حضرت عبداللہ بن شفیقؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے( نفلی) روزوں کے معمول کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ: آپؐ روزہ رکھنا شروع کرتے تو یوں لگتا کہ اب افطار نہیں کریں گے اور روزہ ترک کردیتے تو یوں لگتا کہ اب روزہ ترک کرنے کی حالت میں رہیں گے۔ فرماتی ہیں کہ مدینہ شریف تشریف لانے کے بعد آپؐ نے کسی مہینے کے پورے روزے نہیں رکھے سواے رمضان کے۔(شمائل ترمذی)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپؐ نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے کے سارے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ کسی مہینے میں آپؐ نے شعبان سے زیادہ روزے رکھے ہوں (بخاری)۔ آپؐ نے فرمایا: اتنا عمل کرو جتنا کہ تمھارے اندر طاقت ہے۔ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں اکتائیں گے لیکن تم عمل سے اُکتا جاؤگے۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ نے اپنا قرب حاصل کرنے کے لیے نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کی عبادات فرض کی ہیں اور ان فرائض کی تکمیل کے لیے نفلی عبادات کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے حدیثِ قدسی مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور ولایت حاصل کرنے کا ذریعہ فرائض کے بعد نوافل ہیں۔ ان کے ذریعے آدمی اللہ تعالیٰ کا ولی بن جاتا ہے تو پھر ہدایت اس کے لیے مقدر ہوجاتی ہے اور اس کی دعائیں سنی جاتی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاتا ہے۔ (بخاری ، مسلم)
روزے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان اپنی خواہشات پر قابو پا لیتا ہے۔ پھر بھوک‘ پیاس اور جنسی جذبات اسے راہ راست سے بھٹکا نہیں سکتے۔ شیطان کے حملوں سے روزہ دار محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو ڈھال فرمایا ہے۔ رمضان المبارک میں شیطان کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور روزے دار کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ روزہ دار اپنے آپ کو تمام عبادات اور احکام کی تعمیل کے لیے تیار اور تمام منکرات سے بچنے کے قابل بنالیتا ہے۔ کھانے پینے اور جنسی جذبات کو سحری سے افطار تک روکے رہنے کے سبب اسے ان خواہشات پر قابو پانے کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ وہ تقویٰ کے مقام پر فائز ہوجاتا ہے۔ روزہ خواہشات کو ترک کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو علم نہیں ہوسکتا کہ کس شخص نے روزہ رکھا ہے اور اپنی خواہشات کو ترک کیا ہے۔ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے۔ اس وجہ سے روزے کا اللہ تعالیٰ سے خصوصی تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہر نیکی کا ثواب ۱۰ گنا سے لے کر ۷۰۰ گنا تک ملتا ہے مگر روزہ میرے لیے ہے میں خود اس کی جزا دوں گا۔ (بخاری، مسلم)
o
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ کو جو روزانہ روزہ رکھتے تھے بالآخر ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کی اجازت دی اور فرمایا: ’’یہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے اور اس سے افضل کوئی روزہ نہیں‘‘ (بخاری )۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے ہمیشہ روزہ رکھا‘ اس نے روزہ نہیں رکھا‘‘ (بخاری)، یعنی وہ روزہ نہیں رکھ سکے گا۔
رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں۔ رمضان المبارک کے روزوں سے اللہ تعالیٰ کے قرب کا جو مقام روزے دار کو ملتا ہے‘ اس میں ترقی اور کمال کے لیے نفلی روزوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ انبیاعلیہم السلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزوں کا خصوصیت سے اہتمام کرتے تھے ۔ حضرت داؤدـ علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار فرماتے تھے۔
روزے کے اس اجر کی وجہ سے نبیؐ بھی نفلی روزے رکھتے تھے اور صحابہ کرامؓ میں بھی اس کا جذبہ اور شوق تھا۔ نبیؐ نے صحابہ کرامؓ کے لیے نفلی روزوں کا وہ نمونہ پیش کیا ہے‘ جس پر وہ عمل کرسکیں اور نفلی روزوں کے سلسلے میں خصوصی ہدایات بھی دیں۔ اس لیے آپؐ نے کسی مہینے اور مہینے کے دنوں کو روزہ رکھنے کے لیے خاص نہیں کیا۔ کبھی شروع‘ کبھی درمیان اور کبھی آخری دنوں میں روزہ رکھتے تاکہ اُمت کے لیے آسانی ہو اور امت کے افراد اپنے اپنے حالات کے مطابق نفلی روزوں کا اہتمام کریں۔ البتہ جس طرح فرض نمازوں سے پہلے فرضوں کی تیاری کے لیے سنتیں رکھی گئی ہیں اور فرضوں کے بعد ان کی تکمیل کے لیے سنتیں پڑھی جاتی ہیں‘ اس طرح رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر آپؐ نے شعبان کے اکثر دنوں میں روزے رکھے اور رمضان المبارک کے اختتام کے بعد آپؐ نے چھے روزے رکھنے کی فضیلت بیان فرمائی۔
o
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی والدہ اُم سلیم کے ہاں تشریف لائے۔ وہ آپؐ کی مہمان نوازی کے لیے کھجوریں اور مکھن لے کر آئیں۔ آپؐ نے فرمایا: مکھن مشکیزہ میں اور کھجوریں تھیلے میں واپس ڈال دو، میں روزے سے ہوں۔ پھر گھر کے ایک کونے میں تشریف لے گئے اور نفل پڑھے۔ پھر اُم سلیم اور ان کے اہل خانہ کے لیے دعا کی۔ اُم سلیم نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! میرا پیارا بیٹا آپؐ کی خدمت کے لیے مختص ہے‘ اس کے لیے بھی دعا فرمائیے۔ تب آپؐ نے حضرت انس ؓ کے لیے دعا فرمائی اور دنیا اور آخرت کی کوئی بھلائی نہ چھوڑی۔ آپؐ کی دعا تھی: اللھم ارزقہ مالاً و ولداً و بارک لہ ’’ اے اللہ اسے مال اور اولاد اور برکت عطا فرما‘‘۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیںکہ تمام انصار سے میرا مال اور اولاد زیادہ ہے۔
انسان نفلی روزے کی حالت میں کسی کے ہاں مہمان بن جائے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ بلاضرورت نفلی روزہ نہ توڑے۔
جب کسی کے گھر جائے تو گھروالوں کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں دعائیں دے۔ ہمارے ہاں یہ روایت کمزور پڑگئی ہے۔ گھر میں جاتے وقت السلام علیکم کہنا بھی دعا ہے اور گھر سے رخصت ہونے سے پہلے گھروالوں کے لیے دعاے خیر کرنا چاہیے۔ نبیؐ کی سنت پر عمل کرنا چاہیے۔
o
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کا روزہ خصوصیت کے ساتھ رکھتے تھے۔ (شمائل ترمذی)۔ سوموار اور جمعرات کو بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں اس حال میں پیش ہو کہ میں روزے سے ہوں‘‘۔ (شمائل ترمذی)
اللہ تعالیٰ کو ہر عمل کرنے والے کے عمل کا علم ہے لیکن نیک لوگوں کے اعزاز کی خاطر ان کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور ان دنوں میں پیش کیے جاتے ہیں۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ: رسولؐ اللہ ایک مہینے میں ہفتہ‘ اتوار اور سوموار کے روزے رکھتے اور دوسرے مہینے میں منگل‘ بدھ اور جمعرات کے روزے رکھتے (شمائل ترمذی)۔ ہفتے کے چھے دن کا روزہ آپؐ کے عمل سے ثابت ہوگیا۔ اس سے اُمت کے لیے آسانی پیدا ہوگئی۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا کہ جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افطار کرتے۔ (ترمذی‘ نسائی)
جمعہ کے دن بھی نفلی روزہ رکھا جاسکتا ہے لیکن ایسی صورت میں جس میں جمعہ کو روزے کے ساتھ خاص نہ سمجھا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کو افطار بھی کیا ہے اور روزہ بھی رکھا ہے اور جمعہ کو روزے کے لیے مختص کرنے سے روکا بھی ہے تاکہ لوگ اس نفلی روزے کواس دن کی فضیلت کے سبب واجب کا درجہ نہ دے دیں۔ اسی طرح آپؐ نے باقی ۶ دنوں میں بھی روزہ رکھا ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ کسی بھی دن کا روزہ رکھا جا سکتا ہے، مقصد حاصل ہوجائے گا۔ آج کل نفلی عبادات تو درکنار فرائض میں بھی لوگ کوتاہی کرتے ہیں۔ جو لوگ فرائض کو ادا کرتے ہیں‘ ان کو چاہیے کہ فرائض سے ایک قدم آگے بڑھیں اور نوافل بھی ادا کریں تاکہ نبیؐ اور صحابہ کرام ؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ولایت کی منزل پر فائز ہو سکیں۔ آج کے پُرفتن دور میں ایمان ‘جان ومال اور عزت وآبروکے تحفظ کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کا یہی راستہ ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے روزے کا حکم دیا تھا۔ جب رمضان کا روزہ فرض کردیا گیا تو اس کے بعد جو عاشورے کا روزہ رکھنا چاہتا‘ رکھتا اور جو چھوڑنا چاہتا‘ چھوڑ دیتا۔ (بخاری) عاشورے کا روزہ بھی نفل ہے۔ نبی کریمؐ نے عاشورے کے روزے کی فضیلت میں فرمایا: مجھے اُمید ہے کہ یہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (ترمذی)
عاشورہ سے مراد ۱۰ محرم الحرام ہے۔ البتہ اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنا بھی بہتر ہے کہ یہود کی مخالفت ہوجائے۔ (ترمذی ،عن ابن عباسؓ)
حضرت عبداللہ بن عباسـ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسولؐ اللہ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم دیا تو بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یہ وہ دن ہے جس کی یہود ونصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اگلے سال ان شاء اللہ ہم ’ نویں‘ محرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔ پھر اگلا سال نہ آیا یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے۔ ( مسلم )
آج کل یہود ونصاری عاشورہ کاروزہ نہیں رکھتے۔ اس لیے آج کے زمانے میں عاشورہ کاروزہ کافی ہے، اب نویں تاریخ کے روزے کی علت باقی نہیں رہی ۔(معارف الحدیث، مولانا منظوراحمد نعمانی)
حضرت ابی قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتا ہوں کہ عرفہ کا روزہ ایک سال پچھلے اور ایک سال آیندہ کے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔‘‘ (ترمذی)
عاشورہ کا دن فضیلت کا دن ہے، اس لیے اس دن روزے کا ثواب بھی زیادہ ہے۔ اس طرح عرفہ کے دن میں حاجی میدان عرفات میں جمع ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا ان پر نزول ہوتا ہے۔ اس دن جو شخص اخلاص اور شعور کے ساتھ روزہ رکھے گا اس کے لیے یہ روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔ ابن بطال فرماتے ہیں کہ یہ فضائل ان لوگوں کے لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے ہوں۔ فسق وفجور میں ڈوبے ہوئے‘ فرائض کے تارک اور منکرات کے مرتکب کے لیے یہ فضائل نہیں ہیں۔ ( فتح الباری، ج ۱۳)
حضرت موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذرؓ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ابوذر! جب تم مہینے کے تین دنوں کے روزے رکھنا چاہو توتیرھویں‘ چودھویں اور پندرھویں کا روزہ رکھو۔ (ترمذی)
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھے تو اس نے دھر سارے زمانے کا روزہ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق اپنی کتاب میں اُتاری: مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا (الانعام ۶:۱۶۰) ’’جو ایک نیکی کرے گا‘ تو اسے ۱۰ گنا ثواب ملے گا‘‘۔گویا ایک دن ۱۰ دن کے برابر ہے۔
اس طرح تین روزے ‘ پورے مہینہ کے روزوں کے برابر ہوگئے اور جب ایک شخص رمضان المبارک کے روزوں کے ساتھ ہر ماہ میں تین روزے رکھے گا تو اس کے روزے ۱۲ مہینے کے روزوں کے برابر ہو جائیں گے اور اس طرح وہ صائم الدھر بن جائے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو ایام بیض کے روزوں کی تلقین فرمائی لیکن خود ان دنوں کی پابندی نہیں کی تاکہ اُمت پر ان دنوں کی پابندی ضروری نہ سمجھی جائے‘ صرف فضیلت کا درجہ دیا جائے۔
o
حضرت حفصہؓ سے روایت ہے، فرماتی ہیں: چار چیزیں ایسی ہیں جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ چھوڑتے تھے: ۱- عاشورہ کا روزہ ۲-یکم ذوالحجہ سے نویں ذوالحجہ تک کے دنوں کے روزے ۳-ہرمہینے کے تین روزے ۴- فجر کی دو سنتیں۔ (سنن نسائی)
یہ نفلی عبادات ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اہتمام فرماتے تھے۔ اُمت کے افراد کو بھی اہتمام کرنا چاہیے لیکن نفل اور سنت سمجھ کر۔ان عبادات میں سے کسی کو واجب کا درجہ نہ دیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے (ابن ماجہ)۔ یہ زکوٰۃ فرض اور نفلی دونوں طرح کے روزوں کے ذریعے نکالی جاتی ہے ‘ فرض روزوں کے ذریعے زکوٰۃ فرض ہے اورنفلی روزوں کے ذریعے زکوٰۃ مستحب ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں، یعنی عیدالاضحی اور عیدالفطر کے روزوں سے روکا ہے۔ (مسلم)
حضرت نُبَیْشہؓ ہذلی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایام تشریق (۱۱‘۱۲‘۱۳ ذوالحجہ) کھانے پینے اور اللہ کی یاد کے دن ہیں۔ (مسلم)
عیدالفطر اور عیدالاضحی اور ایام تشریق کل پانچ دن کے روزے ممنوع ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی مہمان نوازی اور اللہ کی یاد کے دن ہیں۔ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی یاد کی ایک صورت یہ ہے کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے خطبوں اور نماز کے لیے آتے جاتے تکبیریں پڑھی جاتی ہیں، اور عیدالاضحی اور ایام تشریق میں یوم عرفہ سے لے کر ۱۳ ذوالحجہ تک نماز کے بعد تکبیر بلندآوازسے پڑھی جاتی ہے۔