نومبر ۲۰۱۷

فہرست مضامین

جموں و کشمیر: مسلم آبادی اور ڈوگرہ شاہی

افتخار گیلانی | نومبر ۲۰۱۷ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

حال ہی میں ایک مقتدر انگریزی روزنامے میں حکومت ِپاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ جناب ریاض محمد خان نے اپنے ایک مضمون میں یہ دلیل دینے کی کوشش کی ہے کہ ’’تنازعہ جموں و کشمیر دراصل مسلم اکثریتی وادیِ کشمیر کا مسئلہ ہے‘‘ اور ان کے بقول: ’’دیگر دو خطے جموں و لداخ غیرمسلم اکثریتی علاقے ہیں، اس لیے لاتعلق ہیں‘‘۔تنازعۂ کشمیر کو جغرافیائی و سیاسی تناظر میں دیکھنے کے بجاے انسانی زاویے سے دیکھنے کے لیے ان کا موقف یقینا ستایش کے قابل ہے، مگر متنازعہ ریاست کی آبادیاتی ساخت اور اس کے مختلف خطوں کی مذہبی شناخت پر ان کی کم علمی اور ناقص معلومات پر افسوس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔

جموں و کشمیر کی آبادیاتی (Demographic) ساخت کے بارے میں عموماً یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس کے تین خطوں: ’’کشمیر وادی، لداخ اور جموں میں سے صرف ایک خطے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے‘‘۔ تاہم، بھارتی وزارتِ داخلہ کے رجسٹرار آف سنسس کی طرف سے ۲۰۱۱ء میں کرائی گئی مردم شماری کے اعداد و شمار اس غلط فہمی کو دُور کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے تمام خطّے لسانی اور ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، مگر جموں کا خطہ جو انتظامی لحاظ سے ایک ڈویژن ہے، دراصل تین خطوں، یعنی جموں (توی ریجن)، پیر پنچال اور وادیِ چناب میں منقسم ہے۔

اوّل الذکر خطّہ، یعنی جموں توی ریجن میں مختلف ہندو ذاتوں کی اکثریت ہے، جب کہ دیگر دونوں خطّوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔

جموں توی کے پانچ اضلاع ادھم پور، سانبھا، ریاسی، جموں اور کٹھوعہ کی آبادی ۳۳ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس خطّے کےبھی ریاسی ضلع میں ہندو اور مسلمانوں کا تناسب تقریباً برابر ہے:

جموں اور کشمیر کی مردم شماری 2011ء

کُل آبادی: ایک کروڑ 25 لاکھ 41 ہزار 302

مسلمان

85,67,485

68.31%

ہندو

35,66,674

28.43%

سکھ

2,34,848

1.87%

بودھ

1,12,584

0.89%

وادی کشمیر (اضلاع)

اضلاع

کُل آبادی

ہندو

فی صد

مسلمان

فی صد

کپواڑہ

8,70354

37218

4.26

8,23286

94.59

بڈگام

7,53745

10110

1.34

7,36054

97.65

بارہ مولا

10,08039

30621

3.03

9,59185

95.15

بانڈی پورہ

3,92232

8439

2.15

3,82006

97.39

سری نگر

12,36829

42540

3.43

11,77342

95.19

گاندربل

2,97446

5592

1.88

2,90581

97.69

پلواما

5,60440

13840

2.46

5,35159

95.48

شوپّیاں

2,66215

3116

1.17

2,62263

98.51

اننت ناگ

1,07869

1318

1.2

10,57005

97.98

کلگام

4,24483

4247

1.05

4,18076

98.49

میزان

68,88475

1,68813

2.45

66,40957

96.40

جموں (اضلاع)

اضلاع

کُل آبادی

ہندو

فی صد

مسلمان

فی صد

کٹھوعہ

6,16435

5,40063

87.61

64234

10.42

اودھم پور

5,54985

4,89044

88.11

59771

10.76

ریاسی

3,14667

1,53896

48.90

1,56275

49.66

جموں

15,29958

12,89240

84.26

1,07489

7.02

سامبا

3,18898

275311

86.33

22950

7.19

میزان

33,34943

27,47554

82.38

4,10719

12.31

پیر پنجال (اضلاع)

اضلاع

کُل آبادی

ہندو

فی صد

مسلمان

فی صد

پونچھ

4,76836

32604

6.83

4,31279

90.44

راجوری

6,42415

2,21880

34.53

4,02879

62.71

میزان

11,19251

2,54484

22.73

8,34158

74.52

وادی چناب (اضلاع)

اضلاع

کُل آبادی

ہندو

فی صد

مسلمان

فی صد

ڈوڈا

4,09936

1,87621

45.76

2,20614

53.81

رمبن

2,83713

81026

28.55

2,00516

70.67

کشتواڑ

2,30696

93931

40.71

1,33225

57.74

میزان

9,24345

3,62578

39.22

5,54355

59.97

لداخ  (لیہہ اور کرگل اضلاع)

اضلاع

کُل آبادی

ہندو

فی صد

مسلمان

فی صد

بودھ مت

 فی صد

لیہہ

1,33487

22882

17.14

19057

14.27

88635

66.39

کرگل

1,40802

10341

7.34

1,08239

76.87

20126

14.29

میزان

2,74289

33223

12.11

1,27296

46.40

1,08761

39.65

(Census of India 2011, Registerar of Census, Govt of India, Ministry of Home  Affairs, New Delhi, 2015)

پیرپنچال اور وادیِ چناب کے خطے اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ پیرپنچال کا خطہ، راجوری اورپونچھ کے دو اضلاع پر مشتمل ہے۔ یہاں مسلمانوں کا تناسب ۷۵ فی صد ہے۔

اسی طرح ایک اور خطّہ ہے وادیِ چناب، جو دریاے چناب کے دامن میں بسا ہوا ہے۔ اس خطّے کو بھی انتظامی اعتبار سے جموں ڈویژن کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس کے تین اضلاع ہیں: کشتواڑ، رام بن اور ڈوڈہ۔ تینوں اضلاع مسلم اکثریتی ہیں۔ اس خطے میں مسلم آبادی کا تناسب ۶۰ فی صد ہے۔

لداخ خطّے کے بارے میں سب سے زیادہ غلط فہمی پھیلائی گئی ہے کہ یہ بودھ اکثریتی علاقہ ہے، جو حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ اس خطے میں دو اضلاع لیہ اور کرگل ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے بودھ ۳۹ء۶۵ فی صد اور مسلمان ۴۶ فی صد ہیں۔ اس طرح مردم شماری کے یہ اعداد و شمار لداخ کے بودھ اکثریتی علاقہ ہونے کی تردید کرتے ہیں۔

لداخ کے صرف ضلع لیہہ میں بودھ آبادی کا تناسب ۶۶ فی صد ہے، جب کہ مسلمان ۱۴فی صد ہیں۔ اس ضلع کی آبادی لیہ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یعنی خطے کی مجموعی آبادی میں ۲لاکھ ۷۴ہزار ۲سو ۸۹ میں سے مسلمانوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ۲۸ہزار ہے، جب کہ بودھوں کی ایک لاکھ ۸ہزار ہے۔

وادیِ کشمیر کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ یہاں مسلم آبادی کا تناسب ۹۶ فی صد ہے۔

ریاست کی جملہ آبادی ایک کروڑ ۲۵لاکھ ۴۱ ہزار سے کچھ زیادہ ہے، جس میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً ۸۶لاکھ ہے، جب کہ ہندوئوں کی ۳۵لاکھ سے زیادہ اور سکھوں کی تقریباً ڈھائی لاکھ اور بودھ مت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ زیادہ۔

 ہندستان ٹائمز کی لیڈر شپ سمٹ میں شرکت کرنے کے لیے جب پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹوصاحبہ [م: ۲۰۰۷ء] نئی دہلی آئی تھیں اور موریہ شیریٹن ہوٹل میں مَیں ان کا انٹرویو لے رہا تھا توانھوں نے [آسٹریلیا کے سابق چیف جسٹس اور اقوام متحدہ کے نمایندے] سراون ڈکسن [م: ۷جولائی ۱۹۷۲ء] کے ’کشمیر پلان‘ کے حوالے سے تفصیلات پر مجھ سے تبادلۂ خیال کیا۔

میں نے کہا: ’’اگر پورے جموں و کشمیر میں کسی ایک ایشو پر اتفاق راے ہے تو یہی ہے کہ ریاست کی وحدت برقرار رہنی چاہیے۔ تقسیم کی صورت میں جموں اور کرگل کی ایک بہت بڑی مسلم آبادی کو نقل مکانی کرنی پڑے گی‘‘۔

بے نظیر صاحبہ کا کہنا تھا :’’مجھے تو بریفنگ کچھ اور ہی دی گئی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر انھوں نے اگلا سوال یہ کیا کہ: ’’پھر ان علاقوں میں کبھی کوئی تحریک برپا کیوں نہیں ہوتی؟‘‘

میں نے جواب دیا کہ ’’ایک تو یہ بہت ہی دُور دراز علاقے ہیں اور وادیِ چناب کے علاوہ دیگر علاقے لائن آف کنٹرول سے قریب ہونے کی بنا پر ہمہ پہلو فوجی حصار بھی ان علاقوں میں سب سے زیادہ ہے‘‘۔

سابق خارجہ سیکرٹری محترم ریاض محمد خان صاحب کا ایک اور استدلال یہ بھی ہے کہ: ’’پاکستان کے آبی وسائل، یعنی دریاے چناب اور دریاے سندھ ریاست کے غیرمسلم اکثریتی علاقوں سے ہوکر گزرتے ہیں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں دریا اپنا بیش تر سفر بالترتیب وادیِ چناب اور ضلع کرگل میں طے کرتے ہیں اور یہ دونوں مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔

افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس طرح کا استدلال ان چند ہندو جماعتوں کو تقویت فراہم کرتا ہے، جو جموں کو الگ ریاست اور لداخ کو براہِ راست دہلی کے تحت انتظامی علاقہ بنانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ دراصل یہ مطالبہ سیاسی مایوسی کی پیداوار ہے۔ اگر جموں کو مذہبی اعتبار سے الگ کیا جاتا ہے ، تو اس کے تینوں خطوں کو بھی الگ الگ کرنا پڑے گا، کیوں کہ مذہبی پیمانے پر خطے کی تقسیم کے معنی پیرپنچال اور وادیِ چناب کو مسلم اکثریت ہونے کی بنا پر الگ کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں جموں توی ایک چھوٹے سے علاقے میں سمٹ جائے گا۔

ایک منصوبے کے تحت ان علاقوں کو جان بوجھ کر وادیِ کشمیر سے الگ تھلگ رکھا گیا تھا، تاکہ مسلم اکثریتی آبادی کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر کے مسلمانوںکو اس خطے سے بے دخل ہونے پر مجبور کیا جائے۔ وادیِ چناب اور پیرپنچال میں ایک عشرے سے زائد سیکورٹی ایجنسیوں کی شہ پر ویلج ڈیفنس کمیٹیوں (وی ڈی سی) نے مسلم اکثریتی طبقے کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ عسکریت سے نبٹنے کے نام پر ان علاقوں میں سویلین افراد پر مشتمل فورس بنائی گئی تھی،جو نہ سرکار کے تابع ہے اور نہ کسی کے سامنے جواب دہ اور ان میں صرف ہندو اقلیتی افراد کو بھرتی کیا گیا تھا۔ ان خطوں میں اس فورس کے ذریعے اغوا، تاوان، زیادتیوں کی وارداتیں عام ہیں۔ ظاہر ہے کہ خمیازہ مسلم آبادی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

 ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید [م: ۲۰۱۶ء] نے پیرپنچال کو دوبارہ وادیِ کشمیر سے جوڑنے کے لیے مغل روڈ کے احیا کا بیڑا اُٹھایا تھا۔ یہ شاہراہ اب مکمل ہوچکی ہے، جو پونچھ کی بفلیاز تحصیل کو جنوبی کشمیر کے شوپیاں قصبے سے ملاتی ہے۔ اکثر مغل حکمران لاہور سے اسی سڑک کے ذریعے وادیِ کشمیر میں وارد ہوتے تھے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر [م: ۱۶۲۷ء] کا انتقال ہی بفلیاز کے پاس کشمیر واپسی پر راستے میں ہوا تھا۔ بغاوت کے ڈر سے انتقال کی خبر کو راز میں رکھنے کی غرض سے ملکہ نورجہاں [م: ۱۶۴۵ء] نے آلایش و اعضا نکال کر اسی علاقے میں دفن کر دیے تھے اور بقیہ نعش اسی تزک و احتشام کے ساتھ لاہور کی طرف عازم تھی، گویا کہ بادشاہ خود قافلے کی قیادت کر رہے ہوں۔ ۱۹۷۵ء میں  شیخ محمدعبداللہ [م: ۱۹۸۲ء] نے اقتدار میں آتے ہی اس سڑک کو کھولنے کی بھرپور سعی کی، مگر کچھ رقوم کی عدم دستیابی اور کچھ بھارت کے وزارتِ دفاع کے اعتراضات نے اس کو التوا میں ڈال دیا۔ یہی حال کچھ کرگل اور وادیِ کشمیر کے گاندربل اضلاع کا ہے۔ زوجیلا پاس کے نیچے سے یہاں بھی ایک سرنگ کئی عشروں سے تعمیر اور تکمیل کا انتظار کر رہی ہے۔

ان علاقوں میں مسلم آبادی کو احساسِ محرومی کا مزید شکار کرنے کے لیے اب تاریخ بھی مسخ کی جارہی ہے، تاکہ یہ باور کرایا جائے کہ ’’جموں کے نجات دہندہ، ڈوگرہ حکمران ہی تھے‘‘۔ اکھنور میں جیاپوتا کے مقام پر تو کئی برسوں سے راجا گلاب سنگھ [م: ۱۸۵۷ء]کا جنم دن منایا جاتا ہے۔ ان کا ایک مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ شعوری طور پر کوشش کی جارہی ہے کہ راجا گلاب سنگھ اور ان کے جانشینوں کو ’تاریخ کے ہیرو‘ بنا کر پیش کیا جائے۔ یہ بھی کوشش رہی ہے کہ راجا گلاب سنگھ اور    راجا ہری سنگھ [م: ۱۹۶۱ء]کے یومِ پیدایش پر سرکاری چھٹی منظور کرائی جائے۔ اس سلسلے میں جموں شہر میں حال ہی میں ہتھیاروں سے لیس ہندو انتہا پسندوں نے سڑکوں پر مارچ کیا۔ جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے مہاراجوں، جبروتشدد کرنے والے مطلق العنان راجواڑوں اور عوامی مفادات بیچ کر اقتدار حاصل کرنے والے حاکموں کو تاریخ ساز ہیرو قرار دینا تاریخ کے ساتھ سب سے بڑا اور گھنائونا ظلم ہے۔

ان ظالموں نے اس ریاست میں راج کن وسائل اور ذرائع سے حاصل کیا، وہ تاریخ میں درج ہے۔ راجا گلاب سنگھ نے پہلے جموں کے عوام، پھر لاہور کے سکھ دربار سے بے وفائی کر کے جبروتشدد کے ذریعے جموں و کشمیر کی ریاست میں اقتدار حاصل کیا تھا۔ پھر ان کے لواحقین اور جانشین بدترین انداز سے جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کرتے رہے۔ ایسے ڈاکو راج کو بھلا جموں کا ہیرو کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟

جب مہاراجا رنجیت سنگھ [م: ۱۸۳۹ء] نے پیش قدمی کرکے جموں کو فتح کرنے کی کوشش کی تو جموں میں اس کی زبردست مزاحمت ہوئی۔ جموں میں لاہور دربار کے خلاف زبردست گوریلا لڑائی لڑی گئی، جس کی قیادت میاں ڈیڈو اور دیگر ڈوگرہ جنگ جُو کر رہے تھے۔ راجا گلاب سنگھ کے والد اور خود گلاب سنگھ نے ڈوگرہ سرفروشوں کو پیٹھ دکھا کر، مہاراجا رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت اختیار کرکے ڈوگرہ مدافعتی جنگ سے دامن بچایا اور مہاراجا رنجیت سنگھ کا ایجنٹ بن کر میاں ڈیڈو اور دوسرے کئی ڈوگرہ جنگجوئوں کو قتل کیا۔ ڈوگرہ مدافعت کو کچلنے، مہاراجا رنجیت سنگھ کی سلطنت کو جموں میں وسعت دینے اور ڈوگرہ سرفروشوں کو قتل کرنے کے عوض راجا گلاب سنگھ کو جموں کی باج گزار ریاست عطا ہوئی۔ لاہور دربار کو خوش کرنے کے لیے میاں ڈیڈو کے علاوہ جسروٹہ، بلادر، بسوہلی، بھمبر، ٹکری، کرمچی، کشتواڑ، بھدرواہ، سراج، کوٹلی ، راجوری، پونچھ، میرپور اور دوسرے علاقوں کے راجگان کے سر قلم کرکے ان کے پسماندگان کو ملک بدر کیا گیا۔ کھالوں میں بھوسہ بھر کر درختوں کے ساتھ لٹکایا گیا اور وحشت اور سفاکیت کا دور جاری کیا گیا۔

لیکن راجا رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوا اور انگریزوں نے پنجاب پر چڑھائی کی تو جموں کا یہ راجا، لاہور کے دربار سے غداری کر کے انگریزوں سے مل گیا۔ اس خدمت ِ خاص کے عوض ۷۵ لاکھ روپے نانک شاہی کی رقم جو انگریزوں نے ان پر تاوانِ جنگ ڈالا تھا، اس کی ادایگی کر کے ’بیع نامہ امرتسر‘ کے ذریعے کشمیر کا یہ صوبہ راجا گلاب سنگھ نے حاصل کیا۔ ۱۸۴۶ء سے ۱۹۴۷ء تک جموں کے ان نام نہاد ’ہیروز‘ کے اس خانوادے نے جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ میں رقم ہے۔ظلم کی اس سیاہ رات میں اصل خونیں بارش یہاں کے مسلمانوں پر برسی۔