اگست ۲۰۰۸

فہرست مضامین

پیپلزپارٹی کی حکومت کے ۱۰۰ دن نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

پروفیسر خورشید احمد | اگست ۲۰۰۸ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت نے اپنے پہلے ۱۰۰ دن کے پروگرام کا اعلان کر کے پاکستانی سیاست میں ایک نئی مثال قائم کی تھی۔ حکومت کے پہلے ۱۰۰ دنوں کو انقلابی تبدیلیوں کا فیصلہ کن زمانہ قرار دینے کی روایت امریکا میں صدر روز ویلٹ نے ۱۹۳۳ء میں قائم کی جب ۴سال کی تباہ کن کساد بازاری کے بعد امریکی عوام نے ان کو سرمایہ دارانہ نظام کو   اس کے بدترین ابتلا سے نکالنے کا مینڈیٹ دیا اور انھوں نے جنوری ۱۹۳۳ء میں صدارت کی   ذمہ داریاں سنبھالتے ہی ۱۰۰ دن میں امریکا کی معیشت اور سیاست کا رخ بدل دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس طرح وہ تاریخی عمل شروع ہوا جسے نیوڈیل  (New Deal) کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس میں روزویلٹ کی قیادت میں معاشی اعتماد جو پارہ پارہ ہوگیا تھا، بحال ہوا۔ بنکوں نے دوبارہ کام شروع کیا۔ حکومت نے مثبت معاشی کردار ادا کیا اور قانون سازی کے ذریعے معاشی زندگی کی ازسرنو نظم بندی کرکے ملک کو تاریکیوں سے نکال کر روشن راہوں پر سرگرمِ عمل کردیا۔ ان  ۱۰۰دنوں میں روزویلٹ نے ۱۵ نئے اہم اور انقلابی قوانین منظور کرائے، کانگریس کو ۱۵ پیغام بھیجے، ۱۰ پُرعزم تقاریر کیں، ہفتہ میں دو بار کابینہ کا اجلاس کیا، ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا اور  ملکی اور عالمی سیاست کے میدانوں میں تاریخ ساز پالیسیوں کا اعلان کر کے ایک نئی روایت قائم کی۔ روزویلٹ کے اس اقدام نے جمہوری سیاست میں ’حکومت کے پہلے ۱۰۰دن‘ کے باب کا اضافہ کیا۔

پاکستان میں اس نسخے کو پہلی بار زرداری گیلانی حکومت نے استعمال کیا اور مارچ ۲۰۰۸ء میں اقتدار سنبھالتے ہی ایک خوش کن پروگرام کا اعلان کیا جس میں آمریت کے خاتمے، عدلیہ کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی، امن و امان کے قیام، معیشت کی اصلاح، کفایت کے فروغ، مزدوروں اور طلبہ کے حقوق کی بحالی، روزگار کی فراہمی، قیمتوں کے استحکام، عوامی احتساب اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی مسائل کے حل کی نوید سنائی گئی۔ حکومت نے خود اپنی کارکردگی کی پرکھ اور سیاست اور معیشت کے نئے رخ کی جانچ کے لیے قوم اور میڈیا کو ایک معیار اور میزان فراہم کی___ ۱۰۰ دن کا اعلان کردہ پروگرام ایک آئینہ ہے جس میں حکومت کی کارکردگی کا اصل چہرہ دیکھا جاسکتا ہے اور غالباً اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ یہ تصویر تاریک، داغ دار اور مایوس کن ہے۔

اس کا اندازہ انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام کیے جانے والے اس عوامی جائزے سے کیا جاسکتا ہے جو چاروں صوبوں کی ۵۰ تحصیلوں کے ۲۲۳ دیہی اور ۱۲۷شہری علاقوں سے متعلق ۳ہزار ۴سو ۸۴ خواتین و حضرات کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔ اس کی رو سے آبادی کے     ۸۶ فی صد افراد کا فیصلہ یہ ہے کہ پاکستان میں جاری پالیسیوں کا رخ غلط ہے۔ حکومت کی کارکردگی کو ۵۱ فی صد نے مایوس کن قرار دیا ہے۔ عوامی راے کا یہ جائزہ اس حیثیت سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ آبادی کا ۸۳ فی صد جنرل (ر) پرویز مشرف کو صدارت سے ہٹانے کے حق میں ہے اور عوامی تائید اور پسندیدگی کے اعتبار سے سب سے مقبول لیڈر نواز شریف ہیں جن کو ۸۲ فی صد لوگ پسند کرتے ہیں۔ ان کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان آتے ہیں جن کو ۷۶فی صد کرسی صدارت پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے بعد مقبول ترین شخصیت چیف جسٹس افتخار چودھری کی ہے جنھیں ۶۵ فی صد کی تائید حاصل ہے۔ زرداری صاحب کو جو اس وقت سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں ۴۵فی صد کی، جب کہ یوسف رضا گیلانی کو ۶۴ فی صد اور امین فہیم کو ۴۹ فی صد (زرداری صاحب سے ۴درجے زیادہ) کی تائید حاصل ہے۔

اس جائزے کی رو سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخصیت پرویز مشرف کی ہے۔ عوامی سوچ کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ۱۰۰ میں سے ۸۹ افراد نے ملک کے سب سے اہم مسئلے کے طور پر معاشی مسائل کو پیش کیا ہے (۷۱ فی صد افراطِ زر اور مہنگائی، ۱۳ فی صد بے روزگاری اور ۵ فی صد غربت) اور ان کے ۷۲ فی صد کا کہنا ہے کہ ان کی معاشی حالت گذشتہ ۴ مہینوں میں خراب ہوئی ہے۔ ۷۱ فی صد کی راے میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کا حل صرف سیاسی ہے اور ۶۵ فی صد نے دہشت گردوں سے امن معاہدے کی تائید کی ہے۔ دہشت گردی کو اہم ترین مسئلہ قرار دینے والوں کی تعداد صرف ۱۲ فی صد ہے، جب کہ خودکش حملوں سے خطرہ محسوس کرنے والے افراد صرف    ۲فی صد ہیں۔ رہا القاعدہ سے خطرہ محسوس کرنے کا سوال، تو ان کی تعداد ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ (ملاحظہ ہو، روزنامہ ڈان، ۱۸ جولائی ۲۰۰۸ء اور بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، ۱۷ جولائی ۲۰۰۸ئ)

یہ جائزہ ہی نہیں، خود وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا ۱۹ جولائی کا بے جان خطاب، جو قوم سے ان کا پہلا بلاواسطہ خطاب بھی تھا، ۱۰۰ دن کی مایوس کن کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

زرداری گیلانی حکومت کا بے لاگ اور معروضی جائزہ اس حقیقت کے اعادہ کے بغیر منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اس حکومت کو مارچ ۲۰۰۸ء میں مشرف دور کی آٹھ سالہ غلط اور تباہ کن معاشی، سیاسی، انتظامی اور خارجہ پالیسی کے نتائج سے سابقہ تھا اور اس کے ساتھ عالمی معاشی اور سیاسی حالات بھی بڑے ناموافق تھے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ سارے حالات ۲۰۰۷ء میں کھل کر سامنے آگئے تھے اور پیپلزپارٹی نے اپنے منشور میں 5-E۱؎ کا جو پروگرام پیش کیا تھا وہ ان حالات کے پیش نظر ہی پیش کیا گیا تھا۔ پھر کسی مطالبے کے بغیر پہل کاری کرتے ہوئے ۱۰۰ دن کا جو پروگرام اس نے پیش کیا، وہ نہ کسی مجبوری کی وجہ سے تھا اور نہ آنکھیں بندکرکے مرتب کیا گیا تھا۔ توقع یہی کی جاتی ہے کہ ۱۰۰ دن کا پروگرام سوچ سمجھ کر پیش کیا گیا تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کا ۵ فی صد بھی ان چار مہینوں میں حاصل نہیں کیا جاسکا۔ یہ حکومت کی موجودہ ٹیم کی نااہلی اور اس پورے دروبست کی ناکامی کا ثبوت ہے جو آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیرکی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کو اپنی گرفت میں لے کر اپنی پسند کی ایک ٹیم کے ذریعے قوم کو دیا تھا۔ یہ ناکامی دراصل زرداری صاحب اور ان کی ٹیم کی ناکامی ہے اور ان پالیسیوں کی ناکامی ہے جو عملاً انھوں نے اختیار کیں اور ۱۰۰ دنوں کے اعلان کردہ پروگرام کو پسِ پشت ڈال کر ملک اور خود اپنی پارٹی پر مسلط کیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود پیپلزپارٹی کے ایک رکن جناب امین فہیم اور محترمہ بے نظیر کی ٹیم کے اہم افراد اس ناکامی کا کھلے بندوں اعتراف کر رہے ہیں اور زرداری صاحب اور ان کی پالیسیوں اور ان کے مقرر کردہ افراد کو ان حالات کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ امین فہیم صاحب کے ارشادات نوٹ کرنے کے لائق ہیں جن کی مزید تفصیل دی نیوزانٹرنیشنل کی ۱۶جولائی ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں دیکھی جاسکتی ہے:

پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے صدر نے دی نیوز کو بتایا: میں تمام ممکنہ نتائج بشمول زرداری کے زیراثر قیادت کی جانب سے شوکاز نوٹس کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہوں۔ انھوں نے کہا: پارٹی کے موجودہ رہنمائوں نے پارٹی کو حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے اور ملک کی صورت حال خراب ہوتی جارہی ہے۔ امین فہیم یہ کہتے ہوئے کہ پارٹی کو چند نئے آنے والوں اور مفادات پرستوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے، آبدیدہ ہوگئے۔

امن و امان کی صورت حال بگڑ رہی ہے، لوگ اپنے بچوں کے ساتھ خودکشیاں کررہے ہیں، سرحدیں غیرمحفوظ ہیں، قیمتیں بے تحاشا بڑھ رہی ہیں اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ امین فہیم نے تفصیل سے بتایا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی زیرقیادت حکومت اس قابلِ افسوس صورت حال کی پوری طرح ذمہ دار ہے۔ حکومت نے ۱۰۰ دن گزرنے کے باوجود ان دائروں میں بہتری کے لیے کچھ    نہ کیا۔ پی پی پی پی کے صدر نے ایک سوال کے جواب میں اس سے اتفاق کیا کہ پارٹی کی مقبولیت کا گراف مسلسل گر رہا ہے اور یہ حالت اگر جاری رہی تو ہر کوئی اندازہ لگاسکتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟

خودکشیاں، قیمتوں میں اضافہ اور امن و امان کی صورت حال حکومت کے قابو سے بالکل باہر ہے۔ سینیر ممبر ہونے کی حیثیت سے میرایہ اولین فرض ہے کہ پارٹی کے معاملات اوراس کے ساتھ ساتھ حکومت کے معاملات میں خامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کی نشان دہی کروں۔ اگر پارٹی کی قیادت اس کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی سمجھتی ہے، تب بھی میں اپنے موقف پر قائم رہوں گا۔

محترم امین فہیم صاحب کا دوسرا بیان تصویر کے کچھ اور رُخ نمایاں کرتا ہے۔ یہ بھی امین فہیم صاحب ہی کے الفاظ میں نوٹ کرنے کے لائق ہے:

پی پی پی کے سینیر نائب صدر مخدوم امین فہیم نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی اب بھی بیک ڈور چینل کے ذریعے صدر پرویزمشرف سے رابطے میں ہے اور قوم پیپلزپارٹی کی زیرقیادت حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ ۱۰۰ دنوں میں کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ صرف افراطِ زر کو بڑھایا گیا ہے۔ امن و امان کی صورت حال خراب ہے اور اغوا براے تاوان اپنے عروج پر ہیں۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۰ جولائی ۲۰۰۸ئ)

صاف نظر آرہا ہے کہ ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ کو زرداری حکومت نے سوچ سمجھ کر نظرانداز کیا ہے اور عوام نے جس تبدیلی (change) کے لیے قربانیاں دی تھیں اور سیاسی جماعتوں اور نمایندوں کو مینڈیٹ دیا تھا، اس کو پسِ پشت ڈال کر مشرف کے دور کی پالیسیوں کے تسلسل کا راستہ اختیار کیا گیا۔ یہ ہے وہ اصل وجہ جس کے نتیجے میں آج تک نہ ملک کا رخ درست ہوسکا ہے، نہ جمہوریت کی طرف پیش قدمی ہوئی ہے، نہ عدلیہ بحال ہوئی ہے، نہ امن و امان میں بہتری کی کیفیت رونما ہوئی ہے، نہ معیشت میں کوئی مثبت پیش رفت ہوئی ہے، نہ عوام کی زندگی میں بہتری کی کوئی صورت پیدا ہوئی ہے، نہ امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آگ سے پاکستانی عوام اور پاکستانی فوج اپنا دامن بچا سکے ہیں، نہ اپنی آزادی اور عزت کو درپیش خطرات سے بچائو کی سرِمو بھی کوئی راہ اختیار کرسکے ہیں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ پوری دیانت داری، لیکن جرأت اور بے باکی سے، اس امر کا تعین کیا جائے کہ کہاں غلطی ہوئی ہے،   عوام کے اعتماد کو کس نے اور کس طرح ضرب لگائی ہے اور چند مہینے میں نئی قیادت نے کس تیزی سے قوم کو مایوس کیا ہے اور مسائل کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس نشان دہی کی بھی ضرورت ہے کہ اب بھی اس دلدل سے کیسے نکلا جاسکتا ہے اور قوم کو کسی نئے طالع آزما یا پرانے شاطروں کے گھنائونے کھیل سے کس طرح بچایا جاسکتاہے۔


۲۵ مارچ ۲۰۰۸ء کو قومی اسمبلی نے قائد ایوان کا متفقہ انتخاب کر کے جمہوریت، دستور اور قانون کی حکمرانی کے احیا کی طرف صحیح قدم اٹھایا تھا۔ فروری کے انتخابات کا یہ پیغام بھی سب کے سامنے تھا کہ اب قوم کو فوری طور پر آمریت اور اس کے دست و بازو سے نجات حاصل کرنا ہے اور جمہوریت کا سفر باہمی مشاورت، تعاون اور قومی یک جہتی پیدا کرکے جاری رکھنا ہے۔ قوم نے کسی ایک پارٹی کو مکمل اکثریت نہیں دی تھی جس کا تقاضا تھا کہ کم از کم دونوں بڑی پارٹیاں یعنی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) مل جل کر سارے معاملات کو طے کریں اور باقی ان تمام جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیں جو مشرف کے آمرانہ دور میں اس کی شریک کار نہ تھیں۔ ۱۸فروری کے انتخابی نتائج سے رونما ہونے والی سیاسی صورت حال کی تشکیل میں جہاں ان جماعتوں اور سیاسی کارکنوں کا کردار تھا جن کو عوام نے اپنے اعتماد کا ووٹ دیا، وہیں ان قوتوں کا بھی بڑا اہم کردار تھا جنھوں نے انتخاب کا بائیکاٹ کیا اور سیاسی فضا کو بنیادی تبدیلی کے لیے تیار کیا۔ ان میں اے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے ساتھ وکلا برادری کی جان دار تحریک، برطرف ججوں کی جرأت اور استقامت، طلبہ اور سول سوسائٹی کی انقلابی جدوجہد ہر ایک کا حصہ تھا۔ ضرورت تھی کہ پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر تمام اہم سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر آگے کے مراحل کو طے کیا جاتا۔ لیکن زرداری صاحب نے بظاہر تو دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی حکمت عملی اختیارکی مگر فی الحقیقت یہ حکمت عملی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قومی مفاہمتی آرڈی ننس (NRO)  کی چھتری تلے پناہ لینے والوں کے نیوکلیس کو مضبوط و مستحکم کرنے اور باقی سب کو اس نیوکلیس کے لیے سہارا اور مددگار بنانے پر مبنی تھی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت بنانے کا ڈھونگ رچایا گیا مگر ساتھ ہی اے این پی اور جمعیت علماے اسلام (ف) ہی کو نہیں بلکہ ایم کیو ایم کو بھی ساتھ ملانے اور ان کوتوازن اقتدار (balancing power) کی پوزیشن میں لانے کا کھیل کھیلا گیا۔ پہلے دن ہی ججوں کی حراست کو ختم کیا گیا مگر اس کے دوسرے اور اہم تر منطقی اقدام یعنی ججوں کی بحالی کو جان بوجھ کر بلکہ بار بار دھوکا دے کر مؤخر اور معلق کیا گیا اور جو کام پہلے ہفتے میں ہوجانا چاہیے تھا اور جس کے نتیجے میں نظامِ عدل بحال ہوجاتا آج تک نہیں کیا گیا اور اس پر طرّہ یہ کہ ایک دستوری پیکج کے نام پر نہ صرف ججوں کی بحالی کو لاینحل الجھائو کا شکار کردیا گیا بلکہ عدالت کی آزادی اور اختیارات پر بھی شب خون مارا گیا تاکہ ہمیشہ کے لیے دستوری نظام کایہ ستون ریت کی دیوار بن جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ آمریت کے وار سے برطرف ججوں کی بحالی اور جنرل پرویز مشرف کی صدارت سے نجات پرچہ امتحان (test case)  کی حیثیت رکھتے تھے لیکن اب یہ بات الم نشرح ہوچکی ہے کہ زرداری صاحب کا پہلے دن سے ان دونوں امور کے بارے میں مقصد اس سے بالکل مختلف تھا جس کا وہ بظاہر اعلان کر رہے تھے اور دوسری سیاسی جماعتوں کو یقین دلا رہے تھے۔ جیساکہ اب ملک اور ملک سے باہر کے بالغ نظر اور آزاد تجزیہ نگار کھل کر لکھ رہے ہیں، زرداری صاحب کی  پرویز مشرف سے این آر او کی بنیاد پر مضبوط باہمی اتفاق ہے۔ این آر او کے تحت احتساب اور قانون کی گرفت سے نکلنے والے ایک ایک شخص کو انھوں نے اپنی ٹیم کا حصہ بنایا ہے اور ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کو وہ این آر او اور اس کی چھتری میں پناہ لینے والے تمام افراد  کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ۳۰دن کا بھوربن کے اعلان کو بعد میں ایک سیاسی بیان کہہ کر غیراہم  قرار دیا لیکن اس طرح انھوں نے خود اپنی زبان سے اپنی زبان کے غیرمعتبر ہونے کا اعلان کردیا۔ پھر ۱۲مئی کا وعدہ کیا گیالیکن وہ بھی وفا نہ ہوا اور مسلم لیگ (ن) وزارتوں سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئی۔ ۲۵مارچ سے وزیراعظم گیلانی اور جناب زرداری جس ’خوش خبری‘ کا اعلان کر رہے ہیں   وہ خوش فہمی ہی نہیں، دھوکا دہی کی حدوں سے بھی آگے جاچکی ہے، اور جیساکہ جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے نے مجبور ہوکر کہہ ہی دیا ہے وہ حقیقت اب سب کے سامنے ہے۔ جسٹس رمدے کا جیو ٹی وی پر انٹرویو شائع ہوا ہے جس کا یہ حصہ اصل حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے:

معزول جج خلیل الرحمن رمدے کو پرویز مشرف کے مقابلے میں جمہوری منتخب حکومت عدلیہ کی زیادہ مخالف نظر آتی ہے۔ رمدے نے کہا کہ آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف مارشل لا لگانے اور کوئی ۶۰ججوں کو برطرف کرنے کے لیے صرف اس لیے مجبور ہوا کہ اپنی صدارت کو جاری رکھ سکے لیکن آج کی جمہوری طور پر منتخب حکومت اس سے آگے جاچکی ہے۔ یہ عدلیہ کے دستوری اختیارات کو کم کردینا چاہتی ہے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۱ جولائی ۲۰۰۸ئ)

مشہور ماہر قانون ڈاکٹر فاروق حسن اپنے مضامین میں این آر او کے اس طلسماتی کردار  کا مضبوط دلائل کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں۔ ۲۹جون ۲۰۰۸ء کے دی نیشن میں وہ   NRO: Musharruf's Proxy Warکے عنوان سے لکھتے ہوئے بجاطور پر کہتے ہیں کہ مشرف کرسیِ صدارت پر براجمان ہے تو اس کی وجہ این آر او ہے جو مشرف نے اس لیے جاری کیا کہ پیپلزپارٹی کی سیاسی طاقت کو قابو کرسکے۔

ڈاکٹر فاروق حسن کا تجزیہ بالکل واضح ہے:

یہ صرف این آر او کی وجہ سے ہے کہ تمام سیاسی محاذوں پر بھاری ناکامی کا سامنا کرنے کے باوجود مشرف اس طرح برسرِاقتدار رہنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ حقائق پوری طرح ثابت کرتے ہیں کہ یہ اس لیے ممکن ہوا ہے کہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے وفاقی حکومت کے بہت سے طاقت ور افراد مشرف کی سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس لیے پاکستانی عوام یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں:

۱- اس آرڈی ننس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے کون ہیں؟

۲- ان میں سے کتنے موجودہ حکومت میں ہیں؟

۳- ان رقومات کی مقدار کتنی ہے جو وہ اجتماعی اور انفرادی طور پر حکومت کی گرفت سے بچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟

ڈاکٹر فاروق حسن کی سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ ججوں کی بحالی میں اصل رکاوٹ این آر او ہے جس کی حفاظت کے لیے زرداری صاحب ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مضمون میں جس کا عنوان ہی NRO Prevents Judges Restoration (این آر او نے ججوں کی بحالی روک دی) ہے۔ لکھتے ہیں:

میں حیرت زدہ ہوں اور بے حد افسردہ بھی، کہ پاکستان کے سیاسی اور سماجی ماحول میں شر کی قوتیں بظاہر مضبوطی سے قائم ہیں۔ اس واضح نوشتۂ دیوار کے باوجود کہ ججوں کی بحالی کے مسئلے کو حل کیے بغیر پیپلزپارٹی اور زرداری کے لیے شرمناک ناکامی مقدر ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ مشرف نے زرداری اور بی بی کے بارے میں اتنا کچھ کہنے کے بعد اچانک ان کو آنے کی اجازت دے دی، اس کے باوجود کہ امریکی اور برطانوی خارجہ عہدے داران نے اس ڈیل میں مداخلت کی، مشرف کے لیے ’اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے‘ والا معاملہ تھا جو اس وقت ہو رہا ہے۔ بدعنوانی کے کروڑوں ڈالر انھی کے پاس رہنے دیے گئے اور طویل المیعاد قیدوبند کے فیصلوں کے اندیشے ختم کردیے گئے۔ اسی طرح اس نے ان کو لفظ کے لغوی معنوں کے مطابق معلق کردیا ہے۔ ایسے رہنمائوں کی بقا کا بنیادی پاسپورٹ بدنامِ زمانہ این آر او ہے۔ صدر نے یہ کیا کہ اس این آر او کو دستور کے شیڈول میں انھی غیرقانونی ’قوانین‘ کے ساتھ رکھ دیا جو ۳نومبر کے غصب کے ساتھ نافذ کیے گئے تھے۔ اگر جج اسمبلی ریزولیوشن کے ذریعے  اس بنیاد پر واپس آتے ہیں کہ مشرف نے ایک غیرقانونی کام کیا تھا تو این آر او کا تحفظ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی کی قیادت کا پریشان ہونا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ محض ججوں کی خاطر ملک کے اعلیٰ ترین مناصب سے اپنے اخراج کی منظوری کیسے دیں، جو اگر بحال ہوگئے تو این آر او کو ختم کردیں گے۔ روز کا مشاہدہ ہے کہ ہر روز سنگین کرپشن مقدمات سے بری ہونے کی درخواستیں انھی قائدین کی جانب سے آرہی ہیں جو اکتوبر تک امریکا یا برطانیہ میں عیش و آرام سے رہ رہے تھے۔ اگر این آر او ناکام ہوتا ہے تو ممکنہ طور پر انھیں سختی کا سامنا کرنا پڑے گا اور پیسہ واپس کرنا ہوگا۔ (دی نیشن، ۲۸ مئی ۲۰۰۸ئ)

ایک اور ماہر قانون دان بیرسٹر سیداقبال احمد ڈان میں NRO and Politics of Plunder کے عنوان سے ۱۹جولائی ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں لکھتے ہیں کہ این آر او انصاف اور راست معاملہ کاری کی ضد ہے۔ (The NRO, as it stands, is a traversty of justice and fair play.)

بیرسٹر اقبال احمد جس نتیجے پر پہنچے ہیں، وہ بہت واضح اور محکم ہے:

بغیر کہے سب کو معلوم ہے کہ ریاست کے اعلیٰ عہدے دار اور سٹیک ہولڈرز پاکستان میں ایک آزاد عدلیہ نہیں چاہتے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف بلاشبہہ نہیں چاہیں گے کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری اور معطل کیے ہوئے ان کے ساتھی جج ایک دفعہ پھر واپس آئیں اور ایک بار پھر ان کی قسمت کا فیصلہ کریں۔

کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ قیادت کے ہاتھ پائوں جنھوں نے این آر او کے ثمرات سمیٹے ہیں جنرل (ر) مشرف نے مضبوط دھاگوں سے باندھ دیے ہیں اور وہ انگلیاں تک نہیں اُٹھا سکتے، گو کہ ان کے منہ عوام کے سامنے لفّاظی کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کے ایک لیڈر نے بہت صحیح کہا کہ مشرف اور زرداری ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں اور درحقیقت ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہیں۔

صدرمشرف کے خطرات اور اندیشے جن کی صدارت خطرے میں ہے، پیپلزپارٹی کے حکمران جن کے اربوں ڈالر جاسکتے ہیں، اور پی سی او عدلیہ کے سربراہ جسٹس اے ایچ ڈوگر جن کے اختیارات اور مقام غیریقینی ہیں، سب ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اپنے ذاتی مفادات کے تحت یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ      افتخار چودھری اور ان کے ساتھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ۳نومبر کی پوزیشن پر بحال ہوجائیں۔ وہ سب کسی نہ کسی طرح خطرے کی بالکل زد میں ہیں۔ اس صورت حال میں پرویز مشرف اپنی صدارت اور پی پی پی کے لیڈر اپنے اربوں روپے چھوڑنے کو پسند نہیں کریں گے اور ایم کیو ایم کے کارکن انصاف کی خاطر عدالتوں کا سامنا کرنا پسند نہیں کریں گے۔

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ یہ ۱۰۰ دن سب پردے اٹھانے اور طلسم ہوا کرنے کا باعث ہوئے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ مشرف اور زرداری ایک ہی کھیل کھیل رہے ہیں۔

فصیح ذکا جو رہوڈز اسکالر ہیں، دی نیوز میں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

۱۰۰ دن پورے ہوچکے ہیں، وعدے وفا نہیں ہوئے بلکہ یہ احساس پرورش پارہا ہے کہ ملک کو جو بحران درپیش ہے وہ ایک ایسا نظام تشکیل دے رہا ہے جہاں ہیئت مقتدرہ کا اسٹیٹس کو جیت رہا ہے۔ یہ مشرف کو جری کردیتا ہے اور زرداری کے پہیوں کو گریس لگاکر مزید تیز کردیتا ہے اور دونوں میں ایک غیرمقدس اور ناپاک اتحاد قائم ہوتا ہے جو نظر آتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تکمیل پذیر ہوگا۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۱۶ جولائی ۲۰۰۸ئ)

دی نیوز کے کالم نگار ایم بی نقوی ۱۰۰ دنوں کا حاصل یوں بیان کرتے ہیں:

اپنے پہلے ۱۰۰ دنوں میں گیلانی حکومت نے شکاری کتوں کے ساتھ شکار کھیلنے اور خرگوش کے ساتھ بھاگنے کی سی کوشش کی ہے۔ اقتصادی اور سیاسی بحران جنھوں نے ملک کو گھیر رکھا ہے اس پر اس کی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ کسی بھی بحران کا سامنا ہو، ایک حکومت کو متنازع ایشوز کا سامنا ہے۔ کیا چیز حکومت کو ایک سخت موقف اختیار کرنے سے روک رہی ہے؟ پیپلزپارٹی کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ مشرف بیش تر مسائل کی جڑ ہے۔ جب تک وہ باقی رہتا ہے ملک کی سیاسی زندگی بحران کا شکار رہے گی۔

اس دوران پیپلزپارٹی کو اسلامی انتہاپسندوں کی دھمکیوں کے بارے میں امریکی امداد اور مشورے کے بغیر ایک آزاد موقف خود اپنے طور پر اختیار کرنے کے لیے امریکیوں کو ’نہیں‘ کہنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ ایک آزاد خارجہ پالیسی ایسے مضبوط عزم کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان اپنے موجودہ بحرانوں بالخصوص معاشی بحران سے نکل آئے اور عوام میں تحرک ہو۔

امریکا اب بھی اصرار کرر ہا ہے کہ مشرف کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی رہنمائی کرنے کے لیے سپریم (بالادست) کے طور پر رکھا جائے۔ اسے ملک میں کچھ سیاسی حمایت حاصل ہے۔ وہ کچھ ایسے لوگوں کو جمع کرسکتا ہے جو پیپلزپارٹی کے ساتھ ایک نئی حکومت کو سہارا دے سکتے ہیں۔

پی پی پی نے اپنی بیمہ پالیسی کے طور پر امریکیوں سے اپنے تعلقات برقرار رکھنے کی خاطر مشرف کو اس کی جگہ پر رکھنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔(دی نیوز انٹرنیشنل، ۹جولائی ۲۰۰۸ئ)

ہم نے صرف چند اہم تجزیہ نگاروں کی آرا یہاں پیش کی ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اب آزاد اہلِ قلم کی بڑی تعداد یہ کہنے پر مجبور ہے کہ زرداری گیلانی حکومت کی پہلے ۱۰۰دن نہایت  مایوس کن ہیں۔ اصل وجوہات کا تجزیہ کیا جائے تو تصویر کے خدوخال کچھ اس طرح کے دکھائی دیتے ہیں:

۱-            بظاہر مرکز اور صوبوں میں مخلوط حکومتیں ہیں لیکن فی الحقیقت مرکز میں اصل حکومت صرف پیپلزپارٹی کی ہے اور اس میں بھی آصف علی زرداری اور ان کے من پسند افراد ہیں جن میں ایک خاص تعداد ان لوگوں کی ہے جو این آر او کے سہارے اقتدار کے دروازوں پر ایک بار پھر پہنچ گئے ہیں۔ ان میں سیاسی شخصیات کے علاوہ وہ سرکاری ملازم بھی ہیں جو قانون کو مطلوب تھے،    راہِ فرار اختیار کیے ہوئے تھے اور اب اس چھتری تلے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ججوں کی بحالی کے مسئلے پر عہدشکنی کے سبب وزارتوں سے الگ ہوچکی ہے۔ اے این پی اور جمعیت علماے اسلام (ف) بار بار گلہ کر رہے ہیں کہ ان سے کوئی مشورہ نہیں ہوتا اور جناب آصف زرداری اور ان کے معتمد افراد ہر فیصلہ خود کر رہے ہیں بلکہ مشیرداخلہ رحمن ملک صاحب تو وزیراعظم کا پروٹوکول ہی نہیں رکھتے، وزیراعظم کے علم کے بغیر ہی پالیسیاں تبدیل کرڈالتے ہیں جس کی نمایاں ترین مثال ضمنی انتخابات کا التوا ہے۔ ایسے اقدام استثنائی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ان کا طریق واردات قراردیے جاتے ہیں۔ مخلوط حکومت ایک تہمت ہے، اصل حکومت پی پی پی اور زرداری صاحب کی ہے اور باقی سب اپنے اپنے مصالح کی خاطر بطور ضمیمہ شامل ہیں۔ اصل یگانگت اور ہم آہنگی پی پی پی کے زرداری دھڑے، مشرف اور ایم کیو ایم میں ہے اوررحمن ملک صاحب  اس تثلیث کے محافظ اور سہولت کار(facilitator) کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

۲-            ان ۱۰۰ دنوں میں حکومت کا اپنا کوئی آزاداور منفرد رُخ سامنے نہیں آیا۔ جیساکہ   ہم نے عرض کیا سارے زبانی جمع خرچ کے باوجود اصل حقیقت ماضی کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ خارجہ پالیسی، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا کردار، معاشی پالیسیاں، دستور اور قانون کے تقاضوں سے بے اعتنائی، سیاسی مسائل کے حل کے لیے قوت کا بے دریغ استعمال اور اس کے لیے باقاعدہ فوج کو اختیارات کی تفویض، جب کہ مذاکرات کے حق میں زبانی جمع خرچ (lip service) اس حکومت کا وطیرہ رہا ہے۔ ملک پر امریکا کی گرفت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگئی ہے اور جو یلغار امریکی سول اور فوجی حکام کی اس زمانے میں ہوئی ہے اور اس کے ساتھ جس رعونت اور بے دردی سے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزیاں اور پاکستان کی زمین پر پاکستانیوں کی ہلاکت کا سامان امریکا نے کیا ہے، اس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اس پر مستزاد امریکا کے سلسلے میں سخت معذرت خواہانہ رویہ ہے جس کی بدترین مثال وزیرخارجہ کی کونڈولیزارائس سے ملاقات ہے جس میں امریکی وزیرخارجہ نے ہمارے وزیرخارجہ کو اچھی خاصی جھاڑ پلائی، سرحدی خلاف ورزیوں اور اپنی مرضی سے فوج کاری کی دھمکیاں دیں اور ہمارے وزیرخارجہ نے پریس کو بیان دیتے ہوئے امریکا کی ایسی فوجی دخل اندازیوں کو غیردوستانہ اقدامات (un friendly acts) تک کہنے سے گریز فرمایا۔۲؎ گویا   ع

حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے!

امریکی صدر، صدارتی امیدوار، سینیٹ اور ایوانِ نمایندگان کے ارکان کے ارشادات اور امریکی انتظامیہ اور فوجی قیادتوں کے بیانات اور انتباہات پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جو بھی دہشت گردی برپا ہے سب کا منبع اور مرجع پاکستان ہے۔ اس فضاسازی کا مقصد مشرف کو پاکستان پر مسلط رکھنا، اور سول عناصر پر مبنی حکومت کی ایسی گوشمالی کرنا ہے کہ وہ امریکی دبائو کے آگے چوں بھی نہ کرے۔ امریکی نوازشیں دو طرح کی ہیں: ان ۴ مہینوں میں ۲۰ سے زیادہ بار ہماری سرحدوں کی خلاف ورزیاں کی گئیں، پاکستانی فوجی چوکی تک کو نشانہ بنایا گیا، اور سیکڑوں عام شہریوں اور ۱۳ فوجی افسروں اور جوانوں کو بے دردی سے ہلاک کیا گیا ہے۔ اس خون آشامی کے ساتھ سیاسی دبائو اور بازو مروڑنا (arm twisting)  بھی روزافزوں ہے، تاکہ سول حکومت کوئی آزاد راستہ اختیارنہ کرسکے۔ اس کے ساتھ فوجی اور معاشی امداد کی رشوت کا ذکر بھی ہوتا ہے اور  اس طرح لاٹھی (stick)اور گاجر  (carrot) دونوں کا بے دردی سے استعمال جاری ہے___اور ہماری حکومت ہے کہ ہر ضرب اور ہر ہلاکت کے بعد ایک ہی رٹا ہوا جملہ دہراتی رہتی ہے کہ ’’ملک کی حاکمیت اور آزادی کے خلاف کسی دست درازی کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ گویا امریکا    یہ سب کچھ آپ سے اجازت لے کر رہا ہے یا کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ صرف ایک زبان سمجھتا ہے اور وہ وہی زبان ہے جس کا استعمال طالبان اور افغان غیرت مندوں نے وہاں کے صوبے پکتیا میں وانات (Wanat) کے مقام پر کیا۔ امریکا اس چوکی کو چند دن بھی اپنے قبضے میں نہ رکھ سکا     اور جب ۹ امریکی فوجی ہلاک اور ۱۵ زخمی ہوئے تو تین دن کے اندر امریکی افواج اس چوکی کو   خالی کرگئیں اور اس پر طالبان نے دوبارہ قبضہ کرلیا جسے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے    The withdrawal handed a propaganda victory to the Taliban (واپسی نے طالبان کو ایسی فتح دی جس کا خوب پروپیگنڈہ ہو) قرار دیا۔ (۱۶ جولائی ۲۰۰۸ئ)

گذشتہ ۳ مہینے میں امریکا نے پاکستان کا کس طرح سفارتی گھیرائو کیا ہے اس کا اندازہ  اس سے کیجیے۔

۱۸ فروری کے انتخابات کے بعد اعلیٰ امریکی سفارت کاروں اورفوجی کمانڈروں نے اسلام آباد کے دوروں اور نیچے کی سیاسی سطح تک ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا جس کا مقصداین آر او  کے  پس منظرمیں نئی سیاسی قیادت کا جو نقشہ بنایا گیا تھا اسے عملی شکل دینا تھا۔ ان ۴ مہینوں میں اعلیٰ اختیاراتی ۱۴ مشن پاکستان آئے ہیں اور امریکی سفیرہ صاحبہ کی سفارتی یلغار اس پر مستزاد ہے۔ اس سفارتی یلغار کے تین مقاصد تھے: پہلا یہ کہ امریکا کے مفیدمطلب حکومت تشکیل پائے اور صدرمشرف اور ایم کیو ایم اس کا مرکزی حصہ ہوں۔ دوسرے، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان جو خدمات پرویز مشرف کے بلاشرکت غیرے دور میں انجام دے رہا تھا، ان کو جاری رکھا جائے اور مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کی حکمت عملی کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔

۳- تیسرا مقصد انتہاپسندی کے خلاف جنگ کے نام پر ملک کی اسلامی قوتوں کو غیر مؤثر بنانا، مدرسوں کے نظام کو قابو میں کرنا، ملک میں سیکولر تعلیم کا فروغ اور سیکولر قوتوں کو تقویت دینا ہے۔ بھارت سے پاکستان کو قریب کرکے، کشمیر کے مسئلے کو دائمی تعویق میں ڈالنے اور تجارت اور ثقافت کے رشتوں کو استوار کرکے پاکستان کی منڈیوں کو بھارتی مصنوعات کے لیے کھولنے اور پاکستانی معاشرے کو بھارتی ثقافت کی آماج گاہ بنانے کی خدمت ہوشیاری سے انجام دی جائے۔ عدلیہ کی بحالی، گمشدہ افراد کی بازیابی اور حقیقی معاشی خودانحصاری کے ایجنڈے کو پس پشت رکھا جائے اور امریکی ایجنڈے کے حصول کے لیے ’ڈنڈے اور گاجر‘ (stick and carrot)کا ہر حربہ استعمال کیا جائے۔ امریکا نے سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ ہرقسم کے دبائو اور دھمکیوں کا راستہ بھی اختیار کیا ہے اور زرداری گیلانی حکومت امریکی دبائو کے جواب میں صرف پسپائی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ قیادت امریکا کی فوجی کارروائیوں کا خاطرخواہ جواب دینے کی جرأت سے یکسر  محروم ہے اور اطلاع ہے کہ زرداری صاحب نے نوازشریف سے کہا ہے کہ دونوں مل کر صدربش کی خدمت میں حاضری دیں اور ملک کے مسائل کے حل کے لیے ان کی آشیرباد حاصل کریں۔    ذہنی غلامی اور سیاسی محکومی کی اس سے زیادہ پست سطح اور کیا ہوسکتی ہے؟


آگے بڑھنے سے پہلے ایک نگاہ ذرا ان میں سے چند بیانات پر بھی ڈال لیں جن کی مارچ میں گیلانی صاحب کے وزیراعظم بننے کے بعد مسلسل بم باری پاکستان پر کی جارہی ہے۔

ان پر زور دیتے ہوئے کہ دہشت گردی کے خلاف اپنی کوششوں کو عراق سے ایران اور پاکستان منتقل کردیں۔

ان کا مزید ارشاد ہوتا ہے کہ:

وائٹ ہائوس نے امریکی وسائل کا بہت زیادہ حصہ عراق پر صرف کیا ہے جب کہ افغانستان اور پاکستان کے دہشت گردی کے مراکز (terror homes) کو نظرانداز کیا ہے۔

۱۲ اپریل کو صدربش اے بی سی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے اس خط کی بازگشت اور پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لیے نئی امریکی حکمت عملی کو یوں بیان فرماتے ہیں:

پاکستان، نہ کہ افغانستان یا عراق، اب وہ جگہ ہے جہاں ایسا منصوبہ بنایا جاسکتا ہے کہ امریکا میں نائن الیون جیسے حملے کیے جائیں۔

۲۲ مئی کو امریکی جرنیل ڈیوڈ پیٹرا نی یوس امریکی جاسوسی اداروں کی رپورٹوں کی بنیاد پر اسی خطرے کی اس طرح جگالی فرماتے ہیں:

میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کے اس اندازے کی تائید کرتا ہوں کہ امریکی سرزمین پر  نائن الیون قسم کا دوسرا حملہ پاکستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں سے کیا جائے گا۔

جون کے مہینے میں افغانستان میں امریکی اور ناٹو فوجوں کی ہلاکت ریکارڈ حد تک ہوئی اور پہلی بار امریکی فوجی عراق سے زیادہ افغانستان میں ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اس کے بعد امریکی بحری بیڑے USS Abraham Lincoln کو بحیرۂ عرب میں منتقل کردیا گیا۔ امریکی فوجی کمانڈر خصوصیت سے جناب چیف ایڈمرل مائیکل میولین نے پاکستان کو متنبہ کیا کہ:

پاکستان سرحد پار کرکے افغانستان آنے والے جنگجوؤں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کر رہا (not doing enough)۔

اس کے ساتھ فاٹا کے علاقے میں بیرونی دہشت گردوں کے جمع ہونے، تربیت پانے اور وہاں سے کارروائیاں کیے جانے کے خطرات سے امریکی اور عالمی میڈیا اور سیاسی محاذوں پر ایک پروپیگنڈا جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ ان سب کا اصل ہدف یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت کو خائف کرکے اور دیوارسے لگاکر اُوپر بیان کردہ امریکی مقاصد کے حصول کے لیے فضا سازگار کی جائے۔

این آر او کے تحت پناہ لینے والے حکمران اپنی کھال بچانے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان کی آزادی، حاکمیت، عزت اور اختیار کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں۔ یہ اسی دبائو کا نتیجہ ہے کہ فاٹا، سوات اور اب پھر بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کردیے گئے ہیں اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے سیاسی حل کے جو امکانات پیدا ہوئے تھے، وہ خاک میں ملتے نظر آرہے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف اپنی سات سالہ جنگ بقول نوبل لاریٹ پروفیسر جوزف سٹگلیٹ تین ٹریلین ڈالر سے بھی کہیں زیادہ کا نقصان امریکا خود اٹھانے اور دنیا کو اٹھانے پر مجبور کرنے کے باوجود شکست کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس شکست میں پاکستان کو فوج کشی کی دھمکیوں اور معاشی امداد کی زنجیروں دونوں کی مار کے ذریعے گھسیٹا جارہا ہے اور زرداری گیلانی حکومت ہے کہ صوبائی حکومتوں کے احتجاجات کے باوجود امریکا کے آگے سپر ڈالے جارہی ہے اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف اپنی فوج کو استعمال کر کے فوج اور قوم کے تعلقات کو ہمیشہ کے لیے خراب کر رہی ہے۔

۴- چوتھا پہلو جس کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے وہ معاشی حالات کا بگاڑ ہے جس کی گرفت روز بروز مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ یہ بگاڑ اجتماعی فساد کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس پہلو سے سب سے زیادہ تکلیف دہ مسئلہ کھانے پینے کی عام اشیا کی قلت اور گرانی کا ہے جس نے ہرگھر کو متاثر کیا ہے۔ تیل، گیس، بجلی، آٹا، سبزیاں، دالیں اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ ان چار مہینوں میں حکومت کوئی ایسی پالیسی نافذ نہیں کرسکی جو لوگوں کی مشکلات اور مصائب میں کمی لاسکے۔ اس وقت پاکستان میں آبادی کا ایک تہائی شدید غربت کا شکار ہے اور عمومی غربت (آمدنی ۲ڈالر یومیہ) تین چوتھائی (۷۵ فی صد) آبادی کا مقدر بن گئی ہے۔ آبادی کے تازہ ترین سروے کے مطابق ۲۵ فی صد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے یعنی جسم و جان کے رشتے کو باقی رکھنے کے لیے جتنی خوراک درکار ہے وہ اس کو میسر نہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ چاروں صوبوں میں بچے اپنی عمر کی مناسبت سے جو ان کا وزن ہونا چاہیے اس سے کم وزن رکھتے ہیں۔ اس وقت ایسے بچوں کی تعداد ۲۸ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ قیمتوں کا حال یہ ہے کہ ان چار مہینوں میں پٹرول کی قیمت میں ۴۰ فی صد اضافہ ہوا ہے یعنی ۳۰ئ۵۳ روپے فی لٹر سے بڑھ کر ۶۹ئ۷۵ روپے فی لٹرہوگئی ہے اور ۱۰ سے ۱۸ فی صد کے تازہ ترین اضافہ (۲۱ جولائی ۲۰۰۸ئ) نے تو سب کی کمر بالکل ہی توڑ دی ہے۔ اب مٹی کا تیل ۹۳ئ۵۷ روپے فی لٹر ہوگیا ہے اور ابھی بھی تیل کمپنیوں کے مطالبات میں کمی نہیں آئی ہے۔ تیل اور گیس کی اتھارٹی ’اوگرا‘ ھل من مزید پکار رہی ہے۔ ملک میں افراطِ زر کی شرح میں محیرالعقول اضافہ ہو رہا ہے اور شماریات کے فیڈرل بیورو نے جو اعداد و شمار وسط جولائی میں جاری کیے ہیں ان کی رو سے ملک میں اس وقت افراطِ زر کی شرح گذشتہ ۳۰سال میں سب سے زیادہ ہے یعنی گذشتہ سال کے مقابلے میں ۲۱ فی صد۔ اشیاے خوردنی کا اضافہ ۳۰ فی صد تک چلا گیا ہے۔

معاشی میدان میں افراطِ زر کے علاوہ دوسرے پہلوئوں سے زرداری گیلانی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ مندرجہ ذیل حقائق سے کیا جاسکتا ہے:

lکپڑے کی صنعت جس کا حصہ ملک کی برآمدات میں ۶۲ فی صد ہے اور جو ملک کے پورے صنعتی پیداواری نظام کا نصف حصہ ہے، سخت بحران کا شکار ہے۔ کارخانے تیزی سے بند ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں بے روزگاری خوف ناک رفتار سے بڑھ رہی ہے۔

  • پاکستان کی درآمدات ۴۰ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جب کہ برآمدات صرف ۵ئ۱۹ بلین ڈالر ہیں جس کے نتیجے میں تجارت کا خسارہ اب ۲۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ ادایگیوں کا خسارہ بھی اب ۱۰ ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ بیرونی ذخیرہ جات جو مارچ میں ۱۳ بلین ڈالر تھے اب ۱۰بلین ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ اس طرح ۱۰۰ دن میں ۳ بلین ڈالر یعنی ۳۰ ملین ڈالر یومیہ کی کمی واقع ہوئی۔
  • اسٹاک ایکسچینج کا حال بھی برا ہے جو انڈکس ۱۵ ہزار روپے پر تھا وہ اب ۱۰۴۰۰ تک گرچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان ۱۰۰ دنوں میں ملک میں کُل سرمایہ کاری کی مالیت ۶ئ۴ ٹریلین روپے سے کم ہوکر ۶ئ۳ ٹریلین پر آگئی ہے۔ یعنی ان ۱۰۰ دنوں میں ملک کی کُل سرمایہ کاری کی مالیت میں یومیہ ۱۰۰ ارب روپے کمی ہوئی ہے۔
  • ۱۰۰ دن پہلے ایک امریکی ڈالر پاکستان کے ۶۲روپے کے برابر تھا۔ اب اس میں ۱۸ فی صد کمی ہوئی ہے اور اب یہ قیمت ۷۳ روپے تک پہنچ گئی ہے۔

معیشت کے جس پہلو پر بھی نگاہ ڈالیں، حالات ابتر نظر آرہے ہیں اوراس کی بڑی وجہ حکومت کی پالیسیوںمیں شدید انتشار اور کسی سمت کا نہ ہونا ہے۔

۵- پانچواں بنیادی مسئلہ امن و امان کا فقدان اور پورے ملک میں جان، مال، آبرو کے تحفظ کی زبوں حالی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انتظامیہ کا کوئی وجود نہیں۔ بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کیا گیا ہے جس کا مقصد میرٹ کے مقابلے میں اپنی پسند کے لوگوں کو اہم مقامات پر تعینات کرنا ہے۔ اخبارات نے خود وزیراعظم کے دفتر میں سابق نیب زدہ افراد کے ذمہ داریاں سنبھالنے اور چٹ پٹ ترقیوں کی داستانیں شائع کی ہیں۔ یہ رجحان کسی بھی ملک کے لیے نہایت خطرناک ہے اور پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے ان میں تو یہ تباہی کا راستہ ہے۔ لاپتا افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور عوام حقوق کی حفاظت اور انصاف کے حصول دونوں کے بارے میں مایوس ہورہے ہیں۔ دولت کی عدم مساوات میں محیرالعقول اضافے نے حالات کو اور بھی ابتر کردیا ہے۔ لوگ اصلاح کے مقابلے میں انقلاب کی باتیں کرنے لگے ہیں۔

۶- چھٹا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہرسطح پر اصحابِ ثروت اور ارباب اقتدار اپنے وسائل سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ بجٹ کا خسارہ آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور قرض کے پہاڑ ہمالہ سے بھی زیادہ بلند ہوگئے ہیں۔ کفایت شعاری اور سادگی کی صرف باتیں ہوتی ہیں، ان پر عمل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں۔ وزیراعظم صاحب نے اپنے پہلے خطاب میں اپنے اخراجات کو ۴۰ فی صد کم کرنے کا اعلان کیا تھا جو بجٹ کے آتے آتے ۳۰ فی صد تک سکڑ گیا لیکن عملاً ٹھاٹ باٹ کا مظاہرہ جاری ہے اور دیکھا جائے تو اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے حلف کے بعد اسی رات وزیراعظم صاحب کے صاحبزادے کی شادی کی جو تفصیلات اخبارات میں شائع ہوئی ہیں وہ کفایت شعاری کے دعووں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ وزیراعظم صاحب عمرہ کے لیے گئے تو اس میں ۸۶افراد سرکاری خرچ پر ان کے شریکِ سفر نظر آئے اور سفر کے اخراجات ۱۰ کروڑ سے زائد بیان کیے جارہے ہیں۔ ملایشیا ڈی-۸ کی کانفرنس میں تشریف لے گئے تو اطلاع ہے کہ ان کے وفد میں ۴۰ سے زیادہ افراد تھے، جب کہ وفد سے پہلے سیکیورٹی کے نام پر ۵۰ افراد ملایشیا بھیجے گئے۔ پھر زرداری صاحب سے مشورے کے لیے وزیراعظم صاحب کوالالمپور سے سیدھے دبئی تشریف لے گئے اور ۴۰ کا ٹولہ ان کے ساتھ رہا ہے۔ جہاز اور قیام کے اخراجات پھر ۱۰ کروڑ سے متجاوز بتائے جارہے ہیں۔ وزیراعظم تو ایک ہے مگر اطلاع یہ ہے کہ چار افراد کو وزیراعظم کا پروٹوکول فراہم کیا جارہا ہے۔ ایک طرف عوام فاقوں کا شکار ہیں، خودکشیوں کی نوبت آرہی ہے، مائیں اپنے بچوں کو بیچنے اور ایدھی سینٹروں پر چھوڑ جانے پر مجبور ہورہی ہیں اور دوسری طرف یہ اللّے تللّے ہیں۔ کوئی سوچنے کی زحمت نہیں کرتاکہ اس کا انجام کیا ہوگا؟

وزیراعظم صاحب نے بڑے طمطراق سے جو اعلانات کیے تھے ان کی طرف پیش رفت کا کوئی ثبوت ان ۱۰۰ دنوں میں نظر نہیں آرہا۔ ارشاد ہوا تھا کہ ایف سی آر ختم کیا جارہا ہے، آج تک اس سلسلے میں کوئی متبادل قانون پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آیا۔ اعلان کیا گیا تھا کہ ۲۰۰۲ء کا    بدنامِ زمانہ انڈسٹریل ریلیشنز آرڈی ننس ختم کیا جا رہا ہے مگر وہ آج بھی کتاب قانون کا حصہ ہے اور نئے قانون کا کوئی مسودہ قوم کے اور پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آیا۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ دو تاریخی کمیشن بنائے جارہے ہیں یعنی ایک روزگار کمیشن اور دوسرا جنوبی افریقہ کی طرز پر truth and reconciliation commission(سچائی اور مفاہمتی کمیشن)،لیکن ۱۰۰ دن گزرنے کے بعد بھی ان کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔

مزدوروں کی یونینوں اور طلبہ کی یونینوں سے پابندی اٹھانے کا اعلان ہوا تھا اور اس سلسلے میں کچھ آزادیاں اور مواقع مزدوروں اور طلبہ نے غالباً اپنے دست و بازو سے حاصل بھی کرلیے ہیں مگر اس سلسلے میں جو قانون سازی ہونی چاہیے تھی اور جو مثبت متبادل نظام قوم کے سامنے آنا چاہیے تھا، وہ ابھی تک پردۂ غیب ہی میں ہے۔ ۱۰۰ دن کے پروگرام کے بیش تر اعلانات حقیقت کا روپ دھارنے میں ناکام رہے اور اس کی بڑی وجہ پارلیمنٹ کی حسبِ سابق بے بسی، قانون سازی کا فقدان، عدلیہ کی عدم بحالی، خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی تشکیلِ نو کے باب میں مجرمانہ کوتاہی، حکومت کا بے سمت ہونا اور امریکی دبائو میں بیرونی ایجنڈے کی مشرف دور کی طرح تعمیل اور تکمیل ہے۔ یہ صورت حال حکومت پر عوام کے اعتماد کو بری طرح مجروح کرنے اور امید کی جو کرن رونما ہوئی تھی اس کے تاریکیوں میں دم توڑنے کا باعث رہی ہے۔

اس پورے ناکام تجربے کی بڑی وجہ سیاسی قیادت، خصوصیت سے پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت کا کردار ہے۔ اب لوگ کھلے بندوں یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جس پارٹی میں خود اپنے دستور، ضابطوں اور جمہوری روایات کا احترام نہ ہو وہ ملک کو دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کیسے دے سکتی ہے۔ جناب زرداری صاحب نے جس ڈرامائی انداز میں محترمہ کی شہادت کے بعد اقتدار سنبھالا، اس کے بارے میں چبھتے ہوئے سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔ جنرل اسلم بیگ نے محترمہ کی آخری کتاب اور دوسری تقاریر کے حوالوں سے وصیت کے قابلِ اعتماد ہونے کو چیلنج کیا ہے۔ زرداری صاحب نے خود سندھ ہائی کورٹ میں محترمہ کی وراثت کے سلسلے میں جو پٹیشن دائر کی ہے وہ ان کے حسابات اور دوسرے اثاثوں کے بارے میں وصیت کی عدم موجودگی کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر اپنے اتنے اہم معاملات کے بارے میں وہ کوئی وصیت نہیں کرسکیں تو پارٹی کے معاملات کے بارے میں وصیت کیسے کر دی۔ وصیت کو اگر تسلیم کرلیا جائے تب بھی اس کے صحیح مفہوم کا مسئلہ بھی کم اہم نہیں۔ اس سلسلے میں جناب ارشاد احمد حقانی نے بڑے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں اور ایک وقتی انتظام کو جس کا مقصد صرف عبوری (transition) تھا، مستقل انتظام کی شکل دینے پر بھرپور گرفت کی ہے۔ ۱۰۰ دن کی حکمرانی کے پس منظر میں پی پی پی (زرداری) کے بارے میں دی نیشن کی ایک کالم نگار نے بڑے چبھتے ہوئے سوالات اٹھائے ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا ارشاد ہے:

پیپلزپارٹی (زرداری) کے پاس، جسے قسمت کی ایک بے رحم گردش اقتدار میں لے آئی ہے، حکمرانی کے دائرے میں پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں۔ پارٹی اور اسی طرح یہ ملک ایک غیر منتخب شخص چلا رہا ہے جو بے نظیربھٹو کا سابقہ شوہر ہے، جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ پُرفریب این آر او استعمال کرکے، جو امریکا اور صدرمشرف نے قوم پر مسلط کردیا ہے، عدالتوں سے بریت حاصل کرلے۔ آصف زرداری اپنے وکیل کے ذریعے گذشتہ ہفتے اپنی مرحومہ بیوی کے اثاثوں کے لیے وراثت کی درخواست جمع کرا رہے تھے۔ ان کادعویٰ تھا کہ بے نظیر بھٹو بلاوصیت انتقال کرگئیں اور ان کا کوئی وصیت نامہ ہرطرح کی تلاش کے باوجود نہ مل سکا۔ یہ بڑی دل چسپ بات ہے، اس لیے کہ اپنی بیوی کے مرنے کے تیسرے روز زرداری نے ہمارے سامنے کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا تھا اور بتایا تھا کہ یہ ان کا وصیت نامہ ہے، اور یہ بھی بتایا تھا کہ یہ کئی صفحات پر مشتمل ہے جو عوام کے سامنے نہیں لائے جاسکتے کیوں کہ اس میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہے۔ (۱۳ جولائی ۲۰۰۸ئ)

ہمارے اور دوسرے اہلِ قلم کے تجزیوں کا حاصل یہ ہے کہ زرداری گیلانی حکومت نے یہ ۱۰۰دن ضائع کیے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ۱۸ فروری کے مینڈیٹ کی روشنی میں حقیقی اور بااختیار قومی حکومت وجود میں نہ آسکی۔ زرداری صاحب نے محترمہ کی وصیت کا سہارا لے کر پیپلزپارٹی پر قبضہ کرلیا اور رحمن ملک اور ایسے ہی دوسرے غیرنمایندہ افراد کے ذریعے زرداری صاحب اور مشرف میں جو درپردہ معاہدہ ہوا تھا اور جس کے ایک پہلو کا تعلق این آر او کے تحت خود زرداری صاحب، پی پی پی، ایم کیو ایم کے قائدین اور کارکنوں اور دوسرے سیاسی عناصر اور سول اور فوجی بیورو کریسی کے متعلقہ افراد کو احتساب اور قانونی چارہ جوئی کا سامنا تھا ان کے کرپشن کے الزامات کو کسی غیرجانب دار تحقیق و تفتیش اور عدالتی عمل کے بغیر واپس لے کر امریکا اور برطانیہ کے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت ملک پر نئی سول قیادت مسلط کی گئی۔ اس قیادت نے، خاص طور پر ان افراد نے جن کے ہاتھوں میں اصل باگ ڈور ہے، حقیقی مسائل کو پس پشت ڈال کر صرف اپنے اقتدار اور گرفت کو مضبوط کرنے، مشرف صاحب کو نئی زندگی دینے، اور امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر ساری توجہات صرف کیں۔ پرویزمشرف اصل مسئلہ ہیں، ان سے نجات کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔عدلیہ کی بحالی کو مذاق بناکر اُلجھا دیا گیا۔ معاشی مسائل کے حل اور امن و امان کے قیام پر قرارواقعی توجہ نہ دی گئی، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر حالات کو اور بھی الجھا دیا گیا۔

جو تاریخی موقع حاصل ہوا تھا اسے بڑی بے دردی سے ضائع کردیا گیا ہے۔ یہ جمہوری عمل کی ناکامی نہیں، ایک سیاسی گروہ کی ناکامی ہے جس نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر جمہوری عمل کو ایک طرح یرغمال بنالیا اور ۱۸ فروری کے مینڈیٹ کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے ہی ایجنڈے پر کام شروع کردیا۔ یہ امریکا مشرف زرداری حکمت عملی ہے جس نے ۲۰۰۷ء کی قربانیوں اور ۱۸فروری کے انتخابی نتائج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کھیل اب بالکل کھل کر سب کے سامنے آگیا ہے۔ ملک اور ملک سے باہر حالات پر گہری نظر رکھنے والے افراد اس کھیل کا پردہ چاک کررہے ہیں اور خود پیپلزپارٹی کے وہ قائد جنھوں نے گذشتہ دس بارہ سال پارٹی کو زندہ رکھنے اور آمریت کے ہر وار کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی اب کھل کر میدان میں آرہے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ ۱۰۰ دن ایک water-shed کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور قوم آج اپنے آپ کو ایک بہت بڑے امتحان میں پاتی ہے___ اس امر کا خطرہ ہے کہ ذاتی اور گروہی مفادات کے علَم بردار جو اصل جمہوری عمل کو ہائی جیک کرنے کا کھیل کھیل رہے ہیں، آمریت اور بیرونی قوتوں کی بالادستی کی تاریک رات مسلط کرنے کے لیے کسی حد کو بھی پارکرجائیں۔ نیز آمریت کے کارندے اور ایجنسیوں کے دست و بازو اسے جمہوریت کی ناکامی کا رنگ دے کر پرانے کھلاڑیوں یا نئے طالع آزمائوں کے لیے فضا سازگار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کراچی کی ایک خاص رنگ کی تجارتی کمیونٹی میں گورنر سندھ اور ناظم کراچی کی بیساکھیوں پر کل کے آمر پھر کسی نئے کردار کی تلاش میں ہیں۔ یہ سارے خطرات اُفق پر منڈلا رہے ہیں لیکن یہ وقت ٹھنڈے غوروخوض اور حقائق کے صحیح ادراک پر مبنی حکمت عملی کی تشکیل کا ہے۔

۲۰۰۷ء میں عدلیہ کی بحالی اور جمہوری حقوق کے حصول کے لیے جو جدوجہد وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنوںنے شروع کی تھی آج اس تحریک کو ان نئے خطرات سے بچاکر دوبارہ حقیقی جمہوری عمل کے حصول، دستور کی بالادستی، عدلیہ کی بحالی، قانون کی حکمرانی، آمریت سے ہمیشہ کے لیے نجات، فوج کو سیاست کی آلودگیوں سے مکمل طور پر پاک رکھنے، اور ملک کی قسمت کا فیصلہ ملک کے اندر اور اس کے حقیقی خادموں کے ذریعے انجام دینے کے نظام کے استحکام کے لیے فیصلہ کن جدوجہد ہے۔ گذشتہ ۱۰۰ دن اس تحریک کا تسلسل نہیں، اس سے انحراف اور ماقبل کی پالیسیوں کے نئے روپ میں اور نئے کرداروں کے ذریعے تسلسل کا زمانہ رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ایک بار پھر تمام جمہوری قوتیں اور حق، انصاف اور قانون کی پاسداری کے تمام علَم بردار   بے لوث انداز میں منظم جدوجہد کریں اور جمہوری عمل کے ہائی جیکنگ کے اس اقدام کو       ناکام بنادیں۔ وکلا برادری اور اے پی ڈی ایم نے انتخابات سے پہلے جس بالغ نظری کا مظاہرہ  کیا تھا، اب ضرورت ہے کہ تمام جمہوری قوتوں کو ساتھ ملا کر اسی طرح ایک مؤثر تحریک کا اہتمام  کیا جائے۔ یہ کام کسی جذباتی رو میں انجام نہیں دیا جاسکتا لیکن حالات جس مقام پر پہنچ گئے ہیں اور جو خطرات اب سامنے منڈلا رہے ہیں ان کی موجودگی میں غفلت یا کوتاہی بڑی خطرناک ہوسکتی ہے۔ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل، کوئی اگر دفتر میں ہے