نفرت، تعصب، حسد اور لالچ، ہمارے ازلی دشمن شیطان کے بنیادی ہتھکنڈے ہیں۔ لیکن اولاد آدم ہے کہ مسلسل انھی خطاؤں کی مرتکب ہوکر تباہی کے راستے پر چلی جارہی ہے۔ تعصب اور لالچ ،افراد و اقوام کی نامرادی کی بنیاد بن رہے ہیں۔ ابلیس ایک طرف ان کے زہریلے بیج بورہا ہے اور دوسری طرف ان فصلوں سے فائدہ سمیٹنے والے خناسوں کو شہ دیتے ہوئے، پہلے سے منقسم اُمت کو نت نئے تعصبات کی نذر کرتا چلا جارہا ہے۔ صدیوں پرانے مسلکی تنازعات کی بنا پر نفرت کے الاؤ مزید بھڑکائے جارہے ہیں۔ ایک ایک مسلک یا فقہ کے ماننے والوں کو نسلی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جارہا ہے۔ ان میں سے بھی کوئی اختلافی بنیاد نہ ملے تو ریاستوں کے مابین سیاسی اختلافات ہی کو جنگوں کا بہانہ بنادیا جاتا ہے۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اس وقت کے بعض مسلم حکمرانوں کو شاہ بلکہ شہنشاہ بننے کا لالچ دے کر اپنے ناپاک منصوبے نافذ کیے گئے اور پھر وفادارانہ وابستگی کے وعدے پر پورے خطے کو چھوٹی چھوٹی متحارب ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا۔ تقسیم کرنے والے چاہتے تو اس وقت خطے میں پائی جانے والی بڑی ’کرد‘ آبادی کا بھی ایک الگ ملک بنادیتے، لیکن اصل ہدف علاقے یا عوام کا مفاد نہیں، فتنے کاشت کرنا تھا۔ کرد علاقے کو چار ممالک ترکی، شام، عراق اور ایران میں بانٹ دیا گیا، اور پھر گذشتہ پوری صدی ان کے دلوں میں ’کرد‘ شناخت کی پرستش راسخ کی گئی۔ اس جذبۂ پرستش میں شدت پیداکرنے کے لیے، مختلف مراحل میں اور مختلف حکمرانوں کے ذریعے ان کے حقوق بھی سلب کروائے گئے، اور ترقی کے خواب دکھا کر ان کے ہاتھوں میں بندوق تھما دی گئی۔
ترکی میںکرد تحریک بظاہر ختم ہوگئی، لیکن کئی مراحل کے بعد ۱۹۷۸ء میں ۳۰ سالہ باغی رہنما عبداللہ اوجلان کی صدارت میں ’پارٹی کارکراں کردستان ‘ (PKK)کی صورت میں دوبارہ سامنے آئی۔ یہ جماعت ۸۰ کے عشرے میں خوفناک مسلح کارروائیوں کے ذریعے ترکی سے علیحدگی اور کردستان کی آزادی کا نعرہ بلند کرنے لگی۔ ان مسلح کارروائیوں میں ۴۰ہزار سے زائد انسان لقمۂ اجل بن گئے۔ ترک دستاویزات کے مطابق اس بدامنی کے نتیجے میں۵۰۰ ؍ارب ڈالر سے زیادہ کے مالی نقصانات ہوئے۔ عبداللہ اوجلان نے لبنان اور شام میں مسلح تربیتی کیمپ قائم کیے، جو ۱۹۹۸ء میں ترکی کے دباؤ پر بالآخر ختم کرنا پڑے۔ فروری ۱۹۹۸ء میں ترک خفیہ ادارے اوجلان کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے گرفتار کرکے ترکی لے گئے۔ عدالت نے اسے سزاے موت سنائی جو بالآخر عمر قید میں بدل دی گئی۔
۲۰۱۴ء میں اوجلان نے جیل سے اپنے پیغام کے ذریعے ترکی کے ساتھ ۳۰ سالہ مسلح تصادم ختم کرنے اور اپنی جدوجہد پُرامن رکھنے کا اعلان کیا۔ملک میں نئی کرد سیاسی جماعت وجود میں آئی۔ ایک جماعت پر عدالت نے پابندی لگادی تو دوسری وجود میں آگئی، جو اس وقت پارلیمنٹ کی اہم سیاسی جماعت ہے۔ لیکن بعض گروہ اب بھی مختلف مسلح کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی سمیت دنیا کے کئی ممالک نے ’پی کےکے‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
۱۹۷۹ء میں انقلابِ ایران کے بعد انھیں پہلے سے بھی زیادہ سختی سے کچل دیا گیا۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی نے ان کے خلاف اعلانِ جہاد کرتے ہوئے ۱۹۸۲ء تک جاری رہنے والی کارروائیوں کے ذریعے ان کی آواز تقریباً خاموش کرادی۔
عراقی وزیراعظم عبد الکریم قاسم اور ملا مصطفےٰ البارزانی کے درمیان یہ گرم جوش تعلقات عراق میں امن و استحکام کی نوید سنانے لگے۔ لیکن دو برس کے اندر اندر ہی مختلف اندرونی و بیرونی قوتوں نے غلط فہمیوں کی پہاڑ کھڑے کرتے ہوئے ملک کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ ۲۳؍اپریل ۱۹۶۱ء کو عبد الکریم قاسم نے عراقی وزارت دفاع میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ: ’’برطانوی سفارت خانے نے تخریبی کارروائیوں اور مفاد پرست عناصر کی پشتیبانی کرتے ہوئے فتنہ جوئی کے لیے تقریباً ۵ لاکھ دینار خرچ کیے ہیں‘‘۔ عراقی سوشلسٹ پارٹی نے بھی اپنے ایک دستاویزی بیان میں انکشاف کیا کہ: ’’جون ۱۹۶۱ء کے دوران ایران میں امریکی سفیر نے دیگر امریکی سفارت کاروں اور عسکری ماہرین کے ساتھ مل کر کرد علاقوں کے کئی دورے کیے ہیں‘‘۔ شاہِ ایران نے بھی جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے اپنے آقاؤں کا حق نمک ادا کیا۔
اس خانہ جنگی کے دوران ۸ فروری ۱۹۶۳ کو وزیراعظم عبدالکریم قاسم کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ بعث پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ کردوں نے انقلاب کی حمایت کی اور کچھ عرصے کے لیے لڑائی رک گئی، لیکن جلد ہی دوبارہ شروع ہوگئی۔ اس ساری جنگ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اس زمانے میں عراق کے ساتھ تیل کے معاہدوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا بھی تھا۔ ۱۱ستمبر ۱۹۶۱ء سے شروع ہونے والی یہ لڑائی مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی ۱۹۷۰ء میں کردستان کی داخلی خود مختاری کے معاہدے پر آکر تھمی۔
کرد قوم پرستی کی راکھ تلے دبی چنگاریاں گاہے گاہے شعلہ جوالا بن کر لاتعداد انسانی جانیں بھسم کرتی رہیں۔ اس دوران مختلف انقلابات بھی آتے رہے۔ ۱۹۷۹ میں صدام حسین نے بعثی حکومت کے لیڈر کی حیثیت سے عراق کا اقتدار سنبھالا اور کئی مواقع پر کرد آبادی کے خلاف بے مہابا قوت استعمال کی۔ ایران عراق جنگ کے اختتامی مرحلے پر ایرانی سرحد پر واقع حلبچہ نامی قصبہ، ایرانی قبضے سے چھڑواتے ہوئے اس پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی انھی کارروائیوں کا حصہ ہے۔ جس سے بیک وقت ۵۵۰۰ سے زائد کرد شہری موت کے منہ میں چلے گئے۔ بعد کے برسوں میں ان کیمیائی اثرات کی وجہ سے مزید کئی ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ صدام حکومت کا الزام تھا کہ یہ حملہ وہاں سے پسپا ہوتی ہوئی ایرانی افواج نے کیا ہے۔ حملہ جس نے بھی کیا ہو، لیکن اس کے نتیجے میں خطے کے تمام کردوں کے دل میں تعصب کی گرہ مزید مضبوط ہوگئی۔
۱۹۹۰ء میں عراقی صدر صدام حسین سے کویت پر چڑھائی کا ارتکاب کروایا گیا۔ اس کی آڑ میں عرب سرزمین پر امریکی افواج کی آمد کے بعد سے عراق میں ایک نیا منظرنامہ تشکیل پانے لگا۔ تیل کی وافر دولت ہونے کے باوجود پورے ملک میں تباہی و بدحالی عروج کو چھونے لگی۔ پہلے کویت کی آزادی اور پھر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) تیار کرنے کاالزام لگاتے ہوئے، عراق کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جانے لگا۔ اپریل ۱۹۹۱ء سے اقوام متحدہ کے ذریعے عراق کے وسیع علاقوں پر فضائی پابندیاں عائد کردی گئی تھیں۔ ان پابندیوں کا بظاہر مقصد شمال میں کردوں اور جنوب میں شیعہ آبادی کا تحفظ قرار دیا گیا۔ لیکن عملاً ان فضائی پابندیوں کی آڑ میں برطانوی اور امریکی فضائیہ، عراقی فضائی حدود پر قابض ہوگئی۔ اسی عرصے میں کرد ملیشیا ’پیش مرگہ‘ نے اربیل اور سلیمانیہ سے عراقی افواج کو بے دخل کرتے ہوئے اپنا قبضہ مستحکم کرلیا۔ پھر مئی ۱۹۹۱ء میں کرد پارلیمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے عام انتخابات کروادیے گئے۔ مسعود البارزانی کی جماعت کردستان ڈیموکریٹک پارٹی (KDP) کو ۵۰ء۸فی صد اور جلال الطالبانی کے کرد قومی اتحاد PUK (Patriotic Union of Kurdistan) کو ۴۹ء۲ فی صد ووٹ ملے۔
۱۹۹۶ء میں اقوام متحدہ نے عراقی تیل کی قیمت کا ۱۳ فی صد حصہ کرد علاقوں کے لیے ضبط کرنے کی قرار داد منظور کرتے ہوئے، ’تیل کے بدلے خوراک‘ کا منصوبہ نافذ کردیا۔ دونوں کرد رہنماؤں مسعود البارزانی اور جلال الطالبانی کے مابین اختلافات اور جھڑپوں کی طویل تاریخ تھی۔ ۱۹۹۸ء میں امریکا نے دونوں کو واشنگٹن میں جمع کیا اور ان کے مابین جامع امن معاہدہ طے کروادیا۔ عراق سے مسلسل جنگ، چہار اطراف سے محاصرہ، اس کے بیرونی اکاؤنٹس پر تسلط، تباہ کن اسلحے کا الزام، ایک کے بعد دوسری پابندی، مسلسل نگرانی و تلاشی، ساتھ ساتھ دہشت گردی کے کارروائیاں جاری تھیں، جب کہ دوسری جانب عراق ہی کے کرد علاقوں کی مکمل سرپرستی،وافر مالی امداد اور اس پورے عرصے میں تقریباً کامل امن و امان___ ایک ہی ملک میں دو مختلف ریاستوں کا نقشہ واضح کرتا چلا جارہا تھا۔
۲۰۰۳ء کے اوائل میں صدام حسین حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے امریکی افواج نے پورے عراق پر قبضہ کرلیا۔ پھر اپنی مرضی کا سیاسی نظام وضع کرتے ہوئے کرد اور شیعہ آبادی کو اقتدار سونپ دیا۔ ۲۰۰۴ء میں دستور ساز اسمبلی اور ۲۰۰۵ء میں عام انتخابات بھی کروادیے۔ اہلِ سنت آبادی کے بڑے حصے نے دونوں انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ امریکی سفیر پال بریمر نے ملک میں ’نیا نظام‘ متعارف کروایا، جس کے مطابق ملک کا صدر کردی النسل، وزیراعظم شیعہ اور سپیکر اہلِ سنت میں سے ہونا طے کیاگیا۔ عراق کی تمام مسلح افواج کو تحلیل کرتے ہوئے، نئی افواج ترتیب دینے کا اعلان کیا گیا۔ البتہ کرد ملیشیا پیش مرگہ کے بارے میں طے پایا کہ اسے تحلیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی کتاب: My Year in Iraq (عراق میں میرا سال) میں بریمر نے عراقی اور کرد رہنماؤں سے ملاقاتوں کی تفصیل لکھی ہے کہ انھوں نے کس طرح جلال الطالبانی کو عراق کی اور مسعود البارزانی کو کردستان کی صدارت کے لیے آمادہ کیا۔ بدقسمتی سے طالبانی کو صدر مملکت کا عہدہ دیا جانا یا دیگر کرد نمایندوں کو اہم مرکزی مناصب سونپنا، عراق کو متحد رکھنے کے لیے نہیں، بلکہ اسی ہدف کے لیے تھا کہ وہ فیصلہ سازی کے اہم مراکز میں بیٹھ کر کردستان کو الگ کرنے کا عمل تیز اور پھر مکمل کریں۔
۲۰۰۵ء میں منتخب کی جانے والی پارلیمنٹ کے ذریعے عراق کا نیا دستور بنایا گیا اور اس کے مطابق کردستان کو داخلی خود مختاری کے درجے سے اُٹھا کر ’کردستان ریجن‘ قرار دے دیا گیا۔ دستور کی شق ۵۳ کے الفاظ ہیں کہ :’’ عراق، کردستان ریجن کی حکومت کو ایک قانونی حکومت تسلیم کرتا ہے۔ یہ ریجن اس سرزمین پر واقع ہے، جو ۱۹ مارچ ۲۰۰۳ء سے پہلے دہوک، اربیل، سلیمانیہ، کرکوک، دیالی اور نینویٰ کے اضلاع پر مشتمل اور اسی حکومت کے زیر اختیار تھی‘‘۔ اب وہاں اپنے طور پر تیل کی تلاش کا کام مزید تیز کردیا گیا۔ اپنی الگ وزارت خارجہ کے ذریعے بیرونی دنیا سے تعلقات قائم اور معاہدے کیے جانے لگے۔ عراقی پرچم کے بجاے اور کہیں ساتھ ساتھ، کردستان کا پرچم لہرایا جانے لگا۔ اپنا قومی ترانہ متعارف کروادیا گیا۔ اسی طرح کردستان کی الگ کرنسی اور پاسپورٹ کی تیاری شروع ہوگئی۔۲۰۰۷ء میں امریکی افواج نے کردستان کے دفاع اور امن و امان کی ذمہ داری مکمل طور پر کردستان ریجن کی حکومت کے سپرد کرتے ہوئے وہ علاقہ خالی کردیا۔ ۲۰۰۹ء میں تیل برآمد کرنا شروع کردیا گیا۔ ۲۰۱۴ء میں کردستان حکومت نے داعش کے قبضے سے بچانے کا دعویٰ کرتے ہوئے، عراق میں تیل کے اہم مرکزی شہر کرکوک کو بھی اپنے انتظام میں شامل کرلیا۔ اس طرح عراقی تیل کے تقریباً ایک تہائی ذخائر کردستان کے زیر اختیار آگئے۔
عالمی رپورٹیں اعتراف کرتی ہیں کہ یہ علاقہ تیل کے سمندر پر تیر رہا ہے۔ اس علاقے میں زمین کے اندر پائے جانے والے تیل کی مقدار کا اندازہ ۴۵ ؍ارب بیرل لگایا جاتا ہے۔امریکا کی مشہور کاروباری شراکت دار کمپنی ’بلومبرگ‘ (Bloomberg) کے مطابق کردستان ریجن صرف کرکوک کے کنوئوں سے ۶ لاکھ بیرل تیل روزانہ برآمد کررہا ہے۔ اس اثنا میں تیل کی معروف عالمی کمپنیوں: امریکی ’اکسن‘(Exxon) فرانسیسی ’ٹوٹل‘(Total ) ، امریکی ’شیورون‘( Chevron)، روسی ’گیس پروم‘ (Gas Prom) سمیت تیل کے سب اہم سوداگر کردستان میں آن براجمان ہوئے۔ شیورون نے گذشتہ دو برس سے وہاں اپنا کام بند کررکھا تھا، حالیہ ریفرنڈم سے ایک ہفتہ قبل نئے معاہدے کے تحت پھر واپس آگئی۔ یہاں گیس کے ذخائر کا اندازہ ۶۶,۵ کھرب میٹر مکعب لگایا گیا ہے۔ روسی کمپنی ’گیس پروم‘ نے بھی اپنے سابقہ معاہدوں کے علاوہ حالیہ ریفرنڈم سے چند روز قبل، وہاں ۴؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے۔
اس تاریخی و سیاسی سفر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام کے حصے بخرے کرنے کے منصوبے ،کس قدر طویل مدتی سازشوں کے ذریعے بالآخر حقیقت بنادیے جاتے ہیں۔ ۲۵ستمبر کو کردستان میں کرایا جانے والا ریفرنڈم تو محض ایک رسمی کارروائی تھی۔ البتہ ریفرنڈم کے بعد کے حالات بتا رہے ہیں کہ اپنوں کی منافقت اور دشمنوں کی سازشیں ایک طرف اور تدبیر الٰہی کا ایک اشارہ دوسری طرف۔ ۲۵ ستمبر کو یک طرفہ طور پر ریفرنڈم کروانے کی دیر تھی، کہ خطے میں سرد مہری کے شکار کئی مسلم ممالک میں تحرک پیدا ہوا۔
ایران کی جانب سے شام میں بشار الاسد کی بھرپور حمایت کیے جانے پر ترکی، ایران تعلقات میں بہت گرم جوشی نہ رہی تھی۔ کردستان ریفرنڈم کے بعد، پہلے ایرانی ذمہ داران نے ترکی کا دورہ کیا۔ پھر ترک افواج کے سربراہ خلوصی آکار اور ۴ ؍اکتوبر کو خود ترک صدر طیب ایردوان ایران آئے۔ عسکری اور حکومتی ذمہ داران سے مفصل مذاکرات کیے اور اعلان کیا کہ: ’’دونوں ملک کسی صورت عراق کو تقسیم کرنے اور کردستان کو الگ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ خطے کے تقریباً تمام ممالک کی جانب سے ریفرنڈم مسترد کردیے جانے پر عالمی قوتوں نے بھی بظاہر اس کی مخالفت کردی۔
تیل کے وسیع ذخائر، بڑی آبادی، وسیع رقبہ (۷۲ ہزار مربع کلومیٹر) دریائے دجلہ و فرات اور زرخیز سرزمین، کردستان کے مثبت و مضبوط پہلو ہیں۔ لیکن کمزور پہلوؤں میں اہم ترین بات یہ ہے کہ اسے کوئی سمندری ساحل میسر نہیں ہے۔ خشکی میں گھرے اس علاقے کو اپنا تیل بیچنے کے لیے عراق، شام یا ترکی کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ وہ اب بھی جو تیل برآمد کررہا تھا، ترکی میں بچھائی گئی ’جیہان‘ نامی پائپ لائن کے ذریعے ہی بھیجا جا رہا تھا۔ ریفرنڈم کے فوراً بعد ترکی اور ایران نے، فضائی اور بری حدود بند کرتے ہوئے کردستان کے دونوں فعال ایئرپورٹ (اربیل، سلیمانیہ) مفلوج کردیے۔ زمینی راستوں سے بھی انسانی ضرورت کی انتہائی ناگزیر اشیا کے علاوہ ہر شے کی نقل و حمل روک دی۔اور سب سے اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ عراقی فوج نے، ایرانی عسکری دستوں کے تعاون اور ایرانی القدس بریگیڈ کے جنرل قاسم سلیمانی کی سرپرستی میں کارروائی کرتے ہوئے، کرکوک جیسا اہم علاقہ کردستان سے واپس لے لیا۔ جواب میں کرد مزاحمت تقریباً ناقابلِ ذکر تھی۔
ریفرنڈم کے اگلے ہفتے (۴ ؍اکتوبر۲۰۱۷ء) جلال الطالبانی، دنیا سے رخصت ہوگئے۔ تعزیت کے بہانے ان کے وارثوں سے کئی عالمی ذمہ داران کی ملاقاتیں ہوئیں۔ انھی ملاقاتوں میں ایک اہم ملاقات، عراق و شام میں نمایاں ترین عسکری کارروائیوں کے نگران ایرانی القدس بریگیڈ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی تھی۔ انھوں نے جلال الطالبانی کی بیوہ اور بیٹے سے ملتے ہوئے انھیں کرکوک شہر کے بارے میں اپنے فیصلوں سے بھی آگاہ کیا۔مسعود بارزانی کرکوک میں شکست کا اصل ذمہ دار بھی جلال الطالبانی کے وارثوں کو قرار دے رہے ہیں۔ کرکوک ہاتھ سے نکل جانے، کردستان کے فضائی و زمینی راستے مسدود ہوجانے، بیرونی سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد کے فرار ہوجانے اور عالمی سرپرستوں سمیت ساری بیرونی دنیا کی مخالفت کے بعد فی الحال کردستان کی علیحدگی آسان نہ ہوگی۔ مگر یہ خوش فہمی بھی درست نہ ہوگی کہ کرد مسئلہ ختم ہوگیا۔ خدشہ یہی ہے کہ تقریباً ایک صدی سے سازشیں کرنے والے آیندہ بھی فتنہ جوئی کرتے رہیں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم موشے شیرٹ نے ۱۹۵۴ء میں اپنی یادداشتوں میں لکھا تھا کہ ’’عالمِ عرب میں مختلف اقلیتوں کے دل میں علیحدگی کے جذبات کو تقویت دینا، ان سے علیحدگی و آزادی کی جدوجہد کروانا، ان کے دلوں میں ’اسلامی مظالم‘ سے نجات حاصل کرنے کی تمنا پیدا کرنا ہی اصل میں وہ کام ہے، جس سے ان علاقوں کا امن و امان تباہ کیا (اور خود محفوظ رہا) جاسکتا ہے‘‘۔ ۱۸۹۷ء میں وجود میں آنے والی ’عالمی صہیونی تنظیم‘ WZO نے ۸۰ کے عشرے میں اپنی جو حکمت عملی شائع کی، اس میں خطے کے تمام ممالک کو تقسیم در تقسیم کرنا شامل تھا۔ اس میں واضح طو رپر لکھا گیا تھا کہ: ’’عراق، شام سے زیادہ طاقت ور ہے، وہ اسرائیل کے لیے زیادہ اور فوری خطرہ ہے، اس لیے پہلے عراق کو پارہ پارہ کرنا، شام کو تقسیم کرنے سے زیادہ ضروری ہے‘‘۔ ۱۹۹۲ء میں اسرائیل نے عرب اقلیتوں کے بارے میں ایک سیمی نار منعقد کیا۔ اس کی سفارشات میں صراحت سے کہا گیا: ’’ایسی متحرک اور مضطرب اقلیتیں، اسرائیل کے محفوظ مستقبل کے لیے برابر کی شریکِ کار ہیں۔ اسلام اور عرب قومیت کے نظریات پر نظر ثانی کرنے کے عمل میں بھی ان اقلیتوں کا بنیادی کردار ہے‘‘۔
مشرق وسطیٰ اور اسلام کے بارے میں کئی اہم کتابوں کے مصنف برطانوی نژاد امریکی دانش وَر برنارڈ لیوس سے منسوب عالم اسلام تقسیم کرنے کے منصوبے، امریکی لیفٹیننٹ کرنل رالف پیٹر کا Blood Borders (خونیں سرحدیں)کے عنوان سے پیش کردہ نیا علاقائی نقشہ، امریکی کانگریس میں پاکستان سمیت کئی ممالک کے حصے بخرے کرنے کی باز گشت، امریکی دفاعی اداروں میں پڑھائے جانے والے نئے مشرق وسطیٰ کے نقشے، کئی عالمی رسائل و جرائد میں مسلسل شائع ہونے والے مضامین، قبائلی علاقائی اور لسانی تعصبات کو اُجاگر کرنے کے لیے مسلسل لکھی جانے والی کتب، عالمی یونی ورسٹیوں میں تقسیم اُمت پر کروائی جانے والی لاتعداد تحقیقات، اور مہیب ابلاغیاتی مہم دیکھیں تو موجودہ صورتِ حال کی اصل سنگینی مزید اُجاگر ہوکر سامنے آتی ہے۔
’کردستان‘ ریاست بنانے کی حالیہ کوشش سے پہلے یہی تجربہ جنوبی سوڈان اور انڈونیشیا کے علاقے مشرقی تیمور میں کیا جاچکا ہے۔ حال یا مستقبل کی کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کے لیے ان تجربات میں بڑی عبرت کا سامان پوشیدہ ہے۔ جنوبی سوڈان میں بھی کردستان کی طرح سالہا سال کی سازشوں، قتل و غارت اور خانہ جنگی کے بعد ریفرنڈم اور اعلان آزادی کیا گیا۔ وہاں بھی تیل سے مالامال حصے کو الگ ملک بنایاگیا۔ وہاں کے عوام کو بھی اس کے نتیجے میں شان دار اقتصادی ترقی کے خواب دکھائے گئے۔ وہاں بھی شمالی سوڈان کی طرف سے جنوبی سوڈان پر مظالم اور وسائل ہڑپ کرنے کے الزامات ذہنوں میں راسخ کیے گئے۔ اسلحہ، مالی وسائل اور عسکری تربیت دی گئی۔
ایک طویل عرصے سے جاری ان کوششوں کے نتیجے میں ۲۰۱۱ء میں ریفرنڈم کے بل پر علیحدگی ہوگئی۔ علیحدگی کے بعد کا جنوبی سوڈان دیکھیں تو، اپنے قومی وقار کا بھرم رکھنے کی کوششیں کرتا ہوا متحدہ سوڈان، جنت نظیر دکھائی دیتا ہے۔ الگ ملک بنانے والے قبائل، شمالی سوڈان کے بعد، اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ مختلف بغاوتوں، لڑائیوں اور سازشوں کے بعد اب وہاں قحط سالی سے بھی زیادہ تباہی اور مفلوک الحالی ہے۔ جنوبی سوڈان تیل کے وسیع ذخائر کے علاوہ، انتہائی زرخیز سرزمین اور دریائے نیل سے مالامال ہے، لیکن ا س وقت دس لاکھ سے زیادہ افراد مہاجر کیمپوں میں جابسنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا مسلح قبیلہ مخالف قبائل کے سامنے سینہ سپر ہوجاتا ہے اور عالمی سامراجی آقا، فریقین کو مزید اسلحے سے نوازتا ہے۔اس الم ناک صورتِ حال سے لاتعلق عالمی کمپنیاں دھڑا دھڑ تیل نکال رہی ہیں، لیکن اقوام متحدہ کے بیان کے مطابق: ’’جنوبی سوڈان کو دنیا کے بدترین غذائی بحران کا سامنا ہے‘‘۔
پھر صرف جنوبی سوڈان ہی کو الگ کرنے پر اکتفا نہیں کیا گیا، سوڈان کے مغربی علاقے دار فور میں بھی شورش برپا کردی گئی۔ جنوبی سوڈان میں محرومیوں کا واویلا اور مسلم مسیحی اختلافات کی آگ بھڑکائی گئی تھی، دار فور میں عربی الاصل اور افریقی الاصل مسلمان قبائل کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔
ایک طرف افغانستان، مختلف بھارتی ایجنسیوں اور بے خبر بلوچ نوجوانوں کو اپنے ناپاک عزائم کی بھینٹ چڑھانے کے لیے قائم، تربیتی کیمپوں کی آماج گاہ بن چکا ہے۔اور دوسری جانب پاکستان کے قریب ترین دوست اور برادر ممالک علی الاعلان بلوچستان الگ کرنے کی بات کر ر ہے ہیں۔ یقینا اس کی وجہ ایران عرب مخاصمت اور شیعہ سُنّی تنازعات کا افسوس ناک عروج ہے۔ یہ ممالک کبھی کبھی اس سے پاکستان کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں، اور ان کے سرکاری و غیر سرکاری ذرائع ابلاغ صرف ’ایرانی بلوچستان‘ کا نام ہی لیتے ہیں، لیکن اس تجاہلِ عارفانہ اور خودفریبی سے وہ عالمی منصوبے تبدیل نہیں ہوسکتے، جو پاکستان و ایران ہی نہیں ، خود افغانستان کے حصے بخرے کرنے کے لیے نافذ کیے جارہے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تقسیم در تقسیم کیے جانے کے ان منصوبوں کی فہرست میں تقریباً تمام ہی عرب ممالک کا نام بھی شامل ہے، حتیٰ کہ مکہ و مدینہ کو الگ کرنا بھی انھی مکروہ عزائم میں شامل ہے۔
منافقین نے ریاست نبویؐ مستحکم ہوتے دیکھی تو باہم مشورہ کرتے ہوئے اوس و خزرج اور انصار و مہاجرین کا تعصب اُبھارنا چاہا۔ آپؐ کو اطلاع ملی تو فوراً تشریف لائے۔ چہرئہ مبارک ناراضی سے سُرخ تھا۔ آتے ہی فرمایا: مَا بَالُ دَعْوَی الجَاھِلِیَّۃ ’یہ کیسی جاہلانہ بات ہے؟‘ پھر فرمایا: دعوھا فَاِنَّھَا فِتْنَۃ ’یہ تعصبات چھوڑ دو یہ بدبُودار لاش ہے‘۔
معروف تابعی جناب شَہر بن حوشب نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہ سے دریافت کیا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کون سی دُعا سب سے زیادہ کیا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: آپ اکثر فرماتے تھے: یَامُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ، اے دلوں کو پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین پر جما دے۔ اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور معروف فرمان پر جتنا بھی غور کریں، رہنمائی کے نئے سے نئے باب کھلتے چلے جاتے ہیں۔
أَلَا وَ اِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ لَہَا الْجَسَد وَ اِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ أَلَا وَ ہِیَ الْقَلْبُ ، خبردار رہو، جسم میں ایک لوتھڑا ایسا ہے کہ جب وہ درست ہوجاتا ہے تو سارا جسم درست رہتا ہے۔ وہ فساد زدہ ہوجاتا ہے تو سارا جسم فساد زدہ ہوجاتا ہے۔ خبردار رہو وہ دل ہے۔
یعنی دل ایمان، تقویٰ، عزیمت اور محبت کا مرکز بھی ہوسکتا ہے اور دل ہی کفر، عناد، تعصب، نفرت اور لالچ کی آماج گاہ بھی بن سکتا ہے۔ دلوں میں خیر و بھلائی کی شمع روشن ہوجائے، تو ایک فرد ہی نہیں، پوری قوم اور معاشرہ نجات و فلاح پاجاتا ہے۔ دل غفلت کا شکار ہوکر زنگ آلود ہوجائیں، گناہوں کے سیاہ نقطے بڑھتے بڑھتے پورے دل کو لپیٹ میں لے لیں تو افراد ہی نہیں، اقوام و ممالک تباہی و بربادی کی جانب بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
شیطان رجیم بھی اپنے دل میں پائے جانے والے تکبر اور عناد کی وجہ سے تباہ ہوا۔ پھر آدم و حوا علیہما السلام پر بھی دل ہی کی راہ سے حملہ آور ہوا: فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْطَانُ، (شیطان نے ان کے دل کو بہکایا)۔ آکر بڑے چاپلوسانہ انداز میں قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا: اِنِّی لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ (میں آپ دونوں کا بڑا خیر خواہ ہوں)۔ پھر کائنات کا پہلا قتل بھی آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں میں سے ایک کے دل میں نفرت و حسد کی آگ بھڑکاتے ہوئے کروایا گیا۔ ایک کے اخلاص قلب اور تقویٰ کے باعث، اس کی قربانی قبول ہوئی، دوسرے کے دل میں کھوٹ تھا، عمل قبول نہ ہوا۔ بجاے اس کے، کہ وہ اپنی اصلاح کرتا، حسد اور نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے اس نے بھائی کے قتل کا ارادہ و اعلان کردیا۔ لَأَقْتُلَنَّکَ (میں تمھیں قتل کرکے چھوڑوں گا)۔
رب ذوالجلال نے نفرت و حسد پر مبنی اس واقعے کا ذکر کرنے کے بعد کسی ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دے دیا اور کسی ایک انسان کو بچالینا گویا پوری انسانیت کو بچالینا قرار دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس جرم کی سنگینی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قتل ہونے والا کوئی بے گناہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے قتل کے گناہ کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے قاتل بیٹے کو نہ پہنچتا ہو، کیوں کہ اس نے قتل متعارف کروایا۔ گویا اتنے خوفناک عذاب کا آغاز دل میں جلنے والی آتش حسد و نفرت سے ہوا۔ سب مل کر اسے بجھانے کی کوشش کریں گے تو ایک بار پھر باہم محبت و اخوت کی نعمت نصیب ہوجائے گی۔ دنیا ہی نہیں آخرت بھی سنور جائے گی:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ج وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَO( اٰل عمرٰن۳: ۱۰۳ ) سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل وکرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے ، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے۔