مادہ پرستی کے اس دور میں ایک مسلمان کے لیے تزکیۂ نفس، ذاتی اصلاح اور شیطان کے شر سے بچنے کی اشد ضرورت ہے۔ ’اصل مسئلہ اخلاقی‘ مولانا مودودیؒ کا مضمون: ’ایک دوسرے کے لیے کدورت‘ اور محمدیوسف اصلاحی کا ’گناہ گار سے نفرت نہیں، اصلاح‘ (جولائی ۲۰۰۸ئ) اس ضرورت کو کماحقہٗ پورا کرتے ہیں۔ ’دوسروں پر تنقید اور اپنے آپ کو بھول جانا‘ ہر ایک کا وطیرہ بنتا جارہا ہے۔ آج کی اسلامی و اصلاحی تحریکوں میں افراد کے مابین اسلام کے اخلاقی اصولوں پر عمل پیرا ہونے اور اخلاقی برائیوں، مثلاً بُغض و حسد، بدخواہی و بدگمانی، غیبت و بہتان وغیرہ سے بچنے کے لیے ایسے مضامین کی اشاعت مفید ہے۔
’پاکستان کے حالات : تبدیلی کس طرح؟‘ (جولائی ۲۰۰۸ئ) میں خرم مرادؒ نے تبدیلی کا حقیقی راستہ دکھایا ہے۔ مسئلہ اس پر چلنے کا ہے۔ پاکستانی معاشرے کے جن روحانی امراض کا ذکر کیا ہے اُن میں آج شدت سے اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ ملک جس میں قانون نافذ کرنے والا خود مجرمانہ ذہنیت رکھتا ہو اور ملک کا دستور مسلسل پائوں تلے روندتا ہو، حکمران طبقہ عدل و انصاف کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہو، امن و سلامتی، مساوات، صبروتحمل، ایثار و ہمدردی، اخلاص و شرافت کم یاب ہوں تو ان حالات میں صرف چہروں کی تبدیلی سے حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے افکارو خیالات پر نظرثانی کریں، اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں، مثبت سوچ اپنائیں۔ اپنے دلوں سے مادیت اور مغرب کی مرعوبیت کو کھرچ ڈالیں اور اپنے دامن کو نورایمان، ذکروعبادت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے مزین کریں۔ تب ہی ہم ایک باعزت قوم بن کر اُبھر سکتے ہیں۔
’او‘ لیول کی اسلامیات میں فرقہ واریت‘ (جولائی ۲۰۰۸ئ) کے حوالے سے آپ کے شذرہ نگار کی حکومت سے اپیل پڑھ کر مجھے ہنسی آگئی۔ ہماری حکومت بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں اپنی رٹ نافذ کرنے سے فارغ ہو، تو پھر ان اداروں پر اپنی رٹ نافذ کرے۔ دراصل اربابِ حکومت اتنی اہم ذمہ داریوں، یعنی کرسیوں کو سنبھالنے میں لگے ہوئے ہیں کہ کہاں کیا پڑھایا جا رہا ہے، اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ویسے بھی ان کی نظروں میں تو لیول امتحانات لینے والے اس قوم کے محسن ہیں۔ پاکستان پر ان اداروں کی رٹ نافذ ہے، جو چاہیں، پڑھائیں۔
بہت عرصے بعد ’مابعد جدیدیت کا چیلنج اور اسلام‘ (جولائی ۲۰۰۸ئ) جیسا مضمون ترجمان میں پڑھنے کو ملا۔آپ نے اسے مکمل شائع نہ کرکے بڑا ظلم کیا۔ اس کی خاطر کوئی بھی دوسرا مضمون روکا جاسکتا تھا۔ اب دوسری قسط کا انتظار ہے!
’پیپلزپارٹی کا دستوری تماشا‘ (جولائی ۲۰۰۸ئ) بھرپور اور متوازن تجزیہ ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی تحسین پر مجبور ہوں۔ البتہ حکومتی بددیانتی (ص۱۳) کے لیے الفاظ کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت تھی۔
’جاپان میں اسلام پر تازہ تحقیقات‘ (جون ۲۰۰۸ئ) پڑھا۔ ایک خوش گوار حیرت ہوئی کہ اس دورافتادہ سرزمین (Land of Rising Sun)میں اسلام کس طرح پہنچا! وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کے بارے میں معلومات بہت کم ہیں۔ اس پر بھی کوئی تحریر دیں۔
’جاپان میں اسلام پر تازہ تحقیقات‘ (جون ۲۰۰۸ئ) پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ بہت معلومات ملیں۔ خیال آیا کہ اگر کوئی مسافر پاکستان کے بارے میں اس موضوع پر لکھے تو کیا لکھے گا؟ ہماری جامعات اور تحقیقی اداروں میں موضوعات کا انتخاب کسی ضرورت یا سوچی سمجھی اسکیم کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ تحقیق کار اور گائیڈ کی سہولت فیصلہ کن ہوتی ہے۔ غیرمسلم ہی نہیں، مسلم ممالک کے بارے میں بھی اسی طرح کے مقالات کی سیریز ہم قارئین کے لیے چشم کشا ہوگی، مثلاً جرمنی میں… یا مصر میں…
یہ اطلاع دیتے ہوئے مسرت ہو رہی ہے کہ الحمدللہ نیپالی ترجمۂ قرآن کے رسم اجرا کا پروگرام نہایت کامیاب رہا۔ یہ ترجمہ تحریک اسلامی نیپال، اسلامی سنگھ نیپال کی پانچ سالہ محنتوں کا ثمرہ ہے۔ مولانا علائوالدین فلاحی، فارغ التحصیل جامع الفلاح اور سابق طالب علم بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کو ترجمے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مختلف علماے کرام کی نظرثانی کے ساتھ ساتھ تین ماہر لسانیات سے بھی اس کی زبان کی تصحیح کروائی گئی ہے۔ یہ عربی متن کی نیپالی زبان میں ترجمانی ہے۔ اس کی تیاری میں قرآن مجید کے مشہور اُردو تراجم: تفہیم القرآن، تدبر القرآن، احسن البیان، معارف القرآن اور انگریزی زبانوں میں موجود تراجم کے ساتھ ساتھ متداول عربی تفاسیر سے بھی مدد لی گئی ہے۔رسمِ اجرا کے موقع پر منعقدہ پروگرام میں سیاسی و سماجی کارکنان، مختلف مسالک کے نمایندے، ہندو، بدھ، عیسائی اور جین مذاہب کے اعلیٰ عہدے داروں سمیت بڑی تعداد میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے شرکت کی۔