قائد اعظمؒ نے واشگاف لفظوں میں اس حقیقت کا اظہار کیا کہ تحریک پاکستان کا مقصد صرف ’آزادی ‘ نہیں بلکہ ’اسلامی نظریہ‘ ہے۔ سیکولر تہذیب کے علَم برداروں، انگریز اور کانگریس سے اس اصول کو تسلیم کرا لینا اور مغربی تہذیب کے غلبے کے دور میں ، جو مذہب اور ریاست کی علیحدگی کے اصول پر قائم ہے، اس نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد ریاست کا قیام ملت اسلامیہ پر اللہ کا خصوصی کرم تھا۔ لیکن پاکستان میں سیکولر سوچ کا حامل ایک قلیل گروہ اس بنیاد کو کمزور اور پاکستان کے حقیقی وژن کو غبار آلود کرنے کے لیے مسلسل پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے کہ قائد اعظمؒ تو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے، اور نظریۂ پاکستان اور ’اسلام ‘ محض انتہا پسند ملاّئوں کی اختراع ہے۔ اس بات کو بعض سادہ لوح علما نے بھی قبول کر لیا کہ قائد اعظمؒ محض ایک سیاسی رہنما تھے اور ان کے پیش نظر کوئی اسلامی نظریہ نہ تھا۔
قائد اعظمؒ کی جس تقریر کی بنیاد پر ان کے تصّور ِ ریاست کو سیکولر قرار دیا جاتا ہے وہ ان کی ۱۱ ؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر ہے۔ اقتباس ملاحظہ کریں:
You are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other places of worship in this state of Pakistan.
اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں: اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں___ مزید فرمایا :
میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا نہ مسلمان ، مسلمان۔ مذہبی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، بزمِ اقبال، لاہور،جلد چہارم، ۱۹۴۶ء- ۱۹۴۸ء،ص ۳۵۹-۳۶۰ )
یہ ہیں وہ الفاظ جن کی بنیاد پر قائد اعظمؒ کے ۱۹۳۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک کے تمام ارشادات کی نفی کی جاتی ہے۔ حالانکہ یہاں ان کا مقصد غیر مسلم اقلیتوں کو اس امر کا اطمینان دلانا ہے کہ تمام غیر مسلم اقلیتوں کو اس نئی اسلامی ریاست میں عقیدہ وعبادات اور معاشرتی ومذہبی رسوم ورواج کی ادایگی کی پوری آزادی ہو گی، نیز پاکستان میں کسی کو مذہبی جبر کا اختیار نہ ہو گا۔ قائد اعظمؒ جانتے تھے کہ مسلمانوں کی اکثریت کے ملک میں قانون سازی اسلامی اقدار کو سامنے رکھ کر ہی کی جائے گی۔ چنانچہ ۱۹۴۹ء میں جب ’قرار دار ِ مقاصد‘ پاس ہوئی تو اس میں وہ تمام باتیں شامل تھیں جو کسی بھی اسلامی دستور کا حصہ ہونا چاہییں۔
اب یہ بات انصاف کے منافی ہے کہ ایک شخص کے ایک جملے یا اقتباس کو لے کر اس کے دس سالہ تمام فرمودات اور اعلانات کی نفی کر دی جائے۔ قائد اعظمؒ کے بارے میں اس بات کو تو دوست دشمن سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ہرگز دہرے کردار کے حامل سیاستدان نہ تھے۔ ایسے شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے محض لوگوں کے جذبات کو اپیل کرنے کے لیے اسلام کا نام لیا ، بہت بڑی جسارت ہے۔ ذیل میںہم قائد اعظمؒ کے ان ارشادات کو پیش کرتے ہیں، جن سے یہ بات نکھر کر سامنے آتی ہے کہ قائد اعظمؒ نہ صرف اسلام کے مکمل ضابطہ ٔ حیات ہونے اور پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے قائل تھے بلکہ وہ مغربی جمہوریت اور مغربی نظام معیشت سے نالاں تھے۔ بزمِ اقبال لاہور نے ان کے اخباری بیانات اور تقاریر اور ان کے ترجمے کو چار چار جلدوں میں شائع کیا ہے جن میں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
قائد اعظمؒ دین اسلام کو محض ایک پوجا پاٹ کا مذہب تصور نہ کرتے تھے بلکہ وہ اسے اجتماعی زندگی کا مکمل ضابطہ تصور کرتے تھے۔ وہ دین اسلام کو محض ایک مذہبی نظریہ نہیں بلکہ ایک حقیقت پسند اور عملی نظام تصور کرتے تھے۔ چنانچہ ۳فروری ۱۹۳۸ءکو طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
اسلام کے معنی صرف دین نہیں ہے۔ اسلام کا مطلب ہے ایک ضابطہ جس کا دنیا میں اور کوئی ثانی موجود نہیں ہے۔ یہ ہے ایک مکمل قانونی اور عدالتی نظام اور معاشرتی اور معاشی نظام۔ اس کے اساسی اور بنیادی اصول ہیں مساوات، اخوت اور آزادی۔
قائد اعظمؒ کے نزدیک اسلام محض روحانی نظریۂ نہیں بلکہ انفرادی واجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی نظام ہے۔ ۸ ستمبر ۱۹۴۵ء میں قائد اعظمؒ کے ’پیغام عید ‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
اسلام محض روحانی عقائد اور نظریات یا رسم و رواج کی ادایگی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور پورے مسلم معاشرے پر محیط ہے۔ زندگی کے ہر شعبے پر من حیث المجموع اور انفرادی طور پر جاری و ساری ہے۔
کیا ان خیالات کے حامل شخص کو کسی طرح بھی سیکولر کہا جاسکتا ہے اور ان خیالات کا اظہار آپ نے پاکستان کے قیام سے صرف دو سال قبل کیا ہے۔
قائد اعظمؒ بھی علامہ اقبالؒ کی طرح قرآن کو روز مرّہ کے مسائل کا حل اور اجتماعی وانفرادی زندگی کا رہنما تسلیم کرتے تھے۔ ان کی نظر میں قرآن مسلمانوں کو سماجی وسیاسی ،معاشی وعسکری، عدالتی وتعلیمی میدانوں میں، نیز مذہبی رسوم سے لے کر روز مرہ زندگی تک، روحانی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک، اخلاقیات سے لے کر جرم وسزا تک ہرمعاملے میں رہنمائی دیتا ہے۔ ۱۹۴۵ء میں اپنے ’عید کے پیغام‘ میں اس پر تفصیلی انداز سے فرمایا:
ہرمسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام صرف مذہبی اور اخلاقی اُمور تک محدود نہیں ہیں۔ گبن کے بقول: اٹلانٹک سے گنگا تک قرآن کو ایک بنیادی ضابطےکے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، نہ صرف دینیات کے اعتبا ر سے بلکہ سول اور فوجداری ضابطوں اور ایسے قوانین کے لحاظ سے جو بنی نوع انسان کے افعال اور املاک پر اللہ تعالیٰ کے غیرمبدل قوانین کے طور پر محیط ہے۔ جہلاکے سوا ہرشخص اس امر سے واقف ہے کہ قرآنِ کریم مسلمانوں کا عام ضابطۂ حیات ہے۔ ایک دینی، معاشرتی، سول، تجارتی، فوجی ، عدالتی ، فوجداری ضابطہ ہے۔ رسوم مذہب ہی سے متعلق نہیں بلکہ روزانہ زندگی سے متعلق بھی۔ روح کی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک، حقوق العباد سے لے کر فردِ واحد کے حقوق تک، اخلاقیات سے لے کر جرائم تک، اس دنیا میں سزا سے لے کر عقبیٰ میں سزا تک۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لازمی قرار دیا کہ ہرمسلمان کے پاس قرآنِ کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کرسکے۔
قائد اعظمؒ نے ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کو سبّی دربار بلوچستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطۂ حیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون (Law Giver ) پیغمبر ؐ اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے ۔
سیکولر ازم کو جس بات سے سب سے زیادہ چڑہے، وہ اجتماعی وسیاسی معاملات میں دین ومذہب کا کردار ہے ، جب کہ انسانوں کی اصلاح وتربیت کے لیے اسلام کے پیش نظر جو انقلاب برپا کرنا ہے وہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک سیاست کو دین کے تابع نہ کر دیا جائے ورنہ بقول اقبال
قائد اعظمؒ پر مخالفین نے ایک الزام یہ لگایا کہ وہ سیاست کے اندر مذہب کو لا رہے ہیں جیسے کہ آج بھی نفاذِ اسلام چاہنے والوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے۔ قائد اعظمؒ بجاے اس پر کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے ،اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے دین میں سیاست دین کے تابع ہے۔ یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا ایک بیان ملاحظہ ہو:
بہت سے لوگ ہمیں غلط سمجھتے ہیں جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں، بالخصوص ہمارے ہندو دوست۔ جب ہم کہتے ہیں کہ یہ اسلام کا پرچم ہے، تو وہ سمجھتےہیں کہ ہم سیاست میں مذہب کو داخل کر رہے ہیں___ یہ ایک حقیقت ہے جس پر ہمیں فخر ہے!
قائد اعظمؒ کے بارے میں عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ مغربی جمہوریت کے دل دادہ تھے۔ حالاںکہ جمہوریت پسند ہونے کے باوجود وہ مغربی جمہوریت سے سوفی فیصد متفق نہ تھے ۔ ان کے نزدیک ڈیمو کریسی گرگٹ کی طرح ہے جو حالات اور ماحول کے مطابق اپنا رنگ بدلتی رہتی ہے۔ ۱۱ نومبر ۱۹۳۹ء کو سول اینڈ ملٹری گزٹ میں ان کا شائع شدہ بیان ملاحظہ ہو جس میں وہ مغربی جمہوریت کے بجاے اسلامی مساوات اور آزادیِ اظہار کی تائید کرتے ہیں:
جمہوریت تخیل کے طور سے اور عمل کے اعتبار سے مختلف ہے، اور جمہوریت گرگٹ کی مانند ہے، جو ماحول کے مطابق اپنا رنگ بدلتی رہتی ہے۔ انگلستان میں جمہوریت اس وضع کی نہیں ہے جیسی کہ فرانس اور امریکا میں ہے۔ اسلام مساوات، آزادی اور اخوت کا قائل ہے، لیکن مغربی طرز کی جمہوریت کا نہیں۔
قائد اعظمؒ کس قسم کی جمہوریت چاہتے تھے وہ ہے اسلامی شورائیت ۔ چنانچہ ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کو سبّی دربار بلوچستان سے خطا ب میں فرمایا:
ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہیے۔ اسلام کا سبق ہے کہ مملکت کے امور ومسائل کے بارے میں فیصلے باہمی مشورے سے کیا کرو۔
سیکولرازم قومیت کی بنیاد رنگ، نسل، وطن اور زبان کو قرار دیتا ہے لیکن اسلام قومیت کی ان تمام بنیادوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ علی گڑھ یونی ورسٹی میں ۸ مارچ ۱۹۴۴ء کو اپنے خطاب میں فرمایا:
مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمۂ توحید ہے، نہ وطن ، نہ نسل۔ جب ہندستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہ رہا تھا، وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرّکہ کیا تھا ؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری تھی اور نہ انگریزوں کی چال___ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔
قائد اعظمؒ قومیت کے مغربی تصور کی بجاے ملّت اسلامیہ کے نظریے کے داعی تھے۔ ۲جنوری ۱۹۳۸ء کو پرچم کشائی کے بعد جلسۂ عام سے خطاب کیا جس میں عالمی ملت اسلامیہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کی جھلک نظر آتی ہے:
پرچم آپ کے وقار کی، مسلمانوں کے وقار کی اور اسلام کے وقار کی علامت ہے۔ مسلم لیگ کا پرچم اسلام کا پرچم ہے۔ یہ نئی چیز نہیں۔ یہ گذشتہ ۱۳سو برس سے موجود ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے ہم اسے فراموش کربیٹھے تھے۔ اس پرچم کو بلند کرنے کا مطلب ہے اپنے وقار کو بلند کرنا۔
قائد اعظمؒ پوری ملت اسلامیہ کی وحدت کے علَم بر دار تھے۔ New York Times میں ۱۳ فروری ۱۹۴۶ء کو قائد اعظمؒ کا ایک انٹرویو شائع ہوا۔ نامہ نگار نے قائد سے پوچھا کہ عربوں کے ساتھ آپ کی ہمدردی کا کیا تصور ہے ؟قائد اعظمؒ نے جواب دیا:
اگر برطانیہ کی جانب سے فلسطین کے متعلق قرطاس ابیض میں اعلان کردہ حکمت عملی سے انحراف ہوا تو مسلمانانِ ہند خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے، اور وہ ہرممکن طریقے سے عربوں کی حمایت کریں گے۔
’’یعنی عربوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے طاقت بھی استعمال کرنا پڑی تو کریں گے‘‘ ۔
قائد اعظمؒ جیسے ٹھنڈے دل ودماغ کے شخص کا ایسی انتہائی بات کہنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ عالم اسلام کی بقا کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔ کیا ایسی بات کوئی سیکولر لیڈر کہہ سکتا ہے ؟
قیامِ پاکستان کے بعد ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حکومت پاکستان کے اعلیٰ افسروں سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے فرمایا:
پاکستان کو معرض وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصد کے حصول کے ذریعے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایسی مملکت تخلیق کریںجہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں جو ہماری تہذیب وتمدن کی روشنی میں پھلے پھولے ۔ اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی اصولوں کو پوری طرح پنپنے کا موقع مل سکے۔
۱۳ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے اسی بات کا اعادہ کیا:
اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سر چشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھابلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھےجہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کو خطاب کرتے ہوئے اسلام کی خدمت کو اپنی زندگی کی واحد تمنّا قرار دیا ۔ ۲۱ ؍اکتوبر ۱۹۳۹ء کے روزنامہ انقلاب لاہور کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
میری زندگی کی واحد تمنّا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد وسربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غدّاری نہیں کی ۔ میں آپ سے اس کی داد اور شہادت کا طلبگار نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل ، میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں عَلمِ اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔
قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان کی صورت میں اقلیتوں کو یہ اطمینان دلایا کہ ان کے ساتھ شودروں جیسا برتائو نہیں کیا جائے گا۔ اپنے اس عہد کی تائید میں انھوں نے قرآنی تعلیمات اور اسلامی تاریخ کا حوالہ دیا ۔ ۲۹ مارچ ۱۹۴۴ء کے سول اینڈ ملٹری گزٹ میں شائع شدہ رپورٹ ملاحظہ ہو:
کوئی حکومت اقلیتوں میں احساسِ تحفظ اور اعتماد پیدا کیے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ کوئی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی جس کی حکمت عملی اور پروگرام اقلیتوں کے ساتھ غیرمنصفانہ، ناروا اور ظالمانہ ہو۔ ایک نمایندہ قسم کی حکومت کی کامیابی کی کسوٹی یہ ہے کہ اقلیتوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان کے ساتھ عادلانہ اور منصفانہ برتائو کیا جائے گا۔ اس ضمن میں ہم دنیا کے کسی مہذب ملک سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ مجھے اعتماد ہے کہ جب وقت آئے گا ہمارے وطنوں میں اقلیتیں یہ محسوس کریں گی کہ ہماری روایات، ہمارا ورثہ اور اسلام کی تعلیمات نہ صرف مناسب اور منصفانہ ہوں گی بلکہ فیاضانہ !
قائد اعظمؒ کی نظر میں مغرب کا معاشی نظام انسانیت کو خوش حال بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انھوں نے ملک کے معاشی نظام کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے سٹیٹ بنک میں ایک شعبۂ تحقیق قائم کیا۔ یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اس کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
مجھے اس بات سے بہت دل چسپی رہے گی کہ میں معلوم کرتا رہوں کہ یہ ریسرچ سیل بنکاری کے ایسے طریق کار کیوںکر وضع کرتا ہے جو سماجی ومعاشی زندگی کے اسلامی نظریات کے مطابق ہوں۔ مغربی معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ مغربی نظام انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں کش مکش اور چپقلش دُور کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر ہم نے معیشت کا مغربی نظام اختیار کیا تو عوامی خوش حالی کی منزل ہمیں حاصل نہ ہو سکے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے معاشی نظام پیش کرنا ہے جو مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر قائم ہو۔ ایسا کر کے گویا ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا فرض انجام دیں گے۔
ان خیالات کے حامل شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ پاکستان کو مغربی تصور کے مطابق سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے ، صریحاً علمی بد دیانتی ہے کہ ۳۷ء سے ۴۷ء تک ان کی ساری جدوجہد میں سواے ایک اقتباس کے کوئی ایسی بات نہیں جو بظاہر سیکولر ازم کی حمایت میں ہو ۔ اور جس جملے پر یہ ساری عمارت تعمیر کی جا رہی ہے، اس سے یہ مفہوم اصل عبارت کو سیاق وسباق سے کاٹنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
مغربی لباس میں ملبوس انگریزی میں گفتگو کرنے والا یہ شخص بظاہر بودوباش کے اعتبار سے سیکولر نظر آتا تھا، مگر اس مغربی لباس کے اندر کے انسان کو دشمن بھی اسلام کا سپاہی تصور کرتے تھے۔ ۱۹۴۶ء میں برطانوی پارلیمنٹ کا ایک دس رکنی وفد ہندستان کے سیاسی زعما کے موقف کو سمجھنے کے لیے آیا ۔ اس وفد کے ایک رکن مسٹر سورنسن نے بعد میں My Impression of India نامی کتاب لکھی جس میں اس نے ۱۰؍جنوری ۱۹۴۶ء کو قائد اعظمؒ سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے قائد اعظمؒ کو سیکولر نیا م میںرکھی ہوئی اسلام کی تلوار قرار دیا۔ الفاظ ملاحظہ ہوں:
He (Mr. Jinnah) is a sword of Islam resting in a secular scabbard.
سیکولر عناصر کا یہ کہنا بھی ایک مغالطہ آمیزی ہے کہ علما کی اکثریت نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی یا قائد اعظمؒ علما کے خلاف تھے۔ علما کے ایک طبقے نے اگر کانگریس کا ساتھ دیا تو علما و مشائخ کے ایک بڑے طبقے نے اپنے اپنے انداز میں دو قومی نظریے اور تحریک پاکستان کے فروغ کے لیے خدمات انجام دیں۔ اور اس میں ہر مسلک اور مکتب فکر کے علما نے قائد اعظمؒ کے شانہ بشانہ جدوجہد کی: مولانا شبیراحمد عثمانی ؒ، مفتی محمد شفیعؒ ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ، مولانا اطہر علیؒ، مولانا راغب احسنؒ، مولانا ابن الحسن جارچویؒ، مولانا عبدالحامد بدایونی ؒ، مولانا عبدالستار خاں نیازیؒ، پیرجماعت علی شاہؒ، پیر صاحب مانکی شریفؒ، پیر صاحب زکوڑی شریفؒ، مولانا دائود غزنویؒ وغیرہ نے عوامی سطح پر لوگوں کو تحریک پاکستان کا پشتیبان بنایا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کانگریسی علما کے متحدہ قومیت کے نعرے کو مدلل انداز میں چیلنج کیا۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے تحریک کی تائید کی۔ اسی لیے ان کے انتقال پر مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی نے قائداعظمؒ کی زیر صدارت ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ قیامِ پاکستان کے صرف چار ماہ بعد مولانا مودودیؒ سے ریڈیو پاکستان پر اسلام کے اخلاقی ، سیاسی، معاشرتی ، اقتصادی اور روحانی نظام پر تقاریر اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ قائد اعظمؒ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ان تاریخی حقائق کو جھٹلائے بغیر قائداعظمؒ کو سیکولر سٹیٹ کاحامی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ قائد اعظمؒ کے واضح نظریات اور نظریۂ پاکستان کے بارے میں نئی نسل کو ابہام اور کنفیوژن کا شکار کرنے والے ملک و قوم کی کوئی صحیح خدمت نہیں کررہے۔