مسلمانوں نے بالعموم اور ہندستانی مسلمانوں نے بالخصوص اپنی حالیہ تاریخ میں خود کو سب سے زیادہ نقصان اپنی جذباتیت سے پہنچایا ہے۔ جذباتیت صرف تشدد کا نام نہیں ہے ، بلکہ بسااوقات بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے پُرامن اقدامات بھی جذباتیت کا حصہ بن جاتے ہیں، جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے بعض صورتوں میں سخت مہلک ہوسکتے ہیں۔ یہ شدتِ جذباتیت ہی ہے جو بعض پر انتہاپسندی کا بخاری طاری کردیتی ہے اور بعض پر مایوسی و قنوطیت مسلط کردیتی ہے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم اپنے پسندیدہ لوگوں کی خرابیوں کو نہیں دیکھ پاتے اور ناپسندیدہ لوگوں کی خوبیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم دنیا اور اس کی ہرچیز کو سیاہ اور سفید کے انتہائی خانوں میں بانٹ دیتے ہیں اور گرے کا اندازہ نہیں کرپاتے۔ اسی شدت کے نتیجے میں بھارتی اکثریتی طبقے کے ذہن اور جذبات کو نہیں سمجھ پاتے اور نہ اس سے رابطہ کاری (communicate) کی راہیں تلاش کرپاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملّت ِ اسلامیہ ہند میں عوامی جذبات آگے ہیں اور قیادت پیچھے، بلکہ صحافت اور دانش وری کا کام بھی صرف عوامی جذبات کی ترجمانی تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
حالیہ انتخابی نتائج کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل کا جو طوفان اُمڈ آیا ہے، وہ اسی نفسیات کا مظہر ہے۔ کوئی یوپی کے مسلمانوں کو کوس رہا ہے کہ انھوں نے ’’بہار کے مسلمانوں کی طرح دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا‘‘، تو کسی نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ: ’’مسلمان تباہی گوارا کرتے ہیں، لیکن اتحاد پسند نہیں کرتے‘‘۔ کوئی ایک قدم آگے بڑھ کر مسلم سیاسی جماعتوں کو بی جے پی کا ایجنٹ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے اور کسی کے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی سیاسی جماعت کو چھوڑ کر ’غیروں‘ کو ووٹ دیا۔ غرض یہ کہ جتنے منہ ،اتنی باتیں۔
شدید ردعمل کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ چند دنوں تک جذبات کی آندھیاں چلتی ہیں، پھر حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ شدتِ جذبات کی اوجِ ثریا سے کمالِ سکون کے تحت الثریٰ تک کا یہ طویل سفر بس چند گھنٹوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارا یہی اجتماعی احتجاجی مزاج ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ وہ مزاج جو واقعات کے صرف انتہائی سُروں ہی کو سن پاتا ہے۔ جو اُمیدیں وابستہ کرنے میں بھی فراخ دل ہوتا ہے اور مایوس ہونے میں بھی دیر نہیں لگاتا۔ جو ہرکوشش کا نتیجہ فوری دیکھنا چاہتا ہے۔ ایسا مزاج اور ذوق، اصلاحِ احوال کی سنجیدہ، دھیمی اور طویل المیعاد کوششوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
واقعہ یہ ہے کہ نہ یوپی کے مسلمانوں نے کوئی غیرمعمولی غلطی کی ہے اور نہ جو کچھ ہوا ہے، وہ کوئی بڑی تباہ کن آفت ہے۔ واقعات کو ہمیں اس کے اصلی رنگ میں اور صحیح تناسب میں دیکھنا چاہیے، یہی معقول رویہ ہے۔ بہار میں اتحاد مسلمانوں کا نہیں، بلکہ سیکولر جماعتوں کاہوا تھا۔ یوپی کی سیاست میں ایسا اتحاد ممکن نہیں ہوسکا، اور اس پر مسلمانوں کا کوئی بس نہیں تھا۔ مسلمانوں نے کبھی متحد ہوکر ووٹ نہیں دیا۔ ذات پات اور سیاسی جماعتوں کی تقسیم ہمیشہ رہی ہے۔ اس بار عام مسلمانوں نے معقولیت کے ساتھ ووٹ دینے کی ہرممکن کوشش کی۔کئی مسلم سیاسی جماعتوں نے حالات کو دیکھ کر خود کو انتخابی معرکہ سے دُور رکھا، یہ خود ایک غیرمعمولی بات ہے، اور اس سے پہلے کسی صوبے میں ایسا نہیں ہوا۔ جن مسلم جماعتوں نے ان حالات میں بھی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، مسلمانوں نے عام طور پر انھیں لائقِ اعتنا نہیں سمجھا، جیساکہ ووٹوں کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلے غیرمسلم ووٹ منقسم رہتے تھے، اس دفعہ وہ متحد ہوگئے۔ متحد کیوں ہوئے؟ اس کی وجوہ کئی ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کا وفادار ووٹ بنک تو موجود ہے ہی۔ مسلمانوں کی جذباتی تقریریں، مذکورہ بالا قسم کے سوشل میڈیا پوسٹ، مسلم قائدین کی بے محل اور بے فیض اپیلیں، اُردو میڈیا کا شورشرابہ وغیرہ، فرقہ پرستوں کے وہ کارگر ہتھیار ہیں، جو مخلص مسلمانوں کے سادہ لوح ہاتھوں کے ذریعے پوری قوت سے استعمال ہوتے ہیں۔ انھوں نے منفی نتائج بخشنے کا کام خوب کیا۔ پھر بہت سے درمیانی ووٹرز بھی پلٹ گئے۔
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی ایک قابلِ ذکر آبادی ایسی ہے، جو فرقہ پرست نہیں ہے۔ لیکن فرقہ پرستی کا خاتمہ اس کا سب سے بڑا ایجنڈا بھی نہیں ہے۔ وہ متبادل، حوصلہ مند، نسبتاً زیادہ دیانت دار اور محنتی حکمران چاہتے ہیں ، اور اپنی سوچ کے مطابق موجودہ وزیراعظم میں انھیں یہ خوبیاں دکھائی دیں اور انھوں نے دوسروں پر انھیں ترجیح دیں۔
ذات پات اور طبقات میں بٹے ہوئے اس معاشرے کو کوئی طاقت ور مشترک خواب، کوئی مشترک اُمید اور کوئی نہایت حرکیاتی مشترک قیادت ہی متحد کرسکتی ہے۔ جوں ہی ملک کی بڑی آبادی کو یہ چیز میسر آئی، تو ذات پات کی دیواریں گرنے لگیں۔ مسلمانوں کو میسر آئے گی تو وہ بھی متحد ہوجائیں گے۔ ایسے کسی مشترکہ وژن اور متحدہ قیادت کے بغیر یہ اُمید کرنا کہ ہرمسلمان غیبی الہام کے ذریعے کسی ایک امیدوار کو متحد ہوکر ووٹ دے گا، خام خیالی ہے۔ بڑے سے بڑا تجزیہ نگار بھی بی جے پی کی مدمقابل پارٹی کی پوزیشن یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھا ،تو ایسے میں ایک عام مسلمان صحیح اندازہ کرکے ووٹ کیسے دیتا؟
رہی بی جے پی کے پردے میں آر ایس ایس کی جیت تو اس کی بنیاد پر مسلمانوں کو خواہ مخواہ احساسِ شکست کا شکار نہیں بننا چاہیے۔ نہ بی جے پی نے پہلی بار کسی ریاست میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور نہ یوپی میں پہلی بار کسی کو اتنی سیٹیں ملی ہیں۔ یہ صرف ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے، بلکہ ایک نظریاتی تحریک ہے۔ یہ تحریک ایک عرصے سے اس ملک میں سرگرم ہے اور بہت پہلے اس نے طاقت کے بہت سے مراکز پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ آزادی سے قبل اور فوری بعد، خود کانگریس کا ایک بڑا طبقہ اسی نظریے کی سیاسی نمایندگی کرتا تھا۔ اسی طبقے کی انتہاپسندانہ اور عدم رواداری کی سوچ کے نتیجے میں تقسیم ہند کا عمل تیز تر ہوا۔اسی طبقے نے فسادات کو ہندستان کی تاریخ کا مستقل حصہ بنایا۔ اسی نے منظم طریقے سے اُردو زبان کی جڑیں کاٹیں۔ جگہ جگہ مسجد مندر کے مصنوعی تنازعے پیدا کیے۔ پولیس اور انتظامیہ میں تعصب کا زہر پھیلایا۔ وقتی اور جذباتی مسائل میں مسلمانوں کو اُلجھایا۔ ان کی قیادتوں کو کمزور کیا۔ یاد رہے بھارت کا حقیقی اقتدار اصلاً بہت پہلے سے اسی طبقے کے کنٹرول میں ہے۔ اس لیے محض بی جے پی کے جیت جانے سے کسی بہت بڑے اس ’انقلاب‘ کا امکان نہیں ہے۔ انقلاب کا عمل آزادی کے بعد ہی سے جاری ہے۔ آزادی کے فوری بعد جس مقام پر کانگریس کھڑی تھی، اُس مقام پر آج بی جے پی کھڑی ہے۔ اُس وقت کانگریس کا ایک طبقہ مسلم دشمن تھا، آج بی جے پی کا ایک طبقہ مسلم دشمن ہے۔ اُس وقت وہ مقبول جماعت تھی اور آج یہ ہے۔ اُس وقت کانگریس میں لبرل اور انصاف پسند لوگ بھی تھے اور آج بی جے پی میں بھی ہیں (اگرچہ تعداد اور تناسب میں یہ کم زیادہ ہوسکتے ہیں)۔ ان فرقہ پرست قوتوں کو یقینا ہارنا چاہیے تھا، لیکن اگر وہ نہیں ہاریں تو ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں پر کوئی بالکل نئی اور غیرمتوقع قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ اصل قابلِ توجہ چیز اس ملک کے عوام کا ذہن ہے۔ خاص طور پر اس ملک کی نئی نسل اور تعلیم یافتہ نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟ یہ اصل مسئلہ ہے۔ اگر ذہن مثبت ہے تو بی جے پی بھی کوئی غیرمعمولی کام نہیں کرپائے گی اور کچھ کرے گی تو ٹک نہیں پائے گی اور اگر ملک کا اجتماعی ذہن منفی ہے تو سیکولر جماعتیں بھی مسلمانوں کی طرف داری کا خطرہ مول لے کر ’خودکشی‘ کا راستہ نہیں اختیار کریں گی۔ اَمرِواقعہ ہے کہ ان نتائج کے باوجود غیرمسلم اکثریت میں بدترین تعصب نہیں پایا جاتا۔ لیکن اب ذہن تیزی سے مسموم ہوتے جارہے ہیں اور ان کا بروقت نوٹس لینا ضروری ہے۔
کرنے کا اصل کام پہلے بھی یہ تھا اور آج بھی یہ ہےکہ ہم مسلمان ملک کی اکثریت کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کریں۔ ان کی غلط فہمیاں اور ان کے غلط شبہات اور اندیشے دُور کریں۔ پوری خوداعتمادی کے ساتھ دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیں اور اس دعوت کی عملی شہادت بھی دیں۔ انھیں دین اسلام کے بارے میں بھی بتائیں اور اپنے عمل سے بھی خود کو خیرخواہ ثابت کریں۔ قوموں نے انبیاے علیہم السلام کی مخالفت ضرور کی ہے، لیکن کسی نبیؑ کو ان کی قوم نے اپنا بدخواہ نہیں سمجھا۔ دعوت کے آغاز سے پہلے ہرنبیؑ کا امیج اپنی قوم میں ایک مخلص اور خیرخواہ فرد کا تھا۔ ہمارا ایسا امیج کا نہ ہونا دعوت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ بھی۔ یہاں کی آبادی سے خیرخواہی کا تعلق قائم کرنا اور اسے منوانا، اس وقت ہماری اصل ترجیح ہونی چاہیے۔
سیاسی سطح پر بڑی ضرورت بیدارمغز سیاسی قیادت کے اُبھرنے کی ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی و ملّی جماعتیں مل بیٹھ کر مشترکہ سیاسی قوت کو اُبھاریں۔ یاد رہے خود مسلم فرقہ پرستی دس گنا زیادہ طاقت ور ہندو فرقہ پرستی پیدا کرتی ہے، اس لیے ہماری سیاست کو فرقہ پرست اور مسلم قوم پرست رنگ کے بجاے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اصول پسند اور انصاف پسند سیاست کا رنگ اختیار کرنا چاہیے۔
یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ ہرجگہ انتخابات میں حصہ لینا ضروری ہے۔ ملک کے اکثر مقامات پر غیرانتخابی سیاسی اثراندازی کی حکمت ِ عملی ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔کہیں کہیں محدود پیمانے پر صرف مسلمانوں کی نہیں، بلکہ تمام طبقات کی نمایندگی کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ بھی لیا جاسکتا ہے، لیکن زیادہ تر ہماری قیادت کو سیاسی جماعتوں سے گفت و شنید اور مصالحت و معاہدات ، ووٹرز کی صحیح رہ نمائی کرنا اور منتخب نمایندوں سے کام کرانا جیسے عمل ہی کرنے ہوں گے۔ ایسی مشترکہ اور دانش مند قیادت اُبھرتی ہے تو وہ بی جے پی سے بھی بہت سے مفید کام کراسکتی ہے، اور ایسی قیادت کے بغیر من موہن سنگھ جیسے وزیراعظم کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود ’سچرکمیٹی‘ جیسے متعلق متعدد فیصلے بھی دس برس بعد بے اثر رہ جاتے ہیں۔