مئی ۲۰۱۷

فہرست مضامین

یہ ’بیانیہ سازی‘ کا کھیل

سلیم منصور خالد | مئی ۲۰۱۷ | بحث و نظر

Responsive image Responsive image

ہر موسم کے اپنے پھل اور ہر زمانے کے اپنے ’نمونے‘ (ماڈل) ہوتے ہیں۔ ہمارے موجودہ زمانے کا نمونہ ’بیانیہ‘ سے منسوب ہے۔ خورشید ندیم صاحب نے ۱۵؍اپریل ۲۰۱۷ء کو ایک غیر معروف مصنف کی شرانگیزی کو ایجابی طور پر اپنے ’بیانیہ‘ میں پیش کیا اور ایمن الظواہری سے منسوب قول دہرایا: ’’سید قطب کی کتابیں وہ بارود تھیں، جنھوں نے امت میں جہادی سوچ پیدا کی… [سید قطب] کی کتب اور رسائل میں بہت سے مقامات پر تکفیر کی تپش محسوس ہوتی ہے‘‘۔

یہ نقل کرنے کے بعد ندیم صاحب نے لکھا ہے: ’’میں اگر یہ پڑھ کر چونکا تو اس کا سبب سید قطب کے خیالات نہیں ہیں۔ [ان] کی کتاب معالم فی الطریق  کا اردو ترجمہ میں نے بچپن میں پڑھا [تھا، جس] کے تعارف میں لکھا ہے، جب فوجی عدالت نے سید قطب سے پوچھا کہ اُن کے اور مولانا مودودی کی دعوت میں کیا فرق ہے؟ سید صاحب نے جواب دیا ’لافرق‘ (کوئی فرق نہیں ہے)‘‘۔ موصوف نے اپنے ’بیانیے‘ میں زور پیدا کرنے کے لیے لکھا ہے: ’’میں سید قطب کے ان خیالات سے بہت پہلے سے واقف ہوں۔ یہ بحث بھی نئی نہیں ہے کہ دور جدید میں جہادی اور تکفیری سوچ کے بانی سید قطب ہیں… اخوان کی فکر اور تنظیم ہی سے دوسری انتہا پسند تنظیمیں وجود میں آئیں، جو مسلمان حکمرانوں کو مرتد قرار دیتی ہیں، اور ان کی تکفیر کرتی ہیں۔دیکھیے، اب جماعت اسلامی کا کیا موقف سامنے آتا ہے؟ وہ بھی خود کو اس سوچ سے الگ کرتی ہے یا پھر بدستور ’لافرق‘ کے نقطۂ نظر ہی کو اختیار کرتی ہے‘‘۔ (روزنامہ دنیا، ۱۵؍اپریل۲۰۱۷ء)

درحقیقت یہ کالم ایک چارج شیٹ سے بڑھ کر ایک تہمت ہے، جس میں یہ متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فی زمانہ مسلمانوں سے منسوب جتنی قتل و غارت گری ہورہی ہے، اس کا منبع سیّد قطب شہید اور اخوان المسلمون کی فکر ہے۔ چوںکہ سیّدقطب نے اپنے آپ کو مولانا مودودی کا ہم خیال قرار دیا ہے، اس لیے جماعت اسلامی والے اس ’مذموم سوچ‘ سے اپنی علیحدگی کی وضاحت کریں ورنہ وہ بھی اس قتل و غارت گری کے ذمہ دار ہیں۔

کسی فرد کے لکھنے اور بولنے پر تو کوئی قدغن نہیں لگا سکتا۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ موصوف اپنے ہر اس کالم میں، جو وہ اہلِ مذہب کی ’اصلاح‘ کے جذبے سے لکھتے ہیں، ان میں اِدعا کی کثافت اور سرزنش کا انداز پایا جاتا ہے، اور اکثر احساسِ ذمہ داری سے بے نیاز ہو کر لکھا جاتا ہے۔ افسوس کہ انھوں نے اس تحریر میں ہوشیاری بلکہ سفاکی سے، مغرب کے اُس بیانیے کو دُہرا ڈالا ہے، جسے وہ گذشتہ ۲۵برس سے ہر آن مسلم دانش کے سرتھوپے چلے جا رہا ہے، اور سید قطب شہید کو حالیہ زمانے کی تمام ’دہشت گردی کا مرکز‘ بنا کر پیش کر رہا ہے۔

مولانا مودودی اور سیّد قطب شہید کے حوالے سے پہلی بات یہ ذہن نشین کر لیجیے کہ ان دونوں حضرات نے کبھی تکفیر اور کفرسازی کا اسلوب اختیار نہیں کیا، بلکہ اس سے ہمیشہ پہلو بچایا ہے۔ کیا کالم نگار کا کوئی ہم نوا یہ بے بنیاد دعویٰ کرسکتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے تکفیری فکر کی ترویج  یا تائید کی ہے؟ جس طرح سید مودودیؒ کے بارے میں برعظیم جنوبی ایشیا کا کوئی باشعور شخص یہ دعویٰ تسلیم نہیں کرسکتا، بالکل اسی طرح سید قطب شہید کا لٹریچر ان الزامات کا جواب خود دیتا ہے۔

ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں:یہ ۱۹۳۶ء کی بات ہے کہ چند جیّد علما کی طرف سے مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حمیدالدین فراہی کے خلاف کفر کا فتویٰ شائع ہوا۔ مولانا مودودی نے تڑپ کر اس کے جواب میں لکھا: ’’مومن کو کافر کہنے میں اتنی ہی احتیاط کرنی چاہیے، جتنی کسی شخص کے قتل کا فتویٰ صادر کرنے میں کی جاتی ہے، بلکہ یہ معاملہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کسی کوقتل کرنے سے کفر میں مبتلا ہونے کا خوف تو نہیں ہے، مگر مومن کو کافر کہنے میں یہ خوف بھی ہے کہ اگر فی الواقع وہ شخص کافر نہیں ہے، اور اس کے دل میںذرہ برابر بھی ایمان موجود ہے، تو کفر کی تہمت خود اپنے اوپر پلٹ آئے گی۔ پس، جو شخص اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہو، اور جس کو اس کا کچھ بھی احساس ہو… وہ کبھی کسی مسلم کی تکفیر کی جرأت نہیں کر سکتا… جو شخص، مسلمان کی تکفیر کرتا ہے، وہ دراصل اللہ کی اُس رسی پر قینچی چلاتا ہے، جس کے ذریعے سے مسلمانوں کو جوڑ کر ایک قوم بنایا گیا ہے… اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ علماے دین میں کافروں کو مسلمان بنانے کا اتنا ذوق نہیں، جتنا مسلمانوں کو کافر بنانے کا ذوق ہے‘‘… (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۳۶ء)

ہم دیکھتے ہیں، سیّد قطب شہید نے سہ طرفہ جبر، یعنی: مغربی سامراجی سازشیوں،اشتراکیت کے پرچم برداروں اور عرب قوم پرستی کے نشے میں مدہوش عرب فوجی حاکموں کا جبر دیکھا اور اس کا سامنا بھی کیا، مگر اس کے باوجود سید قطب نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ: ’’میرے ہم نواؤ، اُٹھو اور سوشلسٹ عرب قوم پرست ڈکٹیٹر ناصر کی حکومت اور اس کے اہل کاروں کو قتل کر ڈالو‘‘۔ نہ یہ کہا کہ: ’’جہاں کوئی امریکی یا یہودی نظر آئے، اسے پھڑکا دو‘‘۔ نہ انھوں نے اُس جاہلیت کوجو اشتراکیت، سرمایہ دارانہ مادہ پرستی اور نسلی قوم پرستی کے مرکب سے سرطان کا پھوڑا بن چکی ہے اور اس نے نوعِ انسانی کو کرب میں مبتلا کررکھا ہے، اس کے بارے میں کہا کہ: ’’اِس کے فرستادوں کو اڑا دو‘‘۔ ہرگز نہیں، بلکہ انھوںنے اس کے لیے دعوت، تنظیم اور اخلاقی تربیت ہی کو بنیاد بنانے کی دعوت دی۔

دوسری طرف مولانا مودودی نے اپنے عزیز از جاںکارکنوں [اللہ بخش ۱۹۶۳ء لاہور، محمدعبدالمالک ۱۹۶۹ء ڈھاکہ ، ڈاکٹر نذیراحمد۱۹۷۲ ء ڈیرہ غازی خان] کی لاشیں اُٹھا کر بھی بار بار یہی تلقین کی: ’’ہم نے کسی صورت تشدد کا راستہ اختیار نہیںکرنا، دعوت کا راستہ ہی اصلاح اور تبدیلی کا راستہ ہے۔ ہم نے کسی سازش کا حصہ نہیں بننا اور آئینی و جمہوری راستے ہی سے منزل کی طرف گامزن رہنا ہے‘‘۔ مولانا مودودی نے ۹مئی ۱۹۶۳ء کو مکہ مکرمہ میں عرب نوجوانوں سے خطاب میں ہدایت فرمائی تھی: ’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے‘‘ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ء، تفہیمات، سوم، ص ۳۶۲)۔جماعت اسلامی تو اگست ۱۹۴۱ء میں بنی، لیکن مولانا مودودی کی وہ تحریریں، جو انھوں نے اپنے دورِ نوجوانی میں اخبارات مسلم اور الجمعیۃ میں ۱۹۲۲ء سے ۱۹۲۸ء کے زمانے میں لکھیں، ان میں بھی تشدد کے عمل کی تائید و تحسین نہیں کی، بلکہ گرفت اور مذمت کی۔

کالم نگار نے جماعت اسلامی کو اپنا ’موقف واضح‘ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ عرض یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی تاریخ، عمل اور اس کا دستور اس پر واضح ہیں۔ ’دستور جماعت اسلامی پاکستان‘ کی دفعہ ۵ (شق۳،۴) میں درج ہے: ’’جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کی طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی‘‘۔(دستور، ص ۱۵)

اسی طرح سیّد قطب کے فکری وارثوں، یعنی الاخوان المسلمون نے کبھی بغاوت اور تکفیر اور قتل و غارت کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع کا یہ تاریخ ساز جملہ اخوانی فکر کا حقیقی عکاس ہے، جو انھوں نے اگست ۲۰۱۳ء کو قاہرہ کے میدان رابعہ میں فرمایا تھا کہ: ’’ہم پُر امن ہیں، پُرامن رہیں گے، اور ہمارا پُرامن رہنا تمھاری گولیوں اور توپوں سے زیادہ طاقت ور ثابت ہوگا‘‘۔ مرشد عام اور ان کے ۴۵ ہزار جاں نثار آج بھی، مصر کی جیلوں میں صبر و ثبات کا نشان بن کر ہمارے معذرت خواہی کے دل دادہ دانش وروںکی تخیل آفرینی کا عملی جواب ہیں۔

سیّد قطب شہید نے اپنی کتاب معالم فی الطریق  میں یہ اصولی بات بیان کی ہے: ’’اسلام، جاہلیت کے ساتھ نیمے دروں نیمے بروں نوعیت کی کوئی مصالحت قبول نہیں کرسکتا۔ معاملہ خواہ اس کے تصور اور نظریے کا ہو اور خواہ اس تصور اور نظریے پر مرتب ہونے والے قوانینِ حیات کا۔ اسلام رہے گا یا جاہلیت‘‘ (اردو ترجمہ: جادہ و منزل، ص ۳۶۴-۳۶۵)۔ یہ اصولی بات سیّدقطب نے قرآن اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تتبّع میں کہی ہے، جس کی بازگشت صحابہؓ اور صلحاؒ کے ہاں بھی سنائی دیتی ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ’’اور حق اور باطل کو گڈمڈ نہ کرو‘‘ (البقرہ۲: ۴۲)۔ مزید فرمایا: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ اس کو سارے ادیان پر غالب کردے، ان مشرکوں کے علی الرغم‘‘ (التوبہ۹:۳۳)۔ یہ ابدی حقیقت قرآن میں موجود ہے تو سیّدقطب اپنی شہادت کے ۵۰سال بعد بھی کیوں گردن زدنی ہیں؟

اگر ایمن ظواہری نے اپنی صواب دید پر یہ کہا ہے کہ انھوں نے سیّد قطب کی تحریروں سے اپنی منزل کا سراغ پایا ہے، تو کسی بھی فرد کی جانب سے ایسا من مانا دعویٰ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ماضی میں خوارج نے ایک منفی رول ادا کیا تھا اور آج منکرینِ حدیث یا درست لفظوں میں امریکی مرضی کے مطابق ’اسلام پیش کرنے والے‘ بھی قرآن ہی کو اپنے لیے ’ذریعۂ رہنمائی‘ قرار دینے کا دعویٰ کرکے اُمت کے سینے پر مونگ دَل رہے ہیں۔ تو اب کیا یہ کہا جائے گا کہ خارجیوں اور منکرینِ  حدیث کی جدید ترین قسموں کا ذمہ دار (نعوذباللہ) قرآن ہے؟ اگر ایک فرد، سیّدقطب شہید یا علامہ محمد اقبال یا مولانامودودی کی تحریروں سے وہ شگوفہ نکالتا ہے، کہ جس پودے کو کبھی انھوں نے پانی دیا ہی نہیں تھا، تو وہ، ایسے کم فہم فرد یا شرانگیز گروہ کی حرکات کے کیسے ذمہ دار قرار پاتے ہیں؟

معذرت خواہ دانش ور، نہ تو سیّد قطب شہید کے عہد کے جبر کو جان سکتے ہیں، نہ وہ زمان و مکان اُن کے تجزیے کی گرفت میں آسکتے ہیں، جن میں انھوں نے پھانسی کے پھندے کو چوم کر بھی اللہ اور اس کے رسولؐ سے وفاداری کا ثبوت دیا۔ شکوک و شبہات کی فصلیں بونے والے قلم کار، بھلا نہتے کارکنوں کی قتل و غارت گری کا ادراک کیسے کرسکتے ہیں؟ یک قطبی امریکی سامراجی عہد میں سانس لینے والے ’مغرب زدہ علما‘ کے لیے انسانی حقوق، امن، عدل، رواداری کے کاغذی الفاظ میں ’بڑی قوت‘ ہے، مگر ناصر اور سیسی کی جیلوں میں سسکتی انسانیت اور صلیبوں پر لٹکتے لاشے اور جیل میں کتوں کے جبڑوں میں بھنبھوڑی جاتی عفت مآب خواتین کی کوئی آوازکانوں سے نہیں ٹکراتی۔

ہمارے  ان پارا صفت قلم کاروں کو نہ توسامراجی سلطنتوں میں وسعت لانے والی مغربی سامراجی طاقتیں یاد آتی ہیں ، نہ اقوامِ متحدہ کی بارگاہ سے نازل ہونے اور قتل و غارت مسلط کرنے والی خونیں قراردادیں متوجہ کرتی ہیں، اورنہ ڈیزی کٹر اور بموں کی ماں یاد آتی ہے۔یاد آتا ہے تو بس یہ کہ کسی طرح شرق و غرب کے غاصبوں کو چیلنج کرنے والی کوئی آہ، چیخ بن کر فضا کو نہ چیر دے۔

یہی کالم نگار اس سے قبل متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ ’سیاسی اسلام‘ یا ’اسلام کی سیاسی تعبیر موجودہ المیے کی ذمہ دار ہے،سوال پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے پہلے انھی اصحابِ قلم کی تحریروں نے وہ قیامت کیوں نہ ڈھائی، جو آج ان کے سر تھوپی جارہی ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان مظلوم مفکرین نے نہ وہ ’نظریہ‘ دیا تھا اور نہ وہ ’تنظیمیں‘ بنائی تھیں، جنھیں آج ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ دراصل یہ دانستہ مغالطہ انگیزی اس حقیقی مجرم اور سامراج کو بچانے کی یاوہ گوئی ہے، جس سے اصل قاتل سے توجہ ہٹاکر قتل اور آلۂ قتل کو، خود مقتول کے ذمے لگایا جارہا ہے۔

اہلِ صدق و صفا جانتے ہیں کہ ایسی وعدہ معاف دانش کی عمر مچھر کی زندگی سے زیادہ حقیر ہے۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے اگرچہ سیدقطب شہید دل اور سیّد مودودی دماغ کا درجہ رکھتے ہیں، لیکن ہم ان کی باتوں کو آخری سند نہیں مانتے، یہ مقام تو صرف کلام اللہ اور سنت اور حدیث رسولؐ اللہ کو حاصل ہے۔