دسمبر ۲۰۱۷

فہرست مضامین

توحید کی دعوت، انبیاؑ کا مشن

مجتبیٰ فاروق | دسمبر ۲۰۱۷ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

اللہ تعالیٰ نے بندوںتک اپنی وحدانیت اور اپنی بندگی کی طرف دعوت دینے کے لیے  انبیا کرامؑ کو مبعوث فرمایا، جن کی بعثت ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے۔ جب بھی دنیا میں نظام حق و عدل درہم برہم ہوجاتا اور زمین فساد کا گہوارہ بن جاتی اور کفر و شرک اور جہالت عروج پر پہنچ جاتے،   تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آجاتی اور اپنے خاص،مقرب اور منتخب بندوں کو دنیاے انسانیت کی طرف مبعوث فرماتا، تاکہ نوع انسانیت کو طاغوت کی بندگی اور کفرو شرک سے نکال کے اللہ کی وحدانیت اور ا س کی بندگی کی طرف دعوت دے۔ یہ وہ بنیادی کا م ہے جسے حضرت آدم ؑسے نبی آخرالزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا کرامؑ نے اپنا مشن بنایا۔ ہرپیغمبرؑ نے اللہ کی بندگی، اصلاح عقیدہ اور تمام عبادتوںکو اللہ کے لیے خالص کرنے اور شرک سے اجتناب کرنے کو اپنی دعوت کا مرکز و محور قراردیا۔

اسی لیے قرآن نے بت پرستی اور مشرکانہ رسوم کو اقوام کے زوال و ہلاکت کا سب سے بڑا سبب قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس نے متعدد مقامات پر بتایا ہے کہ جن قوموں پر عذاب نازل ہوا ان میں پہلے نبی بھیجے گئے جنھوںنے لوگوںکو توحید کی دعوت دی لیکن کفارو مشرکین نے ان نبیوں کا مذاق اُڑایا، ان کی تکذیب کی اور اپنی بت پرستی پر بدستور قائم رہے۔

حضرت نوحؑ اور ان کی قوم

حضرت نوح ـؑاور ان کی قوم کا قرآن میں ۴۳ مقامات پر ذکر آیا ہے۔ حضرت نوح ـؑ کی دعوت و تبلیغ اس سر زمین سے وابستہ تھی جو دجلہ اور فرات کے درمیان واقع ہے اور یہ دونوں دریا آرمینیا کے پہاڑوں سے نکلتے ہیں اور جدا جدا بہہ کر عراق کے حصے زیر می میں آکر ملتے اور خلیج فارس میں جا گرتے ہیں ۔ وہیں اراراطہ کا پہاڑی سلسلہ ہے جس کی ایک چوٹی جودی پر کشتی نوح ـؑ اُترنے کے بارے میں روایات ہیں۔ ۱حضرت نوح ـؑ ایک اُولو العزم پیغمبر تھے۔ انھوں نے اپنی قوم میں ۹۵۰سال تک دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا ۔ ان کی دعوت میں توحید کو بنیادی ترجیح حاصل تھی ۔ حضرت نوح ـؑ کی قوم کفرو شرک کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ اس فساد سے دور رہنے کے لیے حضرت نوح ؑاپنی قوم کو دن رات، اُٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے سمجھاتے رہے ۔حافظ ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں:

بَعَثَہُ اللہُ تَعَالٰی لَمَّا عُبَدَتِ الْاَصْنَامُ وَالطَّوَاغِیْتُ وَشَرَعَ النَّاسُ فِی الضَّلَالَۃِ وَالْکُفْرِ فَبَعَثَہُ اللہُ رَحْمَۃً لِلْعِبَادِ فَکَانَ اَوَّلُ رَسُوْلٍ بُعِثَ اِلٰی اَہْلِ الْاَرْضِ ۲

اللہ تعالیٰ نے انھیں اس لیے مبعوث فرمایا کیونکہ لوگ بت پرستی اور طاغوت کی پرستش کرنے لگے اور لوگوں نے کفرو ضلالت کو ہی اپنا دین بنا لیا اور اللہ تعالیٰ نے نوح ـؑ کو لوگوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ اس لحاظ سے وہ پہلے نبی ہیں۔ حضرت نوح ـؑ کی دعوت کا مر کز و محور توحید تھا ۔انھوں نے اپنی قوم کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے ساتھ شریک نہ ٹھیرانے کی طرف دعوت دی۔ یہ ان کی دعوت کا سب سے بنیادی نکتہ تھا ۔ قرآن مجید میں اس تعلق سے ارشاد ہے :

لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍO (الاعراف۷:۵۹) ہم نے نوح ـؑ کو کنعان کی قوم کی طرف بھیجا تو انھوں نے ان سے فرمایا: اے میری قوم!تم اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود ہونے کے قابل نہیں۔ مجھ کو تمھارے لیے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔

ایک اور موقعے پر حضرت نوح ـؑنے اپنی قوم کو دعوتِ توحید سے انکار کر نے اور اللہ کی بندگی نہ کرنے پر دردناک عذاب کی وعید سنائی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖٓ  ز اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ  O اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍO (ھود۱۱: ۲۵-۲۶) ، ہم نے نوح ـؑ کو  اس کی قوم کی طرف رسول بناکر بھیجا کہ میں تمھیں صاف صاف ہوشیار کر دینے والا ہوں کہ تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو۔ مجھے تو تم پر دردناک دن کے عذاب کا خوف ہے۔

اور ایک جگہ اس کی تفصیل یوں ہے :

اِنَّآ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖٓ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ O قَالَ یٰـقَوْمِ اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ O  اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ O (نوح۷۱: ۱-۳) ہم نے نوح ـؑ کو ان کی قوم طرف مبعوث فرمایا کہ اپنی قوم کو ڈرا دو کہ اس سے پہلے کہ ان کے پاس دردناک عذاب آجائے۔ نوح ـؑ نے کہا: اے میری قوم میں تمھیں صاف صاف ڈرانے والا ہوں کہ تم اللہ کی عبادت کرو۔ اسی سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔

                یعنی تمام معبودانِ باطلہ کی راہ سے منہ موڑ کر صرف اللہ کی بندگی اختیار کرو اور اس کے ساتھ ساتھ میری اطاعت کرو۔ اسی میں تمھاری نجات اور خیر خواہی پنہاں ہے۔

  حضرت ہود ؑاور قوم عاد

عاد کا مرکزی مقام ارض احقاف ہے۔ یہ حضرموت کے شمال میں اس طرح واقع ہے کہ اس کے شرق میں عمان ہے اور شمال میں ربع الخیال۔ آج یہاں ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ ان کی آبادی عرب کے سب سے بہترین حصہ حضرموت اور یمن میں خلیج فارس کے سوا حل سے حدود عراق تک وسیع تھی۔۳ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو ہر قسم کی خوش حالی اور متنوع نعمتوں سے نوازا تھا ۔ مزید یہ کہ زمین کو زراعت کے قابل بنایا، چٹانوں سے محلات اور گھر تعمیر کرنے کا ہنر عطا کیا اور جسمانی طاقت سے بھی سرفراز فرمایا تھا لیکن اس کے باوجود یہ قوم بت پرستی میں غرق ہوچکی تھی۔ اس قوم نے ڈھٹائی کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولؑ سے بغاوت کردی۔

 حضرت ہودؑ کی دعوت ،دعوت توحید ہی تھی۔ انھوں نے اپنی قوم کو اللہ کی بندگی اختیار کرنے اور شرک سے اجتناب برتنے کے لیے ہر ممکن طریقے سے منوانے کی کوشش کی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا ط قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اَفَلَا تَتَّقُوْنَO (اعراف۷:۶۵)اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہودؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے برادران قوم اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی الٰہ نہیں۔ پھر کہا: تم غلط رویے سے پرہیز نہ کروگے ؟

ایک اور موقعے پر حضرت ہودؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اللہ تعالیٰ سے رُوگردانی کرکے  اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراکر اس پر کیوں جھوٹ باندھ رہے ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ O (ھود۱۱:۵۰) اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔  تم تو صریح بہتان باندھ رہے ہو۔

قومِ عاد کی سرکشی اور رُوگردانی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ انھوں نے حضرت ہودؑ اور ان کی دعوت کا کھلے عام تمسخر اڑانا شروع کیا۔ چنانچہ وہ انتہائی ڈھٹائی اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت ہودؑ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ :

مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَۃٍ وَّ مَا نَحْنُ بِتَارِکِیْٓ اٰلِھَتِنَا عَنْ قَوْلِکَ وَ مَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْنَO (ھود۱۱:۵۳) اے ہودؑ! تو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر کیوں نہیں آیا ہے اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے اور تجھ پر ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

یہ جواب سن کر حضرت ہود ؑنے بے حد دکھ اور ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

اِنِّیْٓ اُشْھِدُ اللّٰہَ وَ اشْھَدُوْٓا اَنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ O (ھود۱۱:۵۴) اور تم گواہ رہو یہ جو اللہ کے سوا دوسروں کو تم نے اُلُوہیت میں شریک ٹھیرارکھا ہے اس سے میں بے زار ہوں۔

حضرت صالح ؑاور قومِ ثمود

 قومِ ثمود اپنے زمانے کی ایک طاقت ور قوم (super power) تھی۔ اس کا رہایشی علاقہ حجازاور شام کے درمیان حجر کا علاقہ ہے، جسے ’مدین صالح‘ بھی کہا جاتاہے۔ یہ علاقہ خلیج عقبہ کے مشرق میں واقع شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔۴ قوم ثمود ایک خوش حال اور طاقت ور قوم تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو زمین کے ایک بڑے علاقے کی قیادت و سیادت عطا کی تھی اور سرسبز و شاداب باغات اور چشموں سے بھی خوب نوازا تھا، لیکن ان عنایتوں کے باوجود اس قوم میں بت پرستی نمایاں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر رحمت نازل کرکے حضرت صالحؑ کو اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور اس کی عبادت کرنے کے لیے مبعوث فرمایا ۔ حضرت صالحؑ نے بھی دیگر انبیا کرامؑ کی طرح اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی لیکن اس قوم نے اللہ کے یکتا ہونے اور اس کی بندگی کرنے سے صاف انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس منظر کو یوں بیان کیا ہے:

وَ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًام قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط ھُوَ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَکُمْ فِیْھَا فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ ط (ھود۱۱:۶۱)  اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح ؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا:   اے میری قوم کے لوگو!اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے۔ لہٰذا تم اس سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ فَاِذَا ھُمْ فَرِیقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ O ( النمل ۲۷:۴۵) ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالحؑ کو بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو۔ پھر بھی وہ دو فریق بن کر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔

حضرت ابراہیم ؑاور ان کی قوم

حضرت ابراہیمؑ کا تذکرہ قرآن مجید میں ۶۹مرتبہ آیا ہے۔ آپؑ کو خلیل اللہ بھی کہا جاتاہے۔ سرزمین حجاز انھی کی اولاد نے بسائی اور دعوت و تبلیغ کا مر کز بنایا۔ حضرت ابراہیمؑ عالم انسانیت کے ایک عظیم داعی گزرے ہیں۔ دنیاے انسانیت کو شرک و بت پرستی سے مقابلہ کرنے اور اللہ کی وحدانیت اور اس کی بندگی کی طرف بلانا آپ کی دعوت کا نمایاں پہلو تھا۔

  •  باپ کو دعوت توحید : حضرت ابراہیمؑ کا والد شرک و بت پرستی کا سب سے بڑا   علَم بردار تھا۔ اس کی بت پرستی کا عالم یہ تھا کہ پوری قوم میں اس کی مثال دی جاتی تھی۔ اسی لیے حضرت ابراہیم ؑ سب سے پہلے اپنے باپ سے مخاطب ہوئے:

اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا (مریم ۱۹: ۴۲) یاد کرو وہ وقت جب ابراہیمؑ نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں کر رہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیـںاور نہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکیں۔

حضرت ابراہیمؑ نے نہایت شفقت اور ادب و احترام کے تمام تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے باپ کو توحید کی دعوت دی۔ حضرت ابراہیمؑ کو اس کا انجام معلوم تھا اور انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس دعوت کو پیش کر کے سنگسار یا جلا وطن بھی ہونا پڑ سکتا ہے، لیکن انھوں نے کسی خوف یا دھمکی کی پروا نہیں کی بلکہ اپنے مشرک باپ کو اعتماد کے ساتھ معبودان باطل سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور صرف ایک معبود برحق کی بندگی اختیار کرنے کو کہا۔

  • قوم کو دعوتِ توحید : اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ اپنی قوم سے مخاطب ہوئے۔ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ اس طرح ہے :

اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَا تَعْبُدُوْنَ O قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَھَا عٰکِفِیْنَO (الشعراء۲۶: ۷۰-۷۱) اور انھیں ابراہیمؑ کا واقعہ بھی سنادو ، جب کہ انھوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں ۔

حضرت ابراہیمؑ اپنی قوم کو کئی سال تک توحید کی دعوت دیتے رہے اور انھیں اللہ کی بندگی اختیار کرنے پر مائل کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بت پرستی کے انجامِ بد سے بھی باخبر کرتے رہے اور وہ صاف صاف ان سے کہتے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہووہ ہرگزبھی اس قابل نہیں۔

حضرت یعقوبؑ کا اپنی اولاد کو دعوت توحید

حضرت یعقوبؑ پیغمبرانہ قوم سے تعلق رکھتے تھے اور ایک برگزیدہ پیغمبر تھے۔ ان کے والد کا نام حضرت اسحاق ؑاور ان کے دادا کا نام ابوالانبیا حضرت ابراہیمؑ تھا۔ حضرت یعقوبؑ کو    اللہ تعالیٰ نے کنعان کی طرف بھیجا تھا۔ قرآن مجید میں ان کا تذکرہ دس جگہ واردہے۔ حضرت یعقوبؑ نے اپنی پوری زندگی دعوتِ دین کی راہ میں گزاردی ۔ جب حضرت یعقوبؑ بستر مرگ پر تھے اور بچنے کی اُمید نہ تھی تو اس وقت انھوں نے اپنی اولاد کو جمع کرکے وصیت کی جس کو اللہ تعالیٰ نے  قرآن مجید میں رہتی دنیا تک کے لیے محفوظ رکھا ہے ۔قرآن مجید میں اس کا تذکرہ یوں ہے کہ جب حضرت یعقوبؑ اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو انھوں نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا: مَا تَعْبُدُوْنَ مِنم بَعْدِیْ ط؟(البقرہ۲:۱۳۳) ’’میرے بچو ! میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟‘‘ ان سب نے جواب دیا:

قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَ اِلٰہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰھًا وَّاحِدًا ج وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ O (البقرہ۲:۱۳۳) سب ایک خداکی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیم ؑ، اسماعیل ؑاور اسحاق ؑنے خدا مانا ہے اور ہم اس کے مسلم ہیں۔

مولانا امین احسن اصلاحی اس کی تو ضیح کرتے ہیں: ’’ایک شفیق و مہربان باپ، جو خدا کا ایک پیغمبر بھی ہے، اپنی اولاد سے جو عہد و اقرار اپنے بالکل آخری لمحات زندگی میں لیتا ہے، اس کے اور اس کی اولاد کے درمیان سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا واقعہ وہی عہدواقرار ہو سکتا ہے، اور باوفا اولاد کا یہ سب سے بڑا اور سب سے مقدس فرض ہے کہ وہ ہر طرح کے حالات کے اندر اس عہد کو نبھا ئے‘‘۔ ۵

حضرت یوسفؑ کا زندان کے ساتھیوں کو دعوت توحید

حضرت یوسفؑؑ کا تذکرہ قرآن مجید میں ۳۶مرتبہ آیا ہے اور ان کے نام پر قرآن مجید میں ایک پوری سورت موجود ہے جس میں تفصیل سے حضرت یوسفؑؑ کی زندگی اور ان کے دعوتی سفر کی روداد موجود ہے۔ حضرت یوسفؑؑ کے واقعے میں عظیم عبرتیں ، نصائح اور بے نظیر بصیرتیں پنہاں ہیں۔ ان کا ایک واقعہ زندان کے ساتھیوں کو دعوتِ توحید ہے۔ جب حکومت وقت نے انھیں قید خانے میں ڈال دیا تو وہاں انھوں نے اپنے دوساتھیوں کو جو ایک طویل عرصے سے جیل میں مقید چلے آرہے تھے ،دعوت توحید دی اور انھیں معبود برحق اور اس کے خالق ہونے کے متعلق تفکر و تدبر کرنے اور عقل سے کام لینے پر اُبھارا۔ قرآنِ مجید میں اس کی تفصیل یوں ہے:

یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ O مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط (یوسف ۱۲:۳۹-۴۰) اے میرے قید خانے کے ساتھیو! تم خودہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جوسب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کررہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ فرماںروائی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔

اس واقعے سے پتا چلتاہے کہ حضرت یوسفؑ نے دعوت توحید کے ضمن میں کو ئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ وہ اس کے لیے ہر وقت مواقع نکالتے رہتے تھے۔

  حضرت شعیبؑ اور اہل مدین   

  حضرت شعیبؑ کو اللہ تعالیٰ نے مدین کی طرف نبی بناکر بھیجا ۔ مدین حضرت ابراہیم ؑکے بیٹے یا پوتے کا نام تھا۔ پھر انھی کی نسل پر قبیلے کا نام مدین پڑگیا ۔ مدین کا قبیلہ بحیرہ قلزم کے  مشرقی ساحل کے ساتھ عرب کے شمال مغرب اور خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل پر اسی نام کی بستی کے آس پاس آباد تھا۔ یہ جگہ شام کے (اردن) کے متصل حجاز کی آخری حد تھی۔ مدین کا علاقہ تبوک کے بالمقابل واقع ہے۔۶ اسی قوم کو دعوت توحید اور دین حق کی آواز پہلی مرتبہ حضرت شعیبؑ کے ذریعے سے دی گئی تھی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس قوم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: شعیب ؑکے ظہور کے وقت ان کی حالت ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم کی تھی جیسی ظہور موسٰی کے وقت بنی اسرائیل کی حالت تھی۔ حضرت ابراہیمؑ کے بعد چھے سات سو برس تک مشرک اور بد اخلاق قوموں کے درمیان رہتے ہوئے یہ لوگ شرک بھی سیکھ گئے تھے اور بد خلقیوں میں مبتلا ہوگئے تھے ۔۷ حضرت شعیبؑ کی قوم میں بت پرستی کے علاوہ دوسری اخلاقی برائیاں بھی در آئی تھیں، مثلاً ناپ تول میں کمی، معاملات میں بگاڑ اور ڈاکا زنی وغیرہ ۔حضرت شعیبؑ نے اس قوم کو اللہ کی وحدانیت اور اس کی بندگی کی طرف دعوت دینے اور آخرت پر یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ ان اخلاقی برائیوں سے اجتناب کرنے کے لیے بھی کہا۔ قرآن مجید میں اس کا قصہ یوں ہے:

وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ O(العنکبوت ۲۹:۳۶) اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا ۔انھوں نے کہا: اے میری قوم کے لوگو!اللہ کی عبادت کرو اور قیامت کے دن کی توقع رکھو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔

دوسری جگہ اس کی وضاحت یوں ہے:

 وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا ط قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط قَدْ جَآئَ تْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَO (الاعراف ۷:۸۵) اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمھارے رب کی طرف سے صاف رہنمائی آئی ہے لہٰذا  وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھٹا کر نہ دو، اور زمین میں فساد نہ کرو۔ اس میں تمھاری بھلائی ہے اگر تم سچے مومن ہو۔

گویا کہ اس قوم میں دو بڑی ا خلاقی خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ ایک اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہ کرنا اور ا س کی بندگی سے منہ موڑنا اور دوسری تجارتی معاملات میں بددیانتی اور فریب کاری جنھیں حضرت شعیبؑ نے اولین فرصت میں مخاطب کیاتھا۔

حضرت موسٰیؑ اور فرعون

قرآن مجید میں انبیا کرامؑ میں سے سب سے زیادہ تذکرہ حضرت موسٰی کا ۱۳۶ مرتبہ ہوا ہے۔ حضرت موسٰی کی پرورش نہایت ہی متکبر اور دنیا کے سب سے بڑے مشرک ، کافر اور ظلم و طغیان کے سب سے بڑے علَم بردار فرعون کے گھر میں ہوئی ۔ فرعون نے ظلم و استبداد اور سرکشی میں ایسی مثال قائم کردی جس سے انسانیت آج بھی شرمسار ہے۔ اس نے زمین میں ہر طرف فساد پھیلا دیا تھا اور اس کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ اس نے اَنَـا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی (النازعات ۷۹:۲۴)کا دعویٰ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی کو فرعون کے پاس بھیجا تاکہ اس سے غرور و تکبر اور اس کے دعواے ربوبیت کا پُرزور دلائل سے توڑ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی O فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِلٰٓی اَنْ تَزَکّٰی O (النازعات۷۹: ۱۷-۱۸) تم فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہو کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کر۔

خاتم النبیین حضرت محمدؐ کی دعوت

اللہ کے آخری رسولؐ کی دعوت عالم گیر اور ہمہ گیر ہے۔ سابق انبیاے کرامؑ کی دعوت اپنی اپنی قوم اور علاقے تک محدود ہوتی تھی ، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہے۔ آپؐ کی دعوتِ توحید کے بارے میں کہا گیا ہے:

قُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج  لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ ص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ  (الاعراف۷ :۱۵۸) اے محمدؐ! کہہ دو، اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس الٰہ واحد کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں ہے۔ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمّی پر۔

جب یہ آیت فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَر نازل ہوئی تو اللہ کے رسولؐ کوہِ صفا پر چڑھ گئے اور یاصباہ کہہ کر پکارنے لگے ( یہ کلمہ عرب کی سرزمین پر اس وقت بولا جاتا تھا جب دشمن اچانک حملہ اور غارت گری کر دے ۔ اس پکار کے ذریعے سے قوم کو خبردار کیا جاتا تھا )۔ یہ پکار سن کر جب قریش کے لوگ جمع ہوگئے تو آپؐ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے عقب میں دشمن کا ایک لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے، کیا تم یقین کرلو گے؟ سب نے کہا: ہاں، یقینا ہم تصدیق کریں گے کیوں کہ آپؐ کو ہمیشہ سے ہم نے سچ بولتے ہوئے دیکھا ہے۔ آپؐ نے فرمایا :مجھے اللہ نے نذیر بناکر بھیجا ہے۔ میں تمھیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں ۔ آپؐ نے سبھی قبیلوں کا نام لے کر صدا لگائی :

  اے بنی کعب، اپنے آپ کو دوزخ سے بچائو، اے بنو مرہ بن کعب، اپنے آپ کو دوزخ سے بچائو ، اے بنو عبد شمس ،اپنے آپ کو دوزخ سے بچائو ، اے عبدالمطلب ،اپنے آپ کو دوزخ سے بچائو۔ میں اللہ کے ہاں تمھارے کوئی کام نہیں آسکوں گا ۔۸ دوسری روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ’’ موت کے بعد تمھیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے، پس  تم شرک سے باز آجائو‘‘ ۔

خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ جوبات سب سے اہم ہو اس کو انسان اپنے قریبی ساتھی، دوست، اور رشتہ دار کو باخبر کرے ۔ اس خیر خواہی کی بنیاد پر اللہ کے رسولؐ نے سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں کو اللہ کی بندگی اختیار کرنے کی دعوت دی ۔کیونکہ تعلق خاطر اور رشتہ داری کی بنیاد پر وہ اس کے زیادہ مستحق تھے کہ ان تک دعوت حق پہنچائی جائے ۔کسی بڑے مشن اور تحریک کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کے داعیوں اور علَم برداروں کو ایسے افراد مل جائیں جو ان کے مشن اور تحریک کو آگے بڑھانے میںممد و معاون ثابت ہوں ۔اسی لیے اللہ کی مشیت کے مطابق اس کے رسولؐ نے سب سے پہلے اپنے خاندان اور رشتہ داروں کو توحید کی دعوت دی۔

اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کا آغاز عقیدۂ توحید ، اللہ کی خالص بندگی اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے سے کیا تھا۔ آپؐ کو اللہ کی طرف سے یہ حکم ملا کہ:

اِنَّـآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہٗ الدِّیْنَ O(الزمر۳۹:۲) (ا ے نبیؐ) یہ کتاب ہم نے تمھاری طرف برحق نازل کی ہے لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔

دوسری آیت میں یہ ارشاد ہے :

قُلْ اِنِّیْٓ  اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ O (الزمر۳۹:۱۱) (اے نبیؐ )کہو مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اُس کی بندگی کروں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ۲۳ سالہ دعوتی سفر میں ہر فرد اور ہر قبیلے تک اللہ کا پیغام پہنچایا اور آپؐ کی دعوت کا موضوع زیادہ تر عقیدۂ توحید،اللہ کی خالص بندگی اور طاغو ت سے بے زاری کی طرف تھا۔ مثلاً آپؐ نے ایک قبیلے کو دعوت دیتے ہوے فرمایا:

یَا بَنِیْ فُلَانُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ  یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَعْبُدُوْہُ وَلَا تُشْرِکُوْابِہٖ شَیْئًا  وَأَنْ تَخْلَفُوْا مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ  ۹ اے بنی فلاں، میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتاہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھیرائو اور اللہ تعالیٰ کے سوا تمام معبودوں کو چھوڑدو۔

ابن اسحاق نے طارق کی روایت نقل کی ہے کہ طارق بن عبداللہؓ نے کہا میں نے رسولؐ اللہ کو ذوالمجاز کے قبیلے میں دیکھا ، جب کہ میں خرید و فروخت کے سلسلے میں وہاں گیا تھا۔ نبی کریمؐ ہمارے سامنے سے گزرے۔ میں نے آپؐ کو یہ فرماتے ہوے سنا: اے لوگو ! لا الہ الا اللہ کہو،    تم فلاح پاؤگے۔۱۰  اللہ کے رسولؐ نے دعوتِ توحید کو تمام کاموں پر ترجیح دی اور اسی راہ میں اپنی پوری زندگی صرف کردی ۔ اسی مقصد کی خاطر پوری صلاحیت لگا دی اور لوگوں کو اللہ سے جوڑنے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کی ۔

حاصل بحث :مذکورہ بالا تمام انبیا ؑ کا دین یا ملت ایک ہی ہے اور وہ ہے دین توحید ۔  اس دین توحید کی طرف ہر نبی اور رسول نے بلایا۔ گویا ان کی ایک ہی پکار تھی وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایک ہے اور اسی کی خالص بندگی کی جائے۔ یہی وہ پکار ہے جسے انبیاے کرامؑ نے مختلف علاقوں، زمانوں اور انسانی نسلوں تک پہنچایا۔ آخر میں خاتم النبیینؐ نے لوگوںتک دعوت توحید پہنچائی۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے عالم گیر رسول بناکر بھیجا ہے اور آپؐ کی دعوت کسی قبیلے ،علاقے یا قوم یا کسی مخصوص زمانے تک نہیں بلکہ اقوام عالم اور قیامت تک تمام انسانوں کے لیے ہے اور اسی دعوتِ حق میں تمام انسانوں کے لیے فلاح ونجات ہے۔یہ دعوت سب سے پاکیزہ اور متوازن نظام زندگی پیش کرتی ہے۔ اس سے بہتر کوئی دعوت نہیں ہوسکتی ۔اس مقدس دعوت کی آغوش میں جو شخص بھی آتا ہے اس سے بڑا کوئی خوش قسمت نہیں ہوسکتا ۔

حوالہ جات

۱-            مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی ، قصص القرآن ، (مکتبہ قاسمیہ اردو بازار لاہور )، جلد اوّل، ص۸۵

۲-            ابو الفداء اسماعیل بن کثیر ، قصص الانبیا ، (دارالحدیث القاہرہ، ۲۰۰۴  )،ص۶۰

۳-              قصص القرآن ، جلد اول، ص۱۰۴

۴-            ڈاکٹر شوقی ابو خلیل ،اطلس القرآن (اردو ترجمہ: حافظ محمد امین )، (مکتبہ دار السلام، ۱۴۲۴)، ص۶۳

۵-            مولانا امین احسن اصلاحی ، تدبر قرآن ، جلد :اول (فاران فائونڈیشن، لاہور، جون ۱۹۹۶ء)،ص ۳۴۶

۶-            اطلس القرآن ،ص۱۲۸

۷-            سیّدمودودی ، تفہیم القرآن ، (ادارہ ترجمان القرآن ، لاہور، ۲۰۰۳ء) ،جلد دوم، ص۵۴-۵۵

۸-            مسلم ، باب وَأَنذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْن

  ۹- ابن ہشام ، السیرہ النبویہ، ص ۳۸۶

۱۰-         سیرت ابن اسحاق، محمد بن اسحاق بن یسار،تحقیق و تعلیق : ڈاکٹر محمد حمیداللہ، (نئی دہلی ۲۰۰۹ء)، ص ۳۲۶