اگست ۲۰۰۸

فہرست مضامین

… اور اب سوڈان

عبد الغفار عزیز | اگست ۲۰۰۸ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

۱۴ جولائی کو عالمی عدالت براے جنگی جرائم (International Criminal Court) نے سوڈان کے منتخب صدر عمر حسن البشیر پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ ایک سوڈانی چرواہے نے خبر سنی تو اپنے مقامی لہجے میں بے اختیار کہہ اُٹھا: دی حکایۃ تضحک الغنمایۃ’’یہ بات تو میری بکریوں کو بھی ہنسانے کے لیے کافی ہے‘‘۔ خرطوم میں اس عالمی جرم کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک مظاہرے میں مرکزی بینر تھا: You are joking Okambo ’’اوکامبو! تم شاید مذاق کر رہے ہو‘‘۔

اس عدالت کے اٹارنی جنرل لویس مورینو اوکامبو نے صدر عمر البشیر پر فردِ جرم عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ (سوڈان کے مغربی صوبے) دارفور میں بڑے پیمانے پر ہونے والے  قتلِ عام کی ذمہ داری سوڈانی حکومت اور اس کے نظام پر عائد ہوتی ہے اور وزیر انسانی امور احمد محمدہارون اور جنجا وید ملیشیا کے سربراہ علی قُشیب اس میں براہِ راست ملوث ہیں۔ عالمی عدالت نے مطالبہ کیا تھا کہ دونوں کو اس کے سپرد کیا جائے لیکن صدر عمر البشیرنے انکار کردیا اور کہا کہ ہم اپنے شہری کو  کسی کے سپرد نہیںکریں گے، وہ اگر واقعی کسی جرم کے مرتکب ہوئے ہیںتو ثبوت پیش کیے جائیں۔ ہم خود سوڈانی عدالت میں ان پر مقدمہ چلائیں گے۔ اوکامبو کا کہنا تھا کہ سوڈانی صدر نے نہ صرف مطلوبہ افراد کو پیش کرنے سے انکار کیا ہے بلکہ خود ان کا پورا حکومتی نظام بھی اس قتلِ عام میں ملوث ہے۔ اس لیے ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔

دیگر پہلوئوں کا جائزہ لینے سے پہلے آیئے دیکھتے ہیں کہ یہ ’عالمی عدالت جرائم‘ کیا شے ہے۔ ٹھیک ۱۰ سال پہلے، یعنی جولائی ۱۹۹۸ء میں اقوام متحدہ کے ۱۲۰ رکن ممالک نے روم میں جمع ہوکر ایک معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے ایک مستقل اور آزاد عالمی عدالت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ دستخط ہونے کے چار سال بعد یکم جولائی ۲۰۰۲ء سے یہ معاہدہ نافذ ہوگیا۔ اعلان کیا گیا کہ دنیاوی تاریخ میں یہ پہلی عالمی عدالت ہے جس کے ذریعے ہر بڑے مجرم کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جاسکے گا۔ عالمی عدالت ِانصاف اور اِس نومولود عدالت میں فرق یہ بتایا گیا کہ اول الذکر اقوام متحدہ کے تابع ادارے کی حیثیت رکھتی ہے اور ریاستوں اور ممالک کے درمیان تنازعات نمٹاتی ہے، جب کہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) اقوام متحدہ کی تابع نہیں اور یہ عدالت ممالک اور ریاستوں کے بجاے افراد کے خلاف شکایات سنا اور فیصلے صادر کیا کرے گی۔ نومبر ۲۰۰۷ء تک اس عدالت کے فیصلے پر دستخط اور توثیق (ratify) کرنے والے ملکوں کی تعداد ۱۰۵ تھی، مزید۴۱ ممالک نے دستخط تو کردیے تھے، لیکن اس کی توثیق نہیں کی تھی۔ اتفاق سے اس کی توثیق کرنے والے ممالک میں اُردن اور جیبوتی کے علاوہ کوئی عرب ملک شامل نہیں ہے۔ عدالت کے قواعد و ضوابط کے مطابق اس کے دائرہ کار میں وہ ممالک شامل نہیں ہوں گے جنھوں نے اس کے قیام کی توثیق نہیں کی۔ قانوناً اور اخلاقاً تو ساری بات یہیں ختم ہوجاناچاہیے تھی لیکن یہاں بات قانون یا اخلاق کی نہیں بلکہ اُوپر سے نیچے بہتے پانی کو نیچے بیٹھ کر گدلا کرنے والی ’بھیڑیئے کی منطق‘ سے ہے۔

عدالت کے ضوابط میں یہ بات بھی واضح طور پر لکھی ہے کہ یہ عالمی عدالت قومی عدالتوں کی متبادل نہیں بلکہ انھیں تقویت دینے والا ادارہ ثابت ہوگی۔ ہاں اگر کوئی قومی عدالت اپنا یہ فرض پورا نہ کرے یا اسے کام نہ کرنے دیا جا رہا ہو تو ایسے میں عالمی عدالت یہ فرض پورا کرے گی۔ اس معاملے میں بھی، سوڈان کی عدالت ہی نہیں سوڈانی حکومت بھی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ دارفور میں جرائم کے مرتکب افراد کو عدالت میں لایا جائے۔ دارفور میں برسرِپیکار مسلح عناصر پڑوسی ممالک چاڈ اور ایتھوپیا میں بیٹھے ہیں، انھیں لایا جائے۔ اگر کوئی حکومتی ذمہ دار ملوث ہے تو اس کے بارے میں بھی ثبوت لائے جائیں۔ ہم انصاف کرکے دکھائیں گے۔ سوڈان کی اس پیش کش کا کوئی جواب نہیں دیا گیا اور عالمی عدالت کے ’ملک عبدالقیوم‘ یعنی اٹارنی جنرل اوکامبو نے انصاف کا ادنیٰ تقاضا پورا کیے اور فریقین کا موقف سنے بغیر ہی ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ملک کے منتخب صدر کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

’عالمی انصاف‘ کی اصل حقیقت اسی امر سے واضح ہے کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے فردِجرم عائد کیے جانے اور وارنٹ جاری ہونے سے پہلے ہی امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بیان جاری کردیا تھا کہ آج سوڈانی صدر کا نام مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان ہوجائے گا۔ ’عالمی انصاف‘ کی یہ شان دار مثال پیش کیے جانے پر سوڈان کے اندر اور باہر ہر شخص ششدر اور ہکا بکا رہ گیا ہے۔ جس نے بھی یہ خبر سنی، اس نے اسے افغانستان و عراق پر حملے اور  شام و ایران کو دھمکیوں کے سلسلے کا امریکی قدم قرار دیا اور جس نے بھی فردِ جرم سنی اس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عالمی عدالت واقعی کسی کو جنگی مجرم ہونے کی سزا دینا چاہتی ہے تو کیا اس کائنات میں ’امریکی بش‘ سے بڑا جنگی مجرم بھی کوئی ہوگا؟ صرف عراق میں ۱۵ لاکھ انسان  موت کے گھاٹ اُتر چکے ہیں، کیا ان سب کی ہلاکت کی ذمہ داری بش اور اس کے حواریوں کے علاوہ کسی کے سر آتی ہے؟ کیا گوانٹانامو اور ابوغریب میں انسانیت کی تذلیل اور خود گوانٹانامو کے تفتیشی افسروں کا یہ بیان بھی کسی جنگی مجرم کی نشان دہی کرتا ہے کہ اس میں بند سیکڑوں قیدیوں میں سے آدھے افراد کو محض گرفتاری کے معاوضوں کے لالچ میں پکڑوایا گیا اور وہ قطعی بے گناہ تھے۔

عالمی عدالت کے اس احمقانہ اقدام پر اب تک اکثر مسلم ممالک ،کئی غیر جانب دار ممالک اور ادارے اپنی تشویش و احتجاج کا علانیہ اظہار کرچکے ہیں۔ سب سے پہلے سعودی فرماں روا    شاہ عبداللہ نے سوڈانی صدر سے فون پر بات کرتے ہوئے ان سے اپنی کامل یک جہتی کا اظہار کیا۔  پھر عرب لیگ نے مذمت کی اور وزراے خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلانے کا اعلان کیا (اب ۱۹ جولائی کو منعقدہ اس اجلاس کی طرف سے بھی سوڈان کی ہرممکن قانونی و اخلاقی امداد کا اعلان ہوگیا ہے)۔   اوآئی سی کے سیکرٹری جنرل نے بھی اظہار تشویش و مذمت کیا لیکن سب سے اہم اور مؤثر بیان چین کی طرف سے آیا جس کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لیوجیان چائو نے کہا: ’’عالمی عدالت وہ فیصلے کرے جس سے دارفور میں قیامِ امن و استحکام میں مدد ملے، نہ کہ ایسے فیصلے کہ جن سے رہا سہا استحکام بھی خاک میں مل جائے۔ چین کا یہ بیان کئی حوالوں سے اہم ہے۔

سرکاری ردعمل کے علاوہ عوامی سطح پر بھی ہرجگہ اس کی مذمت کی گئی ہے۔ ایک مثال سے اس کے ہمہ پہلو اور عالم گیر ہونے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ موریتانیا عالمِ اسلام کے انتہائی مغرب میں بحرالکاہل کے کنارے واقع ایک غریب صحرائی مسلمان ملک ہے۔ تقریباً ۲برس پہلے اس کے فوجی جرنیل کا عہد ِاقتدار ختم ہوا، سیاسی جماعتوں کی باقاعدہ تشکیل ہوئی اور اب قومی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوا ہے۔ اوکامبو کے اعلان کے بعد حکومتی ردعمل کے علاوہ ۷ اپوزیشن جماعتوں: پروگریسو پیپلزپارٹی، اتحاد و تبدیلی پارٹی، صواب پارٹی، جمہوری اشتراکی وحدت پارٹی، أمل (یعنی اُمید) پارٹی، اشتراکی پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس اقدام کی مذمت کی۔ موریتانیا کی اسلامی تحریک ’اصلاح و ترقی پارٹی اس سے پہلے ہی مختلف احتجاجی اقدامات کرچکی تھی۔

  • اصل معاملہ کیا ھے؟ سوڈان ۱۸ صوبوں پر مشتمل ایک ملک ہے۔ اس کا کُل رقبہ ۲۵لاکھ مربع کلومیٹر ہے جس کی سرحدیں ۹ ممالک سے ملتی ہیں۔ دارفور اس کا مغربی صوبہ ہے۔ موجودہ حکومت نے صوبوں کی تعداد بڑھا کر ۲۶ کردی ہے۔ دارفور کا علاقہ اس قدر وسیع ہے کہ اس کے انتظامی و ترقیاتی امور کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے اسے شمالی، مغربی اور جنوبی دارفور کے تین صوبوں میں تقسیم کرنا پڑا ہے۔ رقبہ اتنا وسیع و عریض ہے کہ صرف دارفور کا رقبہ مصر سے بڑا اور فرانس کے کُل رقبے کے مساوی ہے۔ دارفور کی اکثریتی آبادی کئی نسلوں سے گلہ بانی اور کھیتی باڑی کا کام کرتی ہے۔ گائیوں اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ریوڑ ہی دولت و ثروت کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور انھی کے لیے چراگاہوں کی تلاش میں مختلف قبائل دورانِ سال ایک سے دوسرے علاقے کی طرف ہجرت کرتے رہتے ہیں۔

جنوبی سوڈان میں مئی ۱۹۸۳ء سے علیحدگی کی تحریک عروج پر پہنچ چکی تھی۔ جان گرنگ کی قیادت میں جاری اس جنگ کی امریکا اور صہیونی ریاست سمیت سوڈان کے حصے بخرے کرنے  کے لیے کوشاں ہر عالمی طاقت نے ہر ممکن مدد کی۔ اسے مسلم عیسائی جنگ کا رنگ دیا گیا، حالانکہ جنوبیوں کی ایک مختصر تعداد ہی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھی۔ اکثریت بے مذہب، یعنی کسی خدا کو نہ ماننے والی تھی لیکن مسلم عیسائی جنگ میں جو تعصب پیدا کیا جاسکتا ہے وہ صرف علیحدگی پسندی میں نہیں کیا جاسکتا۔ ۱۹۸۹ء میں عمر حسن البشیر کی زیرقیادت ’انقلاب نجات‘ کے نام پر تبدیلی آئی۔ اس وقت گرنگ کی فوجیں دارالحکومت خرطوم پر قبضہ کرنے کی دھمکیاں دے رہی تھیں۔ انقلابی قیادت نے اس کی راہ میں قومی سطح کی جہادی مزاحمت کی دیوار کھڑی کردی۔ پوری قوم کے لیے اس میں شرکت لازمی  قرار دی۔ سرکاری عمّال اور علما و مشائخ سمیت سب بنفس نفیس محاذ جنگ پر پہنچے۔ سیاسی اور فوجی قیادت نے بھی اپنے افراد خانہ کی جانی قربانیاں پیش کیں اور جنوبی بغاوت ہر طرح کی عالمی مدد کے باوجود کمزور ہوتی چلی گئی۔

اسی دوران میں، کیمیاوی ہتھیار بنانے کا الزام لگاتے ہوئے دارالحکومت خرطوم میں واقع ادویات کے ایک کارخانے پر براہِ راست امریکی حملہ کیا گیا، پابندیاں لگائی گئیں، مزید دھمکیاں دی گئیں، پڑوسی ملکوں سے لشکرکشی کروائی گئی، اپوزیشن پارٹیوں کو مصر میں جمع کر کے ان کے مشترکہ محاذ تشکیل دیے گئے لیکن جب اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں… تو بالآخر مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا اور  کئی طویل ادوار کے بعد ۹جولائی ۲۰۰۵ء کو حتمی و تاریخی معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔    شمال و جنوب کو ملاکر ایک مشترکہ حکومت تشکیل دی گئی اور جنوبیوں کو اس طور شریک کار کیا گیا کہ  صدر کے ساتھ سینیر نائب صدر جنوبی، وزارتِ خارجہ سمیت اہم وزارتوں میں ان کی شرکت اور تقسیم الثروۃ والسلطۃ (تقسیم اقتدار و ثروت )کے فارمولے کا پورا پورا احترام کیا گیا۔ اس معاہدے کی خطرناک ترین شق یہ ہے کہ یہ سارا عرصہ ایک عبوری دور ہے۔ اس کے ۶برس پورے ہونے کے بعد جنوبی آبادی میں ریفرنڈم کروایا جائے گا کہ لوگ علیحدگی چاہتے ہیں یا اشتراک۔ حکومت اس امر پر مطمئن ہے کہ ۶ سال کے اشتراک و قربت کے بعد علیحدگی کے لیے کوشاں اندرونی اور بیرونی عناصر کی خواہش کے باوجود آبادی کی اکثریت ملک کی تقسیم کے خلاف راے دے گی۔

اسی دوران میں ایک اہم ترین تبدیلی یہ واقع ہوئی کہ اہلِ سوڈان کے لیے زمین نے اپنے خزانے اُگل دیے۔ پہلے بڑے پیمانے پر سونے کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ ۲۰۰۲ء تک خام سونے کی پیداوار۵ ٹن سالانہ تک جاپہنچی۔ پھر کالے سونے، یعنی تیل کے نہ ختم ہونے والے خزانے دریافت ہوگئے۔ پہلے امریکی کمپنیاں تیل کی تلاش میں مگن رہیں اور ۴ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی لیکن پھر وہ اچانک سب کچھ لپیٹ کر واپس چلی گئیں۔ اس واپسی کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں لیکن مصدقہ اطلاعات کے مطابق: امریکیوں نے تیل کی دریافت کے بجاے سوڈان پر اقتصادی پابندیوں کا فیصلہ زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز سمجھا۔ پابندیاں عائد ہوگئیں، امریکی کمپنیاں نکل گئیں لیکن سوڈان نے مایوس ہونے یا ہتھیار ڈالنے کے بجاے چین کا رخ کیا۔ سوڈان چین اشتراک نے   نہ صرف چین کو تیل کا ایک بڑا سہارا فراہم کیا بلکہ سوڈان کی قسمت بھی تبدیل کرنا شروع    کردی۔ سوڈانی ذمہ داران کے مطابق امریکیوں نے چین سے ہمارا اشتراک ناقابلِ تلافی جرم قرار     دے دیا اور پہلے سے جاری سازشیں اور دبائو ناقابلِ بیان حد تک بڑھنا شروع ہوگیا۔ القاعدہ، عالمی دہشت گردی اور نہ جانے کیا کیا الزام عائد کردیے۔ جنوب کا جنگی محاذ مذاکرات و معاہدے کی منزلیں طے کرتا ہوا ٹھنڈا ہوا تو دارفور کو جہنم زار بنا دیا گیا۔

  • صھیونی ھاتھ: ہفت روزہ المجتمع نے ایک مفصل رپورٹ (۵ اپریل ۲۰۰۸ئ) شائع کی ہے جس میں افراد، تنظیموں اور مقامات کے ناموں، اعداد و شمار اور دستاویزات کی مدد سے واضح کیا ہے کہ کس طرح صہیونی ریاست اس پورے بحران کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اس نے دارفور کے متصادم قبائل کو اسلحے اور سرمایے کے انبار فراہم کیے۔ سوڈانی حکومت نے اسرائیلی اسلحے کے کئی ذخائر پکڑے۔ اردنی اخبار العرب الیوم نے ان مختلف گرفتارشدگان کے انٹرویو شائع کیے جن کا تعلق دارفور سے تھا لیکن ان کے پاس اسرائیلی پاسپورٹ تھے۔ ان میں ایک صاحب کے   براہِ راست تعلقات موساد کے سربراہ ’دانی یاتوم‘ کے چھوٹے بیٹے کے ساتھ تھے۔ گرفتار شدگان نے ان مختلف اسرائیلی ڈیلروں کے نام بھی بتائے جو انھیں دارفور میں اسلحہ پہنچاتے تھے۔

صہیونی لابی نے دارفور کے مسئلے کو دنیا کا سب سے سنگین مسئلہ ثابت کرنے کے لیے مؤثر اور مضبوط ابلاغیاتی، سفارتی مہم چلائی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق: صہیونی لابی نے صدر بش کو قائل کیا کہ وہ دارفور کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کریں اور ان کی بنیاد پر سوڈان پر پابندیاں عائد کریں (یکم جون ۲۰۰۷ئ)۔ ان صہیونی کوششوں میں مختلف این جی اوز پر خصوصی توجہ دی گئی۔ واشنگٹن میں قائم غیرسرکاری تنظیم ’دارفور بچائو اتحاد‘ کا سالانہ علانیہ بجٹ ۱۵ ملین ڈالر رکھا گیا اور جو ظاہر نہیں کیا وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ان تنظیموں کے ذریعے ایک ہی دن میں واشنگٹن سمیت ۱۸مختلف امریکی شہروں میں مظاہرے کروائے گئے۔ اس صہیونی نفوذ کی تفصیل طویل ہے، لیکن نتیجہ یہی ہے کہ جنوبی علیحدگی کی مضبوط بنیاد رکھ دینے کے بعد اب مغربی سوڈان کو الگ کرنے پر توجہ مرکوزکی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ مشرقی سوڈان کے مختلف قبائل کو بھی اُکسانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔

ان ہمہ پہلو سازشوں کا نتیجہ کیا نکلے گا … یہ پردۂ غیب میں ہے، لیکن جو مظاہر دکھائی دے رہے ہیں، ان کے مطابق سوڈانی عوام اور حکومت کو آیندہ عرصے میں شدید دبائو کا سامنا کرنا  پڑے گا۔ قواعدو ضوابط کے مطابق عالمی عدالت کے ڈرامے کو کئی سال تک بھی طول دیا جاسکتا ہے۔ کڑی اقتصادی پابندیوں اور مسلح بغاوتوں کے ہتھیار بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ دارفور کے باغیوں اور حکومت میں شریک جنوبی اتحادیوں کے درمیان بھی ’رشتے ناطے‘ طے کروائے جاسکتے ہیں۔ ان تمام احتمالات و خدشات کے باوجود سوڈانی حکومت اور عوام کامل اطمینان سے سرشار ہیں۔ ان کے عزم و ارادے میں کوئی کمزوری نہیں دکھائی دیتی۔ہر طرف سے بہ یک زبان کہا جا رہا ہے کہ صدر عمر حسن البشیرکے لیے یہ آزمایش مزید عوامی تائید و حمایت کا موجب بنی ہے۔    انھوں نے آج پھر اعلان کیا ہے: ’’تم سوڈانی شہریوں کو سپرد کرنے کا مطالبہ کررہے ہو، خدا کی قسم!     ہم اپنے کسی شہری کا ایک بال بھی تمھارے حوالے نہیں کریںگے‘‘۔

۲۳ جولائی کو سوڈانی صدر نے دارفور میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کیا۔ الجزیرہ چینل پر تاحد نظر مردوں اور عورتوں کے سر ہی سر تھے۔ جوش و خروش کا ایک عالم تھا۔ نعرئہ تکبیر اور      حسن البشیر اور دارفور کے نعرے لگ رہے تھے۔

ایک عوامی مظاہرے میں شریک خواتین سوڈانی لہجے میں کورس کی صورت میں گا رہی تھیں:

ایھا الامیریکان… لیکم تدربنا

بنور اللّٰہ ونور الایمان… لیکم نسلحنا

امریکیو! ہم نے تمھارے مقابلے کے لیے ہی فوجی تربیت حاصل کی ہے، ہم نے خود کو اللہ اور ایمان کے نور سے مسلح تم سے مقابلے کے لیے ہی کیا ہے۔


تصحیح: ___ جولائی کے شمارے میں صفحہ ۵۱ کی سطر ۱۹ میں دو ہزار ارب کو دو ارب پڑھا جائے۔

                                ___  اسی شمارے میں صفحہ ۹۷ پر درست لفظ دفاعِ قانونِ توہینِ رسالتؐ ہے۔