مئی ۲۰۱۷

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| مئی ۲۰۱۷ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

جان کنی کے وقت سورۂ يٰسۗکی تلاوت؟

سوال: سورۂ يٰسۗ کوقرآن کا دل کہا جاتا ہے ، کیا یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے؟

جان کنی کے وقت سورۂ يٰسۗ کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جان نکلنے کے بعد مُردے کے پاس بھی اس کی تلاوت کی جانی چاہیے۔اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیے ۔ کیا یہ باتیں احادیث سے ثابت ہیں؟

جواب: بعض روایات میں یہ باتیں مذکورہیں ، لیکن ناقدینِ حدیث نے انھیں ضعیف اور موضوع قرار دیا ہے۔مثلاً سورۂ يٰسۗ کے قرآن کا دل ہونے کی بات سنن ترمذی اورسنن دارمی کی ایک روایت میں آئی ہے، جوحضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اِنَّ لِکُلِّ شَی ءِ قَلْبًا وَقَلْبُ الْقُرآنِ يٰسۗ ،ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اورقرآن کا دل سورۂ یٰسٓ ہے۔ (ترمذی :۲۸۸۷، دارمی:۲۱۴۹)

امام ترمذی ؒ نے لکھا ہے کہ ’’ یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں‘‘۔ اس کی سند میں ایک راوی ہارون ابومحمد ہے ۔ اسے امام ترمذی نے مجہول کہا ہے ۔ ابوحاتم نے فرمایا ہے کہ ’’یہ حدیث باطل ہے ۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ‘‘۔ علامہ البانیؒ فرماتے ہیں کہ’’ اس کی سند میں ایک راوی مقاتل بن سلیمان ہے (نہ کہ مقاتل بن حیّان ) اوروہ کذّاب ہے۔ اس بنا پر یہ حدیث موضوع ہے ‘‘۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموـضوعۃ ، حدیث :۱۶۹)

اسی طرح روایات میں جان کنی کے وقت سورۂ يٰسۗ کی تلاوت کا حکم ملتا ہے۔ حضرت معقل بن یسار ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اِقْرَءُ وا يٰسۗ عَلٰی مَوْتَاکُمْ ،تم میں سے جن لوگوںکی موت کا وقت آگیا ہو ان پر  سورۂ يٰسۗ پڑھو۔(ابوداؤد،۳۱۲۱، ابن ماجہ :۱۴۴۸)

یہ روایت بھی ضعیف ہے ۔ اس کی سند میں ایک راوی عثمان ہے ، جس نے اسےاپنے باپ سے روایت کیا ہے ۔ یہ دونوں مجہول ہیں۔ امام دار قطنیؒ نے فرمایا ہےکہ ’’ اس موضوع پر روایت کی جانے والی کوئی روایت صحیح نہیں ہے ‘‘۔ علامہ البانی ؒ نے بھی اسے ضعیف قراردیا ہے۔(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ، حدیث نمبر :۵۸۶۱)

تاہم، مسند احمد کی ایک روایت میں ، جو حضرت معقل بن یسار ؓ سے مروی ہے ، یہ دونوں باتیں مذکور ہیں ، یعنی اس میں یٰسٓ کو قرآن کا دل کہا گیا ہے اورجان کنی کے وقت اس کی تلاوت کا بھی حکم دیا گیا ہے ۔ لیکن اس کی سند میں عن رجل عن ابیہ (ایک آدمی نے اپنے باپ سے روایت کی) آیا ہے ۔ دونوں کے مجہول ہونے کی وجہ سے اس روایت کوضعیف قرار دیا گیا ہے ۔

جان نکلنے کے بعد جب تک میت کوغسل نہ دیا جائے، اسے ناپاک قرار دیا گیا ہے ۔ اس لیے غسل سے پہلے میت کے قریب قرآن مجید پڑھنے کو فقہاء نے مکروہ کہا ہے ۔ (کتاب الفتاویٰ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، طبع دیوبند،۳/۱۳۹)۔ (مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)


دوسری تنظیم سے تعاون یا عدم تعاون

سوال : میں جماعت اسلامی کی رکن ہوں اور ابلاغی محاذ (بلاگز، اخبارات، انٹرنیٹ) پر دین اور تحریک کے دفاع کے لیے بسا ط بھر متحرک اور دل و دماغ اور قلم سے حاضر ہوں۔ میرے شوہر کا تعلق ایک رفاہی تنظیم سے ہے۔ میرے شوہر کو جماعت کے نظم سے کوئی شکایت نہیں اور وہ جماعت میں میری سرگرمیوں پر خوش ہیں اور اکثر اوقات مددگار ہوتے ہیں۔ جس سے میرے لیے ان سرگرمیوں میں حصہ لینا آسان اور حوصلہ افزا ہے۔ میں کبھی کبھار کسی پہلو سے شوہر کی وابستگی والی تنظیم کے لیے دوچار سطریں سوشل میڈیا پر لکھ دیتی ہوں، جن کا تعلق ان کی تنظیم کی جانب سے اُٹھائے گئے کسی سماجی مسئلے سےمتعلق ہوتا ہے۔ ان تمہیدی سطور کے بعد عرض یہ ہے کہ:

۱- کیا ایک ہی مقصد رکھنے والوں کو محض مختلف پلیٹ فارم ہونے کے باعث ہرسطح پر الگ سمجھنا درست ہے؟

۲- ابلاغِ دین یا رفاہی کاموں میں میرا اپنے شوہر سے کیا رویہ ہونا چاہیے؟

اس پیش آمدہ تحریکی اور گھریلو پریشانی پر درخواست گزار ہوں کہ رہنمائی فرمائیں۔

جواب : ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ص (المائدہ ۵:۲) ’’نیکی اور تقویٰ کے کام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور معصیت کے کام میں باہمی تعاون نہ کرو‘‘۔ قرآنِ پاک کے اس ارشاد کی روشنی میں ایک شخص یا اشخاص ایک تنظیم میں رہتے ہوئے،کسی دوسری تنظیم سے تعاون کرسکتے ہیں۔ اپنی بیان کردہ صورتِ حال کے مطابق اگر آپ اس اصول پر چل رہی ہیں تو چاہے آپ کا شوہر جماعت اسلامی میں شامل نہیں، آپ صحیح سمت پر گامزن ہیں اور اسی اصول پر عمل پیرا رہیں۔(مولانا عبدالمالک)


مرحوم و مغفور کے معنی

سوال : بعض مقالات میں فوت ہو جانے والے لوگوں کے لیے ’مرحوم و مغفور‘ لکھا جاتا ہے۔ ’مرحوم‘ کے معنی ہیں ’جس پر رحم کیا گیا ہو‘ اور ’مغفور‘ کے معنی ہیں ’بخشا ہوا‘ یعنی جس کو ’بخش دیا گیا ہو‘۔ یہ لکھنا کس طرح صحیح ہے، جب کہ کسی کے پاس اس کا علم نہیں کہ کون بخشا گیا ہے اور کون نہیں بخشا گیا؟

جواب :یہ دونوں لفظ بطورِ دُعا لکھے جاتے ہیں، جیسے ’رحمہ اللہ‘ اور ’غفرلہٗ‘ لکھا جاتا ہے۔ پہلے جملے کے معنی یہ ہیں کہ ’اللہ ان پر رحم فرمائے‘ اور دوسرے جملے کے معنی یہ ہیں کہ ’اللہ ان کی مغفرت فرمائے‘۔ ’مرحوم‘ رحمہ اللہ کی جگہ اور ’مغفور‘، غفرلہٗ کی جگہ استعمال ہوتاہے۔ (مولانا سیّد احمد عروج قادری، احکام و مسائل، دوم، ص ۱۶۷)