نومبر ۲۰۱۷

فہرست مضامین

اشتراکیت کا زوال، چند پہلو

پروفیسر خورشید احمد | نومبر ۲۰۱۷ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

گذشتہ تین صدیوں میں انسانیت، مغرب کی زیر قیادت چار بڑے معاشی نظاموں کے تجربے سے گزری ہے: سرمایہ داری، سوشلزم [اشتراکیت]، قوم پرستانہ فاشزم اور فلاحی ریاست___ مغربی فکر سے جنم لینے والے ان تمام نظاموں کی اساس اس تصور پر استوار تھی کہ انسان کے معاشی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے، مذہب اور اخلاقیات کی چنداں ضرورت نہیں ہے، اور معاشی معاملات کا بہترین حل صرف معاشی رویوں اور سیاسی ضابطوں کے تحت تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ:

  •  سرمایہ داری نے اپنا فلک بوس محل: فرد کی بے قید آزادی، لامحدود نجی ملکیت کے اصول، اندھی طاقت سے لیس نفع بخش محرک اور منڈی کی شعبدہ کاری پر کھڑا کیا۔
  •  سوشلزم نے فرد کو ریاست کا بے جان پُرزہ بنا دیا اور سبھی کچھ قومی ملکیت میں لے لیا۔ سیاسی و سماجی عمل کو جکڑ دیا، غیرفطری انداز میں سماجی ترغیبات کو پروان چڑھایا، معیشت کو مرکزی منصوبہ بندی کے نظام میں کس دیا اور اسی اجتماعی عمل کو تمام مسائل کا حل سمجھ لیا۔
  •   فاشزم (قوم پرستانہ فسطائیت) نے قومی افرادی قوت اور ریاستی سرمایہ داری کو نسلی تفاخر، سیاسی قوت کے ارتکاز اور فوجی مہم جوئی کی آگ میں جھونک دیا۔
  •   فلاحی ریاست کا تصور سرمایہ داری اور اشتراکیت کے امتزاج سے محدود و متعین سماجی سہولتوں اور آسایشوں کے جلو میں مخلوط معیشت کا علَم بردار بنا۔

بلاشبہہ کچھ مخصوص میدانوں میں ان سب نے بعض نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، مگر اس کے باوجود یہ چاروں نظریات، حقائق کی دنیا میں انسانیت کے معاشی اور سماجی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں قوم پرستانہ فاشزم سب سے پہلے ردی کی ٹوکری کی نذر ہوا۔   پھر اس کارگہِ حیات میں گرنے اور بکھرنے والا بت، سوشلزم ہے۔ بلاشبہہ دوسرے دونوں نظریات بظاہر ابھی تک صحت مند دکھائی دے رہے ہیں، لیکن غور سے دیکھا جائے تو اپنے باطن میں وہ بھی موت آفریں کش مکش میں مبتلا ہیں۔ غربت، بے روزگاری، افراطِ زر اور قرض کے ناقابلِ برداشت بوجھ نے ان کی چولیں ہلا رکھی ہیں اور کوئی تدبیر تاریخ کا رُخ بدلتی نظر نہیں آرہی۔ اہلِ نظر، اقبال کے   ہم نوا ’منتظر روزِ مکافات‘ ہیں:

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ

دُنیا ہے تیری منتظر روزِ مکافات

ہمارے خیال میں یہ ایک غیر دانش مندانہ مفروضہ ہے کہ ’’سوشلزم کے انہدام سے سرمایہ داری اور فلاحی ریاستی تصور نے نہ صرف اپنا انتقام لے لیا ہے، بلکہ اب یہی ایک فاتح اور زندہ رہنے والے نظام کی حیثیت سے بقاے باہمی کی اس دوڑ میں باقی رہ گیا ہے‘‘۔ اور سرمایہ دارانہ جمہوری استعمار کی شیخی پر مبنی یہ غلط فہمی کہ سوویت یونین [یعنی سوشلسٹ روسی سلطنت اور نظریے]کے زوال نے گویا ’نظریاتی پیکار کی تاریخ کے خاتمے‘ کا اعلان کر دیا ہے، مغربی اہل دانش کے جذباتی طرزِ فکر کی غمازی کرتی ہے۔

یہ اَمرواقعہ ہے کہ سوویت یونین کے انہدام اور سوشلزم کے زوال نے بہت سے نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایسے سوالات کہ جن کا تعلق انسانیت کے نظریاتی و سماجی مستقبل سے ہے، مثلاً یہ کہ:

                ۱-            کیا سوشلزم کا خاتمہ درحقیقت مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظام اور سیاسی لبرل ازم کی قطعی فتح مندی کا مظہر ہے؟ (جس کا دعویٰ مغربی سرمایہ داری کے علَم بردار کرتے ہیں)

                ۲-            کیا سوشلزم کی اس ’موت‘ نے واقعی ’نظریاتی پیکار کے تاریخی عمل‘ کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے؟ یا پھر ایک نئے مرحلے کو جنم دیا ہے کہ جو تاریخ کے ایک نہ ختم ہونے والے بہائو اور نشیب و فراز کی کشاکش کی طرف رواں ہے؟

                ۳-            اگر سوشلزم اپنے فکری و عملی تضادات کے بوجھ تلے دم توڑ دیا گیا ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خود سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے داخلی و خارجی تضادات، غیرمنصفانہ رویوں اور دیگر بہت سی سماجی ناکامیوں پر قابو پالیا ہے؟

                ۴-            اگر سوشلزم کا عروج جزوی طور پر اس چیز کا مظہر تھا کہ اسے سرمایہ دارانہ نظام کا بے رحمانہ استحصالی پہلو دکھائی دے رہا تھا، جس کے پکے ہوئے ناسور پر اس نے نشتر لگایا، تو پھر کیا سوشلزم کے انہدام کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سرمایہ داری کا جو استحصالی پہلو دیکھا تھا   وہ کوئی گمراہ کن فریب نظر تھا؟

                ۵-            کیا آج کی ترقی یافتہ اقوام سے تعلق رکھنے والا انسان، اعلیٰ مادی معیارات پر مشتمل سہولت بخش زندگی پالینے کے نتیجے میں واقعی سکون و طمانیت کے دامن میں اپنے آپ کو موجود پاتا ہے؟ یا پھر یہ مراعات یافتہ انسان بھی فکروعمل کی دنیا میں، اپنی داخلی، سماجی اور معاشی زندگی کو جوں کا توں گہرے بحران میں مبتلا ہی پاتا ہے؟

                ۶-            کیا اس سارے عمل نے انسانیت کو ایک متبادل، سماجی اور معاشی نظام کی تلاش کے رستے پر ڈال دیا ہے؟ اور انسانی معاشرہ آج بھی انصاف اور سکون اور چین کے حصول سے اسی طرح محروم ہے، جس طرح کل سوشلسٹ انقلاب سے پہلے تھا؟

مندرجہ بالا سوالات ذہنوں اور ضمیروں میں نہ صرف اضطراب پیدا کر رہے ہیں، بلکہ شافی جواب کے بھی طلب گار ہیں۔

سوشلزم یا مارکس ازم انیسویں صدی کے بہت سارے نظریات اور مفروضوں کا ملغوبہ ہے، جس میں فریڈرک ہیگل [م: ۱۸۳۱ء]کی جدلیات، لوردویگ فویرباخ [م: ۱۸۷۲ء]کی مادیت، جولیس مچل [م: ۱۸۷۴ء] کی طبقاتی کش مکش، ایڈم اسمتھ [م: ۱۷۹۰ء] اور ڈیوڈ رکارڈو [م:۱۸۲۷ء] کی معاشی فکر ، انقلابِ فرانس کے جارحانہ نعروں۱ اور چارلس ڈارون [م: ۱۸۸۲ء] کے ’حیوانی نظریۂ ارتقا‘ نے اس سیکولر روشن خیالی کو سینچا۔ خود کارل مارکس [م: ۱۸۸۳ء] انھی سیکولر اور مذہب مخالف افکار میں پروان چڑھا۔۲

سوشلزم کی تجربہ گاہ سوویت یونین اور سفاکانہ سرمایہ داری کے مراکز امریکا و یورپ کے مابین اسٹرے ٹیجک عسکری ’سرد جنگ‘ اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے۔ اس کی جگہ اسٹرے ٹیجک معاشی جنگ نے لے لی ہے اور نئے جنگی کھیل کے نئے کھلاڑی سامنے آگئے۔۳ اور یوں ترقی، دولت اور ٹکنالوجی کی مالک ریاستوں کا غیراعلان شدہ مقصد تو دنیا بھر کے وسائل پر قبضہ جمانا اور ان تہذیبوں کو مغربی تہذیب کا خوشہ چیں بنانا ہی ٹھیرا ہے، جب کہ اعلان شدہ مقصد اپنے اور محض اپنے شہریوں کے معیارِ زندگی کو بلند کرنا ہے۔۴ اور وہ بھی تین چوتھائی سے زیادہ انسانوں کو حسرتوں، محکومیوں، ذلتوں اور غلامی کے گرداب میں پھنسا کر!

سوشلزم یا مارکس ازم کا انہدام خود مغربی دانش وروں کے لیے ایک ہوش ربا معما ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’چنگیز خان [م: ۱۲۲۷ء] یورپ فتح کرنے کی خواہش لیے آگے بڑھ رہا تھا،     کہ اچانک اس کے بڑھتے ہوئے قدم رُک گئے۔ وہ فوری طور پر پلٹا اور وسطی ایشیا میں جاکر دم لیا۔ اس اعتبار سے کمیونزم کی اچانک موت بھی چنگیز خان کی اسی پُراسرار پسپائی سے مشابہت رکھتی ہے‘‘۔۵ لیکن یہ تحیر آمیز مسئلہ صرف ان دانش وروں کا ہے، جنھوںنے انسانی زندگی کے اجتماعی رویوں اور مسئلوں کو محض مادی طاقت اور حیوانی جذبوں کی میزان پر رکھ کر پرکھا ہے، وگرنہ اہلِ نظر تو اس عبرت ناک انجام کی خبر بہت پہلے سے دے رہے تھے۔۶

برصغیر پاک و ہند میں احیاے اسلام کی تحریک نے دیگر نظاموں اور استعماری فتنوں کے ساتھ اشتراکیت کو بھی اپنے سنجیدہ مطالعے کا موضوع بنایا۔۷ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ سوویت یونین مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کو اپنی ظالمانہ نوآبادی بنانے، مسلمان ملکوں میں اندھی بہری آمریتوں کو سہارا دینے اور اباحیت و دہریت کو پروان چڑھانے کے ساتھ غیرفطری معاشی نظام کا بھی     علَم بردار تھا۔ اگرچہ اس سے قبل مغربی نوآبادیاتی تسلط اور الحادی تحریک کے بالمقابل اسلامی فکر کے علَم بردار پوری قوت سے نبردآزما تھے (جس کا بہت بڑا ثبوت آزادی کی تمام تحریکوں میں اسلامی فکروعمل کے حامل افراد کا شان دار کردار ہے)، لیکن سمرقند و بخارا کے المیے نے مسلمانوں کو اس فتنے کا اور زیادہ وسعت کے ساتھ ادراک کرنے پر اُبھارا۔ یہ الگ بات ہے کہ اشتراکی فکر کو     نہ صرف جدید تعلیم یافتہ،بلکہ مسلم مذہبی فکر کے دعوے داروں میں سے بھی ایک گروہ تائید و حمایت دینے کے لیے ملتا رہا۔

سوشلسٹ تہذیب، سوشلسٹ معیشت اور سوشلسٹ عسکریت کے انسانیت پر دُور رس مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ کام گہرے اور ٹھوس فکرومطالعے کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی طرح روسی فیڈریشن میں محکوم مسلم ریاستوں کی حالت ِ زار پر تحقیق، تجزیے اور جدوجہد کی تائید کے لیے مثبت اقدامات کی ضرورت ہے۔۸

اس تحقیق و تجزیے کا مقصد محض تاریخ کا ریکارڈ دیکھنا پرکھنا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ زندگی کے فکری معاملات اور عملی مسائل کا ادراک اور ان کا حل پیش کرنا بھی ہونا چاہیے۔ تاریخ کا وہی مطالعہ حیات بخش ہے، جو عصری اور مستقبل کی زندگی کو روشنی عطا کرے۔

 حواشی

۱-            ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا، Islam and The Economic Challenge ، دی اسلامک فائونڈیشن، لسٹر، برطانیہ، ۱۹۹۲ء، ص ۷۲

۲-            ’سوشلزم‘ بنیادی طور پر ’سیکولرزم‘ ہی کا ایک نتیجہ ہے، کیوں کہ سوشلسٹ تحریک نے انقلابِ فرانس کا ’تصور انسان دوستی‘ (Humanism) وراثت میں پایا اور حقیقت یہ ہے کہ سوشلزم: فرانس،بلجیم، آئرلینڈ، اٹلی، اسپین اور لاطینی امریکا کی ہسپانوی تہذیبوں میں نمو پانے والے جارحانہ الحاد کا کڑوا پھل تھا۔

                                Geroge Lichtheim ، A Short History of Socialism ، ۱۹۷۸ء، ص ۳۰۸-۳۰۹

۳-            فوجی سپر طاقتوں کے ’سرد معرکے‘ میں ایک طاقت (سوویت یونین )فنا کے گھاٹ اُتر گئی اور دوسری قیادت (امریکا) عسکری طاقت کے حوالے سے ڈیڑھ عشرے تک فتح یاب قرار پائی۔ دوسری طرف معاشی وسائل پر قبضہ جمانے کے لیے یورپی یونین اور جاپان اور امریکا اور چین گویا کہ تین فریق برسرِپیکار ہیں۔ اور تیسری دنیا جو تین چوتھائی سے زیادہ آبادی کی مالک ہے، وہ اسی طرح خوار و زبوں حالی کا شکار رہے گی کہ جس کے تعلیمی، سیاسی اور معاشی مستقبل کے فیصلے معاشی دنیا کے یہ محکوم لوگ نہیں کریں گے، بلکہ مادی ترقی سے سرشار اور ٹکنالوجی سے ہم کنار تین چار ممالک ہی یہ کردار ادا کریں گے۔

۴-            پروفیسر لسٹر تھرو کے بقول: ’’ان سوپر طاقتوں کے درمیان اس عالمی معاشی جنگ کا ایک ہدف یہ ہے کہ وہ اکیسویں صدی کے پہلے نصف میں اپنے شہریوں کو ان سات شعبوں میں وافر سہولتیں بہم پہنچا دیں، مثلاً: مائیکرو الیکٹرانک، بائیوٹکنالوجی، نیومیٹریل سائنس انڈسٹری، ٹیلی کمیونی کیشن، شہری ہوابازی، مشینی سازوں سے لیس روبوٹ اور کمپیوٹر مع سافٹ ویئر ۔ لسٹر تھرو، Head to Head: The Coming Battle Among Japan, Europe and America ، وارنر بکس، امریکا (۱۹۹۳ء)

۵-            لسٹر تھرو، ایضاً، ص ۱۲-۱۳

۶-            مولانا مودودیؒ نے ۳۰دسمبر ۱۹۴۶ء کو سیالکوٹ کے مضافات میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ایک وقت آئے گا جب کمیونزم خودماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادہ پرستانہ نسل پرستی اور قوم پرستی  خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پاسکے گی‘‘۔ (شہادتِ حق،ص ۲۲)

۷-            اس ضمن میں اُردو میں مولاناسیّدابوالاعلیٰ مودودی، مولانا مسعودعالم ندوی، مظہرالدین صدیقی، اعظم ہاشمی، چودھری علی احمد خان، پروفیسر عبدالحمید صدیقی، نذر محمد خالد، عبدالکریم عابد، چودھری غلام جیلانی، مولانا خلیل احمد حامدی، آبادشاہ پوری، حسین خان، سیّد اسعد گیلانی، مختارحسن، محمود احمد مدنی، مسلم سجاد، عطاء الرحمان، انیس احمد، رفیع الدین ہاشمی اور دیگر رفقا کی تحریریں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، جب کہ نعیم صدیقی صاحب کی زیرنگرانی ادارہ دارالفکر، لاہور اور راقم کی ذمہ داری میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی کے پیش کردہ مطالعے اور خصوصاً ماہنامہ چراغِ راہ، کراچی کے ’سوشلزم نمبر‘ (۱۹۶۸ء) کا اپنا مقام ہے۔

۸-            آباد شاہ پوری، ترکستان میں مسلم مزاحمت (۱۹۸۳ء)، آبادشاہ پوری، مسلم اُمہ سوویت یونین میں (۱۹۸۸ء)، ڈاکٹر سفیر اختر (مدیر) دو ماہی، وسطی ایشیا کے مسلمان ، ڈاکٹر طاہر امین، Afghanistan Crisis: Implications and Option for Muslim World, Iran and Pakistan  (۱۹۸۲ء)،انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد۔