مابعد جدیدیوں کا یہ دعویٰ کہ دنیا میں کسی سچائی کا سرے سے وجود نہیں ہے ایک نہایت غیرمنطقی دعویٰ ہے۔اس دعویٰ میں بہت بڑا ریاضیاتی نقص ہے۔ یہ کہنا کہ ’ یہ سچ ہے کہ دنیا میں کوئی سچ نہیں‘ ایک بے معنی بات ہے ۔’’دنیا میں کوئی سچ نہیں ہے‘‘یہ بذات خود ایک دعویٰ اور ایک بیان ہے۔ اگر اس بیان کو درست مان لیا جائے تو اس کی زد سب سے پہلے خود اسی بیان پر پڑے گی، اور یہ بیان جھوٹا قرار دیا جائے گا۔ یہ ماننے کے لیے کہ ’’دنیا میںکوئی سچ نہیں ہے‘‘ کم سے کم اس ایک بات کو سچ ماننا پڑے گا۔
مابعد جدیدی ہرعالم گیر سچائی کے دعوے کو بڑا بول کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس پیمانے پر خود مابعد جدیدیت کو بڑا بول کیوں نہ قرار دیا جائے؟’خود ساختہ سچائیوں‘ کی رد تشکیل کی یہ فکر ایسا جال بچھاتی ہے کہ اس میں خود ہی پھنس جاتی ہے اور خود اپنے اصولوں کے ذریعے اپنے ہی اصولوں کا رد کرتی ہے ۔ غالباً یہ انسان کی فکری تاریخ کا نہایت منفرد واقعہ ہے کہ کوئی فکر اپنے تشکیل کردہ پیمانوں سے اپنی ہی بنیادوں کو ڈھائے۔
منطقی تضاد کے علاوہ اس فکر کے عملی اثرات بھی نہایت بھیانک ہیں۔ اگر سچائی اضافی ہے اور دنیا میں کوئی قدر آفاقی نہیں ہے اورسچائیاں مقامی تہذیبوں کی پیداوار ہیںتو سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر مثلاً نازی ازم کو غلط قرار دیا جائے گا؟آخر نازی ازم بھی ایک قوم کے اتفاقِ راے ہی کا نتیجہ تھا۔ یا مثلاً کس بنیاد پر ایک شخص کو دوسروں کی جیب کاٹنے سے روکا جائے گا؟ اس لیے کہ ہرجیب کترا جس مخصوص تہذیبی پس منظر میں پروان چڑھتا ہے وہ اسے جیب کترنے کے عمل کو ایک ناگزیر حقیقت کے روپ میں ہی دکھاتا ہے، یا اگر کوئی بزرگ افیم کھا کر چلتی ٹرین کے دروازہ میں سے یہ سمجھ کر نہایت صبر وسکون کے ساتھ باہر نکلنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے گھر کے چمن میں تشریف لے جارہے ہیں تو آخر کس دلیل سے انھیں اس حماقت سے روکا جائے گا؟ وہ نہایت ایمان داری کے ساتھ وہی سچائی دیکھ رہے ہیں جوافیم کے اثر سے پیدا شدہ ان کے ’مخصوص احوال‘ انھیں دکھارہے ہیں۔اس لیے تعدّد صداقت ('Pluralism of Truth') کے نظریے کا تقاضا ہے کہ ان کی اختیار کردہ سچائی کو بھی تسلیم کیا جائے ۔ سچائی کی اضافیت کے نظریے کو مان لینے کے بعد اس دنیا کا نظام چل ہی نہیں سکتا ۔ جب تک کچھ حقائق پر عالمی اتفاق راے نہ ہو اور انھیں قطعی حقائق کے طور پر قبول نہ کیا جائے ، اُس وقت تک تمدّن کی گاڑی ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ جہاں کچھ باتوں پر اختلاف رائے تمدن کو رنگا رنگی اور تنوع بخشتا ہے وہیں کچھ باتوں پر اتفاق تمدّن کو استحکام عطا کرتا ہے۔ اس لیے اختلاف اور اتفاق دونوں کی بیک وقت ضرورت ہے۔
سچائی کی اضافیت کا نظریہ اسلامی نقطئہ نظر سے ایک باطل نظریہ ہے۔ اسلام اس بات کا قائل ہے کہ عقل انسانی کے ذریعے مستنبط حقائق یقینا اضافی ہیں اورشک وشبہ سے بالا تر نہیں ہیں۔ اس حد تک مابعد جدیدیت اسلامی فکر سے ہم آہنگ ہے۔ لیکن اسلام کے نزدیک جن حقائق کا سرچشمہ وحیِ الٰہی ہے وہ حتمی اور قطعی ہیں۔ ان کی جزوی تشریحات وتعبیرات(جس میں فہم انسانی اور عقل انسانی کا دخل ہے) تو اضافی ہوسکتی ہیں، لیکن ان کے واضح معنٰی ہر اعتبار سے حتمی اور قطعی ہیں۔
اس ساری بحث میں اسلام کا نقطۂ نظر نہایت معتدل ، متوازن اور عقل کو اپیل کرنے والا ہے ۔ اس نقطئہ نظر میں مابعد جدیدی مفکرین کے اٹھائے ہوئے سوالا ت کے جوابات بھی موجود ہیں اور اُن تضادات کی بھی گنجایش نہیں ہے جو مابعد جدیدیت میںپائے جاتے ہیں۔
یہ بات کہ انسانی عقل حتمی نہیں ہے اور بسا اوقات دھوکا کھا جاتی ہے، اسلام کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے کوئی نئی فکر نہیں ہے۔ جدیدیت نے جس طرح عقلِ انسانی کو حتمی اور قطعی مقام دیا اور عقلیات کو حتمی سچائی کے طورپر پیش کیا، اس پر مابعد جدیدی مفکرین سے بہت پہلے اسلامی مفکرین نے جرح کی۔ بلکہ یہ مبحث صدیوں قبل امام غزالی ؒ اور امام ابن تیمیہؒ کے افکار میں بھی ملتا ہے ۔
امام غزالی ؒ نے تہافۃ الفلاسفہ میں ارسطو کی منطق پر خود اسی منطق کے اصولوں کا استعمال کرتے ہوئے جو تنقید کی ہے اس کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عقل کے ذریعے معلوم حقائق کو محض واہمہ قرار دیتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ کائنات کی وسعتیں اور وقت لامحدود ہے اور انسانی عقل لامحدود کا ادراک نہیں کرسکتی۔ اس لیے اس کے مشاہدات اضافی ہیں اور ان مشاہدات کی بنیاد پر اخذ کردہ نتائج بھی اضافی ہیں۔۲۳؎ اپنی کتاب معیار العلم، میں اس بحث کوآگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے مختلف مثالوں سے ثابت کیا ہے کہ انسانی حسیّات کے ذریعے حاصل شدہ معلومات اکثر اوقات دھوکے کا باعث ہوتی ہیں۔ صرف آنکھ سے دیکھا جائے تو ستارے چھوٹے چھوٹے ذرات معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً ان میں سے کئی ستارے زمین اور سورج سے بھی بڑے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر آنے والے حقائق بھی ضروری نہیں کہ حقائق ہوں۔ وہ محض حقیقت کا سایہ یا واہمہ ہوسکتے ہیں ۔ حسیّات کا دھوکا عقل سے معلوم ہوتا ہے اور عقل کا دھوکا کسی ایسے ذریعے سے معلوم ہوگا جو عقل سے بالا تر ہے (یعنی وحیِ الٰہی)۔۲۴؎
علّت و معلول کے سلسلے میں امام غزالیؒ اور ابن رُشدؒ کی بحث بھی پڑھنے کے لائق ہے۔۲۵ ؎ ان کا نقطۂ نظر ہے کہ خالص عقلی طریقوں سے دنیا یا انسان کے بارے میں کسی آفاقی بیان تک نہیں پہنچاجاسکتا، اس لیے کہ جو بیان بھی تشکیل دیا جائے گا وہ اپنے عہد کے مخصوص مادی پس منظر سے ماورا نہیں ہوگا۔ جو لوگ اس موضوع پر تفصیل سے پڑھنا چاہیں وہ خاص طور پر امام غزالیؒ کی تہافۃ الفلاسفہ اور معیارالعلم کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
انسانی فکر کی پہلی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علم کی غلطی اور محدودیت کا اثر لازماً پایا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس خدائی فکر میں غیر محدود علم اور صحیح علم کی شان بالکل نمایاں ہوتی ہے ۔ جو چیز خدا کی طرف سے ہوگی اس میں آپ ایسی کوئی چیز نہیں پاسکتے جو کبھی کسی زمانے میں کسی ثابت شدہ علمی حقیقت کے خلاف ہو یا جس کے متعلق یہ ثابت کیا جاسکے کہ اس کے مصنف کی نظر سے حقیقت کا فلاں پہلو اوجھل رہ گیا۔۔۔۔ ان کے (علمی قیاسات) غلط ہونے کا اتنا ہی امکان ہوتا ہے جتنا ان کے صحیح ہونے کا،اور تاریخِ علم میں ایسے بہت کم قیاسات و نظریات کی نشان دہی کی جاسکتی ہے جو بالآخرغلط ثابت نہیں ہوئے ہیں‘‘۔۲۶؎
عقلِ بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات
فکر بے نور ترا، جذبِ عمل بے بنیاد
سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شبِ تارِحیات
یا
وہ علم ، کم بصری جس میں ہم کنار نہیں
تجلیاتِ کلیم و مشاہداتِ حکیم
اسلام کا نقطئہ نظر یہ ہے کہ علمِ حقیقی (یا حتمی اور قطعی سچائی) کا سرچشمہ باری تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اس نے اپنے علم سے انسان کو اتناہی معمولی ساحصہ بخشا ہے جتنا وہ چاہتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَایَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ o (اٰل عمرٰن ۳:۵) بیشک اللہ وہ ہے جس سے نہ زمین کی کوئی چیز مخفی ہے نہ آسمان کی۔
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَاشَآئَ (البقرہ ۲:۲۵۵) جوکچھ ان کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جوکچھ ان سے اوجھل ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے اور لوگ اس کے علم میں کسی چیز پر بھی حاوی نہیں ہو سکتے بجز ان چیزوں کے جن کا علم وہ خود ان کو دینا چاہے۔
اس طرح جو حقائق علم حقیقی کے سرچشمہ یعنی باری تعالیٰ کی جانب سے وحیِ الٰہی یا اس کے پیغمبر کی منصوص سنت کی صور ت میں ظہور پذیر ہوئے ہوں وہ حتمی صداقت (absolute truth) ہیں اوران کے ماسوا دنیا میں حقیقت کے جتنے دعوے پائے جاتے ہیں ، ان کی دوقسمیں ہیں۔ اگر وہ وحیِ الٰہی سے متصادم ہیں تو وہ باطل مطلق (absolute false) ہیں اور اگر متصادم نہیں ہیں تو ان کی حیثیت اضافی صداقت یا relative truth کی ہے جو صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔ مختلف معاملات میں عقلی غلطی کا امکان عام انسان تو کجا نبیؐ کے لیے بھی موجود ہے۔ مسئلے کی نزاکت کے پیشِ نظر ہم اس بات کو علامہ سید سلیمان ندویؒ کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
اس میں بھی شک نہیں کہ وحی اور ملکۂ نبوت کے علاوہ نبی میں نبوت ورسالت سے باہر کی چیزوں میںوہی عقل ہوتی ہے جو عام انسان کی ہوتی ہے اور جس میں اجتہادی غلطی کا ہر وقت امکان ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒ صاحب کے نزدیک اجتہاد کی یہی وہ دوسری قسم ہے جس میں نبی سے بھی غلطی ہوسکتی ہے کہ اس کا مدار وحی والہام اور ملکۂ نبوت پر نہیں بلکہ انسانی علم وتجربہ پر ہوتا ہے ۔۲۴ ؎
اس بحث سے یہ بات واضح ہے کہ وحیِ الٰہی سے منصوص حقائق کے ماسوا تما م امور، خواہ وہ سائنسی اصول وضوابط ہوں یا ریاضی ومنطق، یا معاشیات وسیاسیات یاسماجیات وعمرانیات سے متعلق امور ، تمام دعوے اضافی ہیں۔
عملی زندگی میں قانون سازی اور ضابطہ سازی کے معاملے میں بھی اسلام نے یہی موقف اختیار کیا ہے ۔ جدیدیت کی طرح نہ وہ ہر ضابطے اور اصول کو آفاقی حیثیت دیتا ہے اور نہ مابعدجدیدیت کی طرح ہر آفاقی ضابطہ واصول سے انکار کرتا ہے ۔ وحیِ الٰہی کی صورت میں وہ بنیادی اصولوں اور سمت کو آفاقی حیثیت دیتا ہے، ان اُصولوںکو زمان و مکان (Time and Space) سے بالاتر یاماورا قرار دیتا ہے اور ان آفاقی اصولوں کی روشنی میں مخصوص وقت ، مخصوص مقام اور مخصوص احوال کے لیے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھتا ہے ۔ بلکہ اجتہادی اور غیر منصوص احکام میں ’عرف‘ کا لحاظ رکھتا ہے ۔ جسے مابعد جدیدی، تہذیبی اتفاق راے (Cultural Consensus) کہتے ہیں۔
ضیاء الدین سردار نے اسلام کو مابعد جدیدیت کے مقابلے میں ماوراے جدیدیت (transmodernity) کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔۲۸؎ بنیادی اصولوں(قرآن وسنت کی تعلیمات) سے گہری وابستگی کے ساتھ تغیر پذیر زمانے کے مطابق تبدیلیوں کو اختیا رکرنے کا عمل ماوراے جدیدیت ہے۔ ا سلامی معاشروں میں ابدی قدروں سے وابستگی موجود ہے۔ اس لیے وہ جدید یا مابعد جدید نہیں ہیں اور چونکہ یہ قدریں حیات بخش ہیں اور ان کے اندر نہ صرف نئے زمانے کا ساتھ دینے کی صلاحیت موجود ہے، بلکہ نئے ضابطوں اور طرز ہاے حیات کی تشکیل کی صلاحیت اور گنجایش بھی موجود ہے، اس لیے ان کی بنیاد پر قائم سماج کو ماقبل جدید (Premodern) یا روایت پرست بھی نہیں کہاجاسکتا ۔ وحیِ الٰہی کی بنیادوں پر چند آفاقی قدروں اور اصولوں کی حتمیت اور ان کے دائرے کے باہر وسیع تر معاملات میںوحیِ الٰہی کی روشنی میں نئے طریقوں، ضابطوں اور راستوں کی تشکیل کا راستہ ایک ایسامعتدل راستہ ہے جو اسلام کو بیک وقت دائمی، آفاقی،تغیر پذیر اور مقامی احوال کے مطابق بنا تا ہے اور زمان ومکان کے اختلافات سے ماوراکردیتا ہے ۔ اس لیے اسلام کی بنیاد پر صحیح طور پر بننے والا معاشرہ ماوراے جدید (Transmodern) معاشرہ ہوتا ہے۔
ختم نبوت کا نظریہ یعنی یہ عقیدہ کہ آنحضرتؐ کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی مبعوث ہونے والا نہیں ہے اور وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا اور اب قیامت تک قرآن ہی اللہ کی کتاب اور بنی نوع انسان کی ہدایت کا ذریعہ ہے، اسلام کا ایک بنیادی نظریہ ہے۔ اس نظریے کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اب زمانے میںکسی ایسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیںہے جو بنیادی اصولوں میں کسی ترمیم کی متقاضی ہو۔ آنے والی ہر جدت کی نوعیت جزوی اور ذیلی ہی ہوگی۔ اس لیے یہ کہنا کہ اب ہم جدیدیت کے عہد میں ہیں، اس لیے ماقبل جدیدیت کے عہد کی ہر چیز تبدیل ہونی ہے یا یہ کہ اب ہم مابعد جدیدیت کے عہد میںہیں اس لیے جدیدیت کی ہرجڑ کی رد تشکیل ضروری ہے، ایک نہایت لغو بات ہے ۔ انسانی حیات میں بیک وقت دائمی اور تغیر پذیر دونوں طرح کے عناصر کارفرما ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے اس مسئلے پر اپنی تحریر ’دین حق‘ میں بہت دل چسپ اور دل نشیں انداز میں بحث کی ہے۔ لکھتے ہیں:
کیا یہ واقعہ نہیں کہ تمام جغرافیائی ، نسلی اور قومی اختلافات کے باوجودوہ قوانینِ طبعی یکساں ہیں جن کے تحت انسان دنیا میں زندگی بسر کررہا ہے ۔ وہ نظامِ جسمانی یکساں ہے جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ وہ خصوصیات یکساں ہیں جن کی بنا پر انسان دوسری موجودات سے الگ ایک مستقل نوع قرار پاتا ہے ۔ وہ فطری داعیات اور مطالبات یکساں ہیں جو انسان کے اندر ودیعت کیے گئے ہیں ۔ وہ قوتیں یکساں ہیں جن کے مجموعے کو ہم نفس انسانی کہتے ہیں ۔ بنیادی طورپر وہ تمام طبعی، نفسیاتی، تاریخی، تمدنی، معاشی عوامل بھی یکساں ہیںجو انسانی زندگی میں کارفرما ہیں۔ اگر یہ واقعہ ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ واقعہ نہیں ہے تو جو اصول انسان بحیثیت انسان کی فلاح کے لیے صحیح ہوں، ان کو عالم گیر ہوناچاہیے۔۲۹؎
زمانہ ایک حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری قصۂ جدید و قدیم
مابعد جدیدیت اور فروغِ اسلام
مابعد جدیدیت کا نظریہ اسلام اور اسلامی تحریک کے لیے بیک وقت چیلنج کی بھی حیثیت رکھتا ہے اور امکان (opportunity) کی بھی۔ جدیدیت کی طرح اس تحریک نے بھی بعض سنجیدہ نظریاتی مسائل کھڑے کیے ہیں جن سے مسلمانوں کو فکری سطح پرنبردآزما ہونا ہے ۔ جدیدیت کے زمانے میں مفکرینِاسلام نے اس کے اٹھائے ہوئے سوالا ت کے مسکت جواب دیے تھے، لیکن ساتھ ہی جدیدیت نے جو حالات اور رویے پیدا کیے تھے، تحریک اسلامی نے اپنی حکمت عملی میں ان کا لحاظ بھی کیا تھا۔ جدیدیت نے عقل کو اہمیت دینے کا مزاج بنایا تھا تو تحریک نے عقلی طریقوں سے اسلام کی دعوت پیش کی تھی۔ تحریک کی صورت گری اور اس کے لیے بنائی گئی جماعت کے ڈھانچے کی تشکیل میں بھی جائز حدود میں جدید طریقوں کا استعمال کیا گیاتھا۔
ٹھیک یہی رد عمل مابعد جدیدیت کے بارے میں بھی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ان فکری چیلنجوں کا مقابلہ کرناہے جو مابعد جدیدیت نے پیش کیے ہیں اور دوسری طرف اسلام کی دعوت ، اس کے مباحث اور طریق کار میں ان کیفیتوں، مزاجوں اور رویوں کا لحاظ رکھنا ہے جو مابعد جدیدیت نے پیدا کیے ہیں۔
اسی پس منظر میں مسلمان مفکرین اور اسلام کے فروغ اور غلبے کے لیے کام کرنے والے درج ذیل نکات کے حوالے سے لائحہ عمل بنا سکتے ہیں۔ یہ حرفِ آخر نہیں، ان پر گفتگو ہوسکتی ہے، بلکہ ہونا چاہیے۔
۱- تحریک اسلامی کا مقابلہ آج بھی جدیدیت کے فلسفوں سے ہے۔ مابعد جدیدیت کی طاقت ور تحریک کے باوجود اب بھی عقلیت کا فریب پوری طرح بے نقاب نہیں ہوپایا ہے۔ سیاسی سطح پر عالمی استعماری قوتیں اسلامی قوتوں کی اصل حریف ہیں اور وہ آج بھی جدیدیت ہی کی مظہر ہیں۔اسلامی دنیا میںاسلامی تحریکوں کو کچلنے والے تمام حکمران جدیدیت کے منصوبے ہی کے علَم بردار ہیں۔ اس تناظر میں مابعد جدیدی ہمارے اہم حلیف ثابت ہو سکتے ہیں۔ مابعد جدیدی مفکرین مغرب اورمغربی تہذیب کی شان و شوکت، سرمایہ دارانہ معیشت کی چکاچوند اور مغربی افکار اور عقلیت کے سحر کو توڑنے میں ہمارے معاون بن سکتے ہیں۔ تحریک اسلامی کو بڑا چیلنج اُن قوتوں سے درپیش ہے، جو تحریک کو رجعت پسندی قرار دیتے ہیں اور اسلام کے مقابلے میں جمہوریت، مردوزن کی مساوات وغیرہ کے مغربی تصورات کو اسلامی معاشروں کے لیے راہِ نجات قرار دیتے ہیں۔ مابعد جدیدیت کے علَم بردار بڑے زور و شور سے ان ’عظیم بیانات‘ کی رد تشکیل میں مصروف ہیں۔ لہٰذا اس معاملے میںیہ ہمارے حلیف ثابت ہوسکتے ہیں۔ مابعد جدیدی مفکرین نے جدید مغرب کے ’عظیم بیانات‘ پر جو سوالات کھڑے کیے ہیں ہمیں ان کا مؤثر استعمال کرنا چاہیے اور جدیدیت اور جدید مغرب کو شکست دینی چاہیے۔
۲- مابعد جدیدیت نے روحانیت اور روایات (Traditions)کا احیا کیا ہے اور مذہب کی طرف واپسی کی راہیں ہموار کی ہیں۔ اگرچہ مابعد جدیدی مذہب کوآفاقی سچائی کا مقام دینے کے لیے تیار نہیں، لیکن اگر روحانی سکون کے لیے کوئی شخص مذہب اختیار کرتا ہے یا کوئی معاشرہ اپنے لیے مذہبی قانون پسند کرتا ہے تو مابعد جدیدی مفکرین اسے قابل اعتراض نہیں سمجھتے۔ یہ صورتِ حال بھی تحریک کے لیے سازگار ہے ۔
۳- اس وقت دنیا بھر میں تکثیری معاشرے (pluralistic societies) وجود میں آرہے ہیں۔ ان معاشروں میںاہل اسلام کے لیے ایک بڑا مسئلہ اپنی اسلامی شناخت اور تشخّص کے تحفّظ کا ہے۔ مابعد جدیدی افکار یہاں بھی تحریک کے لیے معاون بنتے ہیں۔ مثلاً یکساں سول کوڈ کا تصور جدیدیت کا تصورہے، جب کہ مابعد جدیدی مفکرین کے نقطۂ نظر سے ایک ہی ملک میں اپنی اپنی پسند کے علاحدہ علاحدہ قوانین کی نہ صرف گنجایش ہے، بلکہ یہ تکثیریت قابلِ تحسین ہے۔ میرا خیال ہے کہ تحریک اسلامی مابعد جدیدیت کے علَم برداروں کو دوسری مذہبی اقلیتوں کے لیے اسلامی تعلیمات کے حق میں ہموار کرسکتی ہے جن کے مطابق ہرمذہبی گروہ کو اپنے مذہبی قوانین کے مطابق اپنے معاملات چلانے کا حق حاصل رہتا ہے۔
۴- مابعد جدید مفکرین کے ساتھ اس تال میل کے ذریعے، تحریکِ اسلامی کو سچائی اور قدروں کی اضافیت کے نظریے کو پُرزور طریقے سے چیلنج کرنا چاہیے ۔ ان مفکرین کے اٹھائے ہوئے سوالات پر اسلام کا متوازن موقف گذشتہ سطور میں واضح کیا جاچکا ہے۔ یہ موقف مابعد جدیدیت کے اندرونی تضاد سے بھی پاک ہے اور جدیدیت کی ان الجھنوں کو بھی نہایت خوبصورتی سے حل کرتا ہے جن کے حل کے لیے مابعد جدیدیت کی تحریک برپا ہوئی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ موقف پُرزور طریقے سے دنیا کے سامنے لایا جائے۔
۵- اس وقت دنیا بھر کے مذہبی اور نظریاتی فلسفے اپنے پیغام اور طرز پیش کش کو مابعد جدید ذہن کے حسب حال بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیتھولک چرچ نے تو اس کی باقاعدہ منظم کوشش شروع کی ہے ۔اور عیسائی مطالعات میں Postmodern Evangelism باقاعدہ ایک ڈسپلن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ۔۳۰؎ مارکسزم کی نئی پیش کش نیومارکسزم کی صور ت میں سامنے آرہی ہے ۔ اسلام کے داعیوں کو بھی اپنی پیش کش میں بدلے ہوئے ذہن کا لحاظ رکھنا ہوگا۔
ابھی تک ہمارا مخاطب جدید دور کا وہ قاری تھا جس کے اپنے نظریات اور خیالات تھے۔ ہمارا ہدف یہ تھاکہ اس کے نظریات اور خیالات کو غلط ثابت کیا جائے اور اس کے مقابلے میں اپنی دعوت کی معقولیت ثابت کی جائے۔ اب ہماراسامنا ایک ایسے ذہن سے ہے جو کسی نظریے اور خیال کی ضرورت کا ہی قائل نہیں ہے۔ وہ بیک وقت ہماری دعوت اور ہمارے مخالف کی دعوت دونوں کوصحیح اور دونوں کو غلط سمجھتا ہے ۔ وہ نظریہ اور فکر کے معاملے میں سنجیدہ ہی نہیں ہے۔ وہ مذہب کے ساتھ ساتھ فکر اور نظریے کو بھی انسان کا انفرادی معاملہ سمجھتا ہے جس پر بحث کرنے اور لڑنے کی کوئی ضرورت ہے نہ جواز۔ یہ بدلی ہوئی صورت حال علمی وفکری مباحث کے پورے منظرنامے کو بدل کررکھ دیتی ہے ۔اور اس کا لحاظ کیے بغیر ہم اپنی حکمت عملی کا صحیح طور پر تعین نہیں کرسکتے۔
۶- مابعد جدیدیت نے معقولیات اور علمی دلائل کی اہمیت اس قدر گھٹادی ہے کہ فلسفہ ، سماجیات، تہذیبی مطالعات وغیرہ میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے بالکل نئے طریقے وجود میں آچکے ہیں ۔ معقولات کے مقابلے میں کہانیاں، قصے اور داستانیں ، عقل کے مقابلے میں جذباتی اپیل اور منظم اور مربوط بحث کے مقابلے میں ہلکی پھلکی اپیلیں مابعد جدیدذہن سے زیادہ قریب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعدیؒ اور رومیؒ اس وقت اسلامی دنیا سے زیادہ مغربی دنیا میں مقبول ہیں۔ ہمیں اپنی دعوت کی پیش کش میں اس تبدیلی کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا اورایسے مطالعات تیار کرنے ہوں گے جن کے مقدمات مابعد جدید ذہن کو اپیل کر سکیں۔
۷- معلومات اور اطلاعات کی اُس غیر معمولی اہمیت کا جسے مابعد جدید عہد میں طاقت کے سب سے بڑے سرچشمے کا مقام مل چکا ہے ،تقاضا ہے کہ تحریک اسلامی اس محاذ پر توجہ دے ۔ کہا جارہا ہے کہ مابعد جدید دور میں سب سے بڑی قوت معلومات کی قوت ہی ہے۔ لیونارڈ نے لسانی کھیلوں کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ نئے دور میں معلومات کی ہر چال طاقت کی ایک وضع کی حامل ہے۳۱؎ اور بین ملکی طاقت کے کھیل میں کمپیوٹرائزڈ معلومات کا بڑا حصہ ہوگا۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ قوموں اور ملکوں کی آیندہ رقابتیں اور دشمنیاں معلومات کے ذخیروں پر قدرت حاصل کرنے کے لیے ہوں گی یعنی معلومات گیری ملک گیری کی طرح عالمی سطح پر ہوس کا درجہ اختیار کرلے گی۔۳۲؎
اسی صورت حال کا نتیجہ ہے کہ تقریباً ہر ملک اپنی معلوماتی پالیسی (Knowledge Policy) وضع کر رہا ہے اور معلومات کے انتظام (Information Management) کو غیرمعمولی اہمیت دے رہا ہے۔ اس تناظر میں تحریک اسلامی بھی معلومات سے صرفِ نظر نہیں کرسکتی۔ اسے معلومات اور ڈاٹا (data) کے جمع و انتظام اور استعمال پر خصوصی توجہ دینی ہوگی اور اپنی معلوماتی پالیسی وضع کرنی ہوگی۔
۸- جہاں تک تحریک کے جماعتی ڈھانچے کا سوال ہے مابعد جدیدیت کے بعض طالب علموں کا خیال ہے کہ یہ جدیددور کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے اور مابعد جدیدی عہد کی کیفیتوں کا ساتھ دینے کی اس میں صلاحیت نہیں ہے۔ یہ ایک انتہا پسندانہ نقطۂ نظر ہے ۔ دنیا بھر میں بڑی بڑی تنظیمیںمخصوص نظم جماعت کے ساتھ کامیابی سے کام کر رہی ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ نئے تقاضوں کا ساتھ دینے کے لیے ہمارے تنظیمی سانچے میںبعض بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ علم انتظامیات (Management Sciences) کے تصورات میںمابعد جدیدی افکار نے بڑی انقلابی تبدیلیاں کی ہیں۔ مرکزیت، طاقت کا ارتکاز،سرخ فیتہ شاہی ,ضابطوں کی سخت گیری، فیصلہ سازی اور مشاورت کے عمل کی مخصوص اداروں تک محدودیت ، جواب دہی اور باز پرس کی میکانیت وغیرہ جیسے امور، جو نوآبادیاتی علم انتظامیات کی نمایاں خصوصیات تھیں اب دنیا بھر میں رد کی جارہی ہیں۔ اور مابعد جدید ذہن نہ انھیں قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، نہ اس سیٹ اَپ میں کام کرنے کے لیے ۔تحریک اسلامی کو اس تبدیلی پر بھی توجہ دینا ہوگی۔
مابعد جدیدیت، جدیدیت کا ایک منفی رد عمل ہے اور اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کا مظہر ہے جس میں مسلسل کئی نظریات کی ناکامی اور ابطال کے بعد ہمارے عہد کا پڑھا لکھا انسان بھٹک رہا ہے ۔ افکار ، نظریات، اور فلسفوں کی عالی شان عمارتیں اس بری طرح سے زمین بوس ہوگئیں کہ نئے زمانہ کے فلسفیوں نے عافیت اسی میں محسوس کی کہ سوچنا ہی چھوڑ دیا جائے۔ فکر وخیال اور سچائی کے تصورات ہی کو واہمہ قرار دیا جائے۔ نظریے اور آئیڈیالوجی کو ایک ناپسندیدہ شے باور کیا جائے اور حیاتِ انسانی کو حالات اور افراتفری کے حوالے کر کے مابعد جدیدیت کی جنت میں چین کی بانسری بجائی جائے ۔ تمام جھوٹے خدائوں کے زمین بوس ہوجانے کے بعد مابعد جدیدیت دراصل لاالٰہ کا اعلان ہے ۔ اِلاَّاللہ کا اعلان باقی ہے جو ان شاء اللہ موجودہ کیفیت کا لازمی اورمنطقی انجام ہوگا۔
Ghazali Abu Hamid Muhammad (2000) "The Incoherence of the Philosophers" (Tr. of Tahafatul Falasafa by Michael E. Marmura), Provo: Brigham Young University Press
۲۴؎ الغزالی، ابو حامد محمد (۱۹۶۵) معیارالعلم، تحقیق الدکتور سلیمان دنیا، قاہرہ : دارالمعارف، ص ۴۲۔۶۰
۲۵؎ www.ghazali.org/site/dissert.htm
۲۶؎ مودودی، مولانا سید ابوالاعلیٰ (۲۰۰۷) دین حق،نئی دہلی: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،ص۲۲
۲۷؎ ندوی، علامہ سید سلیمان (۱۹۹۱) سیرت النبی، جلد چہارم ، لاہور : الفیصل ناشران کتب، ص۸۴
۲۸؎ Sardar,Ziauddin
http://www.islamonline.net/english/Contemporary/ 2002/05/article20.shtml
۲۹؎ مودودی، مولانا سید ابوالاعلیٰ (۲۰۰۷) دین حق،نئی دہلی: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ،ص۱۰
۳۰؎ http://www.gettysburgsem.org/mhoffman/ other/ pomoevangelism.htm
۳۱؎ Lyonard, J.-F.(1984) The Postmodern Condition: A Report on Knowledge, Geoff Bennington and Brian Massumi (trans.), Minneapolis: University of Minnesota Press p. 9-11
۳۲؎ گوپی چند نارنگ ، حوالہ سابق