابی تبدیلیاں کی ہیں۔ مرکزیت، طاقت کا ارتکاز،سرخ فیتہ شاہی ,ضابطوں کی سخت گیری، فیصلہ سازی اور مشاورت کے عمل کی مخصوص اداروں تک محدودیت ، جواب دہی اور باز پرس کی میکانیت وغیرہ جیسے امور، جو نوآبادیاتی علم انتظامیات کی نمایاں خصوصیات تھیں اب دنیا بھر میں رد کی جارہی ہیں۔ اور مابعد جدید ذہن نہ انھیں قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، نہ اس سیٹ اَپ میں کام کرنے کے لیے ۔تحریک اسلامی کو اس تبدیلی پر بھی توجہ دینا ہوگی۔
مابعد جدیدیت، جدیدیت کا ایک منفی رد عمل ہے اور اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کا مظہر ہے جس میں مسلسل کئی نظریات کی ناکامی اور ابطال کے بعد ہمارے عہد کا پڑھا لکھا انسان بھٹک رہا ہے ۔ افکار ، نظریات، اور فلسفوں کی عالی شان عمارتیں اس بری طرح سے زمین بوس ہوگئیں کہ نئے زمانہ کے فلسفیوں نے عافیت اسی میں محسوس کی کہ سوچنا ہی چھوڑ دیا جائے۔ فکر وخیال اور سچائی کے تصورات ہی کو واہمہ قرار دیا جائے۔ نظریے اور آئیڈیالوجی کو ایک ناپسندیدہ شے باور کیا جائے اور حیاتِ انسانی کو حالات اور افراتفری کے حوالے کر کے مابعد جدیدیت کی جنت میں چین کی بانسری بجائی جائے ۔ تمام جھوٹے خدائوں کے زمین بوس ہوجانے کے بعد مابعد جدیدیت دراصل لاالٰہ کا اعلان ہے ۔ اِلاَّاللہ کا اعلان باقی ہے جو ان شاء اللہ موجودہ کیفیت کا لازمی اورمنطقی انجام ہوگا۔
Ghazali Abu Hamid Muhammad (2000) "The Incoherence of the Philosophers" (Tr. of Tahafatul Falasafa by Michael E. Marmura), Provo: Brigham Young University Press
۲۴؎ الغزالی، ابو حامد محمد (۱۹۶۵) معیارالعلم، تحقیق الدکتور سلیمان دنیا، قاہرہ : دارالمعارف، ص ۴۲۔۶۰
۲۵؎ www.ghazali.org/site/dissert.htm
۲۶؎ مودودی، مولانا سید ابوالاعلیٰ (۲۰۰۷) دین حق،نئی دہلی: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،ص۲۲
۲۷؎ ندوی، علامہ سید سلیمان (۱۹۹۱) سیرت النبی، جلد چہارم ، لاہور : الفیصل ناشران کتب، ص۸۴
۲۸؎ Sardar,Ziauddin
http://www.islamonline.net/english/Contemporary/ 2002/05/article20.shtml
۲۹؎ مودودی، مولانا سید ابوالاعلیٰ (۲۰۰۷) دین حق،نئی دہلی: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ،ص۱۰
۳۰؎ http://www.gettysburgsem.org/mhoffman/ other/ pomoevangelism.htm
۳۱؎ Lyonard, J.-F.(1984) The Postmodern Condition: A Report on Knowledge, Geoff Bennington and Brian Massumi (trans.), Minneapolis: University of Minnesota Press p. 9-11
۳۲؎ گوپی چند نارنگ ، حوالہ سابق
جدیدیت دراصل ان نظریاتی ، تہذیبی ، سیاسی اور سماجی تحریکوں کے مجموعہ کا نام ہے جو ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی کے یورپ میں روایت پسندی (Traditionalism) اور کلیسائی استبداد کے رد عمل میں پیدا ہوئیں۔
یہ وہ دور تھا ، جب یورپ میں کلیسا کا ظلم اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا ۔تنگ نظر پادریوں نے قدیم یونانی فلسفہ اور عیسائی معتقدات کے امتزاج سے کچھ خود ساختہ نظریات قائم کررکھے تھے اور ان نظریات کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی آواز کو وہ مذہب کے لیے خطرہ سمجھتے تھے ۔شاہی حکومتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے انھوں نے ایک ایسا استبدادی نظام قائم کر رکھا تھا جس میں کسی بھی آزاد علمی تحریک کے لیے کوئی گنجایش نہیں تھی۔
دوسری طرف اسپین کی اسلامی تہذیب کے ساتھ طویل تعامل کی وجہ سے عیسائی دنیا میں بھی حریت فکر کی ہوائیں آنے لگی تھیں۔ قرطبہ اور غرناطہ میں حاصل شدہ تجرباتی سائنس کے درس رنگ لارہے تھے ۔ اور یورپ کے سائنس دان آزاد تجربات کرنے لگے تھے۔ حریتِ انسانی اور مساوات کے اسلامی تصور کے اثرات نے جنوبی اٹلی اور صقلیہ میں انسان دوستی (Humanism) کی جدید تحریکیں پیدا کی تھیں۔۱؎
ان سب عوامل نے مل کر کلیسا کے استبداد کے خلاف شدید رد عمل پیدا کیا اور جدیدیت کی تحریک شروع ہوئی۔ چونکہ اس تحریک سے قبل یورپ میں شدید نوعیت کی دقیانوسیت اور روایت پرستی کا دور دورہ تھا، اس لیے اس تحریک نے پورے عہدِ وسطیٰ کو تاریک دور قرار دیا۔ مذہبی عصبیتوں ، روایت پسندی اور تنگ نظری کے خاتمے کو اپنا اصل ہدف بنایا۔ شدید رد عمل نے اس تحریک کو دوسری انتہا پر پہنچادیا اور روایت پرستی اور عصبیت کے خلاف جدوجہد کرتے کرتے یہ تحریک مذہب اور مذہبی معتقدات ہی کے خلاف ہوگئی ۔
جدیدیت کی اس تحریک کی نظریاتی بنیادیں فرانسس بیکن ۲؎، رینے ڈیکارٹ۳؎، تھا مس ہوبس ۴؎، وغیرہ مفکرین کے افکار میں پائی جاتی ہیں، جن کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ یہ دنیا اور کائنات عقل، تجربے اور مشاہدے کے ذریعے قابلِ دریافت (knowable) ہے اور اس کے تمام حقائق تک سائنسی طریقوں سے ہی رسائی ممکن ہے۔ اس لیے حقائق کی دریافت کے لیے کسی اور سرچشمہ کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کا کہیں وجود ہے۔ صرف وہی حقائق قابلِ اعتبار ہیں جو عقل، تجربے اور مشاہدے کی مذکورہ کسوٹیوں پر کھرے ثابت ہوں۔ ان فلسفیوں نے مابعد الطبیعیاتی مزعومات (metaphysical contentions) اور مذہبی دعوئوں کو اس وجہ سے قابل رد قرار دیا کہ وہ ان کسوٹیوں پر پورے نہیں اترتے ۔ ڈیکارٹ نے "I think therefore I am" (میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں) کا مشہور اعلان کیا جو جدید مغربی فلسفے کی بنیاد سمجھا جاتا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خودی کا شعوری عمل (Conscious Act of Ego) سچائی تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔
پاسکل ، مانٹسکیو، ڈیڈاراٹ ، وسلی، ہیوم، والٹیر جیسے مفکرین نے بھی عقل کی لامحدود بالادستی اور واحد سرچشمۂ علم ہونے کے اس تصور کو عام کیا ۔ یہ افکار عقل پرستی (Rationalism) کہلاتے ہیں اور جدیدیت کی بنیاد ہیں۔ چنانچہ جدیدیت کی تعریف ہی یوں کی گئی: جدیدیت وہ روشن خیالی اور انسان دوستی ہے جو کسی بھی ہستی کی بالادستی اور روایت کو مسترد کرتی ہے اور صرف عقل اور سائنسی علوم کو ہی تسلیم کرتی ہے۔ یہ اس مفروضے پر قائم ہے کہ سچائی اور معنی کا واحد منبع خودمختار فرد کی عقل ہے___ کارتیسی اصول: فکر کردم پس ہستم ۵؎،
اس تحریک نے مذہبی محاذ پر الحاد اور تشکیک کو جنم دیا۔ والٹیر ۶؎ جیسے الحاد کے علَم برداروں نے مذہب کا کلیتاً انکار کردیا،جب کہ ہیگل جیسے متشکک مذہب کو تسلیم تو کرتے ہیں، لیکن اسے عقل کے تابع بتاتے ہیں اور مذہبی حقائق کو بھی دیگر عقلی مفروضات کی طرح قابل تغیر قرار دیتے ہیں۔
سیاسی محاذ پر اس تحریک نے انسانی حریت کا تصور پیش کیا ۔آزادیٔ فکر، آزادیٔ اظہار، اور حقوق انسانی کے تصورات عام کیے ۔ تھامس ہابس نے حتمی اقتدار اعلیٰ (Absolute Sovereignty) کے تصور کو سیاسی فلسفے کی بنیاد قرار دیا ۔ جان لاک نے اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے عوام کو اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ قرار دیا۔ والٹیر نے انسانی حریت کا تصور پیش کیا ۔ مانٹسکیو ۷؎ اور روسو ۸؎ نے ایسی ریاست کے تصورات پیش کیے جس میں انسانوں کی آزادی اور ان کے حقوق کا احترام کیاجاتا ہے ا ور حکمرانوں کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔
جدیدیت کی تحریک نے قوم پرستی اور قومی ریاستوں کا تصور بھی عام کیا ۔ انھی افکار کے بطن سے جدید دور میں جمہوریت نے جنم لیا ۔ اور یورپ اور شمالی امریکا کے اکثر ملکوں میں خود مختار جمہوری قومی ریاستیں قائم ہوئیں۔
معاشی محاذ پر اس تحریک نے اول تو سرمایہ دارانہ معیشت اور نئے صنعتی معاشرے کو جنم دیا جس کی بنیاد ایڈم اسمتھ کی معاشی فکر تھی جو صنعت کاری، آزادانہ معیشت اور کھلے بازار کی پالیسیوں سے عبارت تھی۔ ۹؎ نئے صنعتی معاشرے میںجب مزدوروں کا استحصال شروع ہوا تو جدیدیت ہی کے بطن سے مارکسی فلسفہ پیدا ہوا،جو ایک ایسے غیر طبقاتی سماج کا تصور پیش کرتا تھا، جس میں محنت کش کو بالادستی حاصل ہو۔ ۱۰؎
اخلاقی محاذ پر اس تحریک نے افادتیت (Utilitarianism) کا تصور عام کیا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اخلاقی قدروں کا تعلق افادیت سے ہے۔ جو رویے سماج کے لیے فائدہ مند ہیں، وہ جائز اور جو سماج کے لیے نقصان دہ ہیں، وہ ناجائز روییّ ہیں۔ اور یہ کہ افادیت اخلاق کی واحد کسوٹی ہے۔ افادیت کے تصورنے قدیم جنسی اخلاقیات اور خاندان کے روایتی ادارے کی افادیت کو چیلنج کیا، جس کے نتیجے میں جدید اباحیت (permissiveness) کا آغاز ہوا ۔
جدیدیت ہی کے بطن سے نئے صنعتی معاشرے میں نسائیت (Feminism) کی تحریک پیدا ہوئی جو مرد وزن کی مساوات کی علم بردار تھی اور عورتوں کو ہر حیثیت سے مردوں کے مساوی مقام دلانا اس کا نصب العین تھا ۔
انقلابِ فرانس، برطانیہ میں جمہوریت کی تحریک ، امریکا کی آزادی کی تحریک اور اکثر یورپی ممالک کی تحریکیں جدید یت کے ان افکار ہی سے متاثر تھیں ۔ ۲۰ویں صدی کے آتے آتے یورپ اور شمالی امریکا کے اکثر ممالک ان افکار کے پرجوش مبلغ اور داعی بن گئے ۔جدیدیت کو روشن خیالی (Enlightenment) اور نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے نام بھی دئیے گئے اور بڑی طاقتوں کی پشت پناہی سے روشن خیالی کا منصوبہ ایک عالمی منصوبہ بن گیا۔
چنانچہ ۲۰ویں صدی کے نصف آخر میں مغربی ممالک کا واحد نصب العین تیسری دنیا میں روایت پسندی سے مقابلہ کرنا اور جدیدیت کو فروغ دیناقرار پایا۔ آزادی، جمہوریت، مساواتِ مردوزن، سائنسی طرز فکر، سیکولرزم وغیرہ جیسی قدروں کو دنیا بھر میں عام کرنے کی کوششیںکی گئیں ۔ معاشی فکر کے معاملے میں مغرب سرمایہ دار انہ اور کمیونسٹ دھڑوں میں ضرور منقسم رہا، لیکن سیاسی ، سماجی اور نظریاتی سطح پر جدیدیت کے افکار بالاتفاق جدید مغرب کے رہنما افکار بنے رہے، جن کی دنیا بھر میں اشاعت اور نفاذ کے لیے ترسیل واشاعت کے علاوہ ترغیب وتنفیذ کے تمام جائز وناجائز طریقے اختیار کیے گئے ۔ تیسری دنیا میں ایسے پٹھو حکمرانوں کوبٹھایا گیا جو عوام کی مرضی کے خلاف زبردستی ترقی کے جدید ماڈل ان پر تھوپنے پر مامور رہے۔ اسلامی دنیا میں خصوصاً اسلامی تہذیبی روایات کی بیخ کنی کو جدیدیت کا اہم ہدف سمجھا گیا۔ ترکی ، تیونس اورسابق سوویت یونین میں شامل وسط ایشیا کے علاقوں میں مذہبی روایات سے مقابلے کے لیے ایک سخت ظالمانہ اور استبداد ی نظام قائم کیا گیا ۔
جدیدیت کے علم برداروں نے اپنے مخصوص افکار پر جس شد و مد کے ساتھ اصرا ر کیا اور ان کی تنفیذ کے لیے جس طرح طاقت اور حکومت کا بے دریغ استعمال ہوا اس نے فکری استبداد کی وہی صورت حال پیدا کردی ، جو عہد وسطیٰ کے یورپ میں مذہبی روایت پسندی نے پیدا کی تھی اور جس کے رد عمل میں جدیدیت کی تحریک برپا ہوئی تھی۔ اس استبداد کا لازمی نتیجہ شدید ردّ عمل کی شکل میں رونما ہوا۔ اور یہی رد عمل ما بعد جدیدیت (Post Modernism)کہلاتا ہے۔
مابعد جدیدیت ان افکار کے مجموعے کا نام ہے جو جدیدیت کے بعد اور اکثر اس کے ردعمل میں ظہور پذیر ہوئے۔ اس کے علَم بردار نہ تو کسی منظم نظامِ فکر کے قائل ہیں اور نہ منظم تحریکوں کے۔ اس لیے یہ فکر اشتراکیت یا جدیدیت کی طرح کوئی مبسوط یا منظم فکر نہیں ہے ۔ اور نہ اس کی پشت پر کوئی منظم تحریک ہی موجود ہے ۔ بلکہ مابعد جدیدیت کے علَم بردار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کسی نظریے کا نام نہیں ہے، بلکہ اُس عہد کا نام ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں اور اُن کیفیتوں کا نام ہے جو اس عہد کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ ۱۱ ؎ظاہر ہے کہ یہ محض دعویٰ ہے اور چونکہ وہ اپنے خیالات کی تائید میں کتابیں لکھ رہے ہیں ،فلسفیانہ مباحث چھیڑ رہے ہیں اور بحثیں کر رہے ہیں اس لیے دنیا ان کے خیالات کو ایک آئیڈیا لوجی ماننے پر مجبور ہے ۔
اکثر امور میں مابعد جدیدیت کے مفکروں میں اتفاق راے بھی نہیں ہے اور علمی حلقوں میں یہ اصطلاح مختلف معنوں میں استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس لیے اس کی تعریف بیان کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ تاہم بعض خیالات مابعد جدیدیت مفکرین میں مشترک بھی ہیں اور یہی مشترک فکر ان کا امتیاز ہے۔ لیوٹارڈ، جس کا اس فکر کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے، اس نے اس کی تعریف یوں کی ہے:
I define Postmodernism as incredulity towards meganarratives. ۱۲؎
(میرے نزدیک مابعد جدیدیت کا مطلب عظیم بیانات پر عدم یقین ہے ۔)
مابعد جدیدیت کے حامی کہتے ہیں کہ جدیدیت نے عقل کی بالاتری، آزادی، جمہوریت، ترقی، کھلی منڈی اور اشتراکیت جیسے خیالات عالم گیر سچائیوں کی حیثیت سے پیش کیے۔ یہ ایک کھلا فریب تھا۔ زمانہ کے امتداد نے ان ساری خود ساختہ حقیقتوںکا جھوٹ واضح کر دیا ہے، اس لیے اب اس عہد میں اس طرح کے عظیم بیانات (Meganarratives) نہیں چلیں گے۔ یہ اس عہد کا خاصہ ہے ۔اس میں جدیدیت کے تمام دعوئوں کی عمارت ڈھادی گئی ہے ۔ اور اس عہد کی یہ خصوصیت ہی مابعد جدیدیت ہے۔۱۳؎
مابعد جدیدیت کے تصور کے مطابق دنیا میں کسی آفاقی سچائی کا وجود نہیں ہے۔ بلکہ آفاقی سچائی کا تصور ان کے نزدیک محض ایک خیالی تصور (Utopia) ہے۔ جدیدیت کے علَم برداروں کا خیال ہے کہ جمہوریت ، آزادی ومساوات ، سرمایہ دارانہ نظام معیشت (یا اشتراکیوں کے نزدیک اشتراکیت) اور ٹکنالوجیکل ترقی وغیرہ پر مبنی جو ماڈل یورپ میں اختیار کیا گیا ، اس کی حیثیت ایک عالمی سچائی کی ہے اور ساری دنیا کو اپنی روایات چھوڑ کر ان عالمی سچائیوں کو قبول کرنا چاہیے ۔ چنانچہ ۲۰ویں صدی میں ساری دنیا کو جدید بنانے کا کام شروع ہوا۔ روایتی معاشروں سے کہا گیا کہ وہ صنعتیں قائم کریں، شہر بسائیں ، آزادی کی قدروں کو نافذ کریں، جمہوری طرز حکومت اپنائیں ، جدیدٹکنالوجی کو اختیار کریں اور اس طرح جدید بنیں کہ فلاح وترقی کا یہی واحد راستہ ہے ۔ مابعد جدیدی دوسری انتہا پر جاکر عالمی یا آفاقی سچائی کے وجود ہی سے انکار کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک چاہے سچائی ہو یا کوئی اخلاقی قدر، حسن وخوبصورتی کا احساس ہو یا کوئی ذوق، یہ سب اضافی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا تعلق انفرادی پسند و ناپسند اور حالات سے ہے۔ یعنی ایک ہی بات کسی مخصوص مقام پر یا مخصوص صورتوں میں سچ اور دوسری صورتوں میں جھوٹ ہوسکتی ہے۔ دنیا میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو ہمیشہ اور ہر مقام پر سچ ہو۔ تصورِ جہاں (World view)سچائی کی پیداوار نہیں ہوتا بلکہ طاقت کی لڑائی میں محض ایک ہتھیار ہوتا ہے۔ لوگوں نے دنیا پر حکومت کرنے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اپنے من پسند خیالات کو عالم گیر سچائیوں کے طور پر ان پر مسلّط کیا ہے۔ اس طرح وہ سرمایہ داری، جمہوریت اور اشتراکیت وغیرہ جیسے نظریات کے سخت ناقد ہیں، جو اپنے خیالات کو عالم گیر سچائی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ مذہبی عقائد اور تصورات کے بھی منکر ہیں کیونکہ مذاہب کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ ان کے معتقدات کی حیثیت اٹل حقائق کی ہے ۔۱۴؎
اس نظریے کی تائید میں ان کی دلیل یہ ہے کہ صدیوں کی علمی جستجو کے باوجود انسانی ذہن کسی ایک سچائی پر متفق نہیں ہوسکا۔ آج بھی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے اطراف کئی ایک اور بسااوقات باہم متضاد سچائیاں (یعنی سچ کے دعوے) پائی جاتی ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم سچائی سے متعلق اپنے نقطئہ نظر ہی کو بدل لیں اور یہ تسلیم کرلیں کہ سچائی نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ سچائی محض ہمارے مشاہدے کا نتیجہ ہوتی ہے اور مشاہدہ ہمارے ذہن کی تخلیق ۔ سچائی کی تلاش نہیں، بلکہ سچائی کی تشکیل ہوتی ہے ۔ حالات کے مطابق ہماراذہن سچائی کی تخلیق کرتا ہے ۔ اور چونکہ بیک وقت ایسی کئی تخلیقات ممکن ہیں اس لیے یہ ماننا چاہیے کہ کوئی بھی تخلیق حتمی نہیں ہے۔
مابعد جدیدیت کے ماننے والے سائنس کو بھی حتمی سچائی کی حیثیت سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیونارڈ لکھتا ہے: سائنس کی زبان اور اخلاقیات، اور سیاسیات کی زبان میں گہرا تعلق ہے اور یہ تعلق ہی مغرب کے تہذیبی تناظر کی تشکیل کرتا ہے۔۱۵؎
یعنی سائنس بھی مغرب کی سیاست اور اخلاقی فلسفوں سے آزاد نہیںہے۔
مابعد جدیدیت کے مطابق جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں ، اس کی حیثیت سچائی کی نہیںہے۔ اس کے علم برداروں کا خیال ہے کہ ہم وہی دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم وہی دیکھتے ہیں جو مخصوص وقت اور مخصوص مقام پر مخصو ص احوال خود کو دکھانا چاہتے ہیں۔ وہ دنیا کو حقیقی اور ٹھوس اشیا اور مناظر کی بجائے ایسے عکسوں (Images) اور مظاہر (representations) سے عبارت سمجھتے ہیں جو غیر حقیقی(unreal) اور غیرمحسوس (untangible)ہیں۔یعنی پوسٹ ماڈرن ازم کے نزدیک یہ دنیا محض ایک ویڈیو گیم ہے جس میں ہم اپنی پسند کی سچائیاں دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں ۔ ضیاء الدین سردار نے اس کی تشریح یوں کی ہے:
اس کا مطلب ہے کہ یہ دنیا ایک ایسا تھیٹر ہے جس میں ہر چیز مصنوعی طور پر تشکیل کردہ ہے۔سیاست عوامی استعمال کے لیے کھیلا جانے والا ایک ڈراما ہے۔ ٹیلی ویژن پر دستاویزی فلمیں تفریحات کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ صحافت حقیقت اور افسانے کے بیچ فرق کو دھند لا دیتی ہے۔ زندہ افراد، سوپ اوپیرا کے کردار بن جاتے ہیں اور افسانوی کردار زندہ انسانوں کی جگہ لے لیتے ہیں۔ ہر چیز اچانک واقع ہوتی ہے اور ہرشخص عالمی تھیٹر میں واقع ہونے والی ہر چیز کا برموقع نظارہ کرتا ہے۔۱۷؎
جیسا کہ عرض کیا گیا، مابعد جدیدیت کے نزدیک جمہوریت ،ترقی ،آزادی، مذہب ، خدا ، اشتراکیت اور اس طرح کے دعوئوں کی وہی حیثیت ہے جو دیو مالائی داستانوں اور عقیدوں کی ہے۔ اس لیے انھوں نے ان تمام دعوئوں کو عظیم بیانوں (meganarratives) کا نام دیا ہے ۔ جدیدیت کے مفکرین کا خیال ہے کہ انھوں نے بہت سی’سچائیاں‘تشکیل دی ہیں اور چاہے مذاہب ہوں یا جدید نظریات ، ان کی بنیاد کچھ خود ساختہ عالمی سچائیوں پر ہے، اس لیے جدیدیت کے دور کی تہذیب ، علم وغیرہ انھی مفروضہ سچائیوں پر استوار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان تشکیل شدہ سچائیوں کی رد تشکیل(deconstruction) کی جائے ،یعنی انھیں ڈھایا جائے۔ چنانچہ ادب، فنون لطیفہ، آرٹ، سماجی اصول وضابطے ہر جگہ ان کے نزدیک کچھ خود ساختہ سچائیاں اور عظیم بیانیے ہیں جن کی ردِّ تشکیل ضروری ہے تاکہ مابعد جدیدی ادب فنون لطیفہ وغیرہ میں ایسے ’غلط مفروضوں ‘ کا عمل دخل نہ ہو۔ جیساکہ مابعد جدیدیت کا ایک تجزیہ نگار لکھتا ہے:
ما بعد جدید مفکرین کا خیال ہے کہ ہماری طرح کے ایک آفاقی اور غیر مرکزی سماج میں خود بخودما بعد جدیدکی طرح کے رد عمل جنم لیتے ہیں۔ یعنی عظیم بیانات کے فکری استبداد کا استرداد، ساخت اور طرز کی وحدت کے روایتی سانچوں کی شکست و ریخت اور منطق کی مرکزیت اور اس طرح کے دیگر مصنوعی طور پر مسلّط کردہ نظاموں کو اٹھا کر پھینک دینے کا عمل۔۱۸؎
شاید بحث پیچیدہ اور فلسفیانہ ہوگئی ۔ لیکن چونکہ اس فکر کی بنیادیں فلسفیانہ ہیں اس لیے اس مختصر فلسفیانہ بحث کے بغیر اس نظریے پر کماحقہ روشنی نہیں ڈالی جاسکتی تھی۔
مابعد جدیدیت ایک دقیق فلسفیانہ بحث ہے ۔ لیکن اس کے پیش رو، جدیدیت کے افکا ر بھی ایسے ہی دقیق فلسفے تھے ۔ عام لوگ ان گہرے فلسفوں کا مطالعہ نہیں کرتے لیکن عملی زندگی میں ان کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ جدیدیت کے عروج کے زمانے میں بھی سب لوگ والٹیر اور روسو کی دقیق کتابیں نہیں پڑھتے تھے، لیکن آزادی ، مساوات، جمہوریت ، اپنے حقوق کا احساس، مساوات مردوزن ، روایات کے خلاف بغاوت اور عقل پر اصرار جیسی چیزیں عام آدمی کے رویوں کا بھی حصہ تھیں۔ ٹھیک اسی طرح ہمارے عہد میں بھی عام لوگ چاہے مابعد جدیدیت کی اصطلاحات اور بحثوں سے واقف نہ ہوں ، لیکن محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے اپنی عملی زندگی اور رویوں میں اس کے اثرات قبول کر رہے ہیں۔مسلمان اور بعض اوقات اسلام کے فروغ کے لیے کام کرنے والے بھی اس کے اثرات سے خود کو نہیں بچا پارہے ہیں۔
مابعد جدیدیت کا سب سے نمایاں اثر یہ ہے کہ افکار ، نظریات اور آئیڈیالوجی سے لوگوں کی دل چسپی نہایت کم ہوگئی ہے۔ عہد جدید کا انسان مخصوص افکار ونظریات سے وفاداری رکھتا تھا اور ان کی تبلیغ واشاعت کے لیے پرجوش و سرگرم رہتا تھا۔ مابعد جدید دور کے انسان کے نہ کوئی آدرش ہیں نہ اصول ۔ اس کے سامنے کسی بھی موضوع پر نظری بحث شروع کیجیے دامن جھاڑ کر اُٹھ جائے گا۔ اس لیے بعض مفکرین نے اس عہد کو’ عدم نظریہ کا عہد‘ Age of No Ideology قرار دیا ہے۔ ۱۹؎ اصول اور افکار کے مبسوط نظام (doctrine) کے بالمقابل مابعد جدید انسان کے پاس صرف جذبات واحساسات ہیں یا عملی مسائل (pragmatic issues)۔ مابعد جدیدیت کا کہنا ہے کہ زندگی کی تمام بحثیں ’مسئلہ‘ اور ’حل‘(problem and solution)تک محدود کی جاسکتی ہیں۔ اس لیے اصولوں اور نظریوں کے بجاے ایک ایک مسئلے کو الگ الگ لیا جانا چاہیے اور اس کے حل پر بات ہونی چاہیے۔ چنانچہ مابعد جدیدی انسان کی بحث وگفت گو کا سارا زور یا تو روز مرہ کے عملی مسائل پر ہے یا روابط و تعلقات کی جذباتیت پر ۔ مختلف فیہ اورمتنازعہ فیہ مسائل میں وہ باہم متضاد خیالات میں سے ہر خیال کو بیک وقت درست سمجھتا ہے، ان کی تنقیح اور درست فیصلے سے اسے کوئی دل چسپی نہیں ۔
مذہبی معاملات میں وحدت ادیان کا نظریہ بہت قدیم ہے۔ مابعد جدیدیت نے اس طرزِ فکر کو تقویت دی ہے۔ اب دنیا بھر میں لوگ بیک وقت سارے مذاہب کو سچ ماننے کے لیے تیار ہیں۔ اور بین المذاہب مکالمات ومباحث سے لوگوں کی دل چسپی روبہ زوال ہے ۔ جبکہ دوسری طرف الحاد ومذہب بیزاری کی شدت بھی ختم ہورہی ہے۔ چونکہ الحاد بھی ایک’دین ‘یا ایک ’دعویٰ‘ ہے، اس لیے مابعد جدید انسان اسے بھی ایک مسلک کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے اس عہد کو لادینیت کے خاتمے کا عہد (Age of Desecularisation) بھی کہا جاتا ہے۔۲۰؎ ایک شخص خدا پر یقین نہ رکھتے ہوئے بھی روحانی سکون کی تلاش میں کسی مذہبی پیشوا سے رجوع کرسکتا ہے ۔ا ور آج اسے کسی ہندو بابا کے ہاں سکون ملتا ہے تو کل کوئی عیسائی راہب اسے مطمئن کرسکتا ہے۔ یہ ما بعد جدیدیت ہے۔
قدروں کی اضافیت کے نظریے نے سماجی اداروں اور انضباطی عوامل (Regulating Factors)کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ خاندانی نظام اور شادی بیاہ کے بندھنوں کا انکار ہے نہ اقرار۔ عفت، ازدواجی وفاداری اور شادی کے بندھن مابعد جدیدیوں کے ہاں ’عظیم بیانات‘ ہیں۔ اسی طرح جنسوں کی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ رول کو بھی وہ آفاقی نہیں مانتے ۔ نہ صرف مرد عورت کے درمیان تقسیم کارکے روایتی فارمولوںکے وہ منکر ہیں، بلکہ جنسی زندگی میں بھی مرد اورعورت کے جوڑے کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ شادی مرد اور عورت کے درمیان بھی ہوسکتی ہے ، اور مرد مرد اور عورت عورت کے درمیان بھی، کوئی چاہے تو اپنے آپ سے بھی کر سکتا ہے۔ مرد اور عورت شادی کے بغیر ایک ساتھ رہنا پسند کریں تو اس پر بھی کوئی اعترض نہیں ہے۔ ایک ساتھ بھی نہیں رہنا ہے تو صرف تکمیل خواہش کا معاہدہ ہوسکتا ہے۔یہ سب ذاتی پسند اور ذوق کی بات ہے ۔ فیشن ، لباس، طرز زندگی ہر معاملے میںکوئی بھی ضابطہ بندی گوارا نہیں ہے ۔ مرد بال بڑھاسکتا ہے ، چوٹی رکھ سکتا ہے، اسکرٹ پہن سکتا ہے، زنانہ نام رکھ سکتا ہے، کسی بھی رنگ اور ڈیزائن کا لباس پہن سکتا ہے ۔ سوسائٹی کو کسی بھی رویے کو ناپسند کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی مادر زاد برہنہ رہنا چاہے تو سوسائٹی اس پر بھی معترض نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ بعض مابعد جدیدی، لباس کو آفاقی ضرورت قرار دینے پر معترض ہیں۔ آدمی اگر موسم اور اپنے ذوق کی مناسبت سے کوئی لباس پسند کرنا چاہے تو کرے اور اگرعریاں رہنا چاہے تو انسانی جسم سے بڑھ کر خوبصورت لباس اور کیا ہوسکتا ہے؟ وہ عریانیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اس طرز زندگی کے فروغ کے لیے ویب سائٹس ، ہیلپ لائینیں، ڈسکشن فورمز اورنہ جانے کیا کیا ہیں۔
سیاسی محاذ پر مابعد جدیدی، قوموں کے وجود اور قوم پرستی کے منکر ہیں۔ ان کے نزدیک قوم، قومی مفاد، قومی تفاخر، قومی کردار، قومی فرائض ، یہ سب ’عظیم بیانات‘ ہیں۔ ان کا نقطۂ نظریہ ہے کہ ضرورت اور مفاد کے مطابق افراد کسی بھی قسم کے دوسرے افراد سے تعامل کرتے ہیں اور اس طرح گروہوں کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہ تشکیل ضروری نہیں کہ قوم اور نسل کی بنیادوں پر ہو۔ قوموں کے اقتدارِ اعلیٰ کا تصور بھی ان کے نزدیک ’عظیم بیان‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد جدیدی سماج میں ایک طرف گلوبلائزیشن کے عمل کے نتیجے میں ریاست کے اقتدار اعلیٰ کو عالمی معاشی قوتوں کے تابع کر دیا گیا اور دوسری طرف مقامی معاشروں کے مفادات کو بھی ریاست کے اقتدار اعلیٰ پر فوقیت اور بالا تری دے دی گئی ۔اگر کوئی علاقہ، قبیلہ یا گروہ ریاست کے اقتدار سے خوش نہیں تو ریاست کو اس پر زبردستی کا کوئی حق نہیں۔۲۱؎
اس طرح پالیسی کی سطح پر ’ترقی‘ ٹکنالوجی وغیرہ جیسے تصورات کو چیلنج کیا گیا۔مابعدجدیدی ترقی کے ’یکساں فارمولے‘ کے مخالف ہیں۔یہ بات کہ جدیدشہروں کی شان وشوکت اور ٹکنالوجی پر مبنی تعیشات پس ماندہ علاقوں کی منزل اور ان کی کاوشوں کا ہدف ہونا چاہیے ، اب مسلمہ نہیں رہی۔ مابعد جدید تحریکوں نے دیہی زندگی اور روایتی معاشروں کی افادیت بھی اجاگر کی۔ اگر آدی باسی اپنے قبائلی طرزِ زندگی سے مطمئن اور خوش ہیں تو کوئی ضروری نہیں کہ انھیں جدید شہری ترقی کے لیے مجبور کیاجائے۔ ان کے نزدیک جنگل کی آزاد فضا ہی سچائی ہے۔ دیہی لوگوں کو ان کی زمین سے ہٹاکر وہاں نئی صنعتیں قائم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ، خواہ اس کے بدلے میں ان کو زیادہ آرام دہ زندگی ہی کیوںنہ میسر آئے۔ مابعد جدید پالیسی کا حاصل یہ ہے کہ ہر فرد کو اس کی مرضی اور پسندکی زندگی گزارنے کی آزادی دی جانی چاہیے اور تعلیم، سائنس، ٹکنالوجی، ترقی اورنہ تعیشات، کوئی بھی چیز اس پر مسلط نہیں کی جانی چاہیے۔
آرٹ اور فنون لطیفہ میں وہ ہر طرح کے نظم اور پابندی کے خلاف ہیں۔ جدیدیت نے ان محاذوں پر جو اصول تشکیل دیے تھے ، مابعد جدیدی ان کی رد تشکیل کرنا چاہتے ہیں۔ گوپی چند نارنگ کے الفاظ میں: ’’ہر طرح کی نظریاتی ادّعائیت سے گریز اورتخلیقی آزادی پر اصرار مابعد جدیدیت ہے‘‘۔۲۲؎ مابعد جدیدی کہتے ہیں کہ ادب اور فنون لطیفہ حقیقت کی ترجمانی کے لیے نہیں بلکہ حقیقت کی تخلیق کے لیے ہیں۔ اس لیے وہ آرٹ کو ہر طرح کے ادبی، سیاسی اور مذہبی دعوئوں سے آزاد کرانا چاہتے ہیں ۔
اس طرح مابعد جدیدیت کی تحریک نے سوسائٹی میںہر جگہ مقتدرہ افسرشاہی اور ضابطوں اور اصولوں کی سخت گیری کو چیلنج کیا۔ نظامِ مراتب (hierarchy) کے مقابلے میں انار کی ، بندشوں کے مقابلہ میںآزادی ، اختیارات کی مرکزیت (centralisation) کے مقابلہ میں غیر مرکزیت (decentralisation) اور ضابطے اور اصول کے مقابلے میں انفرادی پسند اور آزادی کا احترام وغیرہ اس تحریک کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ اس صورت حال نے منظم ہمہ گیر تحریکوں کے مقابلے میں ایشوز پر مبنی وقتی اور موضوعاتی تحریکیں ، سخت گیر بیوروکریٹک انتظام کے مقابلے میں ڈھیلی ڈھالی قیادت وغیرہ کی کیفیتیں پیدا کیں۔عملی زندگی کے مختلف معاملات میں مابعد جدیدی ہر طرح کی روایت، اصول اور ضوابط کی عالم گیری کے خلاف ہیں اور ذاتی پسند وناپسند کو اہمیت دیتے ہیں ۔ طرزہاے زندگی سے متعلق معاملات میں ذاتی پسند افراد کی ہوتی ہے ۔ اس کو منضبط کرنے کا معاشرے کو کوئی حق نہیں ہے اور اجتماعی معاملات میںپسند و ناپسند قبیلوں، آبادیوں، تنظیموں یا کسی بھی اجتماعی گروہ کی ہوسکتی ہے ۔ اس پر کنٹرول کرنے کا کسی عالمی یا قومی ادارے کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔(جاری)
۱؎ Nasr Seyyed Hossein (1993) A Young Muslim's Guide to the Modern World Cambridge :Cambridge University Press p.156
۲؎ بیکن کے افکار کے مطالعہ کے لیے دیکھیے اس کی کتاب:
Bacon Francis (1863) Novum Organum Tr. James Spedding, Robert Leslie Ellis, and Douglas Denon Heath, Boston : laggard and Thompson [As available in online library http://www.constitution.org/bacon/textnote.htm]
۳؎ ڈیکارٹ کے خیالات کے لیے دیکھیے:
Descartes Rene (1983) Principles of Philosophy Trans. V. R. Miller and R. P. Miller. Dordrecht: D. Reidel
۴؎ تھامس ہوبس کے افکار کی تفصیل کے لیے دیکھیے اس کی کتاب :
Hobbes Thomas (2007) Leviathan online available at eBooks@Adelaide, http://etext.library. adelaide. edu.au/h/hobbes/thomas/h681/. updated Mon Mar 12 20:24:47 2007
۵؎ Electronic Library http://elab.eserver.org/hfI0242.html
۶؎ والٹییر کے خیالات کے لیے ملاحظہ فرمائیے:
Voltaire Francois (1961) Philosophical Letters Translated by Ernest N. Dilworth, New York: Macmillan
۷؎ مانٹیسکیو کے نظریات کے لیے ملاحظہ کیجیے:
Montesquieu Baron de (1914), Secondat, Charles de, The Spirit of Laws Tr. by Thomas Nugent, London : G. Bell & Sons [As available at http://www.constitution.org/cm/sol.htm]
۸؎ روسو کے تصورات کے لیے دیکھیے:
Rosseau Jean-Jacques (2004) Emile Tr. By Barbara Foxley online available at http://www.gutenberg.org/etext/5427
۹؎ آدم اسمتھ کی معاشی فکر کے مطالعہ کے لیے دیکھیے اس کی کتاب:
Smith Adam (2007) An Inquiry into the Nature and Causes of the Wealth of Nations online available at http://metalibri.incubadora.fapesp.br/ portal/authors/ AnInquiryIntoTheNatureAndCausesOf TheWealthOfNations#books
۱۰؎ مارکسی فکر کے لیے کمیونسٹ مینی فیسٹو سب سے مستند سر چشمہ مانا جاتا ہے۔
Marx Karl and Engels Frederick(2006) The Communist Manifesto available at:
http://www.anu.edu. au/polsci/marx/classics/manifesto.html
۱۱؎ اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھیے:
Bauman, Zygmunt (2000) Liquid Modernity. Cambridge: Polity Press.
۱۲؎ Lyotard, J.-F.(1984) The Postmodern Condition: A Report on Knowledge, Geoff Bennington and Brian Massumi (trans.), Minneapolis: University of Minnesota Press p.xxiv
۱۳؎ Anderson, Walter Truett (1995) The Truth About Truth: De-confusing and Re-constructing the Postmodern World. New York: Penguin p 239-44.
۱۴؎ حوالہ سابق ، ص۱۱۱
۱۵؎ Lyonard, J.-F (1984) The Postmodern Condition: A Report on Knowledge, Geoff Bennington and Brian Massumi (trans.), Minneapolis: University of Minnesota Press p. 8
۱۶؎ حوالہ سابق p. xxiii
۱۷؎ Sardar, Ziauddin (1998) Postmodernism and the Other, the New Imperialism of Western Culture, London: Pluto Press p. 23
۱۸؎ Charles Upton (2001) The System of Antichrist Truth & Falsehood in Postmodernism & the New Age Sophia: Perennis p.45
۱۹؎ Stephens Mitchel (2007) We are all Postmodern ـNow, at journalism.nyu.edu/faculty/files/ stephens- postmodern.pdf
۲۰؎ لادینیت کے خاتمہ کی بحث کے لیے دیکھیے ایک دل چسپ کتاب:
Peter L. Berger (1999) The Desecularization of the World, Resurgent Religion and World Politics; Michigan: William B. Eerdmans Publishing Co.
۲۱؎ Anderson Walter Truett (1991) Postmodern Politics in 'In Context'#30 (Reclaiming Politics) Fall/Winter 1991, Langley p.32
۲۲؎ گوپی چند نارنگ، (۲۰۰۴ئ) ساختیات ، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، نئی دہلی: قومی کونسل براے فروغ اردو زبان ، ص ۵۳۰