دسمبر ۲۰۱۷

فہرست مضامین

ایک حدیث کی وضاحت

| دسمبر ۲۰۱۷ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

سوال : حدیث میں آتا ہے کہ: ’’تین قسم کے آدمی ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہیں، مگر ان کی فریاد سنی نہیں جاتی۔ ایک وہ شخص جس کی بیوی بدخلق ہو اور وہ اس کو طلاق نہ دے۔ دوسرا وہ شخص جو یتیم کے بالغ ہونے سے پہلے اس کا مال اس کے حوالے کر دے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی کو اپنا مال قرض دے اور اس پر گواہ نہ بنائے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بدخلق بیوی پر صبر کرنے کی تلقین کی ہے مگر یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے؟

جواب: اس حوالے سے مختصر گزارش یہ ہے کہ یہ حدیث پہلے المستدرک  میں آئی ہے:  [جس کے الفاظ یہ ہیں:

ثَلَاثَةٌ يَّدْعُوْنَ اللهَ فَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ، رَجُلٌ كَانَتْ تَحْتَهُ امْرَاَةٌ سَيِّئَةٌ فَلَمْ يُطَلِّقْهَا وَ رَجُلٌ كَانَ لَهٗ مَالٌ فَلَمْ يَشْهَدْ عَلَيْهِ وَ رَجُلٌ آتٰى سَفِيْهًا مَالَهٗ وَ قَدْ قَالَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ : وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمْ۔ (المستدرک، حدیث ۳۵۵۴)

تین شخص ہیں جو اللہ سے دعائیں مانگتے ہیں، مگر ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ایک وہ شخص جس کے نکاح میں بُری عورت ہو اور وہ اس کو طلاق نہیں دیتا۔ دوسرا وہ شخص کا [کسی کے ذمے] مال ہو اور وہ [کسی کو] اس پر گواہ نہیں بناتا۔ تیسرا وہ شخص جو بے وقوف کو اس کا مال دے دیتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بے وقوفوں کو ان کے مال نہ دو۔]

امام حاکمؒ نےاس کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

ھٰذَا اِسْنَادٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ وَلَمْ یُخْرِجَاہُ لِتَوْقِیْفِ اَصْحَابِ شُعْبَۃَ ھٰذَا الْحَدِیْثَ عَلٰی اَبِیْ مُوْسٰی۔ (المستدرک،۴/ ۱۴۴)

اس حدیث کی سند شیخین (یعنی بخاری و مسلم) کی شرط کے مطابق صحیح ہے، مگر انھوں نے اس کی تخریج نہیں کی ہے،کیوں کہ شعبہ (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کے شاگردوں نے اس حدیث کو ابوموسیٰ اشعریؓ پر موقوف{ FR 565 }  قرار دیا ہے۔

پھر یہی حدیث ابن جریر طبریؒ اور ابن کثیرؒ نے بھی نقل کی ہے۔ حافظ ابن کثیرؒ نے حاکم کا تبصرہ بھی نقل کیا ہے ( تفسیر القرآن العظیم، ۱/۵۹۳)۔ اسی طرح پھر جلال الدین سیوطیؒ نے الجامع الصغیر میں بھی ثبت فرمائی ہے اور الجامع الصغیر کے شارح [عبد الرؤف المناویؒ] نے اس کو تقریباً وہی درجہ دیا ہے، جو مصنف نے دیا تھا۔ (دیکھیے: فیض القدیر، ۲/ ۲۵۶)   اس کے بعد شیخ احمد بن الصدیق غماریؒ اور علامہ ناصر الدین  البانیؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (دیکھیے: الغماری کی کتاب المداوی لعلل المناوی، ۳/۲۳۶، اور البانی کی کتاب السلسلۃ الصحیحۃ، ۴/۴۲۰)۔ ان دونوں نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو مرفوع{ FR 566 } قرار دینے میں معاذ بن معاذ العنبری اکیلے نہیں ہیں، بلکہ عمرو بن حَکاّم اور دائود بن ابراہیم الواسطی بھی اس کے متابع{ FR 567 } ہیں۔ اسی طرح بعض محدثین کے نزدیک عثمان بن عمر بھی اس کے متابع ہیں۔

امام البانیؒ نے اس حدیث کی ایک اور سند کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ فَالسَّنَدُ ظَاھِرُہُ الصِّحَّۃُ (السلسلۃ الصحیحۃ ، ۴/۴۲۰)۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث مرفوع نہیں ہے، یعنی یہ نبی علیہ السلام کا فرمان نہیں ہے بلکہ ابوموسیٰ اشعریؓ کا قول ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں:

پہلی وجہ یہ ہے کہ جس دائود نے معاذ بن معاذ العنبری کی تائیدکی ہے وہ دائود وہ نہیں ہے جس کی ابو دائود طیالسیؒ نے اپنی مسند [۱/۳۴۹] میں توثیق کی ہے، بلکہ دائود بن ابراہیم ہے جوقزوین کا قاضی تھا اور یہ متروک{ FR 568 } ہے۔ دائود، جس کی طیالسیؒ نے توثیق کی ہے وہ حضرت نعمان بن بشیرؓ کے آزاد کردہ غلام سے روایات کرتے ہیں اور ان کی تائید ناقص ہے۔

پھر ان دونوں راویوں کے متن{ FR 569 } میں بھی اختلاف ہے، جیساکہ شیخ غماریؒ نے لکھا ہے:

اِلَّا اَنَّہٗ خَالَفَ فِیْ مَتْنِہٖ (المداوی ،۳/۲۳۶)

دوسری وجہ یہ ہے کہ ابونعیم کی سند کے یہ الفاظ ہیں:

ثَنَا علیُّ بنُ محمدُ بْنِ اِسماعیلَ واِبراہیمُ بنُ اسحاقَ قالا حدَّثنا ابوبکرِ بنُ خُزَیمۃَ ثَنَا محمدُ بْنُ خَلَفِ الحَدَّادیُّ ثَنَا عثمانُ وعَمْرُو بْنُ حَکَّامٍ قالا حدَّثنا شُعبۃُ فَذَکَرَہٗ وقالَ رَفَعہٗ عَمْرُو بْنُ حَکَّامٍ ثُمَّ ذَکرَ مَتْنَہٗ۔ (المداوی، ۳/۲۳۶)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف عمرو بن حکام نے اس کو ’مرفوع‘ کیا ہے اور عثمان نے اس کو موقوف روایت کیا ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ محمد بن جعفر غندر نے اس کو ’موقوف‘ روایت کیا ہے۔ شعبہ کی روایات میں وہ [غندر] سب سے زیادہ قابلِ اعتماد ہے ۔ امام ذہبیؒ نے لکھا: اَحَدُ الْاَثْبَاتِ الْمُتْقِنِیْنَ  وَلَاسِیَّمًا فِیْ شُعْبَۃَ۔ غندر اثبت [زیادہ قوی] اور متقن [ماہر] لوگوں میں سے ہے، بطورِ خاص شعبہ سے روایت کرنے میں۔ یاد رہے وہ شعبہ کا ۲۰سال شاگرد رہا۔

پھر عبدالرحمٰن ابن مہدی سے نقل کیا: غُنْدُرُ فِیْ شُعْبَۃَ اَثْبَتُ مِنِّیْ۔  یعنی محمد بن جعفر غندر شعبہ سے روایت کرنے میں مجھ سے زیادہ قابلِ اعتماد ہے۔

اسی طرح عبداللہ بن المبارک سے بطور اصول یہ بات نقل کی ہے کہ جب لوگوں کے درمیان شعبہ کی روایت کردہ حدیث میں اختلاف ہوجائے تو فیصلہ محمد بن جعفر غندر کی کتاب کا ہی ہوگا: وقال ابنُ المبارکِ اِذَ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِیْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ فَکِتَابُ غُنْدُرَ حَکَمٌ بَیْنَھُمْ (میزان الاعتدال ، ۵/۱۵)

اس لیے جب ہم ان اُمور پر غور کرتے ہیں تو یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ یہ حدیث حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ پر موقوف ہے، مرفوع نہیں ہے۔ گویا چار لوگوں نے اس حدیث کو ’موقوف‘ کیا ہے: ۱-غندر ، ۲-یحییٰ بن سعید القطان ، ۳- روح بن عبادہ، ۴- اور عثمان بن عمر بن فارس۔

یہ لوگ ان راویوں سے یاد داشت میں بہت زیادہ پختہ کار ہیں، جنھوں نے اس کو ’مرفوع‘ کہا ہے۔

شیخ ابواسحاق نے تو ذرا سخت بات کی ہے کہ وَھُمُ الَّذِیْنَ یَتَرَجَّحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ رَفَعُوا الْحَدِیْثَ فَھُمْ اَعْلٰی مِنْھُمْ ضَبْطًا وَاِتْقَانًا، خُصُوْصًا فِیْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ بَلْ لَیْسَ فِیْھِمْ مَّنْ یُّرْفَعُ لَہٗ رَأْسٌ اِلَّا مُعَاذُ الْعَنْبَرِیُّ وَقَدْ خَالَفَہٗ مَنْ ذَکَرْتُ۔  (اسعاف اللبیث فی فتاویٰ الحدیث، ۱/۲۱۶) [ان لوگوں کی راے اُن سے زیادہ وزنی ہے، جنھوں نے اس حدیث کو مرفوع کیا ہے۔ اس لیے کہ یادداشت اور پختگی میں اِن کا مقام اُن سے اونچا ہے، بطورِ خاص شعبہ سے حدیث نقل کرنے میں۔ بلکہ ان میں تو کوئی ایسا شخص بھی نہیں ہے جو قابل التفات ہو، سواے معاذ عنبری کے، اور اس کی مخالفت ان لوگوں نے کی ہے جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے۔]

 ہمارے نزدیک اگر موقوف کرنے والا فرد صرف محمد بن جعفر غندر ہوتا، تب بھی اس کا قول راجح [وزنی] ہوتا۔ کیوںکہ شعبہ سے روایت کرنے میں اتھارٹی وہ ہیں۔ مگر یہاں تو تین اور متقن [پختہ کار] راوی اس کے ساتھ ہیں۔

[چوتھی وجہ] یہ بھی ہے کہ اس حدیث میں نکارت{ FR 570 } ہے۔ اس کا اعتراف بھی اصحابِ تحقیق نے کیا ہے۔

مناویؒ نے لکھا کہ وَاَقَرَّہُ الذَّھَبِیُّ فِی التَّلْخِیْصِ لٰکِنَّہٗ  فِی الْمُھَذَّبِ  قَالَ: ھُوَ مَعَ نَکَارَتِہٖ اِسْنَادُہٗ نَظِیْفٌ (فیض القدیر، ۴/۲۵۶) [ذہبی نے تلخیص میں تو اس کو برقرار رکھا ہے، مگر مہذب میں کہا ہے کہ باوجود نکارت کے اس کی سند صاف ہے]۔

پھر عبدالرزاق مہدی نے لکھا کہ وَظَاھِرُہُ الصِّحَّۃُ لٰکِنْ اَعَلَّہُ  الْحَاکِمُ  بِاَنَّ اَصْحَابَ شُعْبَۃَ  رَوَوْہُ مَوْقُوْفًا…… ثُمَّ اِنَّ لَفْظَ الْحَدِیْثِ الْاَوَّلِ صَدْرُہٗ مُنْکَرٌ فَاِنَّ الصَّبْرَ عَلَی الْمَرْاَۃِ السَّیِّئَۃِ الْخُلْقِ فِیْہِ ثَوَابٌ عَظِیْمٌ  (تفسیر القرآن العظیم ھامش ، ۱/۵۹۳)

 یعنی [یہ حدیث بظاہر صحیح ہے، مگر امام حاکم نے اس میں یہ علت بیان کی ہے کہ شعبہ کے شاگردوں نے اس کو موقوف روایت کیا ہے] …… اس طرح  پہلی حدیث کا ابتدائی حصہ ’منکر‘ ہے کیوں کہ بدخلق عورت پر صبر کرنا بڑے ثواب کا کام ہے۔

اس کے ’منکر‘ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ سنن ابواؤد، مسنداحمد اور بیہقی میں ایک روایت وارد ہے، جس کا آخری حصہ یہ ہے:

قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللہِ! اِنَّ لِیْ اِمْرَاَۃٌ فِیْ لِسَانِھَا شَیْءٌ (یَعْنِی الْبَذَاءَۃَ) قَالَ: طَلِّقْھَا قُلْتُ: اِنَّ لِیْ مِنْھَا وَلَدًا وَلَھَا صَحْبَۃٌ ، قَالَ فَمُرْھَا (یَقُوْلُ) عِظْھَا فَاِنْ یَّکُ فِیْھَا خَیْرٌ فَسَتَقْبَلُ (البیہقی، ۷/۳۰۳)

 یعنی میں نے کہا:یارسول اللہ! میری بیوی ہے، وہ ذرا بدزبان ہے تو نبی علیہ السلام نے فرمایا: ’اسے چھوڑ دے‘۔ میں نے کہا: ’اس سے میری اولاد بھی ہے۔ پھر اس کے ساتھ رفاقت بھی رہی ہے‘۔ تو نبی علیہ السلام نے فرمایا: ’اسے وعظ و نصیحت کرلیا کرو۔ اگر اس میں کچھ خیر ہوا تو وہ اس کو قبول کرے گی‘۔

شیخ ابواسحاق کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بدزبان اور بدخلق عورت کو رکھنا جائز ہے، اِلّا یہ کہ ہم اس حدیث کو بلاضرورت و حاجت پر محمول کریں۔ مگر یہ بعید ہے کیوں کہ بندہ عموماً جب کسی عورت کو نہ چاہتے ہوئے بھی رکھتا ہے تو اس کی کوئی وجہ ہوگی: فَھٰذَا الْحَدِیْثُ یَدُلُّ عَلٰی جَوَازِ اَنْ یُّمْسِکَ الْمَرْءَۃَ السَّیِّئَۃَ الْخُلْقِ سَلِیْطَۃَ اللِّسَانِ اِلَّا  لَوْ حَمَلْنَا الْحَدِیْثَ عَلٰی غَیْرِ الضَّرُوْرَۃِ اَوِ الْحَاجَۃِ، وَفِیْہِ بُعْدٌ لِّاَنَّ الْمَرْءَ عَادَۃً لَّا یُمْسِکُ الْمَرْءَۃَ وَھُوَ کَارِہٌ اِلَّا لِمَعْنًی۔  واللہ اعلم  (اسعاف اللبیث، ۱/۲۱۷)

مگر ہم تو کہتے ہیں کہ ایسی عورت کو برداشت کرنا، اور اس کے ساتھ زندگی گزارنا ثواب کا کام ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ درج بالا حدیث نبی علیہ والسلام کا قول نہیں ہے بلکہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ پر موقوف ہے۔ اس لیے زیادہ پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ                                        اتم واحکم۔ (مولانا واصل واسطی)

الجامع الصغیر کی شرح فیض القدیر میں زیربحث حدیث کی جو تشریح کی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص اپنی بدخو بیوی کو بد دعا دیتا ہے تو وہ قبول نہیں ہوتی، اس لیے کہ اس کو اختیار ہے کہ اسے علیحدہ کردے، چنانچہ اس نے خود ہی اپنے آپ کو عذاب میں ڈالا ہوا ہے۔ [فیض القدیر ، المکتبۃ التجاریۃ، مصر، طبع اول ۱۳۵۶ھ، ۳/۳۳۶)

گویا وہ اپنے اس اختیار کو استعمال کرنے کے بجاے اسے بددعا دیتا ہے تو اسے اس کا حق نہیں پہنچتا۔ اسی طرح کی تشریح باقی دو شخصوں کے بارے میں بھی کی گئی ہے کہ وہ اگر اپنے فریق مخالف کو بد دعا دیتے ہیں تو وہ ان کے حق میں قبول نہیں ہوتی، اس لیے کہ انھوں نے خود ہی کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے۔ اس تشریح سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس حدیث کا اصل مقصد بددعا کی ممانعت ہے، نہ کہ طلاق کی ترغیب۔ اس صورت میں یہ حدیث چاہے رسولؐ اللہ کا ارشاد ہو یا حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا قول، ہر صورت میں اس کا مفہوم درست ہے۔ واللہ اعلم ![گل زادہ شیرپاؤ ]

_______________

رسائل و مسائل

مسلم سوسائٹی کا انحطاط اور اسلامی تحریک

سوال : قریب ترین تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اسلامی راسخ العقیدہ یا مغرب کی اصطلاح میں ’بنیاد پرست‘ لوگوں کی جتنی بھی تحریکیں ہیں، وہ ایک سطح تک اپنی تحریک کو کامیابی تک پہنچاتی ہیں، مگر اس کے بعد مسلم قوم پرست بلکہ صحیح معنوں میں سیکولر گروہ اس پر قابض اور حاوی ہوجاتے ہیں۔ ۲۰ویں صدی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے،  کیا اسلامی تحریکیں ہمیشہ مغرب پسند مسلم قوم پرستوں کے سامنے ایک ثانوی کردار ہی ادا کرتی رہیں گی؟

جواب :یہ ایک بڑا ہی بنیادی سوال ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مختلف وجوہ سے مغربی اقوام کے ہاتھوں معاشرے سیاسی شکست سے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ میری نگاہ میں قومی زوال کا آغاز سیاسی شکست سے منسوب کرنا درست نہیں۔ شکست بلاشبہہ ایک بُری شے ہے، مگر زندگی کے مدوجزر کا ایک لازمی حصہ بھی ہے۔ البتہ شکست کو تسلیم کرکے بیٹھ جانا موت کے مترادف ہے۔

فکری تحریکیں میدانِ جنگ میں نشیب و فراز کے علی الرغم نئی بلندیوں سے ہم کنار ہوسکتی ہیں اور تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ چیز اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ایک فکری تحریک کا شیرازہ صرف اس وقت بکھرتاہے، جب شکست اس کی قیادت اور پھر کارکنوں کے دل و دماغ پر غالب آجائے اور وہ اپنی بنیاد اور شناخت کے باب میں تشکیک ، اضمحلال یا ارتداد کا شکار ہوجائے۔ اس لیے یہ جاننا چاہیے کہ سوال میں بیان کردہ شکست کے مختلف ماڈل، مسلم معاشروں کے گوناگوں تضادات کا ایک نتیجہ اور تسلسل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تحریکات ایک بڑا ہی قابلِ قدر، تخلیقی اور ہمہ گیر شعور دینے کے باوجود ابھی تک مسلم معاشروں کو مکمل تبدیلی کی منزل سے ہم کنار نہیں کرسکی ہیں۔ البتہ اس جدوجہد میں وہ پوری لگن کے ساتھ مصروف ہیں۔

اس صبرآزما اور وقت طلب عمل کا سبب یہ ہے کہ اسلامی تحریکات نے بڑے نامساعد حالات میں کام کا آغاز کیا۔ یہ ایسا وقت تھا جب علمی، فکری، ذہنی اور اخلاقی طور پر مغربی تہذیب نے مسلمانوں پر ہمہ گیر تسلط حاصل کرلیا تھا۔ بگاڑ یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ مصر جیسے مسلم ملک میں برطانوی اقتدار کے خلاف جنگ ِ آزادی کے دوران رمضان کے مہینے میں عوام کے سامنے سعدزغلول  نے شراب پینے سے اجتناب نہ کیا،مگر پھر بھی لوگ اس کو زندہ بادکے نعروں سے ہی نوازتے رہے۔ اسی طرح نیاز فتح پوری کو تمام تر ملحدانہ نظریات کے باوجود مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملّیہ دلی میں ہیرو سمجھا جاتا رہا۔ انھی حالات کے بارے میں علامہ محمد اقبال نے کہا:

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

اس پس منظر میں تحریک اسلامی نے دنیا بھر میں مختلف قیادتوں کے تحت، مگر ایک واضح فکر کے ساتھ کام شروع کیا۔ ان کا کام دو پہلوئوں پر محیط ہے، اور دونوں نہ صرف برابر کی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ان کا اپنا اپنا مستقل کردار ہے اور ساتھ ہی ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ یعنی پہلا یہ کہ  فکر کی تشکیل نو اور نظریاتی انقلاب اور دوسرا قیادت کا انقلاب۔ اجتماعی تبدیلی بیسویں صدی کی اسلامی تحریکوں کو بھی ایک عظیم فکری چیلنج سے سابقہ درپیش تھا۔ انھیں باطل نظریات کے طلسم کو توڑنا تھا، تاکہ لوگوں کو اسلام کی حقانیت اور اسلام کے قابلِ عمل ہونے کا یقین حاصل ہو۔ دوسری فکر ان کو یہ دامن گیر تھی کہ مسلم سوسائٹی کی اعلیٰ قیادت، جس میں دانش ور، اہلِ قلم، اساتذہ اور اہل حل و عقد آتے ہیں اس کو مخاطب کیا جائے۔

لیکن، میرے خیال میں شاید اسلامی تحریکوں کی قیادتیں اس امر کا اندازہ نہ لگاسکیں کہ ملک میںقیادت اور عوام کے درمیان تعلقاتِ کار تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہم ایک تبدیل شدہ صورتِ حال میں ہیں۔ جتنا بھرپور چیلنج درپیش تھا، اس میں بہرحال جان جوکھم ، جدوجہد، ایثار اور قربانی پر اسلامی تحریکوں کو کریڈٹ جاتا ہے کہ جو کام انھوں نے کیا  وہ بڑا بنیادی اور غیرمعمولی نوعیت کا کام تھا۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ اس کے بعد پھر وہ کیفیت نہیں پیدا ہوسکی، جس کے نتیجےکے طور پر مقابل کی ساری قوتوں کو قائل کرکے ساتھ چلا جاسکے اور ہمہ گیر اجتماعی تبدیلی واقع ہو۔

یہ مثال اپنی جگہ غوروفکر کی دعوت دیتی ہے کہ اگر حضرت ابوذر غفاریؓ اسلام قبول کرتے ہیں تو پورا قبیلہ ان کے ساتھ آجاتا ہے۔ اگر طائف کے سردار اسلام قبول کرلیتے ہیں تو پورا طائف محسن عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرلیتا ہے۔ لیکن دوسری طرف مولانا شبیراحمد عثمانیؒ تو بلاشبہہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ آجاتے ہیں، مگر جمعیت العلمائے ہند نہیں آتی۔ اس اعتبار سے سیاسی و سماجی قیادت اور فکری قیادت: اسلامی تحریکات ان دونوں پہلوئوں سے آگے بڑھنے میں فیصلہ کن حد تک کامیاب نہیں رہیں۔ ابھی تک وہ اس کی transformation کو مکمل نہیں کرسکیں۔ یہی چیز ہے ایک دوراہا کہ جس پر ہمارے عوام دل سے اسلام چاہتے ہیں لیکن نہ وہ    یہ جانتے ہیں کہ اسلام کیا ہے اور نہ اخلاقی طور پر اس بات کے لیے تیار ہوسکے ہیں کہ اسلام جو مطالبات ان سے کرتا ہے اور جو تبدیلیاں وہ چاہتا ہے، انھیں یہ اپنی زندگیوں میں جاری وساری کریں۔  اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا اصل بحران یہ ہے کہ بلاشبہہ آج کا مسلمان، اسلام کے لیے جان اور مال کی قربانی دینے کے لیے تیارہے، لیکن اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ سود کھانے سے تو نہیں شرماتے، مگر سور کھانے سے ضرور نفرت کرتے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے لیے یہ ایک کھلا چیلنج اور گمبھیر سوال ضرور ہے۔

سوال : ہمارے یہاں اسلامی تحریکیں خواص کے دلوں کو اس انقلابی دعوت کی طرف نہیں پھیر سکیں۔ کیا اسلامی تحریکوں کی حکمت عملی میں کوئی خامی رہ گئی ہے؟

جواب :گذشتہ جواب میں اسی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اس وقت ہمارا سوسائٹی کا جو پاور اسٹرکچر ہے اس کو ہم نہ تو اسلام کے حقیقی تصور اور تقاضوں پر عمل درآمد کے لیے قائل کرسکے ہیں اور نہ اسے ہلا سکے ہیں اور نہ اس کی رکاوٹ کو پوری طرح عبور کرسکے ہیں۔ چنانچہ یہ ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے چاہا کہ انتخابی عمل سے ایک ایسی حیثیت اختیار کرلیں، جس میں ہم لوگوں تک اپنی بات پہنچا سکیں۔ لیکن محسوس ہوا کہ اسلامی قوتوں (اسلامی تحریکوں کا نہیں) کا تقسیم در تقسیم ہونا بلکہ متحارب ہونا، اس راہ کی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم ان تحریکوں اور تلخ حقائق سے سیکھ رہے ہیں۔ اسلامی تحریک کو یہ جمود توڑنے کے لیے مستقبل میں زیادہ Populist (مقبول عام) پالیسی اختیار کرنا پڑے گی، جس کے معنی عوام کو متحرک اور بیدار کرنا ہے۔ اس بھرپور کاوش سے پاور اسٹرکچر کو تبدیل کرنے کا عمل تیز ہوگا۔ ممکن ہے کہ اس جدوجہد کے ابتدائی مرحلے میں عوامی سطح پر متوقع ابلاغ نہ ہوسکے، لیکن اگر ہدف واضح رہے اور تنظیم میں مضبوطی رہے اور تحریکِ اسلامی کی قیادتیں نعرہ زنی سے بلند ہوکر دین پر عمل میں پختگی، علم و فکر میں گہرائی، ایمان میں راستی، مشاہدے میں وسعت اور کشادہ روی کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیں، تو پھر جہد مسلسل کے نتیجے میں ان شاء اللہ   ضرور تبدیلی آئے گی۔محض مقبولِ عام نعرے اور نری تشہیر کبھی پاے دار بنیادیں فراہم نہیں کرسکتے۔(پروفیسر خورشیداحمد)