جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی آمد اور یہاں ان کے ایک نئے اور مختلف معاشرے کی تشکیل کے مراحل میں، اسلامی تہذیب اور ہندو تہذیب کے باہمی اختلافات کے باوجود،جس نئے معاشرے نے جنم لیا، اس میں ان دونوں تہذیبوں کے اتصال اور ملاپ کے قوی امکانات موجود تھے۔ چنانچہ ایک طویل عرصے تک باہم ساتھ رہنے کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان زندگی کے تمام ہی پہلوئوں میں اختلاف و اشتراک پیدا ہوا اور یوں ایک ایسے نئے معاشرے نے جنم لیا، جس نے ایک یکسر مخلوط معاشرے کی شکل اختیار کی۔
اس نئے معاشرے میں برہمن اسرارِ توحید سیکھنے اور قرآن کا درس دینے کے قابل ہوگئے اور مسلمان علما ہندوئوں کے علوم کے درس و تدریس اور تراجم میں مصروف ہوگئے۔۱ یہی دور تھا کہ جب ہندو مسلم بھائی بھائی کے نظریے کو فروغ حاصل ہوا۔ اس نظریے کے حامیوں نے ، جو زیادہ تر ہندو یا ہندوئوں سے متاثر مسلمان تھے، اس خیال کو عام کرنا شروع کیا کہ کفرواسلام ایک ہی دریا کے دو دھارے ہیں جو ایک انتہا پر باہم مل جاتے ہیں۔ اس صورتِ حال سے ہندوئوں نے بہت فائدہ اُٹھایا۔ ایک جانب انھوں نے ہندودھرم کے احیا کی جانب قدم بڑھائے اور دوسری جانب مسلمانوں کو باقاعدہ مرتد کرنا شروع کیا۔۲
اسی عرصے میں تصوف کے فروغ اور اس کی مقبولیت نے مزید ستم ڈھایا۔ صوفیا نے صلح کُل کا مشرب عام کیا جس نے ’رام‘ اور’ رحیم‘ کے فرق کو مٹانے میں بڑا مؤثر کردار ادا کیا۔
قرونِ وسطیٰ کے اس زمانے میں کہ جب ہندستان میں ’بھگتی تحریک‘کا اثر پھیل رہا تھا اور ’تصوف‘ اور’ ویدانت‘ کے پیروکار مذہب کا نام لے کر عوام میں مذاہب کے باہمی اشتراک اور ’رام‘ اور ’رحیم‘ کے ایک ہونے کا پیغام دے رہے تھے، ہندوئوں نے مسلمان فاتحین اور حکمرانوں کی رضا اور خوش نودی کے لیے حمد، نعت اور سلام و مرثیے اور منقبتیں لکھنی شروع کیں۔ فارسی زبان کو اختیار کیا، قرآن کے منظوم ترجمے کرنے لگے اور صوفیا اور بزرگوں کی محفلوں میں شرکت اور ان کے مزاروں پر حاضری دینے کو خود اپنے لیے حاجت روائی اور نجات کا وسیلہ سمجھنے لگے۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے رام، کرشن اور شیو اور گنگا جمنا پر نظمیں لکھنی شروع کیں۔ ڈھولک کی تھاپ پر درگاہوں اور خانقاہوں میں سماع اور قوالی کو ثواب سمجھ کر اپنا لیا اور بسنت کی تقریبات اہتمام سے منائی جانے لگیں۔ مسلمان حکمرانوں نے ’رام لِیلا‘ اور ’دَسَہرے‘ کے تیوہارکو عوامی انداز میں سرکاری سطح پر رائج کیا۔ جو ’لطف‘ انھیں ’بھگتی تحریک‘ کے زمانے میں کیرتن اور بھجن کے عوامی ناچ گانوں میں آتا تھا وہ بعد میں دلی اور لکھنؤ کے امام باڑوں اور کربلاے معلی میں سوزخوانی کی محفلوں اور تعزیہ نکالنے میں ملنے لگا۔
اسی زمانے سے بعض جگہ تو ہندوئوں اور مسلمانوں کی آپس کی شادیاں، یا پھر ایک دوسرے کی شادی کی تقریبات اور تیج تیوہاروں میں باہمی شرکت اور ہولی دیوالی مشترکہ طور پر منائی جانے لگیں۔ یہ سماجی قربت انھیں اور قریب تر کرنے کا باعث بنی۔ چنانچہ مسلمان صوفیا نے ہندو پنڈتوں سے سنسکرت زبان اور الٰہیات کے درس لینے شروع کر دیے اور ہندو جوگیوں کی پیروی میں رہبانیت کو نجات کا راستہ سمجھ کر اسے اختیار کرنے لگے، تو ان کی تہذیب و ثقافت، تمدن اور فکروعمل، یہاں تک کہ ان کے عقائد کیسے متاثر نہ ہوتے۔ چنانچہ اس وقت کے صوفیا میں حددرجہ تعظیم کے احساس کے تحت آں حضوؐر کی ذات کے مافوق الفطرت ہونے کا خیال بھی عام ہوگیا تھا۔۳ اسی طرح تصوف کے زیراثر دیگر شعبہ ہاے حیات کی مانند اُردو ادب اور خاص طور پر اُردو شاعری نے عہدِ قدیم کے ہندستانی ادب سے ہرسطح پر اثرات قبول کیے۴ اور اس بنیاد پر اُردو نعت بھی ان خیالات و مضامین سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکی، جو اس وقت کے ہندستانی ادب اور ’کیرتن‘ اور ’بھجنوں‘ میں پیش کیے جاتے تھے۔
اس صورتِ حال میں، جس کا آغاز مسلمانوں کی یہاں آمد کے وقت ہی سے شروع ہوچکا تھا لیکن ’بھگتی تحریک‘ کے دور میں اسے گہری بنیادیں اور وسعت حاصل ہوگئی۔ پھر مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر (م: ۱۶۰۵ء) کی خام خیالی نے’دین الٰہی‘ کی حکمت کے تحت اسلام کے عقیدے اور معاشرتی نظام کو بہت بُری طرح متاثر کیا۔ ہندو اکثریت کو خوش کرنے کے لیے اس نے ان کے بہت سے عقائد اور رسوم کو اختیار کرنے کے احکامات صادر کر دیے اور فرائض اسلامی کو ممنوع تک قرار دے دیا۔۵
اکبر کے عہد میں شرعی طور پر حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہوگئے تھے کہ سیّد احمد سرہندی مجددالف ثانی (م: ۱۶۲۴ء) بھی اس دور میں ظہورِ مہدی کے منتظر تھے۔۶ ایسے مایوس کن حالات میں کچھ جرأت مند اور راسخ العقیدہ علما، اکبر کے اقدامات کی مزاحمت پر کمربستہ ہوگئے۷ لیکن اکبر ان کی مخالفتوں کو دبانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کی وفات کے بعد مجدد الف ثانی نے اپنی حکمت عملی سے اس صورتِ حال میں مثبت تبدیلیاں لانے کی کچھ کامیاب کوششیں کیں، جنھیں ’تحریک ِ احیاے دین‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ان کی اس تحریک کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو ہندوئوں کے ساتھ اشتراکِ عمل سے روکنا تھا۔۸
اکبر کے بعد مغل فرماں روا اورنگ زیب (م: ۱۷۰۷ء) تک صورتِ حال کی اصلاح طلبی یوں ہی برقرار رہی۔ اورنگ زیب کے عہد میں سرکاری سطح پر اور طبقہ اولیٰ میں، بمثل داراشکوہ (م:۱۶۵۹ء)، ہندومت سے قرب یا یگانگت کے احساس کے تحت فکری مماثلت کی کسی نے بظاہر عملی کوشش نہیں کی۔ لیکن عوامی سطح پر صورتِ حال راسخ العقیدگی کے لحاظ سے قابلِ اطمینان نہ تھی۔ داراشکوہ کے برعکس اورنگ زیب نے دینِ اسلام سے قربت کی مجدد الف ثانی جیسی روش اختیار کی۔
اکبرکی پیدا کردہ مذہبی، سیاسی اور معاشرتی صورتِ حال میں راسخ العقیدگی کو سلطنت میں دوبارہ رواج دینا کچھ آسان نہ تھا، لیکن اورنگ زیب نے برسرِاقتدار آکر نہ صرف سلطنت کو استحکام بخشا،بلکہ دینی علوم کی ترویج و سرپرستی کے ساتھ مسلم قومیت کو بھی تشخص آشنا کیا۔ اخلاقی انحطاط کو روکنے اور اسلام کو غیراسلامی زوائد سے پاک کرنے کی مؤثر کوشش کی۔ لیکن اورنگ زیب کے بعد مغلیہ سلطنت تیزی سے زوال پذیر ہوئی اور یہ اس کا انتشار ہی تھا کہ جس کے باعث صرف۵۰سال کے عرصے میں برطانوی تاجروں کی ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ نے ۱۷۵۷ء میں ہندستان کے سب سے زرخیز صوبے بنگال کے مسلمان حکمران کو شکست دے کر اس کی حکومت و وسائل پر قبضہ کرلیا اور اگلے ایک سو سال کے بعد ۱۸۵۷ء میں آخری مغل حکمران محمدبہادر شاہ ظفر (۱۸۳۷ء-۱۸۵۷ء) پر بغاوت کا الزام عائد کرکے قید کردیا۔ اس عرصے میں ہندوئوں کی جنگجو قوتیں اُبھرتی رہیں، جنھوں نے انگریزوں کے ساتھ شریک ہوکر مسلمانوں کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا اور ہندو قومیت کے جذبات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے سارے اَدوار میں مسلمانوں کے مقابل ایک مستقل حریف کے طور پر سامنے رہے۔
یہ سارا عرصہ مسلمانوں کے لیے سیاسی زوال اور معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی انحطاط سے عبارت ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ایک اصلاحی اور فکری تحریک کی ضرورت مسلم ملّت کو تھی، جو اس وقت کے سب سے بڑے اور مؤثر مفکرومصلح شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ء-۱۷۶۱ء) نے شروع کی، جو اپنے وقت کے اُن کُل عوارض سے واقف تھے، جن میں ملت اسلامیہ مبتلا تھی۔ ان کے ذہن میں مذہب کا منطقی اور عملی تصور موجود تھا اور اس تصور کو عملی شکل دینے کی صلاحیتیں بھی ان میں موجود تھیں۔ پہلے تو وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کو تباہی سے بچایا جائے اور امن و امان قائم کیا جائے تاکہ مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی اصلاحات کا انقلاب برپا کیا جاسکے۔ ان کی اس ضمن میں عملی کوششیں تو بارآور نہ ہوسکیں کہ حکمران کاہلی اور کوتاہ بینی سے نکل نہ سکے۔ تاہم، شاہ صاحب نے اپنے وابستگان میں جو شعور پیدا کر دیا تھا، اس سے بعد میں آنے والے مصلحین اور مجاہدین: شاہ عبدالعزیز (م:۱۸۲۴ء) ، شاہ اسماعیل (م: ۱۸۳۱ء) اور سیّداحمد بریلوی (م: ۱۸۳۱ء) نے اپنی اپنی حد تک استفادہ کیا اور مسلم ملّت کے لیے تبلیغ و جہاد کو اختیار کرکے اپنی جدوجہد سے ایک تاریخ رقم کرڈالی۔
سیّداحمد شہید کی تحریکِ جہاد کو بظاہر کامیابی نصیب نہ ہوسکی، لیکن انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی ان ہی کے جذبہ و احساس کے زیراثر شروع ہوئی۔ مسلمانوں کے لیے یہ جنگ ناکامی لے کر آئی لیکن اس کے اثرات کے طفیل وہ اس قابل ضرور ہوئے کہ کچھ ہی عرصے بعد اپنی ناکامیوں کا محاسبہ کرسکیں اور اپنے قومی مستقبل کے لیے ایک ایسی راہِ عمل کا انتخاب کرسکیں جس پر چل کر اپنا مستقبل تعمیر کرسکیں اور اپنے مٹتے ہوئے وجود کو سنبھالا دے سکیں۔ مسلمانوں کے لیے اس قیامت خیز زمانے میں سرسیّداحمد خاں (۱۸۱۷ء- ۱۸۹۸ء) ایک فکری، رفاہی اور تعلیمی ایجنڈا لے کر سامنے آتے ہیں۔{ FR 613 }
جنوبی ایشیا کے نوآبادیاتی دور میں فی الحقیقت ہندو اور مسلمان تہذیبی بساط پر پہلے سے زیادہ فاصلے پر نظر آتے ہیں۔ اس عہد میں ہندو ایک نئے اور بڑے طاقت ور طبقے کے طور پر اُبھرے جنھوں نے بڑی حکمت و چالاکی کے ساتھ انگریزوں کی سرپرستی میں اپنے لیے نئے تصورات، نئی زبان (ہندی) اور نئے تعصبات کو وضع کیا اور ان کے مطابق نیا مستقبل متعین کرلیا۔ اس نے انگریزوں سے اپنے مخالفین کو زیر کرنے اور راے عامہ کو اپنے حق میں منظم کرنے کے طورطریقے بھی سیکھے۔ اس تبدیلی کے بعد اس نے انگریزوں کو للکارنا بھی شروع کیا، تاکہ اس کے عوض اس کے طبقاتی مفادات بھی پورے ہوتے رہیں۔
ہندوئوں کے اس طرزِعمل پر برطانوی طریق حکومت اور اندازِ زندگی کی چھاپ تھی، جس کے بغیر یہ تحریک آگے نہ بڑھ سکتی تھی۔ ان کے مقابلے میں مسلمان یہاں اپنی روایات اور باقیات کو سینے سے لگائے بیٹھے تھے۔ نئے تصورات اور حقیقتوں کا ادراک کرنے سے خائف اور گریزاں تھے۔۹ ان دونوں قوموں میں ایک نفسیاتی فرق یہ پیدا ہوگیا کہ ہندو اپنی ہر تحریک معاشرتی اصلاح اور قدیم رسومات کو ترک کرنے کے لیے شروع کر تے، جب کہ مسلمان ابھی تک آٹھ نو سو سالہ حکمرانی کے سحر میں گرفتار رہے۔ ایک مستقبل پانے کے لیے تو دوسرا ماضی میں گم رہنے کے لیے کوشاں رہا۔ نوآبادیاتی دور کے استحکام کے عرصے میں ہندوئوں کا عمل محض اپنے قومی مفادات کے حصول پر مرتکز رہا۔ اس عہد کی تاریخ دراصل دو ہندستانوں کی تاریخ ہے۔
نوآبادیاتی عہد کے ہندستان میں، کہ جب ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ ِ آزادی کے بعد یہاں کی سیاسی زندگی میں مسلمانوں کا حصہ بہت معمولی رہ گیا تھا۔ اس صورتِ حال میں سرسیّداحمد خاں اور علّامہ اقبال مسلمانوں کے قومی وجود کے تحفظ کی جدوجہد میں نہایت اہم مفکرین کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ ان دونوں نے اپنے اپنے عہد کے قومی مسائل میں ان کے حل کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لیے بھی سوچا اور اس کی تعمیر و تشکیل کی منصوبہ بندی بھی کی:
اوّلاً: ان دونوں میں جوقدر مشترک تھی وہ یہ کہ ان دونوں نے اپنے اپنے طرزِ احساس اور خلوص کے مطابق ضروری خیال کیا تھا کہ انگریزوں اور ہندوئوں کے مقابلے میں اپنی قوم کو نبردآزما کرنے کے لیے قوم کو جدید حالات کے تقاضوں کے مطابق تیار کیا جائے، ان میں قومی شعور پیدا کیا جائے اور سیاسی شعور کو عام کیا جائے۔
سیّداحمدخاں نے مسلمانوں کی سیاسی، معاشی اور سماجی تباہی کا حل بجاطور پر تعلیمی بیداری میں دیکھا۔ اس کے لیے عملی جدوجہد کے دوران محض ہندستان کے ماحول ہی میں نہیں بلکہ مسلم دنیا کے وسیع تناظر میں مسلمانوں کے قومی مسائل کو موضوع بنایا۔ بالکل اسی طرح اقبال کی فکر اور ان کے پیغام میں خلوص بھی تھا، اثر بھی اور زور بھی، خود ان کے اپنے دور ہی میں جنوبی ایشیا کی ملت اسلامی کے لیے خاصا انقلابی اور پُرکشش تھا۔ اس کے اثرات گہرے اور دیرپا ثابت ہوئے۔
اگرچہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے اتحاد پر ایک مدت تک سیّد احمد خاں زور دیتے رہے، لیکن انگریزی سامراج کے زیراثر ہندوئوں کی مسلم دشمن تحریکوں کے نتیجے میں، وہ اس کی طرف سے یکسر مایوس ہوگئے ۔ پھر سیّداحمد خاں نے دو قومی نظریہ پیش کرتے ہوئے علانیہ اظہار کیا کہ: ’اب ہندستان میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے‘۔ علّامہ اقبال کے عہد تک پہنچتے پہنچتے دوقومی نظریہ اپنی ارتقا کی انتہائی منزلوں پر تھا، اور درمیانی عرصے میں علیحدگی کے جذبات کا مختلف اکابر کی طرف سے آئے دن مختلف النوع اظہار ہوتا رہا۔
بیسویں صدی کے ہندستان میں مسلمانوں کے لیے یہ سیاسی مسائل مزید خدشات اور خطرات کا سبب بن گئے۔ چنانچہ اقبال نے ان مسائل اور خطرات پر گہری تشویش کااظہار کیا۔ اپنے زمانے کے عام حالات کا جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ: ’’ہندی اور اُردو کے نزاع سے لے کر جب سالہا سال ہوئے مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور انھوں نے محسوس کیا کہ سرسیّد کا یہ قول کہ ’ہمارا اور ہندوئوں کا راستہ الگ الگ ہے‘، حرف بحرف صحیح ثابت ہورہاہے۔ یہ احساس اس وقت بھی قائم تھا، جب ترک موالات کی تحریک زوروں پر تھی اور اس وقت بھی جب کانگریس نے علی الاعلان مسلمانوں کی جداگانہ قومیت سے انکار کیا، جب ’نہرو رپورٹ‘ پیش کی گئی اور جب اس سیاسی محاذ کے ساتھ قومی تعلیم اور قومی زبان کے نام سے ایک نیا محاذ ہماری تہذیب و تمدن اور ہمارے اخلاق و معاشرت کے خلاف قائم کیا گیا‘‘۔؎۱۰
سرسیّد بجا طور پر ہندی یا ہندستانی کے نعرے کو مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کی ایک سازش سمجھتے تھے۔ چنانچہ ان کا خیال تھا کہ ’ہندی کی تحریک‘ دراصل اُردو پر حملہ ہے اور اُردو کے پردے میں بالواسطہ اسلامی تہذیب پر یلغار ہے۔؎۱۱ یہی وجہ ہے کہ علی گڑھ کی بدولت مسلمانوں میں جدید تعلیم سے وابستہ بیداری پیدا ہوئی، جسے ایک طبقہ، ہندی مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ کی تحریک کہتا ہے۔؎۱۲ جب کہ دوسرے طبقے کی راے میں: ’سرسیّد کے طرزِفکر نے مغرب زدگی اور تجدّد پسندی کی جو راہ ہموار کی تھی ، اس کے برگ و بار آج تک ہماری قومی زندگی میں تلخی پیدا کیے ہوئے ہیں‘۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال نے بھی وطنی قومیت کے نظریے کی تردید کی اور مسلم اُمہ کو دنیاے اسلام کے ناقابلِ تقسیم ہونے کے خیال سے سرشار کیا۔ پھر انھیں کم از کم برعظیم کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد اسلامی مملکت کے ایک واضح تصور کی تشکیل کا حصہ دار بنادیا۔
۱- ’جیسے رزاق اللہ مشتاقی اور میاں طٰہٰ کو ہندوئوں کے علوم پر بڑا عبور حاصل تھا‘ خلیق احمد نظامی،سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات، اعظم گڑھ، ۱۹۸۵ء،ص۴۵۱؛ ’محمد غوث گوالیاری ہندوئوں کے علوم پر دسترس رکھتے تھے، شیخ محمد اکرام، ۱۹۷۵ء، رُودِ کوثر، لاہور،ص ۳۹؛ مزید تفصیلات کے لیے: ڈاکٹر محمد اسلم، ۱۹۷۰ء دینِ الٰہی اور اس کا پس منظر، لاہور، ص ۲۶، ۱۴۶-۱۵۱
۲- اس عہد کی تاریخوں میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جن سے مسلمانوں کے ارتداد کی اطلاعات ملتی ہیں۔ تفصیلات کے لیے دینِ الٰہی اور اس کا پس منظر، از ڈاکٹر محمد اسلم، ص ۲۷-۲۸؛ ان سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ ہندودھرم کے احیا اور شدھی کی تحریکوں نے جارحیت کا انداز اختیار کرلیا تھا۔ مختلف اَدوار میں اس کی مثالوں کے لیے: اے پنجابی، ۱۹۳۹ء،Confedracy of India، لاہور،ص ۵۱-۵۴
۳- این میری شیمل،۱۹۶۳، Gabriel's Wing، ص ۱۷۷
۴- متعدد محققین نے اس موضوع پر دادِ تحقیق دی ہے ۔ ایک مبسوط مطالعہ، مونس، پرکاش، اُردو ادب پر ہندی ادب کا اثر، الٰہ آباد، ۱۹۷۸ء،اس موضوع کا مفصل احاطہ کرتا ہے، جب کہ اس کے برعکس ایک باہمی اثرپذیری کے مطالعے کے لیے ، سیّد اسد علی، ۱۹۷۹ء، ہندی ادب کے بھگتی کال پر مسلم ثقافت کے اثرات، دہلی ، مفید ہے۔
۵- اس کے مذہبی عقائد کے بارے میں کافی لکھا جاچکا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر محمد اسلم، تصنیف مذکور؛ خلیق احمد نظامی، Akbar and Religion ؛ اطہر عباس رضوی، ۱۹۶۵ء، Muslim Revivalist Movement in North India in the Sixteenth and Seventeenth Centuries ،لکھنؤ ،۱۹۶۵ء مفصل ہیں۔ نیز ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی، ۱۹۷۲ء، Ulema in Politics ، ص ۴۳-۸۱، کراچی
۶- شیخ احمد سرہندی، مکتوباتِ امام ربانی، جلداوّل، لکھنؤ ۱۹۲۵ء، ص ۱۶۳؛ ایک اور مکتوب میں وہ لکھتے ہیں کہ کفّار صرف اس پر راضی نہیں کہ اسلامی حکومت میں علانیہ کافرانہ قوانین نافذ ہوجائیں بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی احکام اور قوانین سرے سے ناپید کردیے جائیں اور ان کومٹا دیا جائے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی اثر اور نشان یہاں باقی نہ رہے۔(ایضاً، ص ۱۰۵)
۷- تفصیلات کے لیے، ص ۲۳۹-۲۴۰؛ حفیظ ملک، Muslim Nationalism in India and Pakistan، ۱۹۶۸ ء ، ص ۵۳-۵۴، واشنگٹن
۸- اسی بنا پر علّامہ محمد اقبال نے مجدد الف ثانی کو برعظیم میں مسلم قومیت کا بانی قرار دیا تھا۔
۹- اسلام کے تعلق سے ان کوششوں کا ایک جائزہ: فری لینڈ ایبٹ Islam and Pakistan، ص ۶۶- ۷۶ ؛ حفیظ ملک: Muslim Nationalism in India and Pakistan میں ہے، ص ۶۴-۶۹
۱۰- مقالاتِ سرسیّد، ج اوّل، ایضاً، ص ۴۹
۱۱- ایضاً، ص ۱۳۶
۱۲- سیّد نذیر نیازی [مرتبہ]،اقبال کے حضور، لاہور، ۱۹۷۶ء، ج ۱، ص ۲۹۲-۲۹۳