مئی ۲۰۱۷

فہرست مضامین

زکوٰۃ کی حکمت اور تقاضے

مولانا محمد فاروق خان | مئی ۲۰۱۷ | مطالعہ حدیث

Responsive image Responsive image

دینِ اسلا م درحقیقت اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کے ادا کرنے کادوسرا نام ہے۔ نماز اور زکوٰۃ ہمیں انھی دو قسموں کے حقوق کی یاد دلاتے ہیں۔ مولانا حمیدالدین فراہیؒ جو کتابِ الٰہی کی حکمتوں پر گہری نظر رکھتے تھے، فرماتے ہیں:نماز کی حقیقت بندے کا اپنے رب کی طرف محبت اور خشیت سے مائل ہونا ہے، اور زکوٰۃ کی حقیقت بندے کا بندے کی طرف محبت اور شفقت سے مائل ہونا ہے۔(تفسیر نظام القرآن، ص ۹)

دین کی اس بنیادی حقیقت کی طرف قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر اشارہ فرمایا گیا ہے۔ قرآن، نماز اور زکوٰۃ کوبنیادی اہمیت دیتے ہوئے انھیں اصل دین قرار دیتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے:

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ لا حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ (البینہ۹۸:۵) اور انھیں تو اسی بات کا حکم ہوا تھا کہ اخلاص کے ساتھ ہر طرف سے یکسو ہوکر اللہ کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی ٹھیک دین ہے۔

دین درحقیقت اللہ اور اس کے بندوں، دونوں کے حقوق کے ادا کرنے کا نام ہے۔ اس کی تصدیق احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ ہم یہاں اختصار کے پیش نظر ایک حدیث نقل کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین شخص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سر سے ایک بالشت بھی اُوپر نہیں اُٹھتی۔ ایک وہ امام جس کو لوگ ناپسند کرتے  ہوں۔ دوسرے وہ عورت جس نے شب اس طرح گزاری کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔ اور تیسرے دو بھائی جو آپس میں قطع تعلق کرلیں‘‘۔(ابن ماجہ)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ اور اس کے بندوں، دونوں کے حقوق پہچانے اور ادا کرے۔ اللہ کا حق بھی صحیح معنوں میں اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتا جب تک کہ کوئی اللہ کے بندوں کے حقوق بھی ادا نہ کرے۔

lتکمیلِ ذات کا ذریعہ : زکوٰۃ ادا کر کے انسان صرف ایک فرض ہی سے سبکدوش نہیں ہوتا بلکہ اس سے اس کی ذات کی تکمیل بھی ہوتی ہے۔ تکمیل و تزکیہ ہی احکامِ شریعت کا بنیادی مقصد ہے۔ جس چیز کا نام دین میں حکمت ہے، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ علم و بصیرت کے ساتھ انسان کے نفس کی تربیت اور تزکیہ ہو۔ زکوٰۃ کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ اس سے انسان تزکیہ حاصل کرے۔ زکوٰۃ کے معنی پاکیزگی اور نمو کے ہیں۔ زکوٰۃ دینے سے آدمی خود غرضی، تنگ دلی اور زرپرستی کی بُری صفات سے نجات پاتا ہے۔ اس کی روح کو پاکیزگی اور بالیدگی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا:

وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَی  o الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی o (الیل۹۲: ۱۷-۱۸) اور اس (جہنم) سے دُور رکھا جائے گا وہ شخص جو اللہ کا ڈر رکھتا ہے اور اپنا مال دوسروں کو دیتا ہے تزکیہ حاصل کرنے کے لیے۔

ایک دوسری جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا:

خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا (التوبہ ۹:۱۰۳) ان کے مالوں میں سے صدقہ لو جس کے ذریعے سے انھیں پاک کرو گے اور ان کا تزکیہ کرو گے۔

زکوٰۃ کا یہ بنیادی مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے، جب کہ زکوٰۃ دینے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کے حاصل کرنے کی سچی طلب اور عملی اہتمام بھی پایا جاتا ہو۔ انسان زکوٰۃ محض اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے دے، اس کے پیچھے کوئی اور محرک نہ ہو۔ اس کی زکوٰۃ نہ نام و نمود کے لیے ہو، اور نہ اس کا مقصد غریبوں اور محتاجوں پر احسان جتانا ہو۔

قرآن میں یہ حقیقت بار بار بیان کی گئی ہے کہ بندے کا دین اور اس کا ایمان اسی وقت کامل ہوگا اور اسے حقیقی اور روحانی زندگی اسی وقت حاصل ہوگی، جب کہ اللہ کی محبت سب محبتوں پر غالب آجائے اور دنیا کے مقابلے میں وہ آخرت کو ترجیح دینے لگ جائے۔ نماز اگر بندے کا رشتہ اللہ سے جوڑتی ہے، تو زکوٰۃ اسے دنیاپرستی سے بچاتی اور مال کی محبت دل سے نکالتی ہے۔ زکوٰۃ دے کر آدمی اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ زندگی کے حقیقی مقصد سے غافل نہیں ہے۔ اس کے پاس جو کچھ ہے، اسے وہ اللہ ہی کی ملکیت سمجھتا ہے۔ وہ اس میں سے غریبوں اور محتاجوں کا بھی حق نکالتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے وہ اسے اپنے استعمال میں بھی لاتا ہے۔ اہلِ تقویٰ کا یہ خاص شعار ہے کہ وہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:

فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّ کٰـوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَo (الاعراف ۷:۱۵۶) تو میں اپنی رحمت ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقویٰ رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔

  •  اجتماعی فلاح و بہبود  : زکوٰۃ ادا کرنے سے انسان کا نفس بھی پاک ہوتا ہے اور اس کا مال بھی پاک ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ اتنا خودغرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی دولت میں سے اللہ کا حق ادا نہیں کرتا، تو اس کا مال بھی ناپاک رہتا ہے اور اس کا نفس بھی ناپاک رہتا ہے۔ نفسِ انسانی کے لیے تنگ دلی، احسان فراموشی اور خودغرضی سے بڑھ کر گھٹن اور ناپاکی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ زکوٰۃ ان لوگوں کے مسئلے کا حل ہے، جو غریب اور محتاج ہیں۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بھائی کی مدد کریں اور کوئی بھائی بھوکا ننگا اور ذلیل و خوار نہ ہونے پائے۔ ایسا نہ ہو کہ جو امیر ہیں وہ تو اپنے عیش و آرام ہی میں مست رہیں اور قوم کے یتیموں، محتاجوں اور بیوائوں کا کوئی پُرسانِ حال نہ ہو۔ انھیں یہ بات محسوس کرنی چاہیے کہ ان کی دولت میں دوسرے حاجت مندوں کا بھی حق ہے۔ اس میں ان لوگوں کا بھی حق ہے جو صاحب ِ صلاحیت ہونے کے باوجود سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرسکتے۔ ان کی دولت میں ان غریب بچوں کا بھی حق ہے جو مفلسی کی وجہ سے تعلیم نہیں حاصل کرسکتے، اور ان معذوروں اور کمزوروں کا بھی حق ہے جو کسی کام کے قابل نہیں ہیں۔

پھر جو رقم بھی قوم اور جماعت کی بھلائی کے لیے خرچ کی جاتی ہے وہ ضائع نہیں ہوتی۔ جو روپیہ بھی اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے خرچ ہوتا ہے، وہ بے شمار فوائد کا سبب بنتا ہے جن سے خود خرچ کرنے والے شخص کو بھی بے شمار فائدے پہنچتے ہیں۔ اس کے برخلاف جو شخص اپنے سرمایے کو اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہتا ہے یا لوگوں سے سود لے کر اسے بڑھانا چاہتا ہے، وہ درحقیقت اپنی دولت کی قدر (value) کو گھٹاتا اور خود اپنی تباہی کا سامان کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ ط(البقرہ ۲:۲۷۶) اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔

دوسری جگہ فرمایا:

وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ج وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ o (الروم ۳۰:۳۹) تم جو سود اس غرض سے دیتے ہو کہ لوگوں کے مال کو بڑھائے تو اللہ کے نزدیک اس سے دولت نہیں بڑھتی۔ ہاں، جو زکوٰۃ تم خدا کی خوشنودی کے لیے دو وہ بڑھتی چلی جائے گی۔

  •  نصرت اور حفاظتِ دین : زکوٰۃ کا ایک اہم مقصد نصرتِ دین اور حفاظت ِ دین بھی ہے۔ اللہ کے دین کے لیے جو جدوجہد کی جارہی ہو اور جو جنگیں لڑی جارہی ہوں، ان کے سلسلے میں بھی زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔ (سورئہ توبہ ۹:۶۰)

مال کی جو تھوڑی سی مقدار زکوٰۃ کے طور پر فرض کی گئی ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ مال دار بس اتنا ہی خرچ کریں۔ اس کے بعد اگر کوئی ضرورت مند آجائے یا دین کی خدمت کا کوئی موقع آجائے تو خرچ کرنے سے صاف انکار کردیں، بلکہ اس کا مطلب حقیقت میں یہ ہے کہ کم از کم متعین مال تو ہر مال دار شخص کو خرچ کرنا ہی چاہیے، اس سے زیادہ جتنا بھی ہوسکے اسے صرف کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر زکوٰۃ ایک خاص مقدار سے کم مال پر فرض نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگاکہ جن لوگوں کے پاس اس خاص مقدار سے کم مال ہے وہ اللہ کی راہ میں کچھ خرچ ہی نہ کریں۔  اللہ کے راستے میں جس کسی سے بھی جو کچھ ہوسکے وہ خرچ کرے۔ اس میں خود اس کا اپنا فائدہ ہے۔

زکوٰۃ کے لیے ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ لوگوں کی زکوٰۃ ایک مرکز پر جمع کی جائے۔ پھر وہاں سے ایک نظم اور ضابطے کے ساتھ اسے خرچ کیا جائے۔ جس طرح فرض نمازجماعت کے ساتھ امام کی اقتدا میں ادا کی جاتی ہے، اسی طرح زکوٰۃ کا بھی اجتماعی نظم ہو، جس کے تحت زکوٰۃ وصول کی جائے اور پھر اسے باضابطہ خرچ کیا جائے۔ اس طرح زکوٰۃ سے معاشرے کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن (کا حاکم بنا کر)بھیجا تو فرمایا:

تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو اہلِ کتاب ہیں، تو تم انھیں اس امر کی شہادت کی طرف بلانا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں ۔ اگر وہ اس کو مان لیں تو انھیں بتانا کہ اللہ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اس کو مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ نے ان پر صدقہ (زکوٰۃ) فرض کیا ہے جو ان کے مال داروں سے لیا جائےگا اور ان کے غریبوں کو لوٹا دیا جائے گا۔ اگر وہ اس بات کو بھی مان لیں تو خبردار ان کے اعلیٰ درجے کے مال (چھانٹ چھانٹ کر) نہ لینا، اور مظلوم کی پکار سے بچنا کیوں کہ اُس کے اور خدا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔(بخاری، مسلم)

اس روایت سے چند اہم اُمور پر روشنی پڑتی ہے۔ جو شخص اسلامی حکومت کی طرف سے گورنر یا حاکم بنایا جائے، اس کا اوّلین فرض لوگوں کوخداے واحد کی طرف دعوت دینا ہے۔ دیگر تمام مقصدثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ غیر اسلامی حکومت میں گورنر کی بنیادی ذمہ داری نظم و نسق کو درست رکھنا ہے۔ اس کے برخلاف اسلامی نظامِ حکومت میں چھوٹے بڑے ہرکارندے کاپہلا کام لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف بلانا ہے۔ جس حکومت کا پہلا کام مخلوقِ خدا کو حق کی دعوت دینا ہو وہ حکومت دنیا کو رحمت سے بھر دے گی۔ اس حکومت میں ظلم اور ناانصافی کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں مل سکتا۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے سامنے دین کو پیش کرنے میں ہمیشہ حکمت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ جس قوم کو بھی ہم دین کی طرف دعوت دیں اس کی نفسیات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ پھر دین کو بیک وقت پورے کا پورا پیش کرنے کے بجاے پہلے بنیادی باتیں تدریج کے ساتھ پیش کرنی چاہییں۔ اس سے دین کو سمجھنے اور اس کو ماننے میں آسانی ہوگی۔

توحید و رسالت پر ایمان لانے کے بعد اوّلین چیز نماز ہے۔ نماز کا وقت آجانے پر صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ کون شخص اس بات کا اقرار و اعلان کرتا ہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے اور خدا ہی کی اطاعت و بندگی میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اور کون خدا سے بے رُخی اختیار کرنے کی جسارت کرسکتا ہے؟

نماز کے بعد دوسری چیز زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کی دو صورتیں ہیں: ایک تو مجرد زکوٰۃ یا صدقہ ہے، جسے اہلِ ایمان اپنے مالوں میں سے ہروقت ادا کرتے رہتے ہیں اور حتی الوسع ضرورت مندوں کی اعانت کرتے ہیں۔ زکوٰۃ کی دوسری صورت یہ ہے کہ مسلمان اپنے مال میں سے ازروے قانون ایک متعین مقدار نکالتا ہے۔ اس حدیث میں اسی زکوٰۃ کا ذکر ہے۔

زکوٰۃ کے بارے میں فرمایا کہ وہ معاشرے کے مال داروں سے لی جاتی ہے اور معاشرے ہی کے غریبوں اور ضرورت مندوں پر صرف کی جاتی ہے۔ غریبوں اور محتاجوں کی اعانت زکوٰۃ کے اہم مقاصد میں سے ہے۔ اللہ نے مال داروں کے اموال میں غریبوں کا حق رکھا ہے۔ غریبوں کا حق ان تک پہنچانا مال داروں پر واجب ہے۔ قرآنِ مجید میں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے:

فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ  o  لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (المعارج ۷۰:۲۴-۲۵) ان کے مالوں میں سائلوں اور تہی دستوں کا متعین حصہ ہوتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عامل (collector) کو یہ ہدایت کی کہ وصولی کے وقت   اچھے اچھے مال چھانٹ کر نہ لیے جائیں بلکہ اوسط درجے کا مال لیا جائے۔ اس ہدایت کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ اپنا سب سے اچھا مال زکوٰۃ میں پیش کرتے، لیکن لینے والا لینے سے انکار کرتا یہاں تک کہ یہ معاملہ خلیفۃ المومنین کی خدمت میں لایا جاتا۔ ہدایت کا منشا یہ ہے کہ عامل اپنی مرضی سے چھانٹ کر نہ لے۔ ہاں، اگر زکوٰۃ دینے والا اپنی خوشی سے چھانٹ کر اچھا مال پیش کرے تو اس کے قبول کرنے میں مضائقہ نہیں ہے۔ اس حدیث میں مظلوم کی بددعا سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ لوگوں پر زیادتی نہ کی جائے۔ خدا ان کی پکار کو جلد سنتا ہے۔

  •  مال کی بربادی سے حفاظت :حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: صدقہ جب کسی مال میں مخلوط ہوگا (نکالا نہ جائے گا) تو وہ اس کو تباہ کر کے چھوڑے گا(مسند شافعی، بخاری)۔ یعنی اگر مال میں زکوٰۃ کا حصہ ملا ہوگا، نکال کر مستحقین کو نہیں دیا جائے گا، تویہ چیز آدمی کے دین و ایمان کو تو تباہ کرنے والی ہے ہی، ساتھ ہی اس کا پورا سرمایہ بھی اس کے ظلم کے سبب تباہ ہوسکتا ہے۔ زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی وجہ سے آدمی کا سارا مال ناقابلِ استعمال قرار پاتا ہے۔ زکوٰۃ نہ دے کر آدمی اپنے سارے مال کو ناپاک کر دیتا ہے۔    اس سے بڑی ہلاکت اور بدبختی کی کیا بات ہوسکتی ہے۔ اسی طرح وہ شخص بھی اپنے مال کو ناپاک اور تباہ کرتا ہے جو زکوٰۃ کا مستحق نہ ہونے کے باوجود زکوٰۃ لے کر اپنے مال میں شامل کرتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کو اللہ نے مال دیا۔ پھر اس نے اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی، تو اس کا مال قیامت کے دن نہایت زہریلے گنجے سانپ کی شکل اختیار کرلے گا۔ جس کے (سر پر) دو سیاہ نقطے ہوں گے اور وہ قیامت کے دن اس (کے گلے) کا طوق بن جائے گا۔ پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑے گا اور کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں‘‘(بخاری، مسلم)۔پھر آپؐ نے تلاوت فرمایا:

وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ ط  بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ ط سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ  ط(اٰلِ عمرٰن ۳:۱۸۰) وہ لوگ جو اس چیز میں بخل کرتے ہیں جسے اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے اچھا ہے بلکہ یہ ان کے حق میں بُرا ہے۔ جو کچھ انھوں نے بخل کیا ہوگا آگے وہی قیامت کے دن ان (کے گلے) کا طوق بن جائے گا۔

سانپ کا گنجا ہونا اس کے انتہائی زہریلا ہونے کی علامت ہے۔ زکوٰۃ دینے سے جو مال قیامت کے دن اس کی راحت اور آرام کا سبب بن سکتا تھا، اس دن مصیبت بن کر اس کی جان کو لاگو ہوگا۔ بخیل اور زرپرست حُب ِ مال کے سبب اپنے مال و دولت اور خزانے پر سانپ بنا رہتا ہے ، دوسروں کو اس سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ہی نہیں دیتا۔ اس کا انجام اس شکل میں اس کے سامنے آئے گا کہ اس کی دولت اور اس کا خزانہ اس کے لیے سانپ بن جائے گا اور اسے ڈستا رہے گا۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو زمین بارش کے پانی سے یا بہتے چشمے سے سیراب ہوتی ہو، یا دریا کے نزدیک ہونے کے سبب پانی دینے کی ضرورت نہ پڑتی ہو، اس کی پیداوار کا دسواں حصہ (بطورِ زکوٰۃ) نکالا جائے گا اور جس کو مزدور لگاکر سینچا جائے اس میں بیسواں حصہ ہے‘‘۔ (بخاری)

حضرت اُمِ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ’’ میں سونے کی اوضاح (ایک خاص زیور) پہنتی تھی۔ میں نے (رسولؐ اللہ سے) پوچھا: یارسولؐ اللہ! کیا یہ بھی ’کنز‘ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جو اس مقدار کو پہنچ جائے جس میں زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ہے اور اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے تو ’کنز‘ نہیں ہے‘‘۔(مالک ، ابوداؤد)

قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے کہ وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لا فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍo(التوبہ ۹:۳۴) ’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو‘‘۔ اس آیت میں سونے چاندی کی جس تخزین پر وعید آئی ہے اس روایت میں حضرت اُمِ سلمہؓ کا اشارہ اسی طرف تھا۔ سوال کا منشا یہ تھا کہ کیا زیور بھی اس کنز میں شامل ہے جس پر قرآنِ مجید میں وعید فرمائی گئی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اگر زیورات کی زکوٰۃ ادا کی جاتی رہے تو پھر وہ ’کنز‘ نہیں ہے جس پر عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔

حضرت سمرہ بن جندبؓ کہتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ جس چیز کو بیع (تجارت) کے لیے ہم نے تیار کیا ہو اس میں سے صدقہ (زکوٰۃ) نکالیں‘‘۔(ابوداؤد)

معلوم ہوا کہ مالِ تجارت پر زکوٰۃ لازم ہے۔

  •  زکوٰۃ کا مصرف: حضرت عطاء بن یسارؓ مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زکوٰۃ مال دار کے لیے حلال نہیں سواے پانچ آدمیوں کے: اللہ کی راہ میں لڑنے والے کے لیے، عاملِ زکوٰۃ کے لیے، قرض دار یا تاوان بھرنے والے کے لیے، اس شخص کے لیے جو کسی مفلس سے زکوٰۃ کا مال خرید لے اور اس شخص کے لیے جس کا ہم سایہ محتاج ہو، اسے زکوٰۃ دی گئی ہو اور اس مسکین نے زکوٰۃ کے مال میں سے اس مال دار کو ہدیہ دیا ہو۔(مالک ، ابوداؤد)

معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کا مال مجاہدوں پر خرچ کیا جاسکتا ہے اور اس میں سے عاملِ زکوٰۃ (یعنی زکوٰۃ کا وصول و تحصیل کرنے والے) کو معاوضہ بھی دیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی شخص کو تاوان بھرنا ہے یا کوئی قرض کے بوجھ سے لدا ہوا ہے تو زکوٰۃ کی مَد سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ کسی محتاج سے زکوٰۃ کے مال کو کوئی مال دار شخص خرید کر اپنے استعمال میں لے آئے۔ اسی طرح اس ہدیہ کو قبول کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں جو کوئی محتاج شخص زکوٰۃ و صدقہ کے مال میں سے پیش کرے۔

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صدقہ مال دار کے لیے حلال نہیں ہے سواے اس کے جو جہاد میں ہو، یا مسافر ہو، یا ایک ہم سایہ محتاج ہو، اسے کوئی چیز صدقے میں ملی ہو وہ ہدیے کے طور پر تمھیں پیش کرے یا تمھاری دعوت کرے‘‘۔ (ابوداؤد)

 

ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کو واجب کیا تاکہ لغو اور بے حیائی کی باتوں کا جو روزے میں سرزد ہوگئی ہوں کفّارہ بنے اور مسکینوں کے کھانے کا نظم ہوجائے۔(ابوداؤد)

رمضان کے ایک ماہ کے روزے رکھنے کے بعد صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاکید ہے کہ گھر کے سبھی لوگوں کی طرف سے نمازِ عید سے پہلے پہلے صدقۂ فطر ادا کیا جائے۔ اس صدقہ کے واجب ہونے کی دو مصلحتیں اس حدیث میں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ روزہ دار سے روزے کی حالت میں کوشش کے باوجود جو کوتاہی یا کمزوری ظاہر ہوئی ہو، صدقے کے ذریعے سے اس کی تلافی کرلی جائے۔ دوسری مصلحت اس میں یہ ہے کہ جس دن سارے مسلمان عید کی خوشی منانے جارہے ہوں اس دن سوسائٹی کے غریب لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام بھی ہوجائے تاکہ وہ بھی اطمینان سے عید کی خوشی منانے میں شریک ہوسکیں۔