زندگی ایسے واقعات کے تسلسل کا نام ہے، جو بڑی حد تک انسان کی اپنی گرفت میں نہیں ہوتا۔ بلاشبہہ انسان کے اپنے عزم، محنت، جدوجہد اور تگ و تاز کی بھی بڑی اہمیت ہے، لیکن ’لالے کی حنا بندی‘ میں اہم کردار فطرت ہی کا ہوتا ہے۔ پردۂ تقدیر میں کیا چھپا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ اس میں بھی خالقِ ارض و سما کی ان گنت حکمتیں پوشیدہ ہیں، وگرنہ معلوم نہیں انسان کی زندگی کیسا بے ذوق تماشا بن جاتی۔ کوئی نہیں جانتا کہ اُس کی زندگی میں کب، کس مرحلے پر، کس آن کون سا سعید لمحہ، سینۂ افلاک سے پھوٹ کر، اُس کے دامن کو مالا مال کر جائے گا۔ یکایک اُس کے دامن کے سب داغ دھبے دُھل جائیں گے، اور وہ صبح ازل کی طرح اجلا اور شفاف ہو جائے گا۔ اسی طرح کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ کس آن، کوئی لمحہ ایک سانحہ سا بن کر اُس کی زندگی میں آ ٹپکے گا اور چشم زدن میں اس کی عمر بھر کی کمائی کو گٹھڑی میں باندھ کر غائب ہو جائے گا، اور وہ بھرے شہر میں بے سروساماں ہوکر رہ جائے گا۔
’یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے‘ کہ اللہ کسی پر مہرباں ہو، اُس کی لغزشوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے، اُسے کسی ایسے کارِ خاص کے لیے چُن لے، جو اُس کے لیے زندگی بھر کا ہی نہیں، آنے والے کئی زمانوں کے لیے بھی اثاثہ اور صدقۂ جاریہ بن جائے۔ اس کرم و عطا کی حکمت آموز مثالیں ہمیں کثرت سے ملتی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آفتابِ رسالت طلوع ہوا اور غار حرا سے اسلام کے مہرِتاب دار نے انگڑائی لی، تو کچھ عالی نصیب ایسے تھے، جنھیں ایمان کی بے بہا دولت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا بلند اعزاز عطا ہوا۔ مگر اُسی شہر مکہ میں کچھ ایسے بد نصیب بھی تھے، جو بدستور تاریکیوں میں بھٹکتے اور اپنے لیے آگ سمیٹتے رہے:
حسنؓ ز بصرہ، بلالؓ از حبش، صہیبؓ از روم
زخاکِ مکہ ابوجہل، ایں چہ بو العجبی ست
(کیا عجیب بات ہے کہ بصرہ سے حسن بصریؓ، حبشہ سے بلال حبشیؓ اور روم سے صہیب رومیؓ جیسے صحابہ کرامؓ پیدا ہوئے اور خود مکہ کی خاک پاک سے ابوجہل نے جنم لیا۔)
اس ’بوالعجبی‘ کا سلسلہ ہر دور میں جاری رہا ہے۔ کسی پر اللہ نے رحمتوں اور برکتوں کے دَروا کر دیے اور وہ محبوب و مقبول ٹھیرا۔ کسی کے لیے محرومیاں اور نامرادیاں مقدر کر دی گئیں اور وہ راندۂ درگاہ قرار پایا۔ اس کا معیار کیا ہے؟ اللہ کس کسوٹی پر پرکھتا ہے؟ کس ترازو میں تول کر مقبول و مردود کے فیصلے صادر کرتا ہے؟ ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ انسان کی محدود عقل اس راز کو پانے کی قدرت نہیں رکھتی:
یہ رُتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں
o
اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جنھیں چُن لیا جاتا ہے۔ اللہ انھیں اپنی بے پایاں عنایات کی آغوش میں لے لیتا ہے۔ صحابۂ کرامؓ تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی قربتوں اور اس عہدِسعید کی برکتوں سے براہِ راست فیض یاب ہوئے،مگر ایسے بامراد ہر دور میں گزرے ہیں، جن کے دلوں میں عشقِ رسولؐ کا چراغ روشن ہوا اور ان کی زندگی کے ہر لمحے کو فروزاں کر گیا۔
ایک صدی سے زائد کا عرصہ ہوا۔ ڈیرہ غازی خان کے ترین قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک پٹھان،اللہ داد خان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ اُس کا نام محمد رمضان [م:۷ جمادی الاول ۱۳۸۸ھ/۲؍اگست۱۹۶۸ء] رکھا گیا۔ رمضان ہونہار طالب علم نکلا۔ بی اے کے بعد بی ٹی کا امتحان پاس کیا اور بطور انگلش ٹیچر، سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ طبیعت میں فقیرانہ استغنا بھی تھا اور صوفیانہ بے نیازی بھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سرکارِ انگلیسیہ کا ملازم ہونے کے باوجود کبھی دیسی لباس ترک نہ کیا۔ چہرہ سنت رسولؐ سے سجا تھا۔ ہمیشہ ہاتھ میں ایک موٹی سوٹی اورکندھے پر بڑا سا تولیہ ڈالے رکھتے۔ فارسی اور اُردو میں شعر کہتے۔ علامہ محمد اقبالؒ کے عشاق میں سے تھے۔ اُن کے کئی اشعار پر تضمین کہی، جو علامہ نے بہت پسند کی۔ مولانا فیض محمد شاہ جمالی کے مرید اور حضرت خواجہ نظام الدین تونسویؒ کے حلقہ نشین تھے۔ ایک سیاسی خاندان کے نوجوان، عطا محمد جسکانی سے گہرے لگائو کے باعث عطائی تخلص اختیار کیا اور محمد رمضان عطائی کہلانے لگے۔
یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب عطائی ڈیرہ غازی خان کے گورنمنٹ اسکول میں تعینات تھے۔ تب اُن کے قریبی شناسا مولانا محمد ابراہیم ناگی[م:۱۹۶۴ء]، ڈیرہ غازی خان میں سب جج تھے [جو ڈیرہ کے علاوہ، لدھیانہ، امرتسر، ہوشیارپور میں سب جج اور ۱۹۴۷ء کے بعد ریٹائرمنٹ تک لاہور میں سیشن جج رہے۔] ابراہیم ناگی ایک درویش منش اور صاحب علم شخصیت تھے۔ آپ انیس ناگی [م:۲۰۱۰ء] کے والد اور معروف صحافی واصف ناگی کے دادا تھے۔ علامہ اقبال سے گہری محبت رمضان عطائی اور ابراہیم ناگی کے درمیان دوستانہ قربت کی قدرِ مشترک تھی۔ مولانا ابراہیم کو علّامہ اقبال سے ملاقاتوں کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
ایک دن مولانا محمدابراہیم لاہور گئے اور علامہ اقبال سے ملاقات ہوئی ۔ واپس آئے تو سرِشام معمول کی محفل جمی اور علامہ اقبال سے ملاقات کا ذکر چلا تو عطائی کا جنوں سلگنے لگا۔ مولاناابراہیم نے جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکال کر عطائی کو دکھایا، او رکہنے لگے: ’’لوعطائی، علامہ صاحب کی تازہ رُباعی سنو‘‘۔ پھر وہ عجب پُر کیف انداز میں پڑھنے لگے:
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہاے من پذیر
ور حسابم را تو بینی نا گزیر
از نگاہ مصطفےٰؐ پنہاں بگیر
مولانا محمد ابراہیم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، لیکن محمد رمضان عطائی کی کیفیت روتے روتے دگرگوں ہو گئی۔ اسی عالم ِ وجد میں فرش پر گرے، چوٹ آئی اور بے ہوش ہو گئے۔ رُباعی اُن کے دل پر نقش ہو کے رہ گئی۔ اُٹھتے بیٹھتے گنگناتے اور روتے رہتے۔ اُنھی دنوں حج پر گئے۔ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ: ’جب حجاج اوراد اور وظائف میں مصروف ہوتے تو میں زاروقطار روتا اور علامہ کی رُباعی پڑھتا رہتا۔‘ حج سے واپسی پر عطائی کے دل میں ایک عجیب آرزو کی کونپل پھوٹی: ’’کاش! یہ رُباعی میری ہوتی یا مجھے مل جاتی‘‘۔
یہ خیال آتے ہی علامہ اقبال کے نام ایک خط لکھا: ’’آپ سر ہیں، فقیر بے سر۔ آپ اقبال ہیں، فقیر مجسم ادبار، لیکن طبع کسی صورت کم نہیں پائی‘‘۔ انھوںنے علامہ کے اشعار کی تضمین اور اپنے چیدہ چیدہ فارسی اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: ’’فقیر کی تمنا ہے کہ فقیر کا تمام دیوان لے لیں اور یہ رُباعی مجھے عطا فرما دیں‘‘۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اُنھیں علامہ کی طرف سے ایک مختصر سا خط موصول ہوا۔ لکھا تھا:
’’جناب محمد رمضان صاحب عطائی
سینئر انگلش ماسٹر، گورنمنٹ ہائی سکول، ڈیرہ غازی خان
جنابِ من! میں ایک مدت سے صاحب فراش ہوں۔ خط و کتابت سے معذور ہوں۔ باقی شعر کسی کی ملکیت نہیں۔ آپ بلاتکلف وہ رُباعی، جو آپ کو پسند آگئی ہے، اپنے نام سے مشہور کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
فقط
لاہور: ۱۹ فروری۱۹۳۷ء محمد اقبال
علامہ کی یہ عطا، جنابِ عطائی کے لیے توشۂ دو جہاں بن گئی۔ علامہ نے یہ رُباعی اپنی نئی کتاب ارمغانِ حجاز کے لیے منتخب کر رکھی تھی، مگر عطائی کی نذر کر دینے کے بعد انھوں نے اسے کتاب سے خارج کرکے، تقریباً اسی مفہوم کی حامل ایک نئی رُباعی کہی جوارمغانِ حجاز میں شامل ہے:
بہ پایاں چوں رسد ایں عالمِ پیر
شَود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر
مکُن رُسوا حضورِ خواجہؐ ما را
حسابِ مَن زچشمِ او نہاں گیر
(اے میرے رب! جب (روز قیامت) یہ جہانِ پیر اپنے انجام کو پہنچ جائے اور ہر پوشیدہ تقدیر ظاہر ہو جائے تو اُس دن مجھے میرے آقا ومولاؐ کے حضور رُسوا نہ کرنا اور میرا نامۂ اعمال آپؐ کی نگاہوں سے چھپا رکھنا۔)
عطائی ایم اے فارسی کا امتحان دینے لاہور گئے تو شکریہ ادا کرنے کے لیے حضرت ِ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہمراہ جانے والے چودھری فضل داد نے تعارف کراتے ہوئے کہا: ’’بوڑھا طوطا ایم اے فارسی کا امتحان دینے آیا ہے‘‘۔
علامہ ایک کُھرّی جھلنگا چارپائی پر سفید چادر اوڑھے لیٹے تھے۔ بولے: ’’عاشق کبھی بوڑھا نہیں ہوتا‘‘۔ رُباعی کا ذکر چل نکلا۔ عطائی نے جذب و کیف سے پڑھنا شروع کیا: ’’تو غنی از ہر دوعالم…‘‘ علامہ کی آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے۔ اتنا روئے کہ سفید چادر کے پلو بھیگ گئے۔ اس کے بعد عطائی کی علامہ سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔
محمد رمضان عطائی کی آخری ملاقات علامہ اقبال سے ان کے انتقال سے کوئی چار ماہ قبل دسمبر۱۹۳۷ء میں ہوئی۔ انھوں نے علامہ سے کہا: ’’سنا ہے جناب کو دربارِ نبویؐ سے بلاوا آیا ہے‘‘۔ علامہ آبدیدہ ہو گئے… آواز بھرا گئی۔ بولے:’’ہاں! بے شک، لیکن جانا نہ جانا یکساں ہے۔ آنکھوں میں موتیا اُتر آیا ہے۔ یار کے دیدار کا لطف دیدۂ طلب گار کے بغیر کہاں؟‘‘ عطائی نے کہا: ’’جانا ہو تو دربار نبویؐ میں وہ رُباعی ضرور پیش فرمائیے گا، جو اَب میری ہے‘‘۔ علامہ زاروقطار رونے لگے۔ سنبھلے تو کہا: ’’عطائی! اس رُباعی کو بہت پڑھا کرو۔ ممکن ہے خداوند کریم مجھے اس کے طفیل بخش دے‘‘۔
۲۱؍اپریل۱۹۳۸ء کو علامہ اقبال انتقال فرما گئے۔ عرصے بعد بادشاہی مسجد کے صدر دروازے کی سیڑھیوں سے متصل اُن کے مزار کی تعمیر شروع ہوئی، تو ہر ہفتے اور اتوار کو ایک مجذوب سا شخص لاٹھی تھامے مسجد کی سیڑھیوں پہ آبیٹھتا اور شام تک موجود رہتا۔ وہ زیر تعمیر مزار پر نظریں گاڑے ٹک ٹک دیکھتا رہتا۔ کبھی یکایک زاری شروع کر دیتا، کبھی مزار کے گرد چکر کاٹنے لگتا۔ اُس پروانے کا نام محمد رمضان عطائی ہی تھا۔
مولانا محمد ابراہیم ناگی کبھی کبھی کہا کرتے: ’’ظالم عطائی! کان کنی تو میں نے کی اور گہر تو اُڑا لے گیا۔ بخدا، اگر مجھے یہ علم ہوتا کہ حضرت غریب نوازؔ (علامہ اقبال) اتنی فیاضی کریں گے، تو میں اپنی تمام جایداد دے کر یہ رُباعی حاصل کر لیتا اورمرتے وقت اپنی پیشانی پر لکھوا جاتا‘‘۔
محمد رمضان عطائی سنیئر انگلش ٹیچر نے اس جہانِ فانی سے رخصت ہونے سے قبل اپنی وصیت میں لکھا: ’’میرے مرنے پر اگر کوئی وارث موجود ہو تو رباعی مذکور میرے ماتھے پر لکھ دینا اور میرے چہرے کو سیاہ کر دینا‘‘۔ مجھے معلوم نہیں پسِ مرگ اُن کے کسی وارث نے اس عاشقِ رسولؐ کی پیشانی پر وہ رباعی لکھی یا نہیں۔
چند سال قبل، مَیں خاص طور پر محمد رمضان عطائی کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے ڈیرہ غازی خان گیا۔ ’ملا قائد شاہ‘ کے قدیم قبرستان میں ایک پرانی قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھیں نم ہو گئیں۔ لوحِ مزار پر کندہ تھا:
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی نا گزیر
از نگاہِ مصطفےٰؐ پنہاں بگیر
o
اور آج مجھے ایک اور شخص بھی یاد آ رہا ہے، جس پر سعادت کا ایک ایسا مبارک لمحہ نازل ہوا کہ اس کی کئی نسلوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ اُس کی کہانی کئی سال پہلے شروع ہوتی ہے۔ بانکے لال نے ۱۹۴۳ء میں بلریا گنج (اعظم گڑھ، اترپردیش، بھارت) کے ایک ہندو گھرانے میں جنم لیا۔ اُس کا والد ایک سرکردہ برہمن اور آسودہ حال کاروباری شخص تھا۔ جس کا کاروبار اعظم گڑھ سے کلکتہ تک پھیلا ہوا تھا۔ بچے کو وہ ساری آسایشیں میسر تھیں کہ جن کا تصور کیا جا سکتا تھا۔ ۱۴برس کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اس نے شبلی کالج اعظم گڑھ میں داخلہ لیا۔
اُس لڑکے کی تربیت، خالص ہندو ماحول میں ہو رہی تھی اور برہمن خاندان کا سپوت ہونے کے باعث اسلام کے بارے میں ایک خاص سوچ اُس کے دل و دماغ میں راسخ کی جارہی تھی۔ گرمیوں کی تعطیلات میں وہ بلریا گنج آیا اور اس نے اپنی طبیعت کی بے چینی اور اضطراب کا تذکرہ کیا تو اس کے دوست اور استاد جنید نے اصرار کیا: ’’چلیں آج حکیم محمد ایوب صاحب{ FR 584 } سے ملتے ہیں‘‘۔ یہ لڑکا انکار کرتا رہا کہ: ’’وہ مصروف ہوں گے‘‘۔ لیکن جنید صاحب اصرار کرکے حکیم محمد ایوب صاحب کے مطب پر لے آئے اور ملاقات میں حکیم صاحب سے درخواست کی: ’’میرے اس دوست کو، آپ ہندی میں کوئی کتاب پڑھنے کے لیے دیں، یہ ان چھٹیوں میں بلریا گنج ہی میں رہے گا‘‘۔
جستجو کے اس سفر میں حکیم محمد ایوب صاحب نے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی ایک چھوٹی سی کتاب دینِ حق کا ہندی ترجمہ ستیہ دھرم بانکے لال کو پڑھنے کے لیے دیا۔ اس نے گھر والوں سے چھپ کر اُسے پڑھا۔ ایک بار، دوبار بلکہ بار بار، اور پھر اُسے یوں محسوس ہوا جیسے تاریکی کی مہیب سیاہی سے روشنی کی ایک لکیر سی پھوٹ رہی ہو، اور اُس کے دل کی دہکتی لوح پر شبنم سی گرنے لگی ہو۔ اسے یوں لگا کہ جیسے اس چھوٹی سی کتاب نے اس کے سامنے زمین و آسمان کے خزانے ہیچ کر دیے ہیں۔ اُس نے سید مودودی کی وہ تمام کتابیں پڑھ ڈالیں، جوہندی زبان میں ترجمہ ہو چکی تھیں۔
سیّد مودودی کی فکر سے متاثر، کالج کے ایک مسلم اُستاد نے روشنی کی تلاش میںمگن اس ہونہار طالب علم کی بھرپور سرپرستی کی۔ اب برہمن خاندان کا یہ متجسس نوجوان، اعظم گڑھ میں ایک ہفتہ وار درسِ قرآن میں جانے لگا۔ اتفاق سے درس قرآن دینے والے استاد بھی مولانا مودودی کی فکر سے متاثر تھے۔ اسی عرصے میں ایک روز خواجہ حسن نظامی[م:۱۹۵۵ء] کا ہندی ترجمۂ قرآن اس کے ہاتھ لگا۔
اب اُس نوجوان کی عمر ۱۷ سال ہو چکی تھی اور تیرگی میں پھوٹنے والی روشنی کی لکیر پھیلنے لگی تھی۔ تاہم، بعض خدشات دل و دماغ میں ابھر ابھر کر اس کے روحانی سفر کی راہ میں حائل ہوجاتے اور وہ ٹھٹھک کر رہ جاتا۔ اپنے آبائی مذہب سے انس ابھی تک موجود تھا۔ دوراہے پر کھڑے، اس نے آخری بار اپنے سنسکرت کے پروفیسر سے ملاقات کی، جو گیتا اور ویدوں کے ماہر تھے۔ ان کے سامنے دیومالائی تصورات اور اوہام پر بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہوئے تشفی بخش جواب چاہا، مگر وہ سوالوں کا جواب دینے میں ناکام رہے۔ ان دنوں وہ معمول کے مطابق اپنے بستر پر لیٹتا، لیکن نیند کہیں دُور نکل جاتی اور وہ شب بھر بے کلی سے کروٹیں بدلتا رہتا۔ گھر والے اُس کی مضطرب کیفیت کو دیکھتے اور اس کو نوجوانی کے ہیجان سے تعبیر کرتے رہے، مگر وہ تو کسی شیریں چشمے کی تلاش میں صحرا کی تپتی ریت پر ننگے پائوں چلتا جا رہا تھا۔
سیّد مودودی کی کتابوں کے مطالعے اور حلقۂ درس قرآن میں باقاعدگی سے شمولیت نے قبول اسلام کے جذبے کو دوآتشہ کر دیا۔ چند برسوں پر پھیلی اس آبلہ پائی کے بعد یہ ۱۹۶۰ء کی ایک صبح خوش جمال تھی، جو اُس برہمن زادے کے اُفقِ دل پہ نور کی لپٹ بن کر چمکی۔ اس روز، درسِ قرآن میں سورۂ عنکبوت کی آیت۴۱ [جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست (اولیا) بنالیے ہیں، ان کی مثال مکڑی جیسی ہے، جو اپنا ایک گھر بناتی ہے، اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔ کاش! یہ لوگ علم رکھتے]کی تلاوت و تشریح نے کایا پلٹ دی، تذبذب ختم ہوا اور اسی مجلس میں استاد سے التجا کرکے اسلام قبول کر لیا۔
کچھ دن تو اُس نے اپنے گھر والوں کو اس کی خبر نہ ہونے دی۔ ماں باپ نے یہی جانا کہ اُس پر کسی جن بھوت کا سایہ ہو گیا ہے، جس پر پنڈتوں اور پروہتوں نے اُسے گھیر لیا۔ اُس کے سامنے اسلام کی بے حد مکروہ اور گھنائونی تصویر پیش کی جانے لگی۔ ماں باپ نے بیٹے پر دبائو ڈالنے کے لیے ’مرن بھرت‘ تک رکھ لیا۔ یلغار بڑھی تو سترہ سالہ نوجوان نے کھلے بندوں اعلان کر دیا کہ: ’’ہاں، میںمسلمان ہوں اور تم کتنے ہی ستم آزمالو میں مسلمان رہوں گا‘‘۔
وہ رمضان المبارک کی ایک سنہری صبح تھی، جب اُس نے اپنا گھر چھوڑا اور صعوبتوں کے ایک لمبے سفر پر نکل گیا، کوچہ بہ کوچہ، شہر بہ شہر۔ مسلمان اُسے پناہ دیتے اور اُس کا تحفظ کرتے رہے۔ وہ رام پور پہنچا۔ وہاں سے بدایوں چلا گیا، جہاں ڈیڑھ سال تک ایک دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کی۔ وہاں سے نکلا تو مدراس [چناے]جا پہنچا اور چار سال تک ایک مشہور دینی درس گاہ ’دارالسلام‘ عمرآباد سے کسبِ فیض کرتا رہا۔ ۱۹۶۶ء میں مدینہ منورہ کی معطر ہوا کا کوئی جھونکا مدراس کی طرف سے گزرا اور اُسے اپنے ساتھ لے گیا۔ اُسے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ (مدینہ یونی ورسٹی) میں داخلہ مل گیا۔ چار سال میں اُس نے گریجوایشن کر لی۔ پھر ایم اے کے لیے جامعۃ الملک عبدالعزیز (جامعہ اُم القریٰ، مکہ معظمہ) میں داخلہ لے لیا اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت شدہ احادیث مبارکہ پر معتبر تحقیقی کام کیا اور امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔ ایم اے کے بعد جامعہ الازہر قاہرہ سے ڈاکٹریٹ کی سندِ فضیلت حاصل کی۔ اُن کے مقالے کا موضوع تھا: حضور رسالت مآبؐ کے فیصلے۔ یہ عظیم اور قابل قدر مقالہ اقضیۃُ الرّسولؐ اللہ کے نام سے عربی میں شائع ہوا، جس کے اُردو سمیت متعدد زبانوںمیں تراجم ہوئے۔
ظلمت سے نور کی طرف سفر کرنے والے اس شخص کو دنیا اب پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاءالرحمٰن اعظمی کے نام سے جانتی ہے۔ اترپردیش کے برہمن خاندان کا بیٹا بہت دُور رہ گیا ہے۔ برسوں پہلے مدینہ منورہ میں اُن سے ملنے کی مجھے سعادت نصیب ہوئی۔ ڈاکٹر اعظمی صاحب کا کمرہ ہزاروں دینی کتابوں سے سجا تھا۔ اُن کی میز پر بھی کتابیں، قلم اور اوراق بکھرے پڑے تھے۔ ایک کونے میں کمپیوٹر آراستہ اور فوٹو سٹیٹ مشین نصب تھی، اور وہ اپنی دنیا بدل دینے والی روشنی کو عام کرنے کے مشن میںمصروف تھے۔ اعظم گڑھ کے آسودہ حال برہمن نے کب سوچا ہوگا کہ اُس کا بیٹا ایک دن اسلام کا نامور مبلغ، مفکر، مصنف اور محقق بنے گا۔ وہ ’رابطۂ عالم اسلامی‘ کا ایک اہم رُکن بنے گا۔ وہ برسوں مدینہ یونی ورسٹی میں کلیۂ حدیث کا پروفیسر اور ڈین رہے گا اور عربی زبان میں اس کی بیسیوں تصانیف دینی درس گاہوں کے نصاب کا حصہ بنیں گی۔
ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی کی ہر کتاب کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ تب وہ ایک ہندی انسائی کلوپیڈیا کی تیاری میں مصروف تھے، جس میں اسلام کی پانچ سو معروف اصطلاحات اور موضوعات کی وضاحت مقصود تھی۔صحیح احادیث مبارکہ کے انتخاب کا ایک بہت بڑا منصوبہ بھی ڈاکٹر صاحب کی جاری مصروفیات کا حصہ تھا۔
ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن صاحب کا کہنا تھا کہ: ’’احادیث کی کم وبیش ایک سو کتب اور دوسرے ماخذوں میں ایسی احادیث رسولؐ موجود ہیں، جو صحیح احادیث کے معیار پر سو فی صد پورا اترتی ہیں، لیکن انھیں مرتب نہیں کیا جا سکا‘‘۔ انھوںنے مجھے اپنی جستی الماری کا قفل کھول کر اب تک کیے گئے کام کا مسودہ دکھایا۔ ڈاکٹر صاحب ایسی احادیث کی تعداد کم و بیش پندرہ ہزار بتاتے ہیں، جنھیں مرتب کرنے کے لیے ۱۵جلدیں تیار کرنا ہوں گی اور ان کے لیے پندرہ سال درکار ہوں گے۔ پھر انھوںنے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: ’’دُعا کیجیے، اللہ بارہ سال اور عطا فرما دے کہ میں یہ کام مکمل کرسکوں‘‘۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی نے گنگا سے زم زم تک کے نام سے آپ بیتی بھی تحریر کی ہے۔
برسوں بعد جب حالات نے موقع دیا تو محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی نے اپنے ماں باپ سے رابطہ کیا اور اُن کی ایسی خدمت کی کہ اعظم گڑھ کے گھر گھر میں خدمت و سعادت کی قابلِ رشک کہانیاں بیان ہونے لگیں۔ اب وہ دونوں دنیا میں نہیں رہے اور محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی کو مدینہ منورہ کی آغوش رحمت نے اپنی بانہوں میں سمیٹ رکھا ہے۔
خالقِ ارض وسما کے فیصلے کس قدر لامحدود ہیں اور وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان عام کرنے کے لیے کہاں کہاں سے صاحبانِ جنوں چُن کر صراطِ مستقیم پر گام زن فرما دیتا ہے۔