… عموماً سب مسائل کو لپیٹ کر صرف ایک بڑا مسئلہ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس کا عنوان ہے: ’پاکستان کا دفاع اور استحکام‘۔ اور اس کا حل یہ پیش کیا جاتا ہے کہ سب پاکستانی مل کر ایک ہوجائیں اور فوجی حیثیت سے مضبوط ہوں۔ لیکن تھوڑا سا تجزیہ کرنے ہی پر یہ بات کُھل جاتی ہے کہ پاکستان کا دفاع و استحکام کوئی ایک سادہ سا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بہت سے مسائل کا مجموعہ ہے، اور اس کا حل بھی اُتنا سادہ نہیں ہے جتنا اسے سمجھ لیا گیا ہے۔ کیا ایک ملک جس کے اخلاق کو گھن لگا ہوا ہو، محض اسلحے اور فوجی تربیت کے بل پر کھڑا ہوسکتا ہے؟
کیا ایک ملک جس کے عناصرِ ترکیبی کو ایک دوسرے سے پھاڑنے اور باہم متصادم کرنے کے لیے بہت سے طاقت ور اسباب موجود ہوں بس ’ایک ہوجائو‘ کی تسبیحیں پڑھنے سے واقعی ایک ہوسکتا ہے؟ پس بجائے اس کے کہ ہم سادگی اور سادہ لوحی سے خود کام لیں یا دوسروں کو سادہ لوح فرض کر کے ان کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے اور فرضی مسائل کی طرف پھیرنے کی کوشش کریں، ہمیں واضح طور پر یہ دیکھنا چاہیے کہ فی الواقع پاکستان کی بقا و تحفظ اور اس کا استحکام کن مسائل سے وابستہ ہے اور ہم کس طرح انھیں حاصل کرسکتے ہیں۔
l اخلاقی انحطاط: اولین مسئلہ ملک کے اخلاق کا ہے جو تشویش ناک حد تک گر چکے ہیں۔ ہماری تمام مشکلات میں سب سے زیادہ اخلاق ہی کی خرابیاں کارفرما ہیں۔ اس بگاڑ کا زہر اتنے وسیع پیمانے پر ہماری سوسائٹی میں پھیل گیا ہے اور اتنا گہرا اُترچکا ہے کہ اگر ہم اسے اپنا قومی دشمن نمبر ایک قرار دیں تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا۔ کوئی بیرونی خطرہ ہمارے لیے اتنا خوف ناک نہیں ہے جتنا یہ اندرونی خطرہ ہے۔ یہ ہماری قوتِ حیات کو کھا گیا ہے اور کھائے چلا جا رہا ہے...
یہ حقیقت اب کھل چکی ہے کہ ہمارے اخلاق کے جوڑبند بُری طرح ڈھیلے ہوگئے ہیں۔ ہم میں ہزارہا آدمی ایسے موجود ہیں جو قتل و خون کے مشّاق ہوچکے ہیں، ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو موقع ملنے پر بد سے بد تر جرائم کا ارتکاب کرسکتے ہیں، اور نیچے سے لے کر اُونچے طبقوں تک کم از کم ۹۵ فی صد تعداد ان لوگوں کی ہے جنھیں حرام کا مال سمیٹنے میں قطعاً کوئی تامل نہیں ہے بشرطیکہ انھیں قانون کی گرفت سے محفوظ رہنے کا اطمینان ہو۔
ان حالات میں ہمارے لیے یہ کوئی وجہِ تسلی نہیں ہے کہ اس سے بدرجہا زیادہ بدتر اخلاقی صفات کا ظہور [گذشتہ برس] ہندستان میں ہندوئوں اور سکھوں سے ہوا ہے۔ جو زہر انھوں نے کھایا اس کی فکر انھیں ہو یا نہ ہو، ہمیں تو اُس زہر کی فکر ہے جو ہماری رگوں میں اُتر گیا ہے۔ کیا مشّاق مجرموں اور بے باک خائنوں کی اتنی کثیر تعداد اپنے اندر لیے ہوئے ہم اپنی قومی زندگی کو مستحکم بنا سکتے ہیں؟ کیا وہ بداخلاقیاں جو کل غیروں کی جان، مال اور عصمت کے معاملے میں برتی گئی تھیں، ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئیں اور اپنا کوئی پایدار اثر ہماری سیرت و کردار پر نہیں چھوڑ گئیں؟ کیا یہ بگڑے ہوئے اخلاق اب خود اپنوں پر ہاتھ صاف کرنے سے رُک جائیں گے؟
ایک سال کا تجربہ ہمیں بتا رہا ہے کہ جس اخلاقی زوال کی خبر گذشتہ فسادات نے دی تھی وہ وقتی اور محدود نہ تھا۔ دراصل وہ ایک نہایت خوفناک مرض کی حیثیت سے ہمارے اندر اب بھی موجود ہے اور ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے کو خراب کر رہا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جو دشواریاں فطرتاً ایک نئی مملکت کو پیش آیا کرتی ہیں وہ تو ہمیں پیش آنی ہی تھیں، اور جو مصائب انگریز، ہندو اور سکھ کی باہمی سازش سے ہم پر نازل ہوئے وہ بھی اپنی جگہ تھے، لیکن یہ سب کچھ بڑی آسانی سے انگیز کیا جاسکتا تھا۔ اگر ہمارے عوام و خواص اور ہمارے سربراہ کاروں کے اخلاق اتنے بگڑے ہوئے نہ ہوتے۔ یہ واقعہ ہے، اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کہ اخلاق کی خرابیوں نے ہماری مشکلات اور مصیبتوں کو، جتنی کہ وہ تھیں، اصل سے کئی گنا زیادہ بڑھا دیا۔
مثال کے طور پر ’مہاجرین‘ کے مسئلے کو لیجیے جو پاکستان بنتے ہی ایک پہاڑ کی طرح ہم پر نازل ہوا۔ بلاشبہہ ایک ملک کے لیے اس سے بڑی کوئی مصیبت نہیں کہ اس پر ۶۰، ۷۰ لاکھ بے سروسامان آدمی یک لخت لا کر ڈال دیے جائیں۔ لیکن غور سے دیکھیے کہ اس طرح جو مشکلات حقیقتاً رونما ہوئی تھیں ان پر کتنا اضافہ ہماری اپنی اخلاقی خرابیوں نے کردیا۔۱؎ ہندوئوں اور سکھوں نے جو عمارات، سامان، اموال، دکانیں، کارخانے، زمینیں اور دوسری چیزیں پاکستان میں چھوڑی تھیں، اگر ان پر خود پاکستان کے باشندے، حکومت کے عُمّال اور قومی کارکن قبضے کر کے نہ بیٹھ جاتے تو کیا مہاجرین کو بسانے میں ہم کو وہی دقتیں پیش آسکتی تھیں جن سے اب ہم دوچار ہیں؟ مغربی پنجاب اور سرحد اور سندھ کی حکومتوں سے پوچھیے کہ جانے والوں نے کیا کچھ چھوڑا تھا، اور اس کا کتنا حصہ آنے والوں کو دیا گیا اور کتنا حصہ کن کن غیرمستحقین کو پہنچا؟ اگر یہ اعداد وشمار روشنی میں آجائیں تو دنیا یہ دیکھ کر دنگ رہ جائے کہ مہاجرین کے مسئلے کا جو زخم غیروں نے ہم کو لگایا تھا اسے سرطان کا پھوڑا بنا دینے والے دراصل کون لوگ ہیں۔ نہیں کہا جاسکتا کہ اس حمام میں آپ کس کس کو برہنہ دیکھیں گے۔
پھر جو لوگ کل تک ’پاکستان زندہ باد‘کے نعرے لگا رہے تھے، جن سے بڑھ کر قوم کے درد میں تڑپنے والا کوئی نظر نہ آتا تھا… ان میں عظیم الشان اکثریت آپ کو ایسے افراد کی نظر آئے گی جو پاکستان بننے کے بعد ہر زاویے سے اس کی کشتی میں سوراخ کیے جارہے ہیں۔ یہ رشوت خوریاں، یہ خیانتیں، یہ غبن، یہ قومی خرچ پر اقربا پروریاں اور دوست نوازیاں، یہ فرائض سے غفلت، یہ ڈسپلن سے گریز، یہ غریب قوم کی دولت پر عیاشیاں، جن کا ایک طوفان سا ہمارے نظامِ حکومت کے لیے ہر شعبے میں برپا ہے اور جس میں بکثرت چھوٹے اہل کاروں سے لے کر بہت سے عالی مقام حکام اور وزرا تک آلودہ ہیں___کیا یہ سب پاکستان کو مضبوط کرنے والی چیزیں ہیں؟ یہ دکانوں اور کارخانوں کی ناجائز تقسیم، جس کی بدولت ملک کی صنعت و تجارت کا بڑا حصہ نااہل اور ناتجربہ کار ہاتھوں میں چلا گیا ہے، کیا یہ پاکستان کی طاقت کو مستحکم کرنے والی چیز ہے؟ یہ پبلک کا بالعموم حکومت کے ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرنا اور ان سے بچنے کے لیے، نیز دوسرے ناجائز فوائد حاصل کرنے کے لیے سرکاری ملازموں کو رشوتیں دینا، اور جہاں بھی قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی اُمید ہو پبلک فنڈ کا بڑے سے بڑا نقصان کرنے میں بھی تامّل نہ کرنا، کیا یہی وہ چیزیں ہیں جن سے پاکستان مضبوط ہوسکتا ہے؟
ملک کے باشندوں کی اخلاقی حالت اس قدر گر چکی ہے کہ ہندستان سے آنے والے مہاجرین کی لاشیں جب واہگہ اور لاہور کے درمیان پڑی سڑ رہی تھیں اور کیمپوں میں بھی موت کا بازار گرم تھا اس وقت ۱۲، ۱۳ لاکھ مسلمانوں کے شہر میں سے چند ہزار نہیں، چند سو آدمی بھی ایسے نہ نکلے جو اپنے بھائیوں کو دفن کرنے کی زحمت اٹھاتے۔ متعدد مثالیں ہمارے علم میں ایسی ہیں کہ کوئی مہاجر مرگیا ہے اور اس کے عزیزوں کو نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے اُجرت پر آدمی فراہم کرنے پڑے ہیں۔ یہاں تک بھی نوبت پہنچی ہے کہ سرحد کے قریب کسی گائوں میں مہاجرین کو زمینیں دی گئیں اور مقامی مسلمانوں نے سرحد پار سے سکھوں کو بلا کر ان پر حملہ کرا دیا تاکہ یہ بھاگ جائیں اور زمین ہمارے قبضہ میں رہ جائے۔ حد یہ ہے کہ قوم کی جو بیٹیاں ہندستان کے ظالموں سے بچ کر آگئی تھیں ان کی عصمتیں یہاں خود اپنے بھائیوں کے ہاتھوں محفوظ نہ رہ سکیں___ اس قسم کے واقعات شاذ نہیں ہیں بلکہ بکثرت ہمارے علم میں آئے ہیں، اور ان شرم ناک جرائم کے مرتکب صرف عام شُہدے ہی نہیں تھے___ کیا اِتنے شدید اخلاقی تنزل کے ہوتے ہوئے ہم یہ اُمید کرسکتے ہیں کہ کسی بڑی اندرونی یا بیرونی مصیبت کے مقابلے میں ہم مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوسکیں گے؟ اور کیا یہ اخلاقی تنزل اپنے ملک کی تعمیر کے لیے ہماری کسی اسکیم کو کامیابی کے ساتھ چلنے دے گا؟
تھوڑی دیر کے لیے ہم اس سوال کو جانے دیتے ہیں کہ ہماری قیادت نے سیاسی تحریک کے ساتھ قوم کی اخلاقی طاقت کو سنبھالنے کی فکر کیوں نہ کی؟ ہم پوچھتے ہیں کہ اب وہ اس کے لیے کیا کر رہی ہے؟ اخلاق بنانے اور سنوارنے کا کیا سروسامان اس کے پاس ہے؟ کیا تدابیر اس کے پیشِ نظر ہیں؟ کیا لائحۂ عمل اس نے بنایا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا واضح جواب ہمیں ملنا چاہیے۔ اگر اس کے جواب میں اُن نصائح کی طرف اشارہ کیا جائے جو کبھی کبھی ریڈیو اور سرکاری پریس اور تقریروں کے ذریعے سے پبلک کو اور حکومت کے چھوٹے اہل کاروں کو کی جاتی رہتی ہیں، تو ہم پہلے ہی کہے دیتے ہیں کہ اس طرح کی طفل تسلیوں سے ہمیں معاف رکھا جائے۔ اس لیے کہ بداخلاقی کے اصل سرچشمے تو خود قصرِقیادت کے ستونوں میں شامل ہیں۔ کارفرمائی اور کارپردازی کی باگیں تو اِس وقت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جن کی بڑی اکثریت ہی کے دم قدم سے بداخلاقی کا بازار گرم ہے۔ پھر بھلا خیانت کی زبان سے امانت کا سبق، خودغرضی کی زبان سے ایثار کا وعظ اور گناہ کی زبان سے نیکی کا درس انسانی فطرت نے کب قبول کیا ہے کہ یہاں اس کے کارگر ہونے کی توقع کی جائے!
l ملکی وحدت و سلامتی : دوسرا مسئلہ جو پاکستان کی زندگی، اس کی بقا اور اس کے استحکام کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان جن عناصر پر مشتمل ہے، انھیں کس طرح جوڑ کر ایک بنیانِ مرصوص بنایا جائے؟ یہ عناصر اِس وقت شدت کے ساتھ مائلِ انتشار نظر آرہے ہیں، اور ظاہر ہے کہ کسی چیز کے عناصرِ ترکیبی ہی اگر مُجتمع اور باہم پیوستہ نہ ہوں تو اِس کے وجود کا برقرار رہنا سخت دشوار ہوتا ہے___لہٰذا اگر یہ واقعہ ہے، اور کون ہے جو اس کا انکار کرسکتا ہو، کہ پاکستان کے ترکیبی عناصر میں جمع و تالیف کے بجاے کچھ انتشار و پراگندگی کے رُجحانات پائے جاتے ہیں اور کچھ قوتیں اُن کو بڑھانے میں لگی ہوئی ہیں، تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے بندِ استحکام، بلکہ عین ہماری بندشِ وجود ہی میں ایک خطرناک رخنہ موجود ہے، جسے دُور کیے بغیر ہم اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔
پاکستان جن عناصر پر مشتمل ہے ان میں تین تفریقیں اس وقت بالکل نمایاں ہیں:
m پہلی تفریق مہاجرین اور غیرمہاجرین کے درمیان ہے۔ ہماری آبادی میں مہاجرین کی تعداد اس وقت ۷۰ لاکھ سے متجاوز ہوچکی ہے اور یہ تعداد روزافزوں ہے، کیونکہ ہندستان کے ہرحصے سے مسلمان اُکھڑ اُکھڑ کر برابر پاکستان کی طرف چلے آرہے ہیں۔ مشرقی ہند کے لوگوں کا رُخ مشرقی پاکستان کی طرف ہے اور باقی ہندستان کے لوگ مغربی پاکستان کی راہ لے رہے ہیں۔۲؎ یہ نیا عنصر اب ہماری آبادی کا ایک مستقل عنصر ہے اور تعداد کے لحاظ سے کوئی معمولی عنصر نہیں ہے۔ لیکن متعدد اسباب ایسے ہیں جو نئے اور پرانے عناصر کو مل کر ایک قوم بننے سے روک رہے ہیں۔ کچھ تو زبان، تہذیب، معاشرت اور عادات و خصائل کے قدرتی اختلافات ہیں جوبہرحال ایک مدت تک یگانگت میں مانع ہوا ہی کرتے ہیں۔ مگر ان پر غیرمعمولی اضافہ جس چیز نے کردیا ہے وہ یہ ہے کہ مہاجرین اور غیرمہاجرین دونوں میںجاہلیت کے تعصبات اور نفسانی خود غرضیاں کارفرما ہیں۔ یہ چیز ہر جگہ ان دونوں عناصر کو پھاڑ رہی ہے، ان کو مخالف جتھوں کی شکل میں منظم کر رہی ہے، ان کے درمیان آویزش کی صورتیں پیدا کر رہی ہے اور دونوں طرف کے تنگ نظر اور خود غرض مفسدین ان کو باہم لڑا رہے ہیں۔۳؎
m دوسری تفریق جغرافی، نسلی اور لسانی ہے۔ پاکستان اول تو دو ایسے خطوں پر مشتمل ہے جن کے درمیان ایک ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ پھر یہ خطے بھی اپنی اپنی جگہ اندرونی وحدت نہیں رکھتے بلکہ مختلف اجزا سے مرکب ہیں اور ہر جز دوسرے جز کے خلاف تعصب رکھتا ہے۔ اس وقت درحقیقت ہم ایک قوم نہیں ہیں، پانچ مختلف قومیں ہیں جو مصنوعی طور پر ایک سیاسی وحدت میں منسلک ہوگئی ہیں، یعنی سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی اور بنگالی۔ ان میں سے ہر ایک قوم کے اندر علیحدگی کا رُجحان شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے اور بعض نادان گروہ اس کو شدید تر کرنے کی پیہم جدوجہد کررہے ہیں۔۴؎
m تیسری تفریق معاشی ہے۔ امیر اور غریب، زمین دار اور کاشت کار، مزدور اور سرمایہ دار، بڑی تنخواہیں پانے والے افسر اور چھوٹے اہل کار، یہ مختلف گروہ ہیں جن کو معاشی بے انصافیوں نے ایک دوسرے سے پھاڑ دیا ہے۔ ان کے درمیان اخوت اور ہمدردی کا تعلق نہیں ہے بلکہ حسد اور بُغض کا تعلق ہے۔ یہ ایک دوسرے کے رفیق اور حامی و ناصر نہیں ہیں بلکہ حریف اور مدِّمقابل ہیں۔ ان کی کش مکش بھی روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہمارے اندر ایک گروہ ایسا موجود ہے جس کا مستقل فلسفہ ہی یہ ہے کہ انھیں ملا کر ایک کر دینے کا خیال باطل ہے اور حق صرف یہ ہے کہ ان کو باہم لڑا دیا جائے۔۵؎
سوال یہ ہے کہ یہ مختلف تفریقیں، جو ہماری قوم اور ریاست کو پارہ پارہ کردینے پر تلی ہوئی ہیں، جن کو نشوونما دینے کے لیے گہرے داخلی اسباب بھی موجود ہیں، اور جنھیں بھڑکانے کے لیے خارجی محرکات کی بھی کمی نہیں ہے، آخر کس طریقے سے مٹائی جاسکتی ہیں؟ طاقت کے ذریعے سے ان کو دبا کر ریاست کی سیاسی وحدت اور اس کے امن کو برقرار رکھنا ایک حد تک ممکن ہے، مگر یہ چیز دلوں کو جوڑ کر وہ قلبی وحدت تو ہرگز پیدا نہیں کرسکتی جو ریاست کی اندرونی ترقی اور بیرونی خطرات کے مقابلے میں اس کی متحدہ مدافعت کے لیے ضروری ہے۔ پھٹے ہوئے دل اور کھنچے ہوئے ہاتھ نہ تعمیر میں تعاون کرسکتے ہیں اور نہ مدافعت ہی میں بنیانِ مرصوص بن کر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ قومیت کا پرچار بھی اس معاملے میں بے بس ہے۔ ہندستان میں ہم اس کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں۔ مغربی تصورات کے مطابق قومیت کی تبلیغ و تلقین وہاں جتنی بڑھتی گئی، اس نے ملک کی آبادی میں وحدت پیدا کرنے کے بجاے ان تمام گروہوں میں اپنے امتیازی وجود کا احساس جگا دیا جو اپنے اندر قومیت کے عناصر رکھتے تھے۔ پھر معاشی اغراض کا تصادم تو وہ چیز ہے جس کے زہر کا تریاق فراہم کرنے میں قومیت جگہ جگہ ناکام ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ اب ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری موجودہ قیادت کے پاس اس مسئلے کا کیا حل ہے اور وہ کہاں تک اس سے عہدہ برآ ہونے کی اہلیت رکھتی ہے؟
کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ ہم اُن دوسرے مسائل کی اہمیت سے غافل ہیں جو اس وقت پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کو درپیش ہیں۔ بلاشبہہ وہ مالی، صنعتی، انتظامی، دفاعی اور خارجی مسائل بھی اپنی جگہ کافی اہم ہیں جن سے ہم اس مملکت کی پیدایش کے بعد دوچار ہوئے۔ کوئی نہیں کہتا کہ ان کی طرف توجہ نہ کی جائے، نہ ان واقعی خدمات کا انکار کرنا قرین انصاف ہے جو اس سلسلے میں موجودہ قیادت نے انجام دیں۔ لیکن جہاں تک ہم سمجھتے ہیں مسلمانوں کی حیات قومی کے لیے اِس وقت سب سے بڑے مسئلے یہی ہیں جن کا ذکر ہم نے کیا ہے، اور قیادت کا اصل مِحکِّ امتحان [کسوٹی] یہ ہے کہ وہ انھیں صحیح طور پر حل کرنے کی اہلیت، فکری اور اخلاقی حیثیت سے کہاں تک اپنے اندر رکھتی ہے۔ (ترجمان القرآن، اگست ۱۹۴۸ئ، تحریک آزادی ہند اور مسلمان، دوم، ص ۳۱۷-۳۲۵)