نومبر ۲۰۱۷

فہرست مضامین

اُمہات المومنینؓ کی بے مثال انجمن

ڈاکٹر محی الدین غازی | نومبر ۲۰۱۷ | سیرتِ صحابیاتؓ

Responsive image Responsive image

جب ہم خیر امت کی تاریخ کے روشن صفحات پر نظر ڈالتے ہیں تو اُمہات المومنینؓ کے حوالے سے بہت دل کش منظر سامنے آتا ہے۔ یہ منظر بتاتا ہے کہ اُمہات المومنینؓ میں آپس میں جس قدر الفت ومحبت تھی، اس کی نظیر سگی بہنوں میں بھی کہاں ملتی ہوگی؟ اُمہات المومنینؓ کی باہمی اخوت کو ایمانی اخوت کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اُمہات المومنینؓ کے گھروں میں کتاب وحکمت کا خوب خوب چرچا رہتا تھا، اور اس کی برکت سے ان کی زندگی روشن سے روشن تر ہوتی جاتی تھی۔ اللہ کے رسولؐ کی تربیت کے فیض سے ان کی سیرت شاہ کار بن گئی تھی، ان کے دل کدورتوں سے پاک اور ان کی زبانیں بے اعتدالی سے دُور تھیں۔ ایسی پاک بی بیوںؓ کے بے مثال باہمی تعلقات کی مکمل عکاسی پیش کرنا نہ راویوں سے ممکن تھا اور نہ وہ کرسکے، بس کچھ جھلکیاں روایتوں کے ریکارڈ میں محفوظ ہوگئیں۔ انھی جھلکیوں سے بہت کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اُمہات المومنینؓ کی باہمی قربت نے ایک مثالی انجمن [یہاں لفظ ’انجمن‘ سے مراد کوئی پارٹی نہیں بلکہ ’ ہم نشینی‘ اور ’مشارکت‘ ہے] کی صورت اختیار کرلی تھی، اور اس انجمن کے اندر ہر وقت بے لوث محبت،سچّی دوستی اور حقیقی خیر خواہی کا دور دورہ رہتا تھا۔ وہ ایک دوسرے کی بہت قریبی سہیلیاں تھیں۔ ان کا آپس میں جتنا گہرا تعلق تھا، اتنا گہرا تعلق اپنی دوسری رشتے دار خواتین سے بھی نہیں تھا۔وہ ایک دوسرے کی دم ساز اور ہم راز تھیں۔وہ جب اپنی ’سوتن‘ (ضَرَّۃٌ، ہم سر) کا ذکر کرتیں، تو صَوَاحِبْی کا لفظ استعمال کرتیں، یعنی سہیلیاں اور ہم جولیاں۔ اس انجمن کی مستقل ملاقاتیں اور نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ کبھی اللہ کے رسولؐ کے ساتھ سب کی نشست ہوتی تھی، تو کبھی آپؐ کی   عدم موجودگی میں بھی۔ انھیں اللہ کے رسولؐ کے سامنے اپنا کوئی مشترکہ مسئلہ رکھنا ہوتا تھا، تو پہلے وہ آپس میں مشورہ بھی کر لیا کرتی تھیں، اور پھر آپس ہی میں اپنا ایک نمایندہ طے کرکے اسے اللہ کے رسولؐ کے پاس بھیجتی تھیں، کہ وہ سب کی طرف سے عرض داشت پیش کرے۔ایک بار انھوں نے حضرت اُم سلمہؓ کو اپنا نمایندہ بنا کر بھیجا، ان کے الفاظ میں: کَلَّمَنِیْ صَوَاحِبِیْ اَنْ اُکَلِّمَ رَسُوْلَ اللہِ (مسند احمد)، میری سہیلیوں نے مجھ سے کہا کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے (ایک مسئلے میں) بات کروں۔

اس بے مثال انجمن کی نشستیں اللہ کے رسول کے ساتھ روزانہ شام کوباری باری سب کے گھر میں ہوا کرتی تھیں: فَکُنَّ یَجْتَمِعْنَ کُلَّ لَیْلَۃٍ فِیْ بَیْتِ الَّتِیْ یَاْتِیْھَا (مسلم، باب القسم بین الزوجات، حدیث: ۲۷۳۴)۔ وہ بادل ناخواستہ محض اللہ کے رسولؐ کے حکم کی تعمیل میں اپنی سوتن کے گھر جمع نہیں ہوتی تھیں۔ امام نووی کہتے ہیں کہ وہ سب خوشی اور رضامندی سے اپنی کسی ایک ہم سر کے گھر جمع ہوجایا کرتی تھیں: ھٰذَا الْاِجْتِمَاعُ کَانَ بِرِضَاھُنَّ (شرح نووی)

جب اُمہات المومنینؓ کی اس انجمن میں کسی نئی رکن کا اضافہ ہوتا تو سب اس کا گرم جوشی سے پرتپاک خیر مقدم کرتیں، اور اپنے اچھے جذبات اور نیک تمناؤں کا اظہار کرتیں۔ اُم المومنین حضرت زینبؓ بنت جحش آپ کے نکاح میں آتی ہیں، نان گوشت کا ولیمہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد راوی کے بقول: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک کرکے تمام بیویوں کے حجروں میں تشریف لے جاتے ہیں، اور سب بارک اللہ لک کہہ کر خیر وبرکت کی دعائیں دیتی ہیں (بخاری،  مسلم)۔ امام قرطبی اس منظر سے متاثر ہوکر لکھتے ہیں: سوتن کی آمد پر ان کا یہ انداز بیان بتاتا ہے کہ ان کی سوچ کتنی بلند تھی، ان کا ظرف کتنا بڑا تھا، ان کا ساتھ رہ کر جینے کا سلیقہ کتنا عمدہ تھا، ورنہ یہ تو سوتنوں کے لیے آپے سے باہر ہوجانے اور پاس ولحاظ بھول جانے کا موقعہ ہوتا ہے، لیکن وہ تو بہترین انسان کی بہترین بیویاں تھیں، وَصُدُوْرُ مِثْلِ ھٰذَا الْکَلَامِ عَنْھُنَّ فِیْ حَالِ اِبْتِدَاءِ  اِخْتِصَاصِ الضَّرَۃِ الدَّاخِلَۃِ بِہٖ، یَدُلُّ عَلٰی قُوَّۃِ عُقُوْلِھِنَّ وَصَبْرِھِنَّ وَحُسْنِ مُعَاشَرَتِھِنَّ وَاِلَّا                                فَھٰذَا مَوْضِعُ الطَّیْشِ وَالْخِفَۃِ لِلِضَّرَائِرِ، لٰکِنَّھُنَّ  طَیِّبَاتٌ لِطَیِّبٍ(المفھم، کتاب النکاح، باب تزویج النبیؐ زینب)

اُمہات المومنینؓ کی آپس میں کس قدر محبت اور بے تکلفی ہوا کرتی تھی، اس کا ایک واقعہ حضرت عائشہؓ کی زبانی سنیے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ ان کے ایک طرف سودہ بیٹھی تھیں۔ میں آپ کے لیے خزیرہ (ایک سالن) بنا کر لائی۔ میں نے سودہ سے کہا، تم بھی کھاؤ۔ سودہ نے کہا: مجھے خواہش نہیں ہے۔ میں نے کہا: کھاؤ ،ورنہ ابھی یہ تمھارے منہ پر مل دوں گی۔ سودہ نے نہیں کھایا تو میں نے اپنے ہاتھ میں سالن لگایا اور ان کے چہرے پر مَل دیا۔ آپؐ دیکھ کر مسکرا دیے، پھر آپؐ نے سودہ کے ہاتھ میں سالن لگایا اور کہا تم عائشہ کے چہرے پر  مَل دو۔ اس کے بعد پھر آپؐ ہنسنے لگے۔ اتنے میں باہر سے حضرت عمرؓ کی آواز سنائی دی۔ آپؐ کو خیال ہوا شاید وہ ملاقات کرنے آئے ہیں۔ آپؐ نے دونوں سے کہا: اٹھو جلدی سے اپنا منہ دھو لو۔ (مسند ابی یعلی)۔ اس واقعے سے اُمہات المومنینؓ کے درمیان جو محبت، اپنائیت ، بے تکلفی اور صاف دلی جھلک رہی ہے، وہ نہایت دل کش اور بے نظیر ہے۔

ازواج مطہراتؓ کی اپنے شوہر سے محبت اور اپنی سوتنوں کے سلسلے میں کشادہ ظرفی کا عالم یہ تھا کہ اپنے کسی بھی حق سے خوشی خوشی دست بردار ہوجایا کرتی تھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو آپؐ کے لیے مشکل ہوگیا کہ ایک ایک دن سب کے یہاں گزاریں۔ آپؐ نے سب سے اجازت لی کہ آپؐ کی تیمار داری حضرت عائشہؓ کے یہاں رہ کر ہو۔ اس موقعے پر تمام اَزواج خوش دلی سے راضی ہوگئیں۔ (بخاری،کتاب الطب، باب اللّدود، حدیث: ۵۳۹۲)

اس موقعے سے حضرت عائشہؓ کے حجرے کو تیمار داری کا شرف حاصل ہوا، لیکن کوئی افسردہ خاطر ہوکر اپنے گھر نہیں بیٹھی، تمام ازواج فراخ دلی کے ساتھ آپ کے پاس حاضر رہیں اور مل جل کر آپ کی خدمت اور عیادت میں لگی رہیں۔ حضرت عائشہؓ کے الفاظ ہیں: ہم اللہ کے رسولؐ کی بیویاں سب کی سب آپؐ کے پاس تھیں، ہم میں سے کوئی ایک بھی وہاں سے ہٹی نہیں تھی:   اِنَّا کُنَّا أَزْوَاجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَہٗ جَمِیْعًا، لَمْ تُغَادِرِ مِنَّا وَاحِدَۃٌ۔ (بخاری، کتاب استئذان، حدیث: ۵۹۳۷)

اُمہات المومنینؓ کی اس انجمن میں ایک دوسرے کو تحفے تحائف بھیجنے کا بھی خاص اہتمام رہتا تھا۔ کسی کے یہاں کوئی مزے دار چیز تیار ہوتی تو وہ بڑے اہتمام کے ساتھ دوسری ازواج کے گھر بھیجا کرتیں: کُنَّ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ   صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَھَادَیْنَ الْجَرَادَ عَلَی الْأَطْبَاقِ (سنن ابن ماجہ،کتاب الصّید، باب صید الحیتان، حدیث: ۳۲۱۸)

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیویوں میں آپس میں اس قدر دل داری اور غم خواری تھی، کہ اگر آپؐ کسی ایک سے ناراض ہوجاتے تو دوسری اس پر خوش ہونے کے بجاے آپؐ کی ناراضی دُور کرنے کی کوشش کرتی۔ ایک بار آپؐ کو حضرت صفیہؓ سے کچھ ناراضی ہوگئی۔ اس دن حضرت صفیہؓ کے یہاں آپ کے رہنے کی باری تھی۔ حضرت صفیہؓ حضرت عائشہؓ کے پاس آئیں، اور کہا کہ میری آج کی باری تم لے لو اور میرے سلسلے میں اللہ کے رسو ل کی ناراضی دُور کرنے کی کوشش کرو۔ حضرت عائشہؓ تیار ہوگئیں، حضرت صفیہؓ کی اوڑھنی اوڑھی، اور آپؐ کے پاس جا کر بیٹھ گئیں۔ آپؐ نے دیکھ کر فرمایا: ’تم یہاں سے جاؤ آج تمھارا دن نہیں ہے‘۔ حضرت عائشہؓ نے کہا: یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اس کے بعد پوری بات بتائی تو اللہ کے رسولؐ کی ناراضی دور ہوگئی اور آپ حضرت صفیہؓ سے راضی ہوگئے۔ (سنن ابن ماجہ ، کتاب النکاح، باب المرأۃ، تَھَبُ یومھا لصاحبتھا، حدیث: ۱۹۶۹)

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد بھی اُمہات المومنینؓ کی یہ انجمن اپنی وحدت واُلفت کے ساتھ برقرار رہی، ان کی باہمی نشستیں اور مشاورتیں جاری رہیں۔ وہ گاہے گاہے کسی ایک کے گھر جمع ہوجایا کرتی تھیں (مستدرک حاکم)۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں انھوں نے جمع ہوکر مشورہ کیا اور تجویز رکھی کہ حضرت عثمانؓ کو حضرت ابوبکرؓ کے پاس بھیجیں، اس مطالبے کے ساتھ کہ مال فے میں سے آٹھواں حصہ انھیں دیا جائے۔ حضرت عائشہؓ نے اس تجویز سے اختلاف کیا اور کہا کہ آپؐ کی ہدایت کے مطابق ہمارا اس میں کوئی حصہ نہیں بنتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کی اس بات سے سب کو اطمینان ہوگیا اور انھوں نے اپنا مطالبہ واپس لے لیا۔ (بخاری)

اُمہات المومنینؓ کی یہ بے مثال انجمن بہت سی دینی اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی۔ سب بی بیاں مل کر باہم مشورے سے ایک فیصلہ کرلیتی تھیں، اور پھر مل کر اسے انجام دیتی تھیں۔ جنگ کی نازک اور پرخطر حالت میں وہ سب مل کر نکلتیں اور مشکیزوں میں پانی بھر بھر کر لاتیں اور پیارے نبیؐ کے پیارے ساتھیوں کو پانی پلاتیں: عَن أَنَسٍ أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ کُنَّ یُدْلِـجْنَ بِالْقِرَبِ، یَسْقِیْنَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ  (مسند ابی یعلی، حدیث: ۳۳۰۰)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا انتقال ہوا تو رسول پاک کی تمام ازواج مطہراتؓ نے مل کر فیصلہ کیا اور پیغام بھیجا کہ جنازے کو مسجد کے اندر سے گزاریں، وہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں گی، اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ ان کے حجروں کے سامنے جنازہ رکھ دیا گیا، اور انھوں نے نماز جنازہ ادا کردی۔ بعد میں انھیں معلوم ہوا کہ کچھ لوگ نکتہ چینی کررہے ہیں، کہ مسجد میں جنازہ کیوں لایا گیا۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے ان نکتہ چینیوں کا جواب دیا اور کہا کہ: ’’لوگ جانے بغیر نکتہ چینی کرنے میں جلدبازی کیوں کرتے ہیں؟ یہ حضرات مسجد سے جنازہ گزارنے کو لے کر ہم پر تنقید کررہے ہیں، حالانکہ اللہ کے رسولؐ نے سہیل ابن بیضاءؓ کی نماز جنازہ مسجد کے اندر ہی ادا فرمائی تھی‘‘۔ (مؤطا امام مالک ، کتاب الجنائز، باب الصلاۃ، علی الجنائز فی المسجد، حدیث: ۵۴۰)

اس انجمن کا ایک اہم کام یہ تھا کہ لوگوں کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی سنتوں سے واقف کرائیں۔ چنانچہ لوگ آتے تھے اور اُمہات المومنینؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات اور طریقۂ زندگی کے بارے میں پوچھا کرتے تھے، اور اُمہات المومنینؓ بلا مبالغہ سنت کی صحیح تصویر پیش کرتی تھیں۔ غلو پسندلوگوں کو بسا اوقات صحیح تصویر نہیں بھاتی تھی۔ تاہم، اُمہات المومنینؓ اپنی ذمہ داری بالکل صحیح صحیح انجام دیتی تھیں۔

اس انجمن کا ایک اہم کام یہ بھی تھا کہ اگر کسی گھر کی معاشرتی صورت حال اصلاح طلب ہو تو اس کی اصلاح کی جائے۔ اس سلسلے میں اَزواج مطہراتؓ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کیا کرتی تھیں۔ عثمان بن مظعون کی بیوی کے ذریعے معلوم ہوا کہ ان کے شوہر نے پرہیزگاری اور عبادت گزاری کی شدتِ شوق میں اہل خانہ سے یکسر بے توجہی اختیار کر رکھی ہے، تو اللہ کے رسولؐ کو بتایا اور اللہ کے رسولؐ نے انھیں راہ اعتدال کی تعلیم دی۔ شیطان کے بہکاوے میں آکر بہت سے مرد وخواتین گھروں کو بگاڑنے اور خاندانوں کو توڑنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ یہ اللہ کی نیک بندیاں خود بھی بے مثال اُلفت ومحبت کے ساتھ رہتی تھیں اور دوسرے خاندانوں میں اُلفت ومحبت کی فضا استوار کرنے کے لیے بھی کوشاں رہتی تھیں۔

ازواج مطہراتؓ کے درمیان اس میں تو مقابلہ ہوتا تھا کہ ان میں سے ہر ایک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھنا چاہتی تھیں، تاہم مسابقت کا یہ اعلیٰ جذبہ رقابت ومنافرت کے پست جذبات کو ابھرنے کا موقعہ نہیں دیتا تھا۔ وہ اس مقابلے کے دوران میں بھی ایک دوسرے کے لیے بے پناہ خیر خواہی کے جذبات سے لبریز رہتی تھیں، اور ایک دوسرے کے فضل ومرتبے کی بھر پور قدر کرتی تھیں اور کھل کر اس کا اعتراف بھی کرتی تھیں۔

ایک نازک موقعے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینبؓ بنت جحش سے پوچھا کہ: عائشہؓ کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ انھوں نے کہا: میری سماعت وبصارت کی خیر ہے، اللہ کی قسم! میں نے ان کے اندر بھلائی دیکھی ہے اور صرف بھلائی دیکھی ہے، بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا: وَاللہِ مَاعَلِمْتُ اِلَّا خَیْرًا (بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، حدیث: ۳۹۲۵)

دوسری طرف حضرت عائشہؓ بھی حضرت زینبؓ کے بارے میں کھل کر اعتراف کرتی ہیں: میں نے دین داری میں، خدا ترسی میں، صاف گوئی میں، صلہ رحمی میں، صدقہ وخیرات اور اللہ سے قریب ہونے کی خاطر خود کو فنا کردینے میں زینب سے بڑھ کر کوئی خاتون نہیں پائی۔ (مسلم)

قدرو منزلت اور فضل ومرتبت کے اعتراف کی آخری بلندی یہ ہے کہ ایک بی بی کو اپنی سوتن کے اندر ذرّہ برابر برائی نظر نہیں آتی ہے، بس اچھائی ہی اچھائی نظر آتی ہے، اور دوسری بی بی کو ساری دنیا کی عورتوں میں اپنی سوتن کی نظیر نظر نہیں آتی ہے۔ اور دونوں ہی اپنے احساسات کا کھل کر اظہار کرتی ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے، جب کہ سیرت وکردار نہایت بلند ہوں، اور دل ودماغ بالکل پاک وصاف ہوں۔ اُمہات المومنینؓ کی پوری انجمن ایسی ہی بلندیوں پر فائز تھی۔

حضرت جویریہؓ کے بارے میں حضرت عائشہؓ کا اعتراف بھی قابل قدر ہے، فرماتی ہیں: ہم نے ایسی کوئی عورت نہیں دیکھی جو اپنی قوم کے لیے جویریہؓ سے بڑھ کر بابرکت ثابت ہوئی ہو۔ ان کی خاطر بنو مصطلق کے سو خاندان آزاد کردیے گئے: فَمَا رَأَیْنَا اِمْرَأَۃً کَانَتْ أَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلٰی قَوْمِھَا مِنْھَا، أُعْتِقَ فِیْ سَبَبِھَا مِائَۃُ أَھْلِ بِیْتٍ مِنْ بَنِیْ الْمُصْطَلِقِ (سنن ابی داؤد، کتاب العتق، باب فی بیع المکاتب، اذا فسخت الکتابۃ، حدیث: ۳۴۴۷)

ازواج مطہراتؓ میں حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ کا ساتھ سب سے پرانا تھا۔ اس طویل صحبت نے ایک دوسرے کی خوشی اور قدر شناسی میں اضافہ ہی کیا۔ حضرت عائشہؓ حضرت سودہؓ کی تعریف کرنے میں بہت فیاض تھیں۔ فرماتی تھیں: تیز مزاج عورتوں میں اگر کسی کے جیسے بننے کی خواہش میرے دل میں ہے تو وہ سودہ ہیں۔ ان کی جیسی اچھی تیز مزاج عورت میں نے نہیں دیکھی: مَا رَأَیْتُ امْرَأَۃً أَحَبَّ اِلَیَّ أَنْ أَکُوْنَ فِیْ مِسْلَاخِھَا مِنْ سَوْدَۃَ بِنْتِ زَمْعَۃَ مِنْ اِمْرَأَۃٍ فِیْھَا حِدَّۃٌ (مسلم، کتاب الرضاع، حدیث: ۲۷۳۵)۔ عورت تیز مزاج بھی ہو، اور اپنی سوتن کی بے حد محبوب ودل عزیز بھی بن جائے ، یہ سیرت وکردار کی حد درجہ بلندی کی علامت ہے۔

حضرت عائشہؓ ،حضرت میمونہؓ کی عظمت ومنزلت کا اعتراف بھی پوری فراخ دلی سے کرتیں۔ ایک موقعے پر فرمایا: ہمارے درمیان وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والی اور رشتوں کا حق ادا کرنے والی تھیں۔ (مستدرک حاکم)

ازواج مطہراتؓ کی کوشش تو یہی رہتی تھی کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہیں اور ساری دنیا کے سامنے اُلفت ومحبت کا ایک بہترین نمونہ قائم کریں، اور وہ اس کوشش میں ہر طرح سے کامیاب بھی تھیں۔ اس کے باوجود ان کو یہ فکر ستاتی تھی کہ کہیں ان کی طرف سے کسی کے ساتھ کوتاہی تو نہیں ہوگئی؟

 حضرت اُمِ حبیبہؓ کا جب آخری وقت آیا تو حضرت عائشہؓ کو بلوایا، اور ان سے کہا: ہوسکتا ہے ہمارے درمیان کوئی ایسی بات ہوگئی ہو، جو سوتنوں کے درمیان ہوجایا کرتی ہے۔ اللہ ہم دونوں کو معاف کرے۔ حضرت عائشہؓ نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا، اس پر انھوں نے کہا: عائشہؓ تم نے مجھے خوش کردیا، اللہ تمھیں خوش کرے،سَرَرْتِنِیْ سَرَّکِ اللہُ۔ اس کے بعد انھوں نے حضرت اُم سلمہؓ کو بلوایا اور ان کے سامنے بھی اسی طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ (طبقات ابن سعد)

ان پاک بی بیوں کا آپس میں کیسا گہراقلبی تعلق تھا کہ آخری وقت میں بھی سب سے زیادہ انھی کا خیال رہتا، اور ان کو راضی کرنے اور ان سے اپنی غلطیاں معاف کرانے کی فکر رہتی۔

ازواج مطہراتؓ میں آپس میں کتنی بے تکلفی تھی، اور ایک دوسرے کے لیے ان کے دل میں کیسے نیک جذبات رہا کرتے تھے، اس کی ایک مثال حضرت عائشہؓ خود بیان کرتی ہیں: ’ایک بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے پہلے مجھ سے وہ آکر ملے گی، جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ وہ آپس میں ہاتھ ناپنے لگیں، کہ کس کا ہاتھ سب سے لمبا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سعادت حضرت زینبؓ کے حصے میں آئی۔ وہ اپنے کام خود کیا کرتی تھیں اور صدقہ وخیرات میں سب سے پیش پیش رہتی تھیں۔ (مسلم)

ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ کے الفاظ اس طرح ہیں: آپ کی وفات کے بعد جب بھی ہم سب کسی ایک کے گھر میں جمع ہوتے تو دیوار پر اپنے ہاتھ ناپتے۔ ہم ایسا کرتے ہی رہے، یہاں تک کہ زینبؓ کی وفات ہوگئی تو ہم نے جانا کہ لمبے ہاتھ سے مراد صدقہ وخیرات میں آگے بڑھ جانا ہے(مستدرک حاکم)۔ ایک دوسرے سے ہاتھ کی لمبائی میں مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بے تکلفی اور قربت درکار ہے، جو ان کے درمیان خوب تھی۔

اُمہات المومنینؓ کی یہ انجمن اپنے علمی تفوق اور امتیاز کے لیے بھی سب کے نزدیک معروف تھی۔ مشکل مسائل میں لوگ ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ایک مسئلہ درپیش ہوا تو حضرت علیؓ نے فرمایا: اس بارے میں سب سے زیادہ علم پیارے نبیؐ کی ازواج کے پاس ہے:   اِنَّ أَعْلَمَ النَّاسِ بِھٰذَا أَزْوَاجُ النَّبِیِّ (مسند احمد، حدیث ۲۰۶۱۷)۔

ایک اور موقعے پر حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ نے کہا ازواج مطہراتؓ اس بارے میں زیادہ جانتی ہیں: أَزْوَاجُ النَّبِیِّ  أَعْلَمُ بِذٰلِکَ(مسند احمد، حدیث: ۲۰۶۱۷)۔ حضرت زینبؓ کا انتقال ہوا تو حضرت عمر نے ازواج مطہراتؓ کے یہاں سوال بھیجا کہ انھیں قبر میں کون اتارے؟ (مسند بزار)۔ ازواج مطہراتؓ کے معمولات اور ان کے کاموں کو دیگر لوگ حوالے کے طور پر بیان کیا کرتے تھے: اِنَّ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ کُنَّ یَخْتَضِبْنَ بَعْدَ الْعِشَاءِ الْاٰخِرَۃِ اِلَی الصَّبْحِ (مصنف عبد الرزاق، باب الزینۃ یوم العید، حدیث: ۵۶۷۱)

اُمہات المومنینؓ کے باہمی تعلقات پر لکھنے والے بالخصوص زیادہ تر مغربی یا مغرب زدہ  مصنّفین ان کی باہمی رقابت کو تلاش کرنے پر زور لگاتے ہیں۔ اور اس طرح یہ ایک اصول متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ باہمی رقابت سوتنوں کی فطرت میں شامل ہے، اور اس کے اثراتِ بد سے کوئی عورت محفوظ نہیں رہ سکتی ہے، خواہ وہ کیسی ہی دین دار اور پرہیزگار ہو۔ ایسی افسانہ طرازی کے نتیجے میں اُمہات المومنینؓ کی باہمی رقابت کے بعض قصے اتنے مشہور ہوئے کہ اُمہات المومنینؓ کی باہمی محبت کی تصویر ذہنوں سے اوجھل ہوگئی۔ اس لیے حقیقی معنوں میں حسین وجمیل تصویر کو عام اور مشہور کرنے کی ضرورت ہے۔

قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے ازواج مطہراتؓ کی باہمی رقابت والی کوئی تصویر سامنے نہیں آتی ہے۔ چند مواقع پر ایسا تو لگتا ہے کہ ازواج مطہراتؓ نے کبھی آپس میں ہم آواز ہوکر حضوؐر پر اپنی پسند ناپسند کے لیے اصرار کرنے کی کوشش کی ہو۔ آپؐ کے کسی راز پر آپس میں بات کر لی ہو۔ کسی حلال چیز کو اپنے اُوپر حرام کروا لیا ہو۔ ایسے واقعات کی طرف اشارہ ملتا ہے، لیکن باہمی منافرت یا رقابت کا کوئی اشارہ تک نہیں ملتا ہے۔

قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والا صاف محسوس کرتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اُمہات المومنینؓ کی باہمی رقابت کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ ان کی باہمی محبت اور تعلق خاطر کا حال یہ تھا کہ رسولِ پاکؐ کے راز کا افشا بھی کیا تو اپنے میکے میں جاکر نہیں کیا،بلکہ اپنی سوتن کے سامنے کیا۔ اس زمانے میں کسی سوتن نے اپنے شوہر سے یہ نہیں کہا کہ ازواج مطہراتؓ میں بھی تو جھگڑے، بدکلامی اور منافرت کا اظہار ہوتا ہے، البتہ بیویوں نے اپنے شوہروںسے یہ ضرور کہا کہ: ’رسولِؐ پاک کی بیویاں رسولِؐ پاک سے بحث کرتی ہیں، تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟‘

دس سال کی طویل رفاقت کے دوران اگر معمولی نوک جھونک کے دو چار واقعات پیش آجائیں، تو مناسب نہیں ہے کہ انھیں نو بیویوں کی پوری زندگی کا عنوان بنادیا جائے۔ ان واقعات کو ان کی سیرت کی پیشانی پر چپکادیا جائے اور ہزاروں سال تک ان کا تذکرہ کیا جائے۔درحقیقت نو افراد کی مشترک زندگی میں ایسے چند واقعات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ اصل اہمیت اس کی ہے کہ پوری زندگی کن احساسات، جذبات اور سرگرمیوں کے ساتھ گزاری گئی۔واقعہ یہ ہے کہ اُمہات المومنینؓ نے جس قدر باہمی محبت واُلفت کے ساتھ مل جل کر زندگی گزاری، اللہ کے رسولؐ کی رفاقت میں بھی اور دور رفاقت کے بعد بھی، وہ بے مثال ہے۔ نہ اس کی مثال پیش کی جاسکتی ہے، اور نہ اس سے بہتر کا تصور کیا جاسکتا ہے: ع  نہ ہماری بزم خیال میں اور نہ دکان آئینہ ساز میں!