اقبال کی یہ پیش گوئی جدید مغربی تہذیب کے جن شعبوں میں پوری ہوتی ہوئی صاف نظر آرہی ہے ،اُن میں خاندان کا شعبہ سر فہرست ہے۔گذشتہ صدی کے وسط میں ساری مغربی دنیا میں اور ان کی نو آبادیات میں جدید نظریات کا غلغلہ تھا۔ لبرل مکتب فکر، مغربی دنیا کا مقبول ترین مکتب فکر تھا۔ اس نے خاندان کے بارے میں یہ تصور پیش کیا کہ یہ ’’پدر شاہی ‘‘ (Patriarchal) ادارہ ہے اور اس کا اصل مقصد عورت کا استحصا ل کرنا ہے‘‘۔مارکسی مفکرین نے اور آگے بڑھ کر کہا کہ ’’یہ بورژوا طبقہ کا ایک استحصالی آلہ کار ہے اور خاندان کے ادارے کا بنیادی مقصد دولت کی تقسیم کو روکنا اور بورژوا طبقے کی طاقت کو استحکام بخشنا ہے‘‘۔
ان سرگرم کار تصورات نے یہ یقین پیدا کیا کہ خاندان کی انسان کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ پہلے مرحلے میں شادی کے بغیر جنسی زندگی کا رواج شروع ہوا۔ میاں بیوی کی جگہ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ نے لے لی ۔ بغیر شادی کے اور بغیر کسی طویل مدتی عہدنامےکے، ساتھ رہنے کا سلسلہ چل پڑا۔ جنسی آوارگی عام ہوگئی اور خاندانی ادارہ تیزی سے معاشرے سے غائب ہونے لگا۔
دوسرے مرحلے میں کج روی پر مشتمل جنسی رجحانات کی نئی اقسام کا تصور عام ہوا۔ فلسفیوں نے اسے انصاف اور مساوات کے تصور سے جوڑ ڈالا۔کسی نے اسے ’صنفی انقلاب‘ کا نام دیا اور کسی نے کہا کہ: ’’جنسی تعلق مرد اور عورت کے درمیان ہی ہو، یہ ضروری نہیں ہے۔ فطرت نے کئی طرح کے جنسی جذبے پیدا کیے ہیں۔مرد اور مرد یا عورت اور عورت مل کر ہم جنسی خاندان بھی بناسکتے ہیں‘‘۔ کہا گیا کہ ’’یہ جذبات بھی فطری ہیں اور ایسے جذبات رکھنے والے اگرچہ جنسی اقلیت ہیں مگر ان کے حقوق کا تحفظ عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ ہم جنسیت کے خلاف کچھ بولنا یہ ظلم کی تائید اور ظلم کی راہ ہموار کرنا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔چنانچہ تمام مغربی معاشروں میں اور اس کے بعد مشرقی معاشروں میں ہم جنس جوڑے عام ہوگئے۔ کئی ملکوں میں ان کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہوگیا۔
تیسرے مرحلے میں مشینوں اور جنسی مصنوعات کے ساتھ صنفی تعلق کی ہمت افزائی کی جارہی ہے اور ایسے کھلونوں اور روبوٹوں کی یہ صنعت اب پچاس ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہے جس میں ۳۰فی صد سالانہ کی رفتار سے ترقی ہورہی ہے۔ ایسے جنسی روبوٹ (sexbot) تیزی سے عام کیے جارہے ہیں، جو شوہر یا بیوی کا کردار ادا کرسکیں۔
ان سب بے ہودہ تصورات اور رواجوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نظام پوری طرح تباہ ہوگیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سو سالوں کے دوران میں امریکا میں شادی کی شرح میں ۶۶فی صد کمی آئی ہے۔ گویا سو سال پہلے ہر سال جتنی عورتیں شادی کرتی تھیں، آج اس کے مقابلے میں آبادی میں اضافے کے باوجود ۶۶فی صد کم عورتیں شادی کررہی ہیں۔ شادی کی عمر والے افراد میں صرف ۲۵ فی صد امریکی ہی رشتہ ازدواج میں بندھے ہوئے ہیں۔ تقریباً آدھی آبادی ’خاندانی غلامی‘ سے ’آزاد‘ ہے۔ ۲۵فی صد بچے ’اکیلی ماں‘ کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ان میں سے اکثر کے باپ کا تعین ممکن ہی نہیں ہے۔دوتہائی امریکی آبادی یہ تسلیم کرتی ہے کہ دو مرد یا دو عورتیں مل کر بھی فیملی بناسکتے ہیں اور بچوں کی پرورش کرسکتے ہیں۔۳۹ فی صد امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ’’اب خاندان کا ادارہ اذکارِرفتہ (out date) اور متروک ہوتا جارہا ہے‘‘(تفصیلات دیکھیے: پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹThe Decline of Marriage and Rise of New Families)۔
ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف حالت یہ ہے کہ اب مغربی معاشروں میں یہ احساس بھی بڑھتا جارہا ہے کہ ’’خاندان کا تحفظ نہایت ضروری ہے اور خاندان کا بحران ایک بڑا سماجی بحران ہے‘‘۔محولہ بالا سروے میں ۹۶ فی صد امریکیوں نے کہا کہ ’’خاندان کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ قدروں کے عالمی سروے (World Values Survey) کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری مغربی دنیا میں اب بہت بھاری اکثریت خاندان کی ضرورت او راہمیت کو محسوس کرنے لگی ہے۔ ایسا سوچنے والوں کی تعداد سال بہ سال بڑھتی جارہی ہے۔
چنانچہ اب امریکا کے صدارتی انتخابات میں جن موضوعات پر بحثیں ہوتی ہیں ان میں خاندان اور خاندانی قدروں کا موضوع بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ یورپ کے کئی ملکوں میں بھی یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں تو ایک سیاسی جماعت اسی نعرہ کے ساتھ وجود میں آئی تھی اور اس کا نام ہی ’فیملی فرسٹ پارٹی‘ تھا۔ اسی نام سے یہ پارٹی گذشتہ پندرہ سالوں سے الیکشن لڑتی رہی اور اپنے نمایندوں کو منتخب کراتی رہی۔ تاہم اپریل ۲۰۱۷ء میں یہ پارٹی ایک اور پارٹی میں ضم ہوگئی۔
امریکا کا مشہور دانش ور فرانسس فوکویاما، ملک کی ترقی حتیٰ کہ معاشی ترقی کے لیے بھی ایک چیز کو ضروری قرار دیتا ہے، اور اس کو وہ سماجی سرمایہ (Social Capital) قرار دیتا ہے۔ اس سرمایہ کی ضرورتوں میں خاندانی قدروں کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔
مختصر یہ کہ اب مغرب کا انسان خاندانی ادارے کے انتشار سے تنگ آچکا ہے اور چاہتا ہے کہ مضبوط خاندان کی بنیادیں دوبارہ بحال ہوں، لیکن جو طرز زندگی، جو اخلاقی تصورات اور جو سماجی روایات اب وہاں عام ہوچکی ہیں، ان کے پیش نظر اب واپسی کا امکان باقی نہیں رہا۔
اب یہ مریضانہ معاملہ صرف مغربی معاشروں تک محدود نہیں ہے۔ جاپان میں گذشتہ عشرے میں طلاق کی شرح میں ۶۶فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اور وہاں کے مزدوروں میں ’اکیلی ماں‘ کا تناسب ۸۵فی صد ہے۔چین میں بھی خاندانی نظام تیزی سے زوال کا شکار ہے۔چلی میں ۷۰فی صد اور میکسیکو میں ۶۸فی صد بچے غیر شادی شدہ پیدا ہوئے ہیں۔ یہی صورت حال اسٹونیا، بلغاریہ جیسے ملکوں کی ہے۔ بھارت کے شہری علاقوں میں بھی ہم جنس خاندانوں اور طلاق کی شرح تیزی سے ’ترقی کی منازل‘ طے کررہی ہے۔
اس طرح سنجیدہ جائزہ اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ خاندان کا نظام، مغربی دنیا میں زوال پذیر ہونے کے بعد اب تیزی سے مشرقی معاشروں میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ دوسری طرف جدید سرمایہ دارانہ استعمار نے اپنے مقاصد کے لیے عورت کا بدترین استحصال کیا ہے۔ یہ صورت حال بھی اب ساری دنیا میں تیزی سے عام ہوتی جارہی ہے۔اور مشرقی معاشروں میں عورت کا روایتی کردار پامال ہورہا ہے۔جدید عورت کو اب یہ بات سمجھ میں آرہی ہے۔ عورت کے وجود کے تحفظ کا اب آخری قلعہ اسلام ہی باقی رہ گیا ہے۔
اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی قدریں، سماجی اور تاریخی روایات کی ناپائیدار بنیادوں پر نہیں کھڑی ہوئی ہیں۔ اسلام کی قدروں کی بنیاد نہایت مستحکم عقائد پر رکھی گئی ہے۔ ایک مسلمان معاشرہ خاندانی زندگی کی قدروں اور عورت کے نسوانی کردار کا تحفظ کرتا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہوتی کہ اس معاشرے کی قدیم روایتیں اس کا تقاضا کرتی ہیں، بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ معاشرہ اس پر پختہ ایمان رکھتا ہے کہ یہ خدا کے احکا مات میں شامل ہیں، جن میں تبدیلی کا اسے کوئی اختیار نہیں ہے۔یہ پختہ ایمان ہی اُس بلاخیز طوفان کا مقابلہ کرسکتا ہے جو جدید مغرب کی دانش گاہوں سے اٹھا اور اب ساری دنیا کے سماجی اور خانگی ڈھانچوں کو ملیامیٹ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ خاندان اور عورت کے نسوانی وجود کی آخری پناہ گاہ، اسلام ہی ہے۔
اسلام کی یہ خصوصیت بہت سے لوگوں کے لیے زبردست کشش کا باعث ہے تو اسلام مخالف طاقتوں کے لیے اسلام سے خوف کا بھی ایک اہم سبب ہے۔مشہور نومسلم دانش ور مراد ولفریڈ ہوف مین نے اپنی کتاب Religion on the Rising:Islam in the Third Millennium میں بہت تفصیل سے واضح کیا ہے کہ ’’خاندانی نظام اور خاندانی قدریں، اسلام کی بہت بڑی قوت ہیں اور مستقبل میں یہ مغربی دنیا میں اسلام کے لیے بہت بڑی کشش پیدا کریں گی‘‘۔
ایک مشہور فیمی نسٹ دانش ور تھیریسا کوربن نے اسلام قبول کرکے حجاب اختیار کرلیا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ ’’حجاب تو استحصال اور ظلم کی علامت ہے‘‘ جس کا تھریسا نے دل چسپ جواب دیا: ’’ہاں، میں اسکارف پہنتی ہوں۔میرا اسکارف پشت پر میرے ہاتھ نہیں باندھتا۔ یہ کیسے میرے استحصال کا ذریعہ ہوسکتا ہے؟میرا اسکارف نہ دماغ میں خیالات کے داخلے میں کوئی رکاوٹ بنتا ہے اور نہ منہ سے اس کے اظہار کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ آج مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میں ماضی میں کچھ ایسا ہی سمجھتی تھی۔میرا اسکارف البتہ مردوں کی ان ہوسناک نظروں کی راہ میں ضرور رکاوٹ بنتا ہے، جو عورت کے استحصال کی پہلی سیڑھی ہیں۔ یہ مجھے تحفظ اور احترام و عزّت عطا کرتا ہے… بلاشبہہ اسلام فیمی نسٹ تصورات سے ہم آہنگ نہیں ہے، لیکن فیمی نسٹ آئیڈیلز کی تکمیل کہیں ہوسکتی ہے تووہ صرف اسلام ہے۔ میری مراد یہ ہے کہ عورت کے وقار کی بحالی، تحفظ اور مقام‘‘۔
یہ صرف تھریسا کوربن کا ہی خیال نہیں ہے۔سفید فام عورتوں میں اب یہ تصور بہت تیزی سے عام ہوتا جارہا ہے۔ برطانیہ میں لگ بھگ ۵۰ہزار سفید فام برطانو ی ہر سال اسلام کی آغوش میں آتے ہیں۔ ان میں ۷۰فی صد خواتین ہوتی ہیں۔ ٹونی بلیر کی نسبتی بہن لارن بوتھ، بی بی سی کی نامہ نگار ایوان ریڈلی اور ایم ٹی کی میزبان کرسٹینا بیکر وغیرہ جیسی مشہور عورتیں بھی ان میں شامل ہیں۔چند سال پہلے کیمرج یونی ورسٹی کے سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز نے ایک دلچسپ مطالعہ کیا تھا۔ اس نے نومسلم برطانوی خواتین سے یہ وجہ جاننے کی کوشش کی کہ انھوں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ اس مطالعے کے سربراہ پروفیسر یاسر سلیمان نے برطانوی اخبار آبزرور کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
ہم جدیدیت کے زمانے میں ہیں۔ہماری زندگیوں کا غالب ڈھانچا سیکولر ہے۔ اور اس میں اسلام کوایسے مذہب کے روپ میں دیکھا اور دکھایا جاتا ہے، جو نہایت ظالم، پرتشدداور جدید دنیا کے عقلیت پسند رویے سے غیر ہم آہنگ ہے۔ اس کے باوجود ہرسال کچھ انتہائی ذہین، کامیاب اور دل چسپ لوگ اسلام کے عقیدے میں اپنی الجھنوں اور سوالوں کا جواب پاتے ہیں اور اسلام کی آغوش میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ سوال کی وجہ تلاش کرنا اس مطالعے کا ایک اہم مقصد ہے۔
چنانچہ یہ تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ مکمل ہوا اور مارچ ۲۰۱۳ء میں اس کی تہلکہ خیز رپورٹ Female Perspective: Narratives of Conversion to Islamکے نام سے شائع ہوئی۔ اس میں اُن اعلی تعلیم یافتہ خواتین نے قبول اسلام کے جو اسباب بیان کیے، ا ن میں سے بیش تر کا تعلق عورت اور خاندان سے متعلق اسلام کی تعلیمات سے ہے۔ مثال کے طور پر کئی خواتین نے اسلام میں نکاح کے تصور اور بیوی کے مقام و مرتبے کو قبولِ اسلام کا ایک اہم سبب گردانا۔ شوہر اور بیوی کے درمیان فرائض و اختیارات کی تقسیم نے کئی خواتین کو اپیل کیا۔بعض خواتین حجاب کے تصور سے متاثر ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حجاب ہی اصل فیمی نسٹ علامت ہے۔ اس لیے کہ اس سے نسوانی شخصیت کا باعزّت اظہار ہوتا ہے اور معاشرہ جس طرح عورت کو جنسی علامت بنادیتا ہے، اس کا رد ہوتا ہے۔ شوہر بیوی کے حقوق کا تصور، شوہر کی خانگی ذمہ داریوں کی تفصیلات وغیرہ نے بھی کئی خواتین کو متاثر کیا۔ حیرت انگیز طور پر ان جدید اعلیٰ تعلیم یافتہ انگریز عورتوں میں ایسی عورتیں بھی تھیں، جنھیں اسلام کے تعدد ازدواج کے اصول نے متاثر کیا۔ایک خاتون نے کہا ، ’’شوہر کی دوسری بیوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی خاندانی اور ازدواجی ذمہ داریاں آدھی ہوگئیں،جب کہ حقوق میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔میرے خیال میں یہ سودا تو عورت کے حق ہی میں ہے‘‘۔
دوسری طرف اسلام کے مخالفین، اسلام کی خاندانی زندگی کو اسلام سے خوف زدہ کرنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام کی ایسی طاقت ہے جس کا کوئی توڑ ان کے پاس نہیں ہے۔ڈیوڈ سیلبورن (David Selbourne)ایک مشہور ’اسلاموفوبک‘ [یعنی ’اسلام سے خوف زدہ کرنے والے‘] مصنّف ہے، اس کی کتاب Losing Battle with Islam (اسلام سے ہاری ہوئی جنگ ) بہت مشہور ہوئی۔ اس نے دس اسباب گنائے ہیں، جن کی وجہ سے اس کے خیال میں اسلام سے جنگ جیتنا امریکا اور مغرب کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان میں ساتواں سبب امریکا کا اخلاقی افلاس، قدروں کا بحران اور اس کے مقابلے میں اسلام کا نہایت مستحکم اخلاقی نظام ہے۔ جب وہ قدروں کی بات کرتا ہے توخاص طور پر خاندانی قدروں کو اسلام کی بڑی قوت قراردیتا ہے۔
اس بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا خاندانی نظام، اور عورت کو اسلام میں دیا گیا مقام، اُن امور میں شامل ہے، جن کی وجہ سے اسلام میں جدید دور کے لوگوں کو کشش محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی مخالف طاقتوں کا ایک اہم ہدف مسلمان عورت اور اسلامی خاندان ہے۔
آج ساری دنیا میں مسلمانوں کے حوالے سے جو کوششیں ہورہی ہیں، ان میں ایک اہم کوشش یہ ہے کہ مسلمان شریعت اور شریعت کے خانگی قوانین سے دست بردار ہوجائیں، یا ان میں ’اصلاحات‘ کے لیے تیار ہوجائیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے اس عظیم اثاثے کی حفاظت کریں اور اسے زیادہ سے زیادہ اسلام کے نظام رحمت کی عملی شہادت کا ذریعہ بنائیں۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم خاندان کے وجود کے زبردست وکیل اور عالمی سطح پر خاندان کے طاقت ور نگہبان کے طور پر سامنے آئیں۔ خاندان کی اہمیت پر بحث میں پرزور حصہ لیں۔ کسی تذبذب اور مداہنت کے بغیر اسلام کے عائلی اور خانگی احکام کی برکتوں کو اجاگر کریں۔
اس بات کو مستحکم سائنسی اور سماجی دلائل سے ثابت کیا جائے کہ خاندان انسانی معاشرے کی ضرورت ہے اور یہ کہ خاندان کے وجود کے لیے مردو عورت کے مخصوص صنفی و سماجی کرداروں کو تسلیم کیا جائے اور اس بنیاد پر قانونی طور پر تسلیم شدہ مرد ’شوہر‘ اور عورت ’بیوی‘ مل کر اپنے بچوں کی پرورش کریں___ نام نہاد غیر روایتی خاندان سے خاندان کاکوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔اور خاندان کی بقا کا کوئی راستہ اسلامی اخلاقیات کے سوا ممکن نہیںہے۔پھر اس بات کی زبانی شہادت کے ساتھ ساتھ عملی شہادت بھی دیں، جو اسی وقت ممکن ہے، جب ہمارے خاندانوں میں اسلامی احکام نافذ ہوں اور ہمارے خاندان، اسلام کی رحمتوں اور ثمرات کے عملی نمونے بن جائیں۔
جدیدیت اور اسلام کے تصوراتِ زندگی میں جو فرق ہے، ان میں ایک نمایاں فرق خاندان کے ادارے کے حوالے سے ہے۔ اسلام، خاندان کے ادارے کو اہمیت دیتا ہے۔صنفی عدل کے حوالے سے اسلام کے اور جدید نسائی تحریکات (Feminist Movement)کے تصورات میں جو اصل فرق ہے، اس کا تعلق درج ذیل تین سوالات سے ہے:
۱- مرد اور عورت مل کر ایک خاندان بنائیں، کیا یہ ایک تمدنی ضرورت ہے؟ کیا بچوں کا یہ حق ہے یا نہیں کہ انھیں پرورش کے لیے ایک شفیق خاندان کا آسرا میسرہو؟
۲- کیا خواتین کا علیحدہ تشخص ہے یا نہیں؟ کیا صنفی فرق صرف جسمانی ساخت کا فرق ہے یا سماجی اور نفسیاتی سطحوں پر بھی مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق پایا جاتا ہے؟ یعنی کیا دونوںکی صورت حا ل ایک جیسی ہے یا الگ الگ ہے؟
۳- اگر خاندان کی ضرورت ہے تو وہ کیسے چلے؟ اس میں مرد اور عورت کا الگ الگ کردار اور ذمہ داریاں ہوں یا نہ ہوں؟ کیا مرد اور عورت کے الگ الگ کردار، مصنوعی طور پر معاشرے کے پیدا کردہ ہیں یا فطری حقائق کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں؟
بہت سے فیمی نسٹ ان سوالوں کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک خاندان ایک ’پدرشاہی‘( Patriarchal)ادارہ ہے۔ اس لیے مساوات کا تقاضا ہے کہ اسے ختم کردیا جائے۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق صرف حیاتیاتی ہے، اور یہ حیاتیاتی فرق بھی ختم ہونا چاہیے‘‘۔ مشہور فرانسیسی فیمی نسٹ سیمون ڈی بوایر اپنی کتاب The Second Sex [دوسری جنس] میں عورت کے جسم اور اس کے حیاتیاتی وجود ہی کو ’’عورت کے ساتھ ناانصافی قراردیتی ہے‘‘۔ اس کے بقول چونکہ تولید کے عمل میں جن مشقتوں سے عورت کو گزرنا پڑتا ہے، اُن سے مرد نہیں گزرتا۔ اس میں مساوات کے لیے ضروری ہے کہ اس حیاتیاتی رکاوٹ پر قابو پایا جائے۔ حقیقی انصاف اس وقت ہوگا جب افراد کو اپنی جنس منتخب کرنے کا حق حاصل ہو‘‘۔
ان معاشروں کے نزدیک: ’’ مردوں اور عورتوں کے الگ الگ سماجی رول، روایتی معاشروں کے پیدا کردہ ہیں اور روایتی سماجوں میں ہمیشہ مردوں کا تسلط رہا ہے۔ اس لیے عورتوں کے استحصال کے لیے انھوں نے یہ تصورات گھڑ رکھے ہیں۔ اول تو خاندان ضروری نہیں ہے، لیکن اگر مرد اور عورت مل کر ہی خاندان بنائیں تو اس میں مرد کا الگ رول اور عورت کا الگ رول ضروری نہیں۔ ہرکام جو مرد کرسکتا ہے، وہ عورت بھی کرسکتی ہے۔ اس لیے سماج کا پیدا کردہ ہر فرق ختم ہونا چاہیے۔ ان افکار کے نتیجے میں تشکیل پانے والا تصور یقینا اس تصور سے مختلف ہوگا جو خاندان کے ادارہ کی اہمیت اور اس کے لازمی اور فطری تقاضوں کے شعور کے نتیجے میں تشکیل پاتا ہے۔ ان ’نسائی تصورات‘ نے مغربی معاشروں میں عورتوں اور مردوں کے درمیان بظاہر غیر فطری مساوات تو قائم کردی، لیکن خاندان اور خود عورت کی ذات کو اس کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصانات اب بہت واضح بھی ہوچکے ہیں۔
اسلام کے مطابق مرد اور عورت کو اللہ نے الگ الگ سماجی کردار ادا کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ دونوں اصناف سماجی حیثیت کے لحاظ سے یقیناً برابر ہیں، لیکن ان کے جسم ، نفسیات اور معاشرتی کرداراور ذمہ داریوں میں فرق ہے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے تکمیل کنندہ (complementary) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حیاتیاتی لحاظ سے بھی اور معاشرتی لحاظ سے بھی۔ مردعورت کے بغیر نامکمل ہے اور عورت مرد کے بغیر۔ اللہ نے ان کے درمیان حیاتیاتی فرق پیدا کیا ہے ، اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ ان دونوں سے الگ الگ حیاتیاتی کردار اور ذمے داریاں بھی متوقع ہیں۔
نہ مرد اکیلے بچے پیدا کرسکتا ہے اور نہ بچوں کی پیدائش میں وہ کردار ادا کرسکتا ہے جو عورت کے لیے مخصوص ہے۔اسی سے خود بخود سماجی فرق واقع ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی پرورش میں بھی بعض کردار ایک عورت ہی ادا کرسکتی ہے، مرد ادا نہیں کرسکتا۔ ماں کی کوکھ سے پیدا ہونے کی وجہ سے اور اس کا دودھ پینے کی وجہ سے جو ُانس اور قربت بچے ماں کے تئیں محسوس کرتے ہیں، وہ باپ سے نہیں کرتے۔بچوں کے باپ سے تعلق اور محبت کی نوعیت اور ماں سے تعلق کی نوعیت میں واضح فرق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان فطرت نے صرف جسمانی فرق نہیں رکھے بلکہ مزاج اور نفسیات کے بھی واضح فرق رکھے ہیں۔ عام طور پر ایک مرد، عورت سے زیادہ جسمانی طاقت رکھتا ہے۔ عام طور پر شیر خوار لڑکے بھی ٹرک اور کار کے کھلونے اٹھاتے ہیں اور شیرخوار لڑکیاں، گڑیاں اٹھاتی ہیں۔ اسکول میں لڑکے کچھ اور مضامین میں اچھے ہوتے ہیں اور لڑکیاں کچھ دوسرے مضامین میں۔ ان کے دماغ واضح طور پر ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ یہ سب حقائق اس بات کی دلیل ہیں کہ مردوں اور عورتوں میں معاشرتی کردار کے اعتبار سے بھی فرق ہے۔
جدید فیمی نسٹ تصور میں اور اسلام میں اصل فرق یہی ہے کہ اسلام کے نزدیک ’’خاندان ایک بڑی انسانی ضرورت ہے اور اس ادارہ کا تحفظ ہونا چاہیے۔ خاندان کے اس ادارہ کے تحفظ کا فطری طریقہ یہی ہے کہ مرد اور عور ت اپنے فطری دائروں میں اپنے اپنے رول ادا کریں۔دونوں کے رول چونکہ الگ الگ ہیں، اس لیے اس حوالے سے انصاف کے تقاضوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہوگا۔ کچھ خصوصی مراعات عورت کو اس کردار کی وجہ سے حاصل ہوں گی تو کچھ اضافی اختیارات مرد کو اس کے رول کی وجہ سے۔ ماں کے حقوق باپ سے زیادہ ہیں۔ بیوی کو خصوصی معاشی مراعات حاصل ہیں۔ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کی پرورش کا زیادہ ثواب ہے۔دوسری طرف مرد کو قوام کی حیثیت میں بعض اضافی اختیارات حاصل ہیں۔ اس فرق کا مقصد یہ ہے کہ دونوں اصناف اپنے اپنے دائروں میں اپنے تمدنی فرائض بہتر انجام دے سکیں اور اس کے نتیجے میں ایک خوش حال خاندان اور ایک خوش حال معاشرہ وجود میں آسکے‘‘___اسلام میں صنفی عدل کے تصور کو سمجھنے کے لیے ان بنیادی تصورات کو سمجھنا ضروری ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو خاندان کے سلسلہ میں اسلام کے وژن میں اور جدید فیمنسٹ وژن میں پایا جاتا ہے۔
چونکہ اسلام کے نزدیک خاندان، معاشرے اور تمدن کی بنیادی ضرورت ہے، اس لیے اس ضرورت کی تکمیل کے لیے اس نے مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض میں بعض فرق رکھے ہیں۔ پیدایش و رضاعت کی اہم تمدنی ضرورت کی تکمیل کے لیے عورت کو پُرمشقت مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ فرق کسی معاشرے کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ فطری ہے۔ بچوں کی یہ ضرورت ہے اور ان کا حق ہے کہ ان کی پرورش ماں کے شفیق آنچل کے زیر سایہ ہو۔ماں سے جو قربت وہ محسوس کرتے ہیں اور جس طرح اس کا اثر قبول کرتے ہیں، اس کاتقاضا ہے کہ ان کی شخصیت ساز ی میں وہ اہم رول ادا کرے۔ خاندان کی اہم اکائی اور ادارہ کا نظم و انتظام بھی وقت اور توجہ چاہتا ہے۔ان سب ضرورتوں کی تکمیل کا کام اسلام نے عورت کے سپرد کیا ہے۔
ان کاموں میں اور اس کی جسمانی و نفسیاتی خصوصیات میں گہری مطابقت ہے ۔ یہ مطابقت سماجی اور تاریخی عوامل کی پیدا کردہ نہیں ہے، بلکہ فطرت کی پیدا کردہ ہے۔چنانچہ اسلام نے ان فرائض کی انجام دہی کے لیے عورت کو معاشی ذمہ داریوں سے فارغ رکھا ہے۔ خاندان کی کفالت شوہر کے ذمے ہے۔ بیوی اگر مال دار ہو تب بھی اس کی کفالت شوہر ہی کے ذمے ہے۔ مالی ضروریات کی تکمیل کے علاوہ بیوی کا تحفظ اور اس کی دل جوئی بھی شوہر کی ذمہ داری ہے۔ قوّام کی حیثیت سے اس کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ خاندان کی تمام ذمہ داری قبول کرے اور اسے ادا کرے۔اسلام نے عورت کو معاشی مصروفیت سے منع نہیں کیا، بلکہ اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اور شریعت کے حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے، وہ معاشی مصروفیت بھی اختیار کرسکتی ہے، لیکن یہ اس کی بنیادی ذمہ داری نہیں ہے۔اس طرح اسلام کی خاندانی اسکیم میں معاشرے اور تمدن کی اہم ضروریات کا لحاظ بھی ہے اور مرد ، عورت اور بچوں کے ساتھ مکمل انصاف بھی۔
صنف کی بنیاد پریہ تقسیمِ کار، مغرب زدہ خواتین کو اس لیے کھٹکتی ہے کہ فیمی نسٹ تصورات کی ایک اہم بنیاد نسوانی شخصیت اور نسوانی رول کا استخفاف ہے۔ان کے نزدیک ہوائی جہاز میں مسافروں کی خدمت اور دفاتر استقبالیہ پر مہمانوں کی دل جوئی تو قابل احترام مصروفیت ہے، لیکن نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور خاندان جیسے بنیادی ادارے کا نظم و انصرام کوئی بڑا حقیر کام ہے۔ان تصورات نے عورت کے تشخص ، اس کے جذبات و نفسیات اور اس کے کردار کی قدر و منزلت کو اتنا گھٹا دیا کہ عورت اپنے عورت پن پر شرمندگی محسوس کرنے لگی۔ اسلام نے عورت ہی کو نہیں اس کے نسوانی وجود کو عزت و احترام بخشا ہے۔ اسلام میں عورت کو سماج میں قدر و منزلت حاصل کرنے کے لیے مرد بننا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا خاندان کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے کہ اسلام کا نہایت معتدل نقطۂ نظر عام کیا جائے۔