اقبالؒ نے درست کہا تھا: ’’ہم سب مغربی تہذیب کے فُسوں میں مبتلا ہوچکے ہیں اور بغیر کسی مزاحمت و جنگ و جدال کےفرنگیوں کے ہاتھوں کشتۂ اَجل بن رہے ہیں‘‘۔ یہ حقیقت ہے کہ ذرائع ابلاغ کی بالادستی کے اس عہد میں ابلاغی جنگ اوراصطلاحات کے سہارے مغرب کا فُسوں، جادو اوراستکبار ، اپنی آخری حدوں کوچھورہا ہے۔ تحریف ِ لسانی اور اصطلاحات سازی بالادست تہذیب کے ہاتھ میں موجود دو بڑے خطرناک ہتھیار ہیں جواعصابی جنگ جیتنے میں اُس کے مددگار ہیں۔ اس میں عصرحاضر کی نئی اصطلاح ’کورونا‘ بھی شامل ہے۔
کورونا یا کووڈ-۱۹ کا فُسوں جاننےکے لیے ہمیں ’جدیدیت‘ (Modernism) اور ’مابعد جدیدیت‘ (Post Modernism)کے علمی پس منظر کا ادراک کرنا ہوگا کیونکہ مغرب نے گذشتہ لگ بھگ چار صدیوں سے ان اصطلاحات کے سہارے نوعِ انسانی کو خدا پرستی اور’عبدیت‘ کے حدود سے تجاوز کرکے انسان پرستی اور نفس پرستی اور طاغوت پرستی کے دھانے پرلاکھڑا کیا ہے، جو آسمانی تعلیمات اورصحف ِ سماویہ سے ہٹ کر انحراف کے ذریعے ایک نیا زمینی مذہب تشکیل دینے کے مترادف ہے۔ اس حقیقت کو اقبالؒ نے اپنے خطبات میں یوں واضح کیا ہے: ’’فطرت پر وسعت اور غلبے کی طاقت نے انسان کوایک نیا عقیدہ اور مذہب دیا ہے، لہٰذا ہمیں بھی اپنی اسلامی فکر کی تشکیل نَوکرنا ہوگی جس میں عیسائیت ناکام ہوچکی ہے‘‘۔
اقبالؒ کے نزدیک آسمانی مذہب عیسائیت مراد نہیں بلک وہ تحریف شدہ عیسائیت ہے جسے پادری چلا رہے تھے۔ جب دُنیا پرستی کے جلو میں عیسائیت پر الحادی قوتوں کی یلغار ہوئی تو ان پادریوں کو شکست ہوئی اور نمرودِ وقت پھر غالب آگیا۔
جب فرعون کو قارون کی دولت اور ہامان کے جنگی ہتھیاروں کی عسکری قوت حاصل ہوتی ہے تو فرعونیت جنم لیتی ہے جس میں نوجوان قتل کیے جاتے ہیں۔ انسا نیت کی تذلیل کی جاتی ہے۔ اُن کی خودی اورخودداری مٹا دی جاتی ہے اور انسانوں کو بے بس کرکے انھیں فرعون اورنمرود کی غلامی اختیارکرنے پرمجبور کیا جاتا ہے۔اس کش مکش موت و حیات اور فتنۂ حیات و ممات میں جینے کا ایک ہی راستہ اُن کے پاس رہ جاتا ہےکہ وہ جابر بندوں کی جھوٹی خدائی کو تسلیم کریں اور ان کے دَر پر سرجھکائیں ورنہ جان ، مال، اولاد اور انسانی شرف سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ طاغوتی طاقتوں کا یہ عصری بیانیہ بھی دراصل ایک مشرکانہ بیانیہ ہے جس کو حضرت ابراہیم ؑ نے نمرود کے بھرے دربار میں چیلنج کیا تھا۔اُس کا مکالمہ قرآن نے یوں محفوظ کیا ہے: ’’کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا، جس نے ابراہیم ؑ سےجھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیم ؑ کا ربّ کون ہے، اوراس بناپرکہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دےرکھی تھی۔ جب ابراہیم ؑ نے کہا کہ ’’میرا ربّ وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اورموت ہے، تو اُس نے جواب دیا: ’’زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے‘‘۔ ابراہیم ؑ نے کہا کہ ’’اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تُو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا‘‘۔ یہ سن کر وہ منکرِ حق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہِ راست نہیں دکھایا کرتا۔ (البقرہ ۲:۲۵۸)
انسان کے اختیاری معاملات، یعنی تشریعی اُمور (Moral laws)میں انسان کو مختار بنایا گیا ہے مگر تکوینی اُمور (Physical laws)یا God Action کے بارے میں حضرت ابراہیم ؑ کے توحیدی بیانیے نے نمرود کو حیرت زدہ کردیا کیونکہ باوجود پرلے درجے کے تکبر کے وہ یہ مانتا تھا کہ آفتاب و ماہتاب اُسی ایک خدا کے زیرفرمان ہیں مگر اختیاری اُمورمیں حضرت ابراہیم ؑ کی طرح ایمان لانے کا مطلب اپنی مطلق العنان فرماں روائی سے دست بردار ہوجانے کے تھے جس کے لیے اُس کے نفس کا طاغوت تیار نہ تھا (تفہیم القرآن، جلداوّل،ص ۱۹۹-۲۰۰)۔
طاغوتی قوتوں کی آسمانی عقیدہ و اعتقادکے خلاف جنگ کا آغاز سولھویں صدی میں نکولومیکیاولی (۱۴۶۹ء-۱۵۲۷ء)کی ۱۵۱۳ء میں بدنامِ زمانہ تصنیف ’شہزادہ‘ (The Prince) سے ہوا کیونکہ آسمانی اقدارکے مقابلے میں ’شہزادہ‘ مبہم ڈرامائی جنگ کا مرکزی کردار تھا۔ میکیاولی اس مذموم منصوبہ بندی کا خالق تھا جس کو اقبالؒ نے ’مرسلے از شیطان‘ کے لقب سے یاد کیا، یعنی ’شیطان کا بھیجا ہوا پیغمبر‘۔ میکیاولی نے جھوٹ، تحریف، دھوکادہی اوربددیانتی کے سہارےہیومنزم (Humanism) یا ’اکرام انسانیت‘ کے فلسفہ کو پروان چڑھایا تاکہ انسان تکبر اور گھمنڈ میں مبتلاہوکر خالق کائنات کےخلاف سینہ سپرہوجائے۔ یہ نمرود اور فرعون کی طرح سیاسی، تمدنی اورمعاشرتی اُمورمیں ایک خدا کی خدائی سلب کرنے کی شیطانی کوشش تھی جو ہیومنزم کی اصطلاح میں لپٹے ہوئے انسان کی خدائی کا جھوٹا دعویٰ تھا۔ اِس نظریے کو مارٹن لُوتھر (۱۵۶۴ء) نے مذہب کی شکل دی جو دنیاپرستی پر مبنی زمینی مذہب قرار پایا۔ اٹھارھویں صدی میں صنعتی انقلاب کی صورت میں بتدریج اس ہیومنزم کوعملی شکل دی گئی تو عقلِ انسانی کو ’وحی‘ کے مقابلے میں لاکھڑا کیا گیا۔ اس تحریف کے نتیجے میں افادیت پرستی (Utilitarianism) کو شریعت ِ الٰہی کا متبادل قراردیا گیا تاکہ وسائل دُنیا عین مقصد ِ زندگی بن جائیں اور خود غرض عقل اس کے پیچھے قوت ِمحرکہ۔ ان اصولوں اور اس کے عملی ڈھانچے کو جدیدیت یا Modernism کا نام دیا گیا جو دراصل ’انسان پرستی‘ کا مذہب تھا۔
اب، جب کہ ’مابعد جدیدیت‘ کے فلسفے کے نفاذ کا وقت آپہنچاتو ہیومنزم کی اصطلاح کو ’مابعدانسانیت‘ (Post Humanism)یا کا نام دیا گیا۔ ہیومنزم کے عہد میں خدا بیزار تہذیب نے خدا کےمرنے کا عقیدہ (نعوذ باللہ) تراشا تھا، جب کہ ’مابعد ہیومنزم‘ میں نیا فلسفہ Death of Man یااللہ کی شاہکار تخلیق ’انسان‘ کا خاتمہ ہے، جو کہ انسانیت کُش یا انسان کُش فلسفہ ہے جس میں آدمی کا وجود، اس کی خودی اور اس کی خودداری سب معرضِ خطر میں ہیں۔
اقبال نے آیت ِ قرآنی وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰) ’’ہم نے آدم ؑ کی اولاد کو عزّت و اِکرام بخشا‘‘ کی تشریح میں یہ فرمایا تھا:
(انسان کا مقام آسمان سےبھی بلند ہے اور احترامِ آدم ہی اصل تہذیب ہے)۔
اصطلاحات کی تحریف کے ذریعے آدم و اولادِ آدم کی تذلیل ایک ناقابلِ برداشت جرم ہے اور بنی آدم کی ہلاکت خیزی بہت بڑا شیطانی فعل ہے۔ اصطلاحات جدیدہ کے ارتقا پر وسیع پیمانے پر لٹریچر دستیاب ہے مگر دھوکا دہی کے طورپر یہ ادبی ذخیرہ تحریفات اورانحرافات کا مجموعہ ہے جس میں ظاہری اورباطنی طور پر صحف ِسماویہ کو تختۂ مشق بنایا گیا ہے اور اس فکرکو ’روشن خیالی‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
مغرب نے نشاتِ ثانیہ کے بعد کے اَدوار کو’روشن خیالی‘(Enlightenment) کی اصطلاح سے نوازا اور مذہب کو مسترد کرکے فکروعمل کا نیا ڈھانچا ترتیب دیا جس میں انسان کی اجتماعی زندگی میں خدا،اس کےرسولوںؑ اورآخرت کی زندگی اور آسمانی ہدایات کی کوئی گنجایش نہیں تھی،مگر انسان کو آزادی دینے کامُدعا سے جب یہ نظریہ ٹکرایا تو تحریف کے طور پر مذہب کوانسان کا ذاتی عمل قرار دیاگیا۔در اصل یہ خدا سے انکار کا نظریہ تھا اور اس کی بنیاد دُنیا پرستی تھی۔ اس لیے اس جعل سازی کو چھپانے کے لیے کئی اصطلاحات و تحریفات کا ارتکاب کیا گیا۔چونکہ جدیدیت کے اس عہد میں صحف ِ آسمانی پر ایمان کو منفی رجحان قراردیاگیا۔ اس لیے ۱۸۵۰ء میں اگست کانٹ نے ’مثبیت‘ یا Positivism کی نئی اصطلاح وضع کی۔ اس انحراف کے تسلسل میں نئے کلچر اور نئے اخلاقیات تصنیف کرنے کی ضرورت پیش آئی تو ۱۸۵۳ء میں بندے اورخدا کے درمیان ’عبدیت کے رشتہ کو کمزور کرنے کے لیے پہلی بار ایک انجمن مذہب انسانیت کے نام سے اجتماعی کاوش کا آغاز کیا گیا۔ انجمن نے خدائی’عہد الست‘کے برخلاف سائنس اور فلسفے کے ارتقاء پر نیا عمرانی عہد باندھا۔
بتدریج اقدار متعارف کراتے ہوئے ۱۸۷۶ء میں فلکس ایڈلر (Felix Adlor) ’تحریکِ اخلاقی ثقافت‘ کے نام پر ایک اصطلاح وضع کرکے مذاہب ِ آسمانی کے فرسودہ ہونے کا نیابیانیہ سامنےلایا اور مذہب انسانی کی اخلاقی ثقافت کے ساتھ پیوند کاری کی تاکہ اس نئی ثقافت کے احیا سے انسان کا وحی پر مبنی تہذیب و ثقافت سے رشتہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہوجائے۔ بغاوت اور انحراف پر مبنی ان اصطلاحات میں سوشلزم،کمیونزم، سیکولرزم اور کیپٹلزم پر مبنی نظریات دراصل Humanism یا’مذہب ِ انسانیت‘ کی توسیعی مہمات تھیں جو پےدرپے ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ طاغوتی قوتیں ردعمل کے طورپر شیطانی فلسفہ ’مابعد انسانیت‘ (Post Humanism) کی اصطلاح کا سہارا لے کر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ میدانِ عمل میں کُود پڑیں، تاکہ انسانوں کی ہلاکت کا وہ نقشہ دکھا دیں جس کے سامنے جنگ ِ عظیم اوّل ودوم کے اثرات بھی ماند پڑجائیں۔ یہ ایک نیا نظام یا ورلڈ آرڈر کے طورپرحال ہی میں پورے ابہام کے ساتھ نافذالعمل ہوا تاکہ کوئی مجرموں کے ٹولے کی نشان دہی بھی نہ کرسکے اورتحریفات سے خلافِ انسانیت جرائم کی پردہ پوشی ممکن ہو۔ تہلیک یا ہلاکت اس نئے مذہب کا مقصد ِ عظیم گردانا گیا مگر پردہ نشینوں نے گلوبلائزیشن کی قوت اورابلاغی یلغارکو ایک نیا طبّی مرض یا متعدی وائرس کے طورپر دُنیا کے سامنے متعارف کروایا، تاکہ تحریف سے ایک بار پھر انسانوں کو دھوکا اورفریب کا ہدف بنایا جاسکے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيْرًا ۰ۭ اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَـعْقِلُوْنَ۶۲ (یٰسٓ ۳۶:۶۲) شیطان نےتم میں سے گروہِ کثیر کو گمراہ کر دیا۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے؟
پھر تنبیہ کے طورپر اوّلین و آخرین کو مخاطب کیا جو شیطان اورشیطانی قوتوں کو دوست بناتے ہیں:
اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَہْلَكْنَا قَبْلَہُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّہُمْ اِلَيْہِمْ لَا يَرْجِعُوْنَ۳۱ۭ (یٰسٓ ۳۶:۳۱) کیا انھوں نے دیکھا نہیں کہ اُن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں اور اس کے بعد وہ پھر کبھی اُن کی طرف پلٹ کر نہ آئے؟
منحرفین کا جرم آیات کے معانی اور مقصد اُلٹا دیناہو توقرآن اس کو ’الحاد‘ کی اصطلاح سے یاد کرتا ہے، مثلاً اگر اوّلین کو آخرین یا قرون وقروناً کو ’کرونا‘ بنایا جائے اور خود خدا بن کر انسانوں کو ہلاکت کی نذر کیا جائے تو تحریف کے جرم کی نوعیت غیرمعمولی ہوجاتی ہے کیونکہ یہ اللہ اور رسولؐ سے مذاق اور دین کو کھیل بنانا ہے، اور مقصد انکارِ دین ہے۔
’مابعد انسانیت‘ کی مبہم اصطلاح اور مذہبی فکر اور صحف ِ آسمانی میں لادینی افکار داخل کرنے کے پس منظر میں ’کرونا‘ یا ’کووِڈ-۱۹‘ کی غیرواضح اورپُراسرر اصطلاح بھی لفظاً ومعناً تحریف ِ لسانی کی بنیادی کڑی نظر آتی ہے، جو ’ارھاب‘ (warfare) کے عربی لفظ میں تحریف کرکے terrorism (دہشت گردی) کے خاتمے کے نام پر خطرناک جنگ کی ناکامی کےمعاً بعد تلمود کی عبرانی زبان سے اخذکرکے سامنےلائی گئی۔ ان صحف ِ سماوی اورعہد نامہ قدیم وجدید کے اندر لفظی اورمعنوی تحریفات کی خودقرآن کریم شہادت پیش کرتا ہے۔ حال ہی میں اوکسفرڈانگلش ڈکشنری میں ’کورونا‘ کا اندراج بطور متعدی وبایا Pandemic ہواہے۔ اس پیوند کاری میں ’epidemic‘ اور ’endamic‘ کی دو انگریزی اصطلاحات بھی شامل ہیں۔ لسانی طور پریہ دونوں اصطلاحات تیزی سے پھیلنے والی وبااورجان لیوا مہلک مرض پر دلالت کرتی ہیں۔ endemic میں تحریف یا corruption کا مفہوم بھی شامل ہے اور غیراخلاقی رویّہ بھی جس کے ارتکاب سے کوئی بھی چیز، کلام اور متن کو اپنی اصلی حالت پر رہنے نہیں دیا جاتا بلکہ سیاق و سباق کے ساتھ متن کو بدل دیا جاتا ہے۔ اوکسفرڈ ڈکشنری اس کو بدعنوانی، چھوت یا نسل پرستی کی المناک وباسے بھی تعبیر کرتی ہے۔ یہ تحریف و انحراف ارادتاً طاقت کے زور پر کیا جاتا ہے (اوکسفرڈ ڈکشنری ، ساتواں ایڈیشن، ص ۳۴۴)۔
ذرائع ابلاغ میں غیرمعمولی تشہیر اور انجانے خوف کے اعتبار سے یہ نئی اصطلاح ’کورونا‘ اب Pendemic سے بڑھ کر Pandamonium کی اصطلاح کا رُوپ دھارچکی ہے جیساکہ کہا گیا: The situation in which there is a lot of noise, activity and confusion, specially because people are angry or frightened. ’’لوگوں کے غم و غصے اور خوف و اضطراب کی ایسی کیفیت جس میں چیخ و پکار، فعل و تحرک اورلوگوں میںابہام پایا جائے‘‘۔ (محولہ بالا، ص ۳۴۴)
انگریزی لُغت میں تحریف کرنے اورحقائق مسخ کرنے کے لیے Distortion کالفظ بھی مستعمل ہے، یعنی to change the shape, appearance or sound (شکل یا آوازیا حلیہ بگاڑ کر اسے تبدیل کرنا یا مسخ کرنا)۔ Distortion of facts on truth سچائی یا حقائق کو تحریف کے ذریعے مسخ کردینا(اوکسفرڈ ایڈوانسڈ لنرز ڈکشنری، ص ۴۴۴، ساتواں ایڈیشن)۔
چونکہ اصل انگریزی میں کورونا یا کووِڈ-۱۹ کی اصطلاحات ناپید ہیں، لہٰذا قدیم عبرانی لفظ سے اِن قدیم اصطلاحات کو distort یا تحریف کرکے ’طبی وبائی مرض‘ کے جھوٹے معنوں میں اس کو حال ہی میں انگریزی زبان کے ساتھ پیوند کاری کی گئی ہے۔
’کرونا‘ انگریزی اصطلاح نہیں بلکہ’کووڈ-۱۹ ‘ اور ’کرونا‘عبرانی زبان میں تلمود سے ماخوذ اصطلاحات ہیں جس کے الفاظ و معانی میں ردّ و بدل اور تحریف کرکے اِسے ۲۰۱۹ء میں پہلی بار ایک طبی وبا کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ کووڈ-۱۹ میں ۱۹ سےمراد ۲۰۱۹ء نہیں ہے بلکہ وہ مناجات ہے جس کا ذکر تلمود کی آیت ۱۹ میں آیا ہے۔ کورونا، پکارنا اورآواز دینےکو کہا جاتا ہے۔ تلمود کی ہدایت کے مطابق اس کا مفہوم ہے اپنے مسیحا کو پکارنااور ’آجائو، آجائو‘ یعنی ’کوروناکورونا‘ کا واویلا مچانا تاکہ اُن کا ہاشم، یعنی مسیحا اُن کی پکار سنے۔یہودی جب اپنی نماز میں عاجزی اور خشوع اختیار کرتے ہیں جس کوعبرانی میں Covidکہا جاتا ہے اور نماز کا ۱۹واں کلمہ تلمود میں اِن الفاظ میں ترجمے کے ساتھ موجود ہے:
19-Sim Shalom, Grant Peace, goodness, blessings, grace and kindness mercy upon us and upon all Israel your people.
پھر اس طرز پر ابلاغ اور وسائل ابلاغ کے زورسے ان کلمات سےوائرس اور بیماری ثابت کرناتحریف لسانی اور یہود کی پرلے درجے کی بددیانتی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس دھوکا دہی اور الفاظ و معانی کے ہیرپھیر سے نوعِ انسانی کو اپنے مقاصد کےلیے بہکایا جاتا ہے۔ قرآن نے واضح الفاظ میں یہودیوںپر تحریف کتاب کی فردِ جرم عائد کی ہے کیونکہ یہودی خود کو ابناء اللہ ’اللہ کے بیٹے‘ واحباءہ ’اور اس کے چہیتے‘ قراردیتے ہیں مگر اِن چہیتوں اور لاڈلوں کی مجرمانہ حرکات اور شاطرانہ چالوں پر گرفت کرکے اقبالؒ نے کہا تھا کہ ’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے‘۔اس شعرکے مصداق اب ’مابعد انسانیت‘ اور ’کرونا‘ کے پس منظر میں تمام انسانیت(Humanity) بنی اسرائیل کے ہاتھوں موت کے گڑھے کے کنارے آکھڑی ہے جو تحریف کے مجرم ہونے کےعلاوہ عَدواللہ اور عدوالنَّاس ،مخلوق کے دشمن کا شاطرانہ کردار ادا کررہے ہیں۔
امام راغب اصفہانی (۵۰۲ھ) نے مذکورہ آیاتِ قرآنی کے ضمن میںتحریف کے معانی کا تعین کیا ہے۔ الحرفُ وہ چیز جس میں :
۱- تلخی اورحرارت آگئی ہو اورحلاوت سے پھیردی گئی ہو۔(مفردات القرآن، جلددوم، ص۲۴۷-۲۴۸، ترجمہ:مولانا محمدعبدہٗ)
۲- تحریف کے معنی کسی چیز کو ایک جانب مائل کردینا جیسے تحریف القلم، قلم کو ٹیڑھا قط لگانا۔
۳- تحریف الکلام کے معنی ہیں: کلام کو اس کے موقع و محل اورسیاق وسباق سے پھیر دینا تاکہ دومعنوں کا احتمال پیدا ہوجائے۔
۴- المحارف سے مرادوہ شخص جوخیرسے محروم اورطرف دارہو۔
۵- انحرف عن کذا وتحرف: کسی چیز یاحقیقت سے کنارہ کشی کرنا اور ایک جانب مائل ہونا۔ (حوالہ مذکور ہ بالا)
صحف ِ سماویہ میں الفاظ و معانی اوراصطلاحات کی تحریفات میں منفی پہلو سے لغت کے تمام معانی براہِ راست شامل تھے۔ تاہم، عربی کے علاوہ میڈیا اور عصری انگریزی لُغت میں ایسی اصطلاحات متعارف کی گئی ہیں، جو جنگ کا مفہوم دیتی ہیں۔ ارھاب اورحرب عربی میں جنگ(warfare) کو کہتے ہیں۔ اس سے منحرف اصطلاح انگریزی میں ’حاروب‘ یا تکنیکی جنگ Haarp زبان زدِعام ہے جو بذاتِ خود ٹکنالوجی کے جدید وسائل کے ذریعے ایک بھرپور Techno warfare پر دلالت کرتی ہے۔ اس لیے اصطلاحات کی جنگ کو قرآنی آیات کی روشنی میں’تحریفی جنگ‘ یا ’ابلاغی جنگ‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ارھاب(Terror) اور رھبۃ خوف کے معنی میں اور ترھبون:تخافون کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
امام راغب کےنزدیک وایای فارھبون (اور تم مجھ ہی سے ڈرو) میں مذکورہ رھبۃ ایسے خوف کو کہا جاتا ہے جس میں احتیاط اوراضطراب شامل ہو۔
’ارھاب‘ کو انگریزی اصطلاح terrorism کے رُوپ میں تحریف کرکے پچھلے دو عشروں کے دوران ذرائع ابلاغ نے مسلمانوں کو دُنیا میں دہشت گردی کا مجرم ٹھیرایا مگر عوام الناس نے جھوٹ پر مبنی اس تحریف سے بالآخر برأت کا اظہار کیا تو انسانیت کو سزا دینے کے لیے اصطلاح ’کرونا‘ کی خوفناک صورت سامنے آگئی جو خوف واضطراب پر مبنی نفسیاتی، اعصابی اور عملی طورپربھرپور جنگ ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں صحف آسمانی میں تحریف سے متعلق علمی مباحث اور مناظرے تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاجِ برطانیہ نے جب برصغیر پر قبضہ جمایا تو انھوں نے عیسائی مشنریوں کا ہندستان میں جال پھیلا دیا تاکہ طاقت کے زور پر مقامی لوگوں کو اُن کے مذہب سے پھیر لیا جائے۔ ان پادریوں کے خلاف مسلم علمائے کرام کے مناظرے جو تحریف صحف ِ سماویہ سے متعلق تھے، ریکارڈ پرہیں۔
۱۰؍اپریل ۱۸۵۴ء کو جنگ آزادی سے قبل فنڈر نامی ایک عیسائی پادری کی قیادت میں جس کو پادریوں اور پنڈتوں کی پوری فوج کی مدد حاصل تھی، دو معروف علما مولانا رحمت اللہ کیرالویؒ اورمولانا وزیرخانؒ کا مناظرہ ہوا۔ مباحثے اور مناظرے کا موضوع تحریف انجیل و تنسیخ انجیل تھا۔ جب مسلم علما نے اپنے دلائل پیش کیے تو فنڈر پادری نے تحریف بائبل کو تسلیم کیا۔
۱۸۷۶ء اور۱۸۷۷ء میں شاہ جہاں پور میں اپنی نوعیت کے دونئے میلہ ہائے ’خدا شناسی‘ منعقد ہوئے۔ طے شدہ ایجنڈے کے مطابق ۱۸۷۶ء کے میلے میں وید، بائبل اور قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے پرہندوئوں، عیسائیوں اورمسلمان علما نے دلائل دیئے کہ تحریفات کے بعدان کتابوں کی حیثیت کیا ہے؟ ۱۸۷۷ء میں مولانا قاسم نانوتویؒ نےقرآن کی اَبدیت اور محفوظ ہونے پر دلائل پیش کیے جو مباحثہ شاہ جہاں پور کے نام سے اُن کی کتاب میں مندرج ہیں۔ مولانا نانوتویؒ کی حیثیت برصغیر میں اس وقت وہی تھی جو افریقہ میں مسلم عالم احمد دیدات کی یا اُن کے ممتاز شاگرد ڈاکٹر ذاکر نائیک کی اب عالمِ اسلام میں ہے۔ بدقسمتی سے ہندستان کے اندر ان مناظروں کو سیکولر انگریز حکومت کی تائید حاصل تھی جن کا نعرہ تھا: ’’زمین خدا کی، رعایا بادشاہ کی اور حکم کمپنی بہادرکا‘‘ جوکہ ایک مشرکانہ بیانیہ تھا جس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ کمپنی بہادر کے حکم کی تحریف شامل تھی۔
سورئہ مائدہ ، آیت ۴۱ میں یہودیوں کو براہِ راست مخاطب کرکے ارشاد ہوا:
وَمِنَ الَّذِيْنَ ہَادُوْا۰ۚۛ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِيْنَ ۰ۙ لَمْ يَاْتُوْكَ۰ۭ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ۰ۚ يَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِيْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا۰ۭ وَمَنْ يُّرِدِ اللہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَہٗ مِنَ اللہِ شَـيْـــــًٔـا۰ۭ (المائدہ ۵:۴۱) اُن میں سے جو یہودی ہیں، جن کا حال یہ ہے کہ جھوٹ کے لیے کان لگاتے ہیں اور دوسرے لوگوں کی خاطر، جو تمھارے پاس کبھی نہیں آئے سُن گن لیتے پھیرتے ہیں، کتابُ اللہ کے الفاظ کو اُن کا صحیح محل متعین ہونے کے باوجود اصل معنی سے پھیرتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمھیں یہ حکم دیا جائے تو مانو، نہیں تو نہ مانو۔ جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا ہو، اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کرسکتے۔
مدینہ کی ریاست کے اندر یہودی معاہدے یا میثاقِ مدینہ کے تحت اسلامی ریاست کی رعایا تھے مگردھوکا دہی کے ذریعے اللہ کی آیات کے معنی بدلنے میں اور رسولؐ اللہ کی جاسوسی کرنے میں وہ طاق تھے۔ اس لیے قرآن نے صحابہؓ اور پیغمبرؐ خداکو تنبیہہ فرمائی اور ارشاد ہوا:
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللہِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۷۵(البقرہ ۲:۷۵)اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم توقع رکھتے ہو کہ یہ تمھاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ اُن میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کردانستہ اس میں تحریف کی۔
اس دانستہ تحریف میں الفاظ قرآنی کا اُلٹا مفہوم پیش کرنا بھی ایک حربہ ہے جیسے اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ کی بجائے رحمآء علی الکفَّار واشداء بینھم کا مفہوم پیش کرکے منحرفین یہود، مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے ہیں اور قرآن کو نشانۂ تضحیک بناتے اور مذاق اُڑاتے ہیں۔
تحریفات کے تدارک کے لیے قرآن نے ایسے تمام ذومعنی ، مبہم اورمحرف کلمات اور اصطلاحات کے استعمال سے مسلمانوں کو منع کیا تھا جس کا مقصد کلام اللہ میں معانی کی تبدیلی، ذاتِ گرامی رسولؐ پر طنز و استہزا اور دین و شریعت میں طعنہ زنی کا پہلو نکلتا تھا۔ یہودیوں کی شہ پر منافقین اِن تحریف لسانی کے وسائل کو استعمال کرکے مقاصد ِ شریعت کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے تھے اور مسلمانوں کا مذاق اُڑاتے تھے۔ قرآن نے ان مذموم حرکات و سکنات اور اشارات کو لَيًّۢا بِاَلْسِنَتِہِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّيْنِ۰ۭ (النساء ۴:۴۶) (وہ تحریف ِ لسانی کرتے ہیں اوردین میں طعنہ زنی کرتے ہیں) کہہ کر اُن کے مبہم تحریفات کے استعمال سے منع کیا اور راعنا کے لفظ کو بد ل کر اںظرنا کا متبادل الفاظ استعمال کرنے کا حکم دیا کیونکہ دشمنانِ حق اس لفظ کو زبان کا چکمہ دے کر راعینا بناتے تھے، یعنی اس میں ’’اے ہمارے چرواہے‘‘ کی طنز وتشنیع کی کاٹ اور مبہم تحریف شامل ہوتی تھی۔
سورۃ المائدہ میں ارشاد ہوا:
يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ۰ۙ وَنَسُوْا حَظًّا مِّـمَّا ذُكِّرُوْا بِہٖ۰ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰي خَاۗىِٕنَۃٍ مِّنْہُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْہُمْ (المائدہ ۵:۱۳) ان سخت دل لوگوں کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا اُلٹ پھیر کرکے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں، جو تعلیم انھیں دی گئی تھی اس کا بڑا حصہ بھول چکے ہیں، اور آئے دن تمھیں اُن کی کسی نہ کسی خیانت کا پتاچلتا رہتا ہے۔ اُن (یہودیوں) میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئےہیں۔
دوسری جگہ پر مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ (۵:۴۱) استعمال ہوا ہے، یعنی سیاق و سباق اور معنیٔ اصلی متعین ہونے کے بعد اِن کے کلام اللہ اور صحفِ سماویہ میں تحریف اِن کی دیدہ دلیری کا ثبوت اور جرمِ عظیم کی شہادت ہے جو انحراف اور بغاوت کے مترادف ہے۔
سرکش کفّارِ مکّہ نے پیغمبرؐ خدا سے تحریف سے بڑھ کر یہاں تک کا مطالبہ پیش کیا تھا کہ ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ۰ۭ (یونس ۱۰:۱۵)’’اس قرآن کے علاوہ کوئی قرآن لے آئو یا اُسی میں تبدیلی کرو‘‘۔ لہٰذا قرآن نے اسلامی معاشرے کو ان اصطلاحات کے استعمال سے بروقت روک دیا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک ہم نے بنی آدم ؑ کو شرف و تکریم سے نوازا‘‘(بنی اسرائیل ۱۷:۷۰) مگر کرونا کے ہاتھوں یہ تکریم انسانی اب خاک آلود ہوچکی ہے۔ اگرچہ کرونا وائرس کی ہیئت ترکیبی اور وقوع پذیر حالات کی تفصیل اس وقت میرا موضوع نہیں ہے، تاہم اسباب کی دُنیا سے قطع نظر المناک واقعات کے حولے سے کرونا کے ہاتھوں انسان، انسانی خودی اور خود انسانیت جس ذلّت و ہلاکت سے دوچار ہے، جنگ ِ عظیم کے بعد یہ اس صدی کا سب سے بڑافساد ہے جس کی زد میں پورا کرئہ ارض آچکا ہے۔ وقفے وقفے سے پچھلے ایک سال کے دوران کووڈ-۱۹ کی ریڈیائی لہریں کہیں مُردہ وائرس کا حامل بن کر، کبھی زندہ وائرس اور کبھی سپر وائرس کے حاملین (Silent Carriers) بن کر ہلاکت خیزی دکھارہی ہیں اور انفرادی اور اجتماعی طور پر ہرانسان موت و زیست کی کش مکش میں مبتلا ہوچکا ہے اورعاجزی کے ساتھ خلاصی کے لیے چیخ و پکارکر رہا ہے۔
سورئہ روم میں قرآن نے فسادِ ارضی کا جو نقشہ کھینچا ہے ، حالات اس کے مشابہ ہیں۔ فرمایا گیا:
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۴۱ (الروم ۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے ، تاکہ مزا چکھائے اُن کو اُن کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔
علامہ امام راغب اصفہانیؒ (۵۰۲ھ) اپنی معروف لغت مفردات قرآنی میں اس آیت میں مذکور فساد اور کسب کے لغوی معنی کا تعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’فساد‘ کسی چیز کے حد ِ اعتدال سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں چاہے وہ افراط کی صورت میں ہویا تفریط کی صورت میں۔ اَفسدُوہ فُلَانًا، ’فلاں نے اس چیز کا توازن بگاڑا‘۔ یا اس بااختیار شخص نے اپنی فتنہ انگیزی کے ذریعے حیوانوں اور انسانوں کی نسل کو نابود کر دیا، لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۰ۭ (البقرہ ۲:۲۰۵)۔ مفسد کے مقابلے میں مصلح فساد کو روکنے اور اصلاح کرنے کو کہا جاتاہے۔ وَاللہُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ۰ۭ (البقرہ ۲:۲۲۰) ’’اللہ خوب جانتا ہےکہ خرابی کرنے والے کون ہیں اور مصلح کون؟‘‘
ایک ہزار سال پہلے کا یہ عالم باکمال لفظ ’کسب‘ اور ’اکتساب‘ کی بھی لغوی تشریح کرتے ہیں۔ کسب بھی ایسی چیز کا قصد کرنا یا ارادہ کرنا جو مفید اور نفع بخش ہو، چاہے وہ ذاتی اغراض کے لیے ہو یا دوسروں کی افادیت کے لیے، جب کہ اکتساب اس کام کو کہتےہیں جس میں انسان کی ذاتی غرض مطلوب ہو۔ لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ۰ۭ(البقرہ ۲:۲۸۶)’’ہرشخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے،اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے‘‘۔
بعض نے کسب سے مراد اُخروی اعمال لیا ہے اور اکتساب سے مراد دُنیوی کسب و پیشہ۔ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا كَسَبُوْا۰ۚ (الانعام ۶:۷۰) کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ یہ لوگ اپنی شامتِ اعمال کے وبال میں پکڑے گئے۔ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا (الروم ۳۰:۴۱) ’’تاکہ اللہ اُن کو اُن کے بعض اعمالِ بد کا دُنیا میں مزا چکھادے‘‘۔(مفردات قرآنی،جلددوم،ص ۳۵۲)
امام راغبؒ فسادِ انسانی کے مترادف لفظ فتنۃ کی لغوی تعبیر پیش کرتے ہیں اور اس کا موازنہ قتل سے کرتے ہیں۔قتلت فُلانًا قتلتہُ ’’میں نے فلاں کو ذلیل کر کے رکھ دیا‘‘۔ والفتنۃ اَشد من القتل (یہ کہ فتنہ، قتل سے زیادہ سخت ہے)۔
’قتل‘ کے لفظ میں معنی کی نسبت قتل کرنے والے قاتل کی طرف ہوتی ہے، جب کہ فتنہ میں قتل ہوتا ہے مگر قاتل کی طرف نسبت نہیں ہوتی (یا قتل پسِ پردہ قاتل کی طرف سے ہوتا ہے)۔ لہٰذاقرآن نے قتل سے فتنہ کو اشد قراردیا ہے: وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّۃً۰ۚ (الانفال ۸:۲۵) ’’اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو‘‘۔
اخفش نے فتنہ کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے: ایک میسور اور دوسرا معسور، یعنی عُسر اور یسرکا فتنہ (مفرداتِ قرآنی، ص ۲۲۳)۔ وَحَسِبُوْٓا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ (المائدہ ۵:۷۱) ’’وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ بلا اُن پر نازل نہ ہوگی‘‘۔
امام راغب ؒکے نزدیک فتنہ کا مفہوم بلا، مصیبت، عذاب و آزمایش، قتل اور دھوکا دہی کے لیے استعمال ہوا ہے۔تحریف اور انحراف کی بدترین شکل جو عصر حاضر میں فتنہ کی بدترین شکل اختیار کرچکا ہے اورذرائع ابلاغ پورے زور سے اس آگ کو بھڑکا رہے ہیں، وہ عمل انسانی (Human action) اور عمل خدائی (God action) میں فرق نہ کرنے کا فتنہ ہے۔ اکیسویں صدی سائنس اور ٹکنالوجی کے عروج کی صدی ہے۔ انسانی فن و پیشہ اپنے حد ِ کمال تک پہنچ چکا ہے۔ بحروبَر کی کائنات سائنسی لحاظ سے تسخیر ہوچکی ہے اور یہ تسخیر ہائیڈرو سفائر اور آئیونو سفائر پر بھی محیط ہے، جہاں پر میزانِ کائنات قائم ہے:
وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ۷ۙ اَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيْزَانِ۸ (الرحمٰن۵۵: ۷-۸) آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو۔
عہد ِ حاضر میں فساد کی بدترین صورت فطرت کے نظام میں خلل ڈالنے اوراُسے عدم توازن کا شکارکرنے کی صورت میں نمودارہورہا ہے۔ آواز، بادل اوربارشوں کےراستے سائنس اور ٹکنالوجی کی زَد میں ہیں۔ وائرس سمیت فضائے بسیط کے اندر آواز کی لہروں اور صورتوں کا اپنی مرضی سے انتقال انسانی ٹکنالوجی کی ترقی کے باعث مسخر ہوچکا ہے جو انسان کی منفعت کے لیے ہی نہیں بلکہ مضرتِ انسانی اور خاتمۂ انسان کے لیے اس کا استعمال ہونا ممکن ہوگیاہے۔ حال ہی میں اسٹیفن بربرچر کی کتاب Post-Humanismکے نام سے شائع ہوئی (۲۰۱۲ء) جس میں عہدحاضر کے جدیدنینو ٹکنالوجیز اور اطلاعی ، طبّی مہارتوں وغیرہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو انسان کے لیے بشمول وسائل ترسیل مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اخلاق سے ماورا سچائی اور جھوٹ کا حوالہ پیش کرکے وہ لکھتے ہیں: ’’اخلاقی حس سے میراسچ اور جھوٹ کا تصور وہ پہلا نکتہ ہے جہاں سے ماوراانسانیت کی تحریک شروع ہوتی ہے‘‘۔
یہ تحریف جو سچ اور جھوٹ کو اخلاقیات سے پاک کردے ہمارے ابلاغی نظام کو کس انحراف سے دوچار کرے گا؟ یہی پوسٹ ہیومنزم کے تصور کو سمجھنے کے لیے کافی ہے، جہاں پیغمبروں ؑ کی شریعت کے برعکس جھوٹے ضوابط اور جھوٹے معیارات سے انسانوں کو بہلایا اور پھسلایا جائے گا۔ اور ہر مذموم اور قابلِ مذمت عمل کو محمود اورمعیاری قراریا جائے گا۔ ایسے ہی تحریفی ضوابط ِ عمل یا آپریشنل سٹینڈرز کا تصور میکیاولی نے بھی پیش کیا تھا۔
قرآن نے ایسے شریر دماغوں اور بدعمل اور بُری چال چلنےوالوں کا محاسبہ سخت الفاظ میں کیا ہے اور اُن کو ’تقلب‘ اور ’تخوف‘ میں پکڑنے کی وعید سنائی ہے:
اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ يَّخْسِفَ اللہُ بِہِمُ الْاَرْضَ اَوْ يَاْتِيَہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ۴۵ۙ اَوْ يَاْخُذَہُمْ فِيْ تَقَلُّبِہِمْ فَمَا ہُمْ بِمُعْجِزِيْنَ۴۶ۙ اَوْ يَاْخُذَہُمْ عَلٰي تَخَــوُّفٍ۰ۭ فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۴۷ (النحل ۱۶: ۴۵-۴۷)پھر کیا وہ لوگ (جو دعوتِ پیغمبر ؑ کی مخالفت میں) بدتر سے بدتر چالیں چل رہے ہیں اس بات سے بالکل ہی بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ اُن کو زمین میں دھنسا دے یا ایسے گوشے سے اُن پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کےآنے کا اُن کو وہم و گمان تک نہ ہو، یا اچانک چلتے پھرتے اُن کو پکڑ لے یا پھر (تخوف کی) ایسی حالت میں اُنھیں پکڑے، جب کہ انھیں خود آنےوالی مصیبت کا کھٹکا لگا ہوا ہو اور وہ اس سے بچنے کی فکر میں چوکنّے ہوں؟ وہ جو کچھ بھی کرنا چاہے یہ لوگ اُس کو عاجز کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا ربّ بڑا ہی نرم خُو اور رحیم ہے۔
’تخوف‘ کی اصطلاح کا انگریزی ترجمہ علّامہ محمد اسد نے slow distruction بتدریج تباہی اور اخلاقی اقدار کی پراگندگی متعین کیا ہے اور بُری چال چلنے والوں ’مکروالسیات‘ کا ترجمہ Who devise evil schemesلکھا ہے۔
اس قرآنی اصطلاح کی تشریح میں وہ امام زمخشریؒ اور امام طبریؒ کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں:
In the above context, the term has obviously both a social and moral connotation, and graceful disintegeration of all ethical values of power, of civic cohesion of happiness and finally of life itself. (The Message of Quran, p479, published by Islamic Book Trust, Kualalmpur).
مذکورہ بالا سیاق و سباق میں ’تخوف‘ کی اصطلاح سماجی اور اخلاقی دونوں مفاہیم کا احاطہ کرتی ہے، یعنی قوت کے مصادر سے اخلاقی اقدار کی بتدریج علیحدگی، باہمی تعلقات اور ملاپ میں عمل جدائی، خوشی کا درہم برہم ہونا اوربالآخر زندگی ہی کا خاتمہ اس اصطلاح کے مفہوم میں شامل ہے۔
اس کے برعکس خوش حالی اور امن و تعیش کی حالت ’تقلب‘ کی اصطلاح کےطور پر قرآن میں استعمال ہوئی ہے، جس میں فکروعمل کی تبدیلی کا مفہوم بھی شامل ہے۔ مجموعی طورپر عُسر کے ایام کو تخوف اور آسانی اور یُسر کے ایامِ زندگی کو تقلب کے اَدوار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ طاغوت کے زیراثر جب انسان نے تبدیلی یا Transformation کے عمل میں اللہ سے تعلقِ بندگی توڑنے کا فیصلہ کیا تو مفہوم المخالفۃ کی تحریف کے ذریعے یا Reversal interpretation کے طور پر ان دونوں قرآنی اصطلاحات کا بھرپوراستعمال کیا گیا اور بزعمِ خود خدا بن کر ترغیب و ترہیب کی عالمی پالیسی اپنائی گئی جس نے پچھلی دو صدیوں کے دوران ماڈرنزم اور ہیومنزم کے عقیدے کی صورت میں انسانی فکروعمل کے زاویوں کو بھی بدل دیا اور اکیسویں صدی میں پوسٹ ہیومنزم کے تخوف سے انسانوں کو دوچار کردیا تاکہ وہ فتنۂ موت و حیات کے ساتھ ساتھ ضعف ِ ارادہ و عمل کی آزمایش سےبھی دوچار ہوں اورعُسر کی تکالیف کا سامنا کریں۔
مقدمہ ابن خلدون میں حضرت عمرؓ کا واقعہ درج ہے کہ انھوں نے منبر پر تخوف کی آیت تلاوت فرمائی اور اصطلاح کا معنی دریافت کیا۔ ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا کہ اس آیت میں تخوف بمعنی تنقص استعمال ہوا ہے، یعنی نفس انسانی کا نقصان (مقدمہ ابن خلدون، ص ۴۸۰)۔
اس اشرف مخلوق کے لیے شریعت الٰہی میں ’عبدیت‘ کا خدائی ضابطہ ہے، جو ارادئہ الٰہی یا رضائے الٰہی کا مظہر ہے۔ اس تفویض کردہ delegated will یعنی ارادئہ انسانی سے عرفانِ ربّ اور عرفانِ ذاتِ انسانی دونوں ممکن ہیں۔ تاہم، صنعتی انقلاب میں تحریف کے ذریعے آزادی (liberty) کا مفہوم ’عبدیت‘ کی حقیقت سے انسان کی آزادی کو قرار دیا گیا۔ اس فکر کو انسان کی خودمختاری یا soverignity قرار دیا گیا۔ متعدد اصطلاحات انسان پرستی یا ہیومنزم، ریشنلزم یا مفادپرستی یا Utilitarianism وغیرہ ’عبدیت‘ کی فکر کو توڑنے مروڑنے کے لیے انسانی سوچ اور تحریفات کا نتیجہ تھے۔
نکولومیکیاولی (۱۴۶۱ء-۱۵۲۹ء)، زونگلی (۱۵۳۱ء) ایراسمس مانڈیس (۱۵۳۶ء)، مارٹن لوتھر (۱۵۴۶ء) اور کولون (۱۵۶۱ء) کے نام سے ان پانچ ہم عصر شخصیات نے اپنی شرانگیز فکر سے اس ابلیسی مشن کو ریاستی قوت سے آگے بڑھایا۔ اُن ہی کی طرح، عصرحاضر کی معاصر پانچ متمول شخصیات نے ہیومنزم کے برعکس پوسٹ ہیومنزم یامابعد انسانیت کے فلسفے کو پچھلے چند سال میں بامِ عروج تک پہنچایا ہے اور فرعونیت اور قارونیت کے مرتبے پرفائز ہوچکے ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر میں وہ انفوٹکنالوجی، نینو ٹکنالوجی، سائبرٹکنالوجی اور بایوٹکنالوجی کے بلاشرکت غیرے ’قرناء‘ عصری امام مانے جاتے ہیں جو ٹکنالوجی کے زور پر عصرِحاضر کے لیے نیو ورلڈ آرڈر تشکیل دے رہے ہیں۔ ان پانچ شخصیات میں بل گیٹس، امیزون، رُوتھ فیل چائلڈ، رمزک اور میلنڈگیٹس شامل ہیں جن کو پانچ بڑے Five Greats کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ انفوٹکنالوجی کے باوا آدم سمجھے جاتے ہیں۔سائنسی لحاظ سے اگرچہ نظریہ کے طور پرقاتل شعائوں (death rays) کا نظریہ بہت پہلے ۱۹۲۰ء میں نکولوٹیبلا نے پیش کیا تھا، اور ۱۹۴۳ء میں پُراسرار انداز میں اس کا انتقال ہوا تھا۔ مگر جدید ریڈیائی شعائیں پُراسرارحاملین (Silent Carriers) بن کر تابکاری، یعنی Radiations میں اضافہ کررہی ہیں۔ بعید نہیں کہ ہلاکت خیز تابکاری کو شیطان نما انسانوں نے تحریف کرکے طبّ کے ساتھ جوڑا ہے جس کے اہداف سیاسی اور اسٹرے ٹیجی یا حیاتیاتی جنگ میں پوشیدہ ہیں۔
فتنۂ حیات و ممات سمیت دجال کے مختلف النوع جنگی حربوں کے ذکر سے حدیث کا لٹریچر بھرا پڑا ہے جسے کتاب الملاحم اور علاماتِ آثارِقیامت کے مستند مصادر سےمطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پُرفتنہ دورمیں موت و زیست کی حیاتیاتی کش مکش اورفتنے کو حدیث میں بڑی جنگوں یا الملحمۃ الکبریٰ کی اصطلاح سے واضح کیا گیا ہے جہاں سے دجالیت کے دورِ اختتام کا آغاز ہوتا ہے۔ وقت کے ائمہ ضلالت کی طرف سے مابعد انسانیت یا Post Humanism کی اصطلاح ’جنگی فسوں‘ الملحمۃ الکبریٰ کی اسلامی اصطلاح سے بڑی حد تک مطابقت رکھتی ہے۔ اس پُرفتن اور پُرآشوب دور سے احادیث میں دُعائوں کے ذریعے پناہ مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے کیونکہ دجال کے کام اپنی نوعیت کے اعتبار سے خدائی کاموں سے ملتے جلتے اور پُرفریب، سخت تحریفی اور فتنہ انگیز ہوں گے۔ عہد ِجدیدیت کے آغاز ہی میں اٹھارھویں صدی کے اندر تھامس مالتھس ۱۷۹۸ءمیں ایک کتاب The Theory of Population لکھ کر انسانی آبادی کے کنٹرول کرنے کے مُدعا کو سامنے لایا تھا مگر کسے معلوم تھا کہ اکیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے مقتدرانسان کی مکارانہ چالوں سے آسمانی اقدارسمیت عالمی سطح پر لفظ اور حرف کی حُرمت بھی ناپیدہوگی۔ یہ دور اور یہ کتاب بالآخر ’کرونا کے بڑے فُسوں ‘ کا پیش خیمہ ثابت ہوگا، جو حیاتیاتی جنگ اور تکنیکی جنگ کے امتزاج سے نوعِ انسانی کی ہلاکت کاباعث بنے گا۔
سازشی نظریہ کا نام لے کرغلط فہمی کے شکار انسانوں کو اِبلاغ کے زور پر کچھ عرصے کے لیے گمراہ تو کیا جاسکتا ہے مگراصطلاحات کی جنگ کے سہارے ہمیشہ کے لیے قرآنی حقائق کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ یہ کتابِ ہدایت براہِ راست اللہ کی حفاظت میں ہے۔ اس کے محفوظ مصادر کے ذریعے عصرحاضر کے ابلیسی حکمت و عزائم کا مقابلہ ممکن ہےکیونکہ شیطان کو قرآن نے انسان کا کھلا دشمن یا عدوّ مبین قراردیاہے۔ یہ بھی ارشاد ہوا:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا۰ۭ (حم السجدہ ۴۱:۴۰) بے شک جو لوگ ہماری آیات کو اُلٹے معنی پہناتے ہیں وہ ہم سے کچھ چھپے ہوئے نہیں ہیں۔