نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں دُنیا کے حالات جس قسم کے تھے، اس کی نشان دہی قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے:
ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم ۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے کرتُوتوں کے سبب۔
یعنی خشکی اور تری میں فساد کی جو کیفیت پھیلی ہوئی تھی، وہ لوگوں کے اپنے اعمال اور کرتُوتوں کا نتیجہ تھی۔ اِس زمانے کی دو بڑی طاقتیں فارس اور روم جیسی کہ آج کل روس اور امریکا ہیں، باہم دست و گریباں تھیں اور اس زمانے کی پوری مہذب دُنیا میں بدامنی، بے چینی اور فساد کی کیفیت رُونما ہوچکی تھی۔ اِس لپیٹ میں خود عرب بھی آچکا تھا اور اس کی حالت ایسی تھی گویا وہ تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ قرآن میں اسی حالت کا اِشارہ ان الفاظ میں ہے:
وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ ( ٰالِ عمرٰن ۳:۱۰۳) اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے والا انسان جو عرب کی اس وقت کی حالت کو جانتا ہے، بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن نے کتنا صحیح نقشہ اس وقت کے عرب کے حالات کا کھینچا ہے۔ قبائل کے درمیان مختلف قسم کی گمراہیوں کے نتیجے میں اور جاہلی عصبیتوں کی وجہ سے اِس کثرت سے جنگیں ہوئی تھیں کہ ان میں سے بعض جنگیں سو سال تک طول کھینچ گئیں۔ اِس کیفیت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عرب کتنا تباہ و برباد ہوا ہوگا۔
پھر عرب کی اپنی آزادی کی کیفیت یہ تھی کہ یمن پر حبش کا قبضہ تھا اور باقی عرب کا کچھ حصہ ایران کے تسلط میں تھا اور کچھ رُومی اثر کے زیرنگیں۔ پوری عرب دُنیا جہالت میں ڈوبی ہوئی تھی اور اس وقت کی دو بڑی طاقتوں ایران اور روم کی وہی اخلاقی اور سیاسی حالت تھی جو آج کل امریکا اور روس کی ہے۔
اِس حالت میں، جب کہ دُنیا قبائلی عصبیتوں اور مختلف قسم کی دھڑے بندیوں میں، جن کی سربراہی ایران اور روم کر رہے تھے، بٹی ہوئی تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ وہ دنیا کے لیڈروں کی طرح کسی قبیلے کا جھنڈا لے کر نہیں اُٹھے تھے، کسی قومی نعرے پر لوگوں کو اکٹھا نہیں کیا، کوئی اقتصادی نعرہ بلند نہیں کیا۔ ان تمام چیزوں میں سے کسی کی طرف آپؐ نے دعوت نہیں دی۔
جس چیز کی آپؐ نے دعوت دی، اس کا پہلا جزو یہ تھا کہ تمام انسانوں کو دوسری تمام بندگیاں چھوڑ کر صرف ایک خدا کی بندگی کرنی چاہیے۔
آپؐ کی دعوت اللہ کی طرف تھی، یہ کہ عبادت صرف اللہ ہی کی ہونی چاہیے اور اس کے سوا آدمی کسی کو کارساز نہ سمجھے۔ آپؐ نے یہ دعوت کسی مخصوص طبقے یا قوم کو نہیں دی بلکہ تمام بنی نوعِ انسان کو دی۔ آپؐ کی دعوتِ توحید تمام بنی آدم کے لیے تھی اور آپؐ نے کسی گورے کو، کسی کالے کو، کسی عرب کو، کسی عجمی کو اس کی قومی یا علاقائی حیثیت سے نہیں پکارا بلکہ صرف ابنِ آدم کی حیثیت سے یاایھا الناس کہہ کر پکارا۔ پھر جو دعوت آپؐ نے دی، وہ بھی کوئی قومی یا علاقائی نہ تھی بلکہ اصلاح کی اصل جڑ، یعنی توحید خالص کی دعوت تھی۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ: اصل خرابی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو چھوڑ کر مختلف قسم کے خدائوں کا دامن تھام لے، اور اصل اصلاح یہ ہےکہ وہ اللہ کا بندہ بن جائے۔ اگر یہ خرابی دُور ہوگئی تو اس کی اصلاح بھی ہوجائے گی، ورنہ لاکھ جتن کے باوجود درستی اور اصلاح نہیں ہوگی۔
دوسری بات جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو توجہ دلائی، وہ آخرت کا تصور تھا۔ آپؐ نے فرد کو اس کی ذاتی حیثیت میں جواب دہ قرار دیا تاکہ ہرفرد محسوس کرے کہ اسے اپنے اعمال کی ذاتی حیثیت میں جواب دہی کرنی ہے۔ اگر اس کی قوم بگڑی ہوئی تھی تو وہ یہ کہہ کر نہیں چھوٹ سکتا کہ میرا جس قوم سے تعلق تھا، وہ گمراہ تھی۔
اس سے پوچھا جائے گا کہ اگر قوم گمراہ تھی تو تم راہِ راست پر کیوں نہ رہے، تم کیوں شُتربے مہار بنے رہے؟
آپؐ نے پہلے لوگوں کے دلوں میں توحید اور آخرت کے دو بنیادی تصورات بٹھائے اور ان کو پختہ کرنے میں برسوں محنت کی، طرح طرح کے ظلم برداشت کیے۔ آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ، لیکن آپؐ نے کسی پر ملامت نہ کی۔ اس مقصد کے لیے آپؐ نے پتھر اور گالیاں کھاکھا کر لوگوں کو سمجھایا کہ: اگر خدا اور آخرت کا تصور اِنسان میں نہیں ہے تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ جب یہ دونوں چیزیں آپؐ نے اپنی قوم کے ذہن میں بٹھا دیں ، تو پھر ان کے سامنے زندگی کا عملی پروگرام پیش کیا۔
اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ O حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ O (التکاثر۱۰۲:۱-۲) تم کو بہتات کی حرص نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ تم قبروں میں جا اُترو گے۔
یعنی آدمی کا دل دُنیا کی دولت اور کثرت سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ حدیث میں آتا ہے کہ آدمی کو دولت کی ایک وادی مل جائے تو وہ دوسری کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اِسی حرص کی اصلاح کے لیے زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کی تاکید ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جہاں زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے، وہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آدمی حلال کمائی کی فکر کرے۔ اگرچوری کرنے والا زکوٰۃ کی فکر کرے گا تو اسے خود بخود کھٹکا ہوگا کہ اس کی کمائی بھی حلال ہونی چاہیے۔ اسے حلال کی کمائی اور حلال خرچ کی عادت پڑے گی۔ و ہ دوسروں کے حقوق پہچانے گا، کیوں کہ اسے ہدایت کی گئی ہے کہ اس کی کمائی میں دوسروں کا بھی حق ہے:
وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِO(الذّٰریٰت۵۱:۱۹) اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کا بھی حق ہے۔
یہ دونوں عملی پروگرام نماز اور زکوٰۃ اِنسان کی اصلاح کی بنیاد ہیں۔ یہ چودہ سو برس پہلے کا اصلاحی پروگرام جس طرح عرب کے لیے اصلاح کا پروگرام تھا اسی طرح دُنیا بھر کے لیے اصلاح کا پروگرام ہے اور اسی طرح آج بھی انسان کی اصلاح کا پروگرام ہے۔
اگر کوئی آدمی خدا کو نہیں جانتا، آخرت سے بے خوف ہے، اس کے سامنے کوئی معاشی پروگرام رکھ دینا بے معنی ہوگا۔ خدا اور آخرت کے خوف کے بغیر کوئی سیاسی اور معاشی اِصلاح ہونہیں سکتی اور دُنیا میں جو مختلف قسم کے ظلم ہو رہے ہیں ، اُن کو دُور نہیں کیا جاسکتا۔
اللہ اور آخرت پر یقین اور جواب دہی کے خوف کے بغیر جو بھی انسان یا جماعت اصلاح کے لیے اُٹھے گی وہ اصلاح کے بجاے فساد کا موجب ہوگی۔ وہ درستی کے بجاے اُلٹا ظلم میں اضافہ کرے گی۔ جو آدمی بااختیار ہو اور بے خوف ہو وہ رشوت سے کیسے بچے گا۔ آپ لاکھ قانون بنایئے لیکن اس کی تنفیذکے لیے جس قسم کے انسان درکار ہیں وہ کہاں سے آئیں گے۔
قانون کی پوزیشن بھی یہی ہے کہ جیسے کوئی شخص نماز پر اپنے ایمان کا اعلان کرتا ہے لیکن جب اذان ہو تو وہ نماز کے لیے اُٹھے نہیں۔ زکوٰۃ کا مُدعی ہو لیکن جب طلب کی جائے تو کہے: ع
گر زر طلبی سخن دریں است
ایسے شخص کے لیے کون سی تحریک ہوگی جو اس کو اصلاح پر آمادہ کرسکے گی۔ ظاہر ہے کہ اگر اس کے دل میں کوئی خوف نہ ہوگا تو اس میں کبھی دین کے لیے حرکت نہ پیدا ہوسکے گی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انھی نکات پر مکّی دور میں لوگو ں کی اصلاح کی۔ جب آپؐ نے مکّے سے ہجرت فرمائی تو ان اصلاح یافتہ لوگوں کی ایک مختصر سی جماعت آپؐ کے ساتھ تھی۔ ان لوگوں کی تعداد بدر کے معرکے کے وقت ۳۱۳ تھی اور جب یہ اُحد میں گئے تو ان کی کُل تعداد ۷۰۰ تھی۔ یہ تعداد مادی اعتبار سے کوئی اُمیدافزا نہ تھی لیکن چونکہ یہ گروہ اِصلاح یافتہ تھا، ان کو اللہ کی وحدانیت اور آخرت پر یقینِ کامل تھا، اِس لیے وہ اپنے سے کئی گنا مخالفین پر غالب آئے اور نوسال کی مدت نہیں گزرنے پائی تھی کہ وہ پورے خطۂ عرب پر چھا گئے۔
یہ خیال نہ کیجیے کہ ان کی تلوار کی کاٹ بڑی سخت تھی کہ عرب اس کی مزاحمت نہ کرسکا اور مسخر ہوگیا۔ درحقیقت یہ ان کے ایمان و اخلاق کی طاقت تھی، جو سب کو مسخر کرگئی۔ جہاں تک جنگوں اور معرکوں کا تعلق ہے، ان میں کام آنے والوں کی کُل تعداد تاریخ سے صرف ۱۲۰۰ ملتی ہے۔ گویا تسخیر کا یہ عمل میدانِ کارزار میں نہیں ہوسکتا تھا بلکہ ساری تاثیر، ساری طاقت اور ساری قوت اس کیریکٹر کی تھی جو حضوؐر نے اپنے صحابہؓ کے اندر چار بنیادوں (توحید، آخرت، نماز اور زکوٰۃ) پر استوار کیا تھا۔ یہ اسی کیریکٹر کا نتیجہ تھا کہ عین لڑائی کے وقت بھی انھوں نے حق و انصاف کا دامن نہ چھوڑا۔ انھوں نے یہ لڑائیاں لُوٹ اور مالِ غنیمت کے لیے نہ کی تھیں بلکہ ہدایت کی روشنی پھیلانے کے لیے کیں۔ یہ سارے کرشمے اس سیرت کے تھے جو حضوؐر نے بڑی محنت سے تیار کی تھی۔ انھوں نے اگر کبھی کسی جگہ حکومت بھی کی تو لوگ ان کے اقتدار سے زیادہ ان کے کردار سے متاثر ہوئے۔
انسان کی آنکھ نے اس سے پہلے کبھی بوریا نشین حاکم نہ دیکھے تھے جنھوں نے اپنے آرام اور ٹھاٹ باٹ کی بجاے خلقِ خدا کو آرام پہنچایا۔ وہ جاگتے تھے تو لوگ سکون سے سوتے تھے۔ ان کی حکومت جسموں سے زیادہ دلوں پر تھی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تعلیم آج بھی موجود ہے۔ مسلمان آج بھی اسے اپنالیں تو ان کی حکمرانی آج بھی اسی طرح کرئہ ارض پر قائم ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ O (الانبیا ۲۱:۱۰۷)اے رسولؐ، ہم نے تجھے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
اگر کوئی شخص یہ دیکھنا چاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک انسان کے لیے کس طرح رحمت بنی تو اس بیان کے لیے ایک تقریر کیا، سیکڑوں تقریریں اور سیکڑوں کتابیں بھی ناکافی ہیں۔ انسان رحمت کے ان پہلوئوں کا شمار نہیں کرسکتا۔ اِس لیے میں آ پ کے سامنے اس رحمت کے صرف ایک پہلو کے بیان پر اِکتفا کروں گا۔ اِس زاویے سے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک ہی ہستی ہے جو انسان کے لیے حقیقتاً رحمت ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی سماج کے لیے وہ اصول پیش کیے ہیں جن کی بنیاد پر انسانوں کی ایک برادری بن سکتی ہے اور انھی اصولوں پر ایک عالمی حکومت (World State) بھی معرضِ وجود میں آسکتی ہے، اور انسانوں کے درمیان وہ تقسیم بھی ختم ہوسکتی ہے جو ہمیشہ سے ظلم کا باعث بنی رہی ہے۔
اِس نکتے کی وضاحت کے لیے میں پہلے دنیا کی مختلف تہذیبوں کے اصول بتائوں گا تاکہ تقابلی مطالعے سے یہ معلوم ہوسکے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا اصول پیش کیے تھے۔ دُنیا میں جتنی بھی تہذیبیں گزری ہیں ، انھوں نے جو بھی اصول پیش کیے ہیں، وہ انسانوں کو جوڑنے والے نہیں ہیں بلکہ پھاڑنے والے اور انھیں درندہ بنانے والے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ سب سے قدیم آریہ تہذیب کو لے لیجیے۔ وہ جہاں بھی گئے اپنے ساتھ نسلی برتری کا تصور لے کر گئے۔ وہ ایران میں رہے تب بھی اِسی تصور کے ساتھ رہے اور ہندستان میں آئے تب بھی ان کے ساتھ یہی تصور تھا۔ ان کے نزدیک برہمن سب ذاتوں سے بلندوبرتر تھا اور باقی جتنے بھی طبقات یا ذاتیں معاشرے میں پائی جاتی تھیں، سب ان سے فروتر اور کم حیثیت تھیں۔ آریہ تہذیب نے واضح طور پر انسان کو مختلف طبقوں میں تقسیم کیا اور یہ تقسیم انسانی صفات کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ پیدایش کی بنیاد پر تھی اور اس میں انسانی کوشش کو قطعاً کوئی دخل نہ تھا۔ کوشش سے کوئی شودربرہمن نہ بن سکتا تھا اور نہ کوئی ذات دُوسری ذات میں منتقل ہوسکتی تھی۔ ان کے نزدیک کچھ انسان پیدایشی طور پر برتر پیدا ہوئے تھے اور کچھ ازل ہی سے کم تر اور نیچ تھے۔
اسی اصول کو جرمنی کے قوم پرست ڈکٹیٹر ہٹلر نے اختیار کیا تھا۔ اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جرمن نسل سب سے برتر و فائق ہے۔ اور نسلی برتری کا یہی تصور یہودی ذہنیت میں بھی رچا بسا ہوا ہے۔ ان کے قانون کے مطابق جو پیدایشی اسرائیلی نہیں، وہ اسرائیلیوں کے برابر نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہودیوں کے لیے انصاف کا ترازو اور ہے اور غیر یہودیوں کے لیے اور۔ چنانچہ تالمود میں یہاں تک لکھا ہوا ہے کہ: ’اگر کسی اسرائیلی اور غیراسرائیلی کے درمیان تنازع ہوجائے تو اسرائیلی کی بہرصورت رعایت کی جائے‘۔اسی طرح یونانیوں کے اندر بھی ایک نسلی غرور پایا جاتا ہے۔ ان کی نگاہ میں :’تمام غیریونانی گھٹیا اور پست تھے‘۔
دوسری طرف آپ دیکھیے تو یہی چیز آپ کو مغربی ذہنیت میں پیوست دکھائی دیتی ہے۔ مغربی دُنیا سفید نسل کی برتری کے تصور میں مبتلا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ رنگ دار نسل سے برتر ہیں۔ اسی زعمِ باطل کا نتیجہ ہے کہ آج دُنیا ظلم و فساد میں سرتاپا ڈوبی ہوئی ہے اور صرف رنگ کی بنا پر بے حدوحساب ظلم دنیا میں توڑا جارہا ہے۔ اہلِ مغرب کے نزدیک اس تصور کا جائز ہونا تھا جس نے اُنھیں اُکسایا کہ وہ سیاہ فاموں کو افریقہ سے غلام بناکر لائیں اور بیچیں اور ان پر جس طرح چاہیں ظلم ڈھائیں، ان کے لیے حلال ہے۔ اندازہ ہے کہ پچھلی صدی میں کم از کم ۱۰کروڑ انسان غلام بنائے گئے اور ان کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک کیا گیا کہ ان میں سے صرف ۴کروڑ جاں بر ہوسکے۔
یہی ظلم مختلف علاقوں میں آج بھی انسان، انسان کے ساتھ کر رہا ہے۔
اِسی قبیل سے علاقائی قومیّت (Territorial Nationalism) کا ایک نشّہ بھی ہے۔ دُنیا کی دو بڑی جنگیں اسی تعصّب کی بنیاد پر چھڑیں۔ لیکن جیساکہ اس عصبیت نے اپنے عملی مظاہرے سے دکھا دیا ہے کہ یہ آدمیوں کو جمع کرنے والی نہیں پھاڑنے والی اور ان کو درندہ بنانے والی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی کالا گورا نہیں ہوسکتا اور کوئی غیرملکی ملکی نہیں ہوسکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آدمی اپنی وطنیت کو تبدیل کرسکے۔ وہ جہاں پیدا ہوا ہے بہرحال اسی مقام کا باشندہ ہوگا۔
یہی کیفیت خود عرب میں بھی تھی۔ قبائلی عصبیت ان لوگوں کے رگ و ریشہ میں رچی بسی ہوئی تھی۔ ہرقبیلہ اپنے آپ کو دوسرے قبیلے کے مقابلے میں برتروفائق سمجھتا تھا۔ دوسرے قبیلے کا کوئی شخص کتنا ہی نیک کیوں نہ ہوتا، وہ ایک قبیلے کے نزدیک اتنی قدر نہیں رکھتا تھا جتنا کہ ان کے نزدیک ان کا اپنا ایک بُرا آدمی رکھتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مسیلمہ کذّاب اُٹھا، تو اس کے قبیلے کے لوگ کہتے تھے کہ ہماری نگاہ میں ہمارا جھوٹا آدمی بھی قریش کے سچّے آدمی سے بہتر ہے۔
جس سرزمین میں اِنسانوں کے درمیان امتیاز نسل، قبیلے اور رنگ کی بنا پر ہوتا تھا وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پکارانسان کی حیثیت سے بلند کی۔ ایک عرب نیشنلسٹ کی حیثیت سے نہیں اور نہ عرب یا ایشیا کا جھنڈا بلندکرنے کے لیے کی تھی۔ آپؐ نے پکار کر فرمایا:
اے انسانو! میں تم سب کی طرف مبعوث ہوا ہوں۔
اور جو بات پیش کی وہ یہ کہ:
اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا، اور تم کو قبیلوں اور گروہوں میں اِس لیے بانٹا ہے کہ تم کو باہم تعارف ہو۔ اللہ کے نزدیک برتر اور عزت والا وہ ہے جو اُس سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔(الحجرات ۴۹:۱۳)
آپؐ نے فرمایا کہ تمام انسان اصل میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور اِس حیثیت سے بھائی بھائی ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق رنگ، نسل اور وطن کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔
تم کو قبائل میں پیدا کیا تعارف کے لیے۔ یعنی یہاں جو کچھ بھی فرق ہے اس سے مقصو د تعارف ہے۔ اس کی حقیقت اس کے سواکچھ نہیں کہ خاندان جمع ہوتے ہیں توایک بستی بن جاتی ہے اور بستیاں جمع ہوتی ہیں تو ایک وطن وجود میں آجاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دوسرے کو پہچاننے کے لیے ہے اور زبان میں بھی جو کچھ فرق ہے وہ صرف تعارف کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فطری فرق صرف تعارف کے لیے رکھا ہے اور یہ فرق باہمی تعاون کے لیے ہے نہ کہ بُغض، عداوت اور امتیاز کے لیے۔
اب دُنیا میں برتری کا تصور ہے تو رنگ کی بناپر، کالے یا گورے ہونے کی بنا پر لیکن اِس بناپر برتری نہیں کہ کون بُرائیوں سے زیادہ بچنے والا ہے۔ کون نیکیوں کو زیادہ اختیار کرنے والا ہے، کون اللہ سے ڈرتا ہے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کون ایشیا میں پیدا ہوا ہے، اور کون یورپ میں۔ خدا کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بتایا کہ دیکھنے کی اصل چیزیں یہ نہیں بلکہ انسان کے اخلاق ہیں۔ یہ دیکھیے کہ کون خدا سے ڈرتا ہے اور کون نہیں۔ اگر آپ کا حقیقی بھائی خدا کے خوف سے عاری ہے تو وہ قابلِ قدر نہیں ہے۔ لیکن د ُور کی قوم کا کوئی آدمی خواہ وہ کالے رنگ ہی کا کیوں نہ ہو، اگر خدا کا خوف رکھتا ہے تو وہ آپ کی نگاہ میں زیادہ قابلِ قدر ہونا چاہیے۔
حضوؐر فلسفی نہیں تھے کہ محض ایک فلسفہ پیش کردیا۔آپؐ نے اس بنیاد پر ایک اُمت بنائی اور اسے بتایا کہ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ ۲:۱۴۳)۔ اُمت ِ وسط سے مراد ایک ایسی قوم ہے جو جانب داری کے لحاظ سے نہ کسی کی دشمن ہے نہ کسی کی دوست۔ اس کی حیثیت ایک جج کی سی ہے جو ہرلحاظ سے غیرجانب دار ہوتا ہے۔ وہ نہ کسی کا دوست ہوتا ہے کہ جانب دار بن جائے، نہ دشمن ہوتا ہے کہ مخالفت میں توازن کھو دے۔ اس کا مقام یہ ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا بھی اگر کوئی جرم کردے تو وہ اسے بھی سزا دینے میں تامّل نہیں کرے گا۔ جج کی یہی حیثیت پوری اُمت کو دے دی گئی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ مسلمان قوم اُمتِ عادل ہے۔
اب یہ اُمتِ عادل بنتی کس چیز پر ہے؟ یہ کسی قبیلے پر نہیں بنتی، کسی نسل یا وطن پر نہیں بنتی۔ یہ بنتی ہے تو ایک کلمے پر، یعنی اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم تسلیم کرلو تو جہاں بھی پیدا ہوئے ہو، جو بھی رنگ ہے، بھائی بھائی ہو۔ اس برادری میں جو بھی شامل ہوجاتاہے اس کے حقوق سب کے ساتھ برابر ہیں۔ کسی سیّد اور شیخ میں کوئی فرق نہیں، اور نہ عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے۔ اِس کلمے میں شریک ہوگئے تو سب برابر۔ حضوؐر نے اسی لیے فرمایا تھا:
کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی کالے کو گورے پر فضیلت ہے نہ گورے کو کالے پر۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ تم میں سب سے زیادہ عزت پانے والا وہ ہے جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہے۔
اِسی چیز کو میں ایک واقعے سے آپ کو سمجھاتا ہوں۔
غزوئہ بنی مصطلق میں مہاجرین اور انصار دونوں شریک تھے۔ اِتفاق سے پانی پر ایک مہاجر اور انصار کا جھگڑا ہوگیا۔ مہاجر نے مہاجروں کو پکارا اور انصار نے انصار کو۔ آپؐ نے یہ پکار سنی تو غضب ناک ہوکر فرمایا:
یہ کیسی جاہلیت کی پکار ہے؟ چھوڑ دو اس متعفن پکار کو۔(مسلم:۴۷۸۸)
اِس سے آپؐ کی مراد یہ تھی کہ اگر ایک شخص دوسرے شخص پر ظلم ڈھا رہا ہے تو مظلوم کا ساری اُمت ِ مسلمہ پر حق ہے کہ وہ اس کی مدد کو پہنچے، نہ کہ کسی ایک قبیلے اور برادری کا۔ لیکن صرف اپنی ہی برادری کو پکارنا یہ جاہلیت کا شیوہ ہے۔ مظلوم کی حمایت مہاجر اور انصاردونوں پر فرض تھی۔ اگر ظالم کسی کا حقیقی بھائی ہے تو اس کا فرض ہے کہ سب سے پہلے وہ اس کے خلاف خود اُٹھے۔ لیکن اپنے گروہ کو پکارنا یہ اسلام نہیں جاہلیت ہے۔ اسلام اسی لیے کہتا ہے: کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ (النساء۴:۱۳۵)’’عدل کو قائم کرنے والے بنو‘‘۔
اس اُمت میں بلال حبشیؓ بھی تھے، سلمان فارسیؓ بھی اور صہیب رومیؓ بھی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ساری دُنیا کو اسلام کے قدموں میں لاڈالا۔ خلافت ِ راشدہ کے عہدمبارک میں ملک پر ملک فتح ہوتا چلا گیا۔ اِس لیے نہیں کہ مسلمان کی تلوار سخت تھی بلکہ اس لیے کہ وہ جس اصول کو لے کر نکلے تھے اس کے سامنے کوئی گردن جھکے بغیر نہ رہ سکتی۔ ایران میں ویسا ہی اُونچ نیچ کا فرق تھا جیساکہ عرب جاہلیت میں۔ جب ایرانیوں نے مسلمانوں کو ایک صف میں کھڑے دیکھا تو ان کے دل خودبخود مسخر ہوگئے۔ اسی طرح مسلمان مصر میں گئے تو وہاں بھی اسی اصول نے اپنا اعجاز دکھایا۔ غرض مسلمان جہاں جہاں بھی گئے لوگوں کے دل مسخر ہوتے گئے۔ اس تسخیر میں تلوار نے اگر ایک فی صد کام کیا ہے تو اس اصولِ عدل نے ۹۹فی صد کام کیا۔
آج دنیا کا کون سا خطّہ ہے جہاں مسلمان نہیں ہے۔ حج کے موقعے پر ہرملک کا مسلمان جمع ہوجاتا ہے۔ امریکا کے مسلمان نیگرو رہنما میلکم ایکس نے حج کا یہ منظر دیکھ کر کہا تھا: ’’نسلی مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے‘‘۔ صرف یہی وہ چیز ہے جس پر دُنیا کے تمام اِنسان جمع ہوسکتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ انسان کہیں بھی پیدا ہو، وہ اپنی وطنیت تبدیل نہیں کرسکتا لیکن ایک اصول کا عامل ضرور بن سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو ایک ایسا کلمہ دے دیا جس پر وہ جمع ہوسکتے ہیں اور ایک عالمی ریاست بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔
مسلمان جب بھی اس اصول سے ہٹے مار کھائی۔ اسپین پر مسلمانوں کی ۸۰۰ برس حکومت رہی۔ جب مسلمان وہاں سے نکلے تو اس کی وجہ تھی، قبائلی عصبیت کی بنا پر باہمی چپقلش۔ ایک قبیلہ دوسرے کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا اور باہم دگر لڑنے لگے۔ نتیجہ یہ ہواکہ مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی اور وہ وہاں سے ایسے مٹے کہ آج وہاں ایک مسلمان بھی دکھائی نہیں دیتا۔
اِسی طرح ہندستان میں بھی مسلمانوں کی طاقت کیوں ٹوٹی؟ ان میں وہی جاہلیت کی عصبیتیں اُبھر آئی تھیں۔ کوئی اپنے مغل ہونے پر ناز کرتا تھا تو کوئی پٹھان ہونے پر۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پہلے مرہٹوں سے پِٹے، پھر سکھوں سے پِٹے، اور آخر میں چھے ہزار میل دُور سے ایک غیرقوم آکر ان پر حاکم بن گئی۔
اسی صدی میں ترکی کی عظیم الشان سلطنت ختم ہوگئی۔ عرب ترکوں سے برسرِپیکار ہوگئے۔ عرب اپنے نزدیک اپنے لیے آزادی حاصل کر رہے تھے، لیکن ہو یہ رہا تھا کہ سلطنت ِ عثمانیہ کا جو بھی ٹکڑا ترکوں کے تسلط سے نکلتا تھا وہ یا تو انگریزوں کے قبضے میں پہنچ جاتا تھا یا فرانسیسیوں کی نذر ہوجاتا تھا۔
آج مسلمان مسلمان کو کھائے جا رہا ہـے!
اور یہی معاملہ آج بھی ہے۔ عرب عرب کو کھائے جارہا ہے۔ یمن میں اڑھائی لاکھ عرب خانہ جنگی میں مارے گئے۔ عرب اسرائیل جنگ میں بھی شکست کی یہی بڑی وجہ تھی۔ ایک زبان اور ایک نسل رکھتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے تھے۔ اُردن، شام اور لبنان پہلے ۱۹۴۸ء میں پِٹے، پھر ۱۹۵۶ء میں پِٹے اور پھر ۱۹۶۷ء میں پِٹے، حالانکہ یہ سب اورمصر جمع ہوجائیں تو اپنی تعداد اور رقبے کے لحاظ سے اسرائیل سے کئی گنا بڑے ہیں۔
میں نے آپ کو تاریخ سے بتادیا ہے کہ مسلمان جب اپنے کلمے پر جمع ہوئے تو غالب آئے لیکن جب وہ رنگ، نسل اور وطن کی بنیاد پر جمع ہوئے تو کٹے اور مٹے۔ اسپین جیسی عظیم الشان سلطنت مسلمانوں سے اِسی وجہ سے چِھنی۔ ہندستان میں وہ اِسی وجہ سے مغلوب ہوئے، اور اسی وجہ سے انھیں شرق اوسط میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
آپ سیرت پر کانفرنسیں ضرور کریں، ذکرِ رسولؐ سے مبارک کوئی کام نہیں ہے لیکن یہ محض ذکر اور lip service ہوکر نہ رہ جائے۔ اس پر عمل کریں گے تو اس رحمت سے آپ کو حصہ ملے گا جو صرف پیرویِ رسولؐ کے لیے مقدّر ہے۔ حدیث میں اِسی لیے آیا ہے: اَلْقُرْانُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ (مسلم:۳۵۴)’’قرآن تم پر حجت ہے، تمھارے حق میں یا تمھارے خلاف‘‘۔
کوئی قوم اس کی پیروی کرتی ہے تو یہ قرآن اس کے حق میں حجت ہے اور جو پیروی نہیں کرتی اور وہ جانتی ہے کہ یہ حق ہے تو یہ اس کے خلاف حجت بن کر کھڑا ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی شخص قانون کو جاننے والا ہے اور دوسرا اس سے ناواقف ہے۔ قانون اس کے خلاف حجت ہے، جو قانون کو جانتا ہے پھر بھی اس کی خلاف وزری کرتا ہے۔ اِس کلمے کو لے کراُٹھیں گے تو نہ صرف اپنا ملک مضبوط و مستحکم ہوگا بلکہ مشرق و مغرب مفتوح ہوجائیں گے، لیکن کلمے کو چھوڑا اور قومیتوں کے پیچھے پڑے تو پرکاہ کی حیثیت باقی نہ رہے گی۔
میری دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا سچّا اُمتی بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!