تحریکِ اسلامی نام ہے دین کے پورے نظامِ فکر و عمل کی طرف دعوت دینے اور اس کو قائم کر نے کے لیے اجتماعی جدو جہد کرنے کا۔ یہ جزو کی نہیں، کل کی دعوت دیتی ہے۔کسی مخصوص تعلیم سے نہیں،شریعت کی تمام تعلیمات سے بحث کرتی ہے۔ کتاب الٰہی کی چند آیات کا انتخاب نہیں کرتی، بلکہ پورے قرآن کو مرکزِ فکرو عمل بناتی ہے۔معاشرے کی فلاح کے لیے کی جانے والی مختلف اسلامی خدمات، دینی تعلیمی اداروں کا قیام، اسلامی عقائد و عبادات کی تعلیم کے لیے دینی مجلسوں اور اصلاحی جلسوں کا انعقاد ، بے جا رسوم و روایات سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے اصلاحِ معاشرہ کے نام سے ہونے والی جدو جہد ، مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی کوششیں ، فلاحی و رفاہی انجمنوں کی تشکیل کی وہ حمایت بھی کرتی ہے ، اور خود بھی یہ خدمات انجام دیتی ہے۔ لیکن انھی خدمات اور مصروفیات کو اپنی توانائیوں اور پروگراموں کا اصل مقصود نہیں بتاتی۔
بلاشبہہ یہ مبارک اور مسعود خدمات بڑی قابل قدر ہیں اور ہر طرح کی تائید و تقویت کی مستحق ہیں،لیکن اقدام کو بقا سے، تحریک کو تحفظ سے، اور جدید کو قدیم سے ممتاز کیے بغیر ہم تحریک اسلامی کی صحیح تعریف نہیں کر سکتے اور نہ اس کی کماحقہ شناخت ہو سکتی ہے۔۱
دنیا کی تمام اسلامی تحریکوں نے مروجہ دین داری کو احیاے دین کے لیے ناکافی قرار دیا ہے۔ انھوں نے اسلام کو عقائد و عبادات سے آگے بڑھ کر خاندان و معاشرت، سیاست و تہذیب اور معاشرہ و ریاست کے تمام میدانوں میں متحرک اور جاوداں دیکھنے کی آرزو ظاہر کی ہے اور اس کے مطابق نقشۂ کار، حکمت عملی اور منصوبہ سازی کو اپنی پالیسی و پروگرام میں جگہ دی ہے۔
تحریک اسلامی کے ایک کارکن کو دعوت اور اقامت دین کے فریضے کی ادائی میں ایک داعی کا مزاج تشکیل دینا پڑتا ہے۔ داعی کے مزاج سے مراد، اخوان المسلمون مصر کے رہ نما بہی الخولی کے الفاظ میں یہ ہے کہ وہ درج ذیل ہتھیاروں سے مسلح ہو:
’حقیقت پسندی‘ کی تشریح کرتے ہوئے بہی الخولی کہتے ہیں کہ: قرآن نے جو اسلوب اختیار کیا ہے، اس میں فکر و فلسفہ بھی ہے اور محسوس و مشاہد حقائق کا ادراک بھی۔ کچھ لوگ اپنے افکار و نظریات خالص عقلی و فکری انداز میں پیش کرتے ہیں، علت و معلول، اسباب و مسببات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں، فکر و نظر کی گہرائیوں میں اتر کر جزئیات و کلیات اور مختلف مفروضات و حقائق کی چھان بین کر کے انھیں عوام کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور بس۔ اس طریقۂ کار سے دل کے تار چھیڑے جا سکتے ہیں نہ دلوں اور دماغوں میں کوئی ہلچل پیدا کی جا سکتی ہے ۔ سچا داعی وہ ہے جو عملی زندگی سے بحث کرتا ہے اور واقعات کی دنیا کو موضوع بناتا ہے۔۳
’معاشرتی روحانیت‘ سے استاد بہی الخولی ’روح اور مادہ کا حسین اور متوازن اجتماع‘ مراد لیتے ہیں۔ کیوں کہ انسان روح اور مادہ دونوں سے مرکب ہے اور دونوں کا اپنا نظام اور اپنے تقاضے اور مطالبات ہیں۔ اسے روح اور مادہ دونوں کے حقوق حکمت، نظم اور سلیقہ سے ادا کرنا ہے۔
’معاشرتی روحانیت‘ سے متصف شخص دونوں زندگیاں جیتا ہے۔ اس کی پرواز دونوں دنیاؤں میں رہتی ہے۔ اس کاجسم زمین پر ہوتا ہے، لیکن حقیقت آسمان پر رہتی ہے۔ اعضا و جوارح اہلِ دنیا کی طرح کام کرتے ہیں، لیکن روحانی صلاحیتیں عارفین حق کی طرح کسی اور ہی مقصد کے لیے وقف ہوتی ہیں۔ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا سے بے گانہ ہوتا ہے: ۴
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلاّ کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے ،شاہیں کا جہاں اور
’ ایجابی فطرت اور عملی مزاج‘ سے مراد یہ ہے کہ انسان اللہ سے اپنا تعلق جوڑ کر خاموش نہ بیٹھ جائے، ورنہ یہ سلبی روحانیت ہوگی، بلکہ تعلق باللہ اسے اقدام پر ، ایجابی منصوبہ بندی پر اور تنقید و عمل پر آمادہ کرے۔ دوسرے لفظوں میں مصنف اسے ’خدائی سیر‘ کا نام دیتے ہیں، جس کی دو واضح خصوصیات ہیں:
۱- ایمان وہ بھڑکتا ہوا انگارہ ہے جس سے داعی قوت عمل اور غیرت حق اکتساب کرتا ہے۔
۲- یہ ایک قوت محرکہ ہے جس کی وجہ سے داعی یہ احساس رکھتا ہے کہ تنفیذ اور عمل کی طرف بڑھنا نا گزیر ہے۔۵
دعوت و اقامت دین کی ان تحریکوں کی جدو جہد علمی و فکری سطح پر بھی ہوتی ہے اور عمل و اقدام کے میدانوں میں بھی۔ ان دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک نازک کام ہے۔ بسااوقات ملک و ملت کے مسائل اور فوری بحرانوں کو حل کرنے میں تحریک اس قدر الجھ جاتی ہے کہ علمی و فکری اہداف نظروں سے اوجھل ہونے لگتے ہیں، اور کبھی اس کے علی الرغم پوری تحریک علمی منصوبہ بندی میں اس طرح جت جاتی ہے کہ عملی حقائق اور زمینی واقعات بھی صرفِ نظر ہو جاتے ہیں۔ توازن اور اعتدال کو قائم رکھتے ہوئے علمی و فکری منصوبہ بند ی کاتقاضا ہے کہ:
۱- تحریک کے کارکن مطالعے کو اپنی روز مرہ کی عادت بنائیں۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء)، انجینیرمالک بن نبی (۱۹۰۳ء-۱۹۷۳ء)، شہید مرتضیٰ مطہری (۱۹۱۹ء- ۱۹۷۹ء) کے علاوہ تحریک سے باہر کے علما وفضلا کی تحریروں کا مطالعہ قلب و ذہن کو وسعت بھی بخشے گا اور امت مسلمہ سے قریب بھی کرے گا۔
۲- تحریک اسلامی کے سنجیدہ اہل قلم اور ارباب تحقیق تحریک سے باہر کے علما و فضلا، اربابِ علم و تحقیق سے رابطہ رکھیں۔ انھیں تحریک کی علمی و فکری منصوبہ بندی میں شامل کریں۔ ان کے تعاون سے ایسا صالح لٹریچر تیار کریںجو مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ کے لیے ضروری ہے۔ اربابِ قلم کی ایک کہکشاں تیار کرنے کے لیے یہ کام مستقل منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔
۳- دینی مدارس کے علما اور عصری جامعات کے فضلا کو ایک ساتھ دعوت دین کے کاز سے جوڑنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ دونوں گروہوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج نے امت کو دو متوازی دھاروں میں تقسیم کر دیا ہے اور اس کے نقصانات فکری انتہا پسندی کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔۶ تحریک اسلامی ان دو متوازی دھاروں کو خدمت دین کے مقصد سے قریب کر دے تو امت کے بہت سے فکری بحرانوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
’ما بعد مودودی‘ کی اصطلاح بعض دانش وروں نے یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کی کہ مولانا مودودیؒ کے افکار اب بدلتے حالات کا ساتھ نہیں دیتے۔ یہ سیّد مودودیؒ کی تحریروں کے ناقص فہم کا ثمرہ ہے، یا ان کے مقام و مرتبے کے ساتھ ناانصافی کرنے کی جارحانہ ذہنیت کی عکاسی ہے۔ الجامعہ الاسلامیہ شانتا پورم کیرالہ میں اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کی اسلامک اکیڈمک کانفرنس (۱۴-۱۵ جولائی ۲۰۱۲ء ) میں مضمون نگار نے ’سیّدمودودیؒ کا مطالعہ - معاصر دور میں‘ کے موضوع پر ایک بحث پیش کی۔ سیّد مودودیؒ نے احیاے اسلام کے لیے دستوری اور جمہوری جدوجہد کی جو اسکیم تیار کی تھی، وہ گفتگو کا خاص نکتہ تھی۔ اس کی افادیت آج پہلے سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔۷
بلاشبہہ سیّد مودودیؒ نے جن حالات میں تحریک اسلامی کی عملی جدوجہد کا نظریہ پیش کیا تھا، وہ اب کافی بدل چکے ہیں۔بدلتے ہوئے حالات میں دین کی تعبیر و تشریح کے لیے متعدد نئے اُفق اور چیلنج سامنے آچکے ہیں۔ یہ تعبیر و تشریح سیّد مودودیؒ کے فکر کی توسیع ہوگی، تغلیط نہیں۔ سیّد سعادت اللہ حسینی نے تحریک اسلامی ہند کے سیاق و سباق میں دعوت فکر دی ہے کہ جماعت اسلامی کے مصنفین ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ کی سیاسی بحث کو کیوں آگے نہ بڑھا سکے؟ کیوں استعمار سے آزاد ملک کے احوال میں کوئی ایسا سیاسی فلسفہ تشکیل نہیں دیا جا سکا جو ’ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ کی بحث کا فطری ارتقا بھی ہوتا اور نئے احوال میں رہ نمائی کا ذریعہ بھی بنتا۔۸
سیّد مودودیؒ نے مغربی جمہوریت کو اسلام کے نظام شورائیت سے متصادم قرار دیا تھا۔ اسلامی ریاست ’’نہ تو مغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت ہے اور نہ جمہوری حکومت، بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان ایک الگ نوعیت کا نظام سیاست و تمدن ہے‘‘۔۹ مغربی اصطلاح میں مذہبی حکومت دو بنیادی تصورات کا مجموعہ ہے: ایک خدا کی بادشاہی، قانونی حاکمیت کے معنیٰ میں۔ دوسرے پادریوں اور مذہبی پیشواؤں کا ایک طبقہ، جو خدا کا نمایندہ اور ترجمان بن کر خدا کی اس بادشاہی کو قانونی اور سیاسی حیثیت سے عملاً نافذ کرے ۔ مولانا مودودیؒ نے مغربی جمہوریت کو بھی دو تصورات کا مجموعہ قرار دیا تھا:
۱- عوام کی قانونی اور سیاسی حاکمیت، جو عوام کی اکثریت ، یا ان کے منتخب کیے ہوئے نمایندوں کی اکثریت کے ذریعے عملاً ظہور میں آئے۔
۲- ریاست کا انتظام کرنے والی حکومت کا عوام کی آزادانہ خواہش سے بننا اور بدل سکنا۔
سیّد مودودیؒ نے مغربی جمہوریت کے قانونی حاکمیت کے تصور کو تبدیل کر کے اللہ کے لیے خاص کیا اور سیاسی حاکمیت کو خلافت قرار دے کر اسے ریاست کے عام مسلمان باشندوں کے حوالے کر دیا۔ اس طرح اسلامی ریاست کو مغربی اصطلاح کے مطابق جمہوریت قرار دینے کو سیّدمودودیؒ نے غلط قرار دیا۔ ۱۰
جماعت اسلامی ہند نے بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کیا۔ ہندستان میں رائج جمہوریت کی حمایت و تقویت ، ملکی انتخابات میں شرکت کا جواز، انتظامی اداروں میں ملازمت کا حصول، سیکو لر سیاسی افراد اور جماعتوں سے ارتباط و تعاون اور سیاسی نظام میں مسلمانوں کی حصہ داری کے لیے اس کے فیصلے اور کل ہند ویلفیئر پارٹی کی تشکیل وغیرہ ایسے اقدامات ہیں، جن کا فیصلہ جماعت اسلامی ہند نے طویل مشاورت اور اجتماعی اجتہاد کے بعد کیا، مگر اس کی تائید میں اسلامی لٹریچر کی تیاری کا کام ابھی باقی ہے۔ یاد رہے کہ مولانا مودودیؒ کی تحریریں ان فیصلوں کی تائید کرتی نظر نہیں آتیں ۔
عالمِ عرب کی طاقت ور اسلامی تحریک اخوان المسلمون ۱۹۲۸ء میں قائم ہوئی۔ سید قطب اس کے نظریہ ساز قرار پائے۔ ۱۹۵۳ء میں وہ اخوان میں شامل ہوئے اور اس کے ترجمان الاخوان المسلمون کے مدیر مقرر ہوئے۔ آگے چل کر وہ مکتب الارشاد(مجلس عاملہ) کے رکن بنے۔ انھوں نے اپنے مؤثر اسلوب میں عالم عرب کے حالات پر اسلامی رہ نمائی کا فریضہ ادا کرنا شروع کیا۔ جنوری ۱۹۶۴ء میں ان کی معرکہ آرا تصنیف معالم فی الطریق منظر عام پر آئی۔ ۱۱ اس کتاب نے یہ بحث زور شور سے اٹھائی کہ آج پوری دنیا جہالت و جاہلیت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس جاہلیت کی بنیاد ہے اللہ کے اقتدار اعلیٰ پر دست درازی اور حاکمیت الٰہ سے بغاوت۔ ۱۲ تمام عرب اور مسلم حکومتیں اس جہالت و جاہلیت کو فروغ دے رہی ہیں۔ اس لیے سید قطب نے کہا کہ ’’آج احیاے اسلام کا آغاز اس ہراول دستے سے ہوگا، جو اس کار عظیم کا عزم مصمم لے کر اٹھے اور پھر مسلسل منزل کی طرف پیش قدمی کرتا چلا جائے اور جاہلیت کے اس بے کراں سمندر کو چیرتا ہوا آگے کی جانب رواں دواں رہے‘‘۔ ۱۳ یہی کتاب ۱۹۶۶ء میں فاضل مصنف کی شہادت کا سبب قرار دی گئی۔ ۱۴
مصر اور پورے عالم عرب میں جبر و ظلم کی ایک طویل تاریخ سے گزر کر اخوان المسلمون کے جاں نثاروں نے دعوت و اقامت دین کا فریضہ انجام دیا۔ان کے متعدد رہ نمائوں کو تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا۔ تزکیہ و شہادت کے اس پورے سفر میں سید قطب شہید ؒ کی تحریریں ہی مرکز توجہ رہی ہیں۔ دوسرے اخوان مصنفین نے بلا شبہہ دعوت و تربیت کے لیے بے شمار موضوعات پر اپنی یادگار تخلیقات پیش کیں، لیکن ان کی حیثیت تفہیم و تشریح سے زیادہ نہ تھی۔ جناب حسن بن اسماعیل الہضیبیؒ(۱۸۹۱ء-۱۹۷۳ء) ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو مرشد عام منتخب ہوئے ۔ انھوں نے مارچ ۱۹۲۴ء تک مصری عدالتوں میں وکالت کرنے کے بعد ۲۷برس جج کے فرائض بھی انجام دیے تھے۔ قانونی و فقہی امور میں مہارت رکھنے کے علاوہ اخوان کے اندر ایک گروہ کی فکر میں پرورش پانے والی انتہاپسندی پر وہ سخت مضطرب تھے۔ انھوں نے پوری کوشش کی کہ اخوان ملکی قوانین کی پابندی کریں اور حکومت سے کوئی تصادم مول نہ لیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنی معروف زمانہ تصنیف دعاۃ لا قضاۃ تصنیف کی۔ ۱۵
حسن الہضیبی نے اس کتاب میں یہ نقطۂ نظر پیش کیا کہ قرآن و سنت کی روشنی میں داعیانِ دین کی یہ ذمہ داری تو ہے کہ وہ اصلاح و احیا کے لیے کماحقہ جدو جہد کریں، تاہم افراد و اقوام کو زبردستی اور قوت کے استعمال سے راہِ ہدایت پر لانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے، اور غیر مسلم معاشرے میں رہنے والے مسلمان اپنی نیت اور عمل کے مطابق اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ان کے خلاف تکفیر و تفسیق کی مہم چلانا، دعوت دین کے دائرے سے باہر ہے۔
شیخ الہضیبیؒ کی اس صراحت و وضاحت کے باوجود انتہا پسند نوجوانوں نے جماعۃ التکفیر والھجرۃ کے نام سے ایک الگ گروپ تشکیل دے دیا۔ ۱۶ اور مصر میں فکری انتہا پسندی کی ایک نئی لہر آگئی۔ اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ آج بھی سید قطب شہیدؒ کی تحریریں عالمِ عرب میں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ اخوان مفکرین بدلے ہوئے حالات میں نئی تعبیر و تشریح کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
تکثیریت کی ایک تفہیم، جو موجودہ دور میں رائج ہے، اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ: ’’سارے مذاہب اور متنوع افکا ر کو بیک وقت درست مانا جائے اور کسی عقیدہ، فلسفہ یا فکر پر تنقید نہ کی جائے‘‘۔ گویا معاشرے میں موجود سارے افکار اور فلسفے اپنی انفرادیت کھو کر ایک نئی فکر اور فلسفہ تشکیل دیں، جس میں سب کی سوچ، ذہنیت اور رنگ و آہنگ شامل ہو۔ اس فکر کے مطابق کسی ایک فکر یا عقیدے کی صداقت پر اصرار باقی نہیں رہتا۔
تکثیری معاشرے کا ایک دوسرا فہم یہ ہے کہ: ’’مختلف و متصادم افکار و نظریات اور عقائد کو یکساں آزادی حاصل ہو۔ کسی فکر کو صحیح سمجھنے والا آزاد ہو کہ اس فکر کی معقولیت اور نافعیت کا اثبات کر سکے اور علمی انداز اور شائستہ اسلوب میں دوسرے نظریے پر تنقید و جرح کرسکے۔ گویا اپنے نظریے پر قائم رہتے ہوئے، دوسرے نظریات سے مباحثہ و مجادلہ کی راہ اختیار کرے۔ اس طرح تمام افکار و مذاہب کے لیے مکالمہ کی راہ ہموار ہوتی ہے‘‘۔
موجودہ دور کے مسلم مفکرین نے تکثیریت کے آخر الذکر فہم کو تسلیم کیا ہے۔ انھوں نے اسلام کی حقانیت پر ایمان رکھنے کے ساتھ دوسرے مذاہب و نظریات کی آزادی و حقوق کو خوش دلی سے مانا ہے اور مکالمہ اور اشتراک و تعاون کے لیے راہیں استوار کیں ہیں۔
ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی(۱۹۳۲ء-۲۰۱۱ء)نے غیر اسلامی قوتوں سے اشتراک کی حدود کار پر مفصل گفتگو کی ہے۔ ان کے خیال میں مکہ میں حلف الفضول کا تاریخی معاہدہ، جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل ایک تکثیری معاشرے کے اندر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ یہ ایک معاہدے تھا، جس میں مشرکین ، ملحدین اور موحدین سب نے متحد ہو کر برائی اور نانصافی کے خلاف مشترکہ جدو جہد کرنے کا عہد باندھا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عہد رسالت میں بھی اس معاہدے کی بڑی قدر کرتے تھے اور ایک روایت کے مطابق آپؐ نے فرمایا تھا کہ: ’’اگر اس طرح کا کوئی معاہدہ دوبارہ ہو تو آپؐ اس میں شریک ہونا پسند کریں گے‘‘۔ ڈاکٹر فریدی کہتے ہیں:’’اس قسم کی کاوشوں میں تعاون مسلمانوں کا اخلاقی فریضہ ہے۔ اپنے تعاون کو اس شرط پر مشروط کرنا کہ اس طرح کی کوشش جامع اور ہمہ جہت ہو اور معاشرے کی بنیادی برائیوں کا انسداد اس میں شامل ہو، صحیح نہیں ہے‘‘۔ ۱۷
حزب النہضۃ تیونس کے رہنما راشد الغنوشی (پ:۱۹۴۱ء) اسلام کے نظام عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے شراکتِ اقتدار کو ناگزیر تصور کرتے ہیں، خواہ وہ معاشرہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ اس شراکت کے لیے صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ شریعت اسلامیہ کی تنفیذ اس کا مطمح نظر ہو، بلکہ ملک میں آمریت کو روکنے کے لیے بھی یہ شراکت کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح آزادی، ترقی، سماجی استحکام، شہری آزادیوں کے حصول، حقوق انسانی کے احترام، سیاسی تکثیریت کی پاس داری، عدلیہ کی آزادی کی بحالی، آزادی اظہارِ راے، اسلامی اوقاف، مساجد و مدارس کے تحفظ وغیرہ، وسیع تر مقاصد میں غیرمسلموں کی شراکت کے ساتھ بے دین اور ملحد قوتوں کے ساتھ حصہ داری نبھائی جاسکتی ہے۔ ۱۸
غیر اسلامی حکومتوں میں شراکت کے ثبوت کے لیے راشد الغنوشی، سورۂ یوسف سے استدلال کرتے ہیں، جس میں حضرت یوسف ؑ نے شاہِ مصر سے کہا تھا کہ ملک کے خزانے میرے سپرد کر دیجیے، کیوں کہ میں ان کی حفاظت کر سکتا ہوں: قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ ج اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ (یوسف۱۲:۵۵) ۔اس کے بعد قرآن حضرت یوسف ؑ کے کامل تسلط اور ہمہ گیر اقتدار کو اس طرح بیان کرتا ہے:
وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّالِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ج یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ ط نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآئُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ o(یوسف۱۲:۵۶) اس طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیںنوازتے ہیں۔ نیک لوگوں کا اجر ہمارے یہاں مارا نہیں جاتا۔
حضرت یوسف ؑ کا حوالہ دے کر راشد الغنوشی نے لکھا کہ پیغمبر وقت کو جیل کی سزا برداشت کرنا پڑی، سوتیلے بھائیوں کے ناروا سلوک کو برداشت کرنا پڑا، مگر جب مناسب وقت آیا توشاہ مصر کے دربار میں سب سے اہم ذمہ داری بڑھ کر قبول کی، تاکہ قحط اور خشک سالی میں مبتلا عوام کو راحت پہنچا سکیں۔ انھوں نے یہ انتظار نہ کیا کہ مصری عوام دعوت توحید کو قبول کر لیں اور شرک و کفر کو چھوڑ کر مؤحد بن جائیں، تاکہ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل ہو سکے۔ ۱۹
راشد الغنوشی نے سیرت طیبہ سے ہجرت حبشہ کی مثال بھی پیش کی ہے، جو بڑی دل چسپ ہے۔ حبشہ کا بادشاہ عیسائی تھا، مگر انصاف پسند تھا۔ مکہ میں جب حالات ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئے تو رجب ۴۵ عام الفیل؍ ۵ بنوی میں اللہ کے رسولﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
لَوْ خَرَجْتُمْ اِلٰی أَرْضِ الْحَبْشَۃِ، فَاِنَّ بِھَا مَلِکاً لَا یُظْلَمُ عِنْدَہٗ أَحَدٌ، وَھِیَ أَرْضُ صِدقٍ حَتّٰی یَجْعَلَ اللہُ لَکُمْ فَرَجًا مِـمَّا أَنْتُمْ ۲۰ اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبشہ چلے جائو۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سر زمین ہے۔ جب تک اللہ تمھاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے، تم لوگ وہاں ٹھیرے رہو۔
اس ارشاد کی بنا پر ۱۱ مرد اور ۴ خواتین نے حبشہ کی راہ لی۔ پھر چند مہینوں کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی، یہاں تک کہ ۸۳ مرد ، ۱۱عورتیں اور ۷ غیر قریشی مسلمان حبشہ میں جمع ہو گئے اور مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ۴۰ آدمی رہ گئے تھے۔۲۱ صحابہ و صحابیات کی حبشہ آمد کا نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ مسلمان ہو گیا،ا گر چہ اس نے اسلامی شریعت ملک میں نافذ نہ کی۔ اسے خدشہ ہوا کہ اسلام قبول کرنے کا اعلان ہوتے ہی اس کی سلطنت خطرے میں پڑ جائے گی اور مہاجرین کا تحفظ مشکل ہو جائے گا۔ جب شاہِ حبشہ کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔۲۲
بھارت کے ممتاز عالم دین مولانا سلطان احمد اصلاحیؒ (۱۹۵۲ء-۲۰۱۶ء) نے اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی کتاب مسلمان اقلیتوں کا مطلوبہ کردار میں ہندستانی مسلمانوں کے شرعی اور اسلامی کردار پر کھل کر گفتگو کی ہے۔ انھوں نے ملک و ملت کی تعمیر اور بھلائی کے کاموں میں شرکت کو ’ ہر مسلمان کی دینی زندگی کا لازمی ایجنڈا ‘ قرار دیا ہے۔۲۳ انھوں نے مسلمانوں کو تاکید کی کہ ان کی اجتماعیت ’ غیر متحارب اور غیر نزاعی‘ ہو۔ اس پر سخت نگاہ رکھی جائے کہ ’سیاسی و غیرسیاسی‘ کسی دائرے میں اس کا رنگ و آہنگ معاندا نہ نہ ہونے پائے اور ان کی تمام تر دینی اور مذہبی جماعتوں کا کردار اصلاً دعوتی، رفاہی اور اصلاحی رہے۔۲۴ انھوں نے بھی حضرت یوسف ؑ اور شاہِ حبشہ کے نمونوں سے استدلال کیا کہ غیر مسلم اکثریت کے درمیان کسی منصب کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ضرورت کے تقاضے سے غیر دینی نظام حکومت کے ساتھ اشتراک و تعاون کی راہ عام مسلمان کے لیے درست اور صائب ہے۔۲۵ اس معاملے میں کلیدی مناصب ہوں یا غیر کلیدی مناصب، سب یکساں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ :’’ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کی چھوٹی بڑی ہرطرح کی ملازمت اور چھوٹا بڑا ہر طرح کا عہدہ و منصب مسلمان اقلیت کی یکساں ضرورت ہے۔۲۶
مولانا اصلاحیؒ ملک کی مقننہ، یعنی اس کی اسمبلی اور پارلیمنٹ اور اس کے واسطے سے حکومت اور وزارت میں مسلمان اقلیت کی مؤثر حصہ داری کے لیے انتخابات میں شرکت کو ضروری قرار دیتے ہیں اور قوم اور اجتماعیت کی حیثیت سے مسلمان امت کو ہوم ورک اور منصوبہ بندی کی تلقین کرتے ہیں۔ اسی طرح انتظامیہ و عدلیہ میں جگہ پانے کے لیے مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت کو ضروری تصور کرتے ہیں ۔۲۷
تکثیری معاشرے میں اسلام کی رہ نمائی سے متعلق یہ تخلیقات بہت اہم ہیں، مگر بہت سے سوالات ہنوز حل طلب ہیں۔ اس نئے فلسفے کی مکمل اسلامی تفہیم ابھی باقی ہے اور اس کے بطن سے جنم لینے والے اشکالات کا شافی جواب دینا اسلامی تحریکوں کا فوری مسئلہ ہے۔
۱- ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ، اسلامی نشاتِ ثانیہ کی راہ، مرکزی کتبہ اسلامی، دہلی، اکتوبر ۱۹۷۴ء، ص ۱۶۶
۲- بہی الخولی، تحریک اور دعوت ، اُردو ترجمہ، عبید اللہ فہد فلاحی، بیروت ۱۴۰۳ھ؍ ۱۹۸۳ء، ص ۶۸
۳- حوالۂ سابق، ص ۷۰ ۴۔ حوالۂ سابق ،ص ۳۳۹-۳۴۰ ۵۔ حوالۂ سابق، ص۴۰۴
۶- جدید تعلیم گاہوں سے دینی و تعلیمی اداروں کے اشتراک کی ناگزیریت کے لیے دیکھیے راقم کا مضمون ’بدلتے ہوئے حالات میں مدارس اسلامیہ کی ترجیحات‘، ماہ نامہ تہذیب الاخلاق، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، جلد، ۳۵، شمارہ۴ ،ص ۳۶۔
۷- Post-Maududismکی اصطلاح حسن الامین نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں استعمال کی ہے جو انھوں نے ۲۰۱۰ء میں ارسمس یونی ورسٹی روٹر دم، نیوزی لینڈ میں پیش کیا۔ راقم کی راے ہے کہ ’مابعد اسلامیت‘ یا ’ ما بعد مودودیت‘ کی اصطلاحات نرے ابہام کے سوا کچھ بھی نہیں۔
۸- سیّد سعادت اللہ حسینی، ’تحریک اسلامی اور فکری چیلنج‘، ماہ نامہ عالمی ترجمان القرآن لاہور، دسمبر ۲۰۱۵ء، ص ۸۴۔ انھوں نے تحریک اسلامی کے حلقوں کو دعوت احتساب دی ہے۔ ان کے بقول دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی ڈھنگ کا ’تصور جہاں‘ (ورلڈ ویو) نہیں ہے، جہاں سے کار آمد آئیڈیاز پیدا ہوسکیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ورلڈ ویو ز ہیں، لیکن آئیڈیاز نہیں ہیں۔
۹- سید ابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست ، ترتیب: خورشید احمد، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور۔
۱۰- حوالۂ سابق، ص ۴۸۰-۴۸۱ ۔ دوسری طرف ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدیؒ نے جمہوریت کو اصلاً ملوکیت، ڈکٹیٹرشپ اور جبر و استحصال سے متصادم قرار دیا ہے ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ:’’ یہ موقف کہ جمہوریت فی نفسہ طاغوت ہے، حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ [جمہوری] نظام، عوام کے فیصلے اور اختیار سے مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں جمہوری خلافت بھی بن سکتا ہے‘‘۔ ’ملاحظہ کیجیے، فضل الرحمٰن فریدی، اقامت دین کا سفر، ہندستانی تناظر میں، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی، نومبر ۱۹۹۷ء، ص ۴۹
۱۱- سید ، قطب، معالم فی الطریق، دار الشروق، بیروت ۱۹۶۸ء، ص ۸ ۱۲ (جادہ و منزل، مترجم: خلیل احمد حامدی، ناشر، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور)۔ ۱۲- حوالۂ سابق، ص ۹
۱۳- عبید اللہ فہد فلاحی اور محمد صلاح الدین عمری، سید قطب شہیدؒ: حیات و خدمات، منشورات، لاہور، ۱۹۹۹ء، صفحات۴۰۰۔ سلیم منصور خالد،اسلام کی آواز، سیّد قطب شہید، منشورات، لاہور، ۲۰۱۵ء
۱۴- اخوان المسلمون کی تاریخ جاننے کے لیے مطالعہ کیجیے راقم کی کتاب: اخوان المسلمون: تزکیہ، ادب، شہادت ، القلم پبلی کیشنز ،سری نگر، ۲۰۱۱ء، صفحات: ۳۰۲۔ ۱۵- حوالۂ سابق، ص ۱۰۔ ۱۶
۱۶- الہضیبی، حسن بن اسماعیل، دعاۃ لا قضاۃ، قاہرہ، ۱۹۷۷ء، ص ۵۔ اُردو ترجمہ: داعی کا منصبِ حقیقی، مترجم: گل زادہ شیرپائو،ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور، ۲۰۰۹ء۔
۱۷-ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی، ’تکثیری معاشرہ اور ہمارا مطلوبہ رویہ‘، [ترجمانی: عرفان وحید]، ماہ نامہ رفیق منزل نئی دہلی، اکتوبر ۲۰۱۳ء، قسط پنجم، ص۲۸۔ انھوں نے پرہیزگاری کے اس موہوم تصور پر تنقید کی ہے جس کے تحت مسلمانوں کا ایک طبقہ انسانوں کی تکالیف کے سدّباب کی چھوٹی کوششوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا اور یہ سوچتا ہے کہ اگر اللہ پر ایمان نہ لانے کی بنیادی برائی کو ختم کر دیا جائے تو تمام انسانی مصائب خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر فریدی کہتے ہیں: ’’ شریعت کی یہ تعبیر یکسر غیر مطلوب ہے۔ یہ سوچ انفرادی و اجتماعی معاشرتی تبدیلی کے محرکات کے عدم فہم کی بھی چغلی کھاتی ہے‘‘۔ حوالۂ سابق، ص ۲۹۔
۱۸- راشد الغنوشی، The Participation of a Islamist in a Non-Islmaic Government، لندن ۱۹۹۳ء، ص ۵۱، ۶۳ ۱۹- حوالۂ سابق، ص ۶۵
۲۰-ابن ہشام، سیرت النبیؐ، [تحقیق: محمد محی الدین عبد المجید]، دار الفکر، القاہرہ، ۱۹۳۷ء، الجزالاول، ص۳۴۳
۲۱- سید ابو الاعلیٰ مودودی، سیرت سرور عالم، ادارۂ ترجمان القرآن لاہور، مرتبین: نعیم صدیقی، عبد الوکیل علوی، اشاعت سوم، دسمبر، ۱۹۸۰ء، جلد اول، ص ۷۰۵- ۷۰۶۔
۲۲- راشد الغنوشی، حوالۂ سابق، ص ۵۸
۲۳- سلطان احمد اصلاحی ، ’مسلم اقلیتوں کا مطلوبہ کردار‘، فکرو آگہی، اعظم گڑھ، ۲۰۰۲ء، ص ۱۰۱ ۲۴۔
۲۴- حوالۂ سابق، ص ۱۰۲ ۲۵۔ ۲۵- حوالۂ سابق، ص ۱۳۰ ۲۶- حوالۂ سابق، ۱۵۰
۲۷-حوالۂ سابق، ص ۱۵۰۔ ۱۵۷ ، تکثیری معاشرے میں مسلمانوں کے کردار پر ایک عالمانہ تحقیق معروف سیرت نگار پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی نے سپردِ قلم کی ہے: مکی اسوۂ نبویؐ ، مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل، اسلامک بک فائونڈیشن، نئی دہلی، اپریل ۲۰۰۵ء۔