ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی


 تحریکِ اسلامی نام ہے دین کے پورے نظامِ فکر و عمل کی طرف دعوت دینے اور اس کو قائم کر نے کے لیے اجتماعی جدو جہد کرنے کا۔ یہ جزو کی نہیں، کل کی دعوت دیتی ہے۔کسی مخصوص تعلیم سے نہیں،شریعت کی تمام تعلیمات سے بحث کرتی ہے۔ کتاب الٰہی کی چند آیات کا انتخاب نہیں کرتی، بلکہ پورے قرآن کو مرکزِ فکرو عمل بناتی ہے۔معاشرے کی فلاح کے لیے کی جانے والی  مختلف اسلامی خدمات، دینی تعلیمی اداروں کا قیام، اسلامی عقائد و عبادات کی تعلیم کے لیے دینی مجلسوں اور اصلاحی جلسوں کا انعقاد ، بے جا رسوم و روایات سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے اصلاحِ معاشرہ کے نام سے ہونے والی جدو جہد ، مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی کوششیں ، فلاحی و رفاہی انجمنوں کی تشکیل کی وہ حمایت بھی کرتی ہے ، اور خود بھی یہ خدمات انجام دیتی ہے۔ لیکن انھی خدمات اور مصروفیات کو اپنی توانائیوں اور پروگراموں کا اصل مقصود نہیں بتاتی۔

بلاشبہہ یہ مبارک اور مسعود خدمات بڑی قابل قدر ہیں اور ہر طرح کی تائید و تقویت کی مستحق ہیں،لیکن اقدام کو بقا سے، تحریک کو تحفظ سے، اور جدید کو قدیم سے ممتاز کیے بغیر ہم تحریک اسلامی کی صحیح تعریف نہیں کر سکتے اور نہ اس کی کماحقہ شناخت ہو سکتی ہے۔۱

دنیا کی تمام اسلامی تحریکوں نے مروجہ دین داری کو احیاے دین کے لیے ناکافی قرار دیا ہے۔ انھوں نے اسلام کو عقائد و عبادات سے آگے بڑھ کر خاندان و معاشرت، سیاست و تہذیب اور معاشرہ و ریاست کے تمام میدانوں میں متحرک اور جاوداں دیکھنے کی آرزو ظاہر کی ہے اور اس کے مطابق نقشۂ کار، حکمت عملی اور منصوبہ سازی کو اپنی پالیسی و پروگرام میں جگہ دی ہے۔

تحریک اسلامی کے ایک کارکن کو دعوت اور اقامت دین کے فریضے کی ادائی میں ایک داعی کا مزاج تشکیل دینا پڑتا ہے۔ داعی کے مزاج سے مراد، اخوان المسلمون مصر کے رہ نما بہی الخولی کے الفاظ میں یہ ہے کہ وہ درج ذیل ہتھیاروں سے مسلح ہو:

  •  حقیقت پسندانہ عقلیت، جو محض نظریاتی نہ ہو، بلکہ محسوس و مشاہد ہو اور عمل سے ہم آہنگ ہو۔
  •  روحانیت، جو مادیت سے کارکن کو بلند کر دے۔ یہ روحانیت معاشرتی ہو، رہبانیت کی طرف مائل نہ کرتی ہو، نہ اسباب و وسائل کو چھوڑ نے کی دعوت دیتی ہو۔
  •  ایجابی فطرت، جو اقدام و عمل پر داعی کو آمادہ کرے اور منفی ذہنیت سے محفوظ رکھے۔ ۲

’حقیقت پسندی‘ کی تشریح کرتے ہوئے بہی الخولی کہتے ہیں کہ: قرآن نے جو اسلوب اختیار کیا ہے، اس میں فکر و فلسفہ بھی ہے اور محسوس و مشاہد حقائق کا ادراک بھی۔ کچھ لوگ اپنے افکار و نظریات خالص عقلی و فکری انداز میں پیش کرتے ہیں، علت و معلول، اسباب و مسببات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں، فکر و نظر کی گہرائیوں میں اتر کر جزئیات و کلیات اور مختلف مفروضات و حقائق کی چھان بین کر کے انھیں عوام کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور بس۔ اس طریقۂ کار سے دل کے تار چھیڑے جا سکتے ہیں نہ دلوں اور دماغوں میں کوئی ہلچل پیدا کی جا سکتی ہے ۔ سچا داعی وہ ہے جو عملی زندگی سے بحث کرتا ہے اور واقعات کی دنیا کو موضوع بناتا ہے۔۳

’معاشرتی روحانیت‘ سے استاد بہی الخولی ’روح اور مادہ کا حسین اور متوازن اجتماع‘ مراد لیتے ہیں۔ کیوں کہ انسان روح اور مادہ دونوں سے مرکب ہے اور دونوں کا اپنا نظام اور اپنے تقاضے اور مطالبات ہیں۔ اسے روح اور مادہ دونوں کے حقوق حکمت، نظم اور سلیقہ سے ادا کرنا ہے۔

’معاشرتی روحانیت‘ سے متصف شخص دونوں زندگیاں جیتا ہے۔ اس کی پرواز دونوں دنیاؤں میں رہتی ہے۔ اس کاجسم زمین پر ہوتا ہے، لیکن حقیقت آسمان پر رہتی ہے۔ اعضا و جوارح اہلِ دنیا کی طرح کام کرتے ہیں، لیکن روحانی صلاحیتیں عارفین حق کی طرح کسی اور ہی مقصد کے لیے وقف ہوتی ہیں۔ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا سے بے گانہ ہوتا ہے:  ۴

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن

مُلاّ کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں

کرگس کا جہاں اور ہے ،شاہیں کا جہاں اور

’ ایجابی فطرت اور عملی مزاج‘ سے مراد یہ ہے کہ انسان اللہ سے اپنا تعلق جوڑ کر خاموش نہ بیٹھ جائے، ورنہ یہ سلبی روحانیت ہوگی، بلکہ تعلق باللہ اسے اقدام پر ، ایجابی منصوبہ بندی پر اور تنقید و عمل پر آمادہ کرے۔ دوسرے لفظوں میں مصنف اسے ’خدائی سیر‘ کا نام دیتے ہیں، جس کی دو واضح خصوصیات ہیں:

                ۱-            ایمان وہ بھڑکتا ہوا انگارہ ہے جس سے داعی قوت عمل اور غیرت حق اکتساب کرتا ہے۔

                ۲-            یہ ایک قوت محرکہ ہے جس کی وجہ سے داعی یہ احساس رکھتا ہے کہ تنفیذ اور عمل کی طرف بڑھنا نا گزیر ہے۔۵

دعوت و اقامت دین کی ان تحریکوں کی جدو جہد علمی و فکری سطح پر بھی ہوتی ہے اور عمل و اقدام کے میدانوں میں بھی۔ ان دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک نازک کام ہے۔ بسااوقات ملک و ملت کے مسائل اور فوری بحرانوں کو حل کرنے میں تحریک اس قدر الجھ جاتی ہے کہ علمی و فکری اہداف نظروں سے اوجھل ہونے لگتے ہیں، اور کبھی اس کے علی الرغم پوری تحریک علمی منصوبہ بندی میں اس طرح جت جاتی ہے کہ عملی حقائق اور زمینی واقعات بھی صرفِ نظر ہو جاتے ہیں۔ توازن اور اعتدال کو قائم رکھتے ہوئے علمی و فکری منصوبہ بند ی کاتقاضا ہے کہ:

                ۱-            تحریک کے کارکن مطالعے کو اپنی روز مرہ کی عادت بنائیں۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء)، انجینیرمالک بن نبی (۱۹۰۳ء-۱۹۷۳ء)، شہید مرتضیٰ مطہری (۱۹۱۹ء- ۱۹۷۹ء) کے علاوہ تحریک سے باہر کے علما وفضلا کی تحریروں کا مطالعہ قلب و ذہن کو وسعت بھی بخشے گا اور امت مسلمہ سے قریب بھی کرے گا۔

                ۲-            تحریک اسلامی کے سنجیدہ اہل قلم اور ارباب تحقیق تحریک سے باہر کے علما و فضلا، اربابِ علم و تحقیق سے رابطہ رکھیں۔ انھیں تحریک کی علمی و فکری منصوبہ بندی میں شامل کریں۔ ان کے تعاون سے ایسا صالح لٹریچر تیار کریںجو مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ کے لیے ضروری ہے۔ اربابِ قلم کی ایک کہکشاں تیار کرنے کے لیے یہ کام مستقل منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔

                ۳-            دینی مدارس کے علما اور عصری جامعات کے فضلا کو ایک ساتھ دعوت دین کے کاز سے جوڑنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ دونوں گروہوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج نے امت کو دو متوازی دھاروں میں تقسیم کر دیا ہے اور اس کے نقصانات فکری انتہا پسندی کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔۶  تحریک اسلامی ان دو متوازی دھاروں کو خدمت دین کے مقصد سے قریب کر دے تو امت کے بہت سے فکری بحرانوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

معاصر تعبیر و تشریح کی ضرورت

’ما بعد مودودی‘ کی اصطلاح بعض دانش وروں نے یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کی کہ مولانا مودودیؒ کے افکار اب بدلتے حالات کا ساتھ نہیں دیتے۔ یہ سیّد مودودیؒ کی تحریروں کے ناقص فہم کا ثمرہ ہے، یا ان کے مقام و مرتبے کے ساتھ ناانصافی کرنے کی جارحانہ ذہنیت کی عکاسی ہے۔ الجامعہ الاسلامیہ شانتا پورم کیرالہ میں اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کی اسلامک اکیڈمک کانفرنس (۱۴-۱۵ جولائی ۲۰۱۲ء ) میں مضمون نگار نے ’سیّدمودودیؒ کا مطالعہ - معاصر دور میں‘ کے موضوع پر ایک بحث پیش کی۔ سیّد مودودیؒ نے احیاے اسلام کے لیے دستوری اور جمہوری جدوجہد کی جو اسکیم تیار کی تھی، وہ گفتگو کا خاص نکتہ تھی۔ اس کی افادیت آج پہلے سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔۷

بلاشبہہ سیّد مودودیؒ نے جن حالات میں تحریک اسلامی کی عملی جدوجہد کا نظریہ پیش کیا تھا، وہ اب کافی بدل چکے ہیں۔بدلتے ہوئے حالات میں دین کی تعبیر و تشریح کے لیے متعدد نئے اُفق اور چیلنج سامنے آچکے ہیں۔ یہ تعبیر و تشریح سیّد مودودیؒ کے فکر کی توسیع ہوگی، تغلیط نہیں۔ سیّد سعادت اللہ حسینی نے تحریک اسلامی ہند کے سیاق و سباق میں دعوت فکر دی ہے کہ جماعت اسلامی کے مصنفین ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ کی سیاسی بحث کو کیوں آگے نہ بڑھا سکے؟ کیوں استعمار سے آزاد ملک کے احوال میں کوئی ایسا سیاسی فلسفہ تشکیل نہیں دیا جا سکا جو ’ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ کی بحث کا فطری ارتقا بھی ہوتا اور نئے احوال میں رہ نمائی کا ذریعہ بھی بنتا۔۸

سیّد مودودیؒ نے مغربی جمہوریت کو اسلام کے نظام شورائیت سے متصادم قرار دیا تھا۔ اسلامی ریاست ’’نہ تو مغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت ہے اور نہ جمہوری حکومت، بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان ایک الگ نوعیت کا نظام سیاست و تمدن ہے‘‘۔۹  مغربی اصطلاح میں مذہبی حکومت دو بنیادی تصورات کا مجموعہ ہے: ایک خدا کی بادشاہی، قانونی حاکمیت کے معنیٰ میں۔ دوسرے پادریوں اور مذہبی پیشواؤں کا ایک طبقہ، جو خدا کا نمایندہ اور ترجمان بن کر خدا کی اس بادشاہی کو قانونی اور سیاسی حیثیت سے عملاً نافذ کرے ۔ مولانا مودودیؒ نے مغربی جمہوریت کو بھی دو تصورات کا مجموعہ قرار دیا تھا:

                ۱-            عوام کی قانونی اور سیاسی حاکمیت، جو عوام کی اکثریت ، یا ان کے منتخب کیے ہوئے نمایندوں کی اکثریت کے ذریعے عملاً ظہور میں آئے۔

                ۲-            ریاست کا انتظام کرنے والی حکومت کا عوام کی آزادانہ خواہش سے بننا اور بدل سکنا۔

سیّد مودودیؒ نے مغربی جمہوریت کے قانونی حاکمیت کے تصور کو تبدیل کر کے اللہ کے لیے خاص کیا اور سیاسی حاکمیت کو خلافت قرار دے کر اسے ریاست کے عام مسلمان باشندوں کے حوالے کر دیا۔ اس طرح اسلامی ریاست کو مغربی اصطلاح کے مطابق جمہوریت قرار دینے کو سیّدمودودیؒ نے غلط قرار دیا۔ ۱۰

جماعت اسلامی ہند نے بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کیا۔ ہندستان میں رائج جمہوریت کی حمایت و تقویت ، ملکی انتخابات میں شرکت کا جواز، انتظامی اداروں میں ملازمت کا حصول، سیکو لر سیاسی افراد اور جماعتوں سے ارتباط و تعاون اور سیاسی نظام میں مسلمانوں کی حصہ داری کے لیے اس کے فیصلے اور کل ہند ویلفیئر پارٹی کی تشکیل وغیرہ ایسے اقدامات ہیں، جن کا فیصلہ جماعت اسلامی ہند نے طویل مشاورت اور اجتماعی اجتہاد کے بعد کیا، مگر اس کی تائید میں اسلامی لٹریچر کی تیاری کا کام ابھی باقی ہے۔ یاد رہے کہ مولانا مودودیؒ کی تحریریں ان فیصلوں کی تائید کرتی نظر نہیں آتیں ۔

عالمِ عرب کی طاقت ور اسلامی تحریک اخوان المسلمون ۱۹۲۸ء میں قائم ہوئی۔ سید قطب  اس کے نظریہ ساز قرار پائے۔ ۱۹۵۳ء میں وہ اخوان میں شامل ہوئے اور اس کے ترجمان الاخوان المسلمون کے مدیر مقرر ہوئے۔ آگے چل کر وہ مکتب الارشاد(مجلس عاملہ) کے رکن بنے۔ انھوں نے اپنے مؤثر اسلوب میں عالم عرب کے حالات پر اسلامی رہ نمائی کا فریضہ ادا کرنا شروع کیا۔ جنوری ۱۹۶۴ء میں ان کی معرکہ آرا تصنیف معالم فی الطریق  منظر عام پر آئی۔ ۱۱   اس کتاب نے یہ بحث زور شور سے اٹھائی کہ آج پوری دنیا جہالت و جاہلیت میں ڈوبی ہوئی ہے۔  اس جاہلیت کی بنیاد ہے اللہ کے اقتدار اعلیٰ پر دست درازی اور حاکمیت الٰہ سے بغاوت۔ ۱۲  تمام عرب اور مسلم حکومتیں اس جہالت و جاہلیت کو فروغ دے رہی ہیں۔ اس لیے سید قطب نے کہا کہ ’’آج احیاے اسلام کا آغاز اس ہراول دستے سے ہوگا، جو اس کار عظیم کا عزم مصمم لے کر اٹھے اور پھر مسلسل منزل کی طرف پیش قدمی کرتا چلا جائے اور جاہلیت کے اس بے کراں سمندر کو چیرتا ہوا آگے کی جانب رواں دواں رہے‘‘۔ ۱۳ یہی کتاب ۱۹۶۶ء میں فاضل مصنف کی شہادت کا سبب قرار دی گئی۔ ۱۴

مصر اور پورے عالم عرب میں جبر و ظلم کی ایک طویل تاریخ سے گزر کر اخوان المسلمون کے جاں نثاروں نے دعوت و اقامت دین کا فریضہ انجام دیا۔ان کے متعدد رہ نمائوں کو تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا۔ تزکیہ و شہادت کے اس پورے سفر میں سید قطب شہید ؒ کی تحریریں ہی مرکز توجہ رہی ہیں۔ دوسرے اخوان مصنفین نے بلا شبہہ دعوت و تربیت کے لیے بے شمار موضوعات پر اپنی یادگار تخلیقات پیش کیں، لیکن ان کی حیثیت تفہیم و تشریح سے زیادہ نہ تھی۔ جناب حسن بن اسماعیل الہضیبیؒ(۱۸۹۱ء-۱۹۷۳ء) ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو مرشد عام منتخب ہوئے ۔ انھوں نے مارچ ۱۹۲۴ء تک مصری عدالتوں میں وکالت کرنے کے بعد ۲۷برس جج کے فرائض بھی انجام دیے تھے۔ قانونی و فقہی امور میں مہارت رکھنے کے علاوہ اخوان کے اندر ایک گروہ کی فکر میں پرورش پانے والی انتہاپسندی پر وہ سخت مضطرب تھے۔ انھوں نے پوری کوشش کی کہ اخوان ملکی قوانین کی پابندی کریں اور حکومت سے کوئی تصادم مول نہ لیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنی معروف زمانہ تصنیف دعاۃ لا قضاۃ  تصنیف کی۔ ۱۵

حسن الہضیبی نے اس کتاب میں یہ نقطۂ نظر پیش کیا کہ قرآن و سنت کی روشنی میں داعیانِ دین کی یہ ذمہ داری تو ہے کہ وہ اصلاح و احیا کے لیے کماحقہ جدو جہد کریں، تاہم افراد و اقوام کو زبردستی اور قوت کے استعمال سے راہِ ہدایت پر لانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے، اور غیر مسلم معاشرے میں رہنے والے مسلمان اپنی نیت اور عمل کے مطابق اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ان کے خلاف تکفیر و تفسیق کی مہم چلانا، دعوت دین کے دائرے سے باہر ہے۔

شیخ الہضیبیؒ کی اس صراحت و وضاحت کے باوجود انتہا پسند نوجوانوں نے جماعۃ التکفیر          والھجرۃ کے نام سے ایک الگ گروپ تشکیل دے دیا۔ ۱۶ اور مصر میں فکری انتہا پسندی کی ایک نئی لہر آگئی۔ اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ آج بھی سید قطب شہیدؒ کی تحریریں عالمِ عرب میں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ اخوان مفکرین بدلے ہوئے حالات میں نئی تعبیر و تشریح کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔

تکثیری معاشرہ اور اس کے تقاضے

تکثیریت کی ایک تفہیم، جو موجودہ دور میں رائج ہے، اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ: ’’سارے مذاہب اور متنوع افکا ر کو بیک وقت درست مانا جائے اور کسی عقیدہ، فلسفہ یا فکر پر تنقید نہ کی جائے‘‘۔ گویا معاشرے میں موجود سارے افکار اور فلسفے اپنی انفرادیت کھو کر ایک نئی فکر اور فلسفہ تشکیل دیں، جس میں سب کی سوچ، ذہنیت اور رنگ و آہنگ شامل ہو۔ اس فکر کے مطابق کسی ایک فکر یا عقیدے کی صداقت پر اصرار باقی نہیں رہتا۔

تکثیری معاشرے کا ایک دوسرا فہم یہ ہے کہ: ’’مختلف و متصادم افکار و نظریات اور عقائد کو یکساں آزادی حاصل ہو۔ کسی فکر کو صحیح سمجھنے والا آزاد ہو کہ اس فکر کی معقولیت اور نافعیت کا اثبات کر سکے اور علمی انداز اور شائستہ اسلوب میں دوسرے نظریے پر تنقید و جرح کرسکے۔ گویا اپنے نظریے پر قائم رہتے ہوئے، دوسرے نظریات سے مباحثہ و مجادلہ کی راہ اختیار کرے۔ اس طرح تمام افکار و مذاہب کے لیے مکالمہ کی راہ ہموار ہوتی ہے‘‘۔

موجودہ دور کے مسلم مفکرین نے تکثیریت کے آخر الذکر فہم کو تسلیم کیا ہے۔ انھوں نے اسلام کی حقانیت پر ایمان رکھنے کے ساتھ دوسرے مذاہب و نظریات کی آزادی و حقوق کو خوش دلی سے مانا ہے اور مکالمہ اور اشتراک و تعاون کے لیے راہیں استوار کیں ہیں۔

ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی(۱۹۳۲ء-۲۰۱۱ء)نے غیر اسلامی قوتوں سے اشتراک کی حدود کار پر مفصل گفتگو کی ہے۔ ان کے خیال میں مکہ میں حلف الفضول کا تاریخی معاہدہ، جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل ایک تکثیری معاشرے کے اندر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ یہ ایک معاہدے تھا، جس میں مشرکین ، ملحدین اور موحدین سب نے متحد ہو کر برائی اور نانصافی کے خلاف مشترکہ جدو جہد کرنے کا عہد باندھا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عہد رسالت میں بھی اس معاہدے کی بڑی قدر کرتے تھے اور ایک روایت کے مطابق آپؐ نے فرمایا تھا کہ: ’’اگر اس طرح کا کوئی معاہدہ دوبارہ ہو تو آپؐ اس میں شریک ہونا پسند کریں گے‘‘۔ ڈاکٹر فریدی کہتے ہیں:’’اس قسم کی کاوشوں میں تعاون مسلمانوں کا اخلاقی فریضہ ہے۔ اپنے تعاون کو اس شرط پر مشروط کرنا کہ اس طرح کی کوشش جامع اور ہمہ جہت ہو اور معاشرے کی بنیادی برائیوں کا انسداد اس میں شامل ہو، صحیح نہیں ہے‘‘۔ ۱۷

حزب النہضۃ تیونس کے رہنما راشد الغنوشی (پ:۱۹۴۱ء) اسلام کے نظام عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے شراکتِ اقتدار کو ناگزیر تصور کرتے ہیں، خواہ وہ معاشرہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ اس شراکت کے لیے صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ شریعت اسلامیہ کی تنفیذ اس کا مطمح نظر ہو، بلکہ ملک میں آمریت کو روکنے کے لیے بھی یہ شراکت کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح آزادی، ترقی، سماجی استحکام، شہری آزادیوں کے حصول، حقوق انسانی کے احترام، سیاسی تکثیریت کی پاس داری، عدلیہ کی آزادی کی بحالی، آزادی اظہارِ راے، اسلامی اوقاف، مساجد و مدارس کے تحفظ وغیرہ، وسیع تر مقاصد میں غیرمسلموں کی شراکت کے ساتھ بے دین اور ملحد قوتوں کے ساتھ حصہ داری نبھائی جاسکتی ہے۔ ۱۸

غیر اسلامی حکومتوں میں شراکت کے ثبوت کے لیے راشد الغنوشی، سورۂ یوسف سے استدلال کرتے ہیں، جس میں حضرت یوسف ؑ نے شاہِ مصر سے کہا تھا کہ ملک کے خزانے میرے سپرد کر دیجیے، کیوں کہ میں ان کی حفاظت کر سکتا ہوں: قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ ج اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ (یوسف۱۲:۵۵) ۔اس کے بعد قرآن حضرت یوسف ؑ کے کامل تسلط اور ہمہ گیر اقتدار کو اس طرح بیان کرتا ہے:

وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّالِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ج یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ ط نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآئُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ o(یوسف۱۲:۵۶) اس طرح  ہم نے اس سرزمین میں یوسف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیںنوازتے ہیں۔ نیک لوگوں کا اجر ہمارے یہاں مارا نہیں جاتا۔

حضرت یوسف ؑ کا حوالہ دے کر راشد الغنوشی نے لکھا کہ پیغمبر وقت کو جیل کی سزا برداشت کرنا پڑی، سوتیلے بھائیوں کے ناروا سلوک کو برداشت کرنا پڑا، مگر جب مناسب وقت آیا توشاہ مصر کے دربار میں سب سے اہم ذمہ داری بڑھ کر قبول کی، تاکہ قحط اور خشک سالی میں مبتلا عوام کو راحت پہنچا سکیں۔ انھوں نے یہ انتظار نہ کیا کہ مصری عوام دعوت توحید کو قبول کر لیں اور شرک و کفر کو چھوڑ کر مؤحد بن جائیں، تاکہ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل ہو سکے۔ ۱۹

راشد الغنوشی نے سیرت طیبہ سے ہجرت حبشہ کی مثال بھی پیش کی ہے، جو بڑی دل چسپ ہے۔ حبشہ کا بادشاہ عیسائی تھا، مگر انصاف پسند تھا۔ مکہ میں جب حالات ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئے تو رجب ۴۵ عام الفیل؍ ۵ بنوی میں اللہ کے رسولﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

لَوْ خَرَجْتُمْ اِلٰی أَرْضِ الْحَبْشَۃِ، فَاِنَّ بِھَا مَلِکاً  لَا یُظْلَمُ عِنْدَہٗ أَحَدٌ، وَھِیَ أَرْضُ صِدقٍ حَتّٰی یَجْعَلَ اللہُ لَکُمْ فَرَجًا مِـمَّا أَنْتُمْ  ۲۰   اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبشہ چلے جائو۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سر زمین ہے۔ جب تک اللہ تمھاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے، تم لوگ وہاں ٹھیرے رہو۔

اس ارشاد کی بنا پر ۱۱ مرد اور ۴ خواتین نے حبشہ کی راہ لی۔ پھر چند مہینوں کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی، یہاں تک کہ ۸۳ مرد ، ۱۱عورتیں اور ۷  غیر قریشی مسلمان حبشہ میں جمع ہو گئے اور مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ۴۰ آدمی رہ گئے تھے۔۲۱ صحابہ و صحابیات کی حبشہ آمد کا نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ مسلمان ہو گیا،ا گر چہ اس نے اسلامی شریعت ملک میں نافذ نہ کی۔ اسے خدشہ ہوا کہ اسلام قبول کرنے کا اعلان ہوتے ہی اس کی سلطنت خطرے میں پڑ جائے گی اور مہاجرین کا تحفظ مشکل ہو جائے گا۔ جب شاہِ حبشہ کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔۲۲

بھارت کے ممتاز عالم دین مولانا سلطان احمد اصلاحیؒ (۱۹۵۲ء-۲۰۱۶ء) نے اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی کتاب مسلمان اقلیتوں کا مطلوبہ کردار  میں ہندستانی مسلمانوں کے شرعی اور اسلامی کردار پر کھل کر گفتگو کی ہے۔ انھوں نے ملک و ملت کی تعمیر اور بھلائی کے کاموں میں شرکت کو ’ ہر مسلمان کی دینی زندگی کا لازمی ایجنڈا ‘ قرار دیا ہے۔۲۳ انھوں نے مسلمانوں کو تاکید کی کہ ان کی اجتماعیت ’ غیر متحارب اور غیر نزاعی‘ ہو۔ اس پر سخت نگاہ رکھی جائے کہ      ’سیاسی و غیرسیاسی‘ کسی دائرے میں اس کا رنگ و آہنگ معاندا نہ نہ ہونے پائے اور ان کی تمام تر دینی اور مذہبی جماعتوں کا کردار اصلاً دعوتی، رفاہی اور اصلاحی رہے۔۲۴ انھوں نے بھی حضرت یوسف ؑ اور شاہِ حبشہ کے نمونوں سے استدلال کیا کہ غیر مسلم اکثریت کے درمیان کسی منصب کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ضرورت کے تقاضے سے غیر دینی نظام حکومت کے ساتھ اشتراک و تعاون کی راہ عام مسلمان کے لیے درست اور صائب ہے۔۲۵ اس معاملے میں کلیدی مناصب ہوں یا غیر کلیدی مناصب، سب یکساں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ :’’ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کی چھوٹی بڑی ہرطرح کی ملازمت اور چھوٹا بڑا ہر طرح کا عہدہ و منصب مسلمان اقلیت کی یکساں ضرورت ہے۔۲۶

مولانا اصلاحیؒ ملک کی مقننہ، یعنی اس کی اسمبلی اور پارلیمنٹ اور اس کے واسطے سے حکومت اور وزارت میں مسلمان اقلیت کی مؤثر حصہ داری کے لیے انتخابات میں شرکت کو ضروری قرار دیتے ہیں اور قوم اور اجتماعیت کی حیثیت سے مسلمان امت کو ہوم ورک اور منصوبہ بندی کی تلقین کرتے ہیں۔ اسی طرح انتظامیہ و عدلیہ میں جگہ پانے کے لیے مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت کو ضروری تصور کرتے ہیں ۔۲۷

تکثیری معاشرے میں اسلام کی رہ نمائی سے متعلق یہ تخلیقات بہت اہم ہیں، مگر بہت سے سوالات ہنوز حل طلب ہیں۔ اس نئے فلسفے کی مکمل اسلامی تفہیم ابھی باقی ہے اور اس کے بطن سے جنم لینے والے اشکالات کا شافی جواب دینا اسلامی تحریکوں کا فوری مسئلہ ہے۔

حواشی و مراجع

۱-              ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ، اسلامی نشاتِ ثانیہ کی راہ، مرکزی کتبہ اسلامی، دہلی، اکتوبر ۱۹۷۴ء، ص ۱۶۶

۲- بہی الخولی، تحریک اور دعوت ، اُردو ترجمہ، عبید اللہ فہد فلاحی، بیروت ۱۴۰۳ھ؍ ۱۹۸۳ء، ص ۶۸

۳-            حوالۂ سابق، ص ۷۰                    ۴۔ حوالۂ سابق ،ص ۳۳۹-۳۴۰                       ۵۔ حوالۂ سابق، ص۴۰۴

۶-   جدید تعلیم گاہوں سے دینی و تعلیمی اداروں کے اشتراک کی ناگزیریت کے لیے دیکھیے راقم کا مضمون ’بدلتے ہوئے حالات میں مدارس اسلامیہ کی ترجیحات‘، ماہ نامہ تہذیب الاخلاق، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی،  جلد، ۳۵، شمارہ۴ ،ص ۳۶۔

۷-  Post-Maududismکی اصطلاح حسن الامین نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں استعمال کی ہے جو انھوں نے ۲۰۱۰ء میں ارسمس یونی ورسٹی روٹر دم، نیوزی لینڈ میں پیش کیا۔ راقم کی راے ہے کہ ’مابعد اسلامیت‘ یا ’ ما بعد مودودیت‘ کی اصطلاحات نرے ابہام کے سوا کچھ بھی نہیں۔

۸-            سیّد سعادت اللہ حسینی، ’تحریک اسلامی اور فکری چیلنج‘، ماہ نامہ عالمی ترجمان القرآن لاہور، دسمبر ۲۰۱۵ء، ص ۸۴۔ انھوں نے تحریک اسلامی کے حلقوں کو دعوت احتساب دی ہے۔ ان کے بقول دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی ڈھنگ کا ’تصور جہاں‘ (ورلڈ ویو) نہیں ہے، جہاں سے کار آمد آئیڈیاز پیدا ہوسکیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ورلڈ ویو ز ہیں، لیکن آئیڈیاز نہیں ہیں۔

۹-            سید ابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست ،  ترتیب: خورشید احمد، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور۔

۱۰-         حوالۂ سابق، ص ۴۸۰-۴۸۱ ۔ دوسری طرف ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدیؒ نے جمہوریت کو اصلاً ملوکیت، ڈکٹیٹرشپ اور جبر و استحصال سے متصادم قرار دیا ہے ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ:’’ یہ موقف کہ جمہوریت فی نفسہ طاغوت ہے، حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ [جمہوری] نظام، عوام کے فیصلے اور اختیار سے مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں جمہوری خلافت بھی بن سکتا ہے‘‘۔ ’ملاحظہ کیجیے، فضل الرحمٰن فریدی، اقامت دین کا سفر، ہندستانی تناظر میں، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی، نومبر ۱۹۹۷ء، ص ۴۹

۱۱-         سید ، قطب، معالم فی الطریق، دار الشروق، بیروت ۱۹۶۸ء، ص ۸  ۱۲ (جادہ و منزل، مترجم: خلیل احمد حامدی، ناشر، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور)۔                         ۱۲- حوالۂ سابق، ص ۹

۱۳-         عبید اللہ فہد فلاحی اور محمد صلاح الدین عمری، سید قطب شہیدؒ: حیات و خدمات، منشورات، لاہور، ۱۹۹۹ء، صفحات۴۰۰۔ سلیم منصور خالد،اسلام کی آواز، سیّد قطب شہید، منشورات، لاہور، ۲۰۱۵ء

۱۴-         اخوان المسلمون کی تاریخ جاننے کے لیے مطالعہ کیجیے راقم کی کتاب: اخوان المسلمون: تزکیہ، ادب، شہادت ، القلم پبلی کیشنز ،سری نگر، ۲۰۱۱ء، صفحات: ۳۰۲۔     ۱۵- حوالۂ سابق، ص ۱۰۔ ۱۶

۱۶-         الہضیبی، حسن بن اسماعیل، دعاۃ لا قضاۃ، قاہرہ، ۱۹۷۷ء، ص ۵۔ اُردو ترجمہ: داعی کا منصبِ حقیقی، مترجم: گل زادہ شیرپائو،ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور، ۲۰۰۹ء۔

۱۷-ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی، ’تکثیری معاشرہ اور ہمارا مطلوبہ رویہ‘، [ترجمانی: عرفان وحید]، ماہ نامہ رفیق منزل نئی دہلی، اکتوبر ۲۰۱۳ء، قسط پنجم، ص۲۸۔ انھوں نے پرہیزگاری کے اس موہوم تصور پر تنقید کی ہے  جس کے تحت مسلمانوں کا ایک طبقہ انسانوں کی تکالیف کے سدّباب کی چھوٹی کوششوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا اور یہ سوچتا ہے کہ اگر اللہ پر ایمان نہ لانے کی بنیادی برائی کو ختم کر دیا جائے تو تمام انسانی مصائب خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر فریدی کہتے ہیں: ’’ شریعت کی یہ تعبیر یکسر غیر مطلوب ہے۔ یہ سوچ انفرادی و اجتماعی معاشرتی تبدیلی کے محرکات کے عدم فہم کی بھی چغلی کھاتی ہے‘‘۔ حوالۂ سابق، ص ۲۹۔

۱۸-         راشد الغنوشی، The Participation of a Islamist in a Non-Islmaic Government، لندن ۱۹۹۳ء، ص ۵۱، ۶۳   ۱۹-  حوالۂ سابق، ص ۶۵

۲۰-ابن ہشام، سیرت النبیؐ، [تحقیق: محمد محی الدین عبد المجید]، دار الفکر، القاہرہ، ۱۹۳۷ء، الجزالاول، ص۳۴۳

۲۱- سید ابو الاعلیٰ مودودی، سیرت سرور عالم، ادارۂ ترجمان القرآن لاہور، مرتبین: نعیم صدیقی، عبد الوکیل علوی، اشاعت سوم، دسمبر، ۱۹۸۰ء، جلد اول، ص ۷۰۵- ۷۰۶۔

۲۲- راشد الغنوشی، حوالۂ سابق، ص ۵۸

۲۳- سلطان احمد اصلاحی ، ’مسلم اقلیتوں کا مطلوبہ کردار‘، فکرو آگہی، اعظم گڑھ، ۲۰۰۲ء، ص ۱۰۱  ۲۴۔

۲۴- حوالۂ سابق، ص ۱۰۲ ۲۵۔             ۲۵- حوالۂ سابق، ص ۱۳۰                     ۲۶- حوالۂ سابق، ۱۵۰

۲۷-حوالۂ سابق، ص ۱۵۰۔ ۱۵۷ ، تکثیری معاشرے میں مسلمانوں کے کردار پر ایک عالمانہ تحقیق معروف سیرت نگار پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی نے سپردِ قلم کی ہے: مکی اسوۂ نبویؐ ، مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل، اسلامک بک فائونڈیشن، نئی دہلی، اپریل ۲۰۰۵ء۔

قرآن پاک کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مردوں کی طرح خواتین بھی یکساں توقیر اور احترام کی مستحق ہیں اور اس معاملے میں کسی تفریق یا امتیاز کی گنجایش نہیں ہے۔ مرد کو قوام بنانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ بربناے جنس وہ برتر اور افضل ہے اور عورت کم تر اور کم مرتبہ ہے، بلکہ گھر کی چھوٹی سی وحدت میں سربراہی کا مقام مرد کو حاصل ہے اور معاشی کفالت، محافظت و مدافعت کی ذمہ داری اُسی کے مضبوط کندھوں پر رکھی گئی ہے۔ اسی وجہ سے اُسے یک گونہ فضیلت حاصل ہوگئی ہے، مگر یہ فضیلت کلّی نہیں ہے بلکہ صرف وہ فضیلت ہے جو مرد کی قوامیت کو ثابت کرتی ہے۔ قرآن کہتا ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (النساء ۴:۳۴) مرد عورتوں کے سرپرست ہیں، بوجہ   اس کے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کیے۔

قرآن کریم کے اسلوب پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مرد اور عورت دونوں کی فضیلت اور امتیاز کا اعتراف ہے۔ مرد کی فضیلت یہ ہے کہ اُسے باہر کی دنیا میں ہاتھ پائوں مارنے کی استعداد زیادہ دی گئی ہے اور حفاظت اور دفاع کی صلاحیت اور ہمت نسبتاً زیادہ بخشی گئی ہے۔  بعض دوسرے پہلو خواتین کے امتیاز اور فضیلت کے ہیں۔ گھر سنبھالنے، بچوں کی پرورش و پرداخت کرنے اور عائلی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا صبروتحمل اور حکمت و فراست سے مقابلہ کرنے کی جو صلاحیت خواتین میں ہوتی ہے، مرد اُس سے محروم ہوتے ہیں۔ اُوپر کی آیت میں قرآن نے ابہام کا اسلوب اختیار کیا ہے: ’’جس سے مرد اور عورت دونوں کا کسی نہ کسی پہلو سے صاحب ِ فضیلت ہونا نکلتا ہے لیکن قوامیت کے پہلو سے مرد ہی کی فضیلت کا پہلو راجح ہے‘‘۔۱؎

رقابت فساد کی جڑ ھے

خواتین کو مردوں کی طرح گھر سے باہر سماجی و معاشی جدوجہد کرنے کے لیے پوری آزادی حاصل ہے۔ اگر ضرورت لاحق ہو تو وہ اپنے فطری دائرۂ کار سے آگے بڑھ کر متحرک ہونے کا حق رکھتی ہیں، کیونکہ اسلامی معاشرے میں دونوں اصناف کے درمیان کوئی معرکہ آرائی نہیں ہے۔ دنیوی مال و متاع کے حصول کے لیے باہمی کش مکش اور تنازعات سے یہ معاشرہ پاک ہوتا ہے۔ اس میں اس بات کی گنجایش نہیں ہے کہ کوئی طبقہ دوسرے کے خلاف صف آرا ہو، اس کی عیب چینی کرے، اس کی خامیوں پر انگشت نمائی کرے اور اُس کے مقابلے میں اپنے حقوق کی جنگ لڑے۔ صنفین کی ساخت اور خصوصیات میں تنوع ہے اور اسی لیے وظائف ِحیات اور ذمہ داریوں میں بھی رنگارنگی اور بوقلمونی ہے۔ اس تصورِ مساوات کو قرآن نے اس انداز میں بیان کیا ہے کہ مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ جیسی کمائی کریں گے اُسی کے مطابق اُن کا حصہ ہوگا۔ جو جتنی اور جیسی بھلائی یا بُرائی کمائے گا اُسی کے مطابق اللہ کے ہاں حصہ پائے گا۔

وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍط لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا ط وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا o (النساء ۴:۳۲)، اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو، جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصہ۔ ہاں، اللہ سے اُس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقینا اللہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔

اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی جدوجہد کرنے اور گھر سے باہر بھاگ دوڑ کرنے کی آزادی حاصل ہے اور جو کچھ وہ کمائیں گے اُن کا حصہ شمار ہوگا۔ اکتساب کی یہ آزادی دنیاوی و روحانی دونوں میدانوں میں ہے۔ قرآن نے ایسا اسلوبِ بیان اپنایا ہے جس میں آخرت کے ساتھ دنیا کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا بھی شامل ہے۔ اگر یہ آیت معنوی مقاصد کے حصول کے لیے یکساں آزادی دینے کے اعلان تک محدود نہیں ہوتی تو آیت کے اوّلین حصے کا جوڑ بے ربط ہوتا، جس میں اہلِ ایمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ    وہ دوسروں کی کمائی اور اُن کے مقدر پر حسد اور لالچ نہ کریں اور اللہ نے جو کچھ اُن کے نصیب میں لکھا ہے اُس پر شاکر و صابر اور قانع رہیں۔

اس آیت میں ایک اخلاقی تعلیم یہ بھی دی گئی ہے کہ اجتماعی زندگی میں بدامنی اور انتشار کی بڑی وجہ صبروقناعت کا فقدان اور حسد ورقابت کا بڑھتا ہوا میلان ہے۔ قدرت نے تمام انسانوں کو یکساں نہیں بنایا ہے۔ خوب صورتی و بدصورتی میں، طاقت اور کمزوری میں، آواز کی نرمی و کرختگی میں، سلیم الاعضا ہونے اور جسمانی طور پر ناقص ہونے میں، حالات کی بہتری و بدتری میں، صلاحیتوں اور قابلیتوں کے فرق و امتیاز میں دنیا کے انسان برابر نہیں ہیں اور اسی عدمِ برابری پر انسانی تمدن کی عمارت قائم ہے اور ثقافت و تہذیب کی ترقی منحصر ہے۔ اس فطری فرق و امتیاز کو ختم کردیا جائے تو معاشرے میں فساد رُونما ہوجائے اور تمدن کا ارتقا تھم جائے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ئ-۱۹۷۹ئ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیںکہ: ’’آدمی کی یہ ذہنیت کہ جسے کسی حیثیت سے اپنے مقابلے میں بڑھا ہوا دیکھے، بے چین ہوجائے، یہی اجتماعی زندگی میں رشک، حسد، رقابت، عداوت، مزاحمت اور کشاکش کی جڑ ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو فضل اُسے جائز طریقوں سے حاصل نہیں ہوتا اسے پھر وہ ناجائز تدبیروں سے حاصل کرنے پر اُتر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اِسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرما رہا ہے۔ اس کے ارشاد کا مدّعا یہ ہے کہ جو فضل اُس نے دوسروں کو دیا ہو اس کی تمنا نہ کرو، البتہ اللہ سے فضل کی دعا کرو، وہ جس فضل کو اپنے علم و حکمت سے تمھارے لیے مناسب سمجھے گا، عطا فرمادے گا‘‘۔(تفہیم القرآن، ج اوّل، ص ۳۴۸)

مولانا امین احسن اصلاحیؒ (۱۹۰۶ئ-۱۹۹۷ئ) فرماتے ہیں کہ:’’ تنافُس (باہمی مقابلہ) کا اصلی میدان اکتسابی صفات کا میدان ہے، صفاتِ خلقت یا فطری ترجیحات کا نہیں۔ یہ میدان نیکی، تقویٰ، عبادت، ریاضت، توبہ، انابت یا زیادہ جامع الفاظ میں ایمان و عمل کا میدان ہے۔ اس میں بڑھنے کے لیے کسی پر کوئی روک نہیں ہے۔ مرد بڑھے وہ اپنی جدوجہد کا پورا ثمرہ پائے گا۔ عورت بڑھے وہ اپنی سعی کا پھل پائے گی۔ اگر کسی میں کچھ فطری اور خلقی رکاوٹیں ہیں تو اس کے کسر کا جبر بھی یہاں موجود ہے۔ خدا نے خلقی طور پر جو فضیلتیں بانٹی ہیں اُن سے ہزارہا اور لکھوکھا درجہ زیادہ اس کا فضل یہاں ہے تو جو فضیلت کے طالب ہیں وہ اس میدان میں اُتریں اور خدا کے  فضل کے طالب بنیں۔ دینے والا سب کی طلب، سب کے ذوق و شوق، اور سب کی نیت اور سب کے اخلاص سے واقف ہے اور اس کے خزانے میں نہ کمی ہے، نہ وہ دینے میں بخیل ہے، تو غلط میدان میں اپنی محنت برباد کرنے سے کیا حاصل ہے؟ جس کو قسمت آزمائی کرنی ہو اس میدان میں کرے‘‘۔ (تدبرقرآن، ج ۲،ص ۶۰)

اخلاقیات کی مساویانہ پاس داری

قرآن یہ صراحت بھی کرتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کی روحانی ترقی مطلوب ہے اور رضاے الٰہی کے حصول کے لیے اور روحانیت کے اعلیٰ مدارج طے کرنے کے لیے یکساں مواقع دونوں کو حاصل ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایگی دونوں پر فرض ہے۔ اسلامی اخلاق و کردار کا مظاہرہ دونوں سے بحیثیت عادت اور صفت کے ہونا چاہیے۔ دین کا ظاہر، اسلام اور اس کا باطن، ایمان دین کی ایک جامع تعبیر ہے اور یہ دونوں بیک وقت مطلوب ہیں۔ دل کی پوری یکسوئی اور پوری نیازمندی کے ساتھ خدا و رسول کی فرماں برداری، قول و فعل کا صدق، صبرواستقامت اور استقلال و پامردی، فروتنی و خاکساری اور جلالِ خداوندی کا استحضار، انفاق و تصدق، ضبط ِ نفس اور تربیت صبر کے لیے روزوں کا اہتمام ، زیب و زینت کی جاہلانہ نمایش سے پرہیز اور عفت و عصمت پر اصرار اور ذکر الٰہی___ یہ وہ اعلیٰ درجے کی صفات ہیں جن سے مرد اور عورت دونوں کو متصف ہونے کی ضرورت ہے۔ اِن ہی صفاتِ محمودہ سے اسلامی معاشرہ وجود میں آتا ہے اور اسلامی اخلاق و کردار کی جلوہ گری ہوتی ہے۔ قرآن کہتا ہے:

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰئِمٰتِ۔ٓ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ لا اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا (الاحزاب ۳۳:۳۵)، اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں، ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں۔ فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، ثابت قدمی دکھانے والے مرد اور ثابت قدمی دکھانے والی عورتیں، فروتنی اختیار کرنے والے مرد اور فروتنی اختیار کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے والے مرد اور اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے والی عورتیں۔ اِن کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجرعظیم تیار کر رکھا ہے۔

اس آیت میں قرآن نے ۱۰ صفات گنائی ہیں اور اسلامی اخلاق کے جملہ پہلوئوں کو اُن کے اندر سمیٹ لیا ہے:

۱- اسلام، یعنی ظاہری اطاعت و فرماں برداری۔ ۲- ایمان، یعنی دین کا باطن جس میں اخلاص اہم ہے۔ ۳- قنوت، مکمل تابع داری اور کامل یکسوئی کے ساتھ خدا کی اطاعت۔ ۴- صدق، یعنی قول و فعل اور ارادہ تینوں کی استواری۔ ۵- صبر، یعنی پامردی اور مستقل مزاجی۔ ۶- خشوع، جو استکبار کی ضد ہے۔ اس سے خدا کے آگے جھکنے اور خلقِ خدا کے لیے مہربان ہونے کی صفت پیدا ہوتی ہے۔۷- صدقہ، حقوق العباد کی ادایگی کے لیے اپنا مال دوسروں پر خرچ کرنا۔۸- روزہ، صبر کی تربیت کا سب سے مؤثر ذریعہ۔۹- عفت و حیا، جس کے لیے حفظ فروج کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔۱۰- ذکرخداوندی، جو تمام محمود صفات کا منبع ہے۔(تدبرقرآن، ج ۵،ص ۲۲-۲۲۴)

اس آیت میں مسلمان مرد اور عورت دونوں کے لیے ایک آئینہ فراہم کیا گیا ہے جس میں وہ اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں اور اپنی اصلاح کرکے اپنے آپ کو سنوار سکتے اور رب کی خوشی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہاں خواتین کا تذکرہ ضمناً نہیں بلکہ مردوں کے پہلو بہ پہلو مستقلاً آیا ہے، کیونکہ وہ معاشرے کا بالکل نصف اور برابر حصہ ہے بلکہ معاشرے کی تعمیروتخریب میں اُن کی شراکت قدرے زائد ہے۔

اطاعتِ رسولؐ کا یکساں مطالبہ

سورئہ احزاب میں اُوپر مسلمان مردوں اور عورتوں کی مطلوبہ صفات و اخلاقیات فراہم کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ (م:۸ھ/ ۶۲۹ئ) کی زندگی کے ایک اہم واقعے کا تذکرہ اور اس سے متعلق اصولی ہدایات دی گئی ہیں۔

حضرت زید بن حارثہؓ کا تعلق قبیلہ کلب سے تھا۔ یہ بچپن میں دشمن کی کسی غارت گری میں گرفتار ہوئے اور غلام بنائے گئے۔ حکیم بن حزام نے ان کو اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کے لیے خریدا۔ حضرت خدیجہؓ جب رسولؐ اللہ کے عقدِنکاح میں آئیں تو انھوں نے ان کو آنحضرتؐ کو ہبہ کردیا۔ اس طرح اُن کو حضوؐر کی غلامی کا شرف حاصل ہوا۔ حضوؐر کی غلامی کی جو قدروعزت اُن کی نگاہ میں تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کے والد اور چچا نے آنحضرتؐ سے اُن کی آزادی کا مطالبہ کیا تو حضوؐر نے ان کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو اپنے باپ کے پاس چلے جائیں، اور چاہیں تو حضوؐر کی خدمت میں رہیں۔ اس موقعے پر حضرت زیدؓ نے آزادی کا اختیار نامہ پاجانے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو ترجیح دی۔ اس کے بعد حضوؐر نے ان کو آزاد کردیا ، اور ان کی محبت دوچند ہوگئی۔

اللہ کے رسولؐ نے حضرت زیدؓ کی عزت افزائی کے لیے ان کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت حجشؓ (م: ۲۰ھ/۶۴۱ئ) کے ساتھ کردیا۔ ان کا تعلق خاندانِ بنی اسد سے تھا۔ اس نکاح پر عزیزوں اور رشتہ داروں نے اعتراض کیا کہ حضرت زیدؓ ایک آزاد کردہ غلام اور غیرکفو ہیں۔ لیکن رسول ؐ اللہ غلاموں کے تعلق سے لوگوں کے افکار میں انقلابی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے تھے اس لیے آپؐ نے نکاح پر اصرار فرمایا۔ آخرکار حضرت زینبؓ راضی ہوگئیں اور نکاح ہوگیا۔

منافقین اس معاشرتی اصلاح کو آسانی سے قبول نہ کرسکتے تھے، اس لیے انھوں نے اس نکاح کے خلاف ایک مخالفانہ فضا پیدا کردی۔ انھوں نے حضرت زینبؓ کو بھی ورغلانے کی کوشش کی۔ عین ممکن ہے کہ ان باتوں کا ان کے دل پر اثر پڑا ہو۔ فضا میں بدگمانی بہرحال گشت کرگئی اور حضرت زیدؓ کو احساس ہونے لگاکہ حضرت زینبؓ احساسِ برتری رکھتی ہیں اور اس نکاح سے خوش نہیں ہیں۔ چنانچہ انھوں نے حضرت زینبؓ کو طلاق دے دی کہ اُن کی کبیدگی بھی رفع ہوجائے اور خود اُن کے سر کا بوجھ بھی اُتر جائے۔ طلاق کے بعد حضرت زینبؓ کو صدمہ ہوا۔ اب اُن کی دل داری کی صورت صرف یہ رہ گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود اُن سے نکاح کرلیں مگر دورِ جاہلیت کی رسم آڑے آرہی تھی۔ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس رسم کی اصلاح فرمائی اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ انسانوں کی مخالفت سے بے پروا ہوکر حضرت زینبؓ کو اپنے عقدِ نکاح میں لے لیں۔ اس ہدایت کے مطابق آپ نے حضرت زینبؓ سے نکاح کرلیا۔۲؎

اس واقعے پر تبصرہ کرنے اور اس سے متعلق ضروری ہدایات دینے سے پہلے اللہ نے   سورئہ احزاب میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کیا کہ جب اللہ اور رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو اس میں کسی مومن مرد یا عورت کے لیے کسی چون و چرا کی گنجایش باقی نہیں رہتی:

وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ط وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا o (احزاب ۳۳:۳۶)، کسی مومن یا مومنہ کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے لیے اس میں کوئی اختیار باقی رہ جائے اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے گا تو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑا۔

مولانا اصلاحی فرماتے ہیں کہ یہ آیت آگے آنے والے واقعے کی تمہید ہے۔ اس کا تعلق خاص حضرت زیدؓ اور حضرت زینبؓ سے نہیں ہے بلکہ اس کی نوعیت ایک کلیہ کی ہے کیونکہ ان دونوں میں سے کسی نے بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلے کی مخالفت نہیں کی تھی۔حضرت زینبؓ کو جب معلوم ہوا کہ حضوؐر کی خواہش یہی ہے کہ حضرت زیدؓ سے اُن کا رشتہ ہوجائے تو انھوں نے اس خواہش کے آگے اپنا سر جھکا لیا، اور بعد میں جب حضوؐر نے اپنے لیے پیامِ نکاح بھیجا تو انھوں نے استخارہ کے بعد ہی اسے منظور کرلیا۔ اسی طرح حضرت زیدؓ نے بھی حضوؐر کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔ طلاق نہ دینے کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو انھوں نے ناصحانہ مشورے پر محمول کیا، اس کو کوئی فیصلہ نہ سمجھا، اور جب انھیں محسوس ہوا کہ حضرت زینبؓ سے نباہ کی کوئی صورت باقی نہیں بچی ہے تو انھیں طلاق دے دی۔ مولانا اصلاحیؒ کے نزدیک آیت میں   بیان کردہ حکم کی نوعیت ایک عام کلیہ کی ہے جس کے بیان کے لیے وقت کے حالات و واقعات نے مناسب فضا پیدا کردی تھی۔(تدبرقرآن، ج ۵، ص ۲۳۳)

آیت میں قاعدۂ کلیہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ کسی مسلمان مرد اور عورت کے لیے روا نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کریں۔ یہ بات ایمان کے تقاضوں کے بالکل خلاف ہے، اور جو اِس کا ارتکاب کرتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت،وہ صریح ضلالت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کو مستوجب ہے۔ اگر دلوں میں ایمان کی شمع روشن ہے تو اللہ اور اس کے رسولؐ کے کسی فیصلے پر اعتراض کرنے کی گنجایش نہیں رہ جاتی۔ رسولؐ جو فیصلہ بھی کرتا ہے اللہ کی اجازت اور اس کے حکم سے کرتا ہے۔ اِس وجہ سے اُس کی حیثیت مُطاع مطلق کی ہوتی ہے۔

حریف نھیں، رفیق

قرآن نے اہلِ ایمان کے معاشرے کی جو تصویر کھینچی ہے اس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھی، دست و بازو اور ہمدرد و غم گسار ہیں۔ وہ اس مشترک خصوصیت کے مالک ہوتے ہیں کہ نیکی کو فروغ دیں، بُرائی سے نفرت کریں، خدا کی یاد خون بن کر ان کی رگوں میں دوڑے، راہِ خدا میں خرچ کرنے کے لیے اُن کے دل اور ہاتھ کھلے ہوں ، اور خدا و رسولؐ کی   فرماں برداری اُن کی زندگی کا وتیرہ ہو۔ اس مشترک اخلاقی مزاج اور طرزِ زندگی نے انھیں آپس میں ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ وہ معاشرے میں حریف بن کر کشاکش اور کش مکش پیدا نہیں کرتے بلکہ رفیق بن کر ایک دوسرے کے لیے سہارا ثابت ہوتے ہیں: ’’مومن بندے جب اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کے لیے نکلتے ہیں تو مومن بندیاں اُن کے پائوں کی زنجیر اور گلے کا پھندا بننے کی کوشش نہیں کرتیں بلکہ سچے دل سے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور اپنے ایثار، اپنی دعائوں، اور اپنی بے لوث وفاداری اور امانت داری سے ان کے جہاد میں تعاون کرتی ہیں اور اس طرح خود بھی اجروثواب میں شریک بنتی ہیں‘‘(تدبرقرآن، ج ۳، ص ۶۰۵)۔اہلِ ایمان کی یہ تصویرکشی اہلِ نفاق کی تصویر سے بالکل مختلف اور متصادم ہے۔

منافق مردوں اور عورتوں کی جو کیفیت اور صورتِ حال اسی سورہ میں بیان ہوئی ہے وہ اہلِ ایمان واخلاص کی کیفیت کے بالکل برعکس ہے۔ اگرچہ ایمان کا ظاہری اقرار اور اسلام کی پیروی کا خارجی اظہار دونوں گروہوں میں مشترک ہے لیکن دونوں کے مزاج، اخلاق، اطوار، عادات اور طرزِفکروعمل ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ منافق کی زبان پر ایمان کا دعویٰ ہے مگر دل سچے ایمان سے خالی ہے۔ بقول مولانا مودودی: ’’اُوپر کے لیبل پر تو لکھا ہے کہ یہ مُشک ہے مگر لیبل کے نیچے جو کچھ ہے وہ اپنے پورے وجود سے ثابت کر رہا ہے کہ یہ گوبر کے سوا کچھ نہیں۔ بخلاف اس کے جہاں ایمان اپنی اصل حقیقت کے ساتھ موجود ہے وہاں مشک اپنی صورت سے اپنی خوشبو سے، اپنی خاصیتوں سے ہر آزمایش اور ہرمعاملے میں اپنا مُشک ہونا کھولے دے رہا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، ص ۲۱۴)

منافق مرد اور خواتین دونوں برابر کے شریکِ جرم ہیں۔ منافقین کے ساتھ قرآن نے منافقات کا بھی ذکر کیا ہے تاکہ نفاق زدہ خواتین کو تنبیہہ ہو کہ مردوں کے ساتھ ان کا بھی انجامِ بد مقدر ہے۔ وہ بھی خدا کے غضب سے بچنے والی نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنے مردوں پر جان و مال کی محبت کو غالب کردیا ہے اور انھیں بخیل و بزدل بنایا اور دین کے تقاضوں سے غافل کیا ہے تو نفاق کے اِس کھیل میں حصہ داری نبھانے کی وجہ سے یکساں طور پر وہ اللہ کی ناراضی کی مستحق ہیں۔ قرآن بڑی خوب صورتی سے پہلے منافق معاشرے کی کیفیت بیان کرتا ہے:

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰــفِقٰتُ بَعْضُھُمْ مِّنْم بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ ط نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ ط اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَo وَعَدَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْکُفَّارَ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ط ھِیَ حَسْبُھُمْ ج وَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ وَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌo (التوبہ ۹: ۶۷-۶۸)، منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی چٹّے کے بٹّے ہیں۔ یہ بُرائی کا حکم دیتے اور بھلائی سے روکتے اور ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں۔ انھوں نے اللہ کو بھلا رکھا ہے تو اللہ نے بھی انھیں نظرانداز کردیا ہے۔ یہ منافق بڑے ہی بدعہد ہیں۔ منافق مردوں، منافق عورتوں اور کفار سے اللہ نے جہنم کی آگ کا وعدہ کر رکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ان کے لیے کافی ہے اور ان پر اللہ کی لعنت اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔

اس کے بعد مومن معاشرے کی تصویر کشی کرتا ہے:

وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَـہٗ ط اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌo (التوبہ ۹: ۷۱)، اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ یہ بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں، اور نماز کا اہتمام کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں کہ اللہ ان کو اپنی رحمت سے نوازے گا، اللہ عزیزوحکیم ہے۔

اُوپر کی آیت میں مسلمان مردوں اور عورتوں کی انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی سطح پر بھی،ایک دوسرے کا ’ولی‘ قراردیا گیا ہے جس کی جمع ہے اولیا۔ ولی کے معنٰی ہیں دوست، رفیق،  دم ساز ، غم گسار اور محرم راز۔ مسلم معاشرے میں صنفی امتیاز و تفریق کی گنجایش نہیں ہوتی۔ مردوں کے حقوق و فرائض ہیں تو عورتوں کے بھی ہیں۔ امربالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی ادایگی میں دونوں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں۔ اقامت ِ صلوٰۃ اور ایتاے زکوٰۃ کا نظام دونوں مل کر قائم کرتے ہیں۔ دونوں اصناف خدا و رسولؐ کی اطاعت کے لیے پابند عہد ہیں۔ مردوں اور عورتوں کی باہم رفاقت و ولایت کے نتیجے میں معاشرہ رحمت خداوندی کا مستحق بنتا ہے۔ اس پر انعامات الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور تجلیاتِ ربانی کے فیضان سے وہ جگ مگ کرتا ہے۔طبقاتی کش مکش، صنفی تفریق، گروہی تصادم، نسلی و لسانی منافرت و مسابقت سے یہ معاشرہ کوسوں دُور ہوتا ہے۔

تکریم خواتین

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں خواتین کی تکریم و توقیر کی تعلیم دی، اُن کے ساتھ عفو و درگزر کا رویہ اپنانے کی تلقین کی اور اُن سے حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

المَرْأۃُ کَالضِّلَع اِنْ اَقَمْتَھَا کَسَرْتَھَا وَ اِنْ اسْتَمتَعتَ بِہَا استَمْتَعتَ بِھَا، وَفِیْھَا عِوَجٌ، (بخاری، الجامع الصحیح، ج۵، ص ۱۹۸۷ئ، حدیث ۴۸۸۹) عورت پسلی کی طرح ہوتی ہے۔ اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر اُسی طرح اس سے استفادہ کرنا چاہو تو استفادہ کرسکتے ہو، کیونکہ اس کے اندر ٹیڑھا پن موجود ہے۔

بعض حضرات اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ عورت پیدایشی طور پر اپنی خلقت کے اعتبار سے ٹیڑھی ہوتی ہے اس لیے وہ فروتر اور کم رُتبہ ہے۔ یہ حدیث کا غلط مطلب نکالنا ہے۔ فحواے کلام بتا رہا ہے کہ خواتین سے دھینگامشتی کرنے، ان کے ساتھ جبروتشدد کا رویہ اختیار کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ خواتین میں منفعل المزاجی، جذباتیت، اثرپذیری میں سُرعت اور وسعت زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے خواتین سے معاملہ کرتے وقت اُن کی اس فطرت کا لحاظ کرنے اور اُن کے ساتھ چشم پوشی اور رافت و رحمت کا سلوک کرنے کا حکم دیا۔ پسلی کی ہڈی ٹیڑھی ہوتی ہے اور سخت بھی۔ اگر زبردستی اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ ٹوٹ جائے گی۔ اللہ نے عورتوں کو منفرد خصوصیات اور ممتاز اوصاف سے ہمکنار کیا ہے۔ ان کی بھرپور رعایت کرنا ضروری ہے۔ ایک دوسری حدیث میں زیادہ صراحت کے ساتھ یہ مثال موجود ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَن کان یُؤمنُ بِاللّٰہِ وَالیومِ الآخِرِ فَلا یُؤْذِی جَارَہ وَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ خَیْرًا فَاِنّھن خُلِقْنَ مِن ضِلْعٍ وَ اِنَّ اَعْوَجَ شَیئٍ فیِ الضِّلَع أعلاہ، فاِن ذَھَبْتَ تُقِیُمہٗ کسرتَہٗ، وَ اِنْ ترکتَہٗ لم یزل أعوجَ فَاستَوصُوا بالنِّسآئِ خَیرًا (ایضاً، حدیث ۴۸۹۰)، جو شخص اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُس پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور سب سے اُوپر والی پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور    اگر اُسے اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی رہے گی، اس لیے عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کے بارے میں میری وصیت قبول کرو۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم بہت اہم ہے۔ اس میں خواتین کے مزاج، ان کی سرشت اور طبیعت کا بھرپور اِدراک ہے۔ اُن کی نفسیات اور طبعی خصوصیات پر بہترین روشنی اس میں ڈالی گئی ہے۔ عام طور پر مردجفاکش، طاقت ور، قوتِ مزاحمت اور قوتِ دفاع کا مالک ہوتا ہے۔ وہ بزور اپنی بات منواناچاہتا ہے۔ عورت رقیق و لطیف مزاج کی حامل ہوتی ہے۔ محبت و عقیدت اور سرفگندگی اس کی فطرت کا ناگزیر حصہ ہوتی ہے۔ مرد اپنی مردانگی کے زعم میں عورت کے لطیف جذبات کی پروا نہیں کرتا۔ وہ دھونس دھاندلی اور جبرواِکراہ سے عورت کو خاموش کرنا چاہتا ہے اور اسے مجبور کر کے اپنے مطالبات تسلیم کرواتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی کہ خواتین اپنی جبلت، خلقی فطرت اور مزاجی ساخت کی بناپر تکریم و توقیر کی زیادہ سزاوار ہیں۔اگر ان کی فطرت اور ساخت کو بزور بدلنے کی کوشش کی گئی تو وہ ٹوٹ جائیں گی۔ اُن کی صلاحیتیں ختم ہوجائیں گی اور معاشرے کی تعمیر میں اُن کا کردار صفر ہوکر رہ جائے گا۔ اُن کی قابلیت اور صلاحیت سے فائدہ اُٹھانا ہے اور بہتر سماج کی تشکیل میں ان کی حصہ داری کو یقینی بنانا ہے تو اُن کے مزاج، طبعی ساخت اور صنفی خصوصیات کی بھرپور رعایت رکھو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت بھی کردی کہ میں اُن کے ساتھ ہرحال میں حُسنِ سلوک کرنے اور بھلائی کا معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہوں۔ اگر تمھیں اپنی خواتین کے اندر کوئی کجی، ضد اور انانیت کی کوئی رمق نظر آئے تو اشتعال انگیزی اور پُرتشدد کارروائی سے بچو۔ محبت، عفوودرگزر اور حُسنِ سلوک سے انھیں اپنانے اور اُن کا دل جیتنے کی کوشش کرو کیونکہ اگر اُن کا شیشۂ دل ٹوٹ گیا تو خاندان ٹوٹ جائے گا، سماج   بکھر جائے گا اور انسانیت ختم ہوجائے گی۔

ماں کی حیثیت میں عورت سب سے زیادہ مکرم اور واجب الاحترام ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے:

قال جاء رجلٌ اِلی رسولِ اللّٰہ فقال یارسول اللّٰہ، مَنْ اَحَقَّ النَّاس بحُسْن صَحابَتِیْ ، قال: امک، قال ثم من؟ قال: ثم امک، قال: ثم من؟ قال: ثم امک، قال ثم من؟ قال: ثم أبوک(بخاری، الجامع الصحیح، ج۵، ص۲۲۲۷، حدیث ۵۶۲۶)، ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکر سوال کیا:    اے اللہ کے رسولؐ! میرے حُسنِ سلوک کا سب زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ اُس نے پوچھا: اس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے تیسری بار سوال کیا: اُس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ پھر پوچھا: اُس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیرا باپ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت ِ جگر حضرت فاطمہؓ کے بارے میں تکریم کے جو الفاظ استعمال کیے، اُن سے دنیا کی تمام بیٹیوں کی قدرومنزلت متعین ہوگئی کیونکہ حضرت فاطمہؓ تمام دخترانِ انسانیت کے لیے اسوہ اور نمونہ تھیں۔ آپؐ نے فرمایا:

فاِنّ ابنتی بَضْعَۃ منّی یریبنی مارابھا ویؤذینی ما ازاھَا (ترمذی، السنن، ابواب المناقب، باب ماجاء فی فضل فاطمۃؓ)،میری بچی میرا ہی گوشت پوست ہے۔ جو بات اس کے لیے موجب ِ تشویش ہوگی وہ میری تشویش کا ذریعہ ہوگی اور جو چیز اس کے لیے باعث ِ اذیت ہوگی اُس سے یقینا مجھے بھی تکلیف پہنچے گی۔

بیوی کے ساتھ حُسنِ سلوک اور اس کی نازبرداری اسلام کی تعلیم ہے یہاں تک کہ خالص مذہبی معاملات میں اس کے جذبات کی رعایت کی تلقین ہے۔ نوافل کی ادایگی سے زیادہ ضروری ہے بیوی سے پیارومحبت کی باتیں کرنا۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے:

جآء رجل الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: یارسول اللّٰہ، انی کتبت فی غزوۃ کذا وکذا وامرأتی حاجّۃ؟ قال: ارجع فحج مع امراتک(بخاری، الجامع الصحیح، ج۳،ص ۱۱۱۴، حدیث ۲۸۹۶) ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے سوال کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے، جب کہ میری بیوی حج کرنے جارہی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تم واپس جائو اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہی نہیں ، تمام خواتین کی   تعظیم و تکریم کی نصیحت کی۔ مشہور فرمانِ نبویؐ ہے:

حُبِّبَ اِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسآئُ وَالطِّیبُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِی فیِ الصَّلٰوۃِ (نسائی، السنن، کتاب عشرۃ النسآئ، باب حب النسآئ) دنیاوی چیزوں میں میرے لیے محبوب بنا دی گئی ہیں خواتین اور خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے نماز میں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے وجود کو پسندیدہ اور محبوب قرار دیا بالکل خوشبو کی طرح۔ کیونکہ عورتوں کا وجود ہی تصویر کائنات میں رنگ بھرتا اور اُسی کے ساز سے سوزِدروں قائم رہ سکتا ہے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہونے کا اعلان کر کے اللہ کے رسولؐ نے قلبی سکون و اطمینان کا مخزن بتا دیا کہ ذکرالٰہی سے ہی حقیقی مسرت اور شادمانی حاصل ہوتی ہے۔ اِن تینوں چیزوں کا حدیث میں حسین اجتماع اشارہ کرتا ہے اسلامی تہذیب و ثقافت کے عناصر تشکیلی کی طرف۔ علامہ اقبال ؒ نے کتنی خوب صورت ترجمانی کی ہے:

وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اُسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت ِ خاک اُس کی

کہ ہر شرف ہے اِسی دُرج کا دُرِّمکنوں

مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی ، لیکن

اُسی کے بطن سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں

 

حواشی

۱-            اصلاحی، امین احسن، تدبرقرآن، ج ۲، مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، بار دوم، رمضان المبارک ۱۳۹۶ھ/ستمبر ۱۹۷۶ئ، ص ۶۳-۶۴۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے سیّد قطب شہید (۱۹۰۶ئ-۱۹۶۶ئ) کہتے ہیں کہ ’’مرد کی قوامیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ گھر میں اور انسانی سماج میں عورت کی شخصیت اور اس کی تمدنی حیثیت کو ختم کردیا گیا ہے۔ یہ تو خاندان کے اندرون کا مسئلہ ہے کہ کس طرح اس ادارے کا صحیح طور پر نظم اور اس کی حفاظت و صیانت ہو۔ کسی ادارے کے لیے منتظم کے وجود کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ اس میں شریک افراد یا اس کی ذمہ داریوں کو بجا لانے والے نفوس کے وجود، اُن کی شخصیت اور اُن کے حقوق کو ساقط کردیا گیا ہے۔ فی ظلال القرآن، اُردو ترجمہ، سیّد حامد علی، ہندستان پبلی کیشنز، دہلی، ۲۰۰۷ئ، جلد سوم، ص ۲۶۴

۲-            واقعے کی یہ تفصیل مولانا اصلاحی نے تمام روایات کی تحقیق کے بعد فراہم کی ہے۔ اُن کو اس طولِ بیان کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ مستشرقین نے اس واقعے کو اپنی رنگ آمیزیوں سے نہایت مکروہ بنادیا ہے اور صدمے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اس رنگ آمیزی کے لیے سارا مواد ہماری تفسیر وسیرت کی کتابوں ہی سے لیا ہے۔ (تدبرقرآن، ج۵، ص ۲۲۵-۲۲۷)

اسلام نے فرد کو فکرونظر کی پوری آزادی عطا کی۔ اس نے انسان کو جبری غلامی،     معاشی استحصال، سیاسی جبر اور مذہبی اکراہ کی بندشوں سے پوری طرح آزاد کیا۔ آج جدید دور میں فکری آزادی کا سہرا فرانسیسی مفکر و فلسفی جان جاک روسو (۱۷۷۸ئ-۱۷۱۲ئ) کے سر باندھا جاتا ہے، جس نے کہا تھا: انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر آج وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ درحقیقت یہ اُس فرمان کی صداے بازگشت ہے، جو امیرالمومنین حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے گورنر مصر حضرت عمرو بن العاصؓ کو تنبیہہ کرتے ہوئے جاری کیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایاتھا: ’’تم نے   کب سے لوگوں کو غلام بنانا شروع کر دیا حالانکہ اُن کی مائوں نے انھیں آزاد جنا تھا؟‘‘

اسلام نے آزادیِ ضمیر کی خاطر انسان کے شعور احساس کو بیدار کیا اور قانون سازی کے ذریعے خارجی حالات کو بھی سازگار بنایا۔ اللہ پر ایمان، اُمت مسلمہ کی وحدت، افراد کے اندر   ذمہ داریوں کے اشتراک کا تصور، ساری انسانیت کی وحدت اوراس میں باہمی کفالت کا اصول،  یہ وہ بنیادی قدریں ہیں جن پر زور دے کر اسلام کامل آزادیِ ضمیر کا نعرہ بلند کرتا ہے۔

عقیدۂ توحید کے ذریعے قرآن انسانی ضمیر کو غیراللہ کی عبادت و اطاعت سے آزاد کرتا ہے۔ وہ اس فکر کو ذہن نشین کراتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو انسان پر اقتدار حاصل نہیں ہے۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو اسے مارتا جِلاتا ہو۔ کوئی دوسرا نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ اس کائنات میں بس وہی ایک ہستی ہے جو رزق عطا کرتی ہے اس کے سوا سب اس کے بندے ہیں مجبور اور بے بس۔

اسلام نے نبیوں کو بھی یہ حق نہیں دیا کہ ان کی پرستش کی جائے یا اُن کے تئیں مراسمِ عبودیت بجا لائے جائیں۔ اللہ رب العزت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی پوزیشن   خلقِ خدا کے سامنے واضح کردیں اور اپنا درست موقف علانیہ پیش کر دیں:

اے نبیؐ! کہو کہ میں تو اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ کہو میں تم لوگوں کے لیے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کا۔ کہو مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی بچا نہیں سکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سوا کوئی جاے پناہ پاسکتا ہوں۔ (الجن ۷۲:۲۰-۲۲)

قرآن ہر طرح کے تقدس اور اُلوہیت پر ضربِ کاری لگاتا ہے تاکہ انسان شرک سے پوری طرح محفوظ رہے۔ شرک کا عقیدہ انسان کے ضمیر کو کچل دیتا اور اس کے وجدان کو دبا دیتا ہے اور آخرکار اسے اللہ کے بندوں ہی میں سے کسی کا بندہ بناکر رکھ دیتا ہے۔ اسلام کا پورا زور اس بات پر ہے کہ بندے اور اللہ کے درمیان براہِ راست تعلق مستحکم ہو۔

انسانی ضمیر بندوں کی غلامی سے آزاد ہوکر اور خدا سے براہِ راست رابطہ قائم کر کے، ہرقسم کے اندیشوں، خطرات، وسوسوں سے بلند ہوجاتا ہے۔ جان و مال اور شرف و کرامت کو لاحق خطرے انسان کی خودداری اوراس کی عزتِ نفس کو مجروح کر دیتے ہیں، اِسے ذلت کو انگیز کرنے اور اپنے جائز حقوق سے دست بردار ہوجانے پر مجبور کردیتے ہیں اور رفتہ رفتہ اس کی انسانیت کو بھی چھین لیتے ہیں۔ اسلام ہرقیمت پر عزتِ نفس اور خودداری کی حفاظت کرنے کی تلقین کرتا ہے اور انسانوں کے عزوشرف کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ وہ یہ عقیدہ انسان کے ذہن نشین کرتا ہے کہ زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے۔

تاریخ کی شھادت

اسلام کی اِن تعلیمات اور اقدار کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ نمودار ہوا جس کا ہر فرد آزادیِ ضمیر کا نمونہ تھا۔ کیا حکمراں، کیا رعایا، سب خوددار، عزتِ نفس سے مالا مال، اظہارِ حق     میں جری و بے باک تھے۔ انھیں کوئی لالچ یا خوف بزدل نہیں بناسکتا تھا۔ امام ابویوسف نے   کتاب الخراج میں حضرت عمر فاروقؓ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے:

  • حضرت عمرؓ نے اپنے گورنروں کو فرمان بھیجا کہ وہ حج کے موقع پر مکّہ میں اُن سے آکر ملیں۔ جب سب جمع ہوگئے تو حضرت عمرؓ نے تقریر کی: ’’لوگو! میں ان عُمَّال کو اس لیے مقرر کرتا ہوں کہ راست رَوی کے ساتھ تمھاری سرپرستی اور حفاظت کریں۔ میں نے انھیں اس لیے ہرگز مقرر نہیں کیا ہے کہ تمھاری جان و مال اور عزت و آبرو پر دست درازی کریں۔ لہٰذا اگر تم میں سے کسی کو کسی عامل کے خلاف ظلم و زیادتی کی شکایت ہو تو کھڑا ہو جائے‘‘۔

لوگوں کے درمیان سے ایک شخص آگے نکل کر آیا اور اس نے کہا: امیرالمومنین! آپ کے گورنر نے مجھے ناحق ۱۰۰ کوڑے مارے ہیں۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: کیا تم اسے ۱۰۰ کوڑے مارنا چاہتے ہو؟ آئو اور اس سے انتقام لو۔

اس پر حضرت عمرو بن العاصؓ کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے احتجاج کیا: امیرالمومنین! اگر آپ نے اپنے گورنروں کے ساتھ یہ عمل شروع کر دیا تو انھیں سخت گراں گزرے گا۔ یہ ایک مستقل طریقہ بن جائے گا جس پر آپ کے بعد بھی لوگ عمل کریں گے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: پھر کیا میں اِس آدمی کو بدلہ نہ دلوائوں، جب کہ میں نے اللہ کے رسولؐ کو خود اپنی ذات سے بدلہ دلواتے دیکھا ہے۔ پھر اُس آدمی کو خطاب کر کے حکم دیا: آئو اور اس گورنر سے بدلہ لو۔ عمرو بن العاصؓ نے درخواست کی کہ ہمیں اجازت دیجیے کہ اس آدمی کو راضی کرلیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا: تمھیں اجازت ہے۔ ان لوگوں نے مظلوم کو ۲۰۰ دینار کے بدلے میں راضی کرلیا۔

  • حضرت عمرؓ ہی کا دوسرا واقعہ ہے۔ آپ مسجد میں خطاب فرما رہے تھے۔ دورانِ تقریر آپ نے فرمایا کہ لوگو، اگر میرے اندر کوئی کجی دیکھو تو مجھے سیدھا کردینا۔ نمازیوں کے درمیان سے ایک شخص کھڑا ہوا، اس نے کہا: عمر! اگر ہم نے تیرے اندر کوئی کجی دیکھی تو اپنی تلوار کی دھار سے تجھے سیدھا کردیںگے۔ حضرت عمرؓ نے صرف اتنا فرمایا: اللہ کا شکر ہے جس نے عمر کی رعایا میں ایسے افراد بھی پیدا کیے ہیں جو اُسے اپنی تلوار کی دھار سے سیدھا کرسکتے ہیں۔
  • عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور (م ۱۵۸ھ/۱۷۷۵ئ) کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مشہور محدث سفیان ثوریؒ اس کے دربار میں جاکر اسے نصیحت کرتے ہیں: امیرالمومنین! آپ نے اللہ اور اُمت محمدیہ کا مال اُن کی مرضی و اجازت کے بغیر خرچ کیا ہے۔ آپ اس کی کیا توجیہہ کرسکتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے ایک بار حج کیا جس میں اُن پر اور ان کے ساتھیوں پر ۱۶ دینار خرچ ہوئے۔ انھوں نے محاسبہ کیا اور فرمایا: میرا خیال ہے کہ ہم نے بیت المال پر زیادہ بار ڈال دیا ہے۔ امیرالمومنین! آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ منصور ابن عمار نے ہم کو کیا حدیث سنائی ہے کیونکہ آپ اس مجلس میں موجود تھے اور سب سے پہلے آپ ہی نے اسے قلم بند کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اور اس کے رسول کے مال میں اپنی خواہش کے مطابق تصرفات کرنے والے کچھ لوگ ہیں جن کے لیے کل کو نارِ جہنم مقدر ہے‘‘۔

یہ سن کر ابوعبید نامی ایک کاتب جو خلیفہ کا مقرب خاص تھا، بول اُٹھا: امیرالمومنین سے اس انداز میں گفتگو؟ سفیان ثوری نے ڈانٹ کر کہا: ’’خاموش، فرعون نے ہامان کو ہلاک کیا اور ہامان نے فرعون کو‘‘۔ اور پھر سفیان ثوری غصے میں اُٹھ کر باہر چلے آئے۔

جابر بادشاہ کتنا ہی خودمختار ہو، کسی ایسے شخص پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا جو دنیا اور متاعِ دنیا کو اپنی ٹھوکروں میں رکھتا ہو اور ضروریات سے بلند ہوکر اللہ کے لیے فارغ ہو۔

مذھبی جبر کی مخالفت

بلاشبہہ اسلام اللہ کا بھیجا ہوا آخری دین ہے جو انسانوں کے تمام مسائل کا حل پیش کرتاہے۔ یہ وہی دین ہے جسے تاریخِ انسانی کے ہر دور میں مختلف انبیا مختلف قوموں اور تہذیبوں میں انسانوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے پیش کرتے رہے۔ ان شریعتوں کو ماننے والوں کے درمیان قوانین میں اختلاف ہوا کہ ہردور کے حالات اور تقاضے مختلف تھے، مگر دین اپنی روح کے اعتبار سے اور اپنی مجموعی حیثیت میں ایک ہی رہا۔ اُسی دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے حضرت آدم ؑ تشریف لائے۔ حضرت نوحؑ مبعوث ہوئے۔ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑغرض یہ کہ سارے نبی ایک ایک کرکے اپنی قوم میں آتے رہے اور وحدانیت کا پیغام دیتے رہے۔

سورئہ مائدہ میں قرآن کی دو صفات بیان ہوئی ہیں: یہ کتاب تصدیق کرنے والی ہے اُن تعلیمات کی جو اس سے پہلے الکتاب میں سے موجود ہیں، اور اس کی محافظ اور نگہبان ہے۔ (۵:۴۸)

قرآن پچھلی آسمانی کتابوں کی تصدیق بھی کرتا ہے اور جو تحریفات اور تبدیلیاں اُن کے پیروکاروں نے ان کے اندر کر دی تھیں اُن کی نشان دہی کرتا اور اُن سے نوعِ انسانی کو بچاتا ہے۔ مگر قرآن کا امتیاز یہ ہے کہ وہ کسی شخص پر اپنے عقیدے کو مسلط نہیں کرتا۔ وہ افہام و تفہیم اور تعلیم و تلقین کا قائل ہے اور جبر و اِکراہ، تشدد اور دھونس دھاندلی کو بالکل مسترد کردیتا ہے۔ اپنی صداقت اور حقانیت پر پوری طرح مطمئن ہونے کے باوجود وہ اعلان کرتا ہے کہ: ’’دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۵۶)

اسلام نے دنیا میں پہلی بار ہرشخص کو یہ آزادی عطا کی کہ کفروایمان میں سے جو راہ وہ چاہے اختیار کرے۔ مکہ کے ۱۳ سالہ دور میں مسلمانوں نے ہر ظلم و جبر کو برداشت کیا، اِسی مذہبی آزادی کے حق کو حاصل کرنے کے لیے اور بالآخر یہ حق حاصل ہوکر رہا۔ مسلمانوں نے یہ حق جس طرح اپنے لیے حاصل کیا، اسی طرح دوسروں کے لیے بھی اس کا پورا پورا اعتراف کیا۔

وسق رومی کا واقعہ

یہاں خلیفۂ ثانی حضرت عمرؓ کے دور کا ایک واقعہ نقل کرنا مفید ہوگا۔ یہ واقعہ اُس شخص کا ہے جو دنیا کی ایک بہت بڑی مملکت کا سربراہ تھا۔ جس کے جلال و جبروت کا یہ عالم تھا کہ روم و فارس کی دوعظیم طاقتیں اس کے ذکر سے لرزتی تھیں۔ ملوک و سلاطین اس کے سامنے ہانپتے کانپتے حاضر ہوتے تھے، مگر وہ مقتدر اور باجبروت شخص اپنے غلام کا مذہب اپنی مرضی کے مطابق تبدیل نہ کرسکا۔ علامہ ابوبکر جصاص احکام القرآن میں اس واقعے کو بیان کرتے ہیں: ہلال الکائی روایت کرتے ہیں وسق الرومی سے، وہ بیان کرتے ہیں کہ: میں عمرؓ کا غلام تھا۔ انھوں نے مجھ سے فہمایش کی کہ اسلام قبول کرلے۔ اگر تو مسلمان ہوجائے تو مسلمانوں کی امانت کے سلسلے میں تو میرا مددگار ہوجائے گا، کیونکہ جو شخص مسلمان نہ ہو اُس سے یہ کام لینا مناسب نہیں ہے۔ مگر میں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے فرمایا: لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے)۔ جب آپ کا وقتِ مرگ قریب آیا تو آپ نے مجھے آزاد کر دیا اور فرمایا: ’’تیرا جہاں جی چاہے چلا جا‘‘۔

اسلام کے نظریۂ رواداری کی بہترین ترجمانی قرآن پاک کی یہ آیت کرتی ہے:

لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُمِنَ الْغَیِّ (البقرہ ۲:۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔

یہاں دین سے مراد وہ عقیدہ ہے جس کی بنیاد خالصتاً توحید پر رکھی گئی ہے اور وہ نظامِ زندگی ہے جو اس عقیدے پر بنتا ہے۔ اللہ کا واضح فرمان ہے کہ اسلام کا یہ عقیدہ اور اس کا اعتقادی، اخلاقی اور عملی نظام کسی پر زبردستی نہیں ٹھونسا جاسکتا۔ یہ ایسی چیز ہی نہیں ہے جو کسی کے سر جبراً منڈھی جاسکے۔

قرآن کی وسیع المشربی

عقیدہ و مذہب کی آزادی، دوسرے مذاب، تہذیبوں اور روایات کے تئیں وسیع المشربی و رواداری اسلام کی ایک اہم ترین قدر ہے جس پر قرآن کریم نے مختلف انداز میں اور متنوع پیرایے میں زور دیا ہے۔ قرآن اعلان کرتا ہے:

ہم نے تم انسانوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی ہے۔ اگر تمھارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک اُمت بھی بنا سکتا تھا، لیکن اُس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اُس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمھاری آزمایش کرے۔(المائدہ ۵:۴۸)

ہر اُمت کے لیے ہم نے ایک طریق عبادت مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے، پس اے نبیؐ، وہ اِس معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کریں تم اپنے رب کی طرف دعوت دو۔(الحج ۲۲:۶۷)

قرآن کریم نے یہ صراحت بھی کر دی کہ اگر اللہ کی خواہش یہ ہوتی کہ اس کی زمین میں کفرونافرمانی کا سرے سے وجود ہی نہ ہو تو اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ تکوینی جبر سے کام لے کر سب کو صاحب ِ ایمان بنا دے۔ مگر وہ ایمان لانے یا نہ لانے کے معاملے میں سارے انسانوں کو آزاد رکھنا چاہتا ہے اور اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے اللہ نے وضاحت فرما دی کہ نبی کی ذمہ داری کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کی نہیں ہے اور نہ اللہ کو جبری ایمان مطلوب ہے۔ فرمایا:

اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں؟(یونس ۱۰:۹۹)

اسلام نے صرف نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے ہی کو واجب قرار نہیں دیا، بلکہ ایک مسلمان کے لیے لازم قرار دیا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے تمام نبیوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور ان کی صداقت و حقانیت کو تسلیم کرے اور اُن کے درمیان اس لحاظ سے کوئی تفریق نہ کرے کہ فلاں نبی حق پر تھا اور فلاں حق پر نہ تھا، یا یہ کہ وہ فلاں کو مانتا ہے اور فلاں کو نہیں مانتا۔ خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر بھی آئے، سب کے سب ایک ہی صداقت اور ایک ہی راہِ راست کی طرف بلانے آئے۔ اب جو شخص حق پرست ہے اُس کے لیے تمام پیغمبروں کو برحق تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ جو لوگ کسی پیغمبر کو مانتے اور کسی کا انکار کرتے ہیں وہ حقیقت میں کسی پیغمبر کو نہیں مانتے۔ انھوں نے اُس عالم گیر صراطِ مستقیم کو نہیں پایا جسے حضرت موسٰی ؑیا حضرت عیسٰی ؑ یا کسی دوسرے پیغمبرؐ نے پیش کیا تھا، بلکہ وہ محض باپ دادا کی تقلید میں ایک پیغمبر کو مان رہے ہیں۔ اُن کا اصل مذہب نسل پرستی کا تعصب اور آبا و اجداد کی اندھی تقلید ہے، نہ کہ کسی پیغمبر کی پیروی۔ قرآن کہتا ہے:

مسلمانو! کہو کہ ’’ہم ایمان لائے اللہ پر اور اُس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیم ؑ، اسماعیل ؑ، اسحق ؑ، یعقوب ؑ اور اولادِ یعقوب ؑ کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسٰی ؑاور عیسٰی ؑ اور دوسرے تمام پیغمبروں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئی تھی۔ ہم اُن کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مسلم ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۳۶)

قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے مسلمانوں کے ذہن میں اس تعلیم کو راسخ کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس دنیا میں داعی اور مبلّغ بنا کر بھیجے گئے ہیں اور کوتوال اور داروغہ بناکر نہیں بھیجے گئے۔ اُن کا کام لوگوں کو روشنی دکھانا ہے زبردستی ہاتھ پکڑ کر خواہی نخواہی کسی کو راہِ راست پر لانا اُن کا مشن نہیں ہے:

اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو (وہ خود ایسا بندوبست کرسکتا تھا کہ) یہ لوگ شرک نہ کرتے۔ تم کو ہم نے ان پر پاسبان نہیں مقرر کیا ہے اور نہ تم ان پر حوالہ دار ہو۔ اور (اے مسلمانو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انھیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کوگالیاں دینے لگیں۔ ہم نے تو اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوش نما بنا دیا ہے۔ پھر انھیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت وہ انھیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔(الانعام ۶:۱۰۷-۱۰۸)

رواداری کی نبویؐ مثال

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ، خلفاے راشدین کا عہدمسعود اور تاریخِ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں، حتیٰ کہ دشمنوں سے بھی رواداری کا سلوک کیا گیا اور یہی اسلامی رواداری، تبلیغ و دعوتِ دین کا اہم عنصر بن گئی۔

مسلم کی حدیث ہے اور امام بخاری نے بھی انھی الفاظ اور اسی مفہوم کے ساتھ ذرا مختصراً اسے بیان کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا۔ اہلِ لشکر بنوحنیفہ کے ایک شخص کو جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا اور جو اہلِ یمامہ کا سردار تھا، پکڑ کر لائے۔ لشکروالوں نے اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُدھر سے گزر ہوا تو اس سے پوچھا: تیرے پاس کیا ہے؟ ثمامہ نے جواب دیا: اے محمدؐ، میرے پاس بھلائی ہے۔ اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جو قتل کیے جانے کا مستحق ہے، اور اگر انعام کریں گے تو ایک ایسے شخص پر انعام کریں گے جو شکرگزاری جانتا ہے، اور اگر آپ مال کے طلب گار ہیں تو حکم دیجیے جو کچھ مانگیں آپ کو ملے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی حالت میں چھوڑ دیا اور آگے بڑھ گئے۔

دوسرا دن آیا تو آپؐ نے پھر وہی سوال کیا: اے ثمامہ! تیرے پاس کیا ہے؟

ثمامہ نے کہا: وہی جو میں کہہ چکا ہوں۔ اگر آپ انعام کریں گے تو ایک شکرگزار شخص پر انعام کریں گے، اور اگر قتل کا حکم دیںگے تو میں مستحقِ قتل ہوں، اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جو حکم ہوگا ادا کیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کوئی کارروائی نہ کی اور آگے بڑھ گئے۔ تیسرا دن آیا تو پھر یہی مکالمہ دہرایا گیا۔ آخرکار رسولؐ اللہ نے اہلِ لشکر سے کہا: ثمامہ کو چھوڑ دو۔

رہائی کے بعد ثمامہ مسجد کے قریب ایک کھجور کے درخت کے پاس گیا۔ وہاں اس نے غسل کیا۔ پھر مسجد میں داخل ہوا اور اعلان کیا: اَشْھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں‘‘۔

پھر ثمامہ نے رسولؐ اللہ کو مخاطب کر کے کہا: اے محمدؐ! خدا کی قسم! اس زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ قابلِ نفرت نہ تھا اور اب آپ کا چہرہ دنیا کے تمام چہروں سے زیادہ مجھے محبوب ہے۔ خدا کی قسم! آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین بھی میرے لیے قابلِ نفرت نہ تھا اور اب آپ کا دین دنیا کے تمام ادیان سے زیادہ میرے لیے محبوب ہے۔ خدا کی قسم! آپ کے شہر سے زیادہ کوئی شہر بھی میرے لیے نفرت انگیز نہیں تھا، اور اب آپ کا شہر دنیا کے تمام شہروں سے زیادہ مجھے محبوب ہے۔ آپ کے لشکر نے مجھے اس حالت میں آلیا کہ میں عمرہ کا ارادہ کر رہا تھا۔ اب آپؐ  کا کیا حکم ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے اسے خوش خبری دی اور اجازت دی کہ وہ عمرہ کرلے۔ جب وہ مکہ واپس آیا تو اس کے مشرک ساتھیوں نے کہا: کیا تو صابی (بے دین) ہوگیا ہے؟ اس نے جواب دیا: نہیں، بلکہ میں رسولؐ اللہ پر ایمان لے آیا اور مسلمان ہوگیا ہوں۔

امن و سلامتی کا قیام

اسلام کے تصورِ امن پر گفتگو کے لیے ناگزیر ہے کہ قرآن کریم کی اُن آیات پر پہلے بحث کی جائے جو جنگ و جدال کو موضوع بناتی ہیں اور جنھیں مغربی مصنفین نے آیاتِ سیف (sword verses) کا نام دیا ہے۔ اِن آیات میں سے بہترین انتخاب سورئہ انفال کی ۵۵ تا ۶۱ آیتیں ہیں کیونکہ یہ موضوع کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہیں:

یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنھوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا، پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تو نے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے۔ پس یہ لوگ اگر تمھیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لو کہ ان کے بعد دوسرے جو لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں اُن کے حواس باختہ ہوجائیں۔ توقع ہے کہ بدعہدوں کے اس انجام سے وہ سبق لیں گے۔ اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔ منکرین حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے۔ یقینا وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے دشمنوں کو خوف زدہ کردو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔ اور اے نبیؐ! اگر دشمن صلح وسلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجائو اور اللہ پر بھروسا کرو۔ یقینا وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ (انفال ۸:۵۵-۶۱)

علما نے صراحت کی ہے کہ قرآن میں جہاں قتال و جہاد کا حکم دیا گیا ہے اور مخالفوں کو سختی سے کچلنے کی تاکید کی گئی ہے: اس سے مراد وہ کفار و مشرکین ہیں جنھوں نے آغازِ اسلام سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ  پر ایمان لانے والے صحابہ کرامؓ کی بھرپور مخالفت کی۔ انھیں مکہ میں تمام بنیادی حقوق سے محروم رکھا اور اپنی ریشہ دوانیوں سے اسلام کو کچلنے کی سازش کی۔ اپنے مسلسل ظالمانہ اقدامات سے مسلمانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ ۶۱۵ئ-۶۱۶ء میں حبشہ کی طرف ہجرت کریں اور ۶۲۲ء میں اپنا وطن ترک کر کے مستقل طور سے مدینہ منورہ کو اپنا مستقر بنائیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو ایک اندازے کے مطابق ۹۰ جنگی مہموں میں پھنسایا جن میں سے ۲۷ جنگوں کی قیادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خود کرنا پڑی۔ اگرچہ ان جنگی مہموں میں دشمنوں کے کُل ۲۱۶ افراد مارے گئے اور ۱۳۸مسلمان شہید ہوئے۔ اعلانِ جنگ کی یہ مسلسل کیفیت کفار و مشرکین کی جانب سے تھوپی ہوئی تھی اور مسلمانوں کو اپنے دفاع پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود مکّہ کے ۱۳ سالہ دور میں انھیں سخت تاکید تھی کہ ظلم کے جواب میں ہتھیار نہ اُٹھائیں:

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَھُمْ کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ (النساء ۴:۷۷) تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔

اور دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت اور تفہیم و تلقین کے راستوں سے اس قرآن کے ذریعے جہاد کریں:

فَلاَ تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًاo (الفرقان ۲۵:۵۲)     اے نبیؐ! کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو۔

ہجرتِ مدینہ کے بعد جب اسلامی ریاست قائم ہوگئی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو میثاقِ مدینہ کے مطابق اُس ریاست کا بلانزاع حاکمِ مطلق اور مقتدرِ اعلیٰ تسلیم کر لیا گیا تب ذی الحجہ یکم ہجری میں انھیں ظلم کے جواب میں مدافعانہ جہاد کی اجازت مل سکی:

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا  وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْر (الحج ۲۲:۳۹) اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینا اُن کی مدد پر قادر ہے۔

سورئہ انفال کی آیات ۵۵-۶۱ میں جن منکرین حق کے خلاف اعلانِ جنگ کیا گیا ہے اور انھیں سبق سکھانے کا حکم دیا گیا ہے اُن سے مراد مفسرین کرام کی تصریحات کے مطابق یہودِ مدینہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف آوری کے بعد سب سے پہلے اُنھی کے ساتھ باہمی تعاون کا معاہدہ کیا تھا اور یہ کوشش کی تھی کہ ان سے تعلقات خوش گوار رہیں۔ دینی و مذہبی حیثیت سے ویسے بھی یہودی اور عیسائی مشرکین کے مقابلے میں قابلِ ترجیح قرار دیے گئے تھے مگر مدینہ کے یہودیوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک اور مشن کو کبھی کھلے دل سے قبول نہ کیا اور انھوں نے اسلام کے بڑھتے ہوئے اثرات و نتائج کو روکنے کے لیے ہمیشہ خفیہ وعلانیہ سازشیں کیں۔ منافقوں کے ساتھ مل کر اہلِ ایمان کے خلاف سازباز کی۔ اوس و خزرج کے انصاری قبیلوں کے درمیان پرانی عداوتوں کو ہوا دی۔ جنگ ِ بدر کے بعد جب مسلمانوں کی پوزیشن مزید مضبوط ہوگئی تو اُن کے سینوں میں حسد کی جو آگ پہلے سے موجود تھی وہ بھڑک اُٹھی۔ یہودیوں کا لیڈر کعب بن اشرف خود مکّہ گیا اور اس نے اشتعال انگیز مرثیے کہہ کر قریش کے جذبۂ انتقام کو ہوا دی اور آخر میں   قبیلۂ بنوقینقاع نے مسلمان خواتین سے اپنی بستیوں اور بازاروں میں چھیڑچھاڑ کرنا شروع کر دیا اور جب انھیں لعنت ملامت کی گئی تو انھوں نے جنگ کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ ایسے بدعہد اور سازشی دشمنوں کے خلاف اسلامی حکومت کو کارروائی کرنے اور میدانِ جنگ میں انھیں سزا دینے کا فیصلہ ہوا۔

غیرمسلموں کے ساتھ حُسنِ سلوک

مجرد کفر اور شرک کسی کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ کسی شخص کے خلاف پُرتشدد کارروائی اور طاقت کا استعمال اِس بنا پر نہیں کیا جاسکتا کہ وہ مسلمان نہیں ہے اور کفروشرک پر اُس کا اعتقاد ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں اس پر علماے کرام، محدثین اور فقہا کا اتفاق رہا ہے۔ اسی طرح کسی شخص کو بزور یا طاقت کے استعمال سے دین اسلام میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ قرآن تو یہاں تک کہتا ہے کہ جو غیرمسلم اہلِ ایمان کے ساتھ عداوت نہیں رکھتا اور اُن پر ظلم کرنے والوں میں وہ شامل نہیں ہے اُس کے ساتھ اچھا برتائو کیا جائے، اور عام انسانی حقوق کی ادایگی کے معاملے میں مسلمان اور غیرمسلم میں فرق نہ کیا جائے۔ ایسے لوگ مسلمانوں کے حسنِ سلوک کے مستحق ہیں:

اللہ تمھیں اِس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔(الممتحنہ ۶۰:۸)

محبّتوں کی بستی

اسلام افراد کے ضمیر میں، خاندانی نظام میں، ملکی قانون میں، بین الاقوامی تعلقات و روابط میں، ہر جگہ زندگی کے ہر شعبے میں امن و سلامتی اور محبت و اخوت کے پھول کھلانا چاہتا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے باہمی معاملات کی استواری اور ان کے درمیان اُلفت اور بھائی چارے کے فروغ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا: ’’تم دیکھو گے کہ مسلمانوں کے درمیان محبت، ایک دوسرے پر رحم اور شفقت کی مثال ایک جسم کی مانند ہے۔ جب اس کے کسی حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘۔ (بخاری، کتاب الادب، حدیث ۲۷)

رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’اے مسلمانو! ایک دوسرے سے بُغض نہ رکھو، آپس میں حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو۔ اے اللہ کے بندو، بھائی بھائی بن کررہو‘‘۔ (بخاری)

اللہ اپنی صفت رحمن، رحیم، سلام، مومن اور مہیمن بتاتا ہے اور بار بار قرآن کریم میں تکرار کے ساتھ ان اسماے حسنیٰ کا تذکرہ کرتا ہے تاکہ اس کے بندوں میں اس کا عکس دکھائی دے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ اپنے اس احسانِ خصوصی کا ذکر کرتا ہے کہ وہ رحیم، نرم خو، شفیق اور مہربان ہیں:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ( اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹) اے پیغمبرؐ! یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تُندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔

لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o (التوبہ ۹:۱۲۸) دیکھو، تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمھارا نقصان میں پڑنا اُس پر شاق ہے، تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔

یہ رحمت و مہربانی اور شفقت صرف اہلِ اسلام کے لیے مطلوب نہیں ہے،اس کے مخاطب سارے انسان ہیں خواہ وہ کسی مذہب کے ماننے والے ہوں اور کسی بھی ملک کے باشندے ہوں۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: ’’زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘۔ (ترمذی)

دیگر مذاھب کا احترام

کسی انسان کے اندر رحمت و شفقت اور مہربانی کے جذبات کو اُبھارنے کی اِس سے آخری حد کیا ہوسکتی ہے؟ یہ کارنامہ اُسی عقیدہ کا ہوسکتا ہے جو خالق کی وحدانیت اور مخلوق کی وحدت پر ایمان رکھتا ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے اعلان فرمایا ہے: ’’ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا خاندان ہے۔ تمام لوگوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اُس کے خاندان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے‘‘۔ (رواہ ابویعلٰی، والبزاز باسناد ضعیف)

حضرت جابر عبداللہؓ کہتے ہیں کہ ہمارے قریب سے ایک جنازہ گزرا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور ہم بھی کھڑے ہوگئے۔ پھر ہم نے گزارش کی: یارسولؐ اللہ! یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا۔ حضوؐر نے ارشاد فرمایا: کیا یہ ایک انسانی جان نہ تھی؟ جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجائو۔ (بخاری)

حقوقِ نسواں کا تحفظ

قرآن کریم نے چھٹی صدی عیسوی میں مرد اور عورت کے درمیان فرق و امتیاز کو ختم کر کے انھیں یکساں عزت و احترام اور وقار و تمکنت سے ہم کنار کرنے کا جو قدم اٹھایا وہ اتنا انقلاب آفریں تھا کہ اس کے نتیجے میں فکرونظر کی دنیا ہی بدل گئی۔ عورت کی حیثیت اور مقام و مرتبہ کے تعین میں اسلام نے تمام مذاہب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اسلام کے سایے میں عورت کے بارے میں مردوں کا پورا نقطۂ نظر اور عملی رویہ بدل گیا، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد خواتین نے ایک نئی تاریخ رقم کی جس کی مثال پہلے بھی موجود نہ تھی اور آج کے نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی ناپید ہے۔ قرآن نے پورے زورو شور سے اعلان کیا:

لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور اُن دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔(النساء ۴:۱)

قرآن نے صراحت کر دی کہ مرد اور عورت دونوں ایک جان سے پیدا کیے گئے ہیں اس لیے اُن میں سے کوئی برتر یا کم تر نہیں ہے۔ نہ مرد افضل ہے اور نہ عورت حقیر اور ذلیل ہے۔ دونوں کی اہمیت اور مقام و مرتبہ ایک ہے۔ قرآن دوسرے مذاہب کے اِس خیال کی تائید نہیں کرتا کہ مرد کی  بہ نسبت عورت کو ایک حقیر مادے سے پیدا کیا گیا ہے اور عورت کو کم تر مقام اور طفیلی کا درجہ دیا گیا ہے۔

عورت کے خلاف ایک اور زہر بھرا تصور ماضی میں موجود رہا ہے اور اس کی نشانیاں آج بھی کلاسیکی ادب میں موجود ہیں، وہ یہ کہ عورت گناہ کی جڑ ہے۔ اس تصور کے مطابق مردہر گناہ سے محفوظ اور پاک ہے۔ یہ عورت ہے جو اس کو گناہ کے راستے پر ڈال دیتی ہے۔ ان حضرات کے مطابق شیطان براہِ راست مرد کو گمراہ نہیں کرسکتا۔ وہ عورت کو واسطہ بناکر مرد کو ورغلاتا ہے۔ شیطان پہلے عورت کو پھسلاتا ہے اور پھر عورت مرد کو دعوتِ گناہ دیتی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آدم کو شیطان نے ورغلایا تھا اور نتیجے کے طور پر انھیں جنت سے نکلنا پڑا تھا۔ اس میں بھی حوا ہی واسطہ بنی تھیں۔

قرآن نے ان تمام نظریات کی تردید کی اور اعلان کیا کہ سارے انسان ایک جان سے پیدا ہوئے ہیں۔ ان سب کی اصل ایک ہے۔ پیدایشی طور پر نہ کوئی شریف ہے نہ رذیل، نہ اُونچی ذات کا ہے نہ نیچی ذات کا، نہ برتر ہے نہ کم تر۔ سارے انسان برابر ہیں۔ خاندان، قبیلہ، رنگ و نسل، ملک و قوم، زبان، پیشہ اور صنف کی بنیاد پر اُن کے درمیان کوئی تفریق کرنا غلط ہے۔

قرآن جب حضرت آدم ؑ کے قصے کا تذکرہ کرتا ہے تو یہ تسلیم نہیں کرتا کہ شیطان نے یا سانپ نے حواؑ کو گمراہ کیا اور حواؑ آدم ؑ کی گمراہی کا سبب بنیں۔ وہ ایک الگ ہی منظر کا نقشہ پیش کرتا ہے جس میں آدم ؑ و حواؑ دونوں برابر کی ذمہ دار شخصیت ہیں۔ شیطان نے دونوں کو دھوکا دیا اور دونوں اس سے دھوکا کھا گئے اور انھوں نے ممنوعہ درخت کا پھل چکھ لیا۔ اللہ کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے دونوں سے خدا کی حفاظت اُٹھا لی گئی، اُن کا پردہ کھول دیا گیا اور اُنھیں خود اپنے نفس کے حوالے کردیا گیا کہ اپنی پردہ پوشی کا انتظام خود کریں۔ جب اُن دونوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے فوراً کسی تاخیر کے بغیر توبہ و ندامت کی راہ اپنا لی۔ اللہ کے حضور دونوں معافی کے خواست گار ہوئے۔ اللہ نے دونوں کی توبہ قبول کی اور انھیں معاف کر دیا۔ پھر خلافتِ ارضی کے خدائی منصوبے میں رنگ بھرنے کے لیے دونوں کو جنت سے اُتار کر اس زمین پر بھیجا گیا اور دونوں نے مل کر اس کائنات کی بزم سجائی۔

صنفی تفریق کا خاتمہ

قرآن نے اس جاہلانہ تصور کی بھی بیخ کنی کی کہ عورت خدا کا قرب حاصل نہیں کرسکتی، اور یہ کہ عورت ہونے کا مطلب نصف شیطان ہونا ہے، اور یہ کہ وہ برائی کی جڑ ہے۔ قرآن نے پوری قوت کے ساتھ باورکرایا کہ خدا کا قرب اور جنت میں داخلہ کسی مخصوص جنس کے لیے نہیں ہے۔ اس کی بنیاد تو عملِ صالح ہے خواہ مرد نے کیا ہو یا عورت نے۔ قرآن کہتاہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (النحل ۱۶:۹۷) جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیںگے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو اُن کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔

یہاں قرآن کریم نے اس غلط فہمی کو رفع کیا ہے کہ دیانت اور پرہیزگاری کی زندگی گزارنے والوں کی دنیا ضرور بگڑتی ہے، بھلے ہی اُن کی آخرت سنور جاتی ہو مگر دنیا میں وہ ناکام و نامراد  رہتے ہیں۔ حیاتِ طیبہ کی یہ قابلِ فخر زندگی اور آخرت میں ملنے والے بہتر سے بہتر اجر اور اُونچے سے اُونچا مرتبہ ہر شخص کو ملے گا جو اِس دنیا میں حسنِ ایمان اور حسنِ عمل سے آراستہ ہوگا۔ اس میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے۔

قرآن عورت کو بیٹی، بہن، بیوی اور ماں بناکر اس کا مرتبہ اس طرح بلند کرتا ہے کہ ان حیثیتوں میں اس کو تمام سماجی، معاشی، مذہبی اور تعلیمی حقوق حاصل ہوجاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رویے اور عمل سے تمام شعبوں میں عورت کو تمام حقوق اس طرح عطا کیے جس طرح مرد کو عطا کیے گئے تھے تاکہ وہ بھی مرد کی طرح اپنے فرائض کی ادایگی میں ہمہ وقت کوشاں رہے۔

فرائض کی فطری تقسیم

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد اور عورت کے فرائص یکساں ہیں۔ زندگی کے دو بازو اور شریکِ کار ہونے کے سبب دونوں کے بطور انسان یکساں حقوق و اختیارات ہیں، لیکن عملی میدان میں دونوں کے کام کی نوعیت اور ہیئت میں واضح فرق ہے، اور اس فرق کا سبب دونوں جنسوں کے جسمانی، نفسیاتی، طبی اور فطری عوامل میں پوشیدہ ہے۔ یہاں یہ نکتہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ ان دونوں کے اختلافِ کار کا مقصد کسی ایک جنس کا برتر اور دوسری جنس کا کم تر ہونا نہیں ہے۔ یہ تو دونوں کی الگ الگ قدرتی صلاحیتوں، رجحانات،میلانات، جذبات و محرکات، استعداد اور فضیلتوں کی بدولت تقسیم کار ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن نے خاندان کی معاشی کفالت کی ذمہ داری کا بوجھ مرد کے مضبوط کندھوں پر رکھا ہے اور اسے نگراں اور قوّام بنایا ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (النساء ۴:۳۴) مرد عورتوں پر قوّام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال  خرچ کرتے ہیں۔

ورنہ قرآن مردوں اور عورتوں کو یکساں سمجھتا ہے۔ وہ دونوں کو بنی نوع انسان تسلیم کرتا ہے اور دونوں کو یکساں حقوق و مراعات عطا کرتا ہے۔ بطور مثال چند آیات یہاں نقل کی جارہی ہیں، جن میں مردوں اور عورتوں کی ذمہ داری واضح کی گئی ہے:

مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ (التوبہ ۹:۷۱)

بالیقیں جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزے رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے  یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔(احزاب۳۳:۳۵)

سماجی زندگی میں شرکت

اسلام نے عورتوں کی سرگرمیوں کو گھر میں امن و سکون کی افزایش اور بچوں کی دینی تعلیم و تربیت نیز علمی و فکری خدمات تک محدود نہیں رکھا بلکہ انھیں ایک وسیع میدان فراہم کیا تاکہ وہ عملی جدوجہد میں برابر کی شرکت کرسکیں۔ خواتین جس طرح شعروادب اور علم و فن کے ذریعے ترقی کرسکتی ہیں اسی طرح وہ زراعت، تجارت اور دوسرے میدانوں میں بھی معاشرے کی ضرورت اور وقت کی پکار کے مطابق اپنا حصہ ادا کرسکتی ہیں۔

اسلام میں انسانی حقوق کے اس تصور سے یہ حقیقت اُجاگر ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی انسانی حقوق کا اگر کوئی ضامن ہے تو وہ اسلام ہی ہے، نہ کہ جدید مغرب کہ جہاں حجاب پر پابندی عائد کی جارہی ہے، اور مساجد کو دہشت گردی کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو ہرشخص کو آزادی عطا کرتا ہے کہ وہ کفرواسلام میں سے جس راہ کو چاہے منتخب کرسکتا ہے اور اس کے لیے اس پر کوئی جبر نہیں۔ کیا مغرب اپنے تمام تر جدید افکار کے ساتھ اس رواداری کا مظاہرہ کرسکتا ہے؟