اگست ۲۰۰۸

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اگست ۲۰۰۸ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

رسولؐ اللہ کے لیے لفظ ’حضور‘ کا استعمال

سوال: اپنے آس پاس بہت سی ایسی باتوں کا رواج دیکھتا ہوں جو مجھے بہت غلط لگتی ہیں اور بہت تکلیف ہوتی ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ اچھے اچھے ثقہ لوگ اتنی اہم باتوں کو کیوں نظرانداز کرتے ہیں۔ کچھ مثالیں لکھ رہا ہوں اور آپ سے رہنمائی کی توقع رکھتا ہوں۔

رسولؐ اللہ کے لیے حضور کا استعمال، اور اسی طرح آنحضور، آنحضرت، رسالت مآب، حضور انور، حضور اکرم، حضور پُرنور، حضور پاک، حضور اقدس اور کیا کیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ الفاظ نہ قرآن میں ہیں اور نہ حدیث میں۔ رسولؐ اللہ اور نبی کہنا باعث ِ ثواب ہے اور باقی گناہ۔

اسی طرح ہم لفظ ’خدا‘ اللہ کے لیے بولتے ہیں اور یہ الفاظ بھی استعمال کیے جاتے ہیں: خداوند اعلیٰ، خداے رحمن، خداے بحروبر، خداے بزرگ و برتر، خداوند قدوس، اس کے علاوہ بھی بہت سے الفاظ ہیں، مثلاً خداے عزوجل، خداے لم یزل، خداے رحیم و کبیر، باری تعالیٰ، اُوپر والا وغیرہ۔

جو نام قرآن میں آتے ہیں، بس اللہ کے وہی نام ہیں۔ اس کے علاوہ استعمال کرنا گناہ ہے۔ ہمارا تو ترانہ بھی خداے ذوالجلال پر ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح رب کو پروردگار کہنا ہے۔ رب کے معنوں سے قرآن بھرا پڑا ہے۔ لیکن ہم پروردگار کہہ کر گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔

ٹی وی کے پروگرام ’صوت القرآن‘ میں مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمہ اس طرح ہے: اے (اسمِ محمدؐ) آپ سے پوچھتے ہیں، اے (اسم محمدؐ) ہم نے آپ کو کوثر عطا کی۔ ’اے‘ تو تہذیب کے خلاف ہے۔ اس طرح تو بڑے چھوٹوں کو مخاطب کرتے ہیں۔ اے کرکے بلانا سخت ترین گناہ ہے۔ اسی طرح پرویز الٰہی، رحمت الٰہی جیسے نام ہیں۔ مجھے بتائیں اس کے کیا معنی ہیں؟ لوگوں نے نام ایسے رکھے ہیں جو اللہ کے صفاتی نام ہیں ، مثلاً کسی کو مجید، حمید یا قدیر کہنا یا غفور کہنا جیسا کہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے یہ کتنی غلط بات ہے۔ مجیدنظامی، غفوراحمد، ڈاکٹر قدیرخاں، رحمن ملک وغیرہ۔

ایک اور لفظ ’الٰہی‘ ہے جس کا بے محل استعمال اذیت کا باعث ہوتا ہے۔ الٰہی بھی ہم   اللہ کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن رضاے الٰہی، قضاے الٰہی کی تکرار ہوتی ہے۔  (یہ ۶صفحات پر مشتمل سوال کی تلخیص ہے)

جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے القاب جو اہلِ علم و فضل اور علماے دین کے ہاں مروج اور معروف ہیں ان کا استعمال کرنا جائز ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آپؐ کے لیے ہرجگہ نبی اور رسول کا لفظ ہی استعمال کیا جائے۔ آنحضور،آنحضرت، جناب کریم یہ سب الفاظ ادب کے ہیں اور ان کا استعمال جائز ہے۔ کون سے الفاظ استعمال ہونے چاہییں اور کون سے نہیں، اس کا فیصلہ ہرآدمی نہیں کرسکتا۔ اس کا فیصلہ علما کرسکتے ہیں اور علماے کرام اور مفتیان عظام اور نیک لوگوں اور بزرگانِ دین کے ہاں ان الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح لفظ ’خدا‘ کا استعمال بھی اللہ تعالیٰ کے لیے جائز ہے اور علماے دین نے ان الفاظ کو استعمال کیا ہے۔ یہ عربی زبان کے لفظ اللہ کا ترجمہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے اسما کا ترجمہ کرنا جائز ہے، جس طرح قرآن پاک کا ترجمہ جائز ہے۔ ترجمے میں لفظ اللہ کا ترجمہ بعض مفسرین نے لفظ ’خداے‘ سے اس سبب سے کیا ہے۔

ٹی وی پروگرام ’صوت القرآن‘ میں مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ آپ کو اس پر اعتراض ہے حالانکہ ترجمے میں بعض مقامات اجتہادی ہیں۔ انھی مقامات میں سے وہ مقام بھی ہے، جن میں آپؐ کو خطاب کیا گیا ہے۔ اس میں ایک صورت یہ ہے کہ یہ کہا جائے، جیسے آپ نے ترجمہ کیا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اے محمدؐ کہہ کرخطاب کیا اور تیسری صورت وہ ہے جو مولانا فتح محمد نے اختیار کی ہے، یعنی اے (اسم محمدؐ)۔ اس سے آپ اختلاف کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں لیکن ناجائز نہیں کہہ سکتے، اس لیے کہ یہ مسئلہ اجتہادی ہے۔

الٰہی کے لفظ پر بھی آپ کا اعتراض بے جا ہے۔ الٰہی کا معنی اللہ والا ہے۔ اس لیے کہ اسلام میں الٰہ تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ لا الٰہ الا اللہ کا یہی معنیٰ ہے۔ رہی وہ مثالیں جو آپ نے پیش کی ہیں، ان میں بعض پر ہمیں بھی اعتراض ہے۔ ان میں پرویز الٰہی کا نام بھی شامل ہے۔ پرویز کو اللہ والا کہا جاتا ہے حالانکہ پرویز نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پھاڑا تھا۔ اس لیے یہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے۔ ایسے بُرے آدمی کا نام کوئی رکھے گا تو خطرہ ہے،کہیں اس کی طرح نہ ہوجائے، جیسے کہ بعض لوگ آپ کے سامنے ہیں کہ وہ اسی پرویز کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ دین اور مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں اور نام بھی پرویز ہے۔ اس کے علاوہ باقی ناموں، مثلاً منظورالٰہی، رحمت الٰہی وغیرہ ناموں پر آپ کا اعتراض صحیح نہیں ہے۔

بعض لوگ بے احتیاطی کرتے ہیں۔ اصل نام کے بجاے نام کا اختصار کرتے ہیں۔ عبدالحمید کو حمید، عبدالمجید کو مجید، عبدالقیوم کو قیوم کہتے ہیں تو یہ صحیح نہیں ہے۔ لیکن جو نام اللہ کے لیے خاص نہ ہوں، ان ناموں کا دوسروں کے لیے استعمال ہو تو نامناسب ہونے کے باوجود گوارا ہے۔ اللہ اور رحمن یہ دونوں نام اللہ کے لیے خاص ہیں۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)


مختلف دن منانے کا رجحان

س: آج کل مختلف ایام منانے کا رجحان سامنے آیا ہے، مثلاً مدرز ڈے، ٹیچرز ڈے، سینیرسٹیزن ڈے، ویلنٹائن ڈے وغیرہ۔ یہ رجحان بنیادی طور پر مغرب ہی سے    آیا ہے۔ دن منانے کی اس نئی روایت کے بارے میں ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟   کیا سرے سے اسے غیرمسلموں کا کام سمجھیں، یا موقع کے لحاظ سے فیصلہ کریں،     نہ منائیں یا اپنا رنگ دیں؟

ج: مخصوص دن، وقت یا مواقع پر تقریبات اور مجالس و محافل کے انعقاد کا تعلق نہ کسی خاص مذہب سے ہے نہ کسی خطے سے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں جہاں کہیں بھی تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں بعض مخصوص دن مذہبی یا غیرمذہبی رسموں کے لیے اجتماعی اور انفرادی طور پر  منائے جاتے ہیں۔ پھولوں کا تبادلہ، مٹھائی تقسیم کرنا یا اپنی خوشی کے اظہار کے لیے چراغاں کرنا اور بعض تہذیبوں میں ناچ گانے اور مشروبات کا استعمال بھی مخصوص دنوں اور اوقات کے ساتھ  وابستہ ہے۔

قرآن کریم نے تمام دنوں کو اللہ کے لیے یکساں قرار دیا، قدیم تہذیبوں کے اوہام و اساطیر پر مبنی تقدس کا رد کیا اور سال میں صرف دو دن ایسے قرار دیے جب باوقار انداز میں اللہ کے بندے اپنے رب کا شکر ادا کریں اور خالق کائنات کے نام کو بلند کرنے کے لیے اس کے حضور سجدہ ریز ہوکر اور بہ آوازِ بلند، اس کی عظمت و کبریائی اور اپنے عجز و عبدیت کو ظاہر کریں۔ چنانچہ رمضان المبارک کی ایک ماہ کی عبادت کی تکمیل پر اور حج مبرور کی ادایگی پر عالمی طور پر اپنی خوشی، خوش قسمتی اور  بندگیِ رب کے اظہار کے لیے دو دن مقررکردیے گئے۔ ان دو دنوں کے دوران میں اپنے اہلِ خانہ، اعزہ و اقربا و احباب حتیٰ کہ اجنبی افراد کے ساتھ بھی اخوت و محبت و احترام کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ان کی خاطر تواضع اور مہمان داری کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

قرآن و سنت پر نظر ڈالی جائے تو جمعہ کا دن بھی وہ مقام نہیں رکھتا جیساکہ یہودیوںنے سبت کو یا عیسائیوں نے یومِ احد یا اتوار کو دے کر آرام یا صرف عبادت کا دن قرار دے کر اختیار کرلیا۔ بلاشبہہ احادیث میں جمعہ کے دن کی فضیلت ہے لیکن نہ اس دن کام کی ممانعت ہے، نہ یہ آرام کرنے کا دن ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر، یاد، تسبیح، تعظیم اور اس کے حضور نماز کی شکل میں شکر ادا کرنے  کے بعد کاروبارِ حیات میں، اللہ کے ذکر کوتازہ رکھتے ہوئے، مصروف ہوجانے والا دن ہے۔

اگر دنوں کا کوئی تقدس ہوتا تو انبیاے کرام کے یومِ ولادت کو یہ مقام ضرور دیا جاتا اور سال کے ۱۲ مہینوں اور ۳۶۵ دنوں میں سے ناممکن طور پر ایک لاکھ ۲۴ ہزار سے زیادہ دن     مقدس دنوں کے طور پر منائے جاتے۔ بالفرض تمام انبیاے کرام ؑکے ایامِ ولادت منانے مشکل ہوتے تو کم از کم انبیاے بنی اسرائیل جن کا ذکر سابقہ صحیفوں میں اور خود قرآن کریم میں پایا جاتا ہے ان کے حوالے سے ضرور کچھ دن مخصوص کردیے جاتے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا حتیٰ کہ سرورِ کائناتؐ کی ولادت باسعادت کو بھی صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین نے نہ چھٹی کا دن قرار دیا، نہ اسے مقدس دن سمجھا۔ اس لیے کہ وہ قرآن کریم کے اس اصول سے آگاہ تھے کہ سب دن اللہ کے لیے ہیں کیونکہ وہی خالق اور مالکِ حقیقی ہے۔ لہٰذا ہمارے ہاں دن منانے کے اہتمام کی روایت نہیں ہے۔ البتہ اگر موقع کے لحاظ سے والدین یا استاد کو کوئی تحفہ دے دیا جائے تو اس کی کوئی ایسی ممانعت بھی نہیں۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹیچرز ڈے ہو یا سینیرسٹیزن ڈے، مدرز ڈے ہو یا فادرز ڈے، مغربی تہذیب میں ان کی معاشرتی اہمیت کے پیش نظر سال میں ایک مرتبہ انھیں پھولوں کا تحفہ دے کر یا ایک کارڈ بھیج کر اظہارِ تشکر اور ان کی اہمیت کا اظہار کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ یہ اس سے تو بہتر ہے کہ پورے سال میں ایک مرتبہ بھی ان میں سے کسی کو یاد نہ رکھا جائے لیکن اگر واقعی ان کے احسانات کے پیش نظر ایسا کرنا مقصود ہے تو یہ سراسر تکلف ہے۔ والدین ہوں یا استاد، ان کا شکر تو اپنے اچھے اخلاق اور طرزِعمل سے ہی ادا ہوسکتا ہے، جسے قرآن کریم عملِ صالح کہتاہے۔ والدین اپنی محبت کے سایے میں ایسے وقت، جب اولاد قرآن کی زبان میں کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں ہوتی، اپنی توجہ اور تمام وسائل کو اس کی نشوونما اور تربیت پر لگا دیتے ہیں تو سال میں ایک دن تو کیا سال کے ہر دن، ان کا شکر و احترام کرنے کے بعد بھی کیا ان کا حق اور ان کا شکریہ ادا ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے والدین سے احسان کے رویے کی تلقین کی ہے اور ان کے ساتھ بے رُخی یا گستاخی پر سرزنش کی ہے۔

رہا ویلنٹائن ڈے یا اس قسم کے دیگر بے معنی دن تو حقیقت یہ ہے کہ ایسے دنوں کا تعلق جاہلیت اور جاہلی تہذیب سے تو ہوسکتا ہے، اسلامی تہذیب و ثقافت میں ان کے لیے کوئی گنجایش نہیں۔ ایسے دنوں کا منانا دیگر اقوام کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا اور ان کی جاہلیت پر مبنی روایات کو اپنانا ہے۔ بسنت بھی اسی قسم کا تہوار ہے جس کا کوئی تعلق مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت سے نہیں۔ یہ خالصتاً غیراسلامی طریقہ ہے اور اس کا اختیار کرنا گمراہی کا باعث ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


علاقائی رسم و رواج کی حیثیت

س: اسلام میں علاقائی رسم و رواج کی کیا حیثیت ہے اور اُن کو کرنے یا نہ کرنے کا بنیادی اصول کیا ہے بالخصوص شادی کے موقع پر کی جانے والی مہندی کی رسم؟

میرے خیال میں اس رسم کو غیراسلامی یا نامناسب اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں ناچ گانا، مووی یا تصویریں بنانا اور مخلوط تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور بے جا اسراف سے کام لیا جاتا ہے۔ اس رقم کو اسٹیٹس سمبل کے طور پر بھی ادا کیا جاتا ہے، نیز اس میں وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ اگر مندرجہ بالا وجوہات میں سے کوئی بات نہ ہو، صرف خاندان کی خواتین اور سہیلیاں اکٹھی ہوں، گھریلوقسم کے گانے ڈھولکی یا دف پر گائے جائیں، اور پردے کا خیال رکھا جائے، یعنی یہ رسم صرف مل بیٹھنے کا بہانہ ہو تو کیا پھر بھی اس رسم کا ادا کرنا ناجائز یا غیراسلامی ہوگا؟

ج: علاقائی رسمیں خصوصاً شادی بیاہ کے رواج میں سے جو شریعت سے متصادم نہ ہوں، ان کی اجازت ہے۔ آپ نے خود ہی وضاحت کی ہے کہ مہندی کی رسم میں غیرشرعی کام، ناچ گانے، مووی، تصویریں بنانا، مخلوط تقریبات، بے جا اسراف، اسٹیٹس سمبل کا مظاہرہ اور وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ اگر یہ رسم ان بے جا اُمور سے پاک ہو، محض بچی کو دلہن بنانا ہو تو سادہ طریقے سے ایسا کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح انصار کی خواتین نے حضرت عائشہؓ کو نہلا دھلاکر، بناسنوار کر دلہن بنا کر    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر رخصت کیا تھا۔ شادی کے موقع پر بڑی خواتین کا دف کے ساتھ گانے گانا اگرچہ اپنے گھر کے محدود دائرہ میں ہو، صحیح نہیں ہے۔ صرف چھوٹی بچیاں ایسے گیت گاسکتی ہیں جن میں فحش نہ ہو۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)