جب نوّے کے عشرے میں مَیں نے صحافت کی وادی میں قدم رکھا تو دہلی سے سری نگر واپسی کے دوران جموں شہر میں اکثر رُک جاتا تھا، جس کی ایک بڑی وجہ کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹر وید بھسین، دانش ور بلراج پوری، کرشن دیو سیٹھی اور اوم صراف سے ملاقات تھی۔ ان مشاہیر کے ساتھ چند منٹ کی ملاقات، تاریخ کے ایسے دریچے کھول دیتی، جو سیکڑوں کتابیں پڑھنے پر بھی نہیں کھل سکتے تھے۔ جی چاہتا یہ ملاقات جلد ختم نہ ہو۔ اس قافلے کے آخری فرد کرشن دیو سیٹھی اس سال فروری میں ۹۳سال کی عمر میں جموں میں انتقال کرگئے۔ وہ پہلی جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے واحد بقیدِ حیات رکن تھے۔ وید بھسین اور سیٹھی مصلحتوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے،اسی لیے وہ اکثر حکومت کے عتاب کا شکار رہتے تھے۔ دونوں بھارت نواز ہونے کے باوجود کشمیر میں استصواب رائے کے حامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر استصواب ہوتا ہے تو ہم بھارت کے حق میں ووٹ ڈالیں گے، مگر صرف اس بنیاد پر کہ غالب آبادی بھارت کو تسلیم نہیں کرے گی، ان کے حق رائے دہی کو دبایا نہیں جاسکتا‘‘۔
سیٹھی صاحب ۱۹۲۸ء میں آزاد کشمیر کے شہر میر پور میں پیدا ہوئے۔ ۱۵سال کی عمر میں انھوں نے ڈوگرہ حکومت کے جاگیر دارانہ نظام کے خلاف علَم بغاوت بلند کیا۔ وہ اپنی تربیت کے حوالے سے سردار بدھ سنگھ، راجا محمد اکبر خان، مولانا عبداللہ ، حاجی عبدالرحمان اور حاجی وہاب الدین جیسے مقامی لیڈروں کے احسان مند تھے۔ وہ زمانہ جب جموں میں اور خاص طور پر آزاد کشمیر میں شعوری طور پر یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ ریاست جموں و کشمیر کے نجات دہندہ کے طور پر ڈوگرہ حکمران مہاراجا گلاب سنگھ اوران کے جانشین راجوںکو تاریخ کا ہیرو بناکر پیش کیا جائے، تو کرشن سیٹھی اس پر خاصے آزردہ تھے۔ انھوں نے اس روش کے خلاف آوازاٹھائی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ڈاکٹرکرن سنگھ اور ان کے کاسہ لیس متواتر یہ کوشش کرتے آئے ہیں، تاکہ ان کے آبائو اجداد کو ہیرو اور خود انھیں، ان کا وارث قراردے کر اس خطے میں جاگیر دارانہ نظریات کااحیا کیا جائے‘‘۔ سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’’جب گلاب سنگھ نے جموں کے عوام سے بے وفائی کرکے جبر وتشدد کے ذریعے جموں و کشمیر کی ریاست میں اقتدار حاصل کیا اور ان کے لواحقین نے جانشین بن کر جاگیر دارانہ لوٹ کھسوٹ کی، تو بھلا ایسے بدنما اور سفاک پس منظر کے حامل راجے کو جموںکا ہیروکیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ ‘‘
تواریخ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ ’’جب راجا رنجیت سنگھ نے پیش قدمی کرکے جموں کو فتح کرنے کی کوشش کی تو یہاں اس کی زبر دست مزاحمت ہوئی اور لاہور دربار کے خلاف زبردست گوریلا جنگ لڑی گئی۔ گلاب سنگھ نے رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت اختیار کرکے مزاحمتی لیڈر میاں ڈیڈو اوردوسرے کئی سرفروشوں کو قتل کیا اور اس غداری کے عوض ڈوگرہ گلاب سنگھ کو جموں کی باج گزار ریاست عطا ہوئی۔ جس نے سکھ دربار کو خوش کرنے کے لیے جسروٹہ، بلاور، بسوہلی،بھمبر، ٹکری، کرمچی،کشتواڑ، بھدرواہ، سراج، کوٹلی، راجوری، پونچھ ، میر پور اور دوسرے علاقوں کے راجگان کے سرقلم کیے یا انھیں ملک بدرکیا۔سبز علی خان اور مالی خان کی کھالوں میں بھوسہ بھرکر درختوں کے ساتھ لٹکایا گیا۔ تاہم، راجا رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوا اور انگریزوں نے پنجاب پر یلغار کی تو جموں کا یہ ’ہیرو‘ انگریزوں سے مل گیا۔ اس ’خدمت خاص‘ کے عوض اور ۷۵ لاکھ روپے نانک شاہی رقم، جو انگریزوںنے تاوانِ جنگ متعین کیا تھا، اس کی ادائیگی کرکے’ بیع نامہ امرتسر‘ کے ذریعے کشمیر کا صوبہ راجا گلاب سنگھ نے حاصل کیا۔ اس کے بعد جموں کے اس ڈوگرہ خانوادے نے جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ تاریخ کے گھنائونے باب کی صورت میں رقم ہے‘‘۔ کرشن سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’’جموں کے اصل ہیرو تو میاںڈیڈو، کیسری سنگھ، پونچھ کے راجا علی خان، سبز علی خان، شمس خان، بھمبرکے راجا سلطان خان وغیرہ اَن گنت لوگ ہیں، جنھوں نے اپنی آزادی کی حفاظت کی خاطر جانیں دیں‘‘۔
کرشن سیٹھی، ۱۹۴۷ء کے خونیں واقعات کے چشم دید گواہ تھے ۔ وہ اس وقت میر پور جیل میں نظر بند تھے، کہ ایک ہجوم نے جیل پر حملہ کرکے قیدیوں کو آزاد کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جموں میں مسلم کش فسادات کروانے میں راجا ہری سنگھ اور اس کے وزیر اعظم مہر چند مہاجن نے بھر پور کردار ادا کیا‘‘۔ جموں کی سڑکوں پر قتل و غارت کو روکنے کے لیے وہ ، وید بھسین، بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ راجا کے محل پہنچے۔ جہاں ان کو مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ پڑھے لکھے نوجوانو ں کودیکھ کر مہاجن انھیں سمجھانے لگا کہ ’’آپ کو اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے کیونکہ اب جمہوری دورکا آغاز ہو چکا ہے اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جب کہ جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے؟‘‘ ویدبھسین اور کرشن دیو سیٹھی کے بقول ’’اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’بالکل اس طرح‘۔ اورجب ہم نے بغور دیکھا تو وہاں متعدد مسلم گوجروں کی بے گور وکفن لاشیں نظر آئیں، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ فراہم کرنے آئے تھے۔ دراصل مہرچند مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ تناسب قتل و غارت سے تبدیل کرنے پر مصرتھا‘‘۔
ان فسادات کے دوران ہی شیخ محمد عبداللہ کو ’ایمرجنسی ایڈمنسٹریشن‘ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور اسی حیثیت میں وہ جموں وارد ہوئے۔ سیٹھی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’مَیں موتی لال بیگھڑا اور مولوی محمدسعید مسعودی کے ہمراہ شیخ صاحب کے ساتھ مسلم مہاجر کیمپ پہنچا۔ بجائے اس کے کہ شیخ عبداللہ ان لٹے پٹے لوگوں کی ڈھارس بندھاتے، اور ان کی آباد کاری کے احکامات جاری کرتے، انھوں نے انھی بے خانماں مسلمانوں کو کوسنا شروع کیا‘‘۔ بقول سیٹھی: ’’شیخ کے یہ الفاظ کہ جموں کے مسلمانوں نے مجھے کبھی لیڈر تسلیم ہی نہیں کیا‘‘۔ ہمارے اور سبھی حاضرین کے لیے صدمے کا باعث بنا کہ اس وقت یہ شکوہ کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا۔ ’’ان کی آباد کاری کے بجائے مہاجن کی طرح شیخ عبداللہ بھی ان تباہ حال مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی جلدی میں تھے‘‘۔
سیٹھی صاحب اس کے بعد چودھری غلام عباس اور چودھری اللہ رکھا ساغر سے ملاقات کرنے کے لیے جیل چلے گئے اور ان کو ایک حد تک راضی کروایا کہ وہ جموں چھوڑ کر نہ جائیں، ورنہ یہ خطہ مسلمانوں سے پوری طرح صاف ہوجائے گا۔ ساغر نے ان کو کہا کہ شیخ کو اس ملاقات کے بارے میں نہیں بتانا ’’مگر میں نے بے وقوفی میں شیخ صاحب کو ملاقات کے بارے میں بتایا اور ان سے گزارش کی کہ جموں کی مسلم لیڈرشپ کو جانے نہ دیں۔ مگر اگلے ہی دن انھوں نے حکم جاری کرکے مجھے راجوری، پونچھ کے لیے آباد کاری افسر مقرر کیا اور پیچھے چودھری عباس اور اللہ رکھا ساغر کو میر پور پہنچا دیا گیا‘‘۔
راجوری،پونچھ میں بطور آبادکاری افسر کام کرنے کے چند ہفتوں کے بعد ہی بھارتی فوج نے سیٹھی کو اس الزام کے تحت گرفتار کرلیا کہ ’’ہمارے ہاتھ چینی حکومت کا ایک خط لگا ہے، جو تمھارے نام ہے اور جس میں اس علاقے میں مسلمانو ں کی مدد کرنے پر تمھاری تحسین کی گئی ہے‘‘۔ میجر جنرل مسری چند نے اس پر سیٹھی کو راجوری قلعے میں قید کر لیا۔ ان کے ایک ساتھی ترال کے عنایت اللہ نے پیدل سرینگر پہنچ کر شیخ عبداللہ کو خبر دی، جس نے وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے مداخلت کی اپیل کی۔ نومبر ۱۹۴۷ء کی ایک رات، سیٹھی صاحب کو ایک سپاہی نے بتایا کہ آپ کو گولی مارنے کے احکامات موصول ہوئے ہیں۔ اسی دوران دہلی سے آنے والے سرکاری اہلکار ان کو اپنے ساتھ جموں لے گئے اور اس پورے قضیے کی تفتیش کے احکامات کا اجرا ہوا۔ معلوم ہوا کہ خط جعلی تھا جسے بھارتی فوج اور خفیہ پولیس نے تیار کیا تھا۔
سیٹھی صاحب ایک ادیب، صحافی اور کمیونسٹ نظریات کے حامل دانش ور تھے۔ وہ ۱۹۶۲ء میں بھارت چین جنگ کے دوران ڈھائی سال تک قید میں رہے۔ وہ بھارتی پارلیمانی جمہوری نظام کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ’’اس جمہوری نظام کے ستون، یعنی سیاسی پارٹیاں سرمایہ دارانہ نظام کی غلام ہیں، کیونکہ انتخابات لڑنے کے لیے کثیر سرمایہ کی ضرورت پیش آتی ہے‘‘۔ وہ بھی اُردو زبان کے دیرینہ محبوں اور بہی خواہوں میں شمار ہوتے تھے اور ریاست کی ایک چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ منظور انجم نے درست لکھا: ’’جموں وکشمیر کی تاریخ اور سیاست کا یہ سرگرم کردا ر اپنے پیچھے دو بچوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں چھوڑ کر گیا ۔ نہ کوئی بنک بیلنس ، نہ کوئی مکان ، نہ گاڑی اور سامان۔اس کی موت پر آنسو بہانے والوں میں ایسے بے شمار لوگ تھے ،جوا س کے دھرم ، قبیلے اور لسانی و نسلی گروپ سے تعلق نہیں رکھتے تھے‘‘۔
سیٹھی صاحب نے ایک بار شیخ عبداللہ سے کہا تھا کہ ’’میں تو لادین ہوں، مگر آپ اسلام کے پیرو کار ہیں اور آپ کا مذہب بتاتا ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔ آخر آپ بار بار دہلی کے حکمرانوں پر اعتبار کیسے کرتے ہیں؟‘‘کرشن دیو سیٹھی صاحب، الوداع، شہر جموں اب درد مند دانش وروں سے خالی ہوگیا ہے۔