زیربحث موضوع کے دیگر پہلوئوں کی وضاحت یا اختلافی نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے رسالے کے اوراق حاضر ہیں۔ اسلامی بنکاری کی مناسبت سے اہل علم و فن، عملی اور اطلاقی صورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اصلاحِ احوال کی شکلیں بیان فرمائیں۔ ادارہ]
اسلامی بنکاری پر شائع ہونے والی میری معروضات ترجمان القرآن (نومبر ۲۰۲۳ء) پر بعض قارئین نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے خیال میں ’’اس قسم کی تحریروں سے اسلامی بنکاری کی ساکھ خراب ہوتی ہے، لوگوں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور صارفین اس نظام کی اسلامی حیثیت کے بارے میں مخمصے اور شکوک وشبہات کا شکار ہوتے ہیں‘‘۔
عرض یہ ہے کہ ہم نے اپنے مضمون میں جن خامیوں کا ذکر کیا ہے ان کی اصلاح اور نظام میں بہتری مقصود ہے نہ کہ اس نظام کا انہدام۔ اگر خرابیوں کی نشاندہی نہ کی جائے تو اصلاح کی طرف توجہ کیسے جائےگی؟ اس لیے تجزیہ، تنقید یا خامیوں کی نشاندہی اصلاح کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔
درج ذیل تحریر اسی پس منظر میں نذر قارئین ہے:
بنکاری آج کے دور کے معاشی و مالیاتی نظام کا لازمی جزو ہے۔ عصرحاضر میں اس کے بغیر کاروبارِ حیات کا چلنا ناممکن دکھائی دیتا ہے ،اگرچہ مغرب کی بنکاری سودی ہے۔ مسلمان کا ایمان سودی بنکاری کے متبادل کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ایمان اسے سود کے ساتھ جینے اور رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔
قرآنی حکم کی روشنی میں ہماری ضرورت بنکاری نہیں، اسلامی بنکاری ہے۔ ہم ربِّ کائنات اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس سراسر خسارے والی جنگ میں ہم مغرب کے ملحدانہ سودی بنکاری نظام کی وجہ سے بادل نخواستہ پھنسے ہوئے ہیں۔
ربِّ کائنات اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انسانیت کی تباہی کی جنگ سےنکلنے کے لیے بجاطور پر اسلامی بنکاری کا تصور پیش کیا گیا۔ مگربدقسمتی یہ ہے کہ آج اسلامی بنکاری کی رائج شکل اصل تصور کاعشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تصور پیش کرنے والوں اور اس کو عملی شکل دینے والوں کی فکر، سوچ اور مقصد میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔
ترقی کے دعوؤں اور خوش کن اعداد وشمار کے باوجود تلخ سچ یہ ہے کہ دنیا بھر کےدرجنوں مسلم اور غیرمسلم ممالک میں اسلامی بنکاری نظام اب تک کہیں بھی وہ پذیرائی اور قبولیت حاصل نہیں کرسکا، جو اسے حاصل ہونی چاہیے تھی۔لوگوں کی بڑی تعداد کے اس نظام کے عملی پہلوؤں پر بنیادی نوعیت کے تحفظات اور اعتراضات ہیں۔
دوسری طرف عام آدمی، بنک صارفین اور علمائے کرام کی اکثریت نے اس نظام کی عملی صورت سے مطمئن نہ ہونے کے باوجود سود کے وبال سے بچنے کے لیے ممکن حد تک میسر متبادل کے طور پر اس کو کسی نہ کسی حد تک قبول کرلیا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں، رائج اسلامی بنکاری کے ساتھ تعلق کے لحاظ سے لوگوں کی تین اقسام ہیں:
۱- وہ جن کے خیال میں ’اسلامی بنکاری‘ اور ’سودی بنکاری‘ میں کوئی فرق نہیں، صرف نام الگ ہیں۔یہ لوگ بنک سے لین دین میں صرف اپنی سہولت کو دیکھتے ہیں، بنک کے اسلامی یا سودی ہونے کو نہیں!
۲- وہ لوگ جو خود سے کچھ جاننے کی کوشش کرنے کے بجائے معاملے کو علمائے کرام کی دینی بصیرت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ لوگ علما پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے ’سودی بنک‘ کے مقابلے میں ’اسلامی بنک‘ سے تعلق کو ترجیح دیتےہیں۔
۳- وہ لوگ جو ہر صورت سود اور سود جیسے معاملے سے بچنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ سودی بنک سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ کسی اسلامی بنک سے۔ یعنی بطورِ احتیاط بڑی حد تک بنکاری نظام سے ہی دُور رہتے ہیں۔
اگرچہ اسلامی بنکاری کے بارے میں رائے اور تعلق کے اعتبار سےلوگوں کی مذکورہ بالا تین اقسام ہیں، لیکن بہرحال اکثریت کا خیال ہے کہ مروجہ اسلامی بنکاری محض نام کی اسلامی ہے۔ ان کی رائے میں نتائج اور عمل کے لحاظ سے یہ نظام سودی بنکاری جیسا ہی ہے۔لوگوں کو اگر ایسا لگتا ہے تو اس کی یقینا کچھ معقول وجوہ ہوں گی۔
اسلامی بنکاری کی شکل اور نتائج سودی بنکاری سے مشابہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے نفاذ کے لیے قواعد وضوابط وہی ’مرکزی بنک‘ بناتا ہے، جو اصلاً مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے آلۂ کار سودی بنکاری نظام کا محافظ ہے۔ دوسرے یہ کہ اسلامی بنکاری انھی بنکاروں کے ہاتھوں پروان چڑھ رہی ہے، جو سودی بنکاری کے خوگر اورتربیت یافتہ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ’مرکزی بنک‘ سودی نظام کا محافظ ہے تو وہ اسلامی بنکاری کے فروغ کے لیے قواعد وضوابط کیوں بنا رہا ہے اور اسلامی بنکوں کو لائسنس کیوں جاری کر رہا ہے؟ اور بنک کیوں اسلامی بنکاری کی خدمات پیش کر رہے ہیں؟
اس سلسلے میں عملی رویوں کو دیکھتے ہوئے عرض ہے کہ حکومت، مرکزی بنک اور تجارتی بنکوں نے سود کے قرآنی احکامات کی تعمیل کے لیے نہیں بلکہ کسی مجبوری اور سیاسی اور مالی ضرورت کے تحت اسلامی بنکاری کو اختیار کیا ہے۔حکومت، مذہبی طبقے کے دباؤ سے بچنے اور کچھ سیاسی فائدے کے لیے اسلامی بنکاری کا نفاذ چاہتی ہے۔
’مرکزی بنک‘ جو کہ بنکوں کے نظامِ کار اور ایک ضابطے میں لانے اور نگرانی کا ادارہ ہے، اسلامی بنکاری کے نفاذ سے اس کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ بنکاری نظام میں شامل ہوں۔ اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ سود کی وجہ سے جو لوگ بنکاری نظام سے باہر تھے، ان کو اس طرح سے بنکاری نظام میں لانے میں اسلامی بنکاری کے ذریعے کچھ کامیابی ملی ہے۔اسی طرح بنکاروں کا مقصد بھی سود کاخاتمہ نظر نہیں آتا۔ وہ بھی محض اپنے گاہک، نفع اور کاروبار بڑھانے کے لیے سودی بنکاری کے ساتھ ساتھ اسلامی بنکاری پراڈکٹس پیش کر رہے ہیں۔
ابتدا میں بیان کردہ تینوں فریقوں کو اسلامی معاشیات یا شریعہ کے باریک مقاصد اور اُصولوں سے کچھ زیادہ سروکار نہیں ہے۔ ان تین فریقوں کے علاوہ اسلامی بنکاری اداروں میں شریعہ سے متعلق مشاورتی خدمات مہیا کرنے والے علما ہیں۔ شریعہ بورڈز میں ممبر کے طور پر شامل علما کا کردار بنک کے اسلامی بنکاری سے متعلق معاملات، پراڈکٹس اور ِخدمات کے شرعی جائزے تک محدود ہے۔ کوئی بھی اسلامی بنکاری پراڈکٹ ان کے فتوے کے بغیر شروع نہیں کی جاسکتی۔ بنکوں سے سود کے خاتمے کے لیے ’شریعہ بورڈز‘ سے جس جرأت مندانہ کردار کی توقع کی جاتی ہے، بدقسمتی سے وہ پوری نہیں ہوئی۔
دوسری طرف اسلامی بنکاری کے نظریے کے اصل موجد یا خالق نہ حکومتی عہدے دار تھے، نہ مرکزی بنک اور نہ بنکار کہ وہ اپنے تصور کو حقیقی رنگ دے سکتے۔ مزید یہ کہ یہ کوئی روایتی علما بھی نہیں تھے۔یہ اللہ کا خوف رکھنے والے کچھ مفکرین تھے، جو سودی بنکاری سے اہل ایمان کو نجات دلانا چاہتے تھے۔ پروفیسر خورشید احمد،ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر تنزیل الرحمان، ڈاکٹر عزیر جیسے ماہرینِ اسلامی معاشیات و قانون نے سیّد مودودی علیہ الرحمہ کی اسلامی نظام معیشت ومالیات کی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے سود سے پاک اسلامی مالیاتی اور بنکاری نظام کا نظریہ پیش کیا، اور اس کے لیے درکار بنیادیں بھی فراہم کیں (مصر کےشیخ احمد النجارغالباً واحد مفکر اور بنکار ہیں، جن کو اسلامی بنکاری کے خیال کو کامیاب عملی شکل دینے کا موقع ملا)۔
مذکورہ بالا پس منظر کی روشنی میں رائج ’اسلامی بنکاری‘ کے تعامل کو دیکھ کر توقعات کا پورا ہونا مشکل لگتا ہے۔ اس لیے اسلامی بنکاری کی مروجہ صورت میں جو کچھ بھی میسر ہے، اصلاح کی کوششیں جاری رکھتے ہوئے اس کو غنیمت جاننا چاہیے۔
اس نظام کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک اور حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ یہ نظام صدیوں پرانے طاقت ور سودی بنکاری نظام کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ اس کا مقابلہ بہت مضبوط نظام کے ساتھ ہے۔ مجھے اعتراف ہےکہ اسے سخت مقابلے کی وجہ سے بہت سارے معاملات میں مصالحت اور کچھ اصولوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ جہتوں کو متوجہ کرنے کے لیے خامیوں کی نشاندہی بھی ایک دینی، اخلاقی اور فنی فریضے کے طور پرضروری ہے۔
اسلامی بنکاری سے متعلق افراد، ادارے اور صارفین تنقید پر ناراض ہونے کے بجائے غلطیوں کو درست کرنے پر توجہ دیں، تو نظام میں بہتری آئے گی اور لوگ سودی بنکاری سے تعلق ختم کرکے اسلامی بنکاری سے وابستہ ہوتے جائیں گے۔
یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ اسلامی بنکاری کی مروجہ شکل بعض بنیادی معاملات میں اصلاح کی متقاضی ہے۔لوگ اگر یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ نظام محض نام کی تبدیلی ہے یا یہ سودی بنکاری کا چربہ ہے، تو اس کی سب نہ سہی، کچھ وجوہ تو قابل غور ہیں۔
علمائے کرام کی بڑی اکثریت کو اگر اس کے بعض معاملات پر شرعی اعتراضات ہیں تو اس کے پیچھے یقینا کچھ ایسے ٹھوس اُمور ہیں، جن پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
اگر یہ کہا جاتا ہے کہ حیلہ کاری کا استعمال اس نظام کے مثبت تصور کو مسخ اور انفرادیت کو قائم نہیں ہونے دے رہا ہے اور اس کی افادیت پر اثر انداز ہورہا ہے، تو اس کے پس منظر میں کموڈٹی مرابحہ جیسی بے اصل پراڈکٹس کا کردار ہوسکتا ہے۔
اس نظام پر اگر ’سود‘ کا نام ’نفع‘ رکھنے کا الزام ہے تو اس کا سبب ’نفع کی شرح‘ کو کاروبار کے حقیقی نفع نقصان کے ساتھ وابستہ رکھنے کے بجائے سود کی طرح ڈپازٹ کی رقم کے کم یا زیادہ ہونے سے نتھی کرنے اور نفع کی رقم کو سودکی طرح یقینی بنانے کے عمل سے ہے۔
کم ڈپازٹ پر نفع میں شراکت کی شرح کم اور زیادہ ڈپازٹ پر یہ شرح زیادہ رکھنے سے یہی لگتا ہے کہ سودی بنکاری کی طرح اس نظام میں بھی استحصالی عنصر موجود ہے۔
اس پورے معاملے میں یہ سوال بالکل جائز ہے کہ ’’کیا خامیوں، اعتراضات، خدشات، تنقید، مخالفانہ فتوؤں اور عدالتی فیصلوں کی وجہ سے اس نظام کی بساط لپیٹ دی جائے؟‘‘
’’کیا اسلامی بنکاری کی کچھ خامیوں کی بناء پر اسے منافقت قرار دے کر اس سے تعلق ختم کر کے سودی بنکاری کے ساتھ تعلق جوڑ لینا چاہیے؟‘‘
جی نہیں، بالکل نہیں اور ہرگز نہیں!
بنکوں کے معاملات میں شریعہ کی پابندی کو یقینی بنانا بنکوں کے شریعہ بورڈوں کی ذمہ داری ہے۔ بنکوں کو مشاورتی خدمات مہیا کرنے والے ماہرین شریعہ اور علمائے کرام کے اخلاص پر شک کی گنجایش نظر نہیں آتی مگر نظام کی خامیاں کسی نہ کسی قانونی، سیاسی یا معاشی مجبوری کا نتیجہ ہو سکتی ہیں۔
اصلاح کی گنجایش تو بہترین سے بہترین نظام میں بھی موجود رہتی ہے۔ اس لیے ہمارے گردوپیش میں رائج اسلامی بنکاری بھی اصلاح کی ضرورت سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
سود سے ملکی معیشت کی مکمل نجات تو مستقبل قریب میں بوجوہ ممکن نظر نہیں آتی۔ لیکن بنکاری نظام میں سنجیدہ کوششوں کے ذریعے سود سے بچنے کی جزوی کامیابی بہرحال ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ یہ جزوی کامیابی اسلامی بنکاری کے فروغ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
اگر اسلامی بنکاری کی قبولیت عامہ بڑھانی ہے تو اصلاح طلب امور کی طرف توجہ دینا ہوگی۔اس سلسلے میں بہتری اور اصلاح کے لیے درج ذیل نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے:
۱- شریعہ کے محافظین یعنی بنکوں کے شریعہ بورڈوں کے ممبران کو اکٹھے بیٹھ کر اعتراضات کی ایک فہرست مرتب کرنی چاہیے۔
۲- اسلامی بنکاری نظام پر منفی اثرات ڈالنے والےاعتراضات کی درجہ بندی کی جائے۔
۳- پھر ان کی درجہ بندی اس طرح کی جائے کہ کس معاملے کو شریعہ بورڈوں کی سطح پرہی آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے اور کن معاملات میں دیگر فریقوں ملکی یا بین الاقوامی قوانین اور اداروں کی وجہ سےمشکلات پیش آئیں گی اور وقت لگے گا۔
آسانی کے لیےکچھ اعتراضات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے:
۱- نفع کی تقسیم کی شرحوں کو تمام ڈپازیٹرز کے لیے یکساں رکھنا۔
۲- مضاربہ ، وکالہ اور مشارکہ میں نفع کوسود سے مشابہ بنانے والے عوامل سے احتراز۔
۳- کموڈٹی مرابحہ جیسی بےاصل پراڈکٹس کا خاتمہ۔
۴- سودی بنکوں سے کسی بھی صورت تعاون یاتعلق ختم کرنے کا معاملہ۔
۵- صکوک خصوصاً اجارہ صکوک کے لیے حساس ملکی اثاثہ جات (ایئرپورٹس، موٹر ویز وغیرہ) کی برائے نام فروخت(notional sale)جیسے معاملات ۔
۶- کاروباری ضرورت یا زیادہ سے زیادہ نفع کے حصول کی خاطر شریعہ کے بنیادی اصولوں سے صرفِ نظر اور رعایتوں اور ان پر ذیلی اصولوں کو ترجیح دینا۔
۷- بعض شرعاً ناقابلِ قبول ذرائع تمویل کو قابلِ قبول بنانے کے لیےحیلوں کے استعال کا معاملہ وغیرہ وغیرہ۔
قصۂ مختصر،یہ کہ قارئین کی رائے میں:
۱- تنقید سے صارفین کے ذہن اسلامی بنکاری بارے شکوک وشبہات کا شکار ہوتے ہیں اور اس سے اسلامی بنکاری کو نقصان پہنچتا ہے۔
۲- اسلامی بنکاری جیسی بھی ہے اس کو چلنے دینا چاہیے۔
۳- اگر اسے ختم کردیا تو سود سے بچنے کاجو تھوڑا سا موقع میسر ہے وہ بھی ضائع ہوجائے گا۔
تیسرے نکتے سے مکمل اوردوسرے نکتے سے جزوی اتفاق ہے مگر پہلے نکتے سے اتفاق نہیں ہے۔وجہ یہ ہے کہ بامقصد تنقید اصلاح کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نظام میں بہتری کی کوششیں ایک مسلسل عمل ہے، اس کا جاری رہنا خود نظام کے حق میں اچھا ہے۔
جناب وحیدالدین خاں کا انتقال ۲۱؍اپریل ۲۰۲۱ءکو ہوا۔ سانحۂ ارتحال کے اس موقعے پر سبھی حلقے ان کی انفرادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے، تحسینی کلمات ادا کر رہے تھے۔ مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی، جو ۱۹۶۳ء یعنی تقریباً ۶۰برس سے کسی نہ کسی رنگ میں اُن کی تنقید کا نشانہ بنتے آرہے تھے، ان میں سے کسی فرد نے ان کے بارے میں کوئی اختلافی بات نہ کہی، بلکہ اسلامی اخلاقیات اور تہذیب وروایات کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے، ان کے صرف مثبت پہلوئوں کو بنیاد بنایا اور مغفرت کی دُعا کی۔ لیکن معلوم نہیں کیوں، انتقال کے ۲۴گھنٹے گزرنے سے بھی پہلے، جناب وحیدالدین خاں سے فکری قربت اور نیاز مندانہ وابستگی رکھنے والے جاوید احمد غامدی صاحب نے اس موقعے کو اپنے مخصوص ایجنڈے کی تشہیر کا ذریعہ بنانا شروع کیا اور پھر ان کے ہم نوائوں نے سوشل میڈیا و اخبارات میں اور ادارے ’المورد‘ نے بھی اس مصرع طرح پر گرہ لگاکر ’غزل گوئی‘ شروع کر دی۔
جاوید صاحب نے امریکا سے سوشل میڈیا پر اپنا جو پیغام نشر کیا، انھی الفاظ کو تین گھنٹے بعد مجیب الرحمٰن شامی صاحب کے ٹی وی پروگرام میں مختصراً دہرایا گیا اور پھر وہی پیغام زیادہ مرتب انداز سے، اپنی سرپرستی میں شائع ہونے والے ماہ نامہ اشراق میں بطور اداریہ شائع کیا۔ ملاحظہ کیجیے:
مولانا وحیدالدین خاں ایک بڑی غیر معمولی شخصیت تھے.... میری نسبت تو ان کے ساتھ یہ ہے کہ ہم ایک ہی استاد کے شاگرد ہیں.... انھوں نے استاذ امام امین احسن اصلاحی سے ان کے ابتدائی دور میں تعلیم پائی اور مجھے یہ شرف استاذ امام کے آخری دور میں حاصل ہوا۔ اُن [یعنی وحیدالدین صاحب] کا بڑا علمی کارنامہ یہ ہے کہ دورِ حاضر میں جو دین [اسلام] کی سیاسی تعبیر کی گئی ہے، انھوںنے خالص علمی سطح پر اس کی غلطی کی۔ ان کی کتاب تعبیر کی غلطی کو پڑھ کر آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ کیسا اعلیٰ درجے کا محققانہ ذوق رکھتے تھے۔ یہ جس کارنامے کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے، یہ بڑا غیر معمولی ہے۔ ہمارے ہاں دین کی ایک تعبیر وہ ہے، جس کو ’صوفیانہ تعبیر‘ کہنا چاہیے۔ اس کے بڑے لوگوںمیں امام غزالی اور آخری زمانے میں شاہ ولی اللہ ہیں۔ اسی طرح ’دین کی سیاسی تعبیر‘ ہے۔ اس کے سب سے بڑے مفکر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ صاحب مودودی ہیں۔ انھوں نے اس کو نہ صرف علمی بنیادیں فراہم کی ہیں، بلکہ اپنے پورے لٹریچر میں اِسی کو سامنے رکھ کر قرآن کی تفسیر کی ہے اور احادیث کے مدّعا و مطلب کو بیان کیا ہے۔[مولانا مودودی پر تنقید کا] یہ ایک بڑا کام ہے جو اُن [خاں صاحب] کے قلم سے صادر ہوا ہے۔ اس وقت بھی میںلوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ اگر اعلیٰ درجے کے تنقیدی کام کو دیکھنا چاہیں تو ان کو کتاب تعبیر کی غلطی کو ایک علمی کتاب کی حیثیت سے پڑھنا چاہیے (ماہ نامہ اشراق، مرتبہ:منظورالحسن،مئی ۲۰۲۱ء، ص۴-۶)
یہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ خاں صاحب کے سانحۂ ارتحال پر جاوید صاحب نے کس مبالغہ آمیز طریقے سے ایک پہلو کو اُن کے سارے کام پر حاوی کرکے، اپنے ایجنڈے کی تشہیر کے لیے برتنا ضروری سمجھا۔ یاد رہے، خاں صاحب اور جاوید صاحب کی طرف سے جماعت اسلامی یا مولانا مودودی پر کی جانے والی ’کرم فرمائیوں‘ کا ترجمان القرآن میں کبھی نوٹس نہیں لیا گیا۔ مگر اُن کی جانب سے اٹھائی گئی اس حالیہ مہم کو مدنظر رکھتے ہوئے، چند معروضات پیش کرنا ضروری ہے۔
جاوید صاحب نے یہ بہت سنگین الزام عائد کیا ہے: ’’[دین کی] سیاسی تعبیر... کے سب سے بڑے مفکر مولانا مودودی نے اس [تعبیر یا فکر]کو نہ صرف علمی بنیادیں فراہم کی ہیں، بلکہ اپنے پورے لٹریچر میں اسی [ایک مقصد]کو سامنے رکھ کر قرآن کی تفسیر کی ہے اور احادیث کے مدعا و مطلب کو بیان کیا ہے‘‘(ص۵)۔ گویا کہ جاوید صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ مولانا مودودی نے جو لکھا، وہ محض اُن کے وہ ذاتی احساسات و خیالات ہیں، جس میں انھوںنے دین اسلام کو محض کسی سیاسی چیز کے طور پر پیش کیا ہے۔
l امر واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودی کے ہاں اسلام اپنی جامعیت کے ساتھ ہی جلوہ گر رہا ہے، جسے وہ اسلام کے ایمانی، فکری، عملی اور اطلاقی پہلوئوں کے ساتھ سمجھنے، عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرتےرہے۔ الحمدللہ، اسلام کی اسی کلیّت (totallity)کو انھوںنے دنیا کے سامنے پیش کیا اور اسلام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے سے اجتناب پر زور دیا۔
l مولانا مودودی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ’’اسلام کا مقصد صرف اسلامی حکومت قائم کرنا ہے‘‘۔ اسی لیے مولانا مودودی نے سیاق و سباق سے کاٹ کر جملے پیش کرنے والی بیمار ذہنیت کی جڑ کاٹنے کے لیے دستور جماعت اسلامی کی دفعہ ۴کی تشریح کے ذیل میں مستقل طور پر لکھ دیا ہے:
اقامت ِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے، بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ سےہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے.... ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے، اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہو سکتا، اہل ایمان کو مل کر اس کے لیے سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
l مولانا مودودی کے نزدیک نہ تو کوئی ’صوفی اسلام‘ ہے اور نہ کوئی ’سیاسی اسلام‘ بلکہ وہ پورے اسلام ہی کو اسلام کہتے ہیں اور ایسی تقسیم روا رکھنے کو مطلق جاہلیت سے منسوب کرتے ہیں۔ گذشتہ دو صدیوں سے مغربی توسیع پسند سامراجی طاقتوں نے اپنی جارحیت کا مقابلہ کرنے والے جاں نثار مسلمانوں کو برے ناموں سے موسوم کرنے کا دھندا شروع کیا، اور اس مقصد کے لیے خود مسلمانوں ہی سے اپنے ہم نوا کارندوں کو طاقت، وسائل اور پشت پناہی سے نوازا۔ مغربیوں نے اس گھنائونے کھیل کے لیے اپنے خلاف کھڑے ہونے اور مزاحمت کرنے والے مسلمانوں کو کبھی ’وہابی اسلام‘ سے منسوب کیا، کبھی ’وحشی اسلام‘ کے ماننے والے کہا اورپھر ’رجعت پسند اسلام‘ کے علَم بردار قرار دیا۔ گذشتہ ۳۰برسوں کے دوران منفی اصطلاح سازی میں تیزی لاتے ہوئے،’غصّے اور انتقام والا اسلام‘، ’انتہا پسند اسلام‘ اور ’بنیاد پرست اسلام‘ سے مربوط کرنا شروع کیا۔ خصوصاً نائن الیون کے بعد، مغربی سامراج اور ان کے دیسی ہم نوائوں نے ہر اس فرد، ادارے اور مزاحم کار کو ’سیاسی اسلام‘ سے موسوم کر دیا، جس نے ان سفاک اور ظالم قوتوں کی خدائی، انسانیت کی تذلیل اور وحشیانہ قتل و غارت گری کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ واضح رہے کہ خود امام غزالیؒ اور شاہ ولی اللہؒ کی نسبت سے ’صوفی اسلام‘ کی نمایندگی کا جو دعویٰ جاوید احمد غامدی صاحب نے کیا ہے، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒکی معرکہ آرا کتاب ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء میں خصوصیت سے اسلامی تاریخ کے جس سانحے کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے، وہ اسلام کے سیاسی نظام اور اسلامی ریاست پر بادشاہت کے غلبے کی نشان دہی پر مشتمل ہے۔ اسی طرح شاہ صاحبؒ اسلام کے اصل سیاسی نظام کو اسلام کے احیا کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو اسلام کے مجموعی پیغام،حکم اور مزاج کے مطابق مولانا مودودی نے عصرحاضر میں بیان کی ہے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہؒ نے ہندوئوں کی عظیم تر مرہٹہ سلطنت کے قیام کا خطرہ بھانپتے ہوئے، احمد شاہ ابدالی کو ہند پر حملے کی دعوت دی، جس کے نتیجے میں ۱۷۶۱ء میں پانی پت کی تیسری جنگ ہوئی اور مرہٹوں کی پسپائی سے ہندو سلطنت کا خواب بکھر کر رہ گیا۔ کیا کوئی ’صوفی اسلام‘ کا علَم بردار نابغہ، اسلامی نظام سیاست کے موضوع پر لکھتا اور کھلے دشمن کے استیصال کے لیے مسلمانوں کی فوج کو دعوت دیتا ہے؟
lمولانا مودودی نے رضائے الٰہی کے حصول کے لیے،معاشرے میں ہمہ پہلو جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ، خلفائے راشدینؓ اور صلحائے اُمت کے ہاںبکمال وتمام موجود ہے، اور جسے امتداد زمانہ، خصوصاً گوری اقوام کی غلامی کے ماہ و سال نے دھندلادیا تھا۔ اس مقصد کے لیے جہاں مولانا مودودی ایمان کی آبیاری کی طرف متوجہ کرتے ہیں، وہیں توحید کے مفہوم سے آشنائی اور توحید خالص پر کاربند رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ پھر انقلابِ قیادت، تطہیر افکار اور تعمیر کردار کے ذریعے دعوتِ دین کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے ابھارتے ہیں۔ مولانا مودودی، جہاد کے تصورِ اسلام کو روشن الفاظ میں پیش کرتے ہیں اور سامراجی آقائوں کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کرنے میں کسی مداہنت پسندی، ترمیم پسندی اور بزدلی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔ دراصل یہی ہے وہ جرأت مندی، جو مولانا مودودی کو نشانہ بنانے والوں کو بے چین کرتی ہے۔
l مولانا مودودی نے اسلام کو چھوٹے چھوٹے خانوں میں پیش کرنے کے بجائے، اسے جڑ، تنے، ٹہنیوں، پتوں، پھل اور سائے سمیت پیش کیا ہے۔ اس روایت میں تزکیہ نفس بھی آتا ہے اور نظام زکوٰۃ و نظام خدمت عامہ بھی راہ پاتا ہے۔ پھر فتنہ جوئوں کی فکری ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے مولانا مودودی کے فکری گلشن میں علم، تحقیق اور دلیل برگ و بار لاتے ہیں۔ نیز نظام معیشت و نظام سیاست اور نظام عدل، گویا عصرحاضر میں اسلامی معاشرے اور ریاست کا خاکہ جلوہ گر ہوتا ہے۔ چونکہ جدید سامراجی قوتیں، اسلامی ریاست و سیاست کے تصور سے خائف ہیں، اس لیے وہ اسلامی نظامِ حیات سے نسبت رکھنے والوں کو ہدف بنانے پر خاصے وسائل صرف کر رہی ہیں، اور ان کی اس ہمہ پہلو یلغار کا نشانہ مولانا مودودی بھی ہیں۔ بلاشبہہ دشمن کی اس جتھہ بندی کو بہت سے چرب زبان مقرروں کی کمک میسر ہے۔ مگر کاٹھ کی یہ ہنڈیا زیادہ دیر تک چولھے پر چڑھی نہیں رہ سکتی۔ جناب سرسید احمد خاں، مرزا غلام احمد، غلام احمد پرویز وغیرہ کی سالاری میں نام نہاد مذہبیات کا حشر ہمارے سامنے ہے۔
تین مزید باتیں عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
پہلی بات یہ ہے کہ جاویداحمد صاحب کی جانب سے، مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی شاگردی کا دعویٰ ایک پامال افسانے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ چند درجن دروس میں شریک ہونے سے کوئی فرد، شاگرد نہیں قرار پاتا۔ دینی روایت میں شاگردی اسی وقت منسوب ہوتی ہے، جب استاد خود اپنے اطمینان کے بعد اجازت عطا فرمائے۔ حالانکہ موصوف کے حوالے سے مولانا اصلاحی صاحب کے ہاں پائی جانے والی بے زاری مولانا سے ملنے والوں پر واضح ہے، جس کا انھوںنے متعدد افراد کے سامنے وقتاً فوقتاً اظہار بھی فرمایا۔ اس ضمن میں مولانا اصلاحی صاحب نے خود میرے استفسار پر اپنا مافی الضمیر کھل کر بیان فرمایا۔ یہ بھی عجیب شاگرد ہیں کہ استاد امین احسن اصلاحی صاحب تو تدبر قرآن میں اسلامی ریاست کے اُمور پر معرکہ آرا مباحث لکھیں، اور پھر اسلامی ریاست کتاب سپردِقلم کریں، اور اس پر ناز بھی کریں، مگر ’شاگرد‘ اسلام میں کسی ریاست کے عملی وجود ہی سے انکار کرے؟ سچ بات ہے کہ مولانا اصلاحی اور مولانا فراہی صاحبان کو جتنا نقصان، جاوید صاحب کے افسانوی دعوائےشاگردی نے پہنچایا ہے، اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ لوگ موصوف کی باتیں، دعوے اور فیصلہ کن فتوے سن سن کر یہ سوچتے ہیں کہ ’’ہر دم تبدیل ہوتے ایک آزاد خیال ’شاگرد‘ کا یہ حال ہے، تو اس کے استاد یقینا اس سے بھی زیادہ اسلام میںپیوندکاری و تحریف کے رسیا اور ’چلوتم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘ پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ اس لیے سننے کو شاگرد کے دعوے ہی کافی ہیں، استادوں کو چھوڑو‘‘۔ اور سچ بات یہ ہے کہ جاوید صاحب کے فکری قائد اور نسبتی استاد مولانا اصلاحی صاحب نہیں بلکہ مولانا وحیدالدین خاں صاحب ہی ہیں۔
محترم مولانا وحید الدین خاں صاحب کئی حوالوں سے چونکہ بھارت میں مسلمانوں کی مذمت اور طعنہ زنی سے منسوب رہے ہیں، غالباً اسی لیے بھارتی مقتدر قوتوں کے ہاں وہ قابلِ قدر سمجھے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ ۶ستمبر۲۰۱۵ء کو اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (ISNA: اسنا) نے اپنے ۵۲ویں سالانہ کنونشن منعقدہ شکاگو میںمولانا وحیدالدین خاں صاحب کو مدعو کیا۔ اس پر امریکا کی یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر ایمریطس صاحب نے ’اسنا‘ انتظامیہ سے دریافت کیا کہ ’’آپ نے خاں صاحب کو کس مناسبت سے دعوتِ خطاب دی ہے، حالانکہ ان کے موقف اور رویے سے خود بھارتی مسلمانوں میں بے زاری پائی جاتی ہے؟‘ جواب میں ’اسنا‘ انتظامیہ نے بتایا:’’یہ ہمارا تجویزکردہ نام نہیں، بلکہ جب ہم نے کنونشن کا پروگرام ترتیب دیا تو امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے فرستادوں نے مقررین کی فہرست دیکھ کر کہا کہ ’ایک مقرر ہماری طرف سے رکھیں‘۔ جب ان سے پوچھا گیا: ’کون صاحب؟‘ تو انھوںنے کہا: ’انڈیا سے وحیدالدین خاں صاحب‘۔ ۲۰۱۶ء کے اکتوبر میں پروفیسر ایمریطس پاکستان آئے تو انھوں نے براہِ راست مجھے یہ تفصیل بتائی۔ اس واقعے سے خاں صاحب کو کسی خانے سے منسوب کرنا مطلوب نہیں ہے، بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ ان کی وہ کون سی ادا تھی، جو افغانستان اور عراق میں مسلمانوں پر تباہی و بربادی مسلط کرنے والے امریکی سامراجیوں کو پسند آئی تھی؟
تیسری بات یہ ہے کہ جاوید صاحب کی نسبت سے تحقیق و تجزیہ کے جس بلندمعیار کا بہت شہرہ سنایا جاتا ہے، اس کہانی سے عام آدمی واقعی مرعوب ہوتا ہے۔ لیکن انھوں نے خان صاحب کی جس کتاب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں،اس کتاب پر ایک تبصرہ ہم آیندہ کسی اشاعت میں طبع کریں گے، جس سے موصوف کے ذوقِ مطالعہ اور تحقیقی معیار کی بلندی کے بارے میں خود قارئین اندازہ لگالیں گے۔
اخوان المسلمون ایک جامع اسلامی اجتماعیت ہے، جو ایک واضح اور مخصوص طریق کار رکھتی ہے۔ ایسا طریق کار کہ جو در حقیقت اہل سنت و الجماعت کا منہج ہے۔ اخوان اس امر کا لحاظ اپنی ان تمام سرگرمیوں میں رکھتی ہےجو وہ معاشرے کی اصلاح اور تبدیلی کے لیے بروے کار لاتی ہے، تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کو حکمت اور بہترین اسلوب کے ساتھ ادا کرے۔ وہ ذمہ داری جو عین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہو اور جو معاشرے کے ہر فرد اور ادارے میں ان کی گوناگونی کےباوجود ایک احساس امن اور آزادی پیدا کرے۔ اخوان المسلمون معاشرے کی اصلاح کے لیے جو کردار ادا کرنا چاہتی ہے، وہ ایک مسلم فرد، مسلم گھرانے اور مسلم امت کی اساس پر قائم ہوتا ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ایک مسلمان اگر اسلام کے صحیح تصور کے مطابق زندگی گزارتا ہے، تو اس کے اسی عمل کے نتیجے میں کامیابی کی دوسری تمام راہیں کھلتی ہیں۔ اور ایسا شخص لازمی طور پر ایک صالح شہری بھی ہوتا ہے، جو اس بات کا فہم اور علم رکھتا ہے کہ ایک صالح مسلما ن گھرانا ہی وہ بنیادی اکائی ہے، جس پر ایک مسلمان معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اخوان یہ بھی جانتی ہے کہ اللہ کی مرضی سے جب تک امت مسلمہ اس بات پر قادر رہے کہ وہ حق اور انصاف کا علَم اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق بلند کرتی رہے تو وہ نہ گمراہ ہوگی اور نہ بدبخت:
فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ ہُدًى۰ۥۙ فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي۱۲۳ وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۱۲۴ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۳-۱۲۴) جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا۔اور جو میرے ’ذِکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔
اپنے اس مخصوص طریقے کار پر عمل کرتے ہوئےتمام مشکلات، مصائب اور رکاوٹوں کے باوجود الحمدللہ اخوان اپنا فرض نبھاتی آرہی ہے اور اسلام کا اعتدال پسندانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہے، تاکہ ایک ایسی اسلامی ریاست کی بناڈالے جو اسلام کو تمام گوشہ ہاے زندگی میں نافذ کرے۔ عوام شعوری طور پر اگر اس بات پر تیار ہو جاتے ہیں، تو نہ صرف وہ خوش نصیب ہوں گے بلکہ اس کے ذریعے انھیں دنیا میں عزت اور قیادت بھی ملے گی، اور اگر وہ اس کو رد کر دیتے ہیں تو اللہ کی ذات توتمام انسانوں سے غنی ہے۔ وہ تو صرف بندوں کو بخشنے کاروادار ہے،بشرطیکہ وہ توبہ کی روش اختیار کریں، صرف اسی کی طرف پلٹیں اور اسی کو خلوص دل سے پکاریں، نیک عمل کریں اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں۔
مختصراً یہ کہ اخوان المسلمون دعوتِ دین اور تحریک و تنظیم کے ذریعے عوام کو مخاطب کرتی ہے۔ ہم اُن کو اسلام کی طرف بلاتے ہیں جس کا ایک جز حکومت بھی ہے۔ اور آزادی اس کا ایک فریضہ ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ہی تمام انسانیت کے لیے دینِ حق ہے۔ اور وہ کسی خاص نسلی یا علاقائی یا جغرافیائی گروہ کی میراث نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بنی نوع انسان کی جانب اپنی رحمت کے ساتھ مبعوث کیا تھا:
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِيْنَ۱۰۷ (الانبياء ۲۱:۱۰۷) اے محمدؐ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔
ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم لوگوں تک اللہ کا دین بے کم و کاست اور بنا کسی رد و بدل کے پیش کر دیں:
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ (المائدہ ۵:۳) آ ج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔
اسی کے ساتھ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امت ہی قیادت اور سیادت کا منبع اور مصدر ہے۔ انھی اہلِ ایمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قیادت کا خود چناؤ کریں۔ اس معاملے میں ہم منصفانہ طور پر عوام کی منتخب راے کے ساتھ چلیں گے، چاہے یہ ہماری راے کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ بس اس شرط کے ساتھ کہ وہ شریعت کے کسی اصول سے متصادم نہ ہو اور نہ اس معاملے میں کسی فرد یا جماعت کی جانب سے اس پر کسی دباؤ، دھمکی، یا آمریت و استبداد کا استعمال کیا گیا ہو۔
آج کل معاشرے میں سیاسی اور اسلامی جماعتوں کے حوالے سے کافی باتیں زیربحث ہیں۔ بہت سے کرم فرماؤں کی یہ راے ہے کہ ’’اخوان کوبھی انھی جماعتوں کی طرح ایک سیاسی جماعت ہونا چاہیے‘‘۔اُن کی نظر میں ’’اسے ایک عوامی سیاسی جماعت میں ڈھل جانا چاہیے‘‘جو دوسرے شعبوں، مثلاً نوجوانوں کی تربیت، دعوت دین اور خدمت خلق کے شعبوں کے ساتھ مربوط ہو اور سول سوسائٹی کے تمام اداروں، مثلاً رفاہی انجمنوں، کھیل کے کلبوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانونی امداد کمیٹیوںکے ساتھ مل کر کام کرے گی‘‘۔
اس حوالے سے اخوان کی پوزیشن پہلے روز سے آج تک بہت واضح ہے۔ اخوان کو ایسی کسی بھی تنظیم پر کوئی اعتراض نہیں ہے، جو اخوان کے پیش نظر مختلف جہتوں میں پھیلے ہوئے کسی بھی کام کےحوالے سے قائم کی جائے مگر شرط یہ ہے کہ محض حصولِ اقتدار اس جماعت کی اوّلین ترجیحات میں سے نہ ہو بلکہ وہ ایک ایسی اجتماعی ہیئت ہو، جو زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کی دعوت کو اپنی اوّلین ترجیح رکھے اور اس بات کے لیےکوشاں رہے کہ یہ امت ایک صاحبِ رسالت امت بننے کے قابل بن سکے۔
اخوان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس وقت کسی ایسی جماعت کی رجسٹریشن کے لیے درخواست دینا بے سود ہے کیونکہ حکومت عوام پر ہر قسم کا تشدد روا رکھے ہوئے ہے اورجس میں اخوان اس کا مرکزی ہدف ہے۔ اور حکومت کسی بھی ایسی جماعت کی تشکیل کی اجازت نہیں دے گی اور اخوان بھی اس جبر کے نظام میں یک طرفہ طور پر متحرک نہیں ہو سکتے۔ اپنے اصلاحی کام کے ذریعے اگر کبھی ایسی جماعت بننے کی سبیل پیدا ہوئی، تو اخوان ایک مسلمان معاشرے اور ایک عادلانہ امت کے قیام کے لیے ضرور دعوت،تنظیم، تعلیم و تربیت اورخدمت کے ایجنڈے پر عمل کرے گی۔
اس لیے اخوان کا عوامی کام جس میں سیاسی کام بھی شامل ہے، اپنے اہداف اور وسائل کے اعتبار سے اسلامی اصول و ضوابط سے باہر نہیں نکلتا، اور نہ نکل سکتا ہے، اور نہ یہ ممکن ہے کہ اخوان کسی تکنیکی حکمت عملی کے تحت تحریک کے جامع پروگرام کے کسی جزو کو نظر انداز کردیں۔ اگرچہ بہت سے ہمدرد یہ کہتے ہیں کہ ’’اخوان اگر اپنے تحریکی کام کے بعض اجزاکو ترک کردے، تو نہ صرف ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ ان کو مغرب اور صہیونیوں کے ہاں بھی پذیرائی مل سکتی ہے،اور اس طرح وہ قلیل وقت میں چند شعبوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔ لیکن ہماری نظر میں اگر ہم نے اپنے بنیادی دعوتی کام کے پہلوؤںکو نظر انداز کر کے کوئی جماعت بنا بھی لی، تو یہ بہرحال ایک اور ہی جماعت ہوگی، مگر کسی بھی صورت میں اخوان المسلمون نہیں ہو گی۔
اخوان تو ایک ایسے اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشاں ہے، جس میں سے اسلامی حکومت ایک فطری طریقے سے ابھرے، جو امت مسلمہ کی اُمنگوں کی ترجمانی بھی کرے اور شریعت کا نفاذ بھی۔ لیکن یہ خواہش ایک طویل المیعاد ا ور جاںگسل جدو جہد کا مطالبہ کرتی ہے کیونکہ ہمارا ہدف بھی اتنا ہی بلند ہے:
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۴۰ (یوسف ۱۲:۴۰)فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
ہاں، اگر کسی بھی مسلمان ملک میں کوئی اسلامی جماعت، حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے جیسا کہ ترکی میں ہوا تو ہم امت کے بھائی چارے اور آزادیوں اور انصاف کی روش عام ہونے کی مناسبت سے اس پر ضرور خوش ہوںگے۔ لیکن ان جماعتوں کی کامیابی اور اخوان کی حکمت عملی میں موازنہ کرنا خلط مبحث ہوگا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ دو مختلف النوع تحریکوں کا موازنہ ہے، جن کے اصول، اہداف اور طریق کار یکساں مختلف ہیں۔
اخوان المسلمون نے نہ تو اپنے اصولوں کو تبدیل کیا ہے اور نہ وہ مستقبل میں کبھی ایسا کریں گے۔ہمارے نزدیک اسلامی تحریک کا کوئی بھی جزو معطل نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری کامیابی زندگی کے انفرادی، اجتماعی، حکومتی اور ریاستی پہلوؤں کے حوالے سےایک ہمہ پہلو جد و جہد کا عنوان ہے۔ اسی کی ہم دعوت دیتے ہیں اور اسی کے لیےہم تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔
ترکی کی جسٹس پارٹی نے سیکولرزم کے مغربی تصور کے پہلو بہ پہلو چلنے کی رضامندی کا راستہ اختیار کیا ہے جو ہمارے اعلیٰ اجتماعی اور سیاسی ہدف سےیکسر مختلف ہے۔ہم یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک ایسی اسلامی ریاست قائم ہو، جو مغرب کی پاپائیت (Theocracy ) سے بالکل مختلف ہو۔اس موقعے پر ترکی اور مصر کا فرق ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔مصر جہاں اخوان المسلمون متحرک ہے، تمام خرابیوں کے باوجود اس کے دستور میں ریاست کا مذہب اسلام ہے، اسلامی شریعت کے مبادی ،قانون سازی کا مصدر ہیں، جو کہ مصری ریاست کے اسلامی پہلو کا مظہر ہے، جسے کوئی بھی مصری حکومت یا جماعت تبدیل نہیں کر سکتی۔ اس کے بر عکس ترکی کے دستور میں ابھی تک سیکولرزم ہی اس ریاست کی بنیاد ہے اور وہی اس کی قانون سازی کا منبع ہے۔ ترکی خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد سے اب تک مصطفیٰ کمال کی سیکولر قوم پرستی کے تصور پر گامزن ہے اور یورپ میں ضم ہونے کا حریص ہے، باوجود اس کے کہ مسلمان ترک قوم اور لادین یورپ میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اسی جوہری اختلاف سے حق اور انصاف کے دو مختلف معیار وجود میں آتے ہیں، جن میں اتفاق ممکن نہیں ہے۔
اس تفصیل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو شخص بھی ایک اسلامی جماعت اور اسلامی تحریک کو سمجھتا اور اس کے ساتھ چلتاہے تو ضروری ہے کہ اسلام ہی اس کا پہلا اور آخری ہدف ہوجو اس کے طریق کار اور مقاصد پر مکمل طور پر حاوی ہو۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمیں دل چسپی تو اسلام کے حقیقی مفہوم سے ہے، نہ کہ چندشعار اور اصطلاحات سے۔ اب جو چاہے اپنے لیے جس منزل کا انتخاب کرلے، لیکن یہ بات اچھی طرح جان لے کہ یہ صرف اسلام کا صحیح مفہوم اور اس کا صحیح طریق کار ہی ہے جس کو بقا ملے گی اور اس کے علاوہ سب فنا ہو جائے گا، جس طرح غروبِ آفتاب کے ساتھ دھوپ!
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن کے مئی ۲۰۲۰ء کے شمارے میں ایک اہم مضمون نظر سے گزرا۔ مضمون کا عنوان ہے: ’روزہ اور طبی مسائل‘ اور اس کے مؤلف پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔روزے کے دوران مختلف ادویات اور انجکشن کے استعمال کی مناسبت سے پروفیسر صاحب نے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کی آرا سے مجھے اتفاق ہے مگر روزے کے فاسد ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے کچھ باتیں محل نظر ہیں ۔
ایک عام مشکل کا سامنا اکثر روزے داروں کو کرنا پڑتا ہے کہ روزے کی حالت میں آنکھ، ناک اور کان میں دوا ڈالی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں پروفیسر صاحب رقم طراز ہیں: ’’آنکھ میں دوا ڈالنے کے بارے میں فقہا کی عمومی راے یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ ناک میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ کان کے اندرونی پردے کے صحیح اور سالم ہونے کا سو فی صد یقین ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، البتہ شک کی صورت میں بہتر یہی ہے کہ ماہر ڈاکٹر سے تصدیق کرلی جائے۔ پردہ پھٹا ہو یا اس میں سوراخ ہو تو دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا‘‘۔ ناک اور کان میں دوا ڈالنے کے حوالے سے محترم مضمون نگار کی راے سے ہمیں اتفاق ہے مگر آنکھ کے بارے میں ان کی راے سے ہمیں شدید اختلاف ہے۔ یہ معاملہ تھوڑی سی وضاحت کا طلب گارہے۔ برصغیرمیں عمومی طور پر فتاویٰ کی معروف کتاب فتاویٰ عالمگیری کورہنمائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔یہ کتاب مغل حکمران اورنگ زیب عالم گیر کے دور میں مرتب کی گئی تھی۔ اس بات کو تین سوسال سےزیادہ عرصہ گزرچکاہے۔ یہ اپنے عہد کی عظیم تصنیف ہے اور آج کے دور میں بھی مفید ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ کتاب انسانوں نے مرتب کی تھی اور ان کی راے میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے۔ آنکھ اورکان کی ساخت یا Anatomy کے حوالے سے اس کتاب میں بنیادی غلطی موجود ہے۔ اسی غلطی کو ہمارے دورکےعلما کی اکثریت نے نظرانداز کیا ہے۔
فاضل مضمون نگار بھی آنکھ کی حد تک اسی غلط روش پرگامزن ہیں۔ ہمارے علما کی اکثریت کا خیال ہے کہ آنکھ معتاد راستہ نہیں بلکہ کان معتاد راستہ ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آنکھ کا تعلق ایک باریک نالی یا Duct کے ذریعے حلق اور بعدازاں معدے سے ہوتا ہے، جب کہ ایک صحت مند کان کا تعلق معدے سے نہیں ہوتا۔ اپنی اسی غلط فہمی کی بنیاد پر ہمارے علما روزے کے دوران آنکھ میں دوا ڈالنے کی اجازت دیتے ہیں اور کان میں دوا یاقطروں کا استعمال ممنوع قرار دیتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آنکھ میں دواکے قطرے ڈالے جائیں توان کے اثرات حلق تک پہنچتے ہیں اوربعض اوقات دوا کا ذائقہ بھی محسوس ہوتا ہے۔ گریہ و زاری کے دوران آنسو آنکھ سے خارج ہوتے ہیں مگر ایک نمکین ذائقہ ہمیں حلق میں محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے روزے کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالنے سے احتراز کرنا ہوگا۔ کان کے بارے میں پروفیسر صاحب کی راےدرست ہے۔ جب تک کان کا پردہ مجروح یا Perforated نہ ہو اس وقت تک کان کا تعلق حلق اور معدے سے نہیں ہوتا اور دوا کا استعمال روزے کو فاسد نہیں کرتا۔ اس معاملے میں احتیاط احسن ہے۔
انجکشن کے استعمال کے بارے میں پروفیسر صاحب لکھتے ہیں:
انجکشن چاہے جِلد، گوشت یا رگ میں لگایا جائے اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ روزہ ٹوٹنے کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ کوئی چیز بدن میں معتاد راستے سے داخل ہو،مثلاً منہ، ناک یا مقعد کے ذریعے۔ غیرمعتاد راستےسے کسی چیز کے بدن میں داخل ہونے سے اصولاً روزہ نہیں ٹوٹتا۔
یہاں فاضل مضمون نگار نے ایک بنیادی اصول بیان کردیا ہے کہ انجکشن کسی بھی نوعیت کا ہو اور کسی بھی ذریعےسے استعمال ہو، وہ روزہ ٹوٹنے کا باعث نہیں بنتا۔ یہ اصول بیان کرنے کے بعد کچھ تحفظات کا اظہار بھی فرماتے ہیں:
اگر کوئی مریض پیاس بجھانے کے لیے اور بھوک مٹانے کے لیے روزے میں انجکشن (ڈرپ) کا استعمال کرتا ہے تویہ روزے کی روح کے خلاف ہے اور اس مقصد یا اس نیت سے انجکشن کا استعمال انتہائی نامناسب حرکت ہے لیکن اگر یہ درد یا بخار کا زور توڑنے کے لیے استعمال کیا جائے تواس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
پروفیسرصاحب کی اس راے سے عجیب و غریب صورتِ حال جنم لیتی ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انجکشن کے مذکورہ بالا استعمال سے روزہ ٹوٹتا نہیں ہے مگر یہ روزے کی روح کے خلاف ہے اور انتہائی نامناسب حرکت ہے۔ اس راے کی عملی تطبیق خاصی مشکل ہے اوربے شمار اشکالات پیدا ہوجاتے ہیں، مثلاً ایک شخص شدید نقاہت محسوس کرتا ہے اور ڈاکٹر اسے گلوکوز کی ڈرپ لگا دیتا ہے تو غالباً اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ مریض کی اپنی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ اسی طرح روزے کی حالت میں ذیابیطس کا مریض گلوکوز کی کمی یا Hypoglycemia کا شکار ہوسکتا ہے اور ڈاکٹر کے مشورے سے اسے بین الورید گلوکوز دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے محترم مضمون نگار کے مطابق ایسے شخص کا روزہ بھی فاسد نہیں ہوگا۔ ایک اور صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پانی کی شدید کمی یا Dehydration کی وجہ سے کسی شخص کو نمکیاتی محلول یا Normal Saline کا بین الورید استعمال کرایا جائے۔ غالباً اس کا روزہ بھی قائم رہے گا کیونکہ ایسا شخص بدنیت نہیں ہے اور اس نے معتاد راستوں سے کوئی چیز بدن میں داخل نہیں کی ہے۔
دراصل مضمون نگار کے پیش نظر فقہا کی وہ عمومی راے ہے کہ غیرمعتاد راستوں، مثلاً جِلد، گوشت یا رگ کے ذریعے جسم میں کسی چیزکے دخول سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ہم یہاں بھول رہے ہیں کہ فقہا کی یہ راے اس وقت سامنے آئی تھی جب انجکشن یا ڈرپ وغیرہ کے استعمال کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ اس وقت جِلد اور گوشت کے ذریعے جسم میں کسی چیزکا دخول کیڑوں اور حشرات الارض کے کاٹنے سے ہوتا تھا اور معمولی رطوبت جسم میں داخل ہوجاتی تھی۔ یہ ایک غیرارادی عمل ہوتا تھا اور انسان کی اپنی خواہش کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا تھا۔
کیڑے کے کاٹنے کے حوالے سے فقہا کی راے کا انطباق انجکشن اور ڈرپ پر نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں نئے سرے سے اجتہاد کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ آج کل Parenteral Nutrition کا طریقہ بھی معروف ہوچکاہے، جس میں ورید کے ذریعے اہم غذائی اجزا مریض کے جسم میں داخل کیے جاتے ہیں۔ بہت سارے مریض توایسے ہیں جو برسوں سے کچھ کھائے پیئے بغیر صرف Total Parenteral Nutrition کی بنیاد پر زندہ ہیں۔ ہمارےہراجتہاد کے پس منظر میں یہ معروضی حقیقت موجود ہونی چاہیے کہ آج انجکشن کا استعمال جسم کو غذائیت فراہم کرنے کے متبادل طریقے کے طور پر معروف ہوچکا ہے۔
ہم جو کچھ منہ کے راستے کھاتے پیتے ہیں اس میں کچھ طبیعی اور کیمیائی تغیرات واقع ہوتے ہیں۔ بعدازاں غذائی مواد معدے کےراستے آنتوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ کچھ مقعد اور پیشاب کے راستے خارج ہوجاتا ہے اورکچھ دورانِ خون میں شامل ہوکر جزوِ بدن بن جاتا ہے۔ہم جو کچھ انجکشن کے ذریعے جسم میںداخل کرتے ہیں وہ نظامِ انہضام میں جائے بغیر دورانِ خون میں شامل ہوجاتا ہے اور اپنا کام کرکے یا تو جزوِ بدن بن جاتا ہے یا پھر جسم سے خارج ہوجاتا ہے۔ آخری نتیجہ دونوں صورتوں میں یکساں ہوتا ہے۔ اس آخری نتیجے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں روزے کی حالت میں انجکشن کے استعمال کافیصلہ کرنا ہوگا۔
روزہ فاسدہونے کی وجوہ پر جس انداز سے گفتگو کی گئی ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ پروفیسرصاحب برصغیر کی روایتی فکر کے تحت فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ ۱۴سے ۱۷ جون ۱۹۹۷ء میں کاسابلانکا، مراکش میں اسلامی فقہی کونسل کی نویں کانفرنس منعقد ہوئی جس میں طبی ماہرین اور جیدعلما نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کے چند روز بعد جدہ (سعودی عرب) میںاسلامی فقہی کونسل کی دسویں کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ ان دونوں کانفرنسوں میں دیگر مسائل کے ساتھ روزہ فاسد ہونے کی طبی وجوہ پر ماہرین نے عوام الناس کے لیےجو ہدایات جاری کیں، ان فتاویٰ کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱- غذائیت والے انجکشن لینے سے روزہ فاسدہوجاتا ہے۔
۲- غذائیت والے انجکشن کا استعمال ایسے ہی ہے جیسے منہ کے راستے کھانا پینا۔
۳- روزے کی حالت میں نمکیاتی محلول یا Normal Saline کا بین الورید استعمال بھی روزے کوفاسد کردیتا ہے۔{ FR 645 }
درحقیقت یہ مریض یاڈاکٹر کی نیت کا مسئلہ نہیں ہے۔ معروضی حقیقت یہ ہے کہ روزے کی حالت میں ایک شخص کو انجکشن کے ذریعے غذائی مواد یا نمکیاتی محلول فراہم کیاجارہا ہے اور یہ عمل روزہ فاسد ہونے کا باعث بنتا ہے۔
بعض علما کی راے روزے کی حالت میں انجکشن کےحوالے سے اور زیادہ سخت ہے اور وہ ہرقسم کے انجکشن کے استعمال پر پابندی عائد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انجکشن خواہ غذائیت بخش ہو یا درد اور بخار کے لیے استعمال کیا جائے، دونوں صورتوں میں پانی یا محلول کی مناسب مقدار جسم میں داخل ہوکر دورانِ خون کا حصہ بن جاتی ہے۔ جب معتاد راستوں سے جسم میں داخل ہونے والی اشیا کی ہم تخصیص نہیں کرتے تو یہ تخصیص انجکشن کی صورت میں بھی نہیں ہوگی۔ کسی شخص کوروزے کی حالت میں اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ چھوٹی سی ایک گولی بغیر پانی کے نگل جائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا روزہ فاسدہوجائے گا حالاں کہ ایک چھوٹی سی گولی بھوک اور پیاس پر کوئی اثر نہیں ڈالتی۔ یہی اصول انجکشن کے معاملے میں بھی لاگو ہوگا۔
یہاں فقہ کے ایک اور بنیادی اصول کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اس اصول کے مطابق جس شے کی زیادہ مقدار حرام ہوتی ہے اس کی کم مقدار بھی حرام ہوتی ہے۔ شراب اور دیگر نشہ آور اشیا مقدارسے قطع نظرہرحال میں حرام قراردی گئی ہیں۔ روزے کی حالت میںپانی کا ایک گھونٹ یا گلاس دونوں حرام اور روزے کے فاسدہونے کا ذریعہ ہیں۔ اسی طرح انجکشن خواہ ایک ملی لٹر ہو یا پانچ سو ملی لٹردونوں صورتوں میں ممنوع ہوگا۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے صاحب ِ تفسیر اور ممتاز عالمِ دین مولانا غلام رسول سعیدیؒ نے بڑے سائنسی انداز میں اس مسئلے کا جائزہ لے کر ہرقسم کے انجکشن کو ممنوع قراردیا ہے۔ میں دین کا ادنیٰ طالب علم ہوں مگرمجھے مذکورہ راے میں زیادہ وزن محسوس ہوتا ہے۔ آخر میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جن چیزوں کی ممانعت قرآن و حدیث اور اجماعِ صحابہ سے ثابت ہے، ان پر بحث کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اگر یہ ممانعت بعد میں علما کی طبی معلومات کی بنیاد پر عائد کی گئی ہے تو اس پر بحث کی گنجایش ہے اور ہرایک کی راے میں تبدیلی کا امکان موجودہے۔
دین کے دفاع کے دعوے لے کر اُٹھنے والے بعض لوگوں نے دوسروں کی تردید اور اپنے حوالے سے دعوئوں کی وہ مثالیں پیش کی ہیں کہ پڑھ کر دل دُکھتا ہے۔ یہاں اسی طرح کی ایک مثال پیش خدمت ہے:
تعبیر کی غلطی کے مصنف مولانا وحید الدین خان نے دعویٰ فرمایا کہ: ’یہ کتاب لکھ کر میں نے اسلاف ِ امت کا دفاع کیا ہے‘۔ خان صاحب کے ہاں اس قسم کے دعوئوں پر مبنی واقعات بڑی تعداد میں ملتے ہیں، اور وہ اپنی اکثر کاوشوں کو بڑے دعوے اور یقین کے ساتھ الٰہی منصوبہ قرار دیتے ہیں۔۱ بعض اوقات ان کا یہی رویہ عجیب صورت اختیار کرلیتا ہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے اپنے ادارے، سی پی ایس انٹرنیشنل (CPS: Centre for Peace and Spirituality International)کی ٹیم کے بارے میں ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اس کو ’اخوان رسول‘ قرار دیا ہے:
’’ماضی اور حال کے تمام قرائن تقریباً یقینی طور پر بتاتے ہیں کہ سی پی ایس کی ٹیم ہی وہ ٹیم ہے، جس کی پیشین گوئی کرتے ہوئے پیغمبرؐ اسلام نے ان کو اخوان رسول کا لقب دیا تھا۔ اصحابِ رسولؓ کوئی عجیب الخلقت لوگ نہ تھے بلکہ وہ عام انسانوں کی طرح انسان تھے۔ اسی طرح اخوان رسول بھی کوئی عجیب الخلقت لوگ نہ ہوں گے، بلکہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح انسان ہوں گے۔ ان کی پہچان یہ نہ ہوگی کہ وہ انوکھے جسم والے ہوں گے یا یہ کہ وہ کرامتیں دکھائیں گے۔ ان کی پہچان صرف یہ ہوگی کہ وہ دعوتِ حق کے اس ربّانی مقصد کے لیے کھڑے ہوں گے، جس پر رسولؐ اور اصحابِ رسولؓ کھڑے تھے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان بہت سی تحریکیں اٹھیں، مگر وہ ’اخوانِ رسول‘ کا درجہ نہیں پاسکتیں۔ اس لیے کہ اخوانِ رسول کا درجہ صرف وہ لوگ پاسکتے ہیں، جو ما انا علیہ واصحابی کا مصداق ہوں۔ موجودہ زمانے میں اٹھنے والی تمام تحریکیں رد عمل کی تحریکیں تھیں۔ ان میں سے کوئی بھی تحریک ایسی نہیں، جس کا یہ کیس ہو کہ اس کے رہنما نے ردّ عمل کی نفسیات سے مکمل طور پر خالی ہوکر، قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا، اور پھر خالص مثبت بنیادوں پر اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ خصوصیت صرف ’سی پی ایس انٹرنیشنل کی تحریک‘۲ میں پائی جاتی ہے۔ تاریخ میں اہلِ حق کے لیے جو بڑے بڑے امکانات رکھے گئے تھے، اب وہ سب امکانات ختم ہوچکے ہیں۔ پیغمبروں کا ساتھ دینا، مسیحؑ کا حواری بننا، پیغمبر آخر الزماںؐ کے اصحاب میں شامل ہونا۔ اب صرف ایک بڑا درجہ باقی رہ گیا ہے، یہ درجہ اخوانِ رسول کے گروپ کا حصہ بننا ہے۔ اس کے بعد جو چیز ہے، وہ تاریخ کا خاتمہ (end of history) ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تاریخ کا آخری مبارک موقع ہے۔ جس نے اس موقعے کو پالیا، اس نے سب کچھ پالیا اور جس نے اس موقعے کو کھودیا، اس نے سب کچھ کھودیا‘‘۔۳
خان صاحب کے ہاں ایسے واقعات کمی نہیں ہے، اور ایسےعرفانی دعوے آپ کی تحریروں میں بکھرے پڑے ہیں۔ یہاں ہمارے پیشِ نظر ان کی کتاب تعبیر کی غلطی سے اسلافِ امت کا تعلق واضح کرنا ہے کہ خود موصوف، اسلافِ امت کے مقابل کہاں کھڑے ہیں؟ مذکورہ کتاب دراصل مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی(۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء) پر تنقید کی غرض سے لکھی گئی ہے۔ اُوپر کی سطور میں ذکر ہوا کہ اس کتاب کو بھی انھوں نے ’الٰہی منصوبہ قرار دے کر اسلافِ امت پر احسان‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔خان صاحب کے مطابق مولانا مودودی کی سیاسی فکر اسلافِ امت سے انحراف اور ان کے تصورِ دین کے بارے میں بے اعتمادی کا اظہار ہے۔۴ تاہم، یہ رُوداد دل چسپ ہے۔ وہ مذکورہ کتاب لکھنے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:
’’میرے لیے یہ احساس ساری دنیا کی نعمتوں سے بڑھ کر لذیذ ہے کہ میری یہ کتاب اسلاف کے اوپر وارد ہونے والے اعتراض کی مدافعت ہے۔ میں اپنے عاجز اور ناتواں وجود کے ساتھ، ان کی طرف سے دفاع کرنے کے لیے اٹھا ہوں۔ یہاں مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آتا ہے جو ۷مارچ ۱۹۶۳ء کو پیش آیا۔ ان دنوں میں [مولانا مودودی کی کتاب] قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں کے استدلالات کی تحقیق کے سلسلے میں بے حد مشغول تھا۔ دارالمصنّفین اعظم گڑھ کے کتب خانے کا وسطی کمرہ ہے، چاروں طرف تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، علمِ کلام اور لغت کی ایک درجن سے زیادہ الماریاں دیوار سے لگی ہوئی رکھی ہیں۔ ایک بجے دن کا وقت ہے۔ کتب خانے کے بیرونی دروازے بند ہوچکے ہیں، اور تمام لوگ دوپہر کے وقفے میں اپنے اپنے ٹھکانوں کو جاچکے ہیں۔ مکمل تنہائی کا ماحول ہے جس میں ایک طرف میں ہوں اور دوسری طرف کتابیں۔ مسلسل مطالعے کی وجہ سے اس وقت میری کیفیت یہ ہوچکی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے میرے سارے بدن کا خون نچوڑ لیا ہو۔ تفسیر ابن جریر کی ایک جلد دیکھ کر میں اٹھا کہ اس کو الماری میں رکھ کر دوسری کتاب نکالوں، مگر اُٹھا تو کمزوری کی وجہ سے چکّر آگیا، اور سمت بھول گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کدھر جاؤں اور کس الماری سے کتاب نکالوں؟ کچھ دیر کے بعد ہوش میں آیا تو معلوم ہوا کہ متعلقہ الماری فلاں سمت میں ہے۔ اس واقعے کے کچھ دیر بعد جب میں نے اپنے ہواس [حواس]کو یک جا کیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا گویا میں زیر بحث نظریے کے بارے میں اسلافِ امت سے تبادلۂ خیال کرنے کے لیےبہت دُور چلا گیا تھا اور چلتے چلتے تھک گیا۔ مگر اس کمزوری اور تکان کے باوجود مجھے یہ سوچ کر خوشی ہورہی تھی کہ مجھے ان کی راے معلوم ہوگئی ہے، اور اب میں اس پوزیشن میں ہوں کہ ان کی طرف سے پورے اعتماد کے ساتھ زیرِ بحث تصورکی تردید کر سکوں۔ مجھے ایسا نظر آیا گویا یہ تمام الماریاں اور ان میں بھری ہوئی کتابیں اسلاف کی روحیں ہیں، جو میرے پیچھے کھڑی ہیں اور اپنے کمزور ہاتھوں اور کانپتے ہوئے قدموں کے ساتھ ان کی طرف سے مدافعت کرنے کے لیے جارہاہوں۔ یہ سوچ کر اتنی خوشی ہوئی کہ تکان اور بھوک پیاس سب بھول گئی اور میں دوبارہ مغرب تک کے لیے اپنے مطالعے میں مشغول ہوگیا‘‘۔ ۵
خان صاحب نے اسلافِ امت کے ساتھ محبت کا اظہار بہت عقیدت مندانہ اسلوب میں کیا ہے۔ کتاب کے مقدمے میں ایسا اظہارِ عقیدت دیکھ کر قاری کا متاثر ہونا لازمی امر ہے۔ مزید یہ کہ خان صاحب کے عقیدت مندوں سے جب بھی تعبیر کی غلطی کے موضوع پر گفتگو ہوئی، انھوں نے سب سے پہلے اسی واقعے کا حوالہ دیا۔ لیکن وہ یہ بات نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں کہ خود خان صاحب کا اپنا پورا نتیجۂ فکر کہاں تک اسلاف امت سے موافق ہے؟ وہ مسائل جو مسلم روایت میں اساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے صدیوں پہلے لوگ اسلاف امت سے الگ ہوئے، خان صاحب نے انھی مسائل میں نہایت ناہموار بلکہ تکلیف دہ اسلوب میں اختلاف کیا ہے۔ جیسے موصوف کا تصورِ جہاد مکمل طور پر مسلم روایت سے ہٹا ہوا ہے۔ شتمِ رسول کے مسئلے پر آپ اسلافِ اُمت کے بالکل مقابلے پر کھڑے ہیں، اور اس کی بہت ساری مثالیں آپ کی تحریروں میں موجود ہیں۔ مزید برآں موافقت تو بعد کی بات ہے، خان صاحب تو اسلافِ امت کے حوالے سے غیرتہذیب یافتہ اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ ۶
فقہ اور فقہاے کرام کے بارے میں لکھتے ہیں:’’حج کے مسائل جو قرآن و حدیث میں ہیں، وہ اتنے کم ہیں کہ چند صفحات میں لکھے جاسکتے ہیں، مگر فقہا نے دوسری عبادات کی طرح حج کے بے شمار مسائل وضع کر رکھے ہیں ۷ جن کا احاطہ عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ اس ’اضافہ‘ کے حق میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ ’حجاج کی سہولت کے لیے کیا گیا ہے‘ مگر اس استدلال میں کوئی وزن نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فقہی مسائل پڑھ کر کوئی شخص نہ نماز پڑھ سکتا ہے، نہ حج کرسکتا ہے۔ یہ کام ایسا ہے جو دیکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے رسولؐ اللہ نے نماز کے مفصل احکام بتانے کے بجاے یہ فرمایا: صَلُّو کما رایتمونی اصلی۔ یہی اصل طریقہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر صحابہؓ نے نماز پڑھی، صحابہؓ کو دیکھ کر تابعینؒ نے، تابعینؒ کو دیکھ کر تبع تابعینؒ نے۔ اس طرح یہ سلسلہ آج تک چلا جارہا ہے۔ اگر لوگوں کے پاس صرف فقہ کے نام نہاد تفصیلی مسائل ہوتے تو لوگ کبھی صحیح نماز نہ پڑھ سکتے۔ امام ابو حنیفہ اس فن کے سب سے بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں، مگر [ان کے شاگرد] وکیع کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے ان سے کہا کہ میں نے مناسک کی ادایگی میں پانچ غلطیاں کیں۔ پھر ایک حجام نے مجھے بتایا۔۸
اوپر خان صاحب بیان کرچکے ہیں کہ: مولانا مودودی کی تعبیر، اسلاف کے تصورِ دین کے بارے میں بے اعتمادی کا اظہار ہے اور پھر اسلاف سے تبادلۂ خیال کرکے ان کی مدافعت کا دعویٰ بھی کرچکے۔ لیکن یہاں پر خود انھوں نے فقہا کی صدیوں کی محنت کو ’وضع مسائل‘ سے موسوم کیا ہے۔ جناب خان صاحب نے نماز کے مسئلے پر جو بحث کی ہے، اگرچہ اس وقت وہ ہمارا موضوع نہیں ہے، تاہم اس پر مختصراََ عرض ہے کہ آپ کا یہ فرمانا قانونی مسائل سے بے خبری کی بہت بڑی دلیل ہے۔ پھر خان صاحب نے ایک جگہ دین کی روایتی تعبیر و تشریح کو دین کے اُوپر’گرد و غبار‘ اور آمیزش قرار دیا ہے۔ ۹البتہ ان کی کتابوں میں ’تجدید دین‘ اسلاف امت کے خلاف چارج شیٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں انھوں نے مسلم روایت کو ہر پہلو سے رگیدا ہے۔ اسی سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں:
’’یہ کہنا صحیح ہوگا کہ فقہ اور تصوف اور علمِ کلام کی شکل میں جو اضافے اسلام میں ہوئے، ان کا سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ قرآن کا سِرا امت کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ان اضافوں نے دین کو ایک قسم کا فن بنا دیا۔ کتابِ الٰہی میں جو چیز سادہ اور فطری انداز میں بتائی گئی تھی، اس میں اپنی طرف سے موشگافیاں کرکے نئے نئے مسئلے پیدا کیے اور بطور خود بے شمار اصطلاحات وضع کیں تاکہ ان کو فنی انداز میں بیان کیا جاسکے‘‘۔ ۰
اس استدلال پر مزید لکھتے ہیں:’’ایک خالی الذہن شخص ہمارے اسلامی کتب خانے کو دیکھے تو وہ حیرت انگیز طور پر ایک اختلاف کا مشاہدہ کرے گا۔ یہ دین منزل اور دین مدون کا اختلاف ہے، جو بہت بڑے پیمانے پر اسلام کے اندر پیدا ہوگیا ہے۔ خدا کا دین قرآن و حدیث میں ایک سادہ اور فطری چیز نظر آتا ہے۔ وہ دلوں کو گرماتا ہے اور عقل میں جِلا پیدا کرتا ہے۔ مگر یہی الٰہی علوم جب انسانی کتابوں میں مدون ہوکر ہمارے سامنے آتے ہیں، تو اچانک وہ ایک ایسی شکل اختیار کرلیتے ہیں، جس میں خشک بحثوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان میں نہ دلوں کے لیے گرمی ہے اور نہ عقل کے لیے روشنی۔ قرآن میں بھی فقہ ہے مگر وہ کنز الدقائق (ابوالبرکات نسفی) کی فقہ سے مختلف ہے‘‘۔؎ ۱۱
خان صاحب آگے چل کر فقہا کو یہودی فریسوں سے تشبیہ دیتے ہیں:’’ آج پیغمبر آخر الزماںؐ کی امت خود انھی ’اصر و اغلال‘ کے نیچے دب چکی ہے۔ ان کے فقہا اور مشائخ نے اسلام میں وہ سارے اضافے کر ڈالے ہیں، جو یہودی فقیہوں اور فریسوں نے شریعت موسوی میں کیے تھے۔ آج اسلام کی تجدید کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اسلام کو ان تمام اضافوں سے پاک کردیا جائے۔ جب تک یہ کام نہ ہو، اسلام زندہ نہیں کیا جاسکتا‘‘۔؎۱۲
دراصل یہ متجددین کی وہ قطعیت بیانی ہے، جس سے ان کو فقہا کا فہمِ دین ’شریعت سازی‘ اور ’دین میں آمیزش‘ لگتی ہے ، اور اپنے موقف کو منزل من اللہ سمجھتے ہیں۔؎ ۱۳
خان صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فقہا، محدثین اور متکلمین کی کاوشیں بہ یک بینی و دوگوش رد کردی جائیں، جب کہ دوسری طرف موصوف نے مولانا مودودیؒ پر تنقید کرتے ہوئے انھی حضرات سے اپنا فکری رشتہ ظاہر کرکے خود کو اسلافِ امت کے وکیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ ؎ ۱۴ خان صاحب کی تحریروں میں امت کے بڑے ائمہ کے لیے عزت کے الفاظ نہیں ملتے۔ جہاں بھی فقہا اور محدثین کا ذکر کرتے ہیں، تو نہایت طنزیہ اسلوب اپناتے ہیں۔ اس مختصر تحریر میں صرف ان کی اس دلیل کا تعارف کرانا تھا کہ جس میں انھوں نے خود کو ’اسلاف کا ترجمان‘ ظاہر کیا ہے اور خود انھوں نے اسلاف کے بارے میں کیا لکھا ہے ع
اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی
_______________
۱- مثال کے طور پر وحید الدین خان اپنے مضمون: ’خواب پورا ہوگیا‘ میں لکھتے ہیں:’’ یہ کام عینِ خدا کے منصوبے کے تحت اپنی تکمیل کو پہنچا۔ آج جب میں نے تذکیر القرآن کو مکمل کیا تو میرے دل نے کہا: جو کام مجھے کرنا تھا وہ کام آج پورا ہوگیا۔ اب ان شاءاللہ خدا کے دین پر کوئی شخص پردہ نہ ڈال سکے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے‘‘۔ ( ماہنامہ الرسالہ ، دہلی،اکتوبر۱۹۸۶ ء ، ص ۲۶)
۲- یہاں پر خان صاحب نے اپنی ٹیم کو ’تحریک‘ کا نام دیا ہے، حالاں کہ ان کو اس اصطلاح سے سخت چڑہے۔
۳- سی پی ایس انٹرنیشنل، وحید الدین خان مشمولہ: ماہنامہ تذکیر، ستمبر۲۰۰۶ ء، ص۴۲ (یاد رہے تذکیر، دہلی سے شائع ہونے والے، وحید الدین صاحب کے ماہنامہ الرسالہ کا پاکستانی ایڈیشن ہوا کرتا تھا۔)
۴- اقامتِ دین کا قرآنی مستدل سورئہ شوریٰ ۴۲،آیت ۱۳ شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ…… ہے۔ اس پر مولانا نے بعض اعتراضات کیے ہیں۔ جس کے جواب میں ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے سلف کی آرا نقل کر کے یہ واضح کیا ہے کہ: سلف کے ہاں بھی اس آیت کی تفسیر مولانا مودودی سے مختلف نہیں ہے۔ دیکھیے: اقامتِ دین اور نفاذِ شریعتؒ (نئی دہلی: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشر، ۲۰۱۲ء)
۵- وحید الدین خان، تعبیر کی غلطی، لاہور، دارالتذکیر، اگست ۱۹۶۲ء، ص ۱۴-۱۵
۶- خان صاحب نے فقہا اور محدثین میں سب سے زیادہ بے زاری بلکہ نفرت کا اظہار امام ابن تیمیہؒ (م: ۷۲۸ھ) کے بارے میں کیا ہے۔ اپنی کتاب شتمِ رسول کا مسئلہ' میں امام ابن تیمیہ کے بارے میں سخت تکلیف دہ اسلوب اختیار کیا ہے (دیکھیے: شتمِ رسول کا مسئلہ، لاہور: دارالتذکیر ۱۹۹۷ء ، ص۱۰۴-۱۱۳)۔ اختلاف خان صاحب کا حق ہے، لیکن امام ابن تیمیہؒ جیسی جلیل القدر شخصیت، فقیہ اور محدث کے لیے، طفلانہ جملے لکھنا حددرجہ ناانصافی ہے۔ چند ماہ پیش تر بھی امام ابن تیمیہؒ کو اسی پیرایے میں مخاطب کیا تھا ۔ (دیکھیے: الرسالہ ،دہلی، اپریل ۲۰۱۸ء)
۷- اصولِ فقہ سے ان متجدّدین کی بے خبری کی یہی سب سے بڑی دلیل ہے۔
۸- الرسالہ ( جولائی ۱۹۸۴ء)، ص ۳۷۔ امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں یہ قصہ، محض ایک افسانہ ہے ۔ دیکھیے: محمد انور شاہ ابن معظم شاہ کشمیری، العرف الشذی شرح سنن الترمذی (بیروت، داراحیاء التراث العربی)، ج ۲، ص ۲۷۰-۲۷۱
۹- وحید الدین خان، تجدید دین ،لاہور، دارالتذکیر، ۲۰۰۳ء، ص ۱۷،۱۸
۱۰- ایضاً، ص ۷۱ ۱۱- ایضاً، ص ۷۳ ۱۲- ایضاً، ص۷۵
۱۳- اپنے فہم کو وحی و الہام سے کم حیثیت میں نہیں دیکھتے۔ بالکل اسی طرح خان صاحب بھی اپنے فہمِ دین کو واحدحق سمجھتے ہیں۔ جناب محمد عمار خان ناصر، موصوف صاحب کی اس قطعیت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مولانا [وحید الدین خان ] کے زاویۂ نگاہ سے اصولی طور پر اتفاق رکھنے والے اہل فکر کا ایک حلقہ یہ محسوس کرتا ہے کہ مخالف فکری زاویوں اور شخصیات پر تنقید کے لیے ان کا اختیار کردہ لب ولہجہ اور اسلوب ’رایی صواب یحتمل الخطا ورایھم خطا یحتمل الصواب‘ کے ذہنی رویے کے بجاے حتمیت کی عکاسی کرتا ہے، اور وہ اپنے زاویۂ نگاہ کو ایک ’نقطۂ نظر‘ سمجھنے کے بجاے ’واحد درست طرزِ فکر‘ قرار دینے پر اصرار میں حد اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں… افسوس ہے کہ اس ذہنی رویے نے اب ایک ایسا رُخ اختیار کر لیا ہے، جس سے ہماری راے میں نہ صرف مولانا [وحیدالدین خان]کی پوری جدوجہد کی افادیت پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے ، بلکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ وہ خود دین کے حوالے سے ایک بے حد خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے‘‘۔(مضمون:’سی پی ایس انٹرنیشنل کسی نئے فتنے کی تمہید‘ ، ماہ نامہ الشریعہ ، گوجرنوالہ، اکتوبر۲۰۰۶ء، ص۲۵)
۱۴- خان صاحب کی فکر ایک لحاظ سے مولانا مودودیؒ کی مخالفت سے وجود میں آئی ہے۔ جس کی وجہ سے انھوں نے دین میں اجتماعیت سے ہر سطح پر انکار کردیا۔ تعبیر کی غلطی کے اثر سے مولانا سیّدابوالحسن علی ندویؒ (۱۹۱۴ء-۱۹۹۹) اور مولانا محمد منظور نعمانی ؒ(۱۹۰۵ء- ۱۹۹۷ء) بھی محفوظ نہ رہے۔ تاہم، وہ اجتماعیت کے مقابلے میں انفرادیت پر جس شدت کے ساتھ زور دیتے ہیں بالکل اسی طرح روحانیت حاصل کرنے کے لیے پوری دینی روایت پر خطِ تنسیخ پھیر دیتے ہیں۔ اوپر ذکر ہوا ہے کہ خان صاحب کی کتاب تجدیدِ دین' دینی روایت کے خلاف چارج شیٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم یہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ خان صاحب، جیّد فقہا کی کاوشوں کو دین پر اضافہ سمجھتے ہیں، دینی روایت سے بے زاری کی اس سے کیا بڑی بات ہوسکتی ہے۔ بہ تکرار عرض ہے کہ وحیدالدین صاحب نے مولانا مودودی پر تنقید کرتے ہوئے اپنے عمل کو ’اسلافِ امت‘ کا دفاع قرار دیا تھا۔ تاہم، ایک جگہ سلف کے فہم پر طنزیہ انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حامل کتاب قوم میں یہ زوال اس وقت آتا ہے،جب کہ خدا کے دین کو ’فن‘ بنا دیا گیا ہو۔ فن نام ہے کسی حقیقت کو ناپ تول کی زبان میں متعین کرنے کا۔ اب چوں کہ اندرونی حقیقت ناپ تول کی گرفت میں نہیں آتی، وہ صرف بعض ظاہری پہلوؤں کو بیان کرسکتی ہے، اس لیے جب کسی قوم کے اندر ا س قسم کے فنون ترقی کرتے ہیں تو ظاہری بحثوں والے دین کے ماہرین تو ان کے یہاں خوب پیدا ہوتے ہیں، مگر ایسے لوگ ناپید ہوجاتے ہیں، جو کیفیت والے دین سے آشنا ہوں۔ عبادت جو دل کی گھلاوٹ کا نام ہے، فقہی ناپ تول کے ایک ظاہری عمل کا نام رہ جاتی ہے۔ روحانیت جو خدا اور آخرت کی سطح پر جینے کا نام ہے، اس کے مقامات عملیاتی ورزشوں سے طے ہونے لگتے ہیں۔ دعوتِ دین جو دراصل بندوں کے ساتھ خیرخواہی کا اظہار ہے، وہ تقریر اور تحریر، مناظرہ اور احتجاج، حتیٰ کہ ہڑبونگ اور توڑپھوڑ کی صورت اختیار کرلیتی ہے، وغیرہ‘‘۔ (تجدیدِ دین، ص۱۹-۲۰)
یہ حقیقت واضح ہے کہ پروردگارِ عالم نے کرّہ ارض پر انسانوں کو بسا کر یہ دیکھنا چاہا ہے کہ کون بندگی کا راستہ اختیار کرتا ہے اور کون سرکشی دکھاتا ہے؟اللہ تعالیٰ بند گی اختیار کرنے والوں کو دائمی فلاح و کامرانی سے نوازیں گے اور سرکشی دکھانے والوں کو سزا دیں گے۔ دنیوی زندگی کو اس امتحان کے لیے سازگار بنانے کی خاطر شریعت دی گئی، تاکہ زندگی کا نظم ونسق بھی چلے اور افراد کی آزادیِ اختیار بھی باقی رہے۔یہاں پر ہم اس بات پر غور کریں گے کہ مقصدِ تخلیق اور مقاصدِ شریعت کی روشنی میں اسلامی تحریکات کا کیا رول ہونا چاہیے؟ اسلامی تحریکات سے ہماری مراد وہ تحریکات ہیں جو گذشتہ دو سو سال سے سرگرم کار ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے [سیاسی]زوال کو عروج سے اور مغلوبیت کو اسلام کے غلبے سے بدلنا چاہتی ہیں۔ چوںکہ اس سوال کا جواب (کہ اسلامی تحریکات کیا طریق کار اختیار کریں؟) آنے والے دنوں سے متعلق ہے، اس لیےپہلے ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ مستقبل کیسا ہوگا؟
یہ ایک فطری خیال ہے کہ آنے والے دن گزرے دنوں سے مختلف ہوںگے ،ہم مل جل کر سوچیں کہ کیوں اور کس حد تک مختلف ہوسکتے ہیں؟ اور یہ کہ اپنا اندازکار بدل کر نئے حالات میںکس طرح نئے طریقے اختیار کر سکتے ہیں؟اس امید کے ساتھ کہ بدلے ہوئے طریقے تحریک اسلامی کو اپنے مقصد، یعنی اللہ کے بندوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانے میں کامیابی کی طرف لے جائیں گے۔
سب سے پہلے ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں دنیا آج کی دنیا سے کن باتوں میں مختلف ہوگی؟ آبادی بڑھے گی، دیہات سے شہر منتقلی بڑھے گی،مواصلات اور نقل و حمل کی تیزی بڑھے گی،ہر ملک میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ اور مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہیں گے، غریبی اور محتاجی کم ہوگی، مگر دولت اور آمدنی میں فرق بڑھتا جائے گا۔ حکمرانی میں عوام کی شرکت بڑھے گی،مقامی حکومت اور بین الاقوامی اداروں کا رول بڑھے گا،قومی حکومتوں کا عمل دخل اور دور دورہ کم ہو گا۔ خاندان کی گرفت ڈھیلی پڑتی جائے گی،اوسط انسانی عمر میں اضا فہ ہوگا، لوگ طویل عمر تک زندہ رہیں گے۔ صحتیں پہلے سے بہتر ہوں گی۔ ہر آدمی،مرد ہویا عورت،اپنی فکر میں لگارہے گا، خود غرضی بڑھےگی۔ باہمی تعاون میں کمی آئے گی۔ باہم لین دین کےمعاملات درمیانی واسطوں کے بغیر براہ راست ہوں گے ،(مثلاً انٹرنٹ کے ذریعے۔) زرِ نقد، کا استعمال کم سے کم ہوگا۔ بڑی کارپوریشنوں کا زوال ہوگا، مالیاتی لین دین (Finance) میں بھی بڑے اداروں کی جگہ جو درمیانی واسطوں کا کام کرتے ہیں،براہِ راست مالیات فراہم کرنے والوں اور مالیات کے ضرورت مندوں کے باہمی ربط کا رواج بڑھے گا۔ ماحولیاتی تحفّظات کے سبب شرحِ نمو کم ہوگی، ہو سکتا ہے معیار زندگی بھی کمی کی طرف مائل ہو۔
دنیا کی چودھراہٹ کی دوڑ اور بڑی طاقتوں کی باہمی کشاکش بڑھے گی یا کم ہوگی، کچھ کہنا مشکل ہے۔ اگرچہ امن عالم کے بارےمیں کچھ کہنا اس سوال کا جواب دیے بغیر ممکن نہیں۔ رہا معاملہ عدل کا تو کوئی قطعی بات کہنا مشکل ہے۔ سماجی عدل کا ا نحصار نابرابری میں کمی اور کفالت عامّہ و شاملہ پر ہے، اور معاملات میں انصاف تب ہوتا ہے جب لوگ ایک دوسرے کے حقوق دینے کو تیار ہوں اور حکومت استحصالی ہو نے کے بجاے عوام کی خدمت میں مخلص ہو۔ دونوں باتوں کا تعلّق اخلاقی اقدار اور روحانی تصوّرات سے ہے(زندگی کیوں،کہا ں سے، کدھر کو؟) جب کہ باقی مذکورہ بالا باتوں کا تعلّق ٹکنالوجی سے ہے۔د یکھنا یہ ہے کہ ٹکنالوجی بدلنے سے ہونے والی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا ہے اوردوسروں کے ساتھ عد ل و انصاف سے پیش آنے کے لیے لوگوں کو کیسے آمادہ کیا جائے؟ استحصالی حکمرانی کی جگہ خدمت گار حکمرانی لانے کا مسئلہ، مستقبل کے سیاق میں، خصوصی غور و فکر کا طالب ہے۔
اسلام [ایک بنیادی حد کے بعد] لوگوں کی آزادیاں برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ٹکنالوجی ہو یا اس میں تبدیلی سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل، اصولی طور پر لوگ آزاد ہیں جو چاہیں کریں۔ البتہ کچھ مقاصد ہیں جن کو سامنے رکھنا چاہیے ، کچھ حد یں ہیں جن کے اندر رہنا ہوگا۔ یہ حدود اور مقاصد انسانوں کی اپنی بھلائی کے لیے ہیں۔ اس میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان حدود و مقاصد کو جاننے کے لیے کن مآخذ کی طرف رجوع کیا جائے؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ یہ حدود و مقاصد دائمی ہیں یا اُن میں تبد یلی ہوسکتی ہے؟ اگر ان میں لچک ہے تو اس کا معیار کیا ہے؟ ایک اور پہلو جو قابلِ توجّہ ہے، حدود اور مقاصد کے رول کو ایک دوسرے سے ممتاز کر کے سمجھنا ہے۔
پہلے آخری سوال کو لیتے ہیں۔یقیناً مقاصد مذکورہ حدود سے زیادہ اہم ہیں۔ اس لیے کہ انسانوں اور معاشروں اور تنظیموں کی جانب سے حدیں اصلاً مقرر کی گئی ہیں، مقاصد میں یک گونہ ہم آہنگی اور توازن پیدا کرنے اورمؤثر بنانےکے لیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقاصد دائمی ہیں مگر یہ وضعی حدیں لچک رکھتی ہیں۔ مقاصد میں اگر کوئی لچک ہے تووہ درجۂ تحصیل سے متعلّق ہوگی(یعنی مقداری لچک)کہ خود مقاصد نہیں بدلتے۔ گویا مقاصد معیار کا درجہ رکھتے ہیں۔ وسائل کم ہوں تو درجۂ تحصیل کم ہوگا،وسائل فراواں ہوں تو درجۂ تحصیل زیادہ ہوگا۔ البتہ حدوں میں لچک مقداری (Quantitative)اور وصفی(Qualitative)دونوں طرح کی ہوتی ہے،تاکہ بدلتے حالات میں تحصیلِ مقاصد ممکن ہوسکے۔
ہم اس بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ سارے انسانوں کو کھانا پینا، کپڑا اور سر چھپانے کی جگہ ملے، یہ مقصود ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہر اس فرد کو، جو کام کرسکتا ہے محنت کرنا چاہیے۔ جوافراد کم عمری، بڑھاپے، یا کسی معذوری کی وجہ سے اپنی ضروریات خود نہ پوری کر سکتے ہوں ان کی ذمّہ داری ،پہلے قدم پر، خاندان کے قریبی ان رشتہ داروں پر ڈالی گئی ہے کہ جو اس کی قدرت رکھتے ہوں۔ جن خاندانوں میں اس فارمولے پر عمل سے کام نہ چلے، یا جب خاندان بکھر چکے ہوں (جیسا کہ آج کل دیکھنے میں آرہا ہے)، تو ان معذوروں اور ضرورت مندوں کے لیے اجتماعی بندوبست درکار ہے۔ اکثر حالات میں غیر سرکاری ادارے، مثلاً: یتیم خانے وغیرہ یہ ذمّہ داری سنبھال لیتے ہیں۔ آخری چارہ کار ریاستی طور پر ضرورت کی تکمیل ہے۔ ہرصورت میں ضرورت کی تکمیل کا معیار اس ملک یا آبادی کو میسّر وسائل پر منحصر ہے۔
اس ذمّہ داری کی ادایگی کے لیے اسلام نے حکمراں کو امیروں سے ، زکوٰۃ ناکافی ہونے کی صورت میں مزید ٹیکس لینے کا بھی اختیار دیا ہے ( جہاں تک عمل کا سوال ہے ،پندرہ سو برسوں میں اس ذمّہ داری کی ادایگی یا اس کی ادایگی میں کوتاہی کی بے شمار مثالیں مسلمان ملکوں میں ملیں گی)۔ انسانی ہمدردی اور خدمت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حاجت روائی ضرب المثل اور معروف ہے۔ ضرورت پڑی تو آپؐ نے مکّہ والوں کو غذائی امداد بھیجی حالاں کہ اس وقت تک مکّہ والے دائرۂ اسلام میں نہیں داخل ہوئے تھے۔دوسرے خلیفہ،سیّدنا عمر فاروقؓ نے قحط کے زمانے میں مدینہ کی عام آبادی کو کھانا کھلانے کا انتظام کیا تھا۔ ترقّی یافتہ ممالک میں جب سے فلاحی ریاست کے تصوّر نے جڑ پکڑی ہے اس بارے میں ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔ آج بعض ممالک میں ہرشہری کو مفت تعلیم،علاج، نقل و حمل اور دوسری سہولتیں حاصل ہیں۔ جدید اسلامی معاشرے کو مقامی حالات اور عالمی معروفات کی روشنی میں اپنا موقف اختیار کرنا ہوگا۔
یہ مثال نسبتاً سادہ سی تھی، جس کے بارے میں زیادہ اختلاف کی گنجایش نہیں۔ اب ہم ایک دوسری مثال پیش کریں گے جس کی تفصیلات میں اختلاف کی کافی گنجایش ہے۔ انسانی عزّوشرف بھی ایک مقصد ہے جس کے ایک تقاضے کے طور پر یہ حکم دیا گیا ہے کہ اجتماعی امور باہمی مشورے سے طے کیے جائیں۔ تکریم بنی آدم کا مقصد جبرواستبداد سے اِبا کرتا ہے۔ یہ بات کہ کچھ لوگ دوسروں پر حکم چلائیں، نسلی بادشاہی ہو، کچھ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فیصلوں میں شرکت سے محروم کردیے جائیں، اسلام کو منظور نہیں۔
اس طریقے پر عمل درآمد کی کچھ مثالیں عہد نبویؐ اور خلافت راشدہؓ کے زمانے میں ملتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکّہ سے مدینہ آئے تو آپؐ نے آبادی کے مختلف گروہوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ایک ایسا دستور بنایا جس میں آپؐ حکمران تھے، مگر غیر مسلم بھی اس وفاق میں برابر کے شریک تھے۔ سیّدنا عمرفاروقؓ نے مجوسی مذہب والوں کے جذبات کی رعایت سے انھیں حفاظتی ٹیکس، جزیہ سے مستثنیٰ کرتے ہوئے ان پر دوسرا ٹیکس لگایا۔ قدیم دور میں جو نظیریں ملیں، وہ اس زمانے کے معروفات، عادات اور امکانات کو سامنے رکھ کر سمجھی جانی چاہییں۔ آج اس مقصد کو آج کی عادات، معروفات اور امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے حاصل کرنا ہو گا۔ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دینا، غیر مسلم شہریوں کی شرکت کا خیر مقدم کرنا اور ملکی فیصلوں میں بین الاقوامی قانون اور عہد و پیمان کا لحاظ رکھنا، ایسے امور ہیں، جن کو جدید اسلامی فکر کی تائید حاصل ہے (اگرچہ اس حوالے سے اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔) اس کے سوا چارہ نہیں کہ اس بارے میں اختلاف کو بھی باہمی مشوروں سے طے کیا جائے، اس شرط کے ساتھ کہ اصل مقصد نہ فوت ہو،یعنی آدم کی ہر اولاد برابر کی عزّت رکھتی ہے، جو اسے ملنی چاہیے۔
ہماری نظر مقاصدِ شریعت پر ہونی چاہیے۔ فوری طور پر حدود کے نفاذ پر اصرار سے اگر مقاصد کا حصول خطرے میں پڑ رہا ہو توان کی تشریح، تعبیر اور تنفیذ کے حوالے سے دیکھا جائے کہ اسلامی شریعت کے اصولوں کی پاس داری کرتے ہوئے کہاں اور کتنی گنجایش ممکن ہے۔قیام عدل کی خاطر اور اجتماعی طور پر کفالت عامّہ کی ضمانت دینے کے لیے ملکی دستور میں مسلمان اور غیر مسلم شہریوں کو یکساں حقوق کی ضمانت دینا اس کی ایک اہم مثال ہے۔
ہم چاہیںگے کہ مسلمانوں کو اپنی اقدار و اطوار کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہر ملک میں حاصل ہو( جہاں وہ اکثریت میں ہوں وہاں بھی، اور جہاں وہ اقلیت میں ہوں وہاں بھی)۔ اس مقصد شرعی کے حصول کے لیے ہمیں غیر مسلم ہم وطن شہریوں کو بھی ہر ملک میں یکساں حقوق دینے چاہییں۔ اس دستور کے مطابق کسی عہدے پر کوئی بھی فائز ہو سکے گا۔ اگرچہ جدید بندو بست میں کسی بھی عہدے دار کو فیصلہ کن اختیا رات نہیں ملتے بلکہ انتظامیہ، مقنّنہ اور عدلیہ کے الگ الگ دائرۂ کار مقرر کرکے مطلق العنانی پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماضی میں اس کی نظیر نہ ملنا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ موقف غلط ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ مقاصد کے حصول کا بہتر طریقہ کیا ہے؟
سب انسانوں کے لیےبہتر ہوگی ایک ایسی دنیا، جس میں ہر ملک میں ہر فرد کو یکسا ں حقوق حاصل ہوں۔ اُسے اختیار ہوکہ وہ جس مذہب پر چاہے عمل کرے،یا کسی مذہب کو نہ مانے۔ جس میں ہر ایک کو دوسروں کے سامنے اپنے خیالات اور عقائد کی تبلیغ کا حق ہو۔ جس میں ہر مذہبی گروہ کو خاندانی زندگی اپنے پرسنل لا کے مطابق منظّم کرنے کا حق ہو،جو شخص کسی مذہبی پرسنل لا کی پابندی نہ پسند کرے اسے متبادل سول لاز کی تشکیل میں حصّہ لینے کا حق ہو۔باقی امور میں قانون سازی ایک ایسے فورم کے ذریعے عمل میں آئے، جس میں ہر فرد کو اپنی بات دلیل کے ساتھ پیش کرنے اور دوسروں کو سمجھانے کا موقع ملے۔اور جب ایک قانون بن جائے تو اس میں تبدیلی لانے کے مواقع بھی میسّر ہوں۔
سب کے لیے اچھّا ہوگا کہ کوئی ملک جو دوسرے ملکوں پر اپنی چودھراہٹ جمانے کی کوشش نہ کرے۔ امن کا قیام ،باہمی جھگڑوں کا خاتمہ، اظہارِ خیال کی آزادی یہ سب اُمور… مقاصد شریعت میں سے ہیں۔ آج کے حالات میں جب دنیا ایک آبادی میں تبدیل ہو چکی ہے (جس میں ہر رنگ و نسل، ہر مذہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے لین دین، عہد و پیمان کے تعلّقات رکھتے ہیں) اس مقصد کے حصول کے لیے ایسی ہی فضا درکار ہے۔ انیسویں صدی کی وہ دنیا جس میں ایک ملک میں زیادہ تر ایک طرح کے لوگ رہتے تھے۔ ہرملک خود مختاری کے دعوے کے ساتھ خود کو اس بات کا مجاز سمجھتا تھا کہ ملک کی آ بادی کی اکثریت کی راے کے مطابق ایک نظام نافذ کرے اور باقی آبادی کو (جو اقلیتوں پر مشتمل ہو) چند بنیادی حقوق کی ضمانت دے۔ دوسرے ملکوں کو اس کی اجازت نہ تھی کہ وہ کسی خود مختار مُلک کے اس اختیار میں مداخلت کریں،لیکن وہ دنیا اب داستان ماضی بنتی جا رہی ہے۔ اب دنیا کے سارے ملک متعدد بین الاقوامی معاہدوں کے پابند ہیں۔ کسی ملک میں کوئی گروہ خواہ وہ اقلیّت میں ہی کیوں نہ ہو،اکثریت اس پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتی۔عملی طور پر اس نقشے کے خلاف بہت کچھ ہوتا نظر آتا ہے، مگرعالمی طویل المیعاد رجحان یہی معلوم ہوتا ہے۔
تحصیل مقاصد میں لچک کی ایک مثال وہ حکمت ِتدریج ہے، جو اسلام نے غلامی کے رواج کو ختم کرنے کے سلسلے میں اختیار کی۔ ساتویں صدی کی دنیا، بالخصوص جزیرۃ العرب میں جنگی قیدیوں کو غلام بنالیا جاتا تھا،مفتوحہ عورتوں کو لونڈی بنا لیا جاتا تھا۔ پوری معیشت بھی غلامی پر قائم تھی۔ اس رواج کو رفتہ رفتہ ختم کرنے کے لیے اسلام نے متعدّد اقدامات کیے۔ حالت امن میں آزاد انسان کو پکڑ کر غلام بنا لینے کو قطعاً ممنوع قرار دیا،غلاموں کو اپنی آزادی خریدنے کی ترغیب دی اور ہمّت افزائی کی، اور غلام کے مالک کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ اسے معاوضہ لے کر آزاد کرنے پر راضی ہو۔ جن لونڈیوں کے یہاں اپنے مالک سے اولاد ہو،ان کو مالک کی وفات کے بعد آزاد قرار دیا، اور جنگی قیدیوں کو فدیہ کے عوض یا بلا معاوضہ( بطور احسان )رہا کرنے کی ہدایت دی۔ ان اقداما ت کے باوجود دنیاے اسلام میں غلامی اس وقت تک جاری رہی جب تک مغربی اقوام نے اس کے خاتمے کے لیے قدم نہ اٹھایا تو اس کی ذ مّہ داری ان مسلمان حکمرانوں پر تھی جنھوں نے اپنے مفادات کے لیے غلامی کو باقی رکھا۔ورنہ اِسلام کا منشا یہ نہ تھا کہ غلامی، دائماً باقی رہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں غلاموں کے ساتھ حُسن سلوک اور ان کے حقوق ادا کرنے کی واـضح تاکید کی تھی۔ یہی نہیں ،ابنِ ماجہ کی روایت کے مطابق بسترِ مرگ پر بھی آپؐ کی وصیّت میں اس امر کی تاکید شامل تھی۔
اب دنیا میں قانوناً غلامی ختم ہوئی، دنیا میں رائج قانون کے مطابق کسی حال میں کسی انسان کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ غور کیجیے تو مقصد تخلیق کا تقاضا ہے کہ انسان آزاد ہو، غلامی دنیوی زندگی کی امتحانی کیفیت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی۔ اِنسان کی آزادی مقصود ہے۔اس لیے کہ انسان آزاد حالت میں دنیا میں بھیجا گیا تھا ، ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے اور اسے آزاد ہی رہنا چاہیے۔ تاریخ انسانی میں اس اصول کی خلاف ورزی(جو انسانوں کے ایک گروہ نے مرضیِ الٰہی کے خلاف کی تھی)اس کا سلسلہ اب نبیِ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ختم ہوا۔ یہ مقاصد میں لچک کی ایک مثال تھی۔ حالات کی بنا پر مقصد کی تکمیل کے لیے مناسب حالت تک پہنچنے میں تاخیرہوئی۔ ظاہر ہے کہ اب ایک بار مقصد کے مطابق حالت حاصل ہو جانے کے بعد پچھلی حالت کی طرف واپسی نا قابل قبول ہے۔ حال کے چند برسوں میں اس کے بر عکس موقف بعض احباب نے پیش کیا ہے۔ اُن کی بات مقصد تخلیق اور مقاصد شریعت دونوں سے ٹکرانے کی بنا پر نا قابل قبول ہے۔
سطورِ با لا میں ہم نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ مقاصد کہاں سے اخذ کیے جائیں؟ اصولاً اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ مقا صد کا ماخذ قرآن و سنّت ہیں، ساتھ ہی ان کی پہچان اور تعبیر میں عقل و فطرت کا بھی حصّہ ہے۔ انسان کی اصل مطلوب حالت آزادی اور خود اختیاری کی حالت ہے۔یہی خلافت ارضی اور اُخروی جواب دہی سے مناسبت رکھنےوالا موقف ہے۔اب اگر کوئی کتاب و سنّت کی بعض نصوص سے استدلال کرتے ہوئے جن کا تعلّق غلامی سے ہے، غلامی کے تسلسل یا احیا کا دعویٰ کرے تو اس کا یہ دعویٰ اس لیے نہیں قبول کیا جائے گا کہ وہ معیارِ مقصود سے ٹکراتا ہے جو چاہتا ہے کہ ہر فرد انسانی اپنے فیصلے خود کرے۔ یہی عقل کا تقاضا ہے اور فطرت کے مطابق ہے۔ کتاب و سنّت کی نصوص کو مقاصد کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ مقصد تخلیق آیات محکمات سے واضح ہے اور مقاصد شریعت قرآن و سنّت کی نصوص کے مجموعے سے سمجھے گئے ہیں۔ کسی ایک باب میں ان دونوں کو پس پشت ڈال کر اختیا ر کیا ہوا موقف درست نہیں ہو سکتا۔
اسی قسم کی ایک دوسری مثال جنگ کے نتیجے میں قبضے میں آنے والی زمینوں، دوسرے غیرمنقولہ اثاثوں اور منقولہ دولت کی ہے۔ اس بارے میں بھی معروفات بدلتے رہے ہیں اور ان کے بدلنے کے ساتھ اسلامی بندوبست بھی بدلا ہے۔ آج یہ پورا معا ملہ’ جنیوا کنونشن‘ اور دوسرے متعلقہ معاہدوں کے تحت آتا ہے، جن کی پابندی کا ہر ملک نے عہد کیا ہے۔ ماضی میں بھی اس کی مثال موجود ہے۔بعض صحا بیوںؓ کے اصرار کے با وجود حضرت عمرؓ نے عراق و شام کی مفتوحہ زمینوں کو ان فوجیوں کے درمیان تقسیم نہیں کیا جنھوں نے لڑ کر اس علاقےکو فتح کیا تھا، کیوںکہ ایسا کرنے سے اعلیٰ تر مقاصد مجروح ہوتے۔ اب اگر کوئی گروہ غنیمت کی تقسیم سے متعلّق آیات کا حوالہ دے کر عرف عام اور معاہدوں کے خلاف عمل کرے تو اس کا فیصلہ درست نہیں قرار دیا جائے گا۔
اسلامی تحریکات بیسویں صدی کے شروع میں ابھریں ۔انھوں نے بیسویں صدی کے وسط تک وہ شکل اختیار کرلی، جو آج ان کی پہچان بن چکی ہے۔ تحریکوں کے ظہور اور ارتقا کے وقت ان کے سامنے مخصوص حالات تھے۔ان کے میدان کار میں یہ سوال اٹھ چکا تھا کہ اجنبی حکومت کے خاتمے کے بعد (جس کی تشکیل میں ان ملکوں کے باشندوں کا کوئی دخل نہ تھا )ملک میں ریاست کی تشکیل کن اصولوں کے مطابق ہو؟ قدرتی طور پر وہ تحریکیں یہ مطالبہ کرنے لگیں کہ آزاد قومی حکومت اللہ کی حاکمیت کے تحت کتاب و سنّت میں دیے گئے اصولوں کے مطابق تشکیل پائے۔ دنیا میں آج کے ماحول میں حاکمیّت اعلیٰ کی بحث اب سرِ فہرست نہیں رہی۔ایک ملک پر دوسرے ملک سے آئے ہوئے لوگوں کی حکومت کا زمانہ گزر گیا تو حاکمیّت اعلیٰ کی بحث بھی پسِ پشت چلی گئی اور اسی کے ساتھ ملکی دستور وں میں حاکمیّتِ الٰہی کی صراحت بھی تحصیل حاصل سمجھی جانے لگی۔اب دوسرے ملکوں کی طرح مسلم اکثریت والے ممالک بھی کچھ عملی مسائل کے حل تلاش کر رہے ہیں اور وہا ں کام کرنے والی تحریکوں کو ان مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔
رہےغیر مسلم اکثریت والےملک، تو وہاں اصل مسئلہ اسلام کے تعارف اور پیغمبرؐ اسلام کے مشفقانہ (یعنی محسنِ انسانیتؐ ہونے کے) تصوّرسے متعارف کرانے کا ہے۔ آج کسی جگہ بھی وہ سوالات سرفہرست نہیں جو گذشتہ صدی کے وسط تک سرفہرست تھے۔ غور سے دیکھیے تو ان ملکوں میں (خواہ مسلم اکثریتی ممالک ہوں یا وہ ممالک جہاں مسلمان اقلیّت میں ہیں) چلنے والی اسلامی تحریکوں کے عملی طور طریقے بھی عملاً بدل چکے ہیں۔ انھوں نے بدلے ہوئے حالات میں بدلے ہوئے طریقے بھی اختیار کرنا سیکھ لیا ہے۔
فکر مندی کی بات یہ ہے کہ ابھی تک ان نئے رجحانات کے بیان اور توجیہ و تشریح پر مشتمل خاطر خواہ لٹریچر نہیں تیار ہو سکا ہے۔ چنانچہ ایک طرف ماضی کے مخصوص حالات کی پیداوار لٹریچر کو اس طرح پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے جیسے وہ زمان و مکان سے بلند ہو۔ دوسری طرف حکمت عملی کے نام پر ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جن کو پرانے لٹریچر کے پروردہ ذہن سمجھ نہیں پاتے۔
اس سے دو طرح کی خرابیاں جنم لیتی ہیں: ایک طرف ضمیر ملامت کرتا ہے کہ حالات اور راے عامّہ کے دباؤ کے تحت عزیمت کی راہ چھوڑی جا رہی ہے۔ خیال آتا ہے کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اسلامی ریاست قائم کرنے کے مقصد کے تحت ایسا دستور بنایا جائے جو شریعت اسلامی کو ملکی قانون قرار دیتا ہو، صدر مملکت کا مسلمان ہونا ضروری قرار دیتا ہو،وغیرہ وغیرہ۔مگر سوال یہ ہے کہ (اسلامی دستور سازی کی) اس تجویز کو کثرت راے سے منظور کرانا ممکن نہ ہو ، اور اسے بزورِ قوت نافذ کرنے کے لیے فوج ساتھ دینے کو تیار نہ ہو، یا فوج بھی اس کی طاقت نہ رکھتی ہو، تو کیا کیا جائے؟ مسلم ضمیر حیران ہے کہ ایسی صورتِ حال میں کیا کیا جائے؟
دوسری خرابی یہ پیدا ہوتی ہے کہ ایسے میں بعض مسلمان گروہ یہ خیال کرتے ہیں کہ عوام کو ساتھ لینے کی کوشش جس کو اسلامی تحریکات نے اسلامی ریاست قائم کرنے کی شرطِ لازم سمجھ رکھا ہے ’’غیر ضروری ہے۔ جب جہا ں موقع ملے اسلامی قانون کی حکمرانی کا اعلان کر دینا چاہیے‘‘۔ عملاً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے گروہ اسلامی قانو ن کا جو نفاذ کرتے ہیں وہ چند جرائم کی سزاؤں، یعنی حدود کے نفاذ تک محدود رہتا ہے۔ شریعت کےبڑے بڑے مقاصد اُن کی توجہ مبذول نہیںکراپاتے، مثلاً: قیامِ عدل، کفالت عامّہ، شاملہ اور معقول تقسیم دولت، آمدنی میں پائےجانے والے فرق کو کم کرنا، ملک کو اقتصادی طورپرمضبوط بنانا،تاکہ دوسروں کی محتاجی ختم ہو، کرپشن کا خاتمہ اور اعلیٰ کارکردگی کی حامل انتظا میہ کی بحالی۔ اِن مقاصدکے حصول کی کوشش کم ہی نظر آتی ہے۔ مزید برآں ان گروہوں کے جابرانہ اقدامات کا ہدف زیادہ تر دوسرے مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ ان کے نفاذِ حدود پر مرکوز اقدامات سے مقامی اور عالمی دونوں سطحوں پر اسلام سے توحّش پیدا ہوتا ہے، اسلام کی ترجیحات کے بارے میں شدید غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور متعدد اسلامی مقاصد مجروح ہوتے ہیں۔ نیز بزعمِ خود جو محدود مقاصد وہ حاصل کر پاتے ہیں، وہ دیرپا نہیں ثابت ہوتے۔ ان کی ایسی ہی حرکتوں سے غیرمسلم اکثریت والے ملکوںمیں اسلام کی بدنامی ہوتی ہے اور پیغمبرؐ اسلام کی تصویر بگڑتی ہےاور مسلم ممالک میں اسلامی تحریکات کو شبہے کی نظر سے دیکھا جانے لگتا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ اکثر مخلصین یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ: ’’اسلامی تحریک ہر زمان و مکان میں ایک لگابندھا طریقہ اختیار کرنے پر مامور ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تحریک اپنے مقصود، اللہ کے بندوں کو بندگیِ ربّ کی طرف بلانے کے لیے حالات کی مناسبت سے مختلف طریقے اختیار کر سکتی ہے، کسی لگے بندھے اور غیرلچک دار طریقے کی پابند نہیں۔
اس مرحلے میں ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات کا مقابلہ کس طرح کیا۔تفصیلات میں جائے بغیر ہم یہ بتانا چاہیں گے کہ مقاصد سے وابستگی کے ساتھ حدود اور ذرائع میں لچک کی تعلیم ہمیں سیرتِ مطہرہؐ میں ملتی ہے۔ کارِ نبوت کی انجام دہی سے متعلّق جن مختلف حالات کی طرف ہم قارئین کی توجّہ مبذول کرانا چاہیں گے وہ درج ذ یل ہیں:
¤ شعب ابی طالب میں محصوریت ¤ طائف کے داعیانہ سفر سے واپسی پر شہر مکّہ میں سکونت کا مسئلہ ¤ ہجرت حبشہ اولیٰ اورہجرت حبشہ ثانیہ ¤ بیعتِ عقبہ،اولیٰ و ثانیہ ¤ مدینہ پہنچنے پر مواخات کی تنظیم ¤ مسجدِ نبویؐ کی تعمیراور مسلمانوں کے لیے بازار کا قیام ¤ میثاق مدینہ ¤ صلح حدیبیہ ¤ فتح مکّہ پر عام معافی کا اعلان ¤ غزوۂ حنین کے موقعے پر تقسیمِ غنائم میں مکّہ والوں کو ترجیح ¤ خطبہ حجّۃ ا لوداع۔
سطورِ بالا میں مقاصد اور ذرائع،حدود میں لچک، وغیرہ امور پر گفتگو سے ہمارا منشا یہ تھا کہ ایسے غورو فکر کا آغاز کریں جو آج اور آیندہ کے ممکنہ حالات میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے اور ان کو عام انسانوں کے درمیان مقبول بنانے میں مددگار ہوسکے۔نیز مسلمانوں کو اس مخمصے سے نکال سکے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ ہم بدلے حالات میں مناسب نئے طریقے کس بنیاد پر اختیار کرسکتے ہیں؟
ایک دقّت یہ ہے کہ بعض لوگ اسوۂ نبویؐ سے استشہاد میں ہر طرح کے حالات کا احاطہ کرنے کے بجاے اپنی پسند کی نظیریں پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔یہی طریقہ وہ بعد کی صدیوں میں اسلامی تاریخ کے مطالعے کے بارےمیں اختیار کرتے ہیں۔اس غلطی کا ازالہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ قرآن وسنّت ،سیرت نبویؐ اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ پہلے سے اختیار کیے ہوئے کسی موقف کی تائید کے لیے نظیریں جمع کرنے کے لیےنہ کیا جائے، بلکہ کھلے ذہن کے ساتھ کیا جائے۔اس کے باوجود، مختلف مطالعہ کرنے والے مختلف نتیجے نکالیں تو تبادلۂ خیال کے ذریعے ایک راے تک پہنچنے کی کوشش کریں، اور اتفاق راے نہ ہو سکنے کی صورت میں رواداری سے کام لیں۔ ایک دوسرے کو کافر یا گمراہ قرار دینے اور مرنے مارنے پر نہ اتر آئیں۔ مذکورہ بالا ابواب سیرت کا مطالعہ ابن ہشام کی السیر ۃ النبویہ یا تاریخ اسلامی کی کسی مستند کتاب میں کیا جا سکتا ہے۔یہاں ہم تفصیلات بیان کرنے کے بجاے صرف اس سبق کو یاد دلانے پر اکتفا کریں گے، جو کسی خاص واقعے سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ان مثالوں کا تفصیلی مطالعہ حکمت کے نئے سبق سکھا سکتا ہے۔ دنیا میں حالات بدلتے ہیں۔ ہر بار ایک نئی صورت حال در پیش آتی ہے۔ہر بار ایک نئے انداز کا حل درکار ہوتا ہے۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تحریک کسی لگے بندھے لائحۂ عمل کی پا بند نہیں، بس مقاصدِ اسلام سے وابستگی شرط ہے۔اس کے ساتھ کتاب و سنّت، سیرت و تاریخ،عقل و فطرت اور با ہمی مشاورت اور تجربوں سے سبق حاصل کرنا لازم ہے۔آج کے حالات میں اسلامی تحریکات کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ نئے حالات میں نئی بات، نئے انداز سے، نئے مخاطب لوگوں کے سامنے رکھنے میں کتنی مستعدی، حاضر دماغی اور دانش مندی دکھاتی ہیں۔
یہ مسئلہ کسی ایک تنظیم کا نہیں ہے۔ تنظیمیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں مگر مجموعی طور پر آثار اُمیدافزا ہیں۔تشویش اس بات کی ہے کہ نئے حالات کے تجزیے ، کتاب و سنّت، تاریخ و سیرت اور تجربات سے سبق سیکھنے اور کھلے ذہن سے با ہم تبادلۂ خیال کا خا طر خواہ اہتمام نہیں کیا جارہا ہے۔اس کے لیے ہمارے مدارس،جامعات،تعلیم گاہوں، یونی ورسٹیوںاور منبرو مسجد، گھر و بازار سب کوایساکردار ادا کرنا ہوگا جو ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے سازگار ہو۔
آج دنیا بڑے تشویش ناک حالات سے دو چار ہے۔ اسلام اور مسلمان انسانیت کی مدد کے لیے آگے بڑھ سکیں تو ا نھیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ آیندہ سطور میں ہم یہی بات قدرے تفصیل سے پیش کریں گے۔
مسائل کی فہرست تو بڑی لمبی ہے مگر ہم تین اہم مسائل کے ذکر پر اکتفا کریں گے، جن کا تعلّق بالترتیب: آب و ہوا، فنانس اور نظام زر اور خاندان اور سماجی رشتوں سے ہے، یعنی ماحولیات، مالیات اور سماجیات۔ مسائل کے ذکر کے بعد ہم یہ بتائیں گےکہ اسلامی تعلیمات کس طرح ہمیں ان مسائل کا سامنا کرنے میں مدد کرتی ہیں۔
ایسی دنیا کو تباہی سے بچا سکتے ہیں تو صرف ایسے لوگ، جو رشتوں کی خاطر مفادات کی قربانی دے سکیں، سماجی بہبود کی خاطر نجی اغراض کو بھول سکیں،آنے والی نسلوں کے لیے کرۂ ارض کو بچائے رکھنے کی خاطر اپنے آرام و آسایش میں کچھ کمی برداشت کریں،کاروبار اورمالیاتی لین دین میں جس عدم تیقّن اور جن خطرات کا سامنا ناگزیر ہے، ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے دوسروں کے شریک بننے کو تیار ہوں( نہ کہ اپنی ساری ذہانت اِس پر صرف کرتے ہوں کہ کاروباری خطرات اور عدم تیقّن کو کس طرح اپنے سر سے ٹال کر دوسروں پر تھوپا جائے ، نفع ہو تو ان کو ملے، نقصان پہنچے تو اسے دوسرے بھگتیں)۔ آخرت میں جواب دہی کا احساس جگا کر اور اُس دائمی زندگی کو سنوارنے کے لیے آج کے دنیوی مفادات کو ثانوی درجہ دینے کی تعلیم دے کر اسلام ایسے ہی انسان بناناچاہتاہے۔
تاریخ نے ایسے دوربھی دیکھے ہیں، جب سیاسی رہنمائوں نے انسانوں کی خدمت کا راستہ اختیار کیا اور کاروبارِ معیشت سنبھالنے والوں نے عام صارفین اور مزدوروں کی بھی بھلائی چاہی۔ خاندانی زندگی محبّت اور خلوص پر قائم رہی اور سماجی رشتوں کو نفع اندوزی پر ترجیح دی گئی۔ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ مذاہب عالم، بے لوث بزرگ،دانش وَر، فلسفی،شاعر، قصّہ گو، غرض ہر جہت سے اس رجحان کو تقویت ملی ہے اور آج بھی مل سکتی ہے۔ اسلام اور مسلمان ان جہتوں میں سے ایک اہم جہت ہیں، جو دوسرے مذاہب کے مخلص پیرووں ، دیگر دانش وَروں، اور اچھے انسانوں کے ساتھ مل کر مذکورہ بالا تینوں دائروں ،یعنی ماحولیات،مالیات اور سماجیات، میں دنیا کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکتے ہیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمان یہ کردار ادا کرنے کے لائق دکھائی نہیں دیتے۔ مستقبل کی دنیا کو اپنی رہنمائی، خدمت اور تعمیری سرگرمیوں کے ذریعے سہارا دینے اور سنبھالنے کے بجاے مسلمان ماضی کے جھگڑے چکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ انسانوں کی خدمت کی خاطر متّحد ہونے کے بجاے وہ مسلکی اختلافات اورفرقہ وارانہ تعصبات کی بنیادوں پر بٹے ہوئے ہیں۔اپنے خداداد کردارِ شہادت علی النّاس کی ادایگی کی خاطر یکسو ہونے کے بجاے وہ پراگندہ فکر اور پراگندہ حال ہیں۔ بڑے کاموں میں مطلوب تعاون اور تضامن کی خاطر اختلافات کو نظر انداز کرکے رواداری اور خوش خلقی کے ساتھ خدمتِ انسانیت کو اپنا ایجنڈا بنانے کے لیے ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی ہوں گی۔
مستقبل پر توجہ کی مرکوزیت (focus)،ماضی کے اختلافات کو پسِ پشت ڈالنے کے حوصلے اور باہمی اتحاد و رواداری کے ساتھ ساتھ دنیا میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے طاقت درکار ہے: اقتصادی قوت چاہیے جو مسلمان کو دوسروں کا دست نگر نہیں ان کو سہارا دینے والا بناسکے۔ معاشی قوت تجارت سے آئے گی جس کے لیے پیداواری عمل کی عادت ڈالنی ہو گی۔اس عمل میں انہماک خود بخود ایجاد و اختراع اور تعاون و تنظیم کی طرف لے جا ئے گا، جو اقتصادی قوت کی کلید ہے۔ اُمّت مسلمہ کی اٹھان میں اس پہلو نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کا معمار، میدانِ تجارت میں بھی رہنما ئی کرتا تھا،جس نے منتشر قبائل کی توانائی کو ایک انسانی مِشن پر مرکوز( فوکس) کرکے دنیا کی تاریخ بدل دی۔ یہ آج بھی ممکن ہے۔
کیا ہم اپنے معاشرے کو جانتے ہیں؟ اور کیا ہمارا معاشرہ ہمیں جانتا ہے؟
ان بنیادی سوالات کا جواب تب ہی مل سکتا ہے یا اسی وقت دیا جاسکتا ہے، جب یہ واضح ہو کہ ’جاننے‘ سے کیا مراد ہے؟ یہ عمل کیا ہے اور اس عمل کے تقاضے کیا ہیں؟
ہمارا فوری جواب یہی ہوگا کہ ’ہم معاشرے کو جانتے ہیں اور ہمارا معاشرہ ہمیں جانتا ہے‘۔ ممکن ہے کہ یہ جواب درست ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’جاننے‘ کے عمل سے ہم لاتعلق ہوں اور یوں دونوں سوالات تشنۂ جواب ہی ہوں۔ کسی فلاسفر نے کہا تھا کہ: ’میں یہ جانتا ہوں کہ میں کیا نہیں جانتا‘۔ تاہم، عمومی چلن کے مطابق: جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ ’میں جانتا ہوں‘ اسی کو عالم سمجھا جاتا ہے۔
چند لمحوں کے لیے مان لیجیے کہ: ’’ہم اپنے معاشرے کو نہیں جانتے اور اسی طرح سے یہ معاشرہ بھی ہمیں نہیں جانتا‘‘۔ گذشتہ دو عشروں میں جوان ہونے والی نسل اگر ہمیں نہیں جانتی تو اس کی بنیادی وجہ یہ خوش فہمی ہے کہ ’ہم معاشرے کو جانتے ہیں‘۔
آئیے چند پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ کسی معاشرے کو جاننے کے لیے کیا ضروری ہے:
یہاں داعیانہ پہلوئوں کی طرف کہیں کہیں اشارہ اس لیے کیا ہے، تاکہ ہم اپنے ’جاننے کے دعوے‘ کو جان سکیں۔ ہم میں سے ہرکارکن خود سے یہ سوال ضرور پوچھے: ¤ ان پہلوئوں کو پورا جانتا ہے یا نہیں جانتا ہے! ¤ ان پہلوئوں کو ادھورا جانتا ہے یا کچھ کو جانتا ہے! ¤ جس قدر جانتا ہے، اس کا استعمال کرتا ہے ہیں یا نہیں کرتا!
پہلی صورت کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ اگر ہم ان پہلوئوں کو نہیں جانتے، تو گویا اپنی دعوت کو بھی کماحقہ نہیں جانتے۔ اس کمی کو دُور کرنے کے لیے ہمیں داعی اور دعوت کے بارے میں بنیادی لٹریچر کا بھرپور مطالعہ کرنا چاہیے،اور یہ مطالعہ سمجھ کر ہی کرنا چاہیے، ورق گردانی نہیں!
یہاں ایک مثال پیش ہے۔ امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کی حراست کے دنوں میں ایک ورکشاپ میں ہمارے ناظمین نشرو اشاعت شریک تھے۔ جماعت اسلامی اس معاملے کو پوری قوت سے لے کر چل رہی تھی۔ راقم نے نشست میں سوالات پیش کیے: ¤ یہ قاتل کتنے دنوں سے اور کہاں قید ہے؟¤ اسے ریمانڈ کے لیے کب اور کہاں پیش کیا گیا؟¤ متاثرہ پاکستانی خاندانوں کا وکیل کون ہے؟¤ امریکی سفارت خانے کی گاڑی نے کس نوجوان کو کچل کر مار ڈالا؟
اسی طرح کے دس بارہ سوالات اُٹھائے، مگر کسی کے پاس ان کا مکمل جواب نہیں تھا۔ تقریباً ۲۵فی صد نے تاریخ صحیح بتائی۔ کئی شرکا کو مقتول عباد الرحمٰن کے نام کا علم نہیں تھا۔ ۵۰فی صد کو علم نہیں تھا کہ وکیل کون ہے اور وکیل کا جماعت سے کیا تعلق ہے؟
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت کارکن زیادہ تر، موقف کی چند سطروں کی واقفیت تک محدود رہتے ہیں۔ جس دن اس کیفیت سے نکل کر معاشرے میں اُتریں گے اور جماعت اسلامی میں رہنے لگیں گے تو ہم معاشرے میں بھی رہنے لگیں گے۔ محض تصور میں رہ کر ہم یہ یقین کر لیتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی پالیسی اور پروگرام کے تحت کام کر رہے ہیں، جو درست مفروضہ نہیں ہے۔ جب کارکن پالیسی کو پوری طرح سمجھ نہ رہا ہو، تو وہ گہری لگن کے ساتھ کام بھی نہیں کرسکے گا۔
مثال کے طور پر مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد ارکان سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ:
اگر اپنا بے لاگ جائزہ لیں تو اپنے بارے میں درست فیصلہ کرنا کچھ مشکل محسوس نہیں ہوگا کہ کیفیت کیا ہے؟ اگر ہم کو سارے یا بیش تر امور کا علم ہے، نظم سے رابطہ کر کے فہم حاصل کیا ہے تو ہم جماعت میں رہتے ہیں۔ دوسری صورت میں ہم جماعت سے محض ثقافتی یا واجبی سا تعلق رکھتے ہیں، حقیقی تعلق نہیں رکھتے۔ یہ ایک خطرناک صورت ہے جس سے ہماری خاصی تعداد متاثر ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم کنارے پر چلنے کے بجاے جماعت اسلامی میں رہنا شروع کر دیں۔ حالات و واقعات پر گہری نگاہ رکھیں۔ پھر ہماری دعوت کو بھی معاشرے سے جدا اور تصوراتی نہیں ہونا چاہیے، کہ اس کے بغیر ہم دعوت نہیں پھیلا سکتے ۔
یقین مانیے، جماعت سے جدا رہنے کا مطلب، معاشرے سے جدا رہنا ہے۔ اسی لیے ہم کسی حلقے میں دس افراد ہیں تو دس سال بعد بھی غالباً دس یا گیارہ ہی ہیں، یعنی ’کوئی خود ہم سے آن ملے، ہم کسی سے کیوں جاکر ملیں‘۔ جب کارکن اس عادت سے ہٹ کر کام کرتا ہے تو معاشرے کے قریب ہو جاتا ہے۔
ہم درس قرآن، ہلکا پھلکا اجتماعی مطالعہ یا دیگر پروگرام کرتے ہیں، لیکن اپنے اردگرد کے ماحول کو نظر انداز کرکے۔ یہ نہیں جانتے کہ اڑوس پڑوس میں کیا صورتِ حال ہے؟ ہمارے بارے یہ تاثر رہا ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت ہے۔ ہمارے حلقے میں ایک رکن جماعت ہوا کرتے تھے، انھیں پورا محلہ نہیں بلکہ پورا علاقہ جانتا تھا کہ یہ رکن جماعت ہیں ۔ ہر موقعے پر موجود، ہر مسجد میں حاضر، ہر خوشی اور غمی میں لوگوں کے ساتھی تھے۔ وہ سرگرم رہے، کوشش کرتے کرتے ربّ کے حضور پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ والے اب بھی موجود ہیں، لیکن وہی چار، چھے اور کبھی دس۔ وجہ یہ ہے کہ عام آدمی سے رابطہ نہیں ہے۔ جماعت کا نام موجود ہے، مگر جماعت کا تصور موجود نہیں ہے اور کسی سےرابطے کی طلب اور پیاس بھی کم تر ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا معاشرہ ہمیں جانتا ہے؟ یہاں چند سوالات غور طلب ہیں:
یہ محض چند مثالیں ہیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ ہم ان مسائل کا حل نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر ہم اس دبائو میں زندہ ہیں کہ اب معاشرہ لٹریچر کا نہیں ہے، اور الیکٹرانک میڈیا کا دبائو ہے۔ ایسا نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اسے لٹریچر کی طرف لانا بھی ہماری اور معاشرے کی ضرورت ہے۔
ہم کھلے دل سے یہ تسلیم کرلیں کہ ہم اور معاشرہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی بنتے دکھائی دیتے ہیں، جو اس درجہ پہلے نہیں تھا۔ ایسا ماننا ہی ہم کو مسئلے کے حل کی جانب لے جائے گا (اس اجنبی پن کی وجوہ بہت سی ہیں، تاہم اس وقت وہ پہلو زیربحث نہیں)۔ زیربحث بات یہ ہے کہ ہم اس اجنبیت کی دیوار کو کس طرح توڑ سکتے ہیں؟
اس دیوار کو گرانے کے لیے ہمیں پہلے مرحلے میں دیوار کے اس پار جانا ہوگا، جہاں معاشرہ بس رہا ہے۔ ہم اکیلے یہ دیوار نہیں گرا سکتے، اس کام کے لیے ہمیں معاشرے کا ساتھ درکار ہے۔ ہم اس دیوار کے اس پار کس طرح اور کیوں کر جاسکتے ہیں؟ یہ ایک چیلنج بھی ہے اور دعوت و تحریک کا تقاضا بھی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے پاس کیا وسائل ہیں، جن سے یہ سفر طے کیا جاسکتا ہے:
اجنبیت کی دیوار گرانے کے یہ چند پیمانے ہیں۔ ان کے بیان میں متبادل انداز بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں خیر خواہوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ نیکی اور خیر خواہی کے جذبے سے عوام سے ملنا ہوگا۔ جب یہ جذبہ عام آدمی کی ضرورت بنے گا، تب ہم کہہ سکیں گے کہ ہماری بات سنی جا رہی ہے۔
مسلم دنیا میں گذشتہ نصف صدی کے دوران مصر، سوڈان ، ترکی ، تیونس ، پاکستان ، لبنان اور بنگلہ دیش میں تحریکات اسلامی کو جن مسائل کا سامنا رہا ہے ،ان میں اکثر کو نظر انداز کرتے ہوئے ابلاغ عامہ ہی نہیں خود تحریکی کارکن تحریک کی مقبولیت یا ناکامی کو صرف ایک ہی پیمانے پر ناپنے لگے ہیں اور وہ ہے سیاسی محاذ پر پارلیمان میں نشستوں کی تعداد اور حکومت میں عمل دخل۔ بلاشبہہ سیاسی کامیابی کسی تحریک کی توسیع،مقبولیت اور اثر کو جانچنے کا ایک پیمانہ ہو سکتا ہے لیکن محض سیاسی عینک سے ہر چیز کو دیکھنا تحریکی مزاج اور مقاصد سے مناسبت نہیں رکھتا۔
اگر تحریک اسلامی ، دعوت اسلامی ، اقامت دین ، تبدیلیِ قیادت کی اصطلاحات کا صرف ایک سیاسی مفہوم ہی ہے تو یہ فکر کی ایک بنیادی غلطی ہے ۔ دنیا کی تمام اسلامی تحریکیں قرآن و سنت سے اخذ کر دہ ترجیحات کی بنا پر تبدیلی کا آغاز فرد، خاندان، معاشرہ اوراداروں کی تبدیلی و اصلاح سے کرتی ہیں۔سنت انبیاؑ بھی یہی ہے اور اسی کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا۔ تحریکات اسلامی اور دیگر تحریکات اصلاح نفس کا بنیادی فرق یہی ہے کہ اول الذکر تحریکات فرد کی اصلاح کو اپنا اعلیٰ مقصد قرار دے کر اجتماعیت کی جگہ انفرادیت میں اُلجھ جاتی ہیں اور بعض اوقات مثالی انفرادی کردار پیدا کرنے میں کامیاب ہونے کے باوجود فرد کی اصلاح سے امت کو کوئی اجتماعی فائدہ نہیں ہوتا۔گو نظری طورپر یہی کہا جاتا ہے کہ جب سارے افراد درست ہو جائیں گے تو معاشرہ خود بہ خود ٹھیک ہو جائے گا ۔ اگر واقعی ایسا ہی ہوتا تو اللہ تعالی کو اقامت صلوٰۃ فرض کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں نماز خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھ لیا کرتے اور نفس کی اصلاح کے اعلیٰ مقام تک پہنچ جاتے ۔ نہ روزہ کو ایک پورے مہینے کے لیے اجتماعی طور پر فرض کرنے کی ضرورت تھی، نہ جہاد فی سبیل اللہ کو افضل و اعلیٰ کہنے کی ضرورت تھی۔ لوگ مجاہدۂ نفس کرکے اپنے خیال میں دنیا اور آخرت میں کامیابی کے مستحق بن جاتے اور سیاست، معیشت، ثقافت ہر شعبے کو آزاد چھوڑ کر کسی غیبی قوت کے ذریعے اچانک معاشرے میں عدل و انصاف، امن و محبت اور حقوق و فرائض کے نظام کا قیام ہو جاتا ۔ نہ حضرت موسٰی کو وقت کے جباروں سےٹکرانے کی ضرورت تھی، نہ حضرت سلیمانؑ اور حضرت داؤدؑ کو زمین پر خلافت الٰہی قائم کرنے کی خواہش ہونی چاہیے تھی۔
تحریکی فکر اور عام دینی فکر میں فرق یہی ہے کہ اسلام کی اجتماعیت ، جو اس کی روح ہے، کو بنیاد بناتے ہوئے فرد، خاندان معاشرہ اور زمام اقتدار کی تبدیلی اس کے واضح اہداف ہیں ۔
ظاہر ہے انسانی معاشرے میں کوئی کام اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب اس کام کے کرنے والےباصلاحیت اور ماہرانہ اہلیت رکھتے ہوں ۔ اگر ہم ایک مکان نہیں، ایک شلوار قمیص بھی سلوانا چاہتے ہیں تو بہترین درزی تلاش کرتے ہیں ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک گروہ معاشرے اور ملک کی اصلا ح کرنے چلے اور اس کے پاس افراد وہ ہوں جو نہ دین سے آگاہ ہوں ، نہ انتظامی معاملات میں مہارت رکھتے ہوں ۔ اس لیے افراد سازی بذریعہ تطہیر افکار وہ پہلا قدم ہے جس کے بغیر کوئی دعوتی، اصلاحی اور اقامت دین کی تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ سب انسان ایک سانچے میں ڈھل کر یکساں نہیں ہو سکتے ۔کیا سارے صحابہؓ اور عشرہ مبشرہ برابر تھے۔؟ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عشرہ مبشرہ کے علاوہ دیگر صحابہؓ میں کوئی خامی پائی جاتی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ مصدقہ طور پر اخلاص کے باوجود نبی کریمؐ نے حضرت ابوذرؓ سے یہی تو کہا تھا کہ ہم تمھیں کسی ذمہ داری پر نہیں لگائیں گے کیوں کہ اس کے لیے جو صلاحیت درکار ہے وہ تم میں نہیں ہے۔ یہ نہ ان کے تقویٰ پر ، نہ دین کے علم پر کسی قسم کے شبہہ کااظہار تھا۔ اسی لیے ہر تحریک اسلامی کو اپنے فرد مطلوب کے لیے ایک معیار اور پیمانہ طے کرنا ہوتاہے۔ جماعت اسلامی کے حوالے سے دستور جماعت اسلامی کی دفعہ ۳عقیدہ کے زیر عنوان اپنے فرد مطلوب کے تصور کو واضح کر تی ہے ۔ دستور کی دفعہ۴ یہ وضاحت کر دیتی ہے کہ وہ کس قسم کی تبدیلی چاہتی ہے، جزوی اصلاح کی یا مکمل دین کی اقامت۔اسلامی نظام زندگی سے مراد محض عبادات ہیں یا انفرادی ، اجتماعی ، معاشرتی اور ملکی سطح پر قرآن و سنت کی تعلیمات کا نفاذ و قیام اور اس کام کے لیے اجتماعی جدو جہد لازمی ہے ۔
یہی وہ فرق ہے جو کسی تحریک کو تحریک اسلامی بناتاہے لیکن کیا جب تک ہر فرد انسانِ مطلوب کے معیار کا نہ ہو جائے ، دعوتی ، اصلاحی اور سیاسی سرگرمیوںکو معطل کر دیا جائے ؟نظری طور پر تو یہ بات شاید معقول نظر آئے، عملاً ایسا ممکن نہیں ہے۔ بلاشبہہ ایک کم سے کم معیار کا تعین کیا جانا چاہیے کہ اگر ایک فرد نہ نماز باجماعت کا اہتمام کرتا ہو، نہ اس کے گھر کا ماحول طہارت وپاکیزگی کا عکاس ہو ، نہ اس کا کاروبار حلال و حرام کا فرق کرے لیکن اس سب کے باوجود بھی اسے تحریک میں شامل کر لیا جائے تو یہ دستور کے منافی ہو گا۔ہاں، اگر وہ باوجود کوشش کے تین نمازیں جماعت سے ادا کرپاتا ہو ، اپنے گھر میں تمام کوشش کے باوجود ابھی کامیاب نہیں ہوا ہو اور اپنے کاروبار سے حرام کے عنصر کو نکالنے میں لگا ہوا ہو اور جلد اسے پاک کر لے گا، تو اس سعی و کوشش اور خلوص نیت اور مسلسل جدوجہد میں لگنے کی بنا پر اسےتحریک میں شامل تو کر لینا چاہیےلیکن ساتھ ہی اس کی تربیت و تعمیر سیرت کا عمل جاری رہنا چاہیے ۔ قرآن کاا صول ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی برداشت سے زیادہ بوجھ اس پر نہیں ڈالتا ۔ جو چیز ایک فرد کی طاقت سے باہر ہو اس پر اس کی گرفت نہیں کی جاسکتی۔
اس کا یہ مطلب بھی نہیں لیا جا سکتا کہ ایک سیاسی کارکن جو اپنے علاقے میں اثر و رسوخ تو رکھتا ہو لیکن عبادات و معاملات میں بہت پیچھے ہو پھر بھی محض اپنی سیاسی قوت میں اضافہ کرنے کے لیے اسے تحریک میں شامل کر لیا جائے ۔ تحریک کو فرد کی اصلاح کے معیار پر سختی سے عمل کرنا ہو گا ۔کیوں کہ اس کا ہدف کثرت افراد نہیں ، تطہیر و تبدیلی افراد ہے اور ایسے افراد کو پوری محبت و احترام کے ساتھ موقع دینا ہو گا کہ وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کر یں اور اس کے بعد ہی تحریک کا حصہ بنیں ۔
ایسے ہی تطہیر افکار اور تربیت افراد کسی خلا میں نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ایک ایسی جماعت کے وجود کی ضرورت ہے جو ہمہ وقت تزکیہ نفس اور تعمیر سیرت کے مواقع پیدا کرتی ہو اور جس میں افراد کی شمولیت کا مقصد محض سیاسی قوت کے حصول کی جگہ باصلاحیت، فکری اور عملی قیادت کی تیاری ہو ۔یہ کام ایک طویل المعیاد عمل ہے ۔ یہ دو تین تربیت گاہوں یا اجتماعات میں شرکت کرنے سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے مسلسل عملی تربیت کی ضرورت ہے،جو صرف دعوتی میدان ہی میں ہو سکتی ہے ۔ کوئی ایک ہفتہ یا تین دن کا کورس اس کام کو حتمی طور پر نہیں کر سکتا ۔
تزکیہ فکر اور تربیت اخلاق محض نئے آنے والے افراد کے لیے نہیں،تحریک میں ہر سطح کی ذمہ دار قیادت کے لیے بھی ضروری ہے ۔اگر قیادت ایک مقام فکر وعمل پر رُک جائے اور اس میں مسلسل ترقی کی کوشش نہ کرے تو وہ کارکنوں کو قابل عمل مثال فراہم کرنے میں ناکام رہے گی۔یہ تو ہو سکتا ہے کہ تھوڑے یا عبوری عرصے کے لیے کارکن اپنی بے چینی کا اظہار نہ کریں اور حُسنِ ظن رکھتے ہوئے قیادت کے ساتھ چلتے رہیں لیکن جلد ان کے ذہنوں میں گمان ، ظن اور بدگمانی پیدا ہو نا ایک فطری عمل ہے۔تحریک اسلامی میں جس لمحے کارکنوں میں یہ بے چینی پائی جائے فوری طور پر اسے سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے اور تعمیری انداز میں اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
اس فکر کا پایا جانا اس پہلو سے تو اچھا ہے کہ تحریک میں لوگ اپنی سوچ اور فکر کا استعمال کررہے ہیں اور تحریک جامد اور ساکت نہیں ہے ۔لیکن ہر فکر خود اپنی جگہ پر صحیح قرار نہیں دی جاسکتی اور بعض تصورات بہت معصوم ہوتے ہیںلیکن وہ تحریک کے مقصد وجود کی ضد ہوتے ہیں ۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا دعوتی ، اصلاحی اور سیاسی تبدیلی الگ الگ دائروں کا نام ہے یا دعوت اصلاح میں سیاسی اصلاح ایک لازم و ملزوم عنصر ہے؟ تحریکات اسلامی اور جماعت اسلامی کو دیگر تحریکات سے ممتاز کرنے والا یہی وہ پہلو ہے جو ہم اکثر بھول جاتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کا مقصد چند ایسے زاہد و عابد افراد کا پیدا کرناکبھی نہ تھا جو علم کے موتی بکھیرتے رہیں اور معیشت ، معاشرت ، ثقافت اور سیاست و قانون پر شیطانی فکر غالب رہے بلکہ روز اول سے اس کا نصب العین اقامت دین رہا ہے ۔ جس میں سیاسی تبدیلی ایک لازمی مرحلہ ہے اور کام وہاں جاکر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ملکی اداروں کی تبدیلی و اصلاح کا کام وہاں سے شروع ہوتا ہے ۔ نظام کی تبدیلی محض پارلیمان میں چند نشستوں پر جا کر بیٹھ جانے کا نام نہیں ہے ، بلکہ ملکی معیشت ، تعلیم ، قانون، ابلاغِ عامہ، غرض ہر شعبے میں افرادی قوت ، نظریاتی اور مقصدی اصلاح کرنے کا نام ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کام چند وزراتوں یا کسی طرح وزارت عظمیٰ تک پہنچ جانے سے نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک طویل اور مسلسل عمل ہے جس میں نصرتِ الٰہی کے ساتھ صحیح حکمت عملی کا بڑا دخل ہے۔
یہ خیال کمزور ہونے کے باوجود بذاتِ خود بحث اور تجزیے کا تقاضا کرتا ہے کہ کچھ عرصے کے لیے سیاسی کام کو معطل کر دیا جائے یا دو الگ دائرے طے کر لیے جائیں۔ درحقیقت یہ تصور جماعت کے قیام و مقصد اور دستور کے منافی ہے ۔اگر ایسا کیا جائے گا تو جماعت اسلامی اس تصور کی توثیق کرے گی جس میں بعض حضرات نے تبلیغ کو اختیار کر لیا اور بعض افراد نے سیا سی محاذ سنبھال لیا ، نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔اگر ایسا کیا جائے تو یہ سیکولر افراد کی تقویت اور خوشی کا باعث ہو گا اور جو حضرات جماعت اسلامی سے کسی نہ کسی وقت بھلائی کی امید رکھتے ہیں ان کی امیدوں کو چکنا چور کرنا ہو گا ۔نہ صرف یہ بلکہ خود وہ لوگ جو جماعت میں اس بنا پر شامل ہو ئے کہ یہاں دین کا ا جتماعی تصور ہے، اور یہاں وہ توازن ہے جو دین چاہتا ہے۔ یہاں اخلاص نیت ہے ۔ یہاں عہدوں کی طلب نہیں ہے۔ یہاں حصول امارت یا شوریٰ کے لیے نجویٰ اورcanvassing نہیں ہے۔ یہاں کسی لسانی یا صوبائی وابستگی کی بنیاد پر کسی کا انتخاب نہیں کیا جاتا ۔یہ اور جماعت کے کلچر سے وابستہ دیگر وجوہ جو کسی کے جماعت سے قریب آنے کا سبب بنتی ہیں ، ان تمام توقعات کو ختم کر دینا ہو گا۔
جماعت اسلامی کے بانی امیر نے اس طرف تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل میں متوجہ کیا تھا:’’یہ کہنا کہ جماعت اسلامی سیاسی جدوجہد کے میدان سے ہٹ کر پہلے کارکنوں کے اخلاق بنائے پھر اس میدان میں قدم رکھے،اپنے پیچھے اخلاق کی تیاری کا یہ تصور رکھتا ہے کہ ایک کام کے لیے جس قسم کے اخلاق کی ضرورت ہے وہ اس کام میں پڑے بغیر کہیں باہر سے تیار کرکے لائے جاسکتے ہیں۔ حالاںکہ یہ تصور اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ خیال غلط ہے کہ کوئی آدمی پانی میں اترے بغیر تیراک ہوسکتا ہے۔ عقل اس کو غلط کہتی ہے ‘‘۔(ص ۱۱۶)
تاہم، جس چیز پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم تحریک کی کامیابی و ناکامی کو صرف سیاسی پیمانے ہی سے ناپنا چاہتے ہیں تو گذشتہ دو اور حالیہ الیکشن کے اعداد وشمار سامنے رکھ کر دیکھا جائےکہ ہمارے مجموعی حاصل کر دہ ووٹوں میں کس تناسب سے کمی یا اضافہ ہوا ہے؟ہم نے کس عمر ، قابلیت ، تجربہ کے افراد کو انتخابی نمایندہ بنایا اور ہر صورت حال میں کامیابی و ناکامی کی وجوہ کیا تھیں؟ اس پہلو سے خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ گذشتہ ۱۰ سال میں ہماری ترجیحات کیا رہی ہیں؟ ہمارے وقت ، مالی وسائل ، صلاحیتوں، منصوبہ بندی کا کتنا تناسب ، قیادت کی اپنی تربیت ، مرکزی شوریٰ اور عاملہ کے ہر فرد کی کارکردگی اور مالی ، فکری تعاون میں صرف ہوا؟ اور کتنا صوبائی اور ضلعی بنیاد پر افراد کے تقرر ، ان کی صلاحیتوں کی نشو ونما (grooming )، ان کا احتساب، ان کی کارکردگی کے معروضی جائزے پر صرف ہوا؟
اس بات کے جائزے کی بھی ضرورت ہے کہ ۱۰ سالہ مدت میں سیا سی منصوبہ بندی اور تنظیمی دوروں اور معاملات میں وقت کا استعمال اور دعوت پر غور وفکر، فکر مودودی سے استفادہ، قرآن و سنت کا براہِ راست مطالعہ اور تجزیہ ، جماعت کی مجموعی فضا سیاسی رہی یا دعوتی؟ للہیت کے پیدا کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ سیاسی محاذ پر مقصود محض شکست دینا تھا یا ہماراطرزِ عمل مصلحانہ اور دعوت کار ہے یا پیشہ ور حزبِ اختلاف کی طرح ہر بات پر منفی طرزِ عمل و تنقید کرتے رہے ، یا وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى (جو کام نیکی اور خداترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو۔ المائدہ۵:۲)پر عمل ہو رہا ہے یا صرف عدم تعاون پر عمل رہا؟ مخالف کا دل جیتنے کے لیے اپنے اہداف و طریقۂ کار سے ایک انچ ہٹے بغیر کیا اقدامات کیے ؟ دیگر تحریکات اسلامی خصوصاً تیونس اور ترکی جہاں تحریک اسلامی کو سیاسی کامیابی ہوئی ، کیا ان کا علمی، تاریخی جائزہ لیا گیا؟ تیونس میں خصوصاً جس طرح النہضۃ نے اپنے مخصوص حالات میں تبدیلی اختیار کی ہے، کیا اس کے بعد وہ ہمارے لیے مثال بن سکتی ہے؟ ترکی میں طیب اردگان کو لانے میں نجم الدین اربکان کا کتنا دخل تھا اور پھر باہمی اختلافات کے بعد آج وہاں پر دعوتی اور تحریکی کام کی شکل کیا ہے؟غرض علمی اور تحقیقی جائزے کے بغیر کسی بھی تحریک اسلامی کی حکمت عملی کو کسی دوسرے مقام پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ مزید یہ کہ کیا واقعی جماعت کی حکمت عملی میں کوئی ایسی خرابی ہے کہ جب تک تیونس اور ترکی سے تریاق نہیں آئے گا، کام نہیں ہو سکتا یا ہم نے خود بعض فیصلے غلط کیے ہیں ، جن کی بنا پر ہم دعوتی اور سیاسی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ ان تمام پہلوؤں پر ان حضرات کو غور کرنےکی ضرورت ہے جو خود میدان میں کام میں مصروف ہوں۔ چند دانش وَر کسی بھی تحریک کو مسائل کا حل نہیں دے سکتے ۔ گو، حکمت مومن کی گم شدہ پونجی ہے اور جہاں سے بھی ملے اسے لینے میں کوئی حرج نہیں۔
اس امر کی ضرورت ہے کہ ترجیح اوّل کے طور پر کارکنوں کی فکر ی تربیت اور دعوتی میدان میں شرکت کے ذریعے عملی تربیت کو اختیار کیا جائے اور ساتھ ہی بلدیاتی انتخابات میں نوجوانوں، صالح اور مکمل طور پر تحریکی فکر رکھنے والے افراد کو متعارف کروایا جائے جو ۱۰ سال بعد ملکی سطح پر تحریک کو قیادت دے سکیں۔
امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے سلسلے میں جنوری ۲۰۱۸ء کے ’اشارات‘ میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے فکرانگیز خیالات پیش کیے ہیں۔ انھوں نے امریکی اور اسرائیلی ملی بھگت سے تیارکردہ جارحانہ پالیسی کو بے نقاب کیا ہے اور مسلم حکومتوں اور عوام کے ردعمل کا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں جو مثبت اقدام کیے جاسکتے ہیں ان کی نشان دہی بھی فرمائی ہے۔ اگرچہ مسئلۂ فلسطین ہم سب کے نزدیک نہایت اہم ہے لیکن صرف یہی اس اُمت کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ اور بہت سارے مسائل کے ساتھ اُلجھا ہوا ہے۔ جب تک اُمت کی صورت حال میں مثبت انداز میں تبدیلی نہیں آتی، کسی بھی مسئلے کا حل ممکن نظر نہیں آتا۔ اس حوالے سے چند گزارشات پیش ہیں:
دُنیا میں ہر چوتھا آدمی مسلمان ہے۔ اس وقت ۵۷ خودمختار مسلم ممالک ہیں جن کے پاس بے انتہا قدرتی اور انسانی وسائل موجود ہیں۔ دُنیا میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب ۸۰کروڑ ہے۔ اگر یہ سب متحد ہوجائیں تو ایک ناقابلِ شکست قوت بن سکتے ہیں اور ان شاء اللہ اس اُمت کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ اس طرح اُمت قومیت اور گروہی اختلافات میں گرفتار ہے۔
صرف پچھلے چند برسوں کا جائزہ لیں کہ کس وسیع پیمانے پر فلسطین،مصر، لیبیا، شام، عراق، لبنان، یمن، افغانستان، پاکستان، الجزائر، میانمار (برما)، بنگلہ دیش، ترکی میں خوں ریزی اور بربادی ہوئی ہے۔ بھارت اور کشمیر میں مسلمان سخت کسمپرسی کے حالات سے گزر رہے ہیں۔ ان خانہ جنگیوں میں القاعدہ، داعش اور دیگر بزعمِ خود جہادی جماعتیں بھی شامل ہیں، جو اپنے دشمنوں کے خلاف متحد ہونے کے بجاے مسلمانوں کے قتل کے درپے ہیں۔ اپنے ملکوں کو خود ہی تباہ و برباد کررہے ہیں۔ ان کے سفاکانہ حملوں میں مساجد اور ماہِ رمضان کا بھی احترام نہیں کیا جاتا۔
پانچویں صدی ہجری جو سنہ عیسوی کی گیارھویں صدی سے مطابقت رکھتی ہے، کا منظر یہ تھا: بروز جمعہ ۲۳ شعبان ۴۹۲ہجری (۵جولائی ۱۰۹۹ء) کو مسیحی جنگجو (Crusaders) یروشلم پر حملہ کرکے شہر میں داخل ہوگئے۔ ۷۰ہزار مسلمانوں کو جن میں مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی شامل تھے تہِ تیغ کردیا۔ انھوں نے بیت المقدس کی قیمتی اشیا کو لوٹ لیا۔
امام ابن کثیرؒ (۱۳۰۱ء-۱۳۷۵ء) نے مسلمانوں کی شکست کے اسباب بیان کیے ہیں کہ فاطمی خلیفۂ وقت داخلی ریشہ دوانیوں سے کمزور ہوگیا تھا۔ اعلیٰ سوسائٹی میں رشوت کا بازار گرم تھا اور دربار سازشوں اور سازبازوں میں گِھرا ہوا تھا، اس لیے یہ ممکن نہ تھا کہ باہر کے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا جاسکے۔
ان گمبھیر حالات میںصلاح الدین ایوبی (۱۱۳۸ء-۱۱۹۳ء) ایک چھوٹی سی ریاست میں برسرِاقتدار آیا۔ اس نے سیاسی صورتِ حال کا جائزہ لیا اور اپنی حکمت عملی سے ان کو حل کرنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے اپنی حکومت ختم کر کے اُمت کو اپنی قیادت پر مجتمع کیا ۔ چنانچہ دوسری صلیبی جنگ جولائی ۱۱۸۷ء میں ہوئی تو صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کو شکست فاش دی اور یروشلم دوبارہ فتح کرلیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے امام ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں کہ: آیندہ کوئی بھی جنگ جُو قوم جو مسلمانوں سے نبرد آزما ہوئی تو وہ شکست کھائے گی کیوں کہ اس اُمت نے سبق سیکھ لیا ہے۔
واے افسوس! کہ اس اُمت نے یروشلم پھر اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا۔فاطمی خلیفہ کی طرح ترک عثمانی خلیفہ بھی کمزور تھا۔ ترک خلافت میں بھی رشوت ستانی گرم اور آپس میں نااتفاقی تھی۔ مغرب نے اپنے جاسوس لارنس آف عربیہ اور گلب پاشا کے ذریعے عربوں اورترکوں کو آپس میں لڑا دیا۔
قرآن نے اکثر تاریخی واقعات سے ہمیں سبق سکھانے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ واقعات یونہی رُونما نہیں ہوتے۔ کوئی اندھی قوت انسانوں کے معاملات طے نہیں کرتی بلکہ قانونِ خداوندی انسانوں کے معاملات کی نگہداشت کرتا ہے:
وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۲۶ (اٰلِ عمرٰن ۳:۲۶) جسے چاہے عزّت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہرچیز پر قادر ہے۔
پھر قرآنِ کریم بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ منصف اور عادل ہے، جو انصاف اور عدل کو پسند کرتا ہے اور دُنیا میں انصاف کو قائم دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ فساد فی الارض کو ناپسند کرتاہے:
وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ۶۴(المائدہ ۵:۶۴) یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔
لہٰذا کوئی بددیانت حکومت کبھی پنپ نہیں سکتی اور اس کی جگہ وہ قوم لیتی ہے جو نسبتاً بہتر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں ؑ کو بھیجنے کی غایت سورئہ حدید میں یوں بیان کی ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۰ۚ (الحدید ۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں ؑ کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
اس آیت کی تشریح کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تین چیزیں لے کر آئے:
ان تینوں چیزوں کا مقصد یہ تھا کہ دنیا میں انسان کا رویہ اور انسانی زندگی کا نظام فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر بھی عدل پر قائم ہو۔ (تفہیم القرآن، ج۵، ص ۳۲۱-۳۲۲)
کیا ہم دیانت داری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری مسلم حکومتیں اور عوام اس معیارِ حق پر پورے اُترتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہیں اور جو واقعات بھی ہورہے ہیں یہ سب ہمارے لیے عبرت کا تازیانہ ہیں کہ شاید ہم اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش کریں۔ تو پھر صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیت کیسے پیدا ہوگی؟ اس کے آثار کچھ اُمیدافزا تو نہیں ہیں لیکن ہمیں نااُمید بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا دوٹوک فیصلہ ہے:
اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ ۰ۭ(الرعد ۱۳:۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
آج کی صورتِ حال میں ہمیں یہودی لابی کو غیرمؤثر بنانے کے لیے مسلم لابی کو مضبوط اور مؤثر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام مغرب میں مقیم مسلمانوں کی قیادت کا ہے جو مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات سے پاک ہوکر یہاں کے مختلف جمہوری اداروں میں نفوذ کریں۔ اگر یہودی اپنی قلیل آبادی کے باوجود کامیاب ہوسکتے ہیں تو مسلمان کیوں ان کا اس میدان میں مقابلہ نہیں کرسکتے؟
عرب ممالک کی مسلسل ناکامی کے بعد یہ ذمہ داری پاکستان ، ترکی، انڈونیشیا اور ملایشیا کی بنتی ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کے حالات کا جائزہ لیں اور جس طرح مدیرمحترم نے تجویز کیا ہے کہ تمام ہم خیال مسلم ممالک کو مشاورت میں شریک کر کے اجتماعی پالیسی تشکیل دیں اور اس کو بروے کار لائیں۔
یہ تمام چیزیں اپنی جگہ نہایت اہم ہیں اور ان پر فوری توجہ اور قابلِ عمل حکمت عملی کے ساتھ پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اُمت کے لیے نہایت اہم مسئلہ جس کے بغیر وہ کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی وہ اس کا زوالِ علم ہے، جس کی طرف توجہ متعدد اہلِ علم دلاچکے ہیں۔ صرف ایک اقتباس پیش کر رہا ہوں جس کا اظہار علّامہ اقبالؒ نے اپنی آخری علالت کے دوران کیا تھا۔ یہ قابلِ توجہ ہے جس سے ان کی اس اُمت کی بہبود کے لیے بے چینی اور تشویش کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ یادداشت ۱۹مارچ ۱۹۳۸ء کی ہے جو سیّد نذیر نیازی مرحوم نے درج کی ہے:
عالمِ اسلام میں تجربہ و تحقیق کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ نہ استعجابِ علم ہے، نہ علم کے لیے کوئی سعی و کاوش۔ یورپ کی حالت ا س سے کسی قدر مختلف ہے۔ وہاں تحقیق ہے، تجربہ ہے، علم سے دلی شغف، شب و روز کی محنت، شب و روز انہماک، حالاں کہ ایک زمانے میں وہاں تجربہ و تحقیق تو درکنار علم کا نام لینا بھی گناہ میں داخل تھا۔
مسلمانوں میں علمی تجسس کا فقدان ہے۔ عالمِ اسلام کا ذہنی انحطاط حددرجہ اندوہناک ہے۔ مسلمانوں میں علمی روح باقی ہے نہ علم و حکمت سے کوئی دلی شغف… اگرہے تو تقلید یا پھر یورپ سے چند ایک مستعار لیے ہوئے خیالات کا اعادہ۔
مسلمانوں کے زوالِ علم کی ذمہ داری محض سیاسی و معاشی حالات پر عائد نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کا علمی زوال تو ان کے دورِ محکومیت سے بھی کہیں زیادہ مقدم ہے۔ لہٰذا سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسے زوال ہوا تو کیسے اور کیوں؟
مسلمانوں نے بھی کبھی اِردگرد کی دُنیا سے علم و حکمت کا اکتساب کیا تھا، مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس شان سے آگے بڑھے کہ علم و حکمت کی کائنات بدل دی۔ علم کو صحیح معنوں میں علم کا درجہ عطا کیا۔ مسلمان آج پھر ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟مسلمانوں میں دم کیوں نہیں؟ اور یہ کہتے کہتے افسردۂ خاطر ہوگئے۔(اقبال کے مضمون، نشستیں اور گفتگوئیں، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،۱۹۷۱ء، ص ۳۷۲-۳۷۴)
یہ تبصرہ آج سے ۸۰برس پہلے کا ہے لیکن افسوس ہے کہ حالات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔ نہ جانے یہ حالات کب تک اس طرح برقرار رہیں گے! اس میں تبدیلی کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ یہ اس اُمت کی بقا و فلاح کے لیے ازحد ضروری ہے۔ یہ ہم سب کے لیے مشکل چیلنج ہے، تاہم اس عرصے میں جو تبدیلی ہوئی ہے وہ یہ کہ کافی آزاد مسلم حکومتیں قائم ہوگئی ہیں۔
اس سلسلے میں ایک پہلو جس پر غور کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ مسلم حکومتیں اپنے بجٹ کا وافر حصہ تعلیم اور تحقیق (research & development)پر خرچ کریں۔
دوسری تجویز جس پر غور کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ مسلم ممالک سے کافی سائنس دان، ڈاکٹر اور انجینیر مغربی ملکوں میں مقیم ہیں۔ یہ فرارِ ذہانت ہے۔ اس کو روکنے کے لیے تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے خود مسلم ممالک میں ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے ملازمت اور تحقیق کی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہی مسبب الاسباب ہے، اگر ہم واقعی اس اُمت کی خیرخواہی کی طرف قدم اُٹھائیں گے تو وہ ہمارے لیے راہیں کھول دے گا، ان شاء اللہ!
جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی آمد اور یہاں ان کے ایک نئے اور مختلف معاشرے کی تشکیل کے مراحل میں، اسلامی تہذیب اور ہندو تہذیب کے باہمی اختلافات کے باوجود،جس نئے معاشرے نے جنم لیا، اس میں ان دونوں تہذیبوں کے اتصال اور ملاپ کے قوی امکانات موجود تھے۔ چنانچہ ایک طویل عرصے تک باہم ساتھ رہنے کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان زندگی کے تمام ہی پہلوئوں میں اختلاف و اشتراک پیدا ہوا اور یوں ایک ایسے نئے معاشرے نے جنم لیا، جس نے ایک یکسر مخلوط معاشرے کی شکل اختیار کی۔
اس نئے معاشرے میں برہمن اسرارِ توحید سیکھنے اور قرآن کا درس دینے کے قابل ہوگئے اور مسلمان علما ہندوئوں کے علوم کے درس و تدریس اور تراجم میں مصروف ہوگئے۔۱ یہی دور تھا کہ جب ہندو مسلم بھائی بھائی کے نظریے کو فروغ حاصل ہوا۔ اس نظریے کے حامیوں نے ، جو زیادہ تر ہندو یا ہندوئوں سے متاثر مسلمان تھے، اس خیال کو عام کرنا شروع کیا کہ کفرواسلام ایک ہی دریا کے دو دھارے ہیں جو ایک انتہا پر باہم مل جاتے ہیں۔ اس صورتِ حال سے ہندوئوں نے بہت فائدہ اُٹھایا۔ ایک جانب انھوں نے ہندودھرم کے احیا کی جانب قدم بڑھائے اور دوسری جانب مسلمانوں کو باقاعدہ مرتد کرنا شروع کیا۔۲
اسی عرصے میں تصوف کے فروغ اور اس کی مقبولیت نے مزید ستم ڈھایا۔ صوفیا نے صلح کُل کا مشرب عام کیا جس نے ’رام‘ اور’ رحیم‘ کے فرق کو مٹانے میں بڑا مؤثر کردار ادا کیا۔
قرونِ وسطیٰ کے اس زمانے میں کہ جب ہندستان میں ’بھگتی تحریک‘کا اثر پھیل رہا تھا اور ’تصوف‘ اور’ ویدانت‘ کے پیروکار مذہب کا نام لے کر عوام میں مذاہب کے باہمی اشتراک اور ’رام‘ اور ’رحیم‘ کے ایک ہونے کا پیغام دے رہے تھے، ہندوئوں نے مسلمان فاتحین اور حکمرانوں کی رضا اور خوش نودی کے لیے حمد، نعت اور سلام و مرثیے اور منقبتیں لکھنی شروع کیں۔ فارسی زبان کو اختیار کیا، قرآن کے منظوم ترجمے کرنے لگے اور صوفیا اور بزرگوں کی محفلوں میں شرکت اور ان کے مزاروں پر حاضری دینے کو خود اپنے لیے حاجت روائی اور نجات کا وسیلہ سمجھنے لگے۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے رام، کرشن اور شیو اور گنگا جمنا پر نظمیں لکھنی شروع کیں۔ ڈھولک کی تھاپ پر درگاہوں اور خانقاہوں میں سماع اور قوالی کو ثواب سمجھ کر اپنا لیا اور بسنت کی تقریبات اہتمام سے منائی جانے لگیں۔ مسلمان حکمرانوں نے ’رام لِیلا‘ اور ’دَسَہرے‘ کے تیوہارکو عوامی انداز میں سرکاری سطح پر رائج کیا۔ جو ’لطف‘ انھیں ’بھگتی تحریک‘ کے زمانے میں کیرتن اور بھجن کے عوامی ناچ گانوں میں آتا تھا وہ بعد میں دلی اور لکھنؤ کے امام باڑوں اور کربلاے معلی میں سوزخوانی کی محفلوں اور تعزیہ نکالنے میں ملنے لگا۔
اسی زمانے سے بعض جگہ تو ہندوئوں اور مسلمانوں کی آپس کی شادیاں، یا پھر ایک دوسرے کی شادی کی تقریبات اور تیج تیوہاروں میں باہمی شرکت اور ہولی دیوالی مشترکہ طور پر منائی جانے لگیں۔ یہ سماجی قربت انھیں اور قریب تر کرنے کا باعث بنی۔ چنانچہ مسلمان صوفیا نے ہندو پنڈتوں سے سنسکرت زبان اور الٰہیات کے درس لینے شروع کر دیے اور ہندو جوگیوں کی پیروی میں رہبانیت کو نجات کا راستہ سمجھ کر اسے اختیار کرنے لگے، تو ان کی تہذیب و ثقافت، تمدن اور فکروعمل، یہاں تک کہ ان کے عقائد کیسے متاثر نہ ہوتے۔ چنانچہ اس وقت کے صوفیا میں حددرجہ تعظیم کے احساس کے تحت آں حضوؐر کی ذات کے مافوق الفطرت ہونے کا خیال بھی عام ہوگیا تھا۔۳ اسی طرح تصوف کے زیراثر دیگر شعبہ ہاے حیات کی مانند اُردو ادب اور خاص طور پر اُردو شاعری نے عہدِ قدیم کے ہندستانی ادب سے ہرسطح پر اثرات قبول کیے۴ اور اس بنیاد پر اُردو نعت بھی ان خیالات و مضامین سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکی، جو اس وقت کے ہندستانی ادب اور ’کیرتن‘ اور ’بھجنوں‘ میں پیش کیے جاتے تھے۔
اس صورتِ حال میں، جس کا آغاز مسلمانوں کی یہاں آمد کے وقت ہی سے شروع ہوچکا تھا لیکن ’بھگتی تحریک‘ کے دور میں اسے گہری بنیادیں اور وسعت حاصل ہوگئی۔ پھر مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر (م: ۱۶۰۵ء) کی خام خیالی نے’دین الٰہی‘ کی حکمت کے تحت اسلام کے عقیدے اور معاشرتی نظام کو بہت بُری طرح متاثر کیا۔ ہندو اکثریت کو خوش کرنے کے لیے اس نے ان کے بہت سے عقائد اور رسوم کو اختیار کرنے کے احکامات صادر کر دیے اور فرائض اسلامی کو ممنوع تک قرار دے دیا۔۵
اکبر کے عہد میں شرعی طور پر حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہوگئے تھے کہ سیّد احمد سرہندی مجددالف ثانی (م: ۱۶۲۴ء) بھی اس دور میں ظہورِ مہدی کے منتظر تھے۔۶ ایسے مایوس کن حالات میں کچھ جرأت مند اور راسخ العقیدہ علما، اکبر کے اقدامات کی مزاحمت پر کمربستہ ہوگئے۷ لیکن اکبر ان کی مخالفتوں کو دبانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کی وفات کے بعد مجدد الف ثانی نے اپنی حکمت عملی سے اس صورتِ حال میں مثبت تبدیلیاں لانے کی کچھ کامیاب کوششیں کیں، جنھیں ’تحریک ِ احیاے دین‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ان کی اس تحریک کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو ہندوئوں کے ساتھ اشتراکِ عمل سے روکنا تھا۔۸
اکبر کے بعد مغل فرماں روا اورنگ زیب (م: ۱۷۰۷ء) تک صورتِ حال کی اصلاح طلبی یوں ہی برقرار رہی۔ اورنگ زیب کے عہد میں سرکاری سطح پر اور طبقہ اولیٰ میں، بمثل داراشکوہ (م:۱۶۵۹ء)، ہندومت سے قرب یا یگانگت کے احساس کے تحت فکری مماثلت کی کسی نے بظاہر عملی کوشش نہیں کی۔ لیکن عوامی سطح پر صورتِ حال راسخ العقیدگی کے لحاظ سے قابلِ اطمینان نہ تھی۔ داراشکوہ کے برعکس اورنگ زیب نے دینِ اسلام سے قربت کی مجدد الف ثانی جیسی روش اختیار کی۔
اکبرکی پیدا کردہ مذہبی، سیاسی اور معاشرتی صورتِ حال میں راسخ العقیدگی کو سلطنت میں دوبارہ رواج دینا کچھ آسان نہ تھا، لیکن اورنگ زیب نے برسرِاقتدار آکر نہ صرف سلطنت کو استحکام بخشا،بلکہ دینی علوم کی ترویج و سرپرستی کے ساتھ مسلم قومیت کو بھی تشخص آشنا کیا۔ اخلاقی انحطاط کو روکنے اور اسلام کو غیراسلامی زوائد سے پاک کرنے کی مؤثر کوشش کی۔ لیکن اورنگ زیب کے بعد مغلیہ سلطنت تیزی سے زوال پذیر ہوئی اور یہ اس کا انتشار ہی تھا کہ جس کے باعث صرف۵۰سال کے عرصے میں برطانوی تاجروں کی ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ نے ۱۷۵۷ء میں ہندستان کے سب سے زرخیز صوبے بنگال کے مسلمان حکمران کو شکست دے کر اس کی حکومت و وسائل پر قبضہ کرلیا اور اگلے ایک سو سال کے بعد ۱۸۵۷ء میں آخری مغل حکمران محمدبہادر شاہ ظفر (۱۸۳۷ء-۱۸۵۷ء) پر بغاوت کا الزام عائد کرکے قید کردیا۔ اس عرصے میں ہندوئوں کی جنگجو قوتیں اُبھرتی رہیں، جنھوں نے انگریزوں کے ساتھ شریک ہوکر مسلمانوں کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا اور ہندو قومیت کے جذبات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے سارے اَدوار میں مسلمانوں کے مقابل ایک مستقل حریف کے طور پر سامنے رہے۔
یہ سارا عرصہ مسلمانوں کے لیے سیاسی زوال اور معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی انحطاط سے عبارت ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ایک اصلاحی اور فکری تحریک کی ضرورت مسلم ملّت کو تھی، جو اس وقت کے سب سے بڑے اور مؤثر مفکرومصلح شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ء-۱۷۶۱ء) نے شروع کی، جو اپنے وقت کے اُن کُل عوارض سے واقف تھے، جن میں ملت اسلامیہ مبتلا تھی۔ ان کے ذہن میں مذہب کا منطقی اور عملی تصور موجود تھا اور اس تصور کو عملی شکل دینے کی صلاحیتیں بھی ان میں موجود تھیں۔ پہلے تو وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کو تباہی سے بچایا جائے اور امن و امان قائم کیا جائے تاکہ مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی اصلاحات کا انقلاب برپا کیا جاسکے۔ ان کی اس ضمن میں عملی کوششیں تو بارآور نہ ہوسکیں کہ حکمران کاہلی اور کوتاہ بینی سے نکل نہ سکے۔ تاہم، شاہ صاحب نے اپنے وابستگان میں جو شعور پیدا کر دیا تھا، اس سے بعد میں آنے والے مصلحین اور مجاہدین: شاہ عبدالعزیز (م:۱۸۲۴ء) ، شاہ اسماعیل (م: ۱۸۳۱ء) اور سیّداحمد بریلوی (م: ۱۸۳۱ء) نے اپنی اپنی حد تک استفادہ کیا اور مسلم ملّت کے لیے تبلیغ و جہاد کو اختیار کرکے اپنی جدوجہد سے ایک تاریخ رقم کرڈالی۔
سیّداحمد شہید کی تحریکِ جہاد کو بظاہر کامیابی نصیب نہ ہوسکی، لیکن انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی ان ہی کے جذبہ و احساس کے زیراثر شروع ہوئی۔ مسلمانوں کے لیے یہ جنگ ناکامی لے کر آئی لیکن اس کے اثرات کے طفیل وہ اس قابل ضرور ہوئے کہ کچھ ہی عرصے بعد اپنی ناکامیوں کا محاسبہ کرسکیں اور اپنے قومی مستقبل کے لیے ایک ایسی راہِ عمل کا انتخاب کرسکیں جس پر چل کر اپنا مستقبل تعمیر کرسکیں اور اپنے مٹتے ہوئے وجود کو سنبھالا دے سکیں۔ مسلمانوں کے لیے اس قیامت خیز زمانے میں سرسیّداحمد خاں (۱۸۱۷ء- ۱۸۹۸ء) ایک فکری، رفاہی اور تعلیمی ایجنڈا لے کر سامنے آتے ہیں۔{ FR 613 }
جنوبی ایشیا کے نوآبادیاتی دور میں فی الحقیقت ہندو اور مسلمان تہذیبی بساط پر پہلے سے زیادہ فاصلے پر نظر آتے ہیں۔ اس عہد میں ہندو ایک نئے اور بڑے طاقت ور طبقے کے طور پر اُبھرے جنھوں نے بڑی حکمت و چالاکی کے ساتھ انگریزوں کی سرپرستی میں اپنے لیے نئے تصورات، نئی زبان (ہندی) اور نئے تعصبات کو وضع کیا اور ان کے مطابق نیا مستقبل متعین کرلیا۔ اس نے انگریزوں سے اپنے مخالفین کو زیر کرنے اور راے عامہ کو اپنے حق میں منظم کرنے کے طورطریقے بھی سیکھے۔ اس تبدیلی کے بعد اس نے انگریزوں کو للکارنا بھی شروع کیا، تاکہ اس کے عوض اس کے طبقاتی مفادات بھی پورے ہوتے رہیں۔
ہندوئوں کے اس طرزِعمل پر برطانوی طریق حکومت اور اندازِ زندگی کی چھاپ تھی، جس کے بغیر یہ تحریک آگے نہ بڑھ سکتی تھی۔ ان کے مقابلے میں مسلمان یہاں اپنی روایات اور باقیات کو سینے سے لگائے بیٹھے تھے۔ نئے تصورات اور حقیقتوں کا ادراک کرنے سے خائف اور گریزاں تھے۔۹ ان دونوں قوموں میں ایک نفسیاتی فرق یہ پیدا ہوگیا کہ ہندو اپنی ہر تحریک معاشرتی اصلاح اور قدیم رسومات کو ترک کرنے کے لیے شروع کر تے، جب کہ مسلمان ابھی تک آٹھ نو سو سالہ حکمرانی کے سحر میں گرفتار رہے۔ ایک مستقبل پانے کے لیے تو دوسرا ماضی میں گم رہنے کے لیے کوشاں رہا۔ نوآبادیاتی دور کے استحکام کے عرصے میں ہندوئوں کا عمل محض اپنے قومی مفادات کے حصول پر مرتکز رہا۔ اس عہد کی تاریخ دراصل دو ہندستانوں کی تاریخ ہے۔
نوآبادیاتی عہد کے ہندستان میں، کہ جب ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ ِ آزادی کے بعد یہاں کی سیاسی زندگی میں مسلمانوں کا حصہ بہت معمولی رہ گیا تھا۔ اس صورتِ حال میں سرسیّداحمد خاں اور علّامہ اقبال مسلمانوں کے قومی وجود کے تحفظ کی جدوجہد میں نہایت اہم مفکرین کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ ان دونوں نے اپنے اپنے عہد کے قومی مسائل میں ان کے حل کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لیے بھی سوچا اور اس کی تعمیر و تشکیل کی منصوبہ بندی بھی کی:
اوّلاً: ان دونوں میں جوقدر مشترک تھی وہ یہ کہ ان دونوں نے اپنے اپنے طرزِ احساس اور خلوص کے مطابق ضروری خیال کیا تھا کہ انگریزوں اور ہندوئوں کے مقابلے میں اپنی قوم کو نبردآزما کرنے کے لیے قوم کو جدید حالات کے تقاضوں کے مطابق تیار کیا جائے، ان میں قومی شعور پیدا کیا جائے اور سیاسی شعور کو عام کیا جائے۔
سیّداحمدخاں نے مسلمانوں کی سیاسی، معاشی اور سماجی تباہی کا حل بجاطور پر تعلیمی بیداری میں دیکھا۔ اس کے لیے عملی جدوجہد کے دوران محض ہندستان کے ماحول ہی میں نہیں بلکہ مسلم دنیا کے وسیع تناظر میں مسلمانوں کے قومی مسائل کو موضوع بنایا۔ بالکل اسی طرح اقبال کی فکر اور ان کے پیغام میں خلوص بھی تھا، اثر بھی اور زور بھی، خود ان کے اپنے دور ہی میں جنوبی ایشیا کی ملت اسلامی کے لیے خاصا انقلابی اور پُرکشش تھا۔ اس کے اثرات گہرے اور دیرپا ثابت ہوئے۔
اگرچہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے اتحاد پر ایک مدت تک سیّد احمد خاں زور دیتے رہے، لیکن انگریزی سامراج کے زیراثر ہندوئوں کی مسلم دشمن تحریکوں کے نتیجے میں، وہ اس کی طرف سے یکسر مایوس ہوگئے ۔ پھر سیّداحمد خاں نے دو قومی نظریہ پیش کرتے ہوئے علانیہ اظہار کیا کہ: ’اب ہندستان میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے‘۔ علّامہ اقبال کے عہد تک پہنچتے پہنچتے دوقومی نظریہ اپنی ارتقا کی انتہائی منزلوں پر تھا، اور درمیانی عرصے میں علیحدگی کے جذبات کا مختلف اکابر کی طرف سے آئے دن مختلف النوع اظہار ہوتا رہا۔
بیسویں صدی کے ہندستان میں مسلمانوں کے لیے یہ سیاسی مسائل مزید خدشات اور خطرات کا سبب بن گئے۔ چنانچہ اقبال نے ان مسائل اور خطرات پر گہری تشویش کااظہار کیا۔ اپنے زمانے کے عام حالات کا جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ: ’’ہندی اور اُردو کے نزاع سے لے کر جب سالہا سال ہوئے مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور انھوں نے محسوس کیا کہ سرسیّد کا یہ قول کہ ’ہمارا اور ہندوئوں کا راستہ الگ الگ ہے‘، حرف بحرف صحیح ثابت ہورہاہے۔ یہ احساس اس وقت بھی قائم تھا، جب ترک موالات کی تحریک زوروں پر تھی اور اس وقت بھی جب کانگریس نے علی الاعلان مسلمانوں کی جداگانہ قومیت سے انکار کیا، جب ’نہرو رپورٹ‘ پیش کی گئی اور جب اس سیاسی محاذ کے ساتھ قومی تعلیم اور قومی زبان کے نام سے ایک نیا محاذ ہماری تہذیب و تمدن اور ہمارے اخلاق و معاشرت کے خلاف قائم کیا گیا‘‘۔؎۱۰
سرسیّد بجا طور پر ہندی یا ہندستانی کے نعرے کو مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کی ایک سازش سمجھتے تھے۔ چنانچہ ان کا خیال تھا کہ ’ہندی کی تحریک‘ دراصل اُردو پر حملہ ہے اور اُردو کے پردے میں بالواسطہ اسلامی تہذیب پر یلغار ہے۔؎۱۱ یہی وجہ ہے کہ علی گڑھ کی بدولت مسلمانوں میں جدید تعلیم سے وابستہ بیداری پیدا ہوئی، جسے ایک طبقہ، ہندی مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ کی تحریک کہتا ہے۔؎۱۲ جب کہ دوسرے طبقے کی راے میں: ’سرسیّد کے طرزِفکر نے مغرب زدگی اور تجدّد پسندی کی جو راہ ہموار کی تھی ، اس کے برگ و بار آج تک ہماری قومی زندگی میں تلخی پیدا کیے ہوئے ہیں‘۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال نے بھی وطنی قومیت کے نظریے کی تردید کی اور مسلم اُمہ کو دنیاے اسلام کے ناقابلِ تقسیم ہونے کے خیال سے سرشار کیا۔ پھر انھیں کم از کم برعظیم کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد اسلامی مملکت کے ایک واضح تصور کی تشکیل کا حصہ دار بنادیا۔
۱- ’جیسے رزاق اللہ مشتاقی اور میاں طٰہٰ کو ہندوئوں کے علوم پر بڑا عبور حاصل تھا‘ خلیق احمد نظامی،سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات، اعظم گڑھ، ۱۹۸۵ء،ص۴۵۱؛ ’محمد غوث گوالیاری ہندوئوں کے علوم پر دسترس رکھتے تھے، شیخ محمد اکرام، ۱۹۷۵ء، رُودِ کوثر، لاہور،ص ۳۹؛ مزید تفصیلات کے لیے: ڈاکٹر محمد اسلم، ۱۹۷۰ء دینِ الٰہی اور اس کا پس منظر، لاہور، ص ۲۶، ۱۴۶-۱۵۱
۲- اس عہد کی تاریخوں میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جن سے مسلمانوں کے ارتداد کی اطلاعات ملتی ہیں۔ تفصیلات کے لیے دینِ الٰہی اور اس کا پس منظر، از ڈاکٹر محمد اسلم، ص ۲۷-۲۸؛ ان سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ ہندودھرم کے احیا اور شدھی کی تحریکوں نے جارحیت کا انداز اختیار کرلیا تھا۔ مختلف اَدوار میں اس کی مثالوں کے لیے: اے پنجابی، ۱۹۳۹ء،Confedracy of India، لاہور،ص ۵۱-۵۴
۳- این میری شیمل،۱۹۶۳، Gabriel's Wing، ص ۱۷۷
۴- متعدد محققین نے اس موضوع پر دادِ تحقیق دی ہے ۔ ایک مبسوط مطالعہ، مونس، پرکاش، اُردو ادب پر ہندی ادب کا اثر، الٰہ آباد، ۱۹۷۸ء،اس موضوع کا مفصل احاطہ کرتا ہے، جب کہ اس کے برعکس ایک باہمی اثرپذیری کے مطالعے کے لیے ، سیّد اسد علی، ۱۹۷۹ء، ہندی ادب کے بھگتی کال پر مسلم ثقافت کے اثرات، دہلی ، مفید ہے۔
۵- اس کے مذہبی عقائد کے بارے میں کافی لکھا جاچکا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر محمد اسلم، تصنیف مذکور؛ خلیق احمد نظامی، Akbar and Religion ؛ اطہر عباس رضوی، ۱۹۶۵ء، Muslim Revivalist Movement in North India in the Sixteenth and Seventeenth Centuries ،لکھنؤ ،۱۹۶۵ء مفصل ہیں۔ نیز ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی، ۱۹۷۲ء، Ulema in Politics ، ص ۴۳-۸۱، کراچی
۶- شیخ احمد سرہندی، مکتوباتِ امام ربانی، جلداوّل، لکھنؤ ۱۹۲۵ء، ص ۱۶۳؛ ایک اور مکتوب میں وہ لکھتے ہیں کہ کفّار صرف اس پر راضی نہیں کہ اسلامی حکومت میں علانیہ کافرانہ قوانین نافذ ہوجائیں بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی احکام اور قوانین سرے سے ناپید کردیے جائیں اور ان کومٹا دیا جائے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی اثر اور نشان یہاں باقی نہ رہے۔(ایضاً، ص ۱۰۵)
۷- تفصیلات کے لیے، ص ۲۳۹-۲۴۰؛ حفیظ ملک، Muslim Nationalism in India and Pakistan، ۱۹۶۸ ء ، ص ۵۳-۵۴، واشنگٹن
۸- اسی بنا پر علّامہ محمد اقبال نے مجدد الف ثانی کو برعظیم میں مسلم قومیت کا بانی قرار دیا تھا۔
۹- اسلام کے تعلق سے ان کوششوں کا ایک جائزہ: فری لینڈ ایبٹ Islam and Pakistan، ص ۶۶- ۷۶ ؛ حفیظ ملک: Muslim Nationalism in India and Pakistan میں ہے، ص ۶۴-۶۹
۱۰- مقالاتِ سرسیّد، ج اوّل، ایضاً، ص ۴۹
۱۱- ایضاً، ص ۱۳۶
۱۲- سیّد نذیر نیازی [مرتبہ]،اقبال کے حضور، لاہور، ۱۹۷۶ء، ج ۱، ص ۲۹۲-۲۹۳
ہمارے ہاں بھی عجیب لوگ پائے جاتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں: ’خلافت‘ کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے… پھر یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں ’قومی ریاست‘ کا تصور نہیں پایا جاتا، اور طبیعت میں جوش آجائے تو کہہ گزرتے ہیں کہ ’جمہوریت نظامِ کفر ہے‘۔
پہلے لفظ ’خلافت‘ پر غور کر لیا جائے___ یہ لفظ قرآنِ مجید میں نیابت کے معنی میں استعمال ہوا ہے: ’’میں زمین پر اپنا نائب (خلیفہ) بنانے والا ہوں‘‘(البقرہ ۲:۳۰)۔ چنانچہ پہلے انسان کی تخلیق عمل میں آگئی۔ قرآنِ مجید کے انگریز مترجمین نے ’خلیفہ‘ (Vicegerent)کا ترجمہ زیادہ تر ’وائسراے‘ کیا ہے، یعنی وہ حاکم جسے سلطنت کے اصل بادشاہ کی جانب سے اختیارات تفویض (delegate) کیے جائیں۔ وہ اختیارات کے استعمال کے لیے بادشاہ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے اور یہ اختیارات غیرمحدود بھی نہیں ہوتے۔ ’خلافت‘ سے مراد ایسی ریاست لی گئی، جسے اللہ کے ان بندوں نے قائم کیا ہو، جو اس کی بادشاہت یا حاکمیت ِ اعلیٰ (Sovereignty) پر پورا یقین رکھتے ہوں اور اس کے دیے ہوئے اختیارات سے تجاوز نہ کرتے ہوں۔ لہٰذا، تاریخ کے اوراق ایک ایسی ریاست کے وجود میں آنے کی گواہی ضرور دیتے ہیں جسے مؤرخین بالاتفاق ’خلافت‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہ ریاست حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی تھی۔ اس کے ذریعے اللہ اور اس کے آخری رسولؐ پر ایمان لانے والوں اور ریاست کے ماتحت بندوں پر اللہ تعالیٰ کے احکام، یعنی شریعت ِ خداوندی کا نفاذ کیا گیا تھا۔
تاریخی طور پر اسے ’خلافت‘ کا نام اس وقت سے دیا جاتا ہے، جب پیغمبراسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا اور ان کے جانشین نے دارالحکومت کے مسلمانوں کی بیعتِ خاص اور بیعتِ عام کی طاقت کے بل بوتے پر انتظامِ حکومت سنبھالا، اور حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفۃ النبیؐ کہلائے۔ یہاں عربی زبان میں لفظ خلیفہ کے دوسرے معنی سامنے آجاتے ہیں: ’’ایک کی جگہ دوسرا لینے والا‘‘۔ ایک پتّا جب اپنی عمر پوری کرکے درخت سے ٹوٹ کر گر جاتا ہے، تو نئی کونپل پھوٹتی ہے اور پہلے کی جگہ نیا پتّا نکل آتا ہے۔ عربی زبان کی رُو سے اسے بھی خلیفہ کہا جاتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب مسنداقتدار سنبھالی تو ظاہر ہے کہ وہ نبیؐ کی جگہ نبی نہیں بنے تھے، بلکہ نبیؐ کی قائم کردہ ریاست کے سربراہ کی خالی مسند پر تشریف فرما ہوئے تھے۔ ان کی وفات پرمسلمانوں کی زمامِ اقتدار حضرت عمرؓ کے سپرد ہوئی، تو شروع میں انھیں ’خلیفۃ النبیؐ، کہا جانے لگا۔ یہ ادق اصطلاح تھی اور زبانوں پر رواں نہیں ہوتی تھی، لہٰذا اس کے بجاے ’امیرالمومنین‘ کے خطاب کو رواج دیا گیا، یعنی ان لوگوں کا سربراہِ حکومت و سلطنت جو ایمان والے ہیں اور مسلمان ہیں۔ جن شہریوں نے اسلام قبول نہ کیا، ریاست کے فرمان بردار ہونے کی صورت میں ان کے جان و مال یہاں تک کہ عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری لی گئی، مگر ان کا علیحدہ تشخص قائم ہوا۔
آپ بھلے کہتے رہیں: ’خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں‘… مگر قرآنِ مجید کی اس آیتِ کریمہ کا کس طرح انکار کرسکتے ہیں، جس میں ارشاد ہے: ’’جن لوگوں کو ہم زمین پر اقتدار بخشتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں‘‘(الحج ۲۲:۴۱)۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ غریبوں کی ضروریات پوری کرتے اور اعلیٰ انسانی قدروں کو فروغ دیتے ہیں۔ حکومت تو معلوم انسانی تاریخ کے دوران انسانوں کے ایسے لاتعداد گروہوں اور قوموں کو بھی دی گئی، جنھوں نے نہ نماز قائم کی اور نہ معروف معنوں میں زکوٰۃ ہی کا نظام جاری کیا، لیکن قرآنِ مجید کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ حکومت و سلطنت یا ریاست وہی ہوگی، جو اس کے قائم کردہ معیار پر پوری اُترے گی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب خلیفۂ اوّل کے طور پر آںحضوؐر کی تخلیق کردہ مسند اختیارسنبھالی تو نمازوں کی امامت اپنے ذمے لی اور پہلی جنگ منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف لڑی۔ یہ لوگ ریاست کے باقاعدہ شہری تھے اور اس کی سرحدوں کے اندر رہتے تھے۔ باہر کے لوگوں سے زکوٰۃ کی ادایگی سے انکار پر ان کے خلاف آمادۂ جنگ ہونے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔
اور یہ ’سرحدوں کے تقدس‘ کے حوالے سے بھی عجیب بات اُچھالی جارہی ہے۔ ریاست انسانوں کے ایک خاص گروہ یا قوم کے گھر کا نام ہوتا ہے۔ آپ ذاتی زندگی میں اپنے افرادِ کنبہ کو بسانے کے لیے جائز طور پر ایک قطعۂ زمین حاصل کرتے ہیں، اس پر گھر بناتے ہیں اور گھر کی چاردیواری تعمیر کرتے ہیں۔ اس چار دیواری کا تقدس کیا آپ کے ذہن و قلب میں نہیں پایا جاتا؟ کیا آپ کسی کو اسے پامال کرنے کی اجازت دیں گے؟ ریاست خواہ اسلامی ہو یا غیراسلامی، خلافت ہو یا آمریت اور بادشاہت، وہ اپنے شہریوں کے لیے محفوظ گھر کا درجہ رکھتی ہے۔ لامحالہ اس کی سرحدیں ہوتی ہیں، ان کی حفاظت پورے ریاستی نظام کی ذمہ داری قرار پاتی ہے اور اسی کو تقدس کہتے ہیں۔ سرحدیں پھیلتی اور سکڑتی بھی رہتی ہیں۔ خلافت کے جس دور کا آغاز حضرت ابوبکرؓ سے ہوا اور حضرت علیؓ کی شہادت پر ختم ہوگیا، اسی عہد کو ’خلافت ِ راشدہ‘ کا نام دیا جاتا ہے اور مسلمان اسے اپنی تاریخ کا سنہری دور تصور کرتے ہیں۔ تمام کے تمام غیرمسلم مؤرخین بھی انھی برسوں کو ’خلافت‘ کے نام سے ممیز کرتے ہیں۔
اس کے بعد مسلمانوں کی ملوکیتیں اور بادشاہتیں وجود میں آئیں۔ ان کی وجہ سے اسلامی ریاست یا خلافت کا یہ معیاری اصول نظروں سے اوجھل ہوگیا کہ مسلمانوں کا سربراہِ حکومت، آزادانہ ماحول کے اندر منعقد ہونے والی بیعت کی طاقت پر کرسیِ اقتدار پر فائز ہوتا ہے۔ بادشاہت نے غلبہ پایا تو باپ کی جگہ بیٹے نے بیعت لینا شروع کر دی بلکہ بہت سی مثالوں میں تو باپ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے بیٹے کے حق میں جوڑتوڑ میں لگ گئے۔ مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے ان کے لیے امیرالمومنین کا لقب پسند نہ کیا، اگرچہ اُموی اور عباسی ملوک اصرار کے ساتھ یہ سابقہ لگایا کرتے تھے، مگر مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ کے دوران ان کے اَدوار کو بادشاہت ہی سے تعبیر کیا۔
عباسیوں کی جگہ مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاستی طاقت کی حیثیت عثمانیوں نے لی۔ وہ خود کو خلیفہ کے بجاے سلاطین کہلاتے تھے۔ اطراف و اکناف عالم میں ان کی حکومت اپنے دورِعروج میں ۵۰۰سال تک سلطنت عثمانیہ کہلاتی رہی۔ جس میں ایک شیخ الاسلام کا تقرر ہوتا تھا اور فقہ حنفی پر مشتمل اسلامی قوانین کا بھی بھلا چنگا نظام رُوبۂ عمل تھا۔ یہ تو انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے کہ جب وہ سلطنت اندر سے کمزور ہوگئی، تو ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوگیا۔ روس کے ساتھ جنگوں نے اس کا بیرونی دفاع بھی کمزور کر دیا۔ تمام کی تمام یورپی طاقتیں اس سلطنت کے وجود کی دشمن ہوگئیں۔ تب ترکی کے سلطان نے مسلمانانِ عالم کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے خلیفہ کا لقب اختیار کرلیا حالاں کہ وہ تھی تو اصل میں ملوکیت ہی ،اگرچہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی قوت کی علامت تھی۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ چودہ سو سالہ تاریخ کے دوران مسلمانوں کے نزدیک خلافت کے حقیقی ماہ و سال وہی تھے، جو حضرت ابوبکرؓ کی حکومت سے شروع ہوئے اور حضرت علیؓ کے دور پر منتج ہوئے۔ بجاطور پر اسی کو مثالی دور سمجھا اور کہا جاتا ہے۔ اسلامی اصولوں اور ریاست کے دنیوی تقاضوں کا ملاپ اسی عہد میں ہوا اور نہایت کامیابی کے ساتھ ہوا۔ مسلمان آج تک اگر اسے مثالی مانتے ہوئے اس کی قدروں کا احیا چاہتے ہیں تو یہ کوئی نامناسب خواہش نہیں ہے۔ تاہم، سیاست و ریاست کے نظام و انتظام کو چلانے کے لیے اداراتی سطح اور سماجی سطح پر جو بہت سی نئی صورتیں سامنے آئی ہیں، ان کے مقتضیات قطعی مختلف ہیں۔ تاہم، اس زمانی تبدیلی کے باوجود دین تو وہی ہے اور خلافت ِ راشدہ نے جن دینی اور دُنیوی اقدار کو فروغ دیا ہے، ان اسلامی اقدار کی مظہر ریاست کے قیام کی شدید خواہش اور تمنا ہرمسلمان کے دل میں پائی جاتی ہے، جو ایک فطری امر ہے۔
سیکولر دنیا کے فکری امام افلاطون نے کوئی سوا دو ہزار سال پہلے ’خیالی جنّت‘ (Utopia) کا تصور پیش کیا تھا، جو کبھی وجود میں نہیں آسکی۔ لیکن مغرب کی تمام قوموں کی جدوجہد اس ’خیالی جنّت‘ کے قریب تر تصور تک پہنچنے پر مرکوز رہی ہے۔ اس کی خاطر انھوں نے نظریاتی اور عملی لحاظ سے بے شمار کامیاب و ناکام تجربے کیے ہیں، مگر اپنے معیار یا ’خیالی جنّت‘ کے حصول کو ہمیشہ سامنے رکھا ہے۔ ہماری مثالی ’جنّت‘ تو وہ ہے جو ایک مرتبہ قائم ہوکر اپنا جلوہ دکھا چکی ہے۔ اگرچہ ہمارے اہلِ علم اجتہاد کا نام تو بہت لیتے ہیں، مگر عملی و فکری سطح پر معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔خلافت ِ راشدہ کے بارے میں اس بات پر عمومی اتفاق پایا جاتا ہے کہ اس میں جمہوری اسپرٹ رچی بسی تھی۔ جب یہ باقی نہ رہی تو سب کچھ موروثی ہوگیا اور ملوکیت یا بادشاہت چھاگئی۔ مجرد سیکولر جمہوریت کے برعکس مسلمانوں کی جمہوریت کی اوّلین اور بنیادی خصوصیت اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ ہے، تو خلافت ِ راشدہؓ میں بھی بالادست نظریہ یہی تھا۔
اہلِ مغرب کو اس سے تکلیف ہرگز نہیں کہ آپ خلافت کے نام پر کوئی ریاست قائم کرلیں۔ انھیں اصل خدشہ یہ ہے کہ اسلام اور جمہوریت کا دوبارہ ملاپ ہوکر، مسلم دنیا میں، مسلم عوام کی مرضی سے ایک خودکار نظام وضع نہ ہونے پائے۔ کیوں کہ اس طرح تو اسلام اور مسلمان دونوں ہم ساز اور دم ساز (compatible) بن جائیں گے اور صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ قائم ہوجائے گی۔ اسے اگر خلافت کا نام نہ بھی دیا جائے تو بھی اس کی شورائی اور خلافتی روح اس میں کارفرما ہوسکتی ہے۔ اسی لیے ۲۵سال پہلے جب الجزائر میں اسلامی فرنٹ (FIS)کی منتخب حکومت قائم ہوا چاہتی تھی تو مغربی جبروا ستبداد پورے قہر کے ساتھ اس ملک پر نازل ہوا۔ ہزاروں افراد کا بے دریغ قتل کرکے فرانس اور امریکا نواز آمریت قائم کر دی گئی۔ ۲۰۱۳ء میں مصر جیسے اہم ترین عرب ملک میں محمدمرسی وہاں کے پہلے منتخب صدر ہوئے، جو اسلامی نظریات کے علَم بردار تھے۔ ان کی حکومت ایک سال نہ چلنے پائی تھی کہ اسے فوجی شب خون کے ذریعے اُڑا کر رکھ دیا گیا۔ امریکا و یورپ اور اُن کے زیراثر چند مؤثر مسلم ممالک نے نئی آمریت کی کھل کر حمایت کی کہ کہیں اسلام اور جمہوریت کا ملاپ ظہور میں نہ آجائے۔
پاکستان میں بھی اس تجربے کو کامیاب ہونے سے بار بار روکا گیا۔ ہم نے طویل جدوجہد کے بعد اسلام اور جمہوریت کے امتزاج کا حامل آئین بنایا، جسے باربار اکھاڑ پھینکا گیا یا معطل کردیا گیا۔ امریکا نے ہمارے ہاں ہرفوجی آمریت کی پشت پناہی کی، مگر ابوبکر البغدادی نے ’خلافت‘ کے نام سے خلافت کے تصور کو جو بدنام کرنا شروع کیا، تو اس سے مغرب والوں کی روح بہت مسرور ہوئی۔ اس لیے کہ داعش اور اس کی ہم خیال تنظیموں کی بدولت اسلام اور مسلمانوں کے ماتھے پر ’دہشت گردی‘ کا لیبل چسپاں کرنا آسان ہوگیا ہے اور یہی ان کا مقصود ہے۔ مگر ہمارے بعض دانش ور حضرات خلط مبحث کرتے ہوئے بلاوجہ خلافت کی اصطلاح کے دینی یا غیردینی ہونے کی بحث میں پڑے ہوئے ہیں۔
بحیثیت قوم اور بحیثیت معلم و سیاست دان ، ہماری توجہ، کھلے عام افہام و تفہیم کے ذریعے جمہوری انداز میں نظام کو تبدیل کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے، نہ کہ جمہوریت کی مذمت کرتے کرتے اسلام کی شورائی روح ہی کو کچل دینے کا آلۂ کار بن جانا چاہیے۔
عہد حاضر میں جدید تہذیب اور جدید طرزِ زندگی نے آج عموماً ہمارے اصلاح پسند لوگوں میں جو خرابیاں پیدا کردی ہیں، ان میں تین بیماریاں سب سے مہلک ہیں جو خود دینی روح کی نفی کرتی ہیں۔ ان میں ایک تو خود رائی اور انانیت، دوسرے مصلحت پسندی، اور تیسرے دوسروں سے بے گانگی و بے حسی ہے۔
یہ عوارض انسانی معاشرت کے لیے ضرررساں ہیں۔ انھی روّیوں سے معاشرے کا امن و سکون درہم برہم ہی نہیں ہوتا، بلکہ کش مکش اور تصادم کی ایسی فضا ہموار ہوتی ہے، جس میں ہرفرد اپنی ذات اور اپنے مفادات کا اسیر ہوجاتاہے، اور وہ اعلیٰ اقدار و روایات جن سے کسی معاشرے کا حُسن قائم ہوتاہے، بتدریج مٹ جاتی ہیں۔اگر یہ خامیاں نہ ہوں تو باہمی میل جو ل اور تعلقات میں محبت، رواداری اور برداشت و تحمل کی اعلیٰ صفات اور خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پرانی معاشرت میں وضع داری، انسانی تعلق کا پاس و لحاظ، ایثار و محبت اور رواداری کی خوبیوں کا توازن مثبت پلڑے میں تھا، جن کی وجہ سے اُس زمانے میں نفسا نفسی اور آپی دھاپی کی ویسی فضا نہ تھی جس کا تماشا ہم آج کی نئی معاشرت میں آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔
جن عوارض کا ذکر کیا گیا، ان کے اسباب کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس صورت حال کا بھی ادراک کرنا ہوگا، جو آج کے انسان کا جبر ہے۔ نئی معاشرت اور نئی جدید تہذیب، یہ سب سائنس و ٹکنالوجی کے فراہم کردہ وسائل و تعیشاتِ زندگی سے عبارت ہے۔ یہ تہذیب بنیادی طور پر مشینوں پر انحصار کرنے کی وجہ سے ایک مشینی اور میکانکی تہذیب ہے، جو خود اپنی اقدار پیدا کرتی ہے۔ اقبال نے اسی لیے مشینوں کی حکومت کو’دل‘کی موت سے تعبیر کیا تھا۔
مشینیں احساسات و جذبات سے عاری ہوتی ہیں۔ جدید تہذیبی زندگی کا انحصار جیسے جیسے مشینوں پر بڑھتا جاتاہے اور انسان ان مشینوں سے حاصل ہونے والی سہولتوں اور آسائشات سے زیادہ سے زیادہ سے بہرہ ور ہونے کے لیے ان کو اپنی ذات اور خاندان کے لیے ناگزیر تصور کرنے لگتا ہے، وہ مجبور ہوجاتاہے کہ ان کے حصول کے لیے اپنی دولت اور آمدنی میں ا ضافے کے لیے خود مشین بن جائے۔ آج کار، ایئرکنڈیشنڈ، واشنگ مشین، فریج، مائیکرو یو اوون، ٹیلی وژن، کمپیوٹر، اور اس نوع کی دوسری مشینیں جو زندگی میں آسانیاں پیدا کرتی ہیں، بنیادی اور ضروری بن چکی ہیں۔ ان کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور محال ہوتا جارہاہے۔
ان وسائل کی موجودگی سے جہاں سہولتیں اور آسانیاں حاصل ہوتی ہیں، وہیں ان کے حصول کے لیے آدمی کو کسب معاش کی تدابیر کرنی پڑتی ہیں کہ معاشرے میں انھی سے اس کا سماجی مرتبہ اور ’اسٹیٹس‘متعین ہوتاہے۔ جب جدید شہری معاشرہ دولت اور اسٹیٹس کی دوڑ میں شریک ہوجاتا ہے تو اس میں کامیابی کے لیے اسے اعلیٰ اقدار و روایات جو دوسروں کے لیے خیر خواہی ، ایثار و قربانی ، محبت و مروت، تحمل و برداشت وغیرہ سے عبارت ہوتی ہیں، بدقسمتی سے انھیں خیر باد کہنا پڑتا ہے۔چوں کہ اس ساری مسابقت و مقابلے کا محور و مرکز اپنی ذات اور اپنا گھرانا اور اس کے مفادات ہوتے ہیں،ا س لیے مقابلے میں جیتنے کی شرط ہی خود غرضی، مفاد پرستی ، بے حسی و بے گانگی وغیرہ ہوتی ہے۔
چناںچہ، ہمیں جو اقدار و روایات آج بھی چھوٹے شہروں اور قصبات میں نظر آتی ہیں، ان کے مظاہر بڑے شہروں کی مصروف و مشینی زندگی میں ناپید دکھائی دیتے ہیں۔ گویا جن عوارض کو آج کے انسانوں میں ہم نے ’مہلک بیماری‘سے تعبیر کیا، وہ آج کی شہری زندگی کی مجبوری بھی ہے اور مقدر بھی۔ چھوٹے شہروں اور قصبات و دیہات میں آج بھی لوگوں کے پاس وقت کی فراوانی ہے، اور مہرو محبت اور خلوص کے جذبات ہیں جن کا اظہار مہمان نوازی اور تواضع کی صورت میں وہاںکیاجاتاہے۔ ایسی مہمان نوازی ، دل داری اور تواضع کی توقع آج کے شہری آدمی سے نہیں کی جاسکتی۔ گویا انسان اپنے ماحول کا اسیر ہوتاہے اور یہ ماحول کا جبر ہوتاہے جس میں انسان اپنی خوبیوں یا خامیوں کی نشوونما کرتاہے۔
لہٰذا، شہری زندگی اور مسائل میں گھرے ہوئے آدمی کی جانچ پرکھ کے لیے ان عوامل کو نظر میں رکھا جانا چاہیے۔ آج کا ایک عام شہری جو روزگار کی مجبوری میں صبح گھر سے نکلتا ہے، طویل فاصلے کو طے کرکے، ٹریفک کے ہجوم اور بدنظمی سے ذہنی کوفت و اذیت کو جھیلتے ہوئے دفتر یا کاروبار کے لیے پہنچتا اور پھر شام تک سر کھپا کر واپس ایسی ہی اذیتوں کو سہتے ہوئے گھر لوٹتا ہے، جہاں پہلے سے اُلجھنیں اور پریشانیاں اسے گھیرنے کے لیے تیار بیٹھی ہوتی ہیں۔ ایسے پریشاں حال آدمی سے اعلیٰ اخلاقی صفات کی اُمید رکھنا بجاے خود کم فہمی ہے۔
اس لیے آج کے شہری انسان کو نصیحتوں اور مشوروں کی نہیں، مدد کی ضرورت ہے ۔ پہلے اسے ان بکھیڑوں اور الجھنوں سے نجات دلانے کی ضرورت ہے، جن میں اُلجھ کر وہ دانستہ یا نادانستہ اپنی اخلاقی صفات کھو بیـٹھا ہے یا ان کی نشوونما کرنے اور انھیں اُبھارنے کی طرف سے غافل ہے۔ آج کا شہری انسان ’مظلوم‘ہے۔ اسے ’ظلم‘ کے شکنجے سے نکالے بغیر اس سے اچھا انسان بننے کی توقع ایسی ہی ہے، جیسے ایک کمزور و بیمار انسان کو بستر پر پڑا دیکھ کر اسے کاہلی اور بے عملی کا طعنہ دیا جائے۔ جب وجود کی بقا ایک سوال بن جائے تو انانیت اور خود رائی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ جب آسایشات اور ضروریات ہی زندگی کی مجبوری یا اوّلین ترجیح بن جائیں تو مصلحت و مفاد پرستی پر اعتراض کو وزن دینے کے لیے کوئی آمادہ نظر نہیں آتا۔ جب تہذیب و معاشرت میں ترقی کے لیے یکساں مواقع، عدل و انصاف اور سیاسی و معاشی نظام میں انسانی ہمدردی، خیر خواہی اور مساوات کے اصول و ضابطے ناپید ہوجائیں، تو افراد اور معاشرے میں بے حسی اور بے گانگی کا پیدا ہوجانا کوئی تعجب خیز امر نہیں رہتا۔
جب کسی معاشرے میں ماحول اور مسائل کے جبر کے تحت انسان زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجائے تو اس کی شخصیت دولخت ہوجاتی ہے۔ وہ اعتقادات کی سطح پر ایک الگ زندگی اور معاملات کی سطح پر ایک بالکل مختلف و متضاد طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج معاشرے میں عقیدہ و عمل میں تضاد پیدا ہوگیا ہے۔ ہم جو عقیدہ اور اخلاقی تصورات اپنے ذہن میں رکھتے ہیں، ان عقائد اور اخلاقی تصورات کی روشنی میں معاملات کرناچاہیں بھی تو نہیں کرپاتے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ جو لوگ درس قرآن ، درس حدیث اور وعظ و تلقین کی مجلسوں میں اچھے اور نیک خیالات سن کر اپنے اندر سے اپنے ذہن ، ضمیر اور دل سے ان سچائیوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ مدرس کے حکیمانہ نکتوں پر ’واہ واہ،سبحان اللہ‘ کے ڈونگرے بھی برساتے ہیں، لیکن ان پاکیزہ جذبات سے سرشار مجلسوں سے نکل کر بھی اکثر ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں، اور چند استثنائی مثالوں کے سوا ان کے عملی معاملات میںکوئی واضح اور قابلِ ذکر تبدیلی جڑ نہیں پکڑتی۔ اس حقیقت کو سمجھے بغیر یہ بات قابلِ فہم نہیں ہوسکتی کہ اگر محض وعظ و تلقین سے انسان بدلے جاسکتے تو آج سارے انسان نیکوکار ہوتے۔ یہ بات کہنے کا مقصد وعظ ، تلقین اور تبلیغ کی افادیت اور اہمیت کا انکار نہیں، بلکہ ان کے ساتھ دیگر پہلوئوں کی جانب توجہ دلانا مقصود ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ انسان اندر سے بھی بدلتا ہے اور باہر سے بھی۔ اگر معاشرتی ، معاشی اور سیاسی نظام اَبتر و مایوس کن ہو تو ایسے نظام کے زیر اثر دکھ، اذیت اور ظلم سہتے انسان کو محض اچھی توقعات کے بَل پر اچھا نہیں بنایا جاسکتا۔ ایسے انسان کو مشورے سے زیادہ ، مدد کی ضرورت ہے۔ مدد کے بغیر مشورہ دینا اور نصیحت کرنا کم فہمی کے ساتھ خود ناصح کی بے حسی ہے کہ جن مریضوں کو وہ ناصحانہ دوائیں تجویز کررہا ہے ، ان کے مرض کے اصل اسباب سے ہی بے خبر ہے یا انھیں جاننے میں وہ غلطی کا مرتکب ہورہا ہے۔