اگرچہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا تعلق کسی خاص مہینے، دن یا واقعے کا محتاج نہیں، ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا ہر دن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے زیر سایہ گزرتا ہے،لیکن بعض لمحات اور بعض دنوں میں سیرتِ اطہر کی خوش بُو چہار جانب چھائی محسوس ہوتی ہے۔
اُمتیوں کا یہ معاملہ البتہ عجیب ہے کہ ہم میں سے اکثر نے حیاتِ طیبہ کے صرف کسی ایک گوشے پر اکتفا کر رکھا ہے۔ کہیں چند اذکار اور کہیں صرف وقتی ذکر شہِ ابرار۔ کہیں اطاعت ِرسولؐ کی روح سے عاری مجالس نعت، اور کہیں صرف مخصوص وضع قطع پر اکتفا۔ پھر کھلا تضاد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو سراپا رحمت و محبت تھے، جنھوں نے بدترین منافق کو بھی بے نقاب نہیں فرمایا، اور ہم گاہے عشق و محبت کے زعم میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی واجب القتل قرار دینے پر مُصر دکھائی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے کبھی کسی نے وقار سے گرا ہوا لفظ تک نہ سنا تھا اور ہم ایک سانس میں آپؐ پر فدا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور دوسرے سانس میں غلیظ گالیوں کی بوچھاڑ شروع کر دیتے ہیں۔ آپؐ نے خون کے پیاسے قبائل کو، ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے بھائی بنادیا تھا اور ہم کسی جزوی اختلاف پر بھی اپنے بھائیوں سے جینے کا حق چھین لینا چاہتے ہیں۔ آپؐ نے پوری اُمت کو جسدِ واحد قرار دیتے ہوئے اپنے تمام مسلمان بھائیوں کی خبرگیری کا حکم دیا، ایسا نہ کرنے والوں کو سخت تنبیہ فرمائی ، اور ہم اُمت کی بات کرنے والوں پر پھبتیاں کستے ہیں۔
سیرتِ طیبہ کا یہی باب دیکھ لیجیے ہم میں سے کتنوں کو اور کتنا یاد رہتا ہے، اور سوچیے جب ایک جانب مشرکینِ مکہ کے مظالم تھے اور دوسری جانب، پہلے جناب ابو طالب اور پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کا سانحہ، جب پورا سال ہی غم کا سال قرار پایا۔ جب مشرکین مکہ کے بعد اہلِ طائف نے بھی اذیتیں پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایسے میں ربِّ ذوالجلال نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جوئی کا اہتمام فرمایا۔ کائنات کا ایک ایسا منفرد واقعہ پیش آیا کہ جو نہ پہلے کبھی وقوع پذیر ہوا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی ہوگا۔
خالقِ کائنات اپنے بندے کو مکہ سے فلسطین اور وہاں سے سفرِ معراج پر لے گیا۔ اپنی نشانیاں دکھائیں، جنت و دوزخ کے مناظر دکھاتے ہوئے اُمتیوں کے لیے نصیحت کا اہتمام فرمایا۔ آنکھوں کی ٹھنڈک (نماز) کا تحفہ عطا فرمایا اور پھر اس واقعے کو اپنی آخری کتاب کا حصہ بنادیا، تاکہ تاقیامت سیرتِ طیبہ کے اس اہم باب کی تلاوت ہوتی رہے: سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ O(بنی اسرائیل۱۷: ۱)’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اُس نے برکت دی ہے تاکہ اُسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا‘‘۔
یہ حقیقت بھی اہم تر ہے کہ سرزمینِ اقصیٰ کے مبارک ہونے کا ذکر صرف اسی آیت ہی میں نہیں، قرآن کی پانچ آیات میں کیا گیا ہے۔ ابو الانبیا حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت لوط، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت صالح، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم الصلاۃ و السلام سمیت تقریباً ۱۴ ؍انبیا اس مقدس سرزمین پر قیام پذیر رہے۔ لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو بھی داخلے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن اس نے واضح حکم الٰہی سے کھلی بغاوت کردی۔ حضرت موسٰی اپنی قوم کی نافرمانی کے باوجود اسے چھوڑ کر نہ گئے اور خود بھی اس مبارک سرزمین میں داخل نہ ہوسکے، یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہوگیا۔
سفر معراج کا ذکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس رات میں موسٰی کے پاس سے گزرا۔ و ہ سرخ ریت کے ڈھیر کے پاس اپنی قبر میں نماز ادا کررہے تھے۔ آپ لوگ میرے ساتھ ہوتے تو میں آپ کو راستے کے کنارے ان کی قبر دکھاتا۔ آپؐ کا مسجد اقصیٰ لے جایا جانا، تمام انبیا کا وہاں دوبارہ اتارا جانا اور آپؐ کی امامت میں نماز ادا کرنا، اس بات کا اعلان بھی تھا کہ اب باقی تمام شریعتیں اختتام پذیر ہوئیں۔ آپؐ کی لائی ہوئی شریعت ہی اب ان تمام تعلیماتِ الٰہیہ کا نقطۂ کمال ہے۔
مکہ میں رہتے اور مدینہ ہجرت کے ۱۷ ماہ بعد تک، اسی مبارک مسجد اقصیٰ ہی کو آپؐ اور آپؐ کے اُمتیوں کے لیے قبلہ بنائے رکھا گیا۔ اس مقدس دھرتی کی فضیلت و منزلت بتاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِی عَلَی الدِّیْنِ ظَاھِرِیْنَ لِعَدُوِّھِمْ قَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ اِلَّا مَا اَصَابَہُمْ مِنْ لَأوَاءٍ حَتّٰی یَأتِیَ أَمْرُ اللہِ وَہُمْ کَذٰلِکَ قَالُوْا وَ أَیْنَ ھُمْ؟ قَالَ بِبِیْتِ الْمَقْدِسِ وَ أَکْنَافِ بِیْتِ الْمَقْدِسِ (حالات جیسے بھی تباہ کن ہوں)،’’ میری اُمت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، اپنے دشمن کو زیر کرتا رہے گا۔ اس کی مخالفت کرنے والا کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ہاں، البتہ انھیں تکالیف پہنچتی رہیں گی۔ حتیٰ کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آجائے گا اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! وہ کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے اطراف میں‘‘۔
صدیوں کے بعد گزرتی صدیاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کرتی چلی جارہی ہیں۔ باقی تمام اَدوار چھوڑ کر صرف گذشتہ صدی پر ہی غور کرلیجیے۔ اپنے نبی کی امانت، آپؐ کے قبلۂ اوّل اور آپؐ کے فرمان کے مطابق مکہ و مدینہ کے بعد اس مقدس ترین مقام کی حفاظت کرنے والوں کے خلاف کیا کیا سازشیں نہیں ہوئیں۔ ان پر کیا کیا مظالم نہیں توڑے گئے، لیکن اہل فلسطین کے دل سے اپنے نبی کی محبت اور ان کے قبلۂ اول کی آزادی کا جذبہ چھینا نہیں جاسکا۔ آج ان حقائق کی یاددہانی کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بار پھر سازشوں کے وہی جال بنے جارہے ہیں۔
۲ نومبر ۲۰۱۷ء کو اُس ظالمانہ برطانوی اعلانِ بالفور کے ۱۰۰ سال پورے ہوئے، جس کے مطابق ہزاروں سال سے سرزمین فلسطین پر مقیم اس کے باشندوں کو بے گھر کرتے ہوئے اور دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں جمع کرکے، ایک نئی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ۱۹۱۷ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور کے اس اعلان کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی تعداد صرف ۵۵ہزار تھی۔ اس منحوس اعلان سے قبل برطانیہ نے مشرق وسطیٰ پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے جو مختلف اقدامات کیے، ان میں سرفہرست مسلمانوں کو باہم لڑانا تھا۔ حجاز کے والی شریف حسین بن علی کو لالچ دیا گیا کہ وہ اگر خلافت عثمانیہ سے بغاوت کرتے ہوئے اس منصوبے کا ساتھ دے، تو اسے پورے جزیرۂ عرب، عراق اور شام سمیت عالم عرب کے اکثر علاقوں کا تاج دار بنادیا جائے گا۔ موصوف نے ۱۵ جون ۱۹۱۶ء کو یہ اعلانِ انقلاب کردیا۔ مسلمانوں کی قوت تقسیم اور کمزور ہوئی تو دسمبر ۱۹۱۷ء تک سرزمین فلسطین پر برطانوی قبضہ مکمل ہوگیا۔ برطانوی افواج کا سربراہ جنرل ایلن بی (Allenby )سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبر کے پاس پہنچا اور اس پر پاؤں رکھتے ہوئے بولا: ’’آج صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہوگیا‘‘۔ گویا یہ سارا منصوبہ بیت المقدس پر قبضے کے لیے لڑی جانے والی ۸۰۰ سالہ صلیبی جنگوں ہی کا تتمہ تھا۔
ایک طرف یہ سامراجی منصوبہ ساز اور شریف مکہ جیسے ان کے ہم نوا مسلم حکمران تھے، اور دوسری طرف اپنا سب کچھ بیت المقدس کی آزادی کی خاطر قربان کرتے ہوئے، جدوجہد کرنے والے اہل ایمان تھے۔ ۲۷ جنوری سے ۱۵ فروری ۱۹۱۹ء تک بیت المقدس میں پہلی فلسطینی کانفرنس ہوئی۔ شرکا نے بلاد الشام (موجودہ فلسطین، شام، لبنان، اُردن اور عراق) کی تقسیم اور اس پر قبضہ مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ موسیٰ الحسینی اور مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، نئی فلسطینی قیادت کے طور پر اُبھرے۔ فلسطین پر قبضہ کرنے کے لیے کوشاں یہودیوں کے خلاف اپریل ۱۹۲۰ء میں پہلی عوامی تحریک شروع ہوئی۔
۱۹۲۱ء میں فلسطین کے شہر یافا میں تحریک کا دوسرا دور دیکھنے کو آیا اور اگست ۱۹۲۹ء میں مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار، دیوار بُراق کی بے حرمتی کرنے پر ایک طاقت ور ’تحریک بُراق‘ دیکھنے میں آئی۔جس دوران میں ۱۳۳ یہودی مارے گئے ۳۳۹ زخمی ہوئے جواب میں برطانوی افواج نے ۱۱۶ فلسطینی شہید اور ۲۳۲ زخمی کردیے۔ ان تین عوامی تحریکوں کے بعد بیت المقدس اور گردونواح کی عرب آبادی میں جہاد فلسطین کی نئی روح پیدا ہوئی۔ شام کے چوٹی کے عالم دین عزالدین القسام اور عبد القادر حسینی نے اپنی اپنی جہادی کوششوں سے قبلۂ اول آزاد کروانے کے لیے جدوجہد کا حق ادا کیا۔
مسئلۂ فلسطین صرف وہاں کے عرب عوام کا مسئلہ نہیں تھا،صرف اہلِ فلسطین یا عرب آبادی ہی اقصیٰ کی حفاظت کے لیے کوشاں نہیں تھی، پوری مسلم دنیا اس کار جہاد میں شریک تھی۔ ۷تا ۱۷دسمبر ۱۹۳۱ء کو مفتی اعظم امین الحسینی کی سربراہی میں بیت المقدس میں پہلی اسلامی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ۲۲ ممالک کے رہنما شریک ہوئے۔ برصغیر کی نمایندگی علامہ محمد اقبال اور مولانا شوکت علی نے کی۔ لبنان کے امیر شکیب ارسلان، مصر کے علامہ محمد رشید رضا، ایران کے ضیاء الدین طباطبائی اور تیونس کے عبد العزیز الثعالبی جیسی شخصیات اس کانفرنس کی روح رواں تھیں۔ کانفرنس کے اختتام پر پورے عالم اسلام میں فلسطین کمیٹیاں بنانے اور قبلہء اول کی حفاظت کا جذبہ اُجاگر کرنے کا اعلان کیا گیا۔
فلسطین کے اندر بھی جہادی سرگرمیوں کے علاوہ پرامن عوامی جدوجہد کے مختلف مراحل سامنے آئے۔ ۲۰ ؍اپریل ۱۹۳۶ء کو فلسطینی عوام نے دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لائے جانے کے خلاف ملک گیر ہڑتال کردی۔ یہ ایک بے مثال ہڑتال تھی جو چند روز یا چند ہفتے نہیں، تقریباً چھے ماہ جاری رہی۔ اگر آس پاس کے مسلمان حکمران ایک بار پھر برطانوی احکام بجا لاتے ہوئے اپنا منفی کردار ادا نہ کرتے تو۱۷۸ روزہ یہ ہڑتال اپنے مثبت نتائج حاصل کرلیتی۔ برطانیہ نے صورتِ حال اور فلسطینی عوام کے مطالبات کا جائزہ لینے کے بہانے اکتوبر ۱۹۳۶ء میں لارڈ پِیل (Lord Peel) کی سربراہی میں رائل کمیشن بھیجا۔ کمیشن نے چھے ماہ بعد جو رپورٹ جاری کی، وہ فلسطین کی بندر بانٹ کا ایک خاکہ تھا جسے فلسطینی عوام نے فوراً مسترد کردیا۔ ایک مضبوط عوامی تحریک دوبارہ برپا ہوئی۔ اس دوران برطانوی گورنر لویس انڈریوز بھی قتل ہوگیا۔ برطانوی افواج نے یہودی ملیشیاؤںکے ساتھ مل کر ظلم کی نئی تاریخ رقم کردی۔ مفتی امین الحسینی لبنان جانے پر مجبور ہوگئے، لیکن دیگر کئی رہنما گرفتار کرکے براعظم افریقہ کے مغرب میں واقع اور بحرہند میں گھری برطانوی کالونی جزائر سیشل میں قید کردیے گئے۔ تحریکِ آزادی کا یہ مرحلہ مزید تقریباً دو سال جاری رہا۔ ایک مرحلے پر فلسطینی عوام نے کئی دیہات اور شہروں کے گردو نواح کا علاقہ آزاد کروالیا لیکن برطانیہ نے جنرل منٹگمری اور جنرل ویول سمیت چوٹی کے عسکری رہنماؤں کے ساتھ مزید کمک بھیجتے ہوئے لاتعداد فلسطینی شہری شہید کردیے۔
عوامی غیظ و غضب اور دوسری جنگ عظیم کے گہرے ہوتے ہوئے سایے کی وجہ سے برطانیہ کو مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے پر بھی مجبور ہونا پڑا۔ اس نے تقسیم کا منصوبہ معطل کردیا۔ گرفتار و ملک بدر رہنماؤں کو رہا کردیا۔ مسئلے کے حل کے لیے لندن میں گول میز کانفرنس بلائی جو ناکام رہنا تھی، اور ناکام رہی۔ مئی ۱۹۳۹ء میں قرطاس ابیض (وائٹ پیپر) جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ فلسطین کو یہودی ریاست نہیں بنانا چاہتا، عربوں اور یہودیوں کی مشترک حکومت بنانا چاہتا ہے۔ وعدہ کیا کہ وہ آیندہ دس برس کے اندر اندر ایک آزاد فلسطینی ریاست تشکیل دے گا۔ فلسطینی عوام کو ان اعلانات کی صداقت پر یقین نہیں تھا، اس لیے انھوں نے انھیں مسترد کردیا۔ اسی دوران میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوگئی۔ مفتی امین الحسینی کئی ملکوں سے ہوتے جرمنی پہنچ گئے۔ جرمنی نے برطانیہ کے مقابلے میں فلسطینیوں کی حمایت اور امداد کا اعلان کیا۔ اسی اثنا میں صہیونی قیادت نے عالمی قیادت کا مرکز امریکا منتقل ہوتا دیکھ کر اپنا قبلہ بھی ادھر پھیرلیا۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن دونوں پارٹیوں نے ان کی مکمل سرپرستی کی۔ ٹرومین صدر منتخب ہوا تو اس نے برطانیہ سے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے مزید ایک لاکھ یہودی فلسطین منتقل کرنے کا اعلان کردیا۔ جنگ جیتنے کے بعد برطانیہ نے بھی توقع کے عین مطابق اپنے وائٹ پیپر کی منسوخی کا اعلان واپس لے لیا۔ مسئلۂ فلسطین کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے اینگلو امریکن مشترک کونسل تشکیل دے دی گئی۔ اب امریکا اس پورے قضیے میں باقاعدہ اور براہِ راست شریک تھا۔ ۲ ؍اپریل ۱۹۴۷ء کو برطانیہ نے اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین پر ایک قرارداد پیش کی، جس نے ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو اسے منظور کرتے ہوئے، سرزمین فلسطین کے ۷ء۵۴ فی صد علاقے پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا اعلان کردیا۔
۲نومبر ۱۹۱۷ء کو کیے جانے والے برطانوی اعلان بالفور سے لے ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیلی ریاست کے باقاعدہ قیام کے اعلان تک، زمینی حقائق کیسے تبدیل کیے گئے؟ اس کا اندازہ درج ذیل اعداد و شمار سے ہوتاہے: ۱۹۱۸ء میں غیر یہودی فلسطینی آبادی ۶لاکھ سے متجاوز تھی، جب کہ باہر سے آکر بسنے والوں سمیت یہودیوں کی کل تعداد ۵۵ ہزار تھی جو آبادی کا ۴. ۸ فی صد تھے اور ان کے پاس فلسطین کا ۲ فی صد علاقہ تھا۔ ۱۹۴۸ء تک ان کی تعداد ۶لاکھ ۴۶ ہزار ہوچکی تھی، اور وہ کل آبادی کا ۷ء۳۱ فی صد تھے۔ انھوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے ۶ فی صد رقبہ حاصل کرلیا تھا۔ اس وقت بھی فلسطینیوں کی تعداد ۱۳ لاکھ ۹۰ ہزار تھی جو کل آبادی کا ۳ء۶۸ فی صد رہ گئے۔ لیکن اقوام متحدہ نے ۶ فی صد رقبہ رکھنے اور باہر سے آکر ایک پرائے ملک پر قابض ہونے والے ۷ء۳۱ فی صد یہودیوں کو تقریباً ۵۵ فی صد رقبہ عطا کردیا۔
تقسیم سرزمین اقصیٰ کا اعلان ہونے پر فلسطینی عوام نے احتجاج کیا تو جواب میں ان کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا گیا۔ بدقسمتی سے کسی پڑوسی عرب ریاست یا حکومت نے ان کی کوئی مدد نہ کی۔ سب نے بہانہ بنایا کہ جب اعلان کے مطابق ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو برطانوی افواج یہاں سے نکل جائیں گی، تو اس وقت وہ فلسطینی عوام کی مدد کریں گے۔ فلسطینی عوام نے خود ہی اپنے نبیؐ کی امانت کی حفاظت کا فیصلہ کیا۔ پڑوسی علاقوں (بالخصوص مصر سے) عوام ان کی جو مددکرسکتے تھے وہ انھوں نے کی۔ الاخوان المسلمون کے بانی حسن البنا اور ان کی جماعت، اہل فلسطین کی مدد کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔ اخوان کی بنیاد ۱۹۲۸ء میں رکھی گئی تھی۔ صرف ۲۰ سال بعد انھوں نے قبلۂ اوّل کی آزادی کے لیے پہلی کھیپ کے طور پر ۱۰ ہزار مجاہدین فلسطین بھیجنے کا اعلان کیا۔ مصری حکومت خود اہل فلسطین کی مدد تو کیا کرتی، اس نے اخوان کے ان فداکاروں کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کیں۔ جو اہل ایمان جاسکے، انھیں بھی جنگ بندی کے بعد ملک واپسی سے پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا۔ ساتھ ہی پورے مصر میں اخوان کے کارکنان جیلوں میں بند کیے جانے لگے۔ قبلہء اول کی آزادی کے لیے قربانیاں دینا اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی پکار پر لبیک کہنا، اتنا سنگین جرم تھا کہ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد ہی ۱۱ فروری ۱۹۴۹ء کی شام اخوان کے بانی اور مرشد عام حسن البنا کو مصری دارالحکومت قاہرہ کی ایک شاہراہ پر شہید کردیا گیا۔
۱۹۴۸ء کی اس خوفناک جنگ میں فلسطینی عوام نے عزیمت کی نئی تاریخ رقم کی۔ جنگ کے پہلے چھے ماہ تو وہ اکیلے ہی یہودی ملیشیاؤں اور ان کے عالمی سرپرستوں کے مقابل ڈٹے رہے۔ انھوں نے سرزمین فلسطین کے ۸۲ فی صد علاقے کی حفاظت کیے رکھی۔ آخرکار سات عرب ممالک کی افواج نے اہل فلسطین کی مدد کا اعلان کیا، لیکن ان کا فلسطین جانا، ان کے وہاں نہ جانے سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوا۔
ان افواج کی حقیقت اسی بات سے واضح ہوجاتی ہے کہ ان میں سے ایک ملک کی ارسال کردہ فوج کے اعلیٰ افسران میں سے ۴۵ افسر عرب نہیں برطانوی تھے۔ سات عرب ریاستوں کی افواج کی وہاں موجودگی کے دوران دسمبر ۱۹۴۸ء میں جنگ بندی کا اعلان ہوا، تو فلسطین کا ۷۷ فی صد علاقہ یہودی افواج کے ہاتھ دیا جاچکا تھا۔ اس دوران ۱۳ لاکھ ۹۰ہزار فلسطینیوں میں سے ۸ لاکھ شہری زبردستی ملک بدر کردیے گئے۔ مزید ۳۰ ہزار سے زائد ملک کے اندر مہاجر ہوگئے۔ ساڑھے چار ہزار سال سے وہاں آباد ایک پوری قوم سے ان کے آباو اجداد کی سرزمین چھین لی گئی۔ مسلمانوں سے ان کا قبلۂ اول اور عیسائیوں سے ان کے مقدس مقامات چھین لیے گئے۔( ۱۹۲۲ء میں وہاں عیسائیوں کی تعداد ۷۱ ہزار ۶۴۶ تھی)۔ ان کے گھر اور بستیاں مسمار کرکے وہاں یہودی بستیاں تعمیر کی جانے لگیں۔ ۱۴ نومبر ۱۹۷۳ء کو شائع ہونے والے برطانوی اخبار دی گارڈین میں اسرائیلی فوج کے سربراہ، اور وزیر دفاع موشے دایان (Moshe Dayan) نے اعتراف کیا کہ ’’اس ملک میں ایک بھی یہودی بستی ایسی نہیں ہے، جو کسی نہ کسی عرب آبادی کے اوپر تعمیر نہ کی گئی ہو‘‘۔
۱۹۴۸ء میں اہل فلسطین پر مسلط کی جانے والی جنگ آخری جنگ نہیں تھی۔ اکتوبر ۱۹۵۶ء میں اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے مل کر دوبارہ جنگ چھیڑ دی۔ غزہ کی پٹی اور مصری صحراے سینا پر قبضہ جمالیا اور پھر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے بعد سینا کا علاقہ خالی کردیا۔ ۵ جون ۱۹۶۷ء کی صبح اسرائیل نے مصر، اُردن اور شام پر ایک بار پھر بیک وقت اور اچانک حملہ کرتے ہوئے بچا کھچا فلسطینی علاقہ (مغربی کنارہ ۵۸۷۸ کلومیٹر اور غزہ کی پٹی ۳۶۳ کلومیٹر) مصری صحراے سینا (۶۱ ہزار ۱۹۸ مربع کلومیٹر) شامی گولان کی پہاڑیاں (۱۱۵۰ مربع کلومیٹر) بھی قبضے میں لے لیا۔ مصر، شام اور اُردن کی تقریباً ساری فضائی قوت ان کے ہوائی اڈّوں پر ہی تباہ کردی۔ ۱۰ ہزار سے زائد مصری، ۶ ہزار اُردنی اور ایک ہزار شامی فوجی مارے گئے۔ اس جنگ کے نتیجے میں ۳لاکھ ۳۰ ہزار مزید فلسطینی شہری ملک بدر اور بے گھر کردیے گئے۔ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں صہیونی ریاست سے شام اور مصر کی چوتھی جنگ ہوئی۔ آغاز میں مصر و شام کا پلہ بھاری رہا، لیکن پھر امریکی فضائی کمک کے نتیجے میں، صہیونی افواج نہر سویز کے مغربی علاقے اور شام کی کئی نئی بستیوں پر بھی قابض ہوگئیں لیکن مجموعی طور پر اس جنگ میں صہیونی ریاست اور اس کی افواج کو بڑا دھچکا لگا۔
یہ جنگ عرب ممالک کے ساتھ صہیونی ریاست کی آخری کھلی جنگ تھی، لیکن اس کے بعد اس سے بھی زیادہ خوفناک ایک جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اس نئی جنگ میں اسرائیل کے خلاف لڑنے والے عرب ممالک، اب سرزمین اقصیٰ پر صہیونی قبضہ اور ان کی ناجائز ریاست تسلیم کرتے ہوئے خود اس کی جانب سے لڑنے لگے۔ فروری ۱۹۷۴ء میں مصر نے لڑائی ختم کرنے کا معاہدہ کیا اور ستمبر ۱۹۷۸ء میں انور السادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرتے ہوئے خطے میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ایک نئی دوڑ شروع کردی۔ وقتی طور پر عرب لیگ نے مصر کی رکنیت معطل کردی، لیکن پھر نہ صرف اس کی رکنیت بحال کی بلکہ خود بھی اسی دوڑ میں شامل ہوگئی۔ اب جس حکمران کو بھی خود اپنے عوام یا کسی برادر ملک کے خلاف سہارے کی ضرورت ہوتی، وہ قبلۂ اول پر قابض دشمن سے دوستی کے رشتے قائم کرنا شروع کردیتا۔ پہلے اس کی آب یاری خلافت عثمانیہ کے قاتل مصطفیٰ کمال پاشا اور اس کے وارث کررہے تھے، اب خطے کا سب سے اہم ملک مصر بھی ان کی صفوں میں شامل ہوگیا۔ بظاہر اس معاہدے کے نتیجے میں صحراے سینا سے صہیونی فوجوں کا انخلا ہوگیا، لیکن ایسی کڑی شرطوں کے ساتھ کہ گویا وہاں موجود مختصر سی مصری افواج عملاً اسرائیلی افواج کے ماتحت کام کررہی ہوں۔ مصر کے بعد اُردن بھی اسی روسیاہی کا شکار ہوا۔
اگست ۱۹۹۳ء میںکئی سال کے خفیہ مذاکرات کے بعد ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مسئلۂ فلسطین کے اکلوتے اور قانونی وارث ہونے کے دعوے دار یاسر عرفات نے امن کے نام پر ایک طویل معاہدہ کرلیا۔ اس گنجلک معاہدے کا حتمی نتیجہ یہ تھا کہ اگر باقی ماندہ فلسطینی شہری، اسرائیلی ریاست کو اپنی اطاعت کا مرحلہ وار ثبوت دیتے چلے جائیں تو آخرکار غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو بعض اختیارات دے دیے جائیں۔ اس معاہدے کا سب سے قبیح پہلو یہ تھا کہ اس میں مذکورہ چند موہوم وعدوں کی قیمت پر پہلے ہی ہلے میں سرزمینِ اقصیٰ کے ۷۷ فی صد سے زائد علاقے پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کرلیا گیا تھا۔ سب سے اہم اور حساس معاملے، یعنی بیت المقدس کے مستقبل کو تمام مذاکرات سے خارج کرتے ہوئے، بعد کے کسی مرحلے کے لیے اُٹھا رکھا گیا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی نے نہ صرف یہ عہد کیا کہ وہ آیندہ کبھی اسرائیل کے خلاف قوت کا استعمال نہیں کرے گی، بلکہ یہ معاہدہ بھی کیا کہ اگر کوئی بھی فرد یا گروہ ایسا کرے گا، تو فلسطینی اتھارٹی اس کا قلع قمع کرے گی۔ مزید ذلت آمیز شرط یہ رکھی گئی کہ اسرائیلی افواج جب چاہیں گی فلسطینی علاقوں میں آکر کارروائیاں کرسکیں گی۔ ان کے آنے پر فلسطینی اتھارٹی کی پولیس یا فوج کے تمام افراد ان کے راستے سے روپوش ہوجائیں گے۔ اگر کبھی ایسی صورت پیدا ہوگئی کہ اسرائیلی فوجی اتنی اچانک آجائیں کہ وہاں سے نکلنا ممکن نہ ہو تو فلسطینی سپاہی اپنا اسلحہ زمین پر رکھ کر دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجائیں گے تاآنکہ اسرائیلی وہاں سے چلے جائیں۔ اس معاہدے میں دنیا بھر کی خاک چھاننے پر مجبور کردیے جانے والے فلسطینی مہاجرین (اب تک جن کی تعداد ۷۰ لاکھ تک پہنچ چکی ہے) کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔ گویا وہ لاوارث اب اپنی سرزمین پر واپسی کا خواب تک بھی نہ دیکھیں۔ فلسطینی علاقوں میں مسلسل تعمیر کی جانے والی یہودی بستیوں کے بارے میں بھی چپ سادھے رکھی گئی۔
مکمل طور پر اسرائیلی رحم و کرم پر جینے والی اس اتھارٹی کا سب سے بنیادی مقصد فلسطینی عوام میں روز افزوں تحریک انتفاضہ کو کچلنا رہ گیا۔ یعنی جو کام خود صہیونی افواج انجام نہیں دے سکی تھیں، وہ اب خود فلسطینی عوام سے کروایا جانے لگا۔ اس ذمہ داری کے لیے محمد دحلان نامی شخص کا انتخاب بھی خود ہی کردیا گیا۔ موصوف نے مغربی کنارے اور غزہ میں جاسوسی، جیل خانوں اور اذیت گاہوں کا ایک وسیع نظام قائم کردیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں تحریک مزاحمت و آزادی کے کئی اہم ترین رہنما شہید ہوگئے اور بڑی تعداد میں گرفتار۔ یہ تمام جتن کرنے کے باوجود بھی اہل فلسطین کے دل سے سرزمین اقصیٰ آزاد کرنے کا جذبہ ختم نہ کیا جاسکا۔
سال ۲۰۰۰ء میں اس حقیقت کا بے مثال ثبوت ایک بار پھر پوری قوت سے ساری دنیا کے سامنے آگیا۔ متعصب صہیونی جماعت لیکوڈ پارٹی کے سربراہ اور ۱۹۸۲ء میں لبنان کے فلسطینی کیمپوں صبر ا، شاتیلا میں خوفناک قتل عام کروانے والے سابق وزیر دفاع آرییل شارون نے اعلان کردیا کہ ’’اسرائیل ایک ناقابل تسخیر حقیقت ہے۔ یروشلم (بیت المقدس) سمیت اس کی ساری سرزمین ہماری ہے اور میں اس حقیقت کا اعلان کرنے کے لیے مسجد اقصیٰ میں جاؤں گا۔ اسرائیلی حکومت نے اس اعلان کی تائید کی اور شارون کی مدد کرنے کے لیے ۶۰۰ مسلح افراد اس کے ہمراہ بھیج دیے۔ اس نے ۲۸ ستمبر ۲۰۰۰ء کو اس ناپاک جسارت کا ارتکاب کیا تو پوری فلسطینی قوم بپھر کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ انتفاضۂ اقصیٰ شروع ہوگیا جو تقریباً ۵ برس تک جاری رہا۔ اس دوران صہیونی افواج نے ممنوعہ ہتھیاروں سمیت ہر ہتھکنڈا استعمال کرکے دیکھ لیا۔ ساڑھے چار ہزار شہری جن میں سیکڑوں بچے اور خواتین بھی شامل تھے شہید کردیے لیکن ان جرائم کے نیتجے میں مسجد اقصیٰ سے اُمت مسلمہ کی محبت و تعلق تو کیا کم ہوتا، ناجائز صہیونی ریاست اور اس کے سرپرست امریکا کا اصل چہرہ ان کے سامنے مزید بے نقاب ہوگیا۔
اس دوران کئی دیگر اہم واقعات بھی پیش آئے۔ یاسر عرفات اب نہ صرف مزید کسی کام کا نہ رہا تھا بلکہ اب وہ اوسلو معاہدے میں زینت کے لیے رکھی گئی شقوں پر عمل بھی چاہتا تھا، علاج کے بہانے اسے فرانس لے جاکر زہر دے دیا گیا۔ ۱۱ نومبر ۲۰۰۴ء کو وہ دنیا سے چلے گئے۔ ان سے پہلے ۲۲ مارچ ۲۰۰۴ء کو تحریک حماس کے بانی اور فلسطین میں نسل نو کے روحانی رہنما، شیخ احمد یاسین کو بھی نماز فجر کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے ڈرون حملے سے شہید کردیا گیا۔ اگلے ہی ماہ ۱۷؍اپریل ۲۰۰۴ء کو ان کے جانشین ڈاکٹر عبد العزیز رنتیسی بھی ایسے ہی ایک حملے کی نذر ہوگئے۔ اسی سال دیگر کئی جماعتوں کے اہم قائدین بھی شہید کردیے گئے۔
یاسر عرفات کے بعد محمود عباس (ابو مازن) نے ان کی جگہ سنبھالی۔ ان کا بنیادی فلسفہ ہی ’عسکریت‘ یعنی آزادیِ اقصیٰ کے لیے مسلح جہاد کا خاتمہ تھا۔ انھوں نے ذمہ داری سنبھالتے ہی کئی دیگر اقدامات کے علاوہ بلدیاتی اور پارلیمانی انتخابات کا اعلان بھی کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ شہادتوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ تحریک حماس (فلسطینی اخوان) جہاں اپنے عسکری بازو عزالدین القسام بریگیڈ کی وجہ سے سب سے مؤثر جہادی گروہ ہے، وہیں وہ فلسطینی عوام کے اعتماد و حمایت کی حامل اہم ترین جماعت بھی ہے۔ مختلف مشاورتوں کے بعد انھوں نے ۲۰۰۵ء کے بلدیاتی اور ۲۰۰۶ء کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ نتائج آئے تو پوری دنیا کے لیے حیران کن تھے۔ ۱۳۲ کے ایوان میں حماس کو ۷۸ اور محمود عباس کی جماعت الفتح کے تمام دھڑوں کے مشترکہ پینل کو ۴۵ نشستیں حاصل ہوئیں۔ اسرائیل کے لیے حماس کی یہ جیت تحریک انتفاضہ سے بھی بڑا زلزلہ ثابت ہوئی۔ حماس نے اکیلے حکومت سازی کے بجائے ہر ممکن قربانی دے کر بھی قومی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن نہ صرف ان کی تمام کوششیں ناکام بنادی گئیں، بلکہ نومنتخب حکومت کی راہ میں رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے کر دیے گئے۔
انتخابات ہوجانے کے دو ہفتے بعد بھی اسی پرانی اسمبلی کا اجلاس بلاکر اہم دستوری ترامیم کردی گئیں۔ تمام تر اختیارات منتخب حکومت کے بجاے صدر کو منتقل کردیے گئے۔ نومنتخب پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا تو کچھ عرصے بعد ہی اس کے سپیکر سمیت کئی ارکان اسمبلی کو اسرائیلی افواج یا فلسطینی انتظامیہ نے گرفتار کرلیا۔ ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرلیا۔ ۲۰۰۷ء میں یہ محاصرہ شدید تر ہوگیا۔ تین اطراف سے اسرائیل کا محاصرہ تھا، چوتھی جانب سے مصر نے بھی اس سے زیادہ سخت حصار کرلیا تھا۔
محمود عباس نے بھی منتخب حکومت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے غزہ کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۲ء میں اسرائیل نے غزہ پر خوفناک جنگ مسلط کردی۔ کیمیائی ہتھیار تک استعمال کرڈالے۔ غزہ کے عوام سے صرف ایک مطالبہ کیا جارہا تھا کہ وہ حماس کا ساتھ چھوڑتے ہوئے، مسجد اقصیٰ سے دست بردار ہوجائیں اور اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ ایسے کڑے حصار اور پے در پے جنگوں کے بعد غزہ میں محصور ۸ لاکھ سے زائد انسانوں کا زندہ بچ جانا بھی ایک معجزہ ہوتا۔ لیکن وہ نہ صرف زندہ رہے، بلکہ انھوں نے حماس کا ساتھ چھوڑنے سے بھی انکار کردیا۔
۲۰۱۶ء سے آج ۲۰۱۷ء تک یہ محاصرہ اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ جاری ہے۔ اس دوران ۲۰۱۱ء میں عالم عرب کی عوامی تحریکوں کے نتیجے میں مصر سمیت کئی ملکوں سے آمریت کا عارضی خاتمہ ہوا۔ مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کا ایک سالہ دور اقتدار (جون ۲۰۱۲ء - جولائی ۲۰۱۳ء) ہی ایسا گزرا کہ مصر نے اہل غزہ کے لیے سرحدوں اور دلوں کے دروازے کھول دیے۔ یہی اقدام صدر محمد مرسی کا سب سے بڑا جرم بن گیا اور انھیں بدترین خونی فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار سے ہٹا کر جیل میں بند کردیا گیا۔ ان پر سب سے اہم الزام یہ لگایا گیا کہ انھوں نے حماس کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے ہوئے اسے اہم راز پہنچائے۔
نبی اکرمؐ کے قبلۂ اول اور سرزمین بیت المقدس پر قبضہ کرکے وہاں ایک صہیونی ریاست تشکیل دینے کے لیے پورے ۱۰۰ سال پر محیط سازشوں اور مظالم کا قدرے طویل ذکر اس لیے کیا جارہا ہے کہ آج ایک بار پھر ہم تاریخ کے ایک سنگین دوراہے پر لاکھڑے کیے گئے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ۱۰۰ سال بعد بھی وہی ہتھکنڈے، وہی سازشیں اور وہی عناصر پوری اُمت مسلمہ کی قسمت کا فیصلہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
۱۰۰ برس قبل برطانیہ نے اعلان بالفور کیا تھا، اب امریکا اس صدی کا سب سے بڑا سودا مَفقَۃُ الْقَرنْ (Deal of the Century) کرنے جارہا ہے۔ مصر کے سرکاری اخبارات میں شائع شدہ جنرل عبدالفتاح السیسی اور امریکی صدر ٹرمپ کا مکالمہ ملاحظہ فرمائیے:
السیسی: ’’آپ مجھے مسئلۂ فلسطین کے حل کے لیے صدی کی سب سے بڑی ڈیل کرنے کے لیے پوری قوت سے تیار و آمادہ پائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کام آپ ہی کرسکتے ہیں‘‘۔ صدر ٹرمپ: ’’یہ کام ہم سب مل کریں گے۔ ہم مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے اور ہماری دوستی طویل عرصے تک رہے گی‘‘۔
صدی کی سب سے بڑی یہ ڈیل کیا ہے؟ اس کی تفصیل ابھی خفیہ رکھی جارہی ہے۔ واقعات و عمل درآمد کی رفتار لیکن بہت تیز ہے۔
ابھی آپ نے پڑھا کہ مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ اُلٹنے کے بعد ان کے خلاف جو سب سے پہلا مقدمہ قائم کیا گیا، وہ ’دہشت گرد تنظیم‘ حماس کے ساتھ گٹھ جوڑ کا تھا۔ قطر سے قطع تعلق کرتے ہوئے اس پر بھی حماس کو پناہ دینے کا الزام لگایا گیا۔ کئی مغربی ممالک نے اس کانام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران میں اسی دہشت گرد حماس اور محمود عباس کی الفتح کے درمیان نہ صرف صلح کروا دی گئی کہ بلکہ اسے ایک کارنامہ قرار دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کارنامہ جنرل سیسی ہی نے انجام دیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں گیارہ سال سے جاری غزہ کے محاصرے میں مرحلہ وار نرمی کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
حماس الفتح معاہدے کا ایک فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حماس مکمل حصار اور خوفناک جنگوں کے باوجود گذشتہ گیارہ سال سے غزہ میں قائم اپنی عبوری حکومت سے دست بردار ہوگئی ہے۔ اس نے غزہ آنے جانے کے تمام راستوں سمیت امن و امان کا انتظام محمود عباس انتظامیہ کے سپرد کردیا ہے۔ البتہ اس نے جس بات سے کسی بھی صورت دست بردار نہ ہونے کا اعلان کیا ہے، وہ زیر زمین پناہ گاہیں ہیں جہاں اس نے صہیونی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا عسکری سازوسامان اور دستیاب ہتھیار رکھے ہیں۔ حماس کے اعلیٰ قائدین نے ایک ملاقات میں بتایا کہ اگرچہ اس معاہدے کے بارے میں بہت سارے خدشات پائے جاتے ہیں، لیکن ایک تو ہم اس بارے میں یکسو اور مطمئن ہیں کہ آزادیِ اقصیٰ کے لیے حاصل اور تیار کیے جانے والے ہمارے یہ ہتھیار محفوظ و مامون ہیں، دوسرے ہم اور غزہ کے عوام اس بات پر مطمئن ہیں کہ گیارہ سالہ طویل و کڑی آزمایش میں اللہ کی توفیق سے سرخرو ہوئے۔ کوئی بڑی سے بڑی آفت و ابتلا ہمیں جھکا نہیں سکی۔ اور تیسری بات یہ کہ اگر غزہ کے محصور ۹ لاکھ عوام کے دکھ اور مصائب ختم یا کم کرنے کے لیے، اپنے اصل مقاصد سے دست بردار ہوئے بغیر کوئی آبرومندانہ موقع پیدا ہورہا ہے تو ہم اسے ضائع نہیں کرنا چاہتے۔
غور کرنے کی بات البتہ یہ ہے کہ یہ صلح کروانے بلکہ اس پر اصرار کرنے والوں کے اصل اہداف کیا ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تحریک حماس اب ایک اتنی بڑی زمینی حقیقت ہے کہ مسئلۂ فلسطین کا کوئی بھی حل اس وقت تک عملاً ممکن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس میں شامل نہ ہو۔ لیکن دوسرا بلکہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ صدی کا سب سے بڑا سودا کرنے والے حماس کو بھی یقینا کسی سودے بازی یا بے دست و پا کرنے کی سازش کا شکار کرنا چاہیں گے۔ اس پورے تناظر میں ایک تیز رفتار اور اہم پیش رفت یہ ہورہی ہے کہ ایک دو نہیں، درجن بھر سے زائد مسلم ممالک، صہیونی ریاست کے ساتھ اس وقت خفیہ مذاکرات کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر دانی دانون کا ایک بیان ۲۶ نومبر کے اسرائیلی اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ اس نے انکشاف کیا ہے کہ ’’اس وقت اسرائیل ایسے ۱۲ مسلم ممالک سے خفیہ مذاکرات کررہا ہے کہ جن سے ہمارے تعلقات نہیں ہیں۔ اسرائیلی سفیر نے طنزیہ انداز میں کہا کہ: ’’اس سے پہلے یہ مسلم سفرا اسرائیلیوں کو دیکھ کر راستہ بدل لیا کرتے تھے، اب وہ ہم سے تقریباً ہفتہ وار ملاقاتوں میں مشترک منصوبوں پر گفت و شنید کرتے ہیں‘‘۔ دانون کے بقول: ’’اس وقت ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ بند کمروں میں ہونے والے یہ مذاکرات منظر عام پر کیسے لائے جائیں‘‘۔ دانون کے علاوہ کئی اسرائیلی وزرا خود وزیراعظم نتن یاہو اور فوجی سربراہ گیڈی ایزنکوٹ بھی ایسے متعدد بیانات دیتے ہوئے خطے کے کئی اہم ترین مسلم ممالک کا نام لے چکے ہیں۔
پورے منصوبے کے بارے میں اب تک نشر کی جانے والی تجاویز میں سے اسرائیلی وزیر سوشل مساوات جیلا جملیل کے بیان کی تصدیق و تائید کئی اطراف سے ہورہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’کسی فلسطینی ریاست کے قیام کی اب ایک ہی صورت ہے کہ غزہ اور مصری صحراے سینا کے ایک حصے کو ملا کر وہاں یہ مجوزہ ریاست بنادی جائے‘‘۔ ۱۱؍ نومبر کو اپنا یہ بیان دینے کے دو ہفتے بعد موصوفہ مصر کے دورے پر آئیں۔ وہ مصر میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں بھی شریک ہوئیں اور یہ مصر میں کسی اسرائیلی وزیر کی پہلی علانیہ شرکت تھی۔
خود فلسطینی صدر محمود عباس بھی اپنی تمام تر وفاداریوں کے بعد اب مختلف اطراف سے دباؤ کا شکار ہیں۔ ان سے تقاضا کیا جارہا ہے کہ وہ صدی کے اس اہم ترین فیصلے میں غیر مشروط تعاون کریں۔ محمود عباس کے ایک قریبی دوست سے ملاقات میںانھوںنے محمود عباس کا یہ جملہ دہراتے ہوئے صورتِ حال سے آگاہ کیا: ’’میں کہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ کیے جانے والے معاہدے پر الف سے یا تک عمل درآمد ہو اور آغاز الف سے کیا جائے لیکن ان کا کہنا ہے کہ معاہدہ کرو، ہم اس پر عمل بھی کریں گے لیکن اس پر عمل درآمد یا سے الف کی طرف شروع کیا جائے‘‘۔انھیں مزید دباؤ میں لانے کے لیے واشنگٹن میں ان کے دفتر کی تجدید کرنے سے انکار کیا جاچکا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس مرحلے پر ۸۲ سالہ محمود عباس بھی اپنے پیش رو یاسر عرفات کے انجام کو پہنچا دیے جائیں۔ ان کی جگہ اب محمد دحلان کو آگے بڑھایا جائے، جو محمود عباس سے سنگین اختلافات کے بعد ایک عرصے سے ابوظبی میں فعال ہیں۔ حماس الفتح حالیہ مذاکرات کے موقعے پر بھی وہ بہت متحرک دکھائی دیے۔ مصری حکومت نے حماس کے بعض ذمہ داران سے بھی ان کی ملاقات کا خصوصی اہتمام کیا۔
غیب کا علم تو صرف خالق کائنات کو ہے لیکن سرزمینِ اقصیٰ کے بارے میں ایک بار پھر بڑی سازش تیار کرنے والوں کو یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اگر گذشتہ ۱۰۰ برس سے جاری تمام تر کوششوں اور مظالم کے باوجود وہ بیت المقدس کے امین فلسطینی عوام کے دل سے آزادی کا عزم ختم نہیں کرسکے تو وہ ان شاء اللہ آیندہ بھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ آج وہ ۱۹۴۸ء کی نسبت کہیں زیادہ پُرعزم اور کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ خود مسلمان حکمرانوں کو بھی پہلے یہودی وزیراعظم بن گورین کا یہ اعلان یاد رکھنا چاہیے کہ ’’آج ہم نے یروشلم (بیت المقدس) پر قبضہ کرلیا ہے، اب ہماری اگلی منزل یثرب ہے‘‘۔ چوتھی وزیراعظم گولڈا مائیر نے سرزمینِ حجاز کی جانب رخ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’مجھے مدینہ اور حجاز سے اپنے آبا و اجداد کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ ہمارا علاقہ ہے اور ہم نے اسے واپس لینا ہے‘‘۔ حکمرانوں کو یہ حقیقت یاد رہے یا نہ رہے، مسلم اُمت اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اسی حقیقت کا اعتراف گذشتہ دنوں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے کیا ہے کہ:’’ مسلم حکمران تو ہم سے تعاون پر آمادہ ہیں، اصل رکاوٹ مسلم عوام ہیں‘‘۔ صہیونیوں کے خواب یقینا بکھرتے رہیں گے اور مسلمانانِ عالم قبلۂ اوّل سے اپنی محبت اور قبلہ و کعبہ سے وابستگی کو اپنی زندگی کا وظیفہ بنائے رکھیں گے۔ یہی چیز، مسلمانوں کے مداہنت پسند حکمرانوں کی سازشوں کو ناکام بناتی رہے گی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِی عَلَی الدِّیْنِ ظَاھِرِیْنَ لِعَدُوِّھِمْ قَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ اِلَّا مَا اَصَابَہُمْ مِنْ لَأوَاءٍ حَتّٰی یَأتِیَ أَمْرُ اللہِ وَہُمْ کَذٰلِکَ قَالُوْا وَ أَیْنَ ھُمْ؟ قَالَ بِبِیْتِ الْمَقْدِسِ وَ أَکْنَافِ بِیْتِ الْمَقْدِسِ (حالات جیسے بھی تباہ کن ہوں)، میری اُمت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، اپنے دشمن کو زیر کرتا رہے گا۔ اس کی مخالفت کرنے والا کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ہاں، البتہ انھیں تکالیف پہنچتی رہیں گی۔ حتیٰ کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آجائے گا اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔ صحابۂ کرامؓ نے پوچھا: یا رسولؐ اللہ! وہ کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے اطراف میں‘‘۔