نومبر ۲۰۱۷

فہرست مضامین

۶۰ سال پہلے

| نومبر ۲۰۱۷ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

بدعتِ حسنہ؟

شرعی اصطلاح میں جس چیز کو ’بدعت‘ کہتے ہیں، اس کی کوئی قسم حسنہ نہیں ہے، بلکہ ہربدعت سیئہ اور ضلالہ ہی سے ہے۔ جیساکہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے: کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔ البتہ لغوی اعتبار سے محض نئی بات کے معنی میں بدعت حسنہ بھی ہوسکتی ہے اور سیئہ بھی۔ عربی زبان میں ’بدعت‘ کا لفظ قریب قریب اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں لفظ ’جدت‘ ہم اُردو میں استعمال کرتے ہیں، یعنی ایک نئی بات جو پہلے نہ ہوئی ہو یا جس کی کوئی مثال موجود نہ ہو۔ لیکن شریعت میں یہ لفظ اس وسیع مفہوم میں استعمال نہیںہوتا، نہ اس مفہوم میں ہرنئی چیز یا ہرنئے کام اور طریقے کو گمراہی قرار دیا گیا ہے۔ شرعی اصطلاح میں ’’بدعت سے مراد یہ ہے کہ جن مسائل و معاملات کو دین اسلام نے اپنے دائرے میں لیا ہے، اُن میں کوئی ایسا طرزِفکر یا طرزِعمل اختیار کرنا، جس کے لیے دین کے اصلی مآخذ میں کوئی دلیل و حجت موجود نہ ہو‘‘۔ اس تعریف کی رُو سے وہ مسائل و معاملات، یا مسائل و معاملات کے وہ پہلو جن سے دین نفیاً یا اثباتاً کوئی تعرض نہیں کرتا، جن کے متعلق صاحب ِ شریعت نے خود فرما دیا کہ اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُورِ دُنْیَاکُمْ، بدعت و سنّت کی بحث سے خود بخود خارج ہوجاتے ہیں۔

کسی چیز کے بدعت ہونے یا نہ ہونے کا سوال صرف اُنھی اُمور میں پیدا ہوتا ہے، جن میں انسان کی رہنمائی کرنا دین نے اپنے ذمّہ لیا ہے اور جن میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے احکام دیے ہیں یا اصولی ہدایات عطا فرمائی ہیں۔ خواہ وہ عقائد اور خیالات و تصورات کے باب سے تعلق رکھتے ہوں، یا اخلاق سے، یا عبادات اور مذہبی رسوم سے، یا معاشرت، تمدن، سیاست، معیشت اور دوسری اُن چیزوں سے، جنھیں عام طور پر دنیوی معاملات سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان اُمور میں جب کوئی ایسی بات کی جائے گی، جس کے ماخذ کا حوالہ خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی تعلیم و ہدایت میں نہ دیا جاسکتا ہو، یا جس کے حق میں دین کے اِن مآخذ اصلیہ سے کوئی معقول دلیل نہ پیش کی جاسکتی ہو، تو وہ بدعت ہوگی۔ اور اگر وہ کتاب و سنّت کی تعلیمات کے خلاف پڑتی ہو تو اس پر محض بدعت کا نہیں بلکہ فسق اور معصیت کا اطلاق ہوگا۔

’بدعت‘ کے شرعی مفہوم کی اس تشریح کے بعد یہ بات محتاجِ کلام نہیں رہتی کہ اس معنی میں جو چیز بدعت ہو اُس کے حسنہ ہونے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا، وہ تو لازماً سیئہ ہی ہوگی اور اس کو ’سیئہ‘ ہی ہونا چاہیے، کیوں کہ دین نام ہے اُس نظام کا جو خدا اوراس کے رسولؐ کی تعلیم و تربیت پر مبنی ہو۔ اور اس نظام میں بہرحال ایسی کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی، جو اس تعلیم و ہدایت پر مبنی نہ ہو۔ ایسی کوئی چیز جب بھی اس میں داخل ہوگی، اس نظام کے مزاج اور اس کی ترکیب کو بگاڑدے گی۔ پھر کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بگاڑنے والی چیز حسنہ بھی ہو؟ (’رسائل و مسائل‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۱-۲، صفر ۱۳۷۷ھ، نومبر ۱۹۵۷ء،ص ۹۹-۱۰۱)