انسانی تاریخ کے حسین ترین مناظر میں ایک منظر وہ ہے جب بوڑھے ابراہیم علیہ السلام اور نوجوان اسماعیل علیہ السلام مل کر اللہ کے گھر کی تعمیر کررہے تھے۔ اس وقت ان کے لبوں پر بڑی پیاری دعائیں جاری تھیں، جو زمین سے آسمان تک ہر شاہراہ کو معطر کیے ہوئی تھیں۔ ایمان ویقین سے روشن ان دعاؤں میں پہلی اور بہت پیاری دعا یہ تھی:
ہمارے ربّ ہم سے قبول فرمالے، بلاشبہہ تو سننے اور جاننے والا ہے (رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ)
تصور میں دیکھیں اور سوچیں اللہ کے دو عظیم پیغمبر بڑی آزمایشوں اور عظیم قربانیوں سے سرخ رو ہو جانے کے بعد اللہ کے پہلے گھر کی تعمیر میں مصروف ہیں، اور اس وقت بھی سب سے زیادہ یہ فکر دامن گیر ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں ان کا یہ کام قبول ہوجائے۔ یہ کیسی روح پرور کیفیت ہے اور اس میں اچھے کام کرنے والوں کے لیے کیسی گہری نصیحت ہے۔ جب رحمان کے خلیل کو رحمٰن کے گھر کی تعمیر جیسے عظیم کام کے قبول ہونے کی اتنی زیادہ فکر ہے تو عام انسانوں کو دین کے چھوٹے بڑے سب کام کرتے ہوئے قبولیت کی کتنی زیادہ فکر رہنی چاہیے۔
قبولیت کی سچی طلب دل میں بس جاتی ہے تو تمام کام اخلاص کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ قبولیت کی فکر تقاضا کرتی ہے کہ کام کا مقصود صرف اللہ کی رضا ہو اور اس میں کسی کے لیے کوئی حصہ نہیں ہو۔ سوشل میڈیا کے اس زمانے میں، جب کہ ہر شخص کے لیے اپنی کارکردگی کی خبر عام کرنا آسان ہوگیا ہے، اخلاص کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ برائی اس میں نہیں ہے کہ آپ کا کام خبر بن جائے، لیکن برائی اس میں ضرور ہے کہ خبر بنانا ہی کام کا مقصد بن جائے، اور اس طرح پستی کی طرف رخ ہونے کی وجہ سے کام کی خبر آسمان پر جانے کے بجاے زمین کی پستیوں میں ہی بکھر کر رہ جائے۔ ابراہیم ـؑاور اسماعیلؑ نے اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کے یہاں قبول ہوجانے کے لیے تعمیر کعبہ کا کام کیا اور اللہ نے اسے قیامت تک کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبر بنادیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے جو کام کیا جائے وہ کائنات کی بہت خاص خبر بن جاتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ کام خبر بننے کے لیے نہیں بلکہ رب خبیر کے یہاں قبول ہونے کے لیے کیا جائے۔
قبولیت کی سچی طلب دل میں بس جاتی ہے، تو اچھے کام کرتے ہوئے دل میں یہ جذبہ جوان رہتا ہے کہ مشکل سے مشکل کام میرے حصے میں آجائے۔ ٹیم میں کچھ لوگ جسمانی طور سے کمزور ہوسکتے ہیں، کچھ کی قوت کار کم ہوسکتی ہے، اور کچھ کی مدت کار تھوڑی ہوسکتی ہے، ایسے میں پوری ٹیم کو قوت ان سے ملتی ہے جو بڑے بڑے بوجھ اٹھانے کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں، جنھیں آرام سے بے رغبتی اور کام کا جنون ہوتا ہے، جنھیں مال غنیمت کا شوق نہیں ہوتا ہے بلکہ جامِ شہادت سے عشق ہوتا ہے۔ قبیلہ نخع کے لوگ قادسیہ کے معرکے میں شریک ہوئے اور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کام آگئے۔ حضرت عمرؓ نے خبر لانے والوں سے پوچھا، نخع کے لوگ کیوں زیادہ شہید ہوئے؟ کیا دوسرے انھیں محاذ پر تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے؟ انھوں نے وضاحت کی: دراصل ہوا یہ کہ نخع والوں نے اہم ترین محاذ آگے بڑھ کر تنہا خود سنبھال لیے تھے (اِنَّ النَّخَعَ وَلَّوْا أَعْظَمَ الْأَمْرَ وَحْدَهُمْ)( الاصابہ فی تمیز الصحابہ، ج۱، ص ۱۹۶)۔جو مشکل کام اپنے ذمے لیتا ہے، اسی کو تکان زیادہ ہوتی ہے، پسینہ بھی اسی کا زیادہ بہتا ہے، چوٹیں بھی اسے ہی زیادہ آتی ہیں، لیکن وہی پوری ٹیم کے لیے جوش اور طاقت کا سرچشمہ ہوتا ہے، اسی کو دیکھ کر دوسروں کو کام کرنے کا حوصلہ اور توانائی ملتی ہے۔
قبولیت کی سچی طلب ہوتی ہے، تو آدمی شہرت اور نام وَری سے بہت اوپر اُٹھ جاتا ہے۔ اسے اس کی فکر نہیں ہوتی کہ اخبار میں اس کا فوٹو نہیں چھپا، لوگوں کو اس کے کارنامے معلوم نہیں ہوئے، اسے انعام واسناد سے نوازا نہیں گیا، فکر تو اسے بس یہ رہتی ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں وہ مقبول قرار پا جائے۔ اور یہی تو اصل کامیابی ہے۔ اس عظیم کامیابی کے سامنے کسی اعتراف اور کسی انعام کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک معرکے کے بعد قاصد خبر لے کر حضرت عمرؓ کے پاس پہنچا۔ آپ نے پوچھا معرکے میں کون کون کام آگیا؟ اس نے کچھ خاص خاص لوگوں کے نام بتائے، پھرکہا کچھ اور لوگ بھی کام آگئے جنھیں امیر المومنین نہیں جانتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ رونے لگے، اور کہنے لگے: امیر المومنین انھیں نہیں جانتا تو اس میں ان کا کیا نقصان ہے، اللہ تو انھیں جانتا ہے، اس نے تو انھیں شہادت کے اونچے مقام پر فائز کردیا ہے، اور عمر کے جان لینے سے ان کا کیا بھلا ہوگا۔ (وَمَا ضَرَّهُمْ أَ لَا يَعْرِفَهُمْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ! لَكِنَّ اللَّهَ يَعْرِفُهُمْ وَقَدْ أَكْرَمَهُمْ بِالشَّهَادَةِ، وَمَا يَصْنَعُونَ بِمَعْرِفَةِ عُمَرَ)(البدایۃ والنہایۃ، ابن کثیر، ج۷، ص ۱۲۶)۔ جو اللہ کی قدر پہچانتے ہیں، وہ اسی کو کافی سمجھتے ہیں اور اسی کو ضروری بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کے عمل کو قبول کرلے۔
قبولیت کی سچی طلب ہوتی ہے تو کام کا معیار بلند رکھنے کا شوق بھی بڑھ جاتا ہے۔ قبولیت کی طلب کام کے حسن پر ذرا سی بھی آنچ آنا گوارا نہیں کرتی۔ اسے پورا یقین ہوتا ہے کہ جب اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کے لیے کام کیا جائے تو کام بھی شایان شان ہونا چاہیے اور اس کے دامن پر ذرا سا بھی داغ نہیں لگنا چاہیے۔ ایک بدو سے جب زکوٰۃ وصول کرنے والے نے اس کے تمام اونٹوں کو شمار کرکے ایک سال کا اونٹنی کا بچہ مانگا، تو اس نے کہا اللہ کے راستے میں اس سے کیا ہوگا، نہ دودھ دے، نہ سواری کے کام آئے، پانچ سال کی تیار اور تنومند اونٹنی لے کر جاؤ۔ شعور اور ذوق کی اس بلندی پر پہنچنے کے لیے بس یہ جذبہ کافی ہوتا ہے کہ میرا مقصود اللہ ہے، اسی کے سامنے اعمال کو پیش ہونا ہے، اس لیے میرا ہر عمل اونچی شان والا ہونا چاہیے۔
قبولیت کی سچی طلب ہر اچھے کام کو تکمیل تک پہنچانے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ یہ طلب اس وقت بے مثال تازگی عطا کرتی ہے، جب تھکن کی شدت سے جسم چور ہوجاتا ہے اور حوصلے جواب دینے لگتے ہیں۔ دل میں شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ تم اتنے ہی کے مکلف تھے، اب باقی کام کوئی اور کرلے گا یا کسی دوسرے وقت ہوجائے گا۔ لیکن جب قبولیت کی جستجو انگڑائی لیتی ہے تو حوصلوں کو جِلا مل جاتی ہے اور جسم کو نئی توانائی حاصل ہوجاتی ہے۔ جب یہ دھن سوار ہو کہ اللہ کی بارگاہ میں یہ کام قبول ہوجائے تو پھر اس کام کو ادھورا کب کے لیے اور کس کے لیے چھوڑا جائے۔
اللہ کی عظمت پر ایمان رکھنے والے اچھے کاموں کو قابل قبول بنانے کی ہر کوشش کرتے ہیں، اور ان کے قبول ہوجانے کی دُعا کرتے ہیں۔
ایک مسلمان جسے اللہ نماز کی توفیق دے، وہ زندگی میں بلا مبالغہ لاکھوں مرتبہ سورۃ الفاتحہ پڑھتا ہے، لاکھوں مرتبہ التحیات پڑھتا ہے، لاکھوں مرتبہ نماز کے دوسرے اذکار اور دعائیں پڑھتا ہے۔ نماز کے یہ تمام اذکار اس پوری کائنات میں ادا کیے جانے والے بہترین کلمات ہیں۔ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ لاکھوں بار پڑھے جانے والے ان بہترین اذکار کا مفہوم بھی پڑھنے والے کے ذہن میں موجود رہے، اور جب وہ یہ بہترین کلمات لاکھوں بار اپنی زبان سے ادا کرے تو ہر بار ان کے مفہوم کا لطف بھی اٹھائے؟
ثنا: اے اللہ !ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہیں، اور تیرا نام با برکت ہے، اور تیری شان اونچی ہے، اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
بسملہ: اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔
سورۃ الفاتحۃ: ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، جو سارے انسانوں کا ربّ ہے، رحمان اور رحیم ہے، روز جزا کا مالک ہے، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں، ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، اور جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔
التحیات: تعظیم کے کلمات اللہ کے لیے، نیازمندیاں اللہ کے لیے، خوبیاں اللہ کے لیے۔ سلامتی ہو اے نبی آپ پر، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
دعا: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ، اے اللہ میں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا، اور گناہوں کو معاف کرنے والا صرف تو ہے، اپنی طرف سے خاص معافی دے کر مجھے معاف کردے، اور مجھے رحمت عطا فرمادے، بلا شبہہ تو بہت معاف کرنے والا اور بہت مہربان ہے۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ: تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔
یاد رکھیے، موقعے بار بار نہیں ملا کرتے ہیں۔ اگر ابھی موقع ملا ہے اور توجہ ہوئی ہے، تو آج ہی سے اپنے اندر یہ بہت آسان مگر بہت عظیم تبدیلی لانے کا فیصلہ کرلیں، اور اسے زندگی کی میز پر اپنے ’سب سے اہم اور فوری‘ کاموں کی فائل میں سب سے اُوپر رکھ لیں۔ اللہ ہماری مدد فرمائے۔
یہ چاروں اوصاف انسانوں کی زندگی میں نظر آنے لگیں تو گویا زندگی میں قرآن مجید ظہور پذیر ہونے لگے، اور اگر یہی نظر نہیں آئے تو گویا قرآن مجید کا نہ دل پر نزول ہوا ، نہ زندگی میں ظہور ہوا۔
بندگی کا جذبہ ایمان سے پیدا ہوتا ہے، اور ایمان کی قوت کا سرچشمہ قرآن مجید ہے۔ قرآنِ مجید بتاتا ہے کہ کن چیزوں پر کیا ایمان لانا ہے۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کس درجے کا ایمان لانا ہے۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ایمان والوں کی زندگی کیسی ہوتی ہے، اور وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ایمان کیسے بڑھتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی آیات کو سننے سے ایمان بڑھتا جاتا ہے، اور ایک کرن سے نُور کا ہالا بن جاتا ہے۔ قرآن مجید فلسفہ اور کلام کی غیر ضروری بحثوں سے بچاتے ہوئے، یقین کی بلند منزلوں کی سیر اور ایمان کی بلند چوٹیوں کو سر کراتا ہے۔ قرآن مجید وہ ایمان مانگتا ہے اور عطا کرتا ہے: جو غفلت کو قریب نہ پھٹکنے دے، جو بخل اور بزدلی سے آزاد کردے، جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب اور اللہ کی مرضی کو سب سے زیادہ پسندیدہ بنادے، جو اللہ کے دین کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لیے بے قرار کردے۔ قرآن مجید اس ایمان کی تعلیم دیتا ہے جو انسان کے ظرف کو وسیع کرے، اس کے اندر خیر سے محبت اور برائی سے نفرت پیدا کرے، اور اس کے دل میں اللہ کی بندگی، بندوں کی خدمت اور صالحین میں شمولیت کا شوق پیدا کرے۔
قرآن مجید میں اچھے عمل کو جس قدر اہمیت دی گئی ہے، وہ کہیں اور نہیں ملتی۔ عمل کو نجات اور کامیابی کے لیے شرط بھی قرار دیا گیا ہے، اور اسے نجات اور کامیابی کا ضامن بھی بتایا گیا ہے۔ قرآن مجید کا مقصود باایمان اور باعمل فرد کی تیاری ہے۔ بے ایمان یا بے عمل کا انجام آخرت میں کیا ہوگا اس سے قطع نظر، یہ بات یقینی ہے کہ وہ قرآن مجید کے سایے میں تیار ہونے والا انسان نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اس کے لئے نہ کوئی وعدہ ہے، اور نہ کوئی بشارت ہے۔ قرآن مجید میں کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ہے جو ایمان اور عمل میں سے کسی ایک کے بغیر نجات اور کامیابی کی گنجایش بتاتا ہو۔ قرآن مجید میں ایمان اور عمل ہمیشہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی ایک پر زیادہ زور دینے سے دوسرے کی اہمیت کم ہوسکتی ہے۔ ہرجگہ دونوں کی اہمیت برابر نظر آتی ہے۔ قرآن مجید میں نہ ایمان کے اضافے کی کوئی آخری حد بتائی گئی ہے، اور نہ عمل کے ذخیرے کی کوئی آخری حد بتائی گئی ہے۔ ایمان کا مسلسل بڑھتے رہنا بھی عین مطلوب ہے، اور عمل کا بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ ہوتے رہنا بھی عین مقصود ہے۔
قرآن مجید میں عقل کے اطمینان کا سامان کیا گیا، عقل کو استعمال کرنے کی تاکید کی گئی اور غور وفکر پر اُبھارا گیا ہے۔ غوروفکر نہ کرنے پر مذمت کی گئی ہے، اس کے لیے مناسب ترین ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ غوروفکر کے راستے کی رکاوٹوں کو دُور کیا گیا ہے۔ بہتر طریقے سے غوروفکر کرنے کی تربیت کا انتظام رکھا گیا ہے، اور قرآن مجید کو غور وفکر کا ایسا زبردست سرچشمہ بنا دیا گیا ہے، جہاں غور وفکر کے بے شمار مواقع ہیں، اور جہاں سے غور وفکر کے بہت سے میدانوں کی راہیں ملتی ہیں۔ قرآن مجید میں کہیں عقل کی مذمت نہیں ہے، ہر جگہ عقل کی تعریف ہے۔ کہیں عقل کے استعمال پر قدغن نہیں ہے، عقل کو استعمال کرنے کی پوری آزادی ہے۔ قرآن مجید نے عقل کو جتنا اُونچا مقام دیا ہے، اور جتنا اہم کام قرار دیا ہے، اتنا اونچا مقام اور اتنا اہم کام تو خود انسان اپنی عقل کو نہیں دے سکتا تھا۔ قرآن مجید کے کلام حق ہونے کی ایک بڑی دلیل اس کی حکمت دوستی اور عقل نوازی ہے۔
قرآن مجید کی ہر آیت دعوت وتربیت کی آیت ہے، ہر آیت دعوت وتربیت کے سفر کے لیے بہترین زاد راہ ہے۔ قرآن کی کوئی آیت خاموش نہیں ہے، ہر آیت بول رہی ہے۔ بات رکھنے کا سلیقہ، جواب دینے کا طریقہ، عقل کو مطمئن کرنے کا انداز، دل تک پیغام رسانی کا اسلوب، غرض ایک داعی اور ایک مربی کی بہترین تیاری کا سامان قرآن مجید کی سبھی آیتوں میں موجود ہے۔ مکی آیتیں داعی تیار کرتی ہیں، اور مدنی آیتیں مصلح اور مربی تیار کرتی ہیں۔ قرآن مجید کی آیتوں میں ایک عظیم داعی اور ایک عظیم مربی صاف دکھائی دیتا ہے، وہی قرآن مجید کا مطلوبہ داعی اور مربی ہے۔ قرآن مجید کے مطابق زندگی کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کی دعوتی گفتگو اور تگ ودو قرآن مجید میں نظر آتی ہے، اسی جیسی اس انسان کی زندگی میں بھی نظر آنے لگے۔
اس وقت قرآن مجید سے ہماری بہت زیادہ دوری کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہمارا حال قرآن مجید کی بنیادی خصوصیات سے یکسر عاری ہے۔ خود ملامتی میرے نزدیک بھی اچھی بات نہیں ہے، لیکن اپنے حال کا صحیح تجزیہ نہ کرنا اور جھوٹ میں گندھی ہوئی خاموشی کو اپنی زبانوں پر تھوپے رہنا اور بھی برا ہے۔ اپنے حال کو خود اپنی نگاہ کے سامنے بے نقاب کرنا اور خوش فہمی کی قبر سے خود کو باہر نکالنا ہی سمجھ داری ہے، اگر ہماری زندگی میں سمجھ داری کے لیے تھوڑی سی بھی جگہ ہے۔
ہم ایمان کا دعویٰ رکھتے ہیں، لیکن ایمان کی ساری خصوصیات سے محروم ہیں۔ ہمارے ایمان میں نہ یقین ہے اور نہ اطمینان، نہ جذبہ ہے اور نہ تمنا، نہ وہ غفلت کا پردہ چاک کرتا ہے اور نہ بدعتوں سے روکتا ہے، نہ معروف کو عام کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور نہ منکر کو مٹانے کی ہمت دیتا ہے، نہ اعلان حق کی جرأت بیدار کرتا ہے، نہ آنسو کے سوتے جاری کرتا ہے، نہ کسی خطرے کا سامنا کرنے دیتا ہے، اورنہ کسی بھاری بوجھ کو اٹھانے کی ہمت پیدا کرتا ہے۔ ایسے کمزور ایمان کے ساتھ تو دنیا کی کوئی مہم سر نہیں کی جاسکتی ہے، بھلا آخرت کا سفر کیسے طے کیا جاسکتا ہے!
جھوٹی اُمیدوں نے ہماری زندگی کو عمل سے بے زار بنادیا ہے۔ بے کاری اور بے عملی ہماری خراب پہچان بن گئی ہے۔ اچھے کاموں کی دوڑ میں ہم آگے نظر نہیں آتے۔ آسان اور تھوڑے سے اعمال کو بہت کافی سمجھ لیتے ہیں۔ بڑے اور بہترین کام، مشکل اور قربانیوں والے کام، فتوحات اور اللہ کو خوش کرنے والے کام، شیطان کو شکست دینے اور قوموں کی امامت والے کام، مختصر یہ کہ قرآن مجید میں کثرت سے نظر آنے والے کام ہماری زندگی میں کم سے کم ہی نظر آتے ہیں۔ مزید یہ کہ عمل کے بغیر جنّت میں چلے جانے کا ہمیں اس قدر یقین ہے، گویا ہمیں جنت کے مالکانہ حقوق حاصل ہیں۔
ہماری عقلیں نہ کائنات کی نشانیوں پر غور کرتی ہیں، اور نہ قرآن مجید کی آیتوں میں تدبر کرتی ہیں، نہ انسانوں کے مسائل پر سوچتی ہیں اور نہ اپنی عاقبت ہی کی فکر کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری عقلوں کے لیے اس دنیا میں کوئی مصرف ہی نہیں ہے۔ ہمارے رسم ورواج، ہماری عادات ومعمولات، ہمارا رویہ، ہماری عبادتیں، ہمارے تعلقات، غرض ہماری زندگی کے ہر ہر پہلو میں بے عقلی بلکہ عقل دشمنی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ کیا ماجرا ہے کہ قرآن مجید نے جنھیں لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ کہا تھا وہ اس قدر قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ ہوگئے۔
ہماری زندگی یوں تو ہر طرح سے جمود کا شکار ہے، مگر دعوت وتربیت کو تو ہماری سرگرمیوں میں بالکل بھی جگہ نہیں ملتی۔ ہم دوسروں سے متاثر اور مرعوب رہتے ہیں۔ ہم دوسروں کے بنائے ہوئے منصوبوں میں رنگ بھرنے کے کام آتے ہیں، دوسروں کے اٹھائے ہوئے ایشوز پر کام کرنے یا انھی کو دُہرانے کا کام کرتے ہیں، اور دوسروں کے چھیڑے ہوئے سُروں پر سر دُھنتے ہیں، نہ ہم اپنے ایشوز اٹھاتے ہیں اور نہ اپنے سُر چھیڑتے ہیں۔ غرض یہ کہ قرآنِ مجید تو ہم کو داعی بناتا ہے، مگر ہم مدعو بنے ہوئے ہیں۔ الیکشن میں کھڑے ہونے والے اُمیدواروں کے حواری ان کا جس قدر پرچار کرتے ہیں، کم از کم اتنا پرچار بھی اگر اللہ کے انصار اور رسول کے حواری نہیں کریں گے توپھر کیسے خیر امت قرار پائیں گے؟ مزید یہ کہ جو داعی اور مربی ہونے کے دعوے دار ہیں، بسااوقات ان کی دعوت وتربیت میں قرآن سے دوری اورلاتعلقی صاف نظر آتی ہے، اور کہیں سے نہیں لگتا کہ ان کی تربیت قرآن مجید کی آیات سے ہوئی ہے۔
قرآن مجید سے تربیت لینے والا انسان ایمان ویقین کی قوت سے مالا مال ہوتا ہے، عمل کے میدان میں سب سے آگے ہوتا ہے، عقل وحکمت کے میدان کا بہترین شہسوار ہوتا ہے، اور اپنے مشن کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتا ہے۔ یہ چار اوصاف جس گروہ میں پیدا ہوجائیں اسے عروج و ترقی کے قلعے یکے بعد دیگر فتح کرنے اور دنیا کی امامت کا تاج زیب سر کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ ایسے ہی لوگ بلاشبہہ اہل القرآن ہوتے ہیں، اور وہی بے شک اہل اللہ بھی ہوتے ہیں۔
تحریک اسلامی کے ایک بزرگ قائد کی توبہ کا اثر انگیز واقعہ پڑھا، اس کے راوی شیخ محمد احمد راشد ہیں۔ بیان کرتے ہیں: ’’صالح عشماوی، اخوان المسلمون کے ابتدائی ارکان میں سے تھے۔ ان کا شمار سابقون الاولون میں ہوتا تھا۔ بانی تحریک الاخوان، امام حسن البنا کے ساتھ ایک بہترین کارکن کی حیثیت سے اچھا خاصا وقت گزارا، اور مرکزی قیادت میں شامل ہوگئے۔ پھر تحریک پر آزمایشوں کا دور آیا اور اسی دوران میں ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو امام البنا شہید کردیے گئے۔ امیر کی جگہ خالی ہوئی تو تحریک پر فتنوں کے کچھ سیاہ بادل چھاگئے۔ صداقتیں اوٹ میں چھپ گئیں، غلط فہمیوں اور بدگمانیوں نے ڈیرے ڈالے، وسوسوں کے طوفان اٹھے، اور ایک گروہ فتنوں کا شکار ہوگیا۔ اس گروہ نے صالح عشماوی کو اپنا لیڈر بنالیا۔ تحریک پر کئی مشکل برس بیتے، اور آزمایش طویل ہوتی گئی۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب صالح عشماوی کو اپنے کیے پر ندامت ہوئی، اور انھوں نے سچی توبہ کی ایک شاہکار مثال قائم کی۔
راوی لکھتے ہیں: ’’ایک دن میں تحریکی ترجمان الدعوۃ کے آفس میں گیا، دیکھا فلیٹ کے دروازے پر ایک بزرگ چوکیدار، خاکساری کی تصویر بنے، خستہ سی بید کی پرانی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ ان کے چہرے پر بلا کا وقار تھا، اور پیشانی پر نور دمک رہا تھا۔ میں نے سلام کیا، اجازت لی اور اندر داخل ہوگیا، وہاں ایک تحریکی ساتھی نے مجھ سے پوچھا: ’’اس باوقار شخص کو جو چوکیدار کی جگہ پر بیٹھا ہے، تم نے پہچانا؟‘‘ میں نے کہا: ’’پہچانا تو نہیں، مگر جاننے کی طلب ضرور پیدا ہوئی ہے‘‘۔
میرے ساتھی نے کہا: ’’یہ صالح عشماوی ہیں، توبہ کی تڑپ انھیں بے قرار رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کچھ ضدی قسم کے لوگوں نے مجھے اپنا سردار بنایا تھا، اور امیر کہہ کر پکارا تھا، اس وقت نفس کو یک گونہ لطف محسوس ہوا تھا۔ اپنے نفس کو اس غلط احساس کی نجاست سے پاک کرنے کے لیے میں نے طے کیا ہے کہ اب تحریک میں آخری صف کے سپاہی کی حیثیت سے زندگی گزاروں گا‘‘۔ ان کا اصرار ہے کہ :’’میری توبہ کی تکمیل اسی طرح ممکن ہے‘‘۔ اس لیے انھوں نے مرکز کا چوکیدار بن کر باقی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر انھیں معلوم ہوتا کہ اس سے کم درجے کی بھی تحریک میں کوئی جگہ ہے تو وہ اس کو دوڑ کر اختیار کرلیتے۔ دل میں اٹھنے والی منصب کی خواہش نے دل پر جو داغ لگادیے وہ اس طرح انھیں دھودینا چاہتے ہیں۔
میں اس پاکیزہ روح اور بڑے دل کے بارے میں جان کر حیرت ومسرت میں ڈوب گیا۔ امیر تحریک جناب عمر تلمسانی نے ہمیں بتایا کہ: ’’ہم نے ان کے لیے دعا بھی کی، اور انھیں دعوت بھی دی کہ وہ ہمارے بھائی بن کر دوسروں کی طرح ہماری ٹیم کا حصہ رہیں، اور اللہ تو توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہے، لیکن انھوں نے صاف انکار کردیا۔ ہم نے بہت اصرار کیا، انھیں مطمئن کرنے کی بہت کوشش کی، مگر ان کا شدید اصرار ہے کہ انھوں نے اپنے لیے آخری صف میں جو جگہ متعین کی ہے اسی پر انھیں رہنے دیا جائے‘‘۔
اس واقعے کے کئی سال بعد ایک بار مرشدعام عمر تلمسانی صاحب نے ایک تقریر کے دوران گلوگیر لہجے میں بڑے درد کے ساتھ کہا:’’شیخ صالح عشماوی نے جو توبہ کی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر قاہرہ کے تمام داعیان اسلام پر اسے تقسیم کردیا جائے، تو سب کے لیے کافی ہوگی‘‘۔
تحریکی قیادت کے خلاف ایک محاذ کی اگوائی کرنے والے صالح عشماوی کی توبہ اور تحریک کے قائد عمر تلمسانی کی کشادہ ظرفی میں تحریکی کارکنان اور تحریکی قیادت کے لیے نصیحت کا بڑا سامان ہے۔ ایسے واقعات تحریک کے حسن وجمال میں وہ اضافہ کرتے ہیں، جو فلک شگاف نعروں اور فلک بوس عمارتوں سے کبھی نہیں ہوسکتا۔
ہر کارکن اپنے اندرون میں جھانکتا رہے کہ کہیں اس سے کوئی غلطی تو سرزد نہیں ہوئی ہے؟ تحریک کے حوالے سے بہت سنگین غلطی یہ ہے کہ تحریک سے دنیا طلبی کی کوئی خواہش وابستہ ہوجائے۔ غلطی کا احساس ہوتے ہی کارکن ندامت میں ڈوب کر کفارہ ادا کرنے کے لیے بے چین ہوجائے۔ نہ غلطی کا احساس دیر سے ہو، اور نہ توبہ کرنے میں تاخیر ہو۔ اس کے لیے تحریک کے اندرونی ماحول کو ندامت وتوبہ کے لیے بہت سازگاراور حوصلہ بخش ہونا چاہیے۔
درحقیقت وہ تحریک اسلامی نہیں ہوسکتی ہے، جہاں کچھ لوگ دھڑلے کے ساتھ تحریک کے وقار کو اپنے پاؤں تلے روند رہے ہوں، اور ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کی کسی کو جرأت نہ ہوتی ہو، یا جہاں غلطی کرنے والوں کے خلاف اخراج کی کارروائی ہوتی ہو، اور پھر وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے تحریک سے الگ کردیے جاتے ہوں، یا جہاں لوگ کسی شکایت کی بنا پر استعفا دے کر نکلتے ہوں، اور یہ سمجھ کر نکلتے ہوں کہ اب ان کے لیے تحریک کے دروازے کبھی نہیں کھلیں گے۔
اسلامی تحریک میں غلطی کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی بھی ہو، توبہ کرنے کے لیے سازگار اور حوصلہ بخش مواقع بھی ہوں، اور توبہ کی قدر کرنے کا کشادہ ماحول بھی ہو، توبہ کرنے اور توبہ کو سراہنے کی مثالیں بھی دیکھنے والوں کو جہاں تہاں بار بار نظر آتی رہیں، یہ ایک صحت مند اسلامی تحریک کے لیے بے حد ضروری ہے۔
جو کارکن تحریک سے کسی غلط فہمی یا بدگمانی کی بنا پر نکل جائیں، ان کی واپسی کے لیے دروازے کھلے ہوں، اور جو کارکن تحریک سے کسی غلطی کی وجہ سے نکال دیے گئے ان کے لیے اپنی اصلاح کرکے دوبارہ قافلے میں شامل ہونے کا پورا پورا موقع ہو، ایسا ہوگا تو یہ خوش گوار احساس بھی ہوگا کہ اسلامی تحریک میں اسلام کی روح موجود ہے۔ کیونکہ جہاں توبہ کا نظام، رواج اور موقع نہ ہو، سمجھیے وہاں جو کچھ بھی ہو اسلام نہیں ہے، کیونکہ اسلام تو غلطی ہوجانے پر توبہ کرنے والوں کا دین ہے۔
جب ہم خیر امت کی تاریخ کے روشن صفحات پر نظر ڈالتے ہیں تو اُمہات المومنینؓ کے حوالے سے بہت دل کش منظر سامنے آتا ہے۔ یہ منظر بتاتا ہے کہ اُمہات المومنینؓ میں آپس میں جس قدر الفت ومحبت تھی، اس کی نظیر سگی بہنوں میں بھی کہاں ملتی ہوگی؟ اُمہات المومنینؓ کی باہمی اخوت کو ایمانی اخوت کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اُمہات المومنینؓ کے گھروں میں کتاب وحکمت کا خوب خوب چرچا رہتا تھا، اور اس کی برکت سے ان کی زندگی روشن سے روشن تر ہوتی جاتی تھی۔ اللہ کے رسولؐ کی تربیت کے فیض سے ان کی سیرت شاہ کار بن گئی تھی، ان کے دل کدورتوں سے پاک اور ان کی زبانیں بے اعتدالی سے دُور تھیں۔ ایسی پاک بی بیوںؓ کے بے مثال باہمی تعلقات کی مکمل عکاسی پیش کرنا نہ راویوں سے ممکن تھا اور نہ وہ کرسکے، بس کچھ جھلکیاں روایتوں کے ریکارڈ میں محفوظ ہوگئیں۔ انھی جھلکیوں سے بہت کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اُمہات المومنینؓ کی باہمی قربت نے ایک مثالی انجمن [یہاں لفظ ’انجمن‘ سے مراد کوئی پارٹی نہیں بلکہ ’ ہم نشینی‘ اور ’مشارکت‘ ہے] کی صورت اختیار کرلی تھی، اور اس انجمن کے اندر ہر وقت بے لوث محبت،سچّی دوستی اور حقیقی خیر خواہی کا دور دورہ رہتا تھا۔ وہ ایک دوسرے کی بہت قریبی سہیلیاں تھیں۔ ان کا آپس میں جتنا گہرا تعلق تھا، اتنا گہرا تعلق اپنی دوسری رشتے دار خواتین سے بھی نہیں تھا۔وہ ایک دوسرے کی دم ساز اور ہم راز تھیں۔وہ جب اپنی ’سوتن‘ (ضَرَّۃٌ، ہم سر) کا ذکر کرتیں، تو صَوَاحِبْی کا لفظ استعمال کرتیں، یعنی سہیلیاں اور ہم جولیاں۔ اس انجمن کی مستقل ملاقاتیں اور نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ کبھی اللہ کے رسولؐ کے ساتھ سب کی نشست ہوتی تھی، تو کبھی آپؐ کی عدم موجودگی میں بھی۔ انھیں اللہ کے رسولؐ کے سامنے اپنا کوئی مشترکہ مسئلہ رکھنا ہوتا تھا، تو پہلے وہ آپس میں مشورہ بھی کر لیا کرتی تھیں، اور پھر آپس ہی میں اپنا ایک نمایندہ طے کرکے اسے اللہ کے رسولؐ کے پاس بھیجتی تھیں، کہ وہ سب کی طرف سے عرض داشت پیش کرے۔ایک بار انھوں نے حضرت اُم سلمہؓ کو اپنا نمایندہ بنا کر بھیجا، ان کے الفاظ میں: کَلَّمَنِیْ صَوَاحِبِیْ اَنْ اُکَلِّمَ رَسُوْلَ اللہِ (مسند احمد)، میری سہیلیوں نے مجھ سے کہا کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے (ایک مسئلے میں) بات کروں۔
اس بے مثال انجمن کی نشستیں اللہ کے رسول کے ساتھ روزانہ شام کوباری باری سب کے گھر میں ہوا کرتی تھیں: فَکُنَّ یَجْتَمِعْنَ کُلَّ لَیْلَۃٍ فِیْ بَیْتِ الَّتِیْ یَاْتِیْھَا (مسلم، باب القسم بین الزوجات، حدیث: ۲۷۳۴)۔ وہ بادل ناخواستہ محض اللہ کے رسولؐ کے حکم کی تعمیل میں اپنی سوتن کے گھر جمع نہیں ہوتی تھیں۔ امام نووی کہتے ہیں کہ وہ سب خوشی اور رضامندی سے اپنی کسی ایک ہم سر کے گھر جمع ہوجایا کرتی تھیں: ھٰذَا الْاِجْتِمَاعُ کَانَ بِرِضَاھُنَّ (شرح نووی)
جب اُمہات المومنینؓ کی اس انجمن میں کسی نئی رکن کا اضافہ ہوتا تو سب اس کا گرم جوشی سے پرتپاک خیر مقدم کرتیں، اور اپنے اچھے جذبات اور نیک تمناؤں کا اظہار کرتیں۔ اُم المومنین حضرت زینبؓ بنت جحش آپ کے نکاح میں آتی ہیں، نان گوشت کا ولیمہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد راوی کے بقول: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک کرکے تمام بیویوں کے حجروں میں تشریف لے جاتے ہیں، اور سب بارک اللہ لک کہہ کر خیر وبرکت کی دعائیں دیتی ہیں (بخاری، مسلم)۔ امام قرطبی اس منظر سے متاثر ہوکر لکھتے ہیں: سوتن کی آمد پر ان کا یہ انداز بیان بتاتا ہے کہ ان کی سوچ کتنی بلند تھی، ان کا ظرف کتنا بڑا تھا، ان کا ساتھ رہ کر جینے کا سلیقہ کتنا عمدہ تھا، ورنہ یہ تو سوتنوں کے لیے آپے سے باہر ہوجانے اور پاس ولحاظ بھول جانے کا موقعہ ہوتا ہے، لیکن وہ تو بہترین انسان کی بہترین بیویاں تھیں، وَصُدُوْرُ مِثْلِ ھٰذَا الْکَلَامِ عَنْھُنَّ فِیْ حَالِ اِبْتِدَاءِ اِخْتِصَاصِ الضَّرَۃِ الدَّاخِلَۃِ بِہٖ، یَدُلُّ عَلٰی قُوَّۃِ عُقُوْلِھِنَّ وَصَبْرِھِنَّ وَحُسْنِ مُعَاشَرَتِھِنَّ وَاِلَّا فَھٰذَا مَوْضِعُ الطَّیْشِ وَالْخِفَۃِ لِلِضَّرَائِرِ، لٰکِنَّھُنَّ طَیِّبَاتٌ لِطَیِّبٍ(المفھم، کتاب النکاح، باب تزویج النبیؐ زینب)
اُمہات المومنینؓ کی آپس میں کس قدر محبت اور بے تکلفی ہوا کرتی تھی، اس کا ایک واقعہ حضرت عائشہؓ کی زبانی سنیے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ ان کے ایک طرف سودہ بیٹھی تھیں۔ میں آپ کے لیے خزیرہ (ایک سالن) بنا کر لائی۔ میں نے سودہ سے کہا، تم بھی کھاؤ۔ سودہ نے کہا: مجھے خواہش نہیں ہے۔ میں نے کہا: کھاؤ ،ورنہ ابھی یہ تمھارے منہ پر مل دوں گی۔ سودہ نے نہیں کھایا تو میں نے اپنے ہاتھ میں سالن لگایا اور ان کے چہرے پر مَل دیا۔ آپؐ دیکھ کر مسکرا دیے، پھر آپؐ نے سودہ کے ہاتھ میں سالن لگایا اور کہا تم عائشہ کے چہرے پر مَل دو۔ اس کے بعد پھر آپؐ ہنسنے لگے۔ اتنے میں باہر سے حضرت عمرؓ کی آواز سنائی دی۔ آپؐ کو خیال ہوا شاید وہ ملاقات کرنے آئے ہیں۔ آپؐ نے دونوں سے کہا: اٹھو جلدی سے اپنا منہ دھو لو۔ (مسند ابی یعلی)۔ اس واقعے سے اُمہات المومنینؓ کے درمیان جو محبت، اپنائیت ، بے تکلفی اور صاف دلی جھلک رہی ہے، وہ نہایت دل کش اور بے نظیر ہے۔
ازواج مطہراتؓ کی اپنے شوہر سے محبت اور اپنی سوتنوں کے سلسلے میں کشادہ ظرفی کا عالم یہ تھا کہ اپنے کسی بھی حق سے خوشی خوشی دست بردار ہوجایا کرتی تھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو آپؐ کے لیے مشکل ہوگیا کہ ایک ایک دن سب کے یہاں گزاریں۔ آپؐ نے سب سے اجازت لی کہ آپؐ کی تیمار داری حضرت عائشہؓ کے یہاں رہ کر ہو۔ اس موقعے پر تمام اَزواج خوش دلی سے راضی ہوگئیں۔ (بخاری،کتاب الطب، باب اللّدود، حدیث: ۵۳۹۲)
اس موقعے سے حضرت عائشہؓ کے حجرے کو تیمار داری کا شرف حاصل ہوا، لیکن کوئی افسردہ خاطر ہوکر اپنے گھر نہیں بیٹھی، تمام ازواج فراخ دلی کے ساتھ آپ کے پاس حاضر رہیں اور مل جل کر آپ کی خدمت اور عیادت میں لگی رہیں۔ حضرت عائشہؓ کے الفاظ ہیں: ہم اللہ کے رسولؐ کی بیویاں سب کی سب آپؐ کے پاس تھیں، ہم میں سے کوئی ایک بھی وہاں سے ہٹی نہیں تھی: اِنَّا کُنَّا أَزْوَاجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَہٗ جَمِیْعًا، لَمْ تُغَادِرِ مِنَّا وَاحِدَۃٌ۔ (بخاری، کتاب استئذان، حدیث: ۵۹۳۷)
اُمہات المومنینؓ کی اس انجمن میں ایک دوسرے کو تحفے تحائف بھیجنے کا بھی خاص اہتمام رہتا تھا۔ کسی کے یہاں کوئی مزے دار چیز تیار ہوتی تو وہ بڑے اہتمام کے ساتھ دوسری ازواج کے گھر بھیجا کرتیں: کُنَّ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَھَادَیْنَ الْجَرَادَ عَلَی الْأَطْبَاقِ (سنن ابن ماجہ،کتاب الصّید، باب صید الحیتان، حدیث: ۳۲۱۸)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیویوں میں آپس میں اس قدر دل داری اور غم خواری تھی، کہ اگر آپؐ کسی ایک سے ناراض ہوجاتے تو دوسری اس پر خوش ہونے کے بجاے آپؐ کی ناراضی دُور کرنے کی کوشش کرتی۔ ایک بار آپؐ کو حضرت صفیہؓ سے کچھ ناراضی ہوگئی۔ اس دن حضرت صفیہؓ کے یہاں آپ کے رہنے کی باری تھی۔ حضرت صفیہؓ حضرت عائشہؓ کے پاس آئیں، اور کہا کہ میری آج کی باری تم لے لو اور میرے سلسلے میں اللہ کے رسو ل کی ناراضی دُور کرنے کی کوشش کرو۔ حضرت عائشہؓ تیار ہوگئیں، حضرت صفیہؓ کی اوڑھنی اوڑھی، اور آپؐ کے پاس جا کر بیٹھ گئیں۔ آپؐ نے دیکھ کر فرمایا: ’تم یہاں سے جاؤ آج تمھارا دن نہیں ہے‘۔ حضرت عائشہؓ نے کہا: یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اس کے بعد پوری بات بتائی تو اللہ کے رسولؐ کی ناراضی دور ہوگئی اور آپ حضرت صفیہؓ سے راضی ہوگئے۔ (سنن ابن ماجہ ، کتاب النکاح، باب المرأۃ، تَھَبُ یومھا لصاحبتھا، حدیث: ۱۹۶۹)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد بھی اُمہات المومنینؓ کی یہ انجمن اپنی وحدت واُلفت کے ساتھ برقرار رہی، ان کی باہمی نشستیں اور مشاورتیں جاری رہیں۔ وہ گاہے گاہے کسی ایک کے گھر جمع ہوجایا کرتی تھیں (مستدرک حاکم)۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں انھوں نے جمع ہوکر مشورہ کیا اور تجویز رکھی کہ حضرت عثمانؓ کو حضرت ابوبکرؓ کے پاس بھیجیں، اس مطالبے کے ساتھ کہ مال فے میں سے آٹھواں حصہ انھیں دیا جائے۔ حضرت عائشہؓ نے اس تجویز سے اختلاف کیا اور کہا کہ آپؐ کی ہدایت کے مطابق ہمارا اس میں کوئی حصہ نہیں بنتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کی اس بات سے سب کو اطمینان ہوگیا اور انھوں نے اپنا مطالبہ واپس لے لیا۔ (بخاری)
اُمہات المومنینؓ کی یہ بے مثال انجمن بہت سی دینی اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی۔ سب بی بیاں مل کر باہم مشورے سے ایک فیصلہ کرلیتی تھیں، اور پھر مل کر اسے انجام دیتی تھیں۔ جنگ کی نازک اور پرخطر حالت میں وہ سب مل کر نکلتیں اور مشکیزوں میں پانی بھر بھر کر لاتیں اور پیارے نبیؐ کے پیارے ساتھیوں کو پانی پلاتیں: عَن أَنَسٍ أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ کُنَّ یُدْلِـجْنَ بِالْقِرَبِ، یَسْقِیْنَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (مسند ابی یعلی، حدیث: ۳۳۰۰)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا انتقال ہوا تو رسول پاک کی تمام ازواج مطہراتؓ نے مل کر فیصلہ کیا اور پیغام بھیجا کہ جنازے کو مسجد کے اندر سے گزاریں، وہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں گی، اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ ان کے حجروں کے سامنے جنازہ رکھ دیا گیا، اور انھوں نے نماز جنازہ ادا کردی۔ بعد میں انھیں معلوم ہوا کہ کچھ لوگ نکتہ چینی کررہے ہیں، کہ مسجد میں جنازہ کیوں لایا گیا۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے ان نکتہ چینیوں کا جواب دیا اور کہا کہ: ’’لوگ جانے بغیر نکتہ چینی کرنے میں جلدبازی کیوں کرتے ہیں؟ یہ حضرات مسجد سے جنازہ گزارنے کو لے کر ہم پر تنقید کررہے ہیں، حالانکہ اللہ کے رسولؐ نے سہیل ابن بیضاءؓ کی نماز جنازہ مسجد کے اندر ہی ادا فرمائی تھی‘‘۔ (مؤطا امام مالک ، کتاب الجنائز، باب الصلاۃ، علی الجنائز فی المسجد، حدیث: ۵۴۰)
اس انجمن کا ایک اہم کام یہ تھا کہ لوگوں کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی سنتوں سے واقف کرائیں۔ چنانچہ لوگ آتے تھے اور اُمہات المومنینؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات اور طریقۂ زندگی کے بارے میں پوچھا کرتے تھے، اور اُمہات المومنینؓ بلا مبالغہ سنت کی صحیح تصویر پیش کرتی تھیں۔ غلو پسندلوگوں کو بسا اوقات صحیح تصویر نہیں بھاتی تھی۔ تاہم، اُمہات المومنینؓ اپنی ذمہ داری بالکل صحیح صحیح انجام دیتی تھیں۔
اس انجمن کا ایک اہم کام یہ بھی تھا کہ اگر کسی گھر کی معاشرتی صورت حال اصلاح طلب ہو تو اس کی اصلاح کی جائے۔ اس سلسلے میں اَزواج مطہراتؓ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کیا کرتی تھیں۔ عثمان بن مظعون کی بیوی کے ذریعے معلوم ہوا کہ ان کے شوہر نے پرہیزگاری اور عبادت گزاری کی شدتِ شوق میں اہل خانہ سے یکسر بے توجہی اختیار کر رکھی ہے، تو اللہ کے رسولؐ کو بتایا اور اللہ کے رسولؐ نے انھیں راہ اعتدال کی تعلیم دی۔ شیطان کے بہکاوے میں آکر بہت سے مرد وخواتین گھروں کو بگاڑنے اور خاندانوں کو توڑنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ یہ اللہ کی نیک بندیاں خود بھی بے مثال اُلفت ومحبت کے ساتھ رہتی تھیں اور دوسرے خاندانوں میں اُلفت ومحبت کی فضا استوار کرنے کے لیے بھی کوشاں رہتی تھیں۔
ازواج مطہراتؓ کے درمیان اس میں تو مقابلہ ہوتا تھا کہ ان میں سے ہر ایک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھنا چاہتی تھیں، تاہم مسابقت کا یہ اعلیٰ جذبہ رقابت ومنافرت کے پست جذبات کو ابھرنے کا موقعہ نہیں دیتا تھا۔ وہ اس مقابلے کے دوران میں بھی ایک دوسرے کے لیے بے پناہ خیر خواہی کے جذبات سے لبریز رہتی تھیں، اور ایک دوسرے کے فضل ومرتبے کی بھر پور قدر کرتی تھیں اور کھل کر اس کا اعتراف بھی کرتی تھیں۔
ایک نازک موقعے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینبؓ بنت جحش سے پوچھا کہ: عائشہؓ کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ انھوں نے کہا: میری سماعت وبصارت کی خیر ہے، اللہ کی قسم! میں نے ان کے اندر بھلائی دیکھی ہے اور صرف بھلائی دیکھی ہے، بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا: وَاللہِ مَاعَلِمْتُ اِلَّا خَیْرًا (بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، حدیث: ۳۹۲۵)
دوسری طرف حضرت عائشہؓ بھی حضرت زینبؓ کے بارے میں کھل کر اعتراف کرتی ہیں: میں نے دین داری میں، خدا ترسی میں، صاف گوئی میں، صلہ رحمی میں، صدقہ وخیرات اور اللہ سے قریب ہونے کی خاطر خود کو فنا کردینے میں زینب سے بڑھ کر کوئی خاتون نہیں پائی۔ (مسلم)
قدرو منزلت اور فضل ومرتبت کے اعتراف کی آخری بلندی یہ ہے کہ ایک بی بی کو اپنی سوتن کے اندر ذرّہ برابر برائی نظر نہیں آتی ہے، بس اچھائی ہی اچھائی نظر آتی ہے، اور دوسری بی بی کو ساری دنیا کی عورتوں میں اپنی سوتن کی نظیر نظر نہیں آتی ہے۔ اور دونوں ہی اپنے احساسات کا کھل کر اظہار کرتی ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے، جب کہ سیرت وکردار نہایت بلند ہوں، اور دل ودماغ بالکل پاک وصاف ہوں۔ اُمہات المومنینؓ کی پوری انجمن ایسی ہی بلندیوں پر فائز تھی۔
حضرت جویریہؓ کے بارے میں حضرت عائشہؓ کا اعتراف بھی قابل قدر ہے، فرماتی ہیں: ہم نے ایسی کوئی عورت نہیں دیکھی جو اپنی قوم کے لیے جویریہؓ سے بڑھ کر بابرکت ثابت ہوئی ہو۔ ان کی خاطر بنو مصطلق کے سو خاندان آزاد کردیے گئے: فَمَا رَأَیْنَا اِمْرَأَۃً کَانَتْ أَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلٰی قَوْمِھَا مِنْھَا، أُعْتِقَ فِیْ سَبَبِھَا مِائَۃُ أَھْلِ بِیْتٍ مِنْ بَنِیْ الْمُصْطَلِقِ (سنن ابی داؤد، کتاب العتق، باب فی بیع المکاتب، اذا فسخت الکتابۃ، حدیث: ۳۴۴۷)
ازواج مطہراتؓ میں حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ کا ساتھ سب سے پرانا تھا۔ اس طویل صحبت نے ایک دوسرے کی خوشی اور قدر شناسی میں اضافہ ہی کیا۔ حضرت عائشہؓ حضرت سودہؓ کی تعریف کرنے میں بہت فیاض تھیں۔ فرماتی تھیں: تیز مزاج عورتوں میں اگر کسی کے جیسے بننے کی خواہش میرے دل میں ہے تو وہ سودہ ہیں۔ ان کی جیسی اچھی تیز مزاج عورت میں نے نہیں دیکھی: مَا رَأَیْتُ امْرَأَۃً أَحَبَّ اِلَیَّ أَنْ أَکُوْنَ فِیْ مِسْلَاخِھَا مِنْ سَوْدَۃَ بِنْتِ زَمْعَۃَ مِنْ اِمْرَأَۃٍ فِیْھَا حِدَّۃٌ (مسلم، کتاب الرضاع، حدیث: ۲۷۳۵)۔ عورت تیز مزاج بھی ہو، اور اپنی سوتن کی بے حد محبوب ودل عزیز بھی بن جائے ، یہ سیرت وکردار کی حد درجہ بلندی کی علامت ہے۔
حضرت عائشہؓ ،حضرت میمونہؓ کی عظمت ومنزلت کا اعتراف بھی پوری فراخ دلی سے کرتیں۔ ایک موقعے پر فرمایا: ہمارے درمیان وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والی اور رشتوں کا حق ادا کرنے والی تھیں۔ (مستدرک حاکم)
ازواج مطہراتؓ کی کوشش تو یہی رہتی تھی کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہیں اور ساری دنیا کے سامنے اُلفت ومحبت کا ایک بہترین نمونہ قائم کریں، اور وہ اس کوشش میں ہر طرح سے کامیاب بھی تھیں۔ اس کے باوجود ان کو یہ فکر ستاتی تھی کہ کہیں ان کی طرف سے کسی کے ساتھ کوتاہی تو نہیں ہوگئی؟
حضرت اُمِ حبیبہؓ کا جب آخری وقت آیا تو حضرت عائشہؓ کو بلوایا، اور ان سے کہا: ہوسکتا ہے ہمارے درمیان کوئی ایسی بات ہوگئی ہو، جو سوتنوں کے درمیان ہوجایا کرتی ہے۔ اللہ ہم دونوں کو معاف کرے۔ حضرت عائشہؓ نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا، اس پر انھوں نے کہا: عائشہؓ تم نے مجھے خوش کردیا، اللہ تمھیں خوش کرے،سَرَرْتِنِیْ سَرَّکِ اللہُ۔ اس کے بعد انھوں نے حضرت اُم سلمہؓ کو بلوایا اور ان کے سامنے بھی اسی طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ (طبقات ابن سعد)
ان پاک بی بیوں کا آپس میں کیسا گہراقلبی تعلق تھا کہ آخری وقت میں بھی سب سے زیادہ انھی کا خیال رہتا، اور ان کو راضی کرنے اور ان سے اپنی غلطیاں معاف کرانے کی فکر رہتی۔
ازواج مطہراتؓ میں آپس میں کتنی بے تکلفی تھی، اور ایک دوسرے کے لیے ان کے دل میں کیسے نیک جذبات رہا کرتے تھے، اس کی ایک مثال حضرت عائشہؓ خود بیان کرتی ہیں: ’ایک بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے پہلے مجھ سے وہ آکر ملے گی، جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ وہ آپس میں ہاتھ ناپنے لگیں، کہ کس کا ہاتھ سب سے لمبا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سعادت حضرت زینبؓ کے حصے میں آئی۔ وہ اپنے کام خود کیا کرتی تھیں اور صدقہ وخیرات میں سب سے پیش پیش رہتی تھیں۔ (مسلم)
ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ کے الفاظ اس طرح ہیں: آپ کی وفات کے بعد جب بھی ہم سب کسی ایک کے گھر میں جمع ہوتے تو دیوار پر اپنے ہاتھ ناپتے۔ ہم ایسا کرتے ہی رہے، یہاں تک کہ زینبؓ کی وفات ہوگئی تو ہم نے جانا کہ لمبے ہاتھ سے مراد صدقہ وخیرات میں آگے بڑھ جانا ہے(مستدرک حاکم)۔ ایک دوسرے سے ہاتھ کی لمبائی میں مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بے تکلفی اور قربت درکار ہے، جو ان کے درمیان خوب تھی۔
اُمہات المومنینؓ کی یہ انجمن اپنے علمی تفوق اور امتیاز کے لیے بھی سب کے نزدیک معروف تھی۔ مشکل مسائل میں لوگ ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ایک مسئلہ درپیش ہوا تو حضرت علیؓ نے فرمایا: اس بارے میں سب سے زیادہ علم پیارے نبیؐ کی ازواج کے پاس ہے: اِنَّ أَعْلَمَ النَّاسِ بِھٰذَا أَزْوَاجُ النَّبِیِّ (مسند احمد، حدیث ۲۰۶۱۷)۔
ایک اور موقعے پر حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ نے کہا ازواج مطہراتؓ اس بارے میں زیادہ جانتی ہیں: أَزْوَاجُ النَّبِیِّ أَعْلَمُ بِذٰلِکَ(مسند احمد، حدیث: ۲۰۶۱۷)۔ حضرت زینبؓ کا انتقال ہوا تو حضرت عمر نے ازواج مطہراتؓ کے یہاں سوال بھیجا کہ انھیں قبر میں کون اتارے؟ (مسند بزار)۔ ازواج مطہراتؓ کے معمولات اور ان کے کاموں کو دیگر لوگ حوالے کے طور پر بیان کیا کرتے تھے: اِنَّ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ کُنَّ یَخْتَضِبْنَ بَعْدَ الْعِشَاءِ الْاٰخِرَۃِ اِلَی الصَّبْحِ (مصنف عبد الرزاق، باب الزینۃ یوم العید، حدیث: ۵۶۷۱)
اُمہات المومنینؓ کے باہمی تعلقات پر لکھنے والے بالخصوص زیادہ تر مغربی یا مغرب زدہ مصنّفین ان کی باہمی رقابت کو تلاش کرنے پر زور لگاتے ہیں۔ اور اس طرح یہ ایک اصول متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ باہمی رقابت سوتنوں کی فطرت میں شامل ہے، اور اس کے اثراتِ بد سے کوئی عورت محفوظ نہیں رہ سکتی ہے، خواہ وہ کیسی ہی دین دار اور پرہیزگار ہو۔ ایسی افسانہ طرازی کے نتیجے میں اُمہات المومنینؓ کی باہمی رقابت کے بعض قصے اتنے مشہور ہوئے کہ اُمہات المومنینؓ کی باہمی محبت کی تصویر ذہنوں سے اوجھل ہوگئی۔ اس لیے حقیقی معنوں میں حسین وجمیل تصویر کو عام اور مشہور کرنے کی ضرورت ہے۔
قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے ازواج مطہراتؓ کی باہمی رقابت والی کوئی تصویر سامنے نہیں آتی ہے۔ چند مواقع پر ایسا تو لگتا ہے کہ ازواج مطہراتؓ نے کبھی آپس میں ہم آواز ہوکر حضوؐر پر اپنی پسند ناپسند کے لیے اصرار کرنے کی کوشش کی ہو۔ آپؐ کے کسی راز پر آپس میں بات کر لی ہو۔ کسی حلال چیز کو اپنے اُوپر حرام کروا لیا ہو۔ ایسے واقعات کی طرف اشارہ ملتا ہے، لیکن باہمی منافرت یا رقابت کا کوئی اشارہ تک نہیں ملتا ہے۔
قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والا صاف محسوس کرتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اُمہات المومنینؓ کی باہمی رقابت کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ ان کی باہمی محبت اور تعلق خاطر کا حال یہ تھا کہ رسولِ پاکؐ کے راز کا افشا بھی کیا تو اپنے میکے میں جاکر نہیں کیا،بلکہ اپنی سوتن کے سامنے کیا۔ اس زمانے میں کسی سوتن نے اپنے شوہر سے یہ نہیں کہا کہ ازواج مطہراتؓ میں بھی تو جھگڑے، بدکلامی اور منافرت کا اظہار ہوتا ہے، البتہ بیویوں نے اپنے شوہروںسے یہ ضرور کہا کہ: ’رسولِؐ پاک کی بیویاں رسولِؐ پاک سے بحث کرتی ہیں، تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟‘
دس سال کی طویل رفاقت کے دوران اگر معمولی نوک جھونک کے دو چار واقعات پیش آجائیں، تو مناسب نہیں ہے کہ انھیں نو بیویوں کی پوری زندگی کا عنوان بنادیا جائے۔ ان واقعات کو ان کی سیرت کی پیشانی پر چپکادیا جائے اور ہزاروں سال تک ان کا تذکرہ کیا جائے۔درحقیقت نو افراد کی مشترک زندگی میں ایسے چند واقعات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ اصل اہمیت اس کی ہے کہ پوری زندگی کن احساسات، جذبات اور سرگرمیوں کے ساتھ گزاری گئی۔واقعہ یہ ہے کہ اُمہات المومنینؓ نے جس قدر باہمی محبت واُلفت کے ساتھ مل جل کر زندگی گزاری، اللہ کے رسولؐ کی رفاقت میں بھی اور دور رفاقت کے بعد بھی، وہ بے مثال ہے۔ نہ اس کی مثال پیش کی جاسکتی ہے، اور نہ اس سے بہتر کا تصور کیا جاسکتا ہے: ع نہ ہماری بزم خیال میں اور نہ دکان آئینہ ساز میں!
گھر کی رونق مکینوں سے ہوتی ہے، اور گھر کا حسن رشتوں کی استواری اور مضبوطی میں ہوتا ہے۔ کرۂ زمین کی ساری رونق انسانوں سے ہے، اور روے زمین کا سارا حسن انسانی تعلقات کی سازگاری اورخوش گواری سے ہے۔ اس بے بہا رونق اور اس بے پناہ حسن کی حفاظت کے لیے فکرمند رہنا زمین کے مکینوں، یعنی سارے انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ پوری زمین کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے حفاظت کی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کا جذبہ ہر انسان کے اندرون سے اُبھرنا چاہیے، خواہ اس کے بیرون سے اسے کوئی ترغیب ملے یا نہ ملے۔
قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ تعلقات کی خرابی دراصل زمین کی خرابی ہی کی ایک صورت ہے۔ تعلقات خراب ہوتے ہیں، تو نفرتیں اور دشمنیاں جنم لیتی ہیں، اور پھر خون خرابہ ہوتا ہے۔ جس خوب صورت زمین میں محبتوں کی ندیاں رواں رہنی چاہییں، وہاں نفرت کی آگ سب کچھ جلادیتی ہے اور خون کا دریا سب کچھ بہا لے جاتا ہے، رشتے بھی اورقدریں بھی ۔ جو لوگ زمین کو سنوارنے کا شوق اور جذبہ رکھتے ہیں، وہ تعلقات بنانے کے لیے فکرمند رہتے ہیں، اور جو طاقتیں زمین کو فساد اور خرابی سے دوچار کرنا چاہتی ہیں، وہ تعلقات بگاڑنے کے درپے رہتی ہیں: فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْo (محمد۴۷: ۲۲) ’’پس اگر تم پھر گئے تو اس کے سوا تم سے کچھ متوقع نہیں کہ تم زمین میں فساد کرو اور آپس کی قرابتوں کو قطع کرو‘‘۔
زمین کو درپیش خطرات کی طویل فہرست ہے۔ ان کے سلسلے میں تشویش اور بے چینی کا اظہار بھی مختلف فورمز میں ہوتا رہتا ہے۔ تاہم، سمجھنا چاہیے کہ ان خطرات میں سرفہرست، اور ان میں سے بہت سے خطرات کی اصل وجہ انسانوں کے درمیان وسیع پیمانے پربڑھتی ہوئی خود غرضی ، خراب ہوتے تعلقات، اور کم ہوتی محبت ہے۔ انسانوں سے انسانوں کی محبت جس قدر عام ہوگی اسی قدر زمین کو درپیش خطرات کم ہوں گے۔
انسان دشمن طاقتیں انسانوں کو نقصان پہنچانے کے جو منصوبے بناتی ہیں، ان میں وہ رشتے توڑنا سرفہرست ہوتا ہے، جن کی استواری سے پورے معاشرے کی استواری ہوتی ہے، جیسے شوہر اور بیوی کا رشتہ۔ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہِ بَیْنَ الْمَرْء ِ وَزَوْجِہِ ط البقرہ۲: ۱۰۲) ’’پس یہ لوگ ان سے وہ بات سیکھتے جس سے میاں اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال سکیں‘‘۔ یہ بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے، کہ جب وہ کج روی کے شکار ہوئے تو ان کی سوچ اور پسند بھی نہایت گندی اور حد درجہ تخریبی ہوگئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ یہ بھی سیکھ لینا چاہتے تھے کہ شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال کر کس طرح آباد گھروں کو برباد کریں۔ یہ ماضی کی بات ہے، اب تو انسانیت کے بدخواہ ایسے سماج کا تصور پیش کررہے ہیں، جہاں شوہر اور بیوی کے رشتے کا سرے سے وجود ہی نہ ہو۔ یہ انسانی سماج کے ساتھ کھلی دشمنی ہے۔ انسانوں کے خالق نے تو انسانوں کی فطرت میں ایسا انتظام رکھا ہے کہ شوہر اور بیوی کے ذریعے صرف اولاد ہی نہ ہو، بلکہ اس رشتے کے بعد ہونے والی اولاد سے مزید نئے رشتوں کی تعمیر وتشکیل ہو، اور زمین کا حسن بڑھتا ہی جائے: وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآئِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِہْرًا ط وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا o الفرقان ۲۵: ۵۴) ’’اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا اور پھر اس کو نسبی اور سسرالی (دادھیالی اور نانھیالی)رشتوں کا ذریعہ بنایا‘‘۔
شیطان انسانوں کا دشمن ہے۔ اس کو نہ یہ پسند ہے کہ یہ زمین انسانوں کے رہنے بسنے کے لیے سازگار رہے، اور نہ یہ گوارا ہے کہ اس زمین پر رہنے بسنے والے انسانوں کے آپس کے رشتے اور تعلقات خوش گوار رہیں۔ اس کی کوشش بس یہ ہوتی ہے کہ زمین میں تباہی پھیل جائے، اور رشتوں کی خرابی عام ہوجائے۔ اسے نہ زمین کا کارِ خلافت کے لیے موزوں ہونا منظور ہے، اور نہ انسانوں کا منصب خلافت ہی کے قابل ہونا۔اس دشمنِ ازلی کی ساری تگ ودو یہ ہوتی ہے کہ انسانوں کو ہر طرح کی برائیوں میں ملوث کیا جائے۔ اس سے اس کا ایک مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ انسان اللہ سے دور ہوجائے، اور دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان برے کاموں میں پڑ کر انسانوں میں دشمنی اور بغض ونفرت عام ہوجائے: اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ ج (المائدہ ۵:۹۱) ’’شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمھیں شراب اور جوئے میں لگاکر تمھارے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالے اور تمھیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روکے‘‘۔
قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب بھی اللہ کی ہدایت سے دور ہوگا وہ منصب خلافت کے تقاضے بھول جائے گا، اور بلندیوں کو سر کرنے کے بجاے پستیوں میں جا گرے گا۔ وہ اتنا گرجائے گا کہ جس زمین پر وہ رہتا ہے اسی زمین میں بگاڑ پھیلائے گا، اور آپس میں خون خرابہ کرے گا ۔ فرشتوں نے اللہ کے حضور یہی اندیشہ ظاہر کیا تھا: اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآئَ (البقرۃ ۲:۳۰) ’’ اے رب کیا تو اس زمین میں اس کو خلیفہ مقرر کرے گا جو اس میں فساد مچائے اور خون ریزی کرے گا؟‘‘
زمین میں فساد پھیلانے اور ایک دوسرے کا خون بہانے میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ گویا دونوں ایک ہی طرح کے کام ہیں۔ مفسدوں کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ ان کی نگاہ میں نہ انسانی تعلقات کی کوئی قدر وقیمت ہوتی ہے، اور نہ انسانی جان کا کوئی احترام ہوتا ہے۔
قرآن مجید کی تعلیمات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وہ سارے انسان جو قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہوں اور اس کی تعلیمات سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار اور آمادہ ہوں، دشمنی اور نفرت سے محفوظ رہیں، اور الفت ومحبت کے ساتھ زندگی گزاریں۔ جب قرآن مجید اہل ایمان کو باہمی اُلفت ومحبت کا درس دیتا ہے، تو اصل مقصود یہ ہوتا ہے کہ سارے انسان اہل ایمان بن جائیں، اور سارے ہی انسان نفرت وعداوت کی آگ میں جلنے اور جھلسنے کے بجاے، اُلفت ومحبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سکون اور راحت کی زندگی گزاریں۔
قرآن مجید میں تعلقات کی خوش گواری کے موضوع کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ عام انسانوں سے اہل ایمان کے تعلقات نفرت، ناانصافی اور زیادتی پر مبنی نہ ہوں، اور اہل ایمان کے آپس کے تعلقات محبت واخوت پر استوار ہوں۔ یہ تعلقات کے سلسلے میں قرآنی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ قرآن مجید کی تربیت سے فیض یاب ہونے والا انسان اہل ایمان سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اور نفرت کسی سے نہیں کرتا۔ اسے ہر انسان سے ہم دردی ہوتی ہے، خواہ وہ اس سے کتنی ہی دشمنی رکھتا ہو۔
قرآن مجید میں اہل ایمان کو اس کی ترغیب کہیں نہیں دی گئی ہے کہ وہ اپنے دل میں دوسروں سے دشمنی اور نفرت رکھیں، البتہ یہ حقیقت بار بار یاد دلائی گئی ہے کہ کفر کے سرغنہ اہلِ ایمان سے دشمنی رکھتے ہیں۔ ان کی دشمنی سے اہل ایمان کو ہوشیار اور چوکنا رہنا چاہیے۔ قرآن مجید میں دشمنی کے مقابلے میں دشمنی رکھنے یا اس دشمنی کو بڑھانے کی تعلیم بالکل نہیں ملتی ہے۔ صرف ان کی دشمنی کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے، اور ان کے سلسلے میں حد درجہ محتاط رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی امید دلائی گئی ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے جو دشمنی پیدا ہوگئی ہے وہ ختم بھی ہوسکتی ہے، اور اس کی جگہ دوستی آسکتی ہے، کیونکہ اللہ رحیم ہے، اور اس کی طرف سے تمام بندوں کی ہدایت کے لیے بھرپور انتظامات کیے گئے ہیں۔قرآن مجید کی تربیت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اہل حق کی دشمنی میں کتنی ہی دور جاچکا ہو، اگر راہ حق کی طرف لوٹ آئے تو اہل حق کی طرف سے اس کا پُرتپاک خیر مقدم کیا جاتا ہے، اور وہ اہل حق کا دوست بن جاتا ہے: عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْھُمْ مَّوَدَّۃً ط وَاللّٰہُ قَدِیْرٌط وَّاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo (الممتحنۃ: ۶۰:۷)’’عین ممکن ہے کہ اللہ تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تم نے دشمنی کی، دوستی پیدا کردے۔ اور اللہ قدرت والا اور بخشنے والا، مہربان ہے‘‘۔
قرآن مجید کی رُو سے کسی امت کے اندر محبت اور اخوت کا فروغ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، جو امت اللہ کی اس نعمت سے خود کو محروم کرلیتی ہے، وہ تباہی کی طرف بڑھتی ہے۔ اخوت و محبت کی یہ نعمت امت مسلمہ کو زیادہ اہتمام اور خصوصیت کے ساتھ عطا کی گئی ہے۔ اس نعمت کی قدر کرنا امت مسلمہ کے لیے لازم ہے، اور اگر کبھی یہ محسوس ہو کہ امت اس نعمت سے محروم ہورہی ہے، تو امت کے ہر فرد کو بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہوجانا چاہیے، کیوںکہ امت کے اندر نفرت وعداوت کا پایا جانا کینسر جیسے خطرناک اور مہلک مرض کی علامت ہے۔ اس بیماری کے اسباب سے جتنی جلدی ہوسکے واقف ہونا اور اس کے علاج کی فکر کرنا فوری طور پر نہایت ضروری ہوجاتا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ج وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳)’’اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑو اور پراگندا نہ ہو۔ اور اپنے اُوپر اللہ کے اس فضل کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمھارے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے تو اللہ نے تمھیں اس سے بچالیا‘‘۔
محبت واخوت کی اس نعمت سے ماضی میں بہت سی قوموں کو نوازا گیا مگرانھوں نے اس کی قدر نہیں کی اوروہ اس سے محروم ہوگئیں۔ ان کی محرومی کے اسباب کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے۔ یہود ونصاریٰ کی تاریخ کا اس پہلو سے بھی خصوصی مطالعہ ہونا چاہیے کہ ان کے اندر بغض وکینہ اور نفرت وعداوت جیسی بیماریوں نے کیسے جڑ جمائی۔قرآن مجید میں یہودیوں کی آپسی دشمنی کو ان کی بد اعمالیوں کا نتیجہ اور عذاب الٰہی بتایا گیا ہے: وَ لَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا ط وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط کُلَّمَآ اَوْ قَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللّٰہُ لا وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا ط وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ (المائدہ ۵:۶۴) ’’ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور ان کے کفر کو وہ چیز بڑھادے گی جو تیرے رب کی طرف سے تیری طرف اتاری گئی ہے۔ اور ہم نے ان کے اندر دشمنی اور کینہ قیامت تک کے لیے ڈال دیا ہے۔جب جب لڑائی کی آگ انھوں نے بھڑکائی اللہ نے اسے بجھادیا۔ یہ زمین میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں اور اللہ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ‘‘۔ نہ صرف یہودی بلکہ عیسائیوں کی تاریخ بھی ایسی ہی ہے: وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰٓی اَخَذْنَا مِیْثَاقَھُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ ص فَاَغْرَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط وَسَوْفَ یُنَبِّئُھُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَo (المائدہ ۵:۱۴) ’’اور جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ، ہم نے ان سے بھی عہد لیا، تو جس چیز کے ذریعے سے ان کو یاددہانی کی گئی وہ اس کا ایک حصہ بھلا بیٹھے، پس ہم نے قیامت تک کے لیے ان کے درمیان عداوت اور بغض کی آگ بھڑکادی۔ اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں عن قریب اللہ اس سے ان کو آگاہ کرے گا‘‘۔ اوّل الذکر آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو قوم دشمنی اور عداوت کی بیماری میں گرفتار ہوتی ہے، وہ زمین میں فساد اور بگاڑ پھیلانے میں بھی بہت سرگرم رہتی ہے، کیونکہ دشمنی اور بُغض ونفرت سے فساد فی الارض کے راستے کھل جاتے ہیں۔
ہر طرح کی برائیوں سے بچنے اور دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے، خواہ وہ انفرادی برائیاں ہوں یا سماجی برائیاں۔ سماجی برائیوں کی بہت سی قسمیں ہوسکتی ہیں۔ ان میں ایک قسم وہ ہے جس سے تعلقات میں رخنے پڑ جاتے ہیں اور نہ صرف گھر، خاندان بلکہ پورا سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ سورۂ حجرات میں اس قسم کی برائیوں کا خاص طور سے ذکر کیا گیا ہے،اور ان برائیوں کا اصل علاج یہ بتایا گیا ہے کہ جذبۂ اخوت کو مضبوط اور طاقت ور کیا جائے۔ جذبۂ اخوت کمزور ہوتا ہے تبھی یہ برائیاں جنم لیتی ہیں، اور یہ برائیاں جیسے جیسے پھیلتی ہیں، جذبۂ اخوت رخصت ہوتا جاتا ہے۔ جذبۂ اخوت کی حفاظت کے لیے دل میں تقویٰ، یعنی اللہ کا خیال رہنا بہت ضروری ہے۔ تقویٰ سے آدمی نہ صرف اللہ سے قریب ہوتا ہے، بلکہ اللہ کی خاطر اللہ کے بندوں سے بھی بہت قریب ہوجاتا ہے۔ سورۂ حجرات میں جہاں تعلقات کی حفاظت کی تاکید کی گئی، وہاں دومرتبہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی گئی: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ o یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ ج وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ط بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ o یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ o (الحجرات۴۹: ۱۰-۱۲) ’’مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں کے مابین مصالحت کراؤ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کہ تم پر رحم کیا جائے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، کیا عجب وہ ان سے بہتر ہوں۔اور نہ اپنے لوگوں پر طنز کرو اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر برے القاب چسپاں کرو اور ایمان کے بعد فسق کا تو نام بھی برا ہے، اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہیں۔ اے ایمان لانے والو، بہت سے گمانوں سے بچو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں۔ اور ٹوہ میں نہ لگو۔ اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟سو اس چیز کو توتم نے ناپسند کیا۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا، مہربان ہے‘‘۔
سورۂ حجرات کی مذکورہ آیتوں میں اللہ تعالی نے ایک اصول بیان کیا کہ ’’مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘ اور ساتھ ہی ایک اصولی ہدایت دی کہ ’’اس اخوت کی حفاظت تمام اہل ایمان سے مطلوب ہے‘‘۔ اور اس ہدایت پر احسن طریقے سے عمل درآمد کو آسان اور یقینی بنانے کے لیے رہنمائی فرمائی ’’کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘‘۔ ان اصولی اور بنیادی تعلیمات کے بعد پھر کچھ ایسی حرکتوں اور عادتوں کا ذکر کیا جو اخوت کے رشتوں کو خراب کردیتی ہیں، اور ان سے بچنے کی تاکید کی۔ یہاں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جن باتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے بس ان ہی سے بچنا مطلوب ہے، بلکہ جاننا چاہیے کہ تعلقات کو خراب کردینے والے رویوں کی یہ کچھ نمایاں مثالیں ہیں۔ایسی اور بھی بہت سی چیزیں ہوسکتی ہیں، جن سے تعلقات میں دراڑ پڑجائے، اور رشتوں کا شیرازہ بکھر جائے۔ اب یہ ہر مومن کے غوروفکر کا موضوع ہونا چاہیے کہ وہ کیا امور ہیں، جو رشتۂ اخوت کی حفاظت میں معاون ومددگار ہوسکتے ہیں، اور وہ کیا باتیں ہیں جو رشتوں کے لیے خطرناک اور تباہ کن ہوسکتی ہیں۔ یہ حقیقت ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید جب کچھ باتوں کا حکم دیتا ہے، اور کچھ باتوں سے روکتا ہے، تو دراصل وہ سوچنے کا ایک رخ متعین کرتا ہے۔ اس طرح وہ اس رخ پر بہت دور تک سوچنے کی ترغیب بھی دیتا ہے، اور سوچنے کی راہیں بھی ہموار کرتا ہے۔
قرآن مجید کا اندازِ تربیت یہ ہے کہ وہ حکمت کا ایک اصول دیتا ہے، اور اس اصول کی کچھ مثالیں بیان کرتا ہے، اور اس کے بعد قاری کے اوپر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ان مثالوں پر غور کرکے اس اصو ل کے اندر مزید جتنی صورتوں تک رسائی ہوسکے انھیں اخذ کرتا رہے۔ اس طرح قاری کو متعین طور پر کچھ حکمتیں تو بغیر محنت وجستجو کے مل جاتی ہیں، اور پھر مزید حکمتیں تلاش کرنے کی رغبت اور تربیت حاصل ہوتی ہے۔ جو اس جستجو میں جس قدر آگے بڑھتا ہے، اسی قدر اس پر آگاہی کے دروازے کھلتے ہیں، اور وہ قرآن مجید کی منشا سے قریب ہوتا ہے۔
دراصل ایک بندۂ مومن کو یہ معلوم ہوجانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو اہل ایمان کے باہمی تعلقات کی بہتری مطلوب ہے، اور خرابی ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس منشا کو جان لینے کے بعد یہ شاہراہ پوری طرح روشن ہوجاتی ہے، اور بندۂ مومن اللہ کی منشاکی روشنی میں سامنے آنے والے ہررویے کے خوب وناخوب ہونے کا فیصلہ آسانی سے کرسکتا ہے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ سورۂ حجرات میں تعلقات کی حفاظت کے ذیل میں جن باتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، ان میں سے کوئی بات بھی انسانوں کے لیے نئی اور انوکھی نہیں ہے۔ یہ ایسی باتیں بھی نہیں ہیں جن سے کوئی اختلاف کرے۔ یہ وہ باتیں ہیں کہ ان کا تذکرہ نہیں ہوتا تب بھی انسانوں کو وہی کرنا چاہیے تھا جس کی اس قدر تاکید اور اہتمام کے ساتھ تعلیم دی گئی ہے۔ تاہم اہتمام کے ساتھ تذکرہ کردینے سے اللہ کی منشا اچھی طرح واضح ہوگئی، اور وہ یہ کہ تعلقات کی حفاظت کو انسانی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے، اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔
سورۂ حجرات میں مذکور تعلیمات کا تقاضا ہے کہ اہل ایمان اپنے باہمی تعلقات کی حفاظت کے سلسلے میں تمام انسانوں سے زیادہ سنجیدہ اور حساس ہوجائیں۔ باہمی تعلقات کی حفاظت لوگوں کے غوروفکر کا خاص موضوع بنے۔ اس موضوع پر بھرپور علمی وفکری سرمایہ تیار کیا جائے، اور اس سلسلے میں کسی بھی پہلو کو علم وعمل کی سطح پر تشنہ نہیں رہنے دیا جائے۔
قرآن مجید میں خاص طور سے سورۂ مجادلہ میں نجویٰ (سرگوشی) کے سلسلے میں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے: اِنَّمَا النَّجْوٰی مِنَ الشَّیْطٰنِ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (المجادلہ ۵۸: ۱۰) ’’یہ سرگوشیاں شیطان کی طرف سے ہیں تاکہ وہ ایمان والوں کو رنج پہنچائے‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ نجویٰ کے ماحول میں دشمنی کے ماحول کو پنپنے کا بہت زیادہ موقع ملتا ہے۔ شرپسند عناصر نجویٰ کو نفرت وعداوت پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور بہت سے بھولے بھالے لوگ ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں، کیوںکہ بے باکی اور شفافیت کے ماحول میں تو سازشیں آسانی سے بے نقاب ہوجاتی ہیں، لیکن اگر نفرت وعداوت کا گندا کھیل نجویٰ کے پردے میں کھیلا جارہا ہو، تو بہت سے لوگ غلط باتوں پر یقین کرلیتے ہیں۔وہ اپنی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا ازالہ نہیں کرپاتے ہیں اور بلاتحقیق دشمنی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ انسانی معاشرے میں نجویٰ کے بجاے شفافیت اور صاف گوئی کو زیادہ سے زیادہ فروغ ملنا چاہیے۔
غیبت تو ایک ہلاکت خیز زہر ہے۔ وہ جس معاشرے میں سرایت کرجاتا ہے، اس معاشرے میں ساری اعلیٰ قدریں مرجھانے لگتی ہیں۔ غیبت دراصل سماج میں نفرت کی کانٹے دار جھاڑیاں ہر طرف بونے کی ایک مکروہ شکل ہے۔ ایک شخص پہلے اپنے دل میں نفرت کا پودہ اُگاتا ہے، اورپھر غیبت کے راستے سے اس کی قلمیں تیار کرکے سب کے دلوں میں اسے اُگانے کی کوشش کرتا ہے۔ غیبت کے سلسلے میں قرآن مجید کا انداز بیان بہت سخت ہے، اور غور کیا جائے تو واقعی غیبت ایسی برائی ہے کہ اس سے جتنی نفرت کی جائے کم ہے، کیوںکہ سماج میں نفرت اگر سب سے زیادہ پھیلتی ہے تو غیبت کے ذریعے ہی سے پھیلتی ہے۔ ان لوگوں کی عقل اور ذوق پر ماتم کرنا چاہیے جو غیبت سے نفرت کرنے کے بجاے غیبت کے جال میں پھنس کر انسانوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔
قرآن مجید میں یہ بھی بتایا گیا کہ شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے سے انسانوں کے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید کی یہ رہنمائی بہت قیمتی اور اہم ہے۔ شراب اور جوئے میں وہ کیا چیزیں ہیں جو انسانوں کو انسانوں کا دشمن بنادیتی ہیں، اس کا گہرا تجزیہ ہو، اور پھر تلاش کیا جائے کہ وہ اور کون کون سے امور ہیں، جن کے اندر تعلقات کے سلسلے میں شراب اور جوئے جیسی تاثیرِ بد پائی جاتی ہے۔غرض شراب اور جوئے ہی سے نہیں، ایسی ہر چیز سے پرہیز لازم ہے جس کے اندر دشمنی اور نفرت کے جراثیم پائے جاتے ہوں۔
سماج میں مثالی تعلقات کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ جذبۂ اخوت کی دل پر حکمرانی ہو۔ اس جذبے کو انانیت اور نفسانیت کے مقابلے میںہمیشہ ترجیح دی جائے۔ آدمی ایسے رویوں سے دور رہنے کی کوشش کرے جو اخوت کے شیرازے کو کمزور کرتے ہیں۔ فرد اور اجتماعیت کی سطح پر جذبۂ اخوت کو بہترین اور قوت بخش غذائیں پہنچانے کی تدبیریں اختیار کی جائیں۔ اورکبھی نہیں بھولنے کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں ان غذاؤں کا بھرپور انتظام موجود ہے۔
مسلم معاشرے، اسلامی ریاست اور مسلمانوں کی اجتماعیت میں شورائیت کو ضروری مان لینے کے بعد ایک بہت اہم بحث یہ ہوتی ہے، کہ شورائیت کے نتیجے میں اتفاق یا اکثریت سے سامنے آنے والی راے کو سربراہِ ریاست اور امیر تنظیم کے لیے ماننا ضروری ہے، یا محض اسے سن لینا کافی ہے۔
مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں مقننہ (اہل الحلّ والعقد) کی صحیح حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ محض صدرِ ریاست کی مشیر ہے، جس کے مشوروں کو رد یا قبول کرنے کا صدرِ ریاست کو اختیار ہے؟ یا صدرِ ریاست اُس کی اکثریت یا اُس کے اجماع کے فیصلوں کا پابند ہے؟ اس باب میں قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات باہمی مشورے سے انجام پانے چاہییں (وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ، الشوریٰ ۴۲:۳۸) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت صدرِ ریاست کے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے: وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط( ٰٰال عمرٰن ۳:۱۵۹) ’’اور ان سے معاملات میںمشورہ کرو، پھر (مشورے کے بعد) جب تم عزم کرلو تو اللہ کے بھروسے پر عمل کرو‘‘۔
یہ دونوں آیتیں مشورے کو لازم کرتی ہیں، اور صدر ریاست کو ہدایت کرتی ہیں کہ جب وہ مشورے کے بعد کسی فیصلے پر پہنچ جائے تو اللہ کے بھروسے پر اسے نافذ کردے۔ لیکن اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتیں، جو ہمارے سامنے پیش ہے۔ حدیث میں بھی اس کے متعلق کوئی قطعی حکم مجھے نہیں ملا ہے۔ البتہ خلافتِ راشدہ کے تعامل سے علماے اسلام نے بالعموم یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نظمِ ریاست کا اصل ذمہ دار صدرِ ریاست ہے، اوروہ اہل حل و عقد سے مشورہ کرنے کا پابند ضرور ہے، مگر اس بات کا پابند نہیں کہ ان کی اکثریت یا ان کی متفقہ راے پر ہی عمل کرے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو ’ویٹو‘ کے اختیارات حاصل ہیں‘‘۔۲۱
تاہم، تفہیم القرآن میںمولانا مودودی اس راے سے رجوع کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جو مشورہ اہل شوریٰ کے اجماع(اتفاق راے) سے دیا جائے، یا جسے ان کے جمہور (اکثریت) کی تائید حاصل ہو، اسے تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہوتو مشاورت بالکل بے معنی ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرمارہا ہے کہ ’’ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے‘‘ بلکہ یہ فرمارہا ہے کہ ’’ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں‘‘۔ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہوجاتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو، اسی کے مطابق معاملات چلیں‘‘۔ ۲۲
اسی طرح ڈاکٹر علی صلابی بعض معاصر علما کا حوالہ دیتے ہوئے پورے شد ومد کے ساتھ امیر کو شوریٰ کی راے کا پابند قرار دیتے ہیں۔ وہ ایک طرف اسے فطرت اور عقل وقلب کی آواز بتاتے ہیں اوردوسری طرف دلائل شریعت کا تقاضا بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول شوریٰ کا پابند کرکے ہی امیر کو استبداد (Dictatorship) اور مطلق العنانی سے باز رکھا جا سکے گا۔اس موقف کی تائید میں وہ حیاتِ رسولؐ کی ان بعض نظیروں کو بھی پیش کرتے ہیں، جب اللہ کے رسولؐ نے لوگوں کی راے سامنے آجانے کے بعد اپنے موقف سے رجوع فرمالیا۔ ڈاکٹر صلابی کا کہنا ہے کہ امیر امت کا ایک فرد ہوتا ہے، اورفرد کی راے کے مقابلے میں امت کی راے کا صحیح تر ہونا بہر حال زیادہ قرین قیاس ہے۔ ایک فرد کی راے میں غلطی کے جس قدر امکانات ہوتے ہیں ، ایک بڑے گروہ کی راے میں وہ امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ شوریٰ کی راے کو لازمی قرار دینے کا صرف اگر ایک یہی فائدہ حاصل ہوتا ہو کہ اس طرح مطلق العنانی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے تو یہ اپنے آپ میں ایک طاقت ور دلیل ہے۔۲۳
دراصل آیت شوریٰ کے الفاظ اسی دوسری راے کی تائید کرتے ہیں، کہ جب معاملے کا تعلق سب سے ہو تو ایک فرد کو محض اپنی صواب دید سے کوئی فیصلہ کرلینے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اگر معاملہ حاکم یا امیر کا ذاتی ہو تب تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ جن لوگوں کو اہل الراے اور قابل اعتماد سمجھتا ہو ان سے مشورہ لے اور اس کی روشنی میں پوری آزادی کے ساتھ فیصلہ کرے، کیونکہ معاملہ اس کا ذاتی ہے۔ تاہم، اگر معاملہ اس کا ذاتی نہیں بلکہ امت اور اجتماعیت کا ہو، اور ہونے والے فیصلے کا راست اثر امت اور پوری اجتماعیت کے افراد پر ہوتا ہو، تو ایسی صورت میں وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ پر عمل کیا جائے گا، اور امت یا امت کے نمایندوںسے مشورہ لیا جائے گا، اور وہ جس راے تک پہنچیں گے اسی کو لازمی طور سے اختیار کیا جائے گا۔
شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ سے تو ایسی کوئی گنجایش نکل سکتی تھی، کہ حکم مشورے میں شریک کرنے کا ہے، مشورے کو مان لینے کا نہیں ہے، لیکن اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کا تقاضا تو یہی ہے کہ جو بھی فیصلہ ہو وہ شورائی عمل کے ذریعے ہی وجود میں آئے۔ اس میں کہیں بھی کسی ایک فرد کی راے کو سب کی راے پر محض اس وجہ سے برتری حاصل نہ ہو کہ وہ کسی امیر کی راے ہے یا کسی بزرگ کی راے ہے،کیونکہ آیت میں زور افراد پر نہیں بلکہ معاملے پر ہے، کہ وہ افراد کی باہمی مشاورت سے فیصل ہوتے ہیں۔اگر افراد مشاورت میں شریک ہوں لیکن معاملات کسی کی ذاتی راے سے فیصل ہوتے ہوں تو یہ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ نہیں ہے۔
مشاورتی عمل میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے مولانا مودودی کہتے ہیں کہ ایک اسلامی ریاست میں عورتوں کو بھی حقِ راے دہی حاصل ہوگا۔ اگرچہ نام نہاد متمدن ممالک میں تو عورتوں کو یہ حق بہت بعد میں حاصل ہوا، لیکن اسلام نے تو آغاز ہی میں انھیں یہ حق تفویض کردیا تھا۔۲۴
تاہم، بعض معاصر علما خواتین کی شورائی عمل میں شرکت اور اس کے لیے تشکیل کردہ مجالس شوریٰ کی رکنیت کی بھر پوروکالت کرتے ہیں۔ علامہ علال فاسی: فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا ط(البقرہ۲:۲۳۳)سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب چھوٹے خاندان کی سطح پر عورت سے خاندانی امور میں مشورے کو مطلوب قرار دیا گیا ہے، تو بڑے خاندان، یعنی امت اور ریاست کی سطح پر آدھے خاندان (خواتین) کو شورائیت کے حق سے کیسے محروم رکھا جاسکتا ہے۔ ۲۵
ڈاکٹر علی صلابی نے خواتین کی شورائی عمل میں شرکت کے حق میں حیاتِ رسولؐ اور خلافت راشدہ کی عملی نظیریں پیش کی ہیں ، جن سے خواتین کا ریاست کے امور میں مشورے دینا، اور ان مشوروں کو قابل لحاظ مقام دیا جانا معلوم ہوتا ہے۔خاص طور سے خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے بارے میں اس کا خاص اہتمام منقول ہے۔۲۶
ڈاکٹر علی صلابی نے ایک لطیف استدلال کرتے ہوئے بتایا کہ قرآن مجیدمیں عورت کا مشورہ کرنا بھی مذکور ہے اور مشورہ دینے کا بھی تذکرہ ہے۔ مشورہ مانگنے کی مثال سورۂ نمل (۲۹ -۳۵) میں مذکور ملکۂ سبا کا واقعہ ہے، جس میں ملکہ سبا نے حضرت سلیمان ؑ کے پیغام کے تعلق سے اپنے درباریوں سے مشورہ مانگا تھا، جب کہ مشورہ دینے کی مثال سورۂ قصص کی آیت ۲۶ میں مذکور وہ واقعہ ہے جب دوبہنوں میں سے ایک نے اپنے والد کو حضرت موسٰی کی خدمات حاصل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ قرآن مجید میں مذکورہ دونوں واقعات اس انداز سے بیان کیے گئے ہیں کہ شارع کی رضامندی ظاہر ہوتی ہے۔۲۷
البتہ خلافت کا وہ وصف جو مولانا مودودی کے بقول ہرمسلمان کو کارِ جہانبانی میں شریک ٹھیراتا ہے، اس وصف میں مرد اور عورتیں برابر کی شریک ہیں۔ مولانالکھتے ہیں: ’’ایسی سوسائٹی میں ہرعاقل وبالغ مسلمان کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، راے دہی کا حق حاصل ہونا چاہیے، اس لیے کہ وہ خلافت [vicegerency] کا حامل ہے۔ خدا نے اس خلافت کو کسی خاص معیارِ لیاقت یا کسی معیارِ ثروت سے مشروط نہیں کیا ہے، بلکہ صرف ایمان وعمل صالح سے مشروط کیا ہے۔ لہٰذا راے دہی میں ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ مساوی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔۲۸
عورت کے حق راے دہی کے سلسلے میں بنیادی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کی جہاں تعلیم دی ہے، وہاں عورت مردکی کوئی تفریق نہیں کی ہے، بلکہ جن اوصاف کے درمیان شورائیت کے وصف کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے کوئی بھی وصف مردوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ پھر خلفاے راشدین میں حضرت عمرؓ کے بارے میں تو صراحت سے ملتا ہے کہ وہ عورتوں سے مشورہ لیتے تھے اور ان کی راے قبول بھی کرتے تھے۔۲۹
گوکہ آیت شوریٰ سے اس طرح کی کوئی بات ثابت نہیںکی جاسکتی ، کیونکہ آیت شوریٰ میں مسلمانوں کا ذکر ہے، تاہم بعض دوسری دلیلوں کا سہارا لے کر بعض جدید اسلامی مفکرین نے اسلامی ریاست کی مجالس شوریٰ میں غیر مسلموں کی رکنیت کی وکالت کی ہے۔ ڈاکٹر علی صلابی اسی موقف کے حامی ہیں، اور انھوں نے اپنی تائید میں ڈاکٹر یوسف قرضاوی اور ڈاکٹر عبدالکریم زیدان کاحوالہ دیا ہے۔۳۰
اقلیتوں کے حوالے سے مولانا مودودی کی راے ہے کہ : ایک اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کے صاحبِ امر بننے کی گنجایش نہیں ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ایک اشتراکی ریاست میں منکرین اشتراکیت اور ایک جمہوری ریاست میں مخالفین جمہوریت کے لیے اولی الامر بننے کا نہ عقلاً کوئی موقع ہے اور نہ عملاً۔ مشاورتی عمل میں غیرمسلموں کی شرکت کے حوالے سے وہ وضاحت کرتے ہیں: ’’کسی بھی جمہوری ریاست میں سیاسی اقلیت عارضی ہوتی ہے۔ لیکن بعض اقلیتوں کی بعض اقسام مستقل ہوتی ہیں، مثلاً: نسلی، ثقافتی، مذہبی وغیرہ۔ مستقل اقلیت ہونا ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ ضروری ہے کہ اس کا کوئی قابلِ اطمینان آئینی حل نکالا جائے تاکہ وہ شہریوں کی حیثیت سے اپنے حقوق سے محروم نہ کیے جائیں۔ اقلیتوں کے منتخب ارکان، پارلیمان کے رکن بن سکتے ہیں، تاکہ وہ اپنے حقوق کا تحفظ کرسکیں‘‘۔۳۱
اگر کسی فیصلے کا تعلق براہِ راست غیر مسلموں سے ہو تو ان سے مشورہ لینے کی تائید ائمہ سلف کے یہاں ملتی ہے۔ اس کی مثال ابوعبید نے یہ دی ہے کہ اگر کسی قلعے کا مسلمانوں نے محاصرہ کرلیا، اور قلعے کے سردار صلح کے لیے راضی ہوں تو اس پیش کش پر اس وقت تک عمل نہ کیا جائے جب تک کہ قلعہ کے بقیہ لوگوں کی راے بھی معتبر ذرائع سے معلوم نہیں ہوجاتی۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کی یہی ہدایت تھی۔ ۳۲
شورائیت کے زریں اصول کو بہتر عملی جامہ عطا کرنے کے لیے جہاںیہ ضروری ہے کہ کتاب وسنت اور امت کے موجود فکری سرمایے سے استفادہ کیا جائے، وہیں عقلِ انسانی کی کاوشوں سے فائدہ اٹھانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
شورائیت کا اصول چوں کہ انسان کی فطرت میں ودیعت ہے، اورانسانوں کی بہت ساری دریافتیںوحی و فطرت کے مطابق ہوتی ہیں۔ ریاستی اُمور چلانے کے لیے انسانی کوششوں سے استفادہ کے ذیل میں جمہوری طریقۂ انتخاب اور طرزِ حکومت کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ یاد رہے جمہوریت کا ایک پہلو نظریاتی بھی ہے، جس کا سب سے زیادہ قابل اعتراض حصہ حاکمیتِ جمہور ہے لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ مملکت کا نظریہ اور عقیدہ تو اسلام ہو، قانون سازی کے لیے اصل رہنما اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ کریم ہو، تاہم حکومت بنانے اورچلانے کے لیے بطور نظام وہ طریقے اختیار کیے جائیں، جن کو انسانی ذہن نے ایک طویل سفراور بے شمار تجربات کے بعد دریافت کیا ہے۔ انسانوں نے اس نظام کو نام جمہوری طرز حکومت کا دیا ہے۔ اس نظام کے بہت سارے پہلو اسلامی تعلیمات سے متصادم بھی ہوسکتے ہیں، لیکن ان میں ترمیم واصلاح کرکے اگر اختیار کیا جائے تو شورائیت کے تقاضوں کے مطابق حکومت چلانے کے لیے وہ نظام موزوںبھی ہوسکتا ہے۔
آمریت زدہ کلچر اور مزاج کے زیر سایہ ماضی قریب کے تلخ تجربات سے گزرنے کے بعد اب اسلامی تحریکات اور علما نے ایسی بہت سی انسانی دریافتوں کی تحسین کی ہے، جوراقم کے نزدیک کسی مرعوبیت کا نتیجہ نہیں بلکہ تلاشِ حکمت کے تحت ہے۔تاحیات امیر کے تصور کے بجاے اب مختلف اسلامی تنظیموں کے دساتیر میں یہاں تک شامل کیا گیا ہے، کہ امیر کے لیے ایک دورانیہ ہوگا، اور کوئی شخص ان دورانیوں سے زیادہ امارت کے لیے منتخب نہیں کیا جاسکے گا۔
جمہوریت پر تنقید کرتے ہوئے علامہ محمد اقبال کا ایک شعر اکثر ذکر کیا جاتا ہے ؎
جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اس تنقید کا کیا مطلب ہے، اور علامہ محمد اقبال کے ذہن میں انسانوں کو گننے کے بجاے تولنے کا کیا ممکن طریقہ موجود تھا؟ اس سے قطع نظر، انسانوں کی خواص اور عوام میں تقسیم اور ان کے درمیان یہ تفریق کہ فلاں کی راے قابل اعتبار ہو اور فلاں کی نہ ہو، فتنوں کا نیا دروازہ کھولتی ہے۔
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں راے دہی اور راے شماری کا شفاف اور دیانت دارانہ انتظام ہو، اور جہاں ہر ایک کو سوچنے اور اپنا خیال ظاہر کرنے کی پوری آزادی ہو، وہاں وزنی راے رکھنے والوں کو اپنی راے دوسروں تک پہنچانے اور اپنی راے کا وزن منوانے کا پورا موقع حاصل ہوتا ہے۔ گویا لوگوں کو تولنے کے لیے سازگار ماحول وہیں بنتا ہے جہاںسب کو راے دینے کا یکساں حق ہو اور جہاں سب کی راے یکساں طور پر شمار کی جائے۔ سب کی راے کو راے شماری کے وقت یکساں وزن دینے سے واقعاتی سطح پر ایسا ہوسکتا ہے کہ کبھی کسی غلط راے کو اکثریت حاصل ہوجائے ، اور وہ محض کثرت راے کی بنیاد پر مان لی جائے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس طریقے پر عمل پیرا ہونے سے کبھی امت کے بعض مصالح متاثر ہوجائیں ، لیکن اس رویے سے احتراز کے نقصانات زیادہ شدید ہوتے ہیں۔
کسی بھی اجتماعی معاملے میں آخری فیصلہ بہرحال راے شماری کے ذریعے ہو،یہی اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کی تعلیم ہے ، اوریہی احترام انسانیت کا تقاضا ہے۔ اَلْعَوَامُ کَالْاَنْعَامِ ایک خراب اور ناپسندیدہ صورت حال کی تعبیر ہے، جو شہنشاہی نظام کے تحت رہتے رہتے وجود میں آئی ہے۔یہ کوئی حکیمانہ اصول نہیں ہے کہ جس کی بنا پر کسی نظام کی تشکیل ہو۔ضرورت اس صورت حال اور اس طرزِفکر کو بدلنے کی ہے، نہ یہ کہ اس کو قبول کرکے اسے ایک اساس کی حیثیت دے دی جائے۔
شورائیت کے اصول کا تقاضا یہ ہے کہ ہر فرد اپنے حاصلِ غور وفکر کو لوگوں تک اور بطورِ خاص فیصلہ ساز اداروں تک پہنچانے کے بھرپورمواقع رکھتا ہو۔ لیکن جہاں صاحبِ معاملہ افراد کی تعداد زیادہ ہو اور سب کو براہِ راست مشورے میں شریک کرنا ممکن نہ ہو، وہاں ضرورت کے تقاضے کے تحت نمایندگی کے اصول کو اختیار کیا جاتا ہے۔ نمایندگی کا مقصد شورائی عمل کو ممکنہ حد تک فعال بنانا ہوتا ہے۔ لیکن بسا اوقات نمایندگی شورائی عمل میں معاون ہونے کے بجاے خود اس راہ کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ نمایندے غوروفکر کے اجارہ دار بن کر پوری قوم کو غوروفکر کے عمل سے محروم کردیتے ہیں۔ ایسے نمایندوں کے غوروفکر کو پوری قوم کے غوروفکر کا بدل سمجھ لینا، اور نمایندوں کی مشاورت کو وہ حیثیت دے دینا کہ پوری قوم مشاورت کی ذمہ داری سے بالکل کنارہ کش ہوجائے ، مثالی رویہ نہیں ہے۔
اگر مشاورت کا مقصدبہتر راے تک پہنچنا ہے تو اس کے امکانات کم نہیں ہوتے کہ نمایندہ افراد سے زیادہ بہتر راے تک وہ افراد پہنچ جائیں جو نمایندہ نہیں ہیں۔ ایسے افراد کی راے کو بے وزن ہونے سے بچانا اور غیر نمایندہ افراد کی قیمتی آرا کو نمایندہ افراد کی راے کی طرح قانونی اعتبار عطا کرنا،تمدنی سفر کا ایک اہم ہدف ہونا چاہیے۔نمایندگی کو مستقل اور مثالی حکمتِ عملی کے بجاے وقتی اور عبوری حکمتِ عملی قرار دے کر ایسے نظام کے امکانات پر غور کرنا چاہیے، جہاں ہرفرد براہِ راست مشاورت کے عمل میں حصہ لے اورجہاں اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کی ذمہ داری سب ادا کریںاور اس کی برکتوں سے پورا معاشرہ فیض یاب ہوسکے۔
فقہ اور اسلامی سیاست کی کتابوں میں ’اہل حل وعقد‘ کی اصطلاح کثرت سے استعمال ہوتی ہے۔ یہ اصطلاح اسلام کے سیاسی نظام کی ایک اہم بنیاد ہے، اور امت کا مطلوبہ شورائی نظام اہل حل وعقد کے توسط سے چلتا ہے۔ اس اصطلاح پر ڈاکٹر حاکم مطیری کا درج ذیل تبصرہ غور طلب ہے: شوریٰ سب کا حق ہے، اس پرکسی کابھی خواہ وہ کوئی بھی ہو، دوسروں سے زیادہ حق نہیں بنتاہے۔
فقہ اور احکام سلطانیہ کی کتابوں میں موجود اہل حل و عقد کی اصطلاح صحابہ کے درمیان معروف نہیں تھی۔ عہد نبوت اور عہد خلافت راشدہ میں مشاورت سب کے لیے عام تھی۔اہل حل وعقد کی اصطلاح عباسی دور میں ایجاد ہوئی۔ پھر اہل حل وعقد کے سلسلے میں ایسی شرطیں رکھی گئیں جو شاذونادر کسی میں پائی جائیںاور جن کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس طرح سب کے مشورے سے امیر کے انتخاب کا جو بہت بنیادی حق امت کو دیا گیا تھا،اس حق سے امت کو یہ کہہ کر محروم کردیا گیا کہ ’’یہ تو اہل حل وعقد کے دائرہ اختصاص میں آتا ہے‘‘۔ پھرزوال اور کمزوری کے زمانوں میں امت کاحال یہ ہوا کہ خلیفہ اور سلطان ہی اپنی صواب دید اور اپنی پسند کے تحت ’اہل حل وعقد‘ کا تعین کرنے لگا، اور تعین بھی ان لوگوں کا کیا جاتا جو نہ قوت فیصلہ رکھتے، نہ جرأت اظہار کی دولت رکھتے، البتہ وہ لوگ اس مجلسِ حل و عقد کے رکن بنتے یا بنائے جاتے، جو امت کے لیے بے سود اور خلیفہ کے لیے بے ضرر ہوتے۔۳۳
بسا اوقات شورائیت کے تقاضوں اور انصاف کے تقاضوں میں باہم تعارض درپیش ہوتا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ایسا نظام لایا جا ئے جس میں دونوں تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں جب اسلامی تاریخ کے پہلے خلیفہ کے انتخاب کا مسئلہ زیر بحث آیا، تو اسلامی امت کے اندر موجود ایک تقسیم ابھر کر سامنے آئی، جو انصار اور مہاجرین کی تھی۔ انصار کی طرف سے مطالبہ آیا کہ: مِنَّا اَمِیْرٌ وَمِنْکُمْ اَمِیْرٌ،’’ ایک امیر ہم سے ہو اور ایک تم میں سے ہو‘‘۔ ۳۴ اگر اس تقسیم پروہ اصرار کرتے تو وہ مطالبہ مبنی بر انصاف تھا، لیکن اکابر صحابہؓ نے اس تقسیم کو ذہن سے نکال کر امت کے عمومی تصور کو پیش کیا جس میں ایسی کسی تقسیم سے بالاتر ہونا تھا۔ جس کے بعد سب نے مل کر ایسی شخصیات کی تلاش شروع کی، جن کا انتخاب پوری امت کے مفاد میں ہو۔ یہ امرِربی تھا کہ وہ سب شخصیات، یعنی خلفاے راشدینؓ ،مہاجرین میں سے تھے، لیکن ان کا انتخاب دونوں گروہوںکی مرضی سے ہوا تھا۔
اگر تقسیم ایسی ہو، جس کو نظر انداز کرنا اور اس سے اوپر اٹھناممکن ہو، تو یہی مثالی کیفیت ہے۔ لیکن اگر کسی معاشرے میں موجود کوئی تقسیم ایسی شکل اختیار کرلے کہ اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو، تو جب تک وہ تقسیم ختم نہیں ہوجاتی ہے، اس کو ایک واقعہ مان کر ایسا شورائی نظام تشکیل دیاجائے، جس میں شورائیت کے تقاضوں کے ساتھ معاشرے کے تمام گروہوں کے ساتھ انصاف کے تقاضے بھی ادا ہوسکیں۔
اگر کوئی گروہ مِنَّا اَمِیْرٌ کا مطالبہ رکھتا ہو، تو امارت کے انتخاب کا ایسا نظام ضرور ہونا چاہیے، جس میں ہر ایسے قابل لحاظ گروہ کے مطالبے کی رعایت ہوسکے، اور معاشرے کے کسی گروہ کو محرومی کا احساس نہ رہے۔
کسی ایک علاقے کے مسلمانوں کے مشورے سے اگر ایک شخص امیر بنتا ہے تو وہ صرف اس علاقے کے لوگوں کا امیر قرار پائے گا، یا دنیا کے سارے مسلمانوں کے لیے اس کے ہاتھ پر بیعت کرنا ضروری ہوگا؟ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کی تحقیق ضروری ہے۔ شورائیت کا تقاضا تو یہی لگتا ہے کہ جس علاقے کے لوگ جسے امیر بنادیں وہ اس علاقے کا ہی امیر قرار پائے، لیکن اشکال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ کیا بیک وقت عالم اسلام میں متعدد ’خلیفہ‘ اور ’امیر المومنین‘ ہوسکتے ہیں؟ خلافتِ راشدہ کے دور میں اس کی مثال نہیں ملتی، بعد کے ادوار میںبعض مثالیں ملتی ہیں، لیکن وہ مثالیں دلیل کا درجہ نہیں رکھتی ہیں۔ یہ مسئلہ حالیہ واقعات کے تناظر میں بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ تصور کہ کیا ایک علاقے کے مسلمانوں کا امیر، دوسرے سارے مسلمانوں کو بذریعۂ شمشیر اپنی بیعت پر مجبور کرسکتا ہے، یا کم از کم انھیں دائرہ امت سے خارج سمجھا جائے جو اس کی بیعت سے انکار کردیں، ایک بڑا ہی خطرناک تصور ہے اور شورائیت کے اصول سے براہِ راست متصادم ہے۔
راقم کو احمد ریسونی کی اس بات سے اتفاق ہے کہ : ’’اگر ’خلافت‘ اور ’خلیفہ‘ کا لفظ مسلمانوں کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے روپوش ہوجائے تو ان کے دین میں ذرہ برابر کمی نہیں آئے گی، لیکن اگر محض ایک دن کے لیے عدل روپوش ہوگیا، شورائیت کو دیس نکالا دے دیا گیا اور آئین کی پاس داری کوپامال کردیا گیا،تو یہ سب سے بڑی مصیبت ہوگی‘‘۔
جن اسلامی ملکوں میں غیر شورائی بلکہ آمرانہ نظام عرصۂ دراز سے نافذ ہے، وہاں آمریت کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے، کہ: ’’معاشرہ تمدنی لحاظ سے بالغ اور جمہوری طرزِ حکومت کے لیے تیارنہیں ہوا ہے، اور اگر امور مملکت عوام کے حوالے کردیے گئے، تو پورا ملک بدترین قسم کے انتشار واختلاف سے دوچار ہوجائے گا، اوراس کا اندیشہ ہے کہ غلط قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آجائے، جو ملک کو تباہی کے راستے پر لے جائیں گے‘‘۔
ڈاکٹر طٰہ جابر علوانی کے بقول: ’’ان شاطر اور سرکش حکمرانوں نے امت کو یہ باور کرایا ہے، کہ امت نابالغ یتیم بچے کی طرح ہے جسے ایک سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے، اور ایسا سرپرست وہ خود ہیں۔ یتیم فرد تو کبھی بالغ بھی ہوجا تا ہے، تاہم یہ امت وہ ’یتیم‘ ہے جوہمیشہ ’نابالغ‘ رہے گی اور ایسے سفاک، لالچی اور خودپسند سرپرست کی ضرورت مند رہے گی۔ یہ غلط اور گمراہ کن پروپیگنڈا سرکش حکمران ٹولے کے علاوہ ان کے حاشیہ بردار علما اور دانش وَر بھی کرتے ہیں‘‘۔
مولانا مودودی نے اس موضوع پر جمہوریت کے حوالے سے جو گفتگو کی ہے وہ بڑی فکرانگیز ہے۔ مولا نالکھتے ہیں: ـ’’اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جمہوریت میں بھی بہت سے نقائص ہوتے ہیں، اور وہ نقائص بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں، جب کہ کسی ملک کی آبادی میں شعور کی کمی ہو، ذہنی انتشار موجود ہو، اخلاق کمزور ہوں، اور ایسے عناصر کا زور ہو، جو ملک کے مجموعی مفاد کی بہ نسبت اپنے ذاتی، نسلی، صوبائی، اور گروہی مفاد کو عزیز تر رکھتے ہوں۔ لیکن، ان سب حقائق کو تسلیم کرلینے کے بعد بھی یہ عظیم تر حقیقت اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ ایک قوم کی ان کمزوریوں کو دور کرنے اور اسے بحیثیت مجموعی ایک بالغ قوم بنانے کا راستہ جمہوریت ہی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک انسان اسی وقت اپنے بل بوتے پر زندگی بسر کرنے کے قابل ہوتا ہے، جب کہ اسے اپنے اختیار سے کام کرنے اور اپنی ذمہ داریاں خود سنبھالے کا موقع حاصل ہو۔ آغاز میں اس کے اندر بہت سی کمزوریاں ہوتی ہیں، جن کی بنا پر وہ ٹھوکریں کھاتا ہے، مگر تجربات کی درس گاہ بالآخر اسے سب کچھ سکھا دیتی ہے، اور ٹھوکریں کھا کھا کر ہی وہ کامیابی کی راہ پر آگے بڑھنے کے قابل بنتا ہے۔ ورنہ اگر وہ کسی سرپرست کے سہارے جیتا رہے تو ہمیشہ نابالغ ہی بنا رہتا ہے۔
’’ایسا ہی معاملہ ایک قوم کا بھی ہے۔ وہ بھی کبھی نابالغی کی حالت سے نہیں نکل سکتی جب تک کہ اس امر واقعی سے اس کو سابقہ پیش نہ آجائے کہ اب اپنے اچھے بُرے کی وہ خود ذمہ دار ہے، اور اس کے معاملات کا اچھی طرح یا بُری طرح چلنا اس کے اپنے ہی فیصلے پر منحصر ہے۔ آغاز میں وہ ضرور غلطیاں کرے گی ، اور ان کا نقصان بھی اٹھائے گی، لیکن صحیح طریقے پر کام کرنے کی صلاحیت پیدا ہونے کا کوئی راستہ ان تجربات کے سوا نہیں ہے۔ علاوہ بریں جمہوری نظام ہی وہ نظام ہے جو ایک ایک شخص میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ ملک اس کا ہے، ملک کی بھلائی اور برائی اس سے وابستہ ہے، اور اس بھلائی اور برائی کے رُونما ہونے میں ذاتی طور پر اس کے اپنے فیصلے کی صحت یا غلطی کا بھی دخل ہے۔ یہی چیز افراد میں اجتماعی شعور پیدا کرتی ہے۔ اس سے فرداً فرداً لوگوں کے اندر اپنے ملک کے معاملات سے دل چسپی پیدا ہوتی ہے، اور اسی کی بدولت بالآخر یہ ممکن ہوتا ہے کہ ملک کی بھلائی کے لیے کام کرنے اور ملک کو داخلی وخارجی مضمرات سے بچانے میں پورے ملک کی آبادی اپنی پوری طاقت استعمال کرنے لگے۔ دوسرا جو نظام بھی ہو، خواہ وہ بادشاہی ہو یا ڈکٹیٹر شپ یا اشرافیت، اس میں عوام الناس حالات کے محض تماشائی بن کر رہتے ہیں، اور جب ان حالات کے ردّو بدل یا بناؤ اور بگاڑ میں ان کی راے اور مرضی کا دخل نہیں ہوتا، تو وہ ان میں دل چسپی بھی لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ جمہوریت کے جو اور جیسے بھی نقائص ہوں، انھیں اس نقصانِ عظیم سے بہرحال کوئی نسبت نہیں ہے‘‘۔۳۵
۲۱- سیّدابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست،جنوری ۱۹۷۲ء، ص ۳۳۰-۳۳۱
۲۲-سیّدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، ج۴،ص ۵۱۰
۲۳- علی محمد الصلابی،الشوریٰ فریضۃ اسلامیۃ، ص۱۱۳،دار ابن کثیر
۲۴- سیّد مودودی، مسلمان خواتین سے اسلام کے مطالبات،ص ۲۲
۲۵- مدخل فی النظریۃ العامۃ للفقہ الاسلامی،ص ۱۰۱، بحوالہ الشوریٰ فریضۃ اسلامیۃ ،ص۱۲۸
۲۶- علی محمد الصلابی،الشوریٰ فریضۃ اسلامیۃ،ص ۱۳۰
۲۷- ایضاً، ص ۱۳۰۔۱۳۱
۲۸- اسلامی ریاست،ص۱۴۳
۲۹- سنن بیہقی کبریٰ، حدیث ۲۰۱۱۹ ، مکتبہ دار الباز ، مکہ مکرمہ
۳۰- الشوریٰ فریضۃ اسلامیۃ، ص ۱۳۵۔۱۳۶
۳۱-سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ، Islamic Law and Constitution، (مرتبہ: پروفیسر خورشیداحمد)، ۱۹۶۹ء، ص ۲۸۲-۲۸۴
۳۲- کتاب الأموال، ابوعبید قاسم بن سلام، ص۱۹۱-۱۹۲، دار الفکر،بیروت
۳۳-حاکم المطیری، تحریر الانسان، ص۳۲۵-۳۲۷
۳۴- بخاری، حدیث ۳۶۶۸،کتاب بدء الوحی،دار الشعب القاہرہ
۳۵- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن ، جولائی اگست ۱۹۵۵ء
(آخری قسط)
اُمت کے اختلاف کی حقیقت اور اس کے اسباب کی تشخیص کرنے والوں نے اختلاف کے متعدد اسباب ذکر کیے ہیں۔جن میں سے ایک سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بسااوقات کسی مجتہد تک یا کسی علاقے کے لوگوں تک صحیح روایت نہیں پہنچ پائی، اور انھوں نے اصل دلیل سے لاعلمی کی وجہ سے ایک کمزور موقف اختیار کرلیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ان کے اوپر اور ان کے بعد والوں پر لازم ہے کہ صحیح روایت سے واقف ہوجانے کے بعد اس کمزور موقف سے رجوع کریں اور دلیل کے مطابق صحیح موقف اختیار کریں۔
اُمت کے درمیان فقہی اختلافات کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کسی صحابی کو معلوم ہوسکی اور کسی کو نہ معلوم ہوسکی ہو، لیکن فرض نمازوں کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ یہ تو صحابہ کی پوری اُمت نے برسہابرس تک روزانہ پانچ مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی، اور اس جذبے سے سیکھی کہ اسے من وعن آپ کے طریقے کے مطابق پڑھنا ہے۔ اس ضمن میں یہ ماننے کی گنجایش نہیں ہے کہ ایک بھی صحابی اللہ کے رسولؐ کے سکھائے ہوئے طریقے سے ناواقف رہ گیا ہوگا۔ اس میں اگر کوئی عمل افضل ہوگا تو سب اس سے واقف ہوں گے، اور اگر کوئی عمل منسوخ ہوگیا ہوگا تو بھی سب اس سے واقف ہوں گے۔ اس میں کوئی عمل کئی طرح سے انجام دیا گیا ہوگا تو بھی سب اس سے واقف ہوں گے۔ غرض فرض نمازوں کے اعمال کے بارے میں یہ بات کہنی کہ ہوسکتا ہے اللہ کے رسولؐ کا ثابت عمل یا آخری وقت کا عمل اُمت کے کسی گروہ تک نہ پہنچا ہو، درست نقطۂ نظر نہیں ہے۔اُمت تک فرض نمازوں کے جو اعمال پہنچے ، وہ سب اللہ کے رسول سے ثابت شدہ ہیں اور وہ سب غیر منسوخ سنتیں ہیں۔
شاہ ولی اللہ دہلوی نے فقہا کے درمیان اختلافات کے بارے میں ایک معتدل موقف پیش کیاہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’فقہا کے درمیان جو اختلافی صورتیں ہیں، ان میں زیادہ تر صورتیں، خاص طور سے وہ مسائل جن میں صحابہ کے اقوال دونوں جانب نظر آتے ہیں، جیسے تشریق کی تکبیریں، عیدین کی تکبیریں، حالت احرام میں نکاح، ابن عباس اور ابن مسعود کا تشہد اور بسم اللہ بلاآواز پڑھنا، آمین بلا آواز کہنا، اقامت کے الفاظ کو دو دو باراور ایک ایک بار کہنا، وغیرہ تو یہ اختلاف دراصل دو قول میں سے ایک کو راجح قرار دینے کا ہے۔ سلف میں اختلاف اس میں نہیں تھا کہ دونوں میں سے کون سا عمل مشروع ہے اور کون سا عمل مشروع نہیں، بلکہ اس میں تھا کہ دونوں میں اولیٰ کون سا ہے۔ اکثر (فقہا کے ان اختلافات )کی نظیر مختلف قراء توں میں قراء کا اختلاف ہے۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے، کہ فقہا اس باب میں یہ توجیہ کرتے ہیں کہ صحابہ میں اختلاف ہے، اور وہ سب صحیح راہ پر ہیں‘‘۔
شاہ ولی اللہ نے اس بیان میں ایک بہت اہم نکتہ یہ بیان کیا ہے، کہ صحابہ کے درمیان جو اختلافات ہوئے وہ قرأت کے اختلاف جیسے تھے۔ یہ بات صحابہ کے تمام اختلافات پر صادق آئے یا نہ آئے، تاہم فرض نمازوں کے بارے میں یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ صحابہ اور تابعین اگر مختلف طرح سے نماز پڑھتے تھے، تو وہ دراصل نماز کی مختلف قراء تیں تھیں جو انھوں نے اللہ کے رسولؐ سے دو دہائیوں کے طویل عرصے میں روزانہ پانچ دفعہ سیکھی تھیں۔
شاہ ولی اللہ نے ذکر کیا ہے کہ فقہا میں اس طرح کے مسائل میں اختلاف دراصل ترجیح کا اختلاف تھا، جائز اور ناجائز کا اختلاف نہیں تھا۔ یہ بات کچھ غور طلب ہے۔ کبھی کبھی پیش آنے والے بہت سارے مسائل کے بارے میں تو ترجیح کا اختلاف معقول اور فطری ہے، تاہم فرض نمازوں کے جو مختلف طریقے اُمت میں دورِ اوّل سے رائج ہیں، ان میں ترجیح کے اختلاف کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ مناسب اور معقول طریقہ یہی تھا کہ ان سارے اعمال کو بلا ترجیح کے قبول کرلیا جاتا۔ کیوںکہ ان میں سے ہر ایک کی پشت پر اُمت کے تواتر عملی کی دلیل موجود ہے۔
فقہ کی کتابوں میں عام طور سے یہ مشترک غلطی پائی جاتی ہے کہ وہ نماز کی مختلف صورتوں کو اماموں اور ان کے مسلکوں سے منسوب کرکے ان کی وکالت کرتی ہیں۔ ان کے دلائل سے یہ احساس قائم ہوتا ہے کہ نماز کی صورت گری میں اماموں کے اجتہاد کو بڑا دخل رہا ہے۔ نماز کے ثبوت کی سب سے بڑی دلیل، یعنی اُمت کے بے نظیر عملی تواتر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، اور روایتوں کو اصل دلیل مان کر روایتوں کی توجیہ وتاویل پر محنت صرف کی جاتی ہے، جس سے روایتوں کی دلالت بھی مجروح ہوتی ہے، اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دلیل سے زیادہ راے سے محبت ہے۔
بلاشبہہ آج ضرورت ہے فقہ کی ایسی کتابوں کی تیاری کی، جن میں تمام شرعی دلیلوں کا احترام ہو، متواتر عملی سنت کا بھی لحاظ ہو، احادیث اور آثار کا بھی خیال ہو، اور پھر ساتھ ہی ساتھ ائمہ کرام کے اجتہاد واستنباط کا بھی احترام ہو۔مدارس میں جب اس طرح کی کتابیں پڑھائی جائیں گی تو مثبت سوچ رکھنے والا اور پوری اُمت اور ساری شریعت سے محبت کرنے والا ذہن تیار ہوگا۔
ہمارے مدارس کا فقہی نصاب ایسی کتابوں پر مشتمل ہونا چاہیے جو اجتہادی احکام اور توقیفی احکام میں فرق کریں۔ عبادات کے وہ ابواب جن میں اجتہاد کی گنجایش نہیں ہے، اور جیسا اللہ کے رسول نے کیا ویسا ہی کرنے کی ہدایت اور تعلیم ہے، وہاں عملی تواتر سے ثابت احکام کو ذکر کرنا،ان کے حق میں جو روایتیں ہیں خواہ وہ کسی بھی درجے کی ہوں ان کا تذکرہ کردینا، اور ان کے اندر جو حکمت کے پہلو ہیں انھیں بیان کردینا بہت مناسب اور مفید ہوگا۔ فقہ کے جن ابواب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اُمت کو ایک سے زیادہ طریقے ملے ہیں، ان ابواب میں وہ سارے طریقے اس طور سے بیان کرنا کہ یہ سب سنت کے مطابق طریقے ہیں، طلبہ کی مثبت ذہنی تربیت میںبہت معاون ہوگا، اور ان سے توقع کی جاسکے گی کہ وہ آیندہ اتحاد اُمت کے لیے بڑا رول ادا کرسکیں گے۔
نماز کے باب میں جہاں بہت سارے اعمال کے ایک سے زائد طریقے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اُمت کو ملے ہیں، وہاں کسی ایک ہی مسلک کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلائل کا انبار لگانا، اور باقی مسالک کو کمزور ثابت کرنے کے لیے وجوہات واسباب جمع کردینا ایک لاحاصل عمل ہے۔ اس سے ’’ہم ہی درست ہیں، اور دوسرے سب غلط ہیں‘‘ کامنفی اور بیمارذہن تیار ہوتا ہے۔
فقہ کے نصاب میں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت یہ بھی ہے کہ توقیفی مسائل کے بجاے زیادہ توجہ اجتہادی مسائل پر مرکوزکی جائے۔ کیوںکہ اجتہادی مسائل میں ائمہ فقہ کے اجتہاد پر جس قدر زیادہ غور وفکر کیا جائے گا، اسی قدر اجتہادی ذوق اور فقہی ملکہ پروان چڑھے گا۔
بعض مدارس میں دیکھا جاتا ہے کہ فقہ کی تعلیم کا بیش تر وقت نماز سے متعلق اختلافی بحثوں میں گزر جاتا ہے، اور ان ابواب کی تعلیم کے لیے مناسب وقت نہیں مل پاتا جن کا تعلق ہماری عملی زندگی کے دوسرے گوشوں سے ہے۔ بعض مدارس میں حدیث کی تعلیم بھی اس طرح دی جاتی ہے، کہ زیادہ وقت نماز سے متعلق اختلافات اور ان کے محاکمہ میں صرف ہوجاتا ہے۔ ان طریقوں کے بجاے مفید تر طریقۂ تدریس اختیار کرنا چاہیے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا جو طریقہ بتایا تھا ،اس میں یہ نہیں بتایا تھا کہ اس میں کیا واجب ہے اور کیا سنت ہے۔ آپ نے نماز کا جو طریقہ سکھایا اس کے ہر جزئیے کا فقہی حکم متعین کرنے کا کام فقہاے کرام نے انجام دیا، اور فقہی حکم متعین کرنے میں ان کے درمیان کبھی اختلاف بھی ہوجاتا ہے۔فقہی فیصلوں کے درمیان اختلافات کا جائزہ لیتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات نماز کے اصل طریقے میں اختلاف نہیں ہوتا ہے، اصل طریقے پر تو سب کا اتفاق ہوتا ہے، البتہ اس طریقے کی حیثیت متعین کرنے میں اختلاف ہوجاتا ہے۔
مغرب کی نماز یا دیگر چار رکعت والی نمازوں میں دوسری رکعت کے بعد تشہد کے لیے بیٹھنا اور بیٹھ کر تشہد پڑھناسب کے نزدیک مطلوب ہے۔ اس کے مطلوب ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، البتہ امام احمد کا ایک قول ہے، اور امام لیث اور امام اسحاق کا بھی یہ قول ہے کہ ایسا کرنا واجب ہے، جب کہ جمہور فقہا کی راے ہے کہ یہ واجب نہیں ہے۔
آخری رکعت میں تشہد کے بعد درود پڑھنا سب کے نزدیک مطلوب ہے، البتہ اس کی حیثیت متعین کرنے میں اختلاف ہوگیا۔ امام ابن المنذر کہتے ہیں: ’’ہماری راے یہ ہے کہ جو بھی نماز پڑھے، وہ درود بھی پڑھے، لیکن ہم اس کو واجب نہیں قرار دیتے، اور اگر کوئی چھوڑ دے تو اس پر نماز کو دُہرانا لازم نہیں۔ یہی امام مالک اور اہل مدینہ کا مسلک ہے۔ سفیان ثوری اور عراق کے اہل راے اور دیگر لوگوں ، اور تمام اہل علم کا یہی مسلک ہے سواے شافعی کے۔ ان کے نزدیک اگر نماز پڑھنے والا درود نہ پڑھے تو وہ نماز کو دوہرانا ضروری قرار دیتے ہیں۔ اسحاق کہتے تھے: امام ہو یا مقتدی، اگر تشہد سے فارغ ہوجائے تو درود پڑھے، ایسا نہ کرنے سے اس کی نمازنہیں ہوگی۔ بعد میںیہ بھی کہا: اگر بھولے سے چھوڑ دیا تو امید کرتے ہیں کہ نماز ہوجائے گی۔ (الأوسط، ج۳،ص۲۱۳)
اس اختلاف کا اثر اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب کوئی بھولے سے یا جان بوجھ کر وہ عمل چھوڑ دے۔ جب تک سب لوگ اس عمل پر کار بند رہتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا کہ کون اس عمل کو سنت سمجھ کر کر رہا ہے اور کون واجب مان کر کررہا ہے۔
فقہی احکام متعین کرنے کا کام بھی اہم تھا، اور فقہا نے یہ عظیم ذمہ داری انجام دی۔ تاہم، ان کی جانب سے بسا اوقات غیر محتاط اور شدت پسندانہ رویے بھی سامنے آئے، اور اس طرح کے رویوں نے اختلافات کی جڑوں کو گہرا کرنے میں بڑا کردارادا کیا۔ اس شدت پسندی کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ نماز کا ایک عمل کسی ایک فقیہ کے یہاں واجب کی حد تک مطلوب ہوجائے، اور وہی عمل دوسرے فقیہ کے نزدیک مکروہ تحریمی کی حد تک غیرمطلوب ہوجائے۔ حالاںکہ معاملے کی حقیقت صرف یہ ہو تی ہے کہ اس عمل کو نہ کرنا اور کرنا دونوں درست ہوتے ہیں۔
بہت سے فقہا فریق مقابل کی ثابت شدہ حدیثوں کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ وہ ہیں تو ثابت مگر منسوخ ہیں۔ اس رویے کے بڑے نقصانات ہیں۔ ایک تو صحیح حدیثوں سے ثابت احکام کو محض اپنے اجتہاد سے منسوخ قرار دے دینا ایک بڑی جسارت ہے۔ دوسرے جس عمل کو منسوخ مان لیا اسے نماز میں کرنے کو مکروہ اور مکروہ تحریمی قرار دینا پڑتا ہے، جب کہ اسی حدیث کی بنا پر وہی عمل ان دوسرے لوگوں کے یہاں سنت قرار پاتا ہے، جو اس حدیث کو منسوخ نہیں مانتے ہیں۔ اگر ہم تواتر عملی کی دلیل کو رہنما مان لیتے ہیں، تو اس دلدل سے باہر نکل آتے ہیں، اور کسی حدیث کو منسوخ ماننے کی ضرورت نہیں رہتی ، اور نہ کسی ایسے عمل کو مکروہ کہنا پڑتا ہے جسے دوسرے فقہا سنت کہتے ہوں ، بلکہ تواتر عملی کی بنیاد پر دونوں کے موقف عین سنت قرار پاتے ہیں۔
اس وقت اُمت میں نمازوں کے جو طریقے رائج ہیں، وہ وہی ہیں جو دوسری صدی ہجری میں فقہ کی تدوین کے وقت ریکارڈ کیے گئے۔ ان طریقوں میں کہیں آپس میں مکمل اتفاق ہے تو کہیں اختلاف بھی ہے، لیکن یہ اختلاف تضاد کا اختلاف نہیں بلکہ تنوع کا اختلاف ہے۔ اگر کہیں تضاد نظر آتا ہے تو وہ فقہا کے نقطۂ نظر کی بات ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقے یا تو خود اختیار فرمائے، یا مختلف طریقوں سے نماز پڑھنے کی گنجایش رکھی اور اس کی اجازت دی۔ وہ مختلف طریقے مختلف علاقوں میں الگ الگ رائج ہوکر فقہا اور ائمہ اربعہ تک ایک زبردست عملی تواتر کے ساتھ پہنچے، اور اس طرح فقہا کے ذریعے ان کی تدوین عمل میں آئی۔
نماز کے طریقے تو اصلاً عملی تواتر کے ذریعے پہنچے، اور اس لیے ان کی حیثیت مسنون طریقوں کی ہے۔ ساتھ ہی ان کے سلسلے میں روایتیں بھی آئیں۔ ان روایتوں کے مختلف درجے ہوسکتے ہیں، لیکن یہ نماز کے طریقوں کی اصل دلیل نہیں ہیں۔ اصل دلیل تو عملی تواتر ہے۔ان روایتوں میں جو صحیح ہیں، وہ سر آنکھوں پر، لیکن نماز کے تمام ریکارڈ شدہ طریقے خواہ ان کے حق میں روایتیں دستیاب ہوں یا نہ ہوں، یا روایتیں تو ہوں لیکن ضعیف ہوں، وہ سب طریقے بہرصورت یکساں طور سے مسنون اور افضل کے حکم میں ہوں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے ان مسنون طریقوں میں سے جس طریقے پر چاہے عمل کرے، خواہ وہ کسی مسلک سے تعلق رکھتا ہو۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی طریقۂ نماز کو تنقید کا نشانہ بنائے۔کیوںکہ یہ سب طریقے عملی تواتر کی قطعی دلیل سے ثابت ہیں۔
گذشتہ صدیوں میں نماز کے طریقوں کو لے کر اُمت میں بہت زیادہ جھگڑے ہوئے، مسجدوں میں مارپیٹ اور خون خرابہ ہوا، مسجدیں تقسیم ہوئیں، اُمت میں فرقہ بندی بڑھی اور فرقہ بندی کے کڑوے پھل پوری اُمت نے چکھے، اور آج تک چکھ رہی ہے! اس وقت بھی دنیا میں مختلف لوگ تصحیح نماز کی تحریک چلارہے ہیں۔ ان کا یہ دعوی ہے کہ اُمت نماز کے جس طریقے پر قائم ہے وہ رسولؐ اللہ کے طریقے کے مطابق نہیں ہے۔ اس طرح کی تحریکوں سے اختلافات میں شدت آرہی ہے اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔ کہیں لوگوں کاخود اپنی نمازوں سے اعتماد اٹھ رہا ہے، تو کہیں یہ خیال پنپ رہا ہے کہ ہمارے باپ دادا غلط طریقے پر نماز پڑھتے تھے، یا ہمارے آس پاس کے لوگوں کی نمازیں درست نہیں ہیں۔ کہیں اپنی نمازوں پر بے اطمینانی بڑھ رہی ہے، تو کہیں احساس برتری پیدا ہورہا ہے کہ صرف ہم اللہ کے رسول کی نماز پر عمل پیرا ہیں۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے، اور اس کی واحد وجہ اس طریقے سے ناواقفیت ہے جس طریقے سے اُمت کو نماز ملی ہے۔ یاد رہے کہ اُمت کو نمازاماموں اور راویوں کے ذریعے نہیں ملی ہے، اس لیے راویوں کی روایتوں کا حوالہ دے کر یا اماموں کے مسلک کا حوالہ دے کر کسی بھی طریقۂ نماز کو غلط قرار دینا صحیح نہیں کہا جاسکتا۔
جس طرح قرآن مجید کی کسی آیت کو قرآن کی آیت ثابت کرنے کے لیے کسی روایت یا کسی خاص امام کی تائید کی ضرورت نہیں ہے، اسی طرح نماز کے کسی بھی عمل کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کسی روایت کی یا کسی خاص امام کی تائید کی ضرورت نہیں ہے۔اُمت کو قرآن مجید جس عظیم تواتر سے ملا ہے، نماز بھی اسی عظیم تواتر سے ملی ہے۔اس لیے یہ ماننا چاہیے کہ اُمت کے تمام گروہ نماز کے جس جس طریقے پر عمل پیرا ہیں، وہ سب طریقے درست ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ایک دین کے طور پر ہمارے لیے پسند کیا، اس کو مکمل کیا، اور اس کو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے محفوظ بھی کیا، کہ ہر دور کے انسانوں کے لیے دین حق کا یہ راستہ موجود رہے۔ دین حق محفوظ ہے، یہ ہمارا عقیدہ ہے۔اسی عقیدے کی ایک شق یہ بھی ہے کہ نماز جسے دین کا ستون بتایا گیا ہے، جو اسلام کا اہم رکن ہے، جو عبادت کا بہترین طریقہ ہے، وہ بھی بلاشبہہ محفوظ ہے۔ ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال آنا چاہیے، نہ ہماری کسی گفتگو سے یہ تاثر ملنا چاہیے کہ صحابہ کرامؓ یا تابعین یا ان کے بعد والی نسل میں جو کہ فقہا ومحدثین کا زمانہ تھا اُمت کے کسی قابل لحاظ حصے کو نماز کے ظاہری احکام سے صحیح واقفیت نہیں تھی، یا یہ کہ ان تک نماز صحیح صورت میں نہیں پہنچ سکی تھی۔
واقعہ یہ ہے کہ جس زمانے میں فقہ کی تدوین ہوئی، اور ہر چیز باقاعدہ تحریری ریکارڈ میں لائی گئی، اس زمانے میں پوری اُمت نماز سے اچھی طرح واقف تھی، اور ان کے درمیان نماز اپنی تمام جزئیات کے ساتھ پوری طرح محفوظ تھی۔
قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہے، اور اس پر تدبر اور عمل کی ذمہ داری انسانوں پر عائد کی ہے، جو جس قدر تدبراور عمل کرے گا، اسی قدر قرآن مجید سے فیض یاب اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہوگا۔ اسی طرح نماز کے طریقے کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا ہے۔اس میں باہم جنگ وجدال لاحاصل ہے۔ انسانوں کی ذمہ داری تو اس طریقے میں کیفیت کا رنگ بھرنا ہے۔ یہی اصل مقابلے کا میدان ہے۔ نماز پڑھتے ہوئے جو خشوع اور انابت میں آگے بڑھے گا وہ اللہ سے زیادہ قریب ہوگا، کہ نماز اللہ سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے، واسجد واقترب۔
عقل ومنطق کا بھی تقاضا ہے، اور سنت کے فہم اور اس سے غیر مشروط محبت کا بھی تقاضا ہے کہ نماز کی ظاہری شکل کو اختلاف کا موضوع نہ بنایا جائے۔ دورِ اوّل سے منقول نماز کے تمام طریقوں کو درست اور مسنون مانا جائے، اور ایک دوسرے کی نماز کو قدر اور احترام کی نظر سے دیکھا جائے۔
اُمت کی موجودہ صورت حال فوری توجہ کی طالب ہے۔ ضرورت ہے کہ اُمت کے تمام اہل علم ودانش اورسارے ارباب تعلیم و تربیت مل کر ایک زوردار تحریک چلائیں کہ لوگوں کی نمازوں کے اندر خشوع اور انابت کی کیفیت پیدا ہو۔ نماز کی روح تک ان کی رسائی ہو۔ نماز کے زیر سایہ فرد اور معاشرے کی بہترین تعمیر ہو۔ نماز کے ذریعے اُمت میں اتحاد واتفاق کی فضا ہموار ہو۔نماز کی بدولت اللہ سے قرب حاصل ہو اور نماز کی مدد سے اُمت کی عظمت رفتہ اور متاع گم شدہ کی بازیافت ہو۔
درحقیقت اسی راہ پر چل کر ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے، آمین!
اتحاد اُمت کا مشن ایک ہمہ جہت پروگرام چاہتا ہے۔ وعظ ونصیحت کے ذریعے دلوں کو نرم کرنے کا کام بھی ہو، اتحاد اُمت کی اہمیت بھی بتائی جائے، کہ وہ ایسا ہی ایک فریضہ ہے جس طرح نماز اور زکوٰۃ فرض ہیں، ساتھ ہی تدبیری کوششیں بھی کی جائیں۔ ان مقامات کی نشان دہی کی جائے جہاں اختلاف کسی غلط فہمی کے نتیجے میں دَر آیا ہے۔ افتراق کی جڑوں کو کاٹا جائے، ان راستوں کو بندکیا جائے جہاں سے فرقہ بندی کو غذاملتی ہے، اور وہ نقطۂ نظر اور انداز فکر تشکیل دیا جائے جو اتحاد کے پہلو کو ترجیح دیتا ہو۔ زیر نظر تحریر بھی اسی طرح کی ایک تدبیری کوشش ہے۔
نماز کے طریقۂ ادایگی پر جس قدر غور کریں ، یہ یقین پختہ ہوتا ہے کہ نماز اُمت کے اتحاد کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ ایک امام کی اتباع جس قدر نماز کے اندر نظر آتی ہے، وہ زندگی کے کسی اور عمل میں نظر نہیں آتی۔ باجماعت نماز کے دوران ایک انسانی گروہ جس یکسانیت کے ساتھ تمام اعمال انجام دیتا ہے وہ بس نماز کا امتیاز ہے۔ ایسی نماز کے ہوتے ہوئے اُمت میںاس قدر شدید اختلاف حیرت انگیز بھی ہے اور افسوس ناک بھی۔
اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس نماز کے ذریعے اتحاد اُمت کے درخت کی روزانہ آبیاری ہوتی ہے، وہی نماز اُمت کے اختلافات کا سبب بنادی گئی ہے۔ مسجد جس میں اجتماعی شیرازہ بندی کی سب سے اچھی تعلیم مل سکتی تھی، وہی مسجد فرقہ بندی کی علامت بنادی گئی ہے۔ نماز کو بنیاد بناکر اُمت میں جو جھگڑے کھڑے کیے گئے ہیں، اگر آج ان سے ہاتھ اٹھا لیا جائے، اورنماز سے متعلق اختلافات کی حقیقت کو جان لیا جائے، اور اس کے مطابق اپنے رویے میں تبدیلی لائی جائے ، تو اُمت کے باہمی اختلافات کا حجم اچھا خاصا کم ہوجائے گا۔کیونکہ نماز فحش اور برے کاموں سے بھی روکتی ہے، اور باہمی تفرقے سے بھی دور رکھتی ہے۔
حج کے موقعے پر دنیا بھر کے مسلمان مسجد حرام میں ایک امام کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ سارے مسلمان مختلف مسلکوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور اپنے مسلک کے مطابق نماز پڑھتے ہیں، جب کہ امام صاحب اپنے مسلک کے مطابق نماز پڑھاتے ہیں۔ ایک امام کے پیچھے ایک جماعت میں نماز ادا کرنے کے لیے کسی سے یہ نہیں کہنا پڑتا کہ اپنا مسلک چھوڑو تاکہ جماعت سے نماز ادا ہوسکے۔ ایک جماعت میں شامل مختلف مسلک کے نمازیوں کو دوران نماز کوئی الجھن پیش نہیں آتی، نہ امام اور مقتدیوں کے درمیان کوئی تعارض کی نوبت آتی ہے۔ سب ایک ساتھ قیام کی حالت میں رہتے ہیں، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ کسی کے ہاتھ سینے کے اوپر بندھے ہیں، اور کسی کے سینے سے نیچے، لیکن سب ایک ساتھ ہی رکوع میں جاتے ہیں، اور ایک ساتھ رکوع سے اٹھتے ہیں، فرق صرف ہاتھوں کی کیفیت کا ہوتا ہے، کوئی اٹھاتا ہے، کوئی نہیں اٹھاتا۔ غرض یہ کہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں جس کی ہیئت پر ان کا تقریباً اتفاق ہے، اور جو فرق ہے وہ ناقابل لحاظ اور غیر اہم ہے۔ اس کی بناپر یہ ایک دوسرے کے پیچھے اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنا مسلک تبدیل کیے بغیر نماز ادا کرسکتے ہیں۔نماز کی ہیئت پر اُمت کا جتنا زیادہ اتفاق ہے وہ حیرت انگیز ہے، لیکن اس اتفاق کے باوجود نماز کو لے کر اُمت میں جتنے زیادہ جھگڑے ہوتے ہیں وہ اور بھی زیادہ حیران کن ہیں۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس تشویش ناک صورتِ حال کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’نوبت یہ آگئی ہے کہ لوگ نماز کی جس صورت کے عادی ہیں اس سے ذرا بھی مختلف صورت جہاں انھوں نے دیکھی اور بس وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس شخص کا دین بدل گیا ہے اور یہ ہماری اُمت سے نکل کر دوسری اُمت میں جاملا ہے‘‘۔ (رسائل ومسائل، حصہ اول، ص: ۱۶۵)
ہر مومن کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی پوری زندگی اوراس کی ساری عبادتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہوں۔ عبادتوں میں نماز سرفہرست ہے۔ اس لیے نماز کے بارے میں یہ خواہش اور بھی زیادہ شدید ہوجاتی ہے۔ یہ بالکل سچی ، معقول اور فطری خواہش ہے، جس کا ایمان جس قدر زیادہ مضبوط ہوگا اس کی یہ خواہش اسی قدر شدید ہوگی۔
ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے دل میں یہ جذبہ سب سے زیادہ رہا ہوگا۔ اسی طرح صحابہؓ کے بعد دورِ اول کے مسلمان اس جذبے سے بہت زیادہ سرشار رہے ہوں گے۔ بلاشبہہ دور اول کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ اہتمام اسی کا ہوتا ہوگا کہ ان کی عبادتیں اور خاص طور سے نمازیں ویسی ہی ہوں جیسی اللہ کے رسولؐ نے پڑھی تھیں، اور اُمت کو سکھائی تھیں۔
ہم یقین کے ساتھ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول کے زمانے میں اس وقت کی پوری اُمت کو نماز اپنی تمام جزئیات کے ساتھ اچھی طرح حفظ ہوگئی تھی، بعینہ وہی نماز جو اللہ کے رسولؐ پڑھا کرتے تھے۔ نماز ایک سادہ اورمختصر سی سرگرمی ہے جسے جوں کا توں یاد کرلینا بہت آسان کام ہے، بطور خاص اگر اس کی روزانہ کئی دفعہ تکرار بھی ہوتی ہو۔ اس لیے یقینا نماز کو اس کی اصلی شکل میں یاد کرلینا اُمت کے لیے بے حد آسان رہا ہوگا۔
گویا جب محفوظ کرنا بہت آسان ہو، محفوظ کرنے کے لیے بہت طویل وقت بھی ملا ہو، شدید ترغیب بھی ہو، اور سچا جذبہ بھی اور محفوظ کرنا نجات اور فلاح کے لیے ضروری بھی ہو، تویقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ تمام صحابہ نے نماز کو ساری جزئیات کے ساتھ اچھی طرح یاد کرلیا ہوگا۔ اور اپنے بعد والی اُمت کو اچھی طرح یاد کرادیا ہوگا، بلکہ نماز تو اپنی اصلی شکل میں ان کی زندگی میں خوشبو کی طرح رچ بس گئی ہوگی، اور ان کی زندگی کا سب سے نمایاں رنگ بن گئی ہوگی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ۱۰ سال تک روزانہ پانچ مرتبہ فرض نماز اُمت کے ساتھ جماعت سے ادا کی، یعنی تقریباً ۱۸ہزار مرتبہ صرف مدینہ منورہ میں اُمت کو نماز پڑھ کر دکھائی، مکہ مکرمہ کے ۱۳ سال اس کے علاوہ ہیں۔اس کے بعد لاکھ سے زیادہ صحابہ کرامؓ تقریباً سو سال تک پورے عالم اسلام میں پوری اُمت کو روزانہ پانچ مرتبہ جماعت سے نماز پڑھ کر اور یقینا رسولؐ کے طریقے پر نمازپڑھ کر نماز پڑھنا سکھاتے رہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس سے اُمت کو نماز ملی۔
حج کو بھی اُمت نے اللہ کے رسول کو کرتے ہوئے دیکھا، لیکن صرف ایک بار، اور اچھی طرح یاد کرلیا، جب کہ نماز کو پوری اُمت نے اللہ کے رسول کو برسہا برس روزانہ پڑھتے ہوئے دیکھا، اوران دیکھنے والوں کو نئے آنے والے مسلسل روزانہ دیکھتے رہے۔ گویا اُمت کو نمازحقیقی تواتر کے ساتھ ملی اور صرف راویوں سے نہیں سنا کہ اللہ کے رسولؐ نماز کیسے پڑھتے تھے، بلکہ اس سے پہلے اور اس سے بہت بڑے پیمانے پر اُمت نے اللہ کے رسولؐ کو نماز پڑھتے دیکھا، اور ان لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا جو بعینہٖ اللہ کے رسولؐ کے طریقے کے مطابق نماز پڑھتے تھے۔
نماز کے معاملے کو آسان ترین طریقے سے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ مؤرخین کے بقول اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل صحابہ کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی۔ تمام صحابہ کے بارے میں ہمیں حُسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ انھوں نے اللہ کے رسولؐ اور اکابر صحابہ سے نمازیں پڑھنے کا طریقہ تو ضرور سیکھا ہوگا، کیونکہ یہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے ضروری عمل تھا، اور اس پر اللہ کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرنا ضروری تھا۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ ایک لاکھ صحابہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق نماز پڑھتے ہوئے کم از کم ان کی اولاد نے تو خوب اچھی طرح دیکھا ہوگا اور ان سے سیکھا ہوگا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک لاکھ صحابہ کے بعد لاکھوں کی تعداد میں ان کی اولاد کی نمازیں اللہ کے رسولؐ کے طریقے کے مطابق تھیں۔ اس سے آگے بڑھ کر ہمارا یقین ہے کہ صحابہ کی حیات میں نئے ایمان لانے والے لاکھوں مسلمانوں نے نماز کا طریقہ ضرور سیکھا ہوگا۔
مستدرک حاکم کی صحیح روایت ہے، جس میں راوی کہتا ہے کہ میں نے معتمر کو کہتے سنا کہ میں اپنے ابا جان جیسی نماز پڑھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہوں، اور میرے ابا جان کہتے تھے کہ میں حضرت انس بن مالکؓ جیسی نماز پڑھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہوں، اور حضرت انس بن مالکؓ کہتے تھے کہ میں اللہ کے رسولؐ جیسی نماز پڑھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا ہوں۔
اپنے بزرگوں سے نماز سیکھنا اور اچھی طرح سیکھنا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ برتنا، اور اپنی اولاد اور شاگردوں کو اہتمام کے ساتھ نماز سکھانا، اور شوق اور انہماک واہتمام کے ساتھ سیکھنا، اور اس کی پابندی کرنا، یہ تو ہمارے اس گئے گذرے دور میں بھی عام ہے۔ اُس دور میں تو یہ رجحان اپنے عروج پر رہا ہوگا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنے عظیم تواتر کے ساتھ نماز اُمت کو ملی ہے، تو پھر لوگوں کی نمازوں میں اتنا زیادہ اختلاف کیوں ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو نماز کا طریقہ سکھایا۔ اس طریقے میں کچھ اعمال ایسے تھے جنھیں سب کے لیے ہمیشہ ایک طرح سے انجام دینا ضروی تھا، اور ان میں تنوع کی کوئی گنجایش نہیں تھی، جیسے دو بار سجدہ کرنا، اور ایک بار رکوع کرنا، فجر میں دو رکعتیں اور مغرب میں تین رکعتیں پڑھنا۔ اس طرح کے اعمال اللہ کے رسولؐ نے ہمیشہ ایک طرح سے انجام دیے، اور ایک طرح سے انجام دینا اُمت نے سیکھا اور سکھایا، اور اُمت ان کو صدیوں سے ایک ہی طرح سے انجام دیتی آرہی ہے۔
تاہم، نماز کے کچھ اعمال ایسے تھے، جن میں تنوع کی گنجایش تھی۔ ان کو اللہ کے رسولؐ نے ایک سے زائد طرح سے انجام دیا، اور اُمت نے بھی ایک سے زائد طرح سے انجام دینا سیکھا۔چنانچہ ہر مسلمان کے لیے گنجایش تھی کہ وہ نماز کے ان متعدد مسنون طریقوں میں سے جو طریقہ چاہے اور جب چاہے اختیار کرلے۔ جب چاہے آمین آواز کے ساتھ کہہ دے اور جب چاہے آمین بلا آواز کے کہے۔یہ گنجایش نہیں رکھی کہ تشہد کوئی آواز کے ساتھ پڑھے اور کوئی بناآواز کے، لیکن خود تشہد کئی طرح کے سکھائے، کہ جس کا جی چاہے وہ کوئی ایک تشہد پڑھ لے۔
شروع میں تو سب لوگ سب طرح سے نماز پڑھتے تھے، تاہم جب اللہ کے رسولؐ کے زمانے کے بعد مسلمان بڑے بڑے خطوں میں پھیل گئے، تو یہ طریقے بھی پھیل گئے، اور اس طرح پھیلے کہ کسی علاقے میں کسی طریقے کو زیادہ رواج ملا تو کسی علاقے میں کسی دوسرے طریقے کو رواج ملا۔ لیکن یہ سب طریقے وہی تھے جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا تھا یا جن کی اجازت دی تھی۔جس طرح اللہ کے رسول ؐ کے زمانے میں قرآن مجید مدینہ کے اندر مختلف قراء توں کے ساتھ پڑھا جاتا تھا، لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد الگ الگ علاقوں میں الگ الگ قراء تیں رواج پاگئیں، اور خود مدینہ میں کسی ایک قرأت کو خاص رواج ملا اور باقی قراء توں سے عام لوگ نامانوس ہوگئے۔
جب فقہ کی تدوین کا زمانہ آیا، اور اس کام کے لیے فقہا سامنے آئے، اور دیگر مسائل کے ساتھ نماز کے طریقے کی بھی تدوین کی گئی، تو ہرفقیہ نے اپنے علاقے میں رائج نماز کے طریقے کو اختیار کرکے اس تدوین میں شامل کیا۔اس طرح اُمت میں نمازوں کے طریقوں کے سارے باہمی فرق مدون کردیے گئے۔
طریقوں کے فرق یا اختلاف کی اصل حقیقت تو یہ تھی کہ یہ سب اللہ کے رسولؐ کے سکھائے ہوئے اور پسند کیے ہوئے طریقے تھے، اور ایک مسلمان کے لیے اس کی پوری گنجایش تھی کہ وہ جب چاہے نماز کے کسی بھی طریقے پر عمل کرلے۔ لیکن بعد کے لوگوں نے انھی طریقوں میں سے اپنے یا اپنے اماموں کے پسند کیے ہوئے طریقوں کو زیادہ اہمیت دینی شروع کردی۔اپنے اپنے طریقے کو افضل اور راجح قرار دینے کے لیے بالعموم اللہ کے رسولؐ سے مروی حدیثوں اور صحابہ وتابعین سے مروی آثار کو دلیل بنایا گیا، اور ایک زبردست حقیقت پس پردہ چلی گئی کہ نماز کے یہ سارے طریقے اُمت کو عملی تواتر کے ذریعے ملے ہیں۔اگر یہ حقیقت ذہنوں میں تازہ رہتی تو نماز کے مختلف طریقے اختلاف کا سبب نہ بنائے جاتے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک لاکھ صحابہؓ نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اور آپ کی طرح خود نماز پڑھی، پھر صحابہ کے بعد لاکھوں پر مشتمل دوسری نسل نے صحابہ کو اللہ کے رسول کی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور ویسے ہی نماز پڑھی۔ اسی طرح تیسری نسل نے کیا۔ اس دوران فقہا کا زمانہ آیا اور انھوں نے اس نماز کی باقاعدہ فقہی تدوین کردی۔ یہی وہ عظیم عملی تواتر ہے جس کے راستے سے اُمت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ملی۔
اصول فقہ کی مشہور کتاب اصول الشاشی میں عملی تواتر کی تعریف یوں کی گئی ہے: ’’متواتر وہ ہے جسے کسی ایک گروہ نے ایک دوسرے گروہ سے اخذ کر کے منتقل کیا ہو، اس طرح کہ یہ نہیں تصور کیا جاسکتا ہو کہ اتنی بڑی تعداد جھوٹ پر جمع ہوجائے گی، اور یہ سلسلہ اسی طرح تم تک پہنچے، مثال کے طور پر جیسے قرآن مجید کو، رکعتوں کی تعداد کو اور زکوٰۃ کی مقدار کو نقل کیا گیا‘‘۔
عملی تواتر کے لیے فقہا ایک لفظ توارث کا استعمال کرتے ہیں۔ توارث کا مطلب وہ عمل ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا آیا ہو۔مثال کے طور پر تشہد کو بنا آواز کے پڑھناشرعاً مطلوب سمجھا گیا ہے۔ اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے حنفی فقیہ علامہ سرخسی لکھتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نقل نہیں کی گئی ہے کہ تشہد کو آواز کے ساتھ پڑھنا ہے، اور لوگ اللہ کے رسولؐ کے زمانے سے آج تک تشہد کو نسل در نسل بنا آواز کے پڑھتے آئے ہیں، اور توارث تواتر کی طرح ہے۔
بہت سارے فقہا عملی تواتر کے لیے نقل الخلف عن السلف کی تعبیر بھی استعمال کرتے ہیں، مطلب یہ کہ وہ عمل جو اگلوں سے پچھلوں میں منتقل ہوتا آیا ہے۔
فرض نمازوں کی قرأت کے سلسلے میں پوری اُمت کا موقف یہ ہے کہ فجر کی دونوں رکعتوں میں اور مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میںامام کو آواز کے ساتھ قرأت کرنا ہے، جب کہ باقی رکعتوں میں اور ظہر اور عصر کی تمام رکعتوں میں بنا آواز کے قرأت کرنا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ تمام فقہا بلکہ ساری اُمت کا اس پر اتفاق ہے، مگر اس کی پشت پر کوئی واضح اور صحیح حدیث موجود نہیں ہے، جن روایتوں کو بیان کیا جاتا ہے وہ یا تو واضح نہیں ہیں یا پھر صحیح نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور سے فقہا اس مسئلے کی دلیل میں عملی تواتر کو پیش کرتے ہیں۔
نماز تمام فقہا تک عملی تواتر کے ساتھ پہنچی، تاہم امام مالک نے عملی تواتر کی اس دلیل کو زیادہ اُجاگر کرکے پیش کیا۔امام مالک کے استاذ ربیعہ اپنے دور کے امام تھے۔ وہ علم اور دانائی میں اس قدر ممتاز تھے کہ ربیعۃ الرأي کے نام سے معروف ہوگئے تھے۔ ان کا ایک جملہ امام مالک کی فقہ کی اساس قرار پایا۔ ان کا کہنا تھا: ایک ہزار آدمیوں کو ایک ہزار آدمیوں سے کوئی بات ملے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ایک آدمی کو ایک آدمی سے کوئی بات ملے۔ الف عن الف خیر من واحد عن واحد (حلیۃ الاولیائ)۔ اس طرح انھوں نے عملی تواتر اور قولی روایت کے درمیان فرق نمایاں کردیا۔
امام مالک کے یہاں اس کی اہمیت بہت زیادہ تھی، کہ انھوں نے اپنے زمانے اور اپنے سے پیش تر زمانے کے لوگوں کو کیا کرتے ہوئے پایا۔ چنانچہ جب ان سے اذان اور اقامت کے الفاظ کو دو دو بار کہنے کے سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا: اذان اور اقامت کے سلسلے میں میرے پاس وہی بات پہنچی ہے جس پر میں نے لوگوں کو عمل پیرا پایا، لہٰذا تو اقامت کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے الفاظ کو دو دو بار نہیں کہا جائے گا۔ اسی پر اب تک ہمارے شہر میں اہل علم کا عمل جاری ہے۔
اس موقعے پر کوئی سوال کرسکتا ہے کہ عملی تواتر کی دلیل صرف فرض نماز کے طریقے کے لیے خاص ہے، یا شریعت کے تمام مسائل میں؟ یہ مانا جاسکتا ہے کہ فقہا نے جو بھی راے اختیار کی وہ عملی تواتر کی بنیاد پر اختیار کی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عملی تواتر ان مسائل میں وجود پذیر ہوتا ہے جو ہر خاص وعام کو بار بار درپیش ہوتے ہیں، جو مسائل کبھی کبھار پیش آتے ہیں، ان میں عملی تواتر کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے۔ خاص وعام کو بار بار پیش آنے والے مسائل بہت سارے ہوسکتے ہیں، جیسے اذان کا مسئلہ ہے، جو بلا تفریق سب لوگ زندگی بھر صبح سے شام تک بار بار سنتے رہتے ہیں۔ تکبیر تشریق کے بار ے میں بھی فقہا یہی کہتے ہیں، کہ یہ ایام تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیر کہنا عملی تواتر سے ثابت ہے۔ پوری دنیا اور ہر دورمیں تمام مسلمان جب بھی ایام تشریق آتے ہیں یہ تکبیر کہتے رہے ہیں۔ البتہ جو مسائل کبھی کبھی پیش آتے ہیں، اور کچھ خاص لوگوں کو ہی پیش آتے ہیں، ان میں عملی تواتر کا حوالہ فقہا بھی نہیں دیتے ہیں، جیسے حدود وتعزیرات کا معاملہ ہے۔
بار بار پیش آنے والے معاملات میں فرض نماز کا معاملہ سب سے نمایاں اور ممتاز ہے، کہ یہ تو دین کا ستون ہے، اور اس کو تو بہت سختی کے ساتھ ویسے ہی انجام دینا ہے جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا، اور بلا استثنا سب کو انجام دینا ہے۔
عام آدمی کو یہ سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے کہ نماز کے ایک ہی عمل کو مختلف مسلک کے لوگ مختلف انداز سے انجام دیتے ہیں ، اور ہر کوئی یہ سمجھتا اور یقین رکھتا ہے کہ میرا طریقہ سنت کے مطابق ہے۔ آخر اس مسئلے کی حقیقت کیا ہے؟ سارے مختلف عمل کیسے رسول خدا کی سنت کے مطابق ہوسکتے ہیں؟ اور اگر ان میں سے کوئی ایک ہی عمل سنت کے مطابق ہے تو پھر دور اول ہی میں سنت کے خلاف بہت سارے عمل نماز میں کیسے داخل ہوگئے اور کیسے رائج ہوگئے، کہ بڑے بڑے امام یہ نہیں سمجھ سکے کہ نماز کے کون کون سے عمل سنت کے مطابق ہیں اور کون سے سنت کے مطابق نہیں ہیں۔
امام نوویؒ نے اس کا ایک جواب دیا ہے،: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مختلف احوال ہوا کرتے تھے۔ کبھی آپؐ یہ طریقہ اختیار فرماتے تھے، تو کبھی وہ طریقہ اختیار فرماتے تھے۔ جیسے کبھی قرأت لمبی کرتے تھے تو کبھی مختصر کرتے تھے، اور کبھی اس کی دیگر شکلیں اختیار کرتے تھے۔ اسی طرح وضو میں اعضا کوکبھی ایک ایک بار تو کبھی دو دو بار تو کبھی تین تین بار دھویا، اور کبھی طواف سواری پر کیا تو کبھی پیدل کیا، نماز وتر شروع رات میں بھی پڑھی، آخر شب میں بھی پڑھی اور درمیان شب میں بھی پڑھی، اور کبھی نمازوتر طلوع فجر تک بھی ہوگئی۔ اس کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سارے احوال ہیں جیسا کہ ہمارے علم میں ہے۔ مزید برآں آپؐ کبھی عبادت کو دو طرح سے یا کئی طرح سے انجام دیتے تھے، تاکہ ایک مرتبہ یا کچھ مرتبہ کرکے بتادیں کہ اس کی بھی رخصت اور اجازت ہے، اور جو افضل ہوتا اس پر پابندی سے عمل فرماتے کہ یہ پسندیدہ ہے اور زیادہ بہتر ہے‘‘۔
اس قیمتی گفتگو پر یہ اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک عمل کو مختلف طریقوں سے انجام دیا کرتے تھے۔ کبھی یہ بتانے کے لیے کہ ان میں سے ایک عمل جائز ہے، اور ایک عمل افضل ہے۔اور کبھی یہ بتانے کے لیے کہ یہ سارے طریقے یکساں فضیلت والے ہیں، اور سب طریقوں میں خوبی ورعنائی ہے۔ اگر اُمت میں سارے طریقے بھرپور عملی تواتر کے ساتھ منتقل ہوں، اور اللہ کے رسولؐ سے کسی ایک کے محض جائز اور دوسرے کے افضل ہونے کی صراحت ثابت نہ ہو، تو مان لینا چاہیے کہ تمام طریقے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یکساں فضیلت کے ساتھ اُمت کو سکھائے، اور پھر ان سب کو افضل اورسنت مان لینا چاہیے۔
اس امر پر حیرانی نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ہی کام کے دو مختلف طریقے سنت کیسے ہوسکتے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ نماز کے جن اعمال کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے انجام دیا، اُمت میں وہ سارے متعدد اور متنوع طریقے سنت کے طور پر منتقل ہوئے۔ صحابہ سے خود اس بات کی صراحت ملتی ہے۔ اس کی مثال دعاے قنوت کے محل کی ہے۔
دعاے قنوت کے محل کے سلسلے میں دو موقف بطور سنت رائج ہوئے۔ ایک یہ کہ دعاے قنوت رکوع سے پہلے پڑھی جائے، اور دوسرا یہ کہ رکوع کے بعد پڑھی جائے۔ مختلف صحابہ اور تابعین سے یہ دونوں عمل منقول ہیں، بلکہ امام ابن المنذرنے جن صحابہ کے نام ذکر کیے، ان میں حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے نام رکوع سے پہلے قنوت پڑھنے والوں میں بھی ذکر کیے اور رکوع کے بعد پڑھنے والوں میں بھی ذکر کیے۔ یہ دیکھ کر جو تحیر پیدا ہوا، وہ حضرت انس بن مالکؓ کے ایک بیان سے دُور ہوگیا۔ یہ بیان ہمارے بہت سارے مسائل میں رہنمائی کرتا ہے۔
حضرت انس بن مالک سے پوچھا گیا کہ قنوت رکوع سے پہلے ہے یا رکوع کے بعد؟ انھوں نے کہا’’ہم ان سب طریقوں پر عمل کیا کرتے تھے ‘‘۔ کُلَّ ذَلِکَ کُنَّا نَفْعَلُ (مسند سراج، روایت نمبر ۱۳۵۰، شیخ البانی اور دیگر محققین نے روایت کو صحیح قرار دیا ہے)۔ سنن ابن ماجہ کی روایت کے الفاظ یوں ہیں: حضرت انس بن مالکؓ سے صبح کی نماز میں قنوت کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے کہا: ہم رکوع سے پہلے بھی قنوت پڑھتے تھے، اور رکوع کے بعد بھی۔ سُئِلَ عَنِ الْقُنُوتِ فِی صَلَاۃِ الصُّبْحِ، فَقَالَ: کُنَّا نَقْنُتُ قَبْلَ الرُّکُوعِ وَبَعْدٰہُ۔
اس میں کون شک کرسکتا ہے کہ حضرت انسؓ اور دیگر صحابہ یہ سب اس لیے کرتے رہے ہوں گے کہ اللہ کے رسولؐ سے انھوں نے یہی سیکھا اور یہی کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ دراصل یہی حقیقت ہے نماز کے ان سب اعمال کی جن کے سلسلے میں ایک سے زائد طریقے اُمت میں منقول ہوئے ہیں، کہ اللہ کے رسول ان اعمال کو کئی طرح انجام دیا کرتے تھے، اور صحابہ بھی کئی طرح کیا کرتے تھے، اور پھر اُمت میں وہ سب طریقے الگ الگ علاقوں اور گروہوں میں رواج پاگئے۔(جاری)