اگست ۲۰۰۸

فہرست مضامین

ترکی میں سیاسی و عسکری رسا کشی اور مستقبل کا نقشہ

حافظ محمد ادریس | اگست ۲۰۰۸ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

اسکارف کے مسئلے کے بعد، اب ترکی سے خبر یہ ہے کہ ۱۴مارچ کو ترکی کے چیف پراسیکیوٹر نے ۱۶۲ صفحات پر مشتمل ایک فائل دستوری عدالت میں پیش کی اور پُرزور الفاظ میں عدالت سے درخواست کی کہ حکمران عدالت پارٹی سیکولر دشمنی میں تمام حدوں کو پھلانگ گئی ہے، اس پر پابندی لگائی جائے۔ یہ ۱۱ رکنی دستوری عدالت وہ حتمی ادارہ ہے جس کے فیصلوں پر نظرثانی نہیں ہوسکتی۔ اسی عدالت نے ۱۹۹۸ء میں نجم الدین اربکان اور ان کی رفاہ پارٹی کے خلاف فیصلہ دیا تھا جس میں ۹ ججوں نے فیصلے کے حق میں اور ۲ نے فیصلے کے خلاف راے دی تھی۔ کوئی بھی فیصلہ نافذ ہونے کے لیے ۶ ججوں کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ آج یہی نام نہاد عدالت اس نئے مقدمے کی سماعت کر رہی ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ نہ صرف پارٹی پر پابندی لگائی جائے بلکہ وزیراعظم اور صدر سمیت عدالت پارٹی کے ۷۱ نمایاں سیاسی رہنمائوں پر سیاست میں حصہ لینا ممنوع قرار دے دیا جائے۔
ادھر عدالت میں مقدمہ زیرسماعت ہے اور ادھر فوج اس میں کھلم کھلا مداخلت کر رہی ہے۔ چیف آف اسٹاف جنرل یاسر بوکانت نے پریس میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’’ترکی کی سیکولر حیثیت مسلمہ ہے۔ برائی کے مراکز ترک دستور کے تقدس کو پامال کرنے میں مصروف ہیں‘‘۔ عمومی خیال یہ ہے کہ دستوری عدالت منتخب حکومت کے خلاف فیصلہ صادر کردے گی لیکن اب حالات نصف صدی قبل سے کافی مختلف ہیں۔ ترک پارلیمان کے اسپیکر کوکسال توپتان نے انقرہ میں ۵جون کو ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دستوری عدالت کے لامحدود اختیارات محدود کردیے جائیں۔ ہمیں یک ایوانی پارلیمان کی جگہ دو ایوانی مقننہ کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے اور غیرمنتخب اداروں کو ایوان کے تابع رکھنا چاہیے۔
اسپیکر کی اس بات کی حمایت میں بہت سے غیر جانب دار ماہرینِدستور اور دانش ور بھی منظرعام پر آگئے۔ ڈاکٹر مصطفی سنتوب ترکی کے دستوری ماہر ہیں۔ انھوں نے کہا: ’’یہ اعلیٰ عدالت ملک و قوم کے لیے ایک مسئلہ بن گئی ہے۔ قانون ساز ادارے کے بارے میں عدالت کا فیصلہ بالکل بے وقعت ہے۔ دستوری ترامیم جب قواعد و ضوابط کے مطابق پارلیمنٹ میں منظور ہوجائیں تو ان کے اجرا کو کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔ واضح رہے کہ ترکی کے دستور کی دفعہ ۱۴۸ کے مطابق: ’’ریاست کا کوئی ادارہ پارلیمنٹ سے برتر نہیں ہوسکتا‘‘۔
اسکارف پر پابندی ہٹانے کے خلاف سیکولر عناصر نے عدالت سے رجوع کیا تو عدالت نے اس پارلیمانی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یونی ورسٹی کے قانون کے پروفیسر سیراب یزیجی نے کہا:’’یہ فیصلہ قانونی کم اور سیاسی زیادہ ہے۔ عدالت نے اسکارف پر پابندی لگا کر پارلیمنٹ بلکہ خود دستور پر بھی اجارہ داری حاصل کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔
یہ بحث جاری ہی تھی کہ نئے واقعات رونما ہونے شروع ہوگئے۔ یکم جولائی کو دارالحکومت انقرہ میں پولیس نے چھاپے مار کر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ۲۱ شدت پسند قوم پرست گرفتار کرلیے۔ ان میں دو معروف ریٹائرڈ جرنیل بھی شامل ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ خفیہ طریقے سے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کر رہے تھے۔ وزیراعظم طیب اردوگان نے ان لوگوں کو   ارجن کون (Ergene Kon) سے متعلق قرار دیا۔ یہ تنظیم ترکی میں کافی بدنام ہے۔ اس سے پہلے بھی اس کے ارکان بم حملوں اور بڑی شخصیات کو قتل کر کے انقلاب برپا کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار ہوتے رہے ہیں۔ ۱۶ جولائی کو ترکی ذرئع ابلاغ کے مطابق اس تنظیم کے مزید افراد گرفتار ہوئے جس سے گرفتار شدگان کی تعداد ۵۸ تک پہنچ گئی ہے۔ عدالتوں نے ان میں سے بعض کو جن میں ایک ریٹائرڈ میجر جنرل بھی شامل ہے، ضمانت پر رہا کردیا ہے۔ اس انتہاپسند تنظیم کی حمایت انجمن افکار اتاترک (Ataturk Thought Association) بھی کر رہی ہے جس کا صدر ایک ریٹائرڈ جنرل ایروگر (Eroger) ہے۔ وہ بھی گرفتار ہے اور ہنوز زیرحراست ہے۔
ان سطور کے شائع ہونے تک ممکن ہے کہ عدالت کا فیصلہ بھی منظرعام پر آجائے۔ عدالت کو فیصلہ کرنے میں جلدی بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ کے ججوں کا تقرر صدر کے اختیار میں ہوتا ہے۔ دستوری عدالت کے تمام جج سابق صدر احمدنجدت سیزر کے دورِ صدارت میں مقرر کیے گئے تھے۔ ان میں سے بعض کو اگلے سالوں میں ریٹائر ہونا تھا اور عمومی خیال یہ تھا کہ ان کی جگہ عبداللہ گل ایسے ججوں کو مقرر کریں گے جو کم از کم شدت پسند سیکولر نہ ہوں۔
بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اردوگان حکومت نے اسکارف کا مسئلہ عجلت میں اور قبل از وقت چھیڑ کر اپنے لیے مشکلات پیدا کرلی ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن ترکی کی جدید تاریخ بتاتی ہے کہ مخالفین کے شر سے بالواسطہ ہمیشہ خیر برآمد ہوا ہے۔ اب بھی اگر عدالت اور ارتقا پارٹی پر پابندی لگتی ہے تو نیوزویک کے مطابق اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوجائے گا اور اگر عدالت پابندی نہیں لگاتی تو اس سے بھی عملاً حکومت کی جیت ہوگی اور اسے بالادستی مل جائے گی۔ اس ضمن میں ڈان ۵جولائی کا ادارتی شذرہ اور ۷جولائی کو اسی اخبار میں: ’ترکی میں جمہوریت کا معلق مستقبل‘ جوکہ گارجین لندن کے مضمون نگار مائورین فریلے (Maureen Freely) کا مضمون ہے، قابلِ ملاحظہ ہیں۔
نیوزویک کے تازہ شمارے (۲۱ جولائی) میں ترکش ڈیلی نیوز کے ڈپٹی ایڈیٹر اور مشہور تجزیہ نگار مصطفی اکیول نے ’ترکی کے خلاف سازش‘ کے عنوان سے جو تجزیہ کیا ہے اس میں لادین عناصر کی شدید مذمت کے ساتھ یہ راے ظاہر کی ہے کہ حکمران پارٹی اور اس کی قیادت پر پابندی کی صورت میں وقتی طور پر اگلی پارلیمان پھر معلق ہوگی اور نئی حکومتوں کو جرنیل اپنے اشاروں پر نچائیں گے، تاہم طویل المیعاد تناظر میں اردوگان کی پارٹی مزید مضبوط ہوگی۔
ہماری راے میں حکمران پارٹی پر پابندی لگنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اعلیٰ قیادت کو سیاست سے خارج بلکہ پابندِسلاسل بھی کیا جاسکتا ہے۔ ترکی میں اب تک ۲۵ پارٹیوں پر پابندی لگ چکی ہے۔ ان میں زیادہ تر کرد یا کمیونسٹ تھیں۔ اس سے پہلے اسلامی پارٹی پر پانچ مرتبہ پابندیاں لگیں۔ اسلامی پارٹی واحد پارٹی ہے جس پر پابندیوں سے ہمیشہ عوامی تائید میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر پابندی لگتی ہے تو یہ فیصلہ اور اس کے بعد کا منظر سیکولر طبقات کے لیے کچھ زیادہ خوش آیند نہیں ہوگا۔ ہم ترکی کے اسلام دوست حلقوں کو یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ صبرواستقامت اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں  ع ’’شرِّ برانگیزد عدو کہ خیر ما در آں باشد‘‘۔