ارکان کی مشکلات میں بھی کوئی کمی نہیں اور نہ ان میں کسی کمی کی اس وقت تک کوئی توقع کرنی چاہیے جب تک کہ اپنے ماحول اور سوسائٹی کو بدل کر ہم اپنے ڈھب پر نہیں لے آتے۔ دریا میں رہتے ہوئے اس کی رو کے خلاف چلنے سے مزاحمت کا پیش آنا ایک فطری چیز ہے۔ جب آپ پوری سوسائٹی کے رجحانات، طور طریقوں اور چلن کے خلاف چلیں گے تو ہرہرقدم پر ٹکر ہوگی اور حقیقت یہ ہے کہ غلط اصولوں پر قائم نظامِ زندگی میں ہمیں اگر مشکلات پیش نہ آئیں تو تعجب کرنا چاہیے نہ کہ ان کے پیش آنے پر۔ البتہ ارکان کو یہ بات ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے کہ مشکلات اور مزاحمتوں کو خواہ مخواہ دعوت کبھی نہ دیں بلکہ اپنی طرف سے حتی الامکان بچ کر چلنے کی کوشش کریں۔
مومن ایک دانا اور حکیم انجینیر کی طرح دین کی سڑک کو رضاے الٰہی کی منزل تک لے جاتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک ماہر فن انجینیر پہاڑوں اور دریائوں اور نالوں سے خواہ مخواہ لڑ کر اپنی قوت اور سرمایہ ضائع کرنے کے بجاے اپنی سڑک کو پہاڑوں کے دامن کے ساتھ ساتھ، وادیوں کے کناروں پر، چھوٹے پایاب نالوں میں gap بنا کر اور دریائوں پر پل باندھ کر آگے گزر جاتا ہے، اور صرف ان پہاڑوں کو توڑنے اور ان ندی نالوں کو پاٹنے پر قوت و سرمایہ صرف کرتا ہے جہاں ایسا کیے بغیر آگے بڑھنے کی کوئی شکل نہ ہو یا اس کی سڑک کے لیے آیندہ نقصان کا موجب ہوسکتے ہوں۔ صراط مستقیم کے معماروں اور انجینیروں کو بھی اسی حکمت و دانائی سے کام کرنا ہے اور اپنے فن کا زور دکھانے کے لیے رکاوٹوں کو پیدا نہیں کرنا اور نہ مشکلات کو دعوت دینا ہے بلکہ جو فی الواقع موجود ہیں ان سے بھی حتی الامکان ٹکرائے بغیر آگے نکل جانا ہے۔ ہاں، جہاں کوئی بالکل ہمارا راستہ روکنے ہی پر تل جائے اور ہمیں اور دوسرے بندگانِ خدا کو حق پر چلنے ہی نہ دینا چاہتا ہو تو تصادم ناگزیر ہے لیکن اس کا فیصلہ جماعت کا کام ہے نہ کہ کسی ایک رکن یا مجموعہ ارکان کا۔
اس سال ہمارے مختلف ارکان کو قوم و برادری کے غیر شرعی اور بے بنیاد طور طریقوں کو ترک کردینے پر بعض جگہ قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں، بعض جگہ شہربدر اور برادری سے اخراج کے ڈراوے دیے گئے اور بعض جگہ رشتے ناطے اور عمربھر کے تعلقات منقطع کرلیے گئے اور بعض کی بیویوں نے ساتھ چھوڑ دیا لیکن الحمدللہ کہ کسی ایک رکن کے بھی پاے ثبات میں ذرا فرق نہ آیا بلکہ یہ سب کچھ ان کے ایمان و عقیدہ کو زیادہ پختہ ہی کردینے کا موجب ہوا۔(روداد جماعت اسلامی بابت ۴۶-۱۹۴۵ئ، میاں طفیل محمد، ترجمان القرآن، ج ۲۸، عدد ۶، جمادی الثانی، ۱۳۶۵ھ، مئی ۱۹۴۶ئ، ص ۶۱۔۶۲)