’’الزام لگایا جا رہا ہے کہ طیب اردوان آمر بننا چاہتا ہے۔ اردوان ایک فانی انسان ہے، اسے تو یہ تک نہیں معلوم کہ وہ ۱۶؍اپریل تک زندہ بھی رہتا ہے یا نہیں۔ ہم ملکی نظام میں دُور رس اصلاح لانا چاہتے ہیں۔ الزام لگانے والوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آمر ووٹ کی پرچیوں اور عوام کی حقیقی راے کے ذریعے نہیں آیا کرتے‘‘___ ترک صدر رجب طیب اردوان ۱۶؍اپریل کو ہونے والے ریفرنڈم کے خلاف جاری پروپیگنڈے کا جواب دے رہے تھے۔ یہ دن اب ترک تاریخ کے اہم ترین دنوں میں شامل ہوگیا ہے۔ اس روز ۸۰ فی صد سے زائد عوام نے دستوری ترامیم کے حق یا مخالفت میں ووٹ دیتے ہوئے بالآخر پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ان ترامیم کی تفصیل سے پہلے آیئے ذرا اس جوہری تبدیلی کا پس منظر تازہ کرلیں۔
۹۳سال قبل مصطفیٰ کمال اتاترک نے خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے سیکولر ترک ریاست کی بنیاد رکھی تھی۔ اس نے اذان، نماز اور قرآنِ کریم سمیت تمام دینی شعائر پر پابندی عائد کر دی۔ اس نے اپنی پارٹی کے علاوہ کوئی دوسری سیاسی جماعت بنانے پر بھی پابندی لگادی۔ اتاترک کے اس نظام اور پالیسیوں کے خلاف سب سے پہلی بغاوت اس کی اپنی پارٹی کے ایک رکن اسمبلی عدنان مندریس اور اس کے ساتھیوں نے کی۔ انھوں نے اتاترک کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ۱۹۴۵ء میں اپنی الگ ’ڈیموکریٹک پارٹی‘ (DP)بنا لی۔ ۱۹۵۰ء کے انتخابات میں ان کی پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کرتے ہوئے اذان، نماز اور قرآن کی تلاوت پر لگی پابندی ختم کر دی اور ملکی تعمیروترقی کے سفر میں اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کے ۱۰سالہ دورِاقتدار کے بعد ۲۷مئی ۱۹۶۰ء کو ۳۸ فوجی افسروں نے ان کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ۲۳۵ جرنیلوں سمیت ساڑھے پانچ ہزار فوجی افسر ملازمت سے فارغ کر دیے۔ صدر جلال بایار کو عمرقید اور وزیراعظم عدنان مندریس کو تین ساتھیوں سمیت دُوردراز جزیرے میں لے جاکر ۱۶ستمبر ۱۹۶۰ء کو پھانسی دے کر وہیں دفن کر دیا (۱۷؍اپریل ۱۹۹۰ء کو وزیراعظم ترگت اوزال نے ان کا جسد ِ خاکی وہاں سے لاکر استنبول میں دفن کیا۔ اسمبلی نے باقاعدہ قانون سازی کرتے ہوئے انھیں شہید ِ وطن قرار دیا اور انھیں دی گئی سزاے موت کو غلط قرار دیا)۔
ظلم و جبر، محلاتی سازشوں، پے درپے فوجی انقلابات اور اتاترک ذہنیت کے ہرمخالف پر رجعت پسندی و شخصی اقتدار کے الزامات پر مشتمل ترک تاریخ کے مزید کئی ابواب رقم کیے جانے لگے۔ اتاترک سے لے کر آج تک کے ۹۳سالہ عرصے میں ۶۵ حکومتیں بنائیں اور ختم کی گئیں، یعنی ہرحکومت کی اوسط عمر تقریباً ۱۷مہینے رہی۔ عدنان مندریس، ترگت اوزال اور طیب اردوان کے عہد ِ حکومت نکال دیے جائیں تو، فی حکومت یہ عرصہ ایک سال سے بھی کم رہ جائے۔ کئی بار دستوری ترامیم کی گئیں۔ ۱۹۶۱ء اور ۱۹۸۲ء میں ان ترامیم کے لیے عوامی ریفرنڈم بھی کروائے گئے لیکن ملک کو ہمیشہ کسی نہ کسی بحران کا سامنا رہا۔ مختلف قائدین نے اس پورے نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش و کوشش کی لیکن کسی کو بھی کامیاب نہ ہونے دیا گیا۔ خود صدر طیب اردوان کو گذشتہ سال جولائی میں خونیں فوجی انقلاب کا نشانہ بنایا گیا۔ ۲۴۰ بے گناہ ترک شہری شہید اور سیکڑوں زخمی کر دیے گئے۔ ربِ ذوالجلال کی حفاظت نہ ہوتی تو اردوان بھی کسی صورت بچ نہ سکتے۔
اس تناظر میں صدر طیب اردوان نے اعلان کیا کہ وہ ترک جمہوریہ کے ۱۰۰سال پورے ہونے تک ترکی کو پھر سے دنیا کی کامیاب ریاست بنادیں گے۔ ان کے عہد ِ اقتدار میں ہونے والی بے پناہ ترقی اور حالیہ دستوری ترامیم ان کے اسی خواب کا حصہ ہیں۔ ان ترامیم میں ۱۸شقیں شامل ہیں۔ اس کا اہم ترین پہلو عوام کے براہِ راست ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے صدرِ مملکت کو سربراہِ حکومت بنانا ہے۔ پارلیمنٹ کو اس کے اصل کام، یعنی حکومت کی کارکردگی پر نگاہ رکھنے اور قانون سازی کرنے کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ یہ جوہری تبدیلی ترکی کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ اسی تاریخی ربط کو واضح کرتے ہوئے ریفرنڈم کے اگلے روز صدر اردوان نے استنبول میں مدفون صحابیِ رسولؐ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبر پر فاتحہ خوانی کی، جو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خبری کی روشنی میں فتح قسطنطنیہ کی کوششوں میں شریک ہوکر شہادت کے رُتبے پر فائز ہوئے۔ ان کے بعد وہ فاتح قسطنطنیہ اور خلافت عثمانیہ کے بانی محمد الفاتح کی قبر پر گئے۔ پھر پھانسی پانےوالے سابق وزیراعظم عدنان مندریس، سابق صدر ترگت اوزال اور سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان کی قبر پر گئے۔ ان کی یہ فاتحہ خوانی اس بات کی علامت تھی کہ جس تبدیلی کے لیے آپ سب کوشاں رہے، آج ہم اس کا عملی آغاز کرچکے ہیں۔
حالیہ ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے ارکان کی تعداد ۵۵۰ سے بڑھا کر ۶۰۰ کردی گئی ہے۔ اس طرح ارکان اسمبلی کا حلقۂ انتخاب مختصر کرتے ہوئے انھیں عوامی مسائل حل کرنے کے زیادہ مواقع حاصل ہوں گے۔ چوں کہ اب پارلیمنٹ کو تمام تر سیاسی جوڑتوڑ سے پاک کر دیا گیا ہے، اس لیے اُمید کی جاسکتی ہے کہ ارکانِ اسمبلی کی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں بہتر کارکردگی کا موجب بنیں گی۔پارلیمنٹ صدر، اس کے نائبین اور وزرا کا احتساب کرسکتی ہے۔ پارلیمنٹ کی طرف سے صدر کے مواخذے کے اعلان کے بعد صدرِ مملکت نئے انتخابات کا اعلان بھی نہیں کرسکے گا۔ انتہائی ناگزیر حالات میں اگر صدر اسمبلی توڑنے اور نئے انتخابات کا اعلان کرنا چاہے گا، تو اسے صرف پارلیمانی انتخابات ہی نہیں، صدارتی انتخابات بھی دوبارہ کروانا ہوں گے، یعنی خود بھی جانا ہوگا۔ حالیہ ترامیم کے مطابق صدر اور پارلیمنٹ ایک ہی روز ہونے والے عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہوا کریں گے۔ واضح رہے کہ حالیہ پارلیمانی اور صدارتی مدت کو ۲۰۱۹ء میں ختم ہونا ہے اور ابھی سے آیندہ انتخابات کی تاریخ طے کردی گئی ہے جو ۳نومبر ۲۰۱۹ء کو ہوں گے۔ ان ترامیم کے ذریعے تمام فوجی عدالتیں ختم کر دی گئی ہیں۔ ایسی عارضی عدالتوں کا قیام صرف حالت ِ جنگ میں کیا جاسکے گا۔
حالیہ ترامیم کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کی ۱۸ شقوں میں سے ۱۶شقیں ۳نومبر ۲۰۱۹ء کے انتخابات کے بعد نافذالعمل ہوں گی۔ فی الحال صرف دو شقوں پر عمل درآمد ہوگا۔ ایک تو یہ کہ صدرِ مملکت اگر چاہے تو وہ کسی سیاسی پارٹی کا رکن بن سکتا ہے۔ گویا یہ منافقت ختم کر دی گئی کہ صدرِ مملکت عملاً تو اپنی پارٹی کا مدار المہام تک رہتا ہے، لیکن بظاہر یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ اس کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں۔ سیاسی وابستگی کی اجازت کا مطلب ہے کہ اب صدر اردوان اپنی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے رکن بلکہ سربراہ بھی بن سکیں گے۔ دوسری شق جس پر فوری عمل درآمد ہوگا وہ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی سے متعلق ہے۔ اس وقت بھی تمام ججوں کا تعین صدرِمملکت کی منظوری ہی سے ہوتا ہے، لیکن آیندہ صدر کو ۱۰ میں سے ۴ جج اپنی صواب دید پر مقررکرنے کا اختیار ہوگا۔
ایک طرف طیب اردوان ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ میں ایک فانی انسان ہوں جسے اپنے کل کی خبر نہیں، دوسری طرف ان کے مخالفین کا الزام ہے کہ اردوان نے ۲۰۲۹ء تک اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے۔ حقیقت دیکھیں تو الزام لگانے والوں کی فہم و فراست پر شک ہونے لگتا ہے۔ صدرِمملکت کا عہدہ پانچ سال کا ہوتا ہے۔ حالیہ ترامیم کے مطابق وہ زیادہ سے زیادہ دو بار منتخب ہوسکے گا۔ الزام لگانے والے گویا ابھی سے اعترافِ شکست کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ۳نومبر۲۰۱۹ء کو ہونے والے انتخابات میں طیب اردوان جیت جائیں گے اور پھر پانچ سال بعد ۲۰۲۴ء میں بھی وہی صدر منتخب ہوں گے، اور اس طرح ۲۰۲۹ء تک وہ اقتدار پر براجمان رہیں گے۔
طیب اردوان فرشتہ نہیں، دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہے۔ غلطیاں کرتا بھی ہے اور کربھی سکتا ہے لیکن ان پر آمریت کا الزام لگانے والے مغرب کا حال ملاحظہ ہو۔ ناکام فوجی بغاوت کے مرکزی کردار اب بھی امریکا اور مختلف یورپی ممالک میں براجمان ہیں۔ ترک حکومت کے مطابق فوجی بغاوت میں ناکامی کے بعد اب اندرونی خلفشار کی لہر کے پیچھے بھی ان کا واضح کردار ہے۔ مغرب جو خود کو جمہوریت اور حقوقِ انسانی کا ہیرو سمجھتا ہے، حالیہ دستوری ریفرنڈم کے موقعے پر یورپ میں مقیم ترک عوام کو اس کے حق میں بات کرنے سے روک دیا گیا۔ خود ترک وزیرخارجہ کا جہاز ہالینڈ میں اُترنے سے روک دیا گیا تاکہ وہ اپنے شہریوں سے ریفرنڈم کے بارے میں بات نہ کرسکیں۔ ترک خاتون وزیر کار کے ذریعے ہالینڈ جانے میں کامیاب ہوگئیں، تو ترک قونصل خانے سے ۵۰۰ میٹر کے فاصلے پر انھیں روک کر زبردستی واپس بھجوا دیا گیا۔ یورپ میں تقریباً ۴۰لاکھ ترک شہری رہتے ہیں۔ خدا کی شان دیکھیے کہ یورپ کے تمام منفی ہتھکنڈوں کے باوجود بیرونِ ملک مقیم ترک شہریوں کی غالب اکثریت نے دستوری ترامیم کے حق میں راے دی۔
اب ایک بار پھر یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت پر بحث کی جارہی ہے۔ ترکی ہی نہیں خود اسلام اور مسلمانوں کو اعتراضات کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یورپ کے کئی اہم ممالک میں اس وقت انتخابی عمل جاری ہے۔ تقریباً ہر جگہ انتہاپسند سیاسی جماعتیں شدومد سے اسلام پر الزام تراشی کرر ہی ہیں۔
جرمنی میں اپنے آپ کو ’متبادل‘ کے طور پر پیش کرنے والی جماعت کے رہنما بیاٹریکس فون شڑوگ کا فرمانا ہے کہ’’اسلام کوئی مسیحت کی طرح کا باقاعدہ دین نہیں بلکہ چند افکاروخیالات کا مجموعہ ہے جو ریاست کو زبردستی مسلمان بنانا چاہتا ہے۔ اسلام جرمنی کے لیے ایک سنگین خطرہ اور جرمنی کے دستور سے متصادم ہے۔ فرانس کے سابق صدر نیکولا سرکوزی کا ارشاد ہے کہ ’’یورپ کسی طرح ایسے ملک کو اپنا حصہ نہیں بناسکتا جو ۷۰ملین مسلمانوں پر مشتمل ہے‘‘۔ جرمن چانسلر میرکل، گاہے مسلمانوں سے اظہارِ ہمدردی کرتی دکھائی دیتی ہیں، یورپی یونین میں ترک رکنیت کے بارے فرماتی ہیں کہ ’’ہم ترکی کو رکنیت نہیں دیں گے لیکن اس سے مذاکرات بھی ختم نہیں کریں گے‘‘۔ گویا وہی پالیسی جو مقبوضہ فلسطین میں نیتن یاہو یا اس کے پیش رو صہیونی رہنمائوں کی رہی کہ فلسطینیوں کو لاحاصل مذاکرات میں اُلجھائے رکھو اور ان کا قتل عام بھی جاری رکھو۔
اپنے عوام کی تائید اور ملک میں ایک مستحکم و مضبوط سیاسی نظام کی بنیاد رکھنے کے بعد صدر طیب اردوان نے بھی دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضرورت پڑی تو ایک اور ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی راے معلوم کرنے کے بعد ہم یورپی یونین کے ساتھ ان مذاکرات کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیں گے۔ اس صورتِ حال پر کئی یورپی دانش وروں نے تشویش کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ فرانس کے انسٹی ٹیوٹ براے عالمی تعلقات کے نائب صدر دیدیہ پیلیون کا کہنا ہے کہ ’’یورپی یونین ایک سیاسی پلیٹ فارم ہے، کوئی مسیحی پلیٹ فارم نہیں۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ سے ایسی آوازیں اُٹھنا کہ ہمیں ترکی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دینا چاہیے، یورپی ریاستوں کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔ ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت ترکی نہیں بلکہ یورپ ایک ’مرد بیمار‘ کی حیثیت اختیار کر رہا ہے۔ ایک مضبوط ترکی کے ساتھ رابطہ منقطع کرنا یورپ کی سنگین سیاسی حماقت ہوگی‘‘۔
اسی تناظر میں صدر طیب اردوان کا یہ بیان بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ’’معاہدۂ لوزان پر نظرثانی کی ضرورت ہے‘‘۔واضح رہے کہ ۲۴جولائی ۱۹۲۳ء کو سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں ہونے والے اس معاہدے میں خلافت ِ عثمانیہ کا ترکہ تقسیم کرتے ہوئے ترکی کو اس کے بہت سارے اعصابی مراکز سے محروم کر دیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں ایک طرف ترکی تھا اور دوسری جانب برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان اور یونان سمیت کئی ممالک۔ ۱۴۳ شقوں پر مشتمل معاہدے میں خلافت ِ عثمانیہ کا عملاً خاتمہ کرتے ہوئے اسے اس کی حالیہ سرحدوں میں مقید کر دیا گیا۔ اس کے اہم بحری راستوں اور سمندری علاقوں پر عملاً اس کا اختیار ختم کر دیا گیا تھا۔ باسفورس اور مرمرہ جیسی انتہائی اہم بحری گزرگاہوں کو بہرصورت اور مفت کھلا رکھنے کا عہد کروا لیا گیا تھا۔ اگرچہ سوشل میڈیا میں گردش کرنے والے ان دعوئوں کی تو کوئی تاریخی سند نہیں کہ معاہدۂ لوزان میں ترکی پر تیل کی تلاش اور کھدائی پر ۱۰۰سال کے لیے پابندی لگادی گئی تھی جو ۲۰۲۳ء میں ختم ہوجائے گی۔ لیکن صدر اردوان کے الفاظ میں ہمیں ۱۹۲۰ء کے معاہدہ ’سیفر‘ کی موت دکھلا کر ۱۹۲۳ء کے معاہدۂ لوزان کے دائمی اپاہج پن پر راضی کرلیا گیا۔ اردوان کی طرف سے اس معاہدے کا ذکر بنیادی طور پر اندرون و بیرون کے لیے ایک پیغام ہے کہ اس وقت ایک بار پھر خطے میں جو نئے ’معاہدہ ہاے لوزان‘ تیار اور نافذ کیے جارہے ہیں، عراق اور شام کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ترکی سے بھی کئی علاقے کاٹنے کی کوششیں ہورہی ہیں، ہمیں خود کو مضبوط تر کرتے ہوئے، ایک مستحکم نظامِ حکومت تشکیل دیتے ہوئے اور اپنے دورِعروج کو یاد رکھتے ہوئے انھیں ناکام بنانا ہے۔ آخر میں ترک دستوری ریفرنڈم پر ایک عوامی تبصرہ جو خود ترکی میں بھی بہت معروف ہوا ہے اور عالمِ عرب میں بھی کہ ’’اتاترک کا انتقال تو ۷۹سال قبل ہوگیا تھا، لیکن اس کی تدفین اب ہوسکی‘‘۔
یہ امر بھی البتہ ایک حقیقت ہے کہ خود اتاترک کے بہت سے حامیوں نے بھی ’ہاں‘ میں ووٹ دیا۔ ترک قوم پرست جماعت نے تو باقاعدہ ان کی حمایت کا اعلان کر رکھا تھا، جب کہ دوسری جانب پروفیسر نجم الدین اربکان کی سعادت پارٹی نے کھل کر ان ترامیم کا ساتھ نہیں دیا۔ سعادت پارٹی کے صدر تمل کرم اللہ اوغلو کا ایک ملاقات میں کہنا ہے کہ کئی ترامیم اچھی ہیں، کچھ پر تحفظات بھی ہیں، لیکن اصل تشویش اس بات پر ہے کہ طرفین ایک دوسرے کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کررہے ہیں۔ ایک فریق ’ناں‘ کہنے والوں کو غدار کہتا ہے تو دوسرا ’ہاں‘ کہنے والوں کو۔ یہ خلیج خطرناک ہے۔ تاہم، اصل ضرورت ملک کا جمہوری نظام مضبوط کرنا ہے۔