مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ایک سوال جو باربار کیاجاتا رہا، وہ ہے ملکِ عزیز پاکستان کے مستقبل کا سوال۔الفاظ کے تھوڑ ے بہت فرق کے ساتھ یہ سوال عام جلسوں میں بھی ان کے سامنے پیش کیا گیا، پریس کانفرنسوں میں بھی اُٹھایا گیا، طلبہ نے بھی یہ بات پوچھی، اور کارکن بھی اسے لے کر ان کے پاس باربار آئے۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین گوشہ ہے کہ جب بھی یہ سوال اُٹھا، لوگ اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے مولانامودودیؒ کے پاس ان کی رہایش گاہ ۵-اے ذیلدار پارک پر پہنچے اور زندگی کا پیغام اور زندگی کی اُمنگ لے کر واپس لَوٹے۔
مولاناؒ نے ایسے ہرموقعے پر ایک بات کہی:
’مستقبل کا سوال تو جدوجہد کا سوال ہے۔ یہ عزم اور عمل کا مسئلہ ہے، پیش گوئیوں کا نہیں‘۔
ایک اور موقعے پر مولانا محترمؒ نے فرمایا:
’مستقبل کے بارے میں صرف سوال نہ کیجیے۔ مستقبل کے بارے میں فیصلہ کیجیے۔ فیصلہ یہ کیجیے کہ بحیثیت مسلمان، آپ اس ملک کا کیا مستقبل چاہتے ہیں؟‘
اسی طرح ایک سوال کے جواب میں ایک اور مرحلے پریہ فرمایا:
’آج بھی اگر کسی ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیےکام کرنے کی سب سے زیادہ گنجایش ہے تو وہ ہمارا یہی ملک ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جس دن کے لیے ہم کام کررہے ہیں وہ دن ہماری زندگی میں نہ آئے، لیکن وہ ان شاء اللہ اس ملک میں آئے گا ضرور‘۔
۱۹۷۱ء کے بعد تو یہ سوال اتنی مرتبہ پوچھا گیا کہ ایک موقعے پرمولانا محترم ؒ نے فرمایا:
’میں جہاں بھی گیا ہوں، لوگوں نے یہ سوال پوچھا ہے___ کسی ملک کے حکمرانوں کی اس سے زیادہ نالائقی کوئی اور ہو نہیں سکتی کہ ملک کے رہنے والوں کے ذہنوں میں ملک کے مستقبل سے متعلق ایسے سوالات پیدا ہونے لگیں‘۔
سقوطِ مشرقی پاکستان، ۱۶دسمبر۱۹۷۱ء سے ۲۰ برس پہلے۱۰نومبر ۱۹۵۱ء کو کراچی کی ککری گرائونڈ میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے فرمایا:
’ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں علانیہ خدا کے احکام کی خلاف ورزی ہورہی ہے اورفرنگیت اورفسق وفجور کی رَو بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام آج بھی بے بس ہے … یہ سب کچھ اُن مقاصد کے بالکل خلاف ہے، جن کا نام لے کر پاکستان مانگا گیا تھا، اور جن کے اظہارواعلان ہی کے طفیل، اللہ تعالیٰ نے یہ ملک ہمیں بخشا تھا۔ کہا یہ گیا تھا کہ ہمیں ایک خطۂ زمین اس لیے درکارہے کہ اس میں ہم مسلمان کی سی زندگی بسرکرسکیں، اور اسلام کی بنیادوں پر خود اپنے ایک تمدن اوراپنی ایک تہذیب کی عمارت اُٹھا سکیں۔ مگرجب خدا نے وہ خطّہ دےدیا، تو اب کیا یہ جارہا ہے کہ اسلام کے رہے سہے آثار بھی مٹائے جارہے ہیں، اور اُس تہذیب، اخلاق اور تمدن کی عمارت مکمل کی جارہی ہے، جس کی نیو یہاں انگریز رکھ گیا تھا۔
اس صورتِ حال کو ہم جس وجہ سے خطرہ نمبرایک سمجھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ یہ صریح طورپر خدا کے غضب کو دعوت دینے کے ہم معنی ہے۔ ہم ہرگز یہ توقع نہیں کر سکتے کہ اپنے ربّ کی کھلی کھلی نافرمانیاں کرکے ہم اس کی رحمت اور نصرت کے مستحق بن سکیں گے۔
اس میں خطر ے کایہ پہلو بھی ہے کہ پاکستان کے عناصر ترکیبی میں نسل،زبان،جغرافیہ، کوئی چیز بھی مشترک نہیں ہے۔ صرف ایک دینِ اسلام ہے، جس نے ان عناصر کو جوڑکر ایک ملّت بنایاہے۔ دین کی جڑیں یہاں جتنی مضبوط ہوں گی، اتنا ہی پاکستان مضبوط ہوگا۔ اور وہ جتنی کمزور ہوں گی، اتنا ہی پاکستان کمزور ہوگا۔ اس میںخطرے کا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کیفیت ہمارے ہاں جتنی زیادہ بڑھے گی، ہماری قوم میں منافقت، اورعقیدہ و عمل کے تضاد کی بیماری بڑھتی چلی جائے گی‘۔
ایک موقعے پر جب یہ سوال ان کے سامنے آیا: ’’مولانا، وطنِ عزیز کے حالات دیکھ کر باربار یہ خیال آتا ہے کہ آخر اس ملک کا مستقبل کیا ہے؟ بعض اوقات تو شدت کے ساتھ مستقبل کے تاریک ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے۔ کیا آپ اس سلسلے میں کچھ ارشاد فرمائیں گے؟‘‘
اس مرحلے پر مولانا مودودی نے صحت کی کمزوری کے باوجود سوال کا مفصل جواب دیتے ہوئے فرمایا:
’یہ احساس جو کچھ عرصے سے لوگوں میں پیدا ہوا ہے کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہے؟ درحقیقت دیکھنے والوں کے سامنے یہ سوال پہلے دن سے موجود تھا۔ برسوں سے پاکستان کے مستقبل کو تاریک کرنے کا کام ہورہا ہے۔ آخرکار اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بچہ بچہ تشویش میں مبتلا ہوگیا ہے۔ اس ملک کے ٹکڑے اُڑانے کا برسوں سے سامان کیاجارہا تھا، ا ور جب وہ [دسمبر ۱۹۷۱ء میں] دو ٹکڑے ہوگیا، تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ حالانکہ دیکھنے والے دیکھ رہے تھے اور قدم قدم پر سمجھا رہےتھے کہ کون سا راستہ تباہی کا راستہ ہے اور کس راہ پر چل کر اس ملک کو ایک مثالی ملک بنایا جاسکتا ہے‘۔
ہلکے سے توقف کےساتھ سلسلۂ کلام کو جوڑتے ہوئے فرمایا:
’آج یہ سوال سب کی زبان پر ہے کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہے؟‘___ میرا کام مستقبل کی پیش گوئیاں کرنا نہیں ہے۔ مجھے آپ سے صرف یہ کہنا ہے کہ اگر آپ کو اس ملک کا مستقبل عزیزہے تو پھراس بات پر ڈٹ جایئے کہ اس کے مستقبل کو تاریک نہیں ہونے دیں گے‘۔
’فی الحقیقت اس ملک کا مستقبل اس کے وجودمیں آنے کے بعد سے ایک ہی چیز پر منحصر تھا،اوروہ یہ کہ اللہ تعالیٰ سے جو وعدہ اس ملک کو حاصل کرتے ہوئے کیا گیا تھا، اس کو ایمان داری کے ساتھ پورا کیا جائے:
یہی وعدے تھے جن کی بناپراللہ تعالیٰ کی رحمت آپ کی طرف متوجہ ہوئی اورانھی وعدوں کی وجہ سے بالکل ایک معجزاتی کےطور پر پاکستان وجود میں آیا۔ ورنہ ۱۹۴۷ء کے آغاز تک بھی اس کی توقعات پیدا نہیں ہوسکی تھیں کہ پاکستان بن جائے گا۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرنے پایا تھا کہ ان وعدوں کو فراموش کرنا شروع کر دیا گیا۔ وہ عہد جو خدا سے باندھا گیا تھا، اس کو توڑنے لگے اور یہ بات بالکل بھلا دی گئی کہ خداسے بدعہدی کرکے، خدا سے بے وفائی کرکے، اور خدا کی نافرمانی کرکے، مسلمان سربلند نہیں ہوسکتا۔ جب ایسی بدعہدی کرکے کوئی دوسرا اس کی سزا پائے بغیر نہیں رہاہے، تو آخر ہم بدعہدی کرکے کیسے سزا سے بچ سکتے تھے!‘
پھر کس قدرواضح اور سچی حقیقت کا یہ بیان تھا، جب مولانا محترمؒ نے فرمایا:
’اب اگر اس ملک کا مستقبل محفوظ ہوسکتا ہے تواچھی طرح جان لیجیے کہ اسی عہد کو پورا کرکے ہوسکتا ہے۔ یاد رکھیے، اس عہد کی خلاف ورزی جب تک ہوتی رہے گی، مستقبل تاریک ہوتا رہے گا اور جتنا زیادہ اس سے انحراف کیا جائے گا، اتنا ہی زیادہ یہ تاریک ہوتا چلا جائے گا‘۔
’پاکستان بناتے وقت آخر کس نے کہا تھا کہ ہمیں بلوچ، بنگالی یا پنجابی کی حیثیت سے آزادی مطلوب ہے؟ یا ہم پٹھان یا سندھی کی حیثیت سے آزاد ہونا چاہتے ہیں؟ یقینا کسی نے ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی، اور ایسی کسی بات کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سب مسلمان بن کر اُٹھے تھے۔ مسلمان بن کر اور ایک مسلم ملّت کی بنیاد پرانھوں نے اس مملکت کی بناڈالی۔ لیکن اس کے بعد کوششیں شروع ہوگئیں کہ مسلمان اسلام کے نام پر جمع نہ رہیں، بلکہ انھیں بنگالی، پنجابی،بلوچ، پٹھان اور سندھی کی بنیاد پر تقسیم کردیا جائے۔
’آج بچ جانے والے پاکستان میں چارقومیتوں کے نعرے بلند کیے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر صرف ایک صوبے ہی کو دیکھیے کہ ’صوبہ بلوچستان میں پٹھان بھی آباد ہیں، بلوچ بھی ہیں ،کرد بھی ہیں، بروہی اور سندھی بھی۔ اگر اسی طرح قومیت کے نعرے بلند ہوتے رہیں، تو اس ایک صوبہ بلوچستان ہی کے بھی چار پانچ بلوچستان بن جاتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے صوبوں کا ہے۔
اسی لیے میں آپ سے کہتا ہوں کہ مستقبل کے متعلق کچھ پوچھنے کے بجائے آپ یہ فیصلہ کیجیے کہ جو تاریک مستقبل بنایا جارہا ہے، اسے ہرگز تاریک نہیں بننےدینا ہے۔ ہمیں اس ملک کا وہ مستقبل تعمیر کرنا ہے، جو ایک مسلمان قوم کا مستقبل ہونا چاہیے۔ ملک کے مستقبل کا سوال تو جدوجہد کا سوال ہے۔ یہ عزم اور عمل کا مسئلہ ہے، پیش گوئیوں کا نہیں‘۔