تحریک اسلامی کے ایک بزرگ قائد کی توبہ کا اثر انگیز واقعہ پڑھا، اس کے راوی شیخ محمد احمد راشد ہیں۔ بیان کرتے ہیں: ’’صالح عشماوی، اخوان المسلمون کے ابتدائی ارکان میں سے تھے۔ ان کا شمار سابقون الاولون میں ہوتا تھا۔ بانی تحریک الاخوان، امام حسن البنا کے ساتھ ایک بہترین کارکن کی حیثیت سے اچھا خاصا وقت گزارا، اور مرکزی قیادت میں شامل ہوگئے۔ پھر تحریک پر آزمایشوں کا دور آیا اور اسی دوران میں ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو امام البنا شہید کردیے گئے۔ امیر کی جگہ خالی ہوئی تو تحریک پر فتنوں کے کچھ سیاہ بادل چھاگئے۔ صداقتیں اوٹ میں چھپ گئیں، غلط فہمیوں اور بدگمانیوں نے ڈیرے ڈالے، وسوسوں کے طوفان اٹھے، اور ایک گروہ فتنوں کا شکار ہوگیا۔ اس گروہ نے صالح عشماوی کو اپنا لیڈر بنالیا۔ تحریک پر کئی مشکل برس بیتے، اور آزمایش طویل ہوتی گئی۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب صالح عشماوی کو اپنے کیے پر ندامت ہوئی، اور انھوں نے سچی توبہ کی ایک شاہکار مثال قائم کی۔
راوی لکھتے ہیں: ’’ایک دن میں تحریکی ترجمان الدعوۃ کے آفس میں گیا، دیکھا فلیٹ کے دروازے پر ایک بزرگ چوکیدار، خاکساری کی تصویر بنے، خستہ سی بید کی پرانی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ ان کے چہرے پر بلا کا وقار تھا، اور پیشانی پر نور دمک رہا تھا۔ میں نے سلام کیا، اجازت لی اور اندر داخل ہوگیا، وہاں ایک تحریکی ساتھی نے مجھ سے پوچھا: ’’اس باوقار شخص کو جو چوکیدار کی جگہ پر بیٹھا ہے، تم نے پہچانا؟‘‘ میں نے کہا: ’’پہچانا تو نہیں، مگر جاننے کی طلب ضرور پیدا ہوئی ہے‘‘۔
میرے ساتھی نے کہا: ’’یہ صالح عشماوی ہیں، توبہ کی تڑپ انھیں بے قرار رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کچھ ضدی قسم کے لوگوں نے مجھے اپنا سردار بنایا تھا، اور امیر کہہ کر پکارا تھا، اس وقت نفس کو یک گونہ لطف محسوس ہوا تھا۔ اپنے نفس کو اس غلط احساس کی نجاست سے پاک کرنے کے لیے میں نے طے کیا ہے کہ اب تحریک میں آخری صف کے سپاہی کی حیثیت سے زندگی گزاروں گا‘‘۔ ان کا اصرار ہے کہ :’’میری توبہ کی تکمیل اسی طرح ممکن ہے‘‘۔ اس لیے انھوں نے مرکز کا چوکیدار بن کر باقی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر انھیں معلوم ہوتا کہ اس سے کم درجے کی بھی تحریک میں کوئی جگہ ہے تو وہ اس کو دوڑ کر اختیار کرلیتے۔ دل میں اٹھنے والی منصب کی خواہش نے دل پر جو داغ لگادیے وہ اس طرح انھیں دھودینا چاہتے ہیں۔
میں اس پاکیزہ روح اور بڑے دل کے بارے میں جان کر حیرت ومسرت میں ڈوب گیا۔ امیر تحریک جناب عمر تلمسانی نے ہمیں بتایا کہ: ’’ہم نے ان کے لیے دعا بھی کی، اور انھیں دعوت بھی دی کہ وہ ہمارے بھائی بن کر دوسروں کی طرح ہماری ٹیم کا حصہ رہیں، اور اللہ تو توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہے، لیکن انھوں نے صاف انکار کردیا۔ ہم نے بہت اصرار کیا، انھیں مطمئن کرنے کی بہت کوشش کی، مگر ان کا شدید اصرار ہے کہ انھوں نے اپنے لیے آخری صف میں جو جگہ متعین کی ہے اسی پر انھیں رہنے دیا جائے‘‘۔
اس واقعے کے کئی سال بعد ایک بار مرشدعام عمر تلمسانی صاحب نے ایک تقریر کے دوران گلوگیر لہجے میں بڑے درد کے ساتھ کہا:’’شیخ صالح عشماوی نے جو توبہ کی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر قاہرہ کے تمام داعیان اسلام پر اسے تقسیم کردیا جائے، تو سب کے لیے کافی ہوگی‘‘۔
تحریکی قیادت کے خلاف ایک محاذ کی اگوائی کرنے والے صالح عشماوی کی توبہ اور تحریک کے قائد عمر تلمسانی کی کشادہ ظرفی میں تحریکی کارکنان اور تحریکی قیادت کے لیے نصیحت کا بڑا سامان ہے۔ ایسے واقعات تحریک کے حسن وجمال میں وہ اضافہ کرتے ہیں، جو فلک شگاف نعروں اور فلک بوس عمارتوں سے کبھی نہیں ہوسکتا۔
ہر کارکن اپنے اندرون میں جھانکتا رہے کہ کہیں اس سے کوئی غلطی تو سرزد نہیں ہوئی ہے؟ تحریک کے حوالے سے بہت سنگین غلطی یہ ہے کہ تحریک سے دنیا طلبی کی کوئی خواہش وابستہ ہوجائے۔ غلطی کا احساس ہوتے ہی کارکن ندامت میں ڈوب کر کفارہ ادا کرنے کے لیے بے چین ہوجائے۔ نہ غلطی کا احساس دیر سے ہو، اور نہ توبہ کرنے میں تاخیر ہو۔ اس کے لیے تحریک کے اندرونی ماحول کو ندامت وتوبہ کے لیے بہت سازگاراور حوصلہ بخش ہونا چاہیے۔
درحقیقت وہ تحریک اسلامی نہیں ہوسکتی ہے، جہاں کچھ لوگ دھڑلے کے ساتھ تحریک کے وقار کو اپنے پاؤں تلے روند رہے ہوں، اور ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کی کسی کو جرأت نہ ہوتی ہو، یا جہاں غلطی کرنے والوں کے خلاف اخراج کی کارروائی ہوتی ہو، اور پھر وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے تحریک سے الگ کردیے جاتے ہوں، یا جہاں لوگ کسی شکایت کی بنا پر استعفا دے کر نکلتے ہوں، اور یہ سمجھ کر نکلتے ہوں کہ اب ان کے لیے تحریک کے دروازے کبھی نہیں کھلیں گے۔
اسلامی تحریک میں غلطی کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی بھی ہو، توبہ کرنے کے لیے سازگار اور حوصلہ بخش مواقع بھی ہوں، اور توبہ کی قدر کرنے کا کشادہ ماحول بھی ہو، توبہ کرنے اور توبہ کو سراہنے کی مثالیں بھی دیکھنے والوں کو جہاں تہاں بار بار نظر آتی رہیں، یہ ایک صحت مند اسلامی تحریک کے لیے بے حد ضروری ہے۔
جو کارکن تحریک سے کسی غلط فہمی یا بدگمانی کی بنا پر نکل جائیں، ان کی واپسی کے لیے دروازے کھلے ہوں، اور جو کارکن تحریک سے کسی غلطی کی وجہ سے نکال دیے گئے ان کے لیے اپنی اصلاح کرکے دوبارہ قافلے میں شامل ہونے کا پورا پورا موقع ہو، ایسا ہوگا تو یہ خوش گوار احساس بھی ہوگا کہ اسلامی تحریک میں اسلام کی روح موجود ہے۔ کیونکہ جہاں توبہ کا نظام، رواج اور موقع نہ ہو، سمجھیے وہاں جو کچھ بھی ہو اسلام نہیں ہے، کیونکہ اسلام تو غلطی ہوجانے پر توبہ کرنے والوں کا دین ہے۔