زینب الغزالی ۲ جنوری ۱۹۱۷ ء کو قاہرہ کے شمال میں ضلع دقہیلہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ گھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری اسکول میں سیکنڈری اسکول تک تعلیم حاصل کی۔ پھر الازہر یونی ور سٹی کے معروف اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ زینب الغزالیؒ دور طالب علمی ہی سے خواتین اور طالبات میں پُرجوش اور شعلہ بیان خطیبہ کی حیثیت سے مشہور تھیں۔ان کے لیکچرز اور درس قرآن کے حلقوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شرکت کرتی تھی اور یہ تعداد ہزاروں تک بھی پہنچ جاتی تھی۔ابن طلون مسجد میں ہر ہفتے ان کے دروس کا اہتمام ہوتا جس میں دُور دراز علاقوں سے خواتین شرکت کرتی تھیں ۔ ۱۹۳۷ء میں انھوں نے خواتین کی ایک تنظیم کی بِنا ڈالی جس کا نام ’السیدات المسلمات‘ تھا ۔اس تنظیم کو بعد میںانھوں نے حسن البنا شہیدؒکے کہنے پر الاخوان المسلمون میں ضم کر دیا۔آپ ایک بے باک داعیہ اور راہ حق کی ایک عظیم مسافراور مجاہدہ تھیں جنھیں مصری آمر جمال ناصر نے ۱۹۶۵ء میں قید کرکے طرح طرح کی اذیتیں دیں ۔
زینب الغزالیؒ نے مصر میں اباحیت پسندوں اور دین بے زار طبقوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں اور اسلام کو متبادل کے طور پرپیش کرنے کے لیے پوری قوت صرف کر دی تھی۔ انھوں نے خواتین میں اسلام کے دیے گئے حقوق کی بھر پور وضاحت کی، اور خواتین کے درمیان اسلامی بیداری کا علَم بلند کیا اور ان کے اندر حوصلہ ، جذبۂ ایمان اور عزم و استقلال پیدا کیا ۔ موصوفہ ایک بہترین مصنفہ بھی تھیں۔ ان کی چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں :(۱) ایام حیاتی (۲)نظرات فی کتاب اللہ (۳) غریرۃ المراۃ مشکلات الشباب والفتیات (۴) الی بنتی (۵) تاملات فی الدین و الحیاۃ ۔ ان میں سے کئی کتابوں کا دوسری زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ ان کے علاوہ السیدات المسلماتایک معروف ہفتہ وار رسالہ تھا ،اس میں بھی وہ مسلسل مضامین لکھتی رہتی تھیں۔ ۳؍اگست ۲۰۰۵ء کو اس عظیم داعیہ و مفسرہ کا انتقال ۸۸ برس کی عمر میں ہوا۔ { FR 645 }
زینب الغزالی کا قرآن مجید سے گہرا تعلق تھا۔ آپ قرآن مجید کے پیغام کو دوسری خواتین تک پہنچانے میں ہمہ وقت مصروف رہتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے ۶۰سال سے زائد کا عرصہ اللہ کی کتاب کو سمجھنے اوراس کو اس کے بندوں تک پہنچانے کے لیے صرف کیا ہے‘‘۔ انھوں نے نظرات فی کتاب اللہ کے عنوان سے تفسیر لکھی۔ اس تفسیر کا پس منظر یہ ہے کہ ایک دن ایک اشاعتی ادارہ کی مالکہ خاتون کی جانب سے پیغام آیا کہ ’’میں کم عمر بچوں و بچیوں کے لیے ۲۸،۲۹اور ۳۰ویں پارے کی ایسی آسان تفسیر لکھوانا چاہتی ہوں، جو ان کی زبان اور معیار کے مطابق ہو‘‘۔ زینب نے جواب دیا کہ ’’میں نے کبھی تفسیر لکھنے کے بارے میں سوچا نہیں ہے‘‘۔ مگر جب اس خاتون نے اصرار کیا تو پہلے انھوں نے استخارہ کیا اور دعا کی ،پھر اللہ کے نام سے کام شروع کیا اور تین پاروں کی تفسیر تیار کر لی ۔جب وہ مسودہ لے کر اس خاتون کی تلاش میں نکلیں تو ان کا کہیں پتہ نہ چلا۔ واپس لوٹتے ہوئے شیخ محمد الملعم کے پاس چلی گئیں اور ان سے دریافت کیا کہ ’’کیا آپ اسے شائع کرسکتے ہیں ؟‘‘ انھوں نے اسے دیکھا اور کہا: ’’ہاں، مگر ایک شرط ہے ،وہ یہ کہ آپ پورے قرآن کی تفسیر لکھیں ‘‘۔اس کے بعد انھوں نے مکمل تفسیر لکھی۔
تفسیرکے مقدمے میں موصوفہ لکھتی ہیں: ’’میں نے قرآن پڑھا ہی نہیں بلکہ اسے اپنی زندگی بنانے کی کوشش کی کہ جس کتاب سے میں اس قدر محبت کرتی ہوں ، اسے دوسرے لوگوں تک پہنچاؤںتاکہ وہ بھی اس سے محبت کرنے لگیں‘‘ ۔
زینب الغزالی نے تفسیر لکھتے وقت نہایت غور و فکر سے کام لیا ہے ۔ انھوں نے جیل کی کال کوٹھریوں اور تنہائیوں میں اور پھر رہائی کے بعد قرآن مجید کی آیات پر غور و فکر جاری رکھا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے قدیم و جدید عربی تفاسیر سے بھی بھر پور استفادہ کیا۔ وہ لکھتی ہیں: ’’میں نے قرطبی کی تفسیر ، حافظ ابن کثیر کی تفسیر کو بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پڑھا، اور پھر آلوسی، ابوالسعود، قاسمی اور رازی کی تفسیروں کے ساتھ سیّد قطب شہید ؒکی تفسیر فی ظلال القرآن سے بھی استفادہ کیا ہے‘‘۔ انھوں نے احادیث کے ذخیرے کو بھی قرآن مجید کی تشریح و توضیح کا ذریعہ بنایا۔ اس حوالے سے وہ لکھتی ہیں:’’ حدیث، اللہ کی کتاب قرآن کی بہترین تفسیر ہے‘‘۔ اس تفسیر میں جگہ جگہ اقوال صحابہ اور سلف صالحین کے اقوال سے بھی استدلال کیا گیا ہے ۔غرض کہ یہ تفسیر، تفسیر بالماثور کا بہترین نمونہ ہے ۔
انھوں نے تفسیر میں اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کے طور پر پیش کیا ہے، اوراللہ تعالیٰ کے احکام کی عصری معنویت کو پیش نظر رکھا ہے ۔ قرآن مجید کے معنی و مطالب اور احکام کو ہمارے موجودہ زمانے کے حالات سے سچی اور مخلصانہ کوشش کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے ،تاکہ ان احکام کی رہنمائی میںاور ان مطالب کے دائرے میں ہمارے موجودہ حالات کو سنوارا جاسکے۔ اکثر وبیش تر متجددین ،مغربی مصنّفین اور مستشرقین اپنی کج روی میں یہ کہتے ہیں کہ ’’قرآنی تفاسیر میں ’مردانہ سوچ‘ غالب ہے اور نسائی اپروچ (Feministic Approach)کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں خواتین کو سماجی میدانوں میں نظر انداز کیا جاتا ہے‘‘۔ اس طرح مستشرقین ،متجددین اور ’فیمی نزم‘ کے علَم برداروں نے قرآن مجید کی ایسی تعبیر یں پیش کیں، جو ان کی مذموم ذہنی اختراعات اور موشگافیوں پر مبنی ہیں۔ ’فیمی نزم‘ کی علَم بردار خواتین ڈاکٹر فاطمہ مرنیسی ، ڈاکٹر آمنہ ودود ، اسماء برلاس ، رفعت حسن وغیرہ نے اس اختراع کو عام کرنے کی کوششیں کیں ۔ان ’فیمی نسٹ‘ خواتین کا کہنا ہے کہ عالم اسلام میں خواتین کے حقوق غصب کرنے کے لیے دینی مصادر کی تشریح اپنی اپنی مرضی سے کرکے خواتین کے حقوق اور مقام کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ حالانکہ مسلم عالمات و فاضلات خواتین نے بھی تفاسیر لکھیں توانھوں نے روایتی فکر اور منہج کو ہی آگے بڑھایا ۔انھی میں سے ایک یہ تفسیر زینب الغزالی نے لکھی ہے، جس میں خواتین کی نفسیات و ضروریات ، جزبات و احساسات اور ان کے رجحانات کا بھرپورخیال رکھا گیا اور جہاں جہاں خواتین کے مسائل اور احکامات کے بارے میں ہدایات ہیں، ایک خاتون نے ہی ان کی مدلل تفسیر بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ۰ۭ (النساء۴ :۳۴) مرد عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں اس لیے اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے اور اس لیے کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں ۔
زینب الغزلی لکھتی ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ طے کیا جارہا ہے کہ مرد، عورتوں پر ذمہ دار ہیں اور ان کو خاندان میں قیادت کا حق ہے ۔اس سے گھر میں عورت کے ذمہ دار ہونے اور گھر کی ملکہ ہونے کی نفی نہیں ہوتی ہے۔اسے حق ہے کہ اپنے گھر یلو معاملات میں تصرف کرے، تاکہ خاندان کے مفادات کی حفاظت ہو اور اس کا اتحاد اور یک جہتی قائم ہو ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد بیوی اور اولاد پر خرچ کرنے کا ذمہ دار ہے۔اسی طرح وہ گھریلو امور و معاملات میں اپنی بیوی کے ساتھ شریک ہے ۔ان دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن اور حدیث سے منہج اختیار کریں، کیوں کہ خاندان امت کا پہلا مدرسہ ہے اور بیوی اپنے گھر کے اندر اپنے خاندان کے امور و معاملات کی ذمہ دار ہے ۔شوہر اور اولاد کی سلامتی کے بارے میں اس سے اللہ کے سامنے سوال کیا جائے گا۔یہ سب اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب عورت رضا مندی ،محبت اور اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کے ساتھ اپنے اُوپر مرد کے قوام ہونے کو عین انصاف اور اپنے مفاد میں مان لے ،کیوںکہ یہ ذمہ داری مرد کو عورت کے ساتھ انصاف کرنے اور بہترین معاملات کرنے کا مکلف بناتی ہے ہراس چیز میں جس کی عورت کو ضرورت پڑتی ہے ‘‘.... مرد کے’ قوام‘ ہونے کا صحیح فہم عورت کو اپنے شوہر پر بھروسا اور اس پر اطمینان پیدا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ازدواجی زندگی پُرامن اور پایدار بن جاتی ہے ۔اس طرح عورت اپنے گھر کو چلانے اور اپنی اولاد کی تربیت کے لیے فارغ ہوجاتی ہے ‘‘۔
مفسرہ ہر سورہ کے آغاز میں نہایت عمدہ اور جامع تعارف پیش کرتی ہیں ۔ مثال کے طور پر سورئہ فاتحہ کا مختصر و جامع تعارف کراتے ہوئے لکھتی ہیں کہ: ’’فاتحہ الکتاب ،یہ سب سے پہلی سورہ ہے جو پوری سات آیتوں کے ساتھ یکبارگی نازل ہوئی ہے ۔یہ جامع سورت ہے۔اس کی آیات میں قرآن مجید کے سبھی مقاصد ،عقیدہ اور تشریع کو جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔اس کی چھوٹی چھوٹی چندآیتوں میں توحید ،توکل، مشرکین، گمراہوں اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل نہ کر کے ان کو معطل کرنے والوں کا کافی و شافی بیان ہے‘‘(ص:۴۱)۔
دارالتوزیع والنشر، قاہرہ نے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی نے اس تفسیر کو اردو جامہ پہنایا۔ یہ ترجمہ بہت ہی آسان زبان میں ہے اور اصل تفسیر کی روح کو اُردو میں منتقل کیا گیا ہے۔ اردو ترجمہ کا مقدمہ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب نے لکھا ہے ۔ علاوہ ازیں تقریظ کے طور پر مولانا امین عثمانی مرحوم کی تحریر بھی جلد اول میں شامل ہے۔ یہ دعوتی نوعیت کی ایک بہترین تفسیر ہے اور مرووخواتین کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ المنارپبلشنگ ہاوس ،نئی دہلی نے ۲۰۲۰ء میں اس کو شائع کیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ اپنے کچھ بندوں کے ساتھ خصوصی احسان کرتاہے تو ان کو کفر و شرک کی گمراہیوں سے نکال کر رشد وہدایت کی راہ سے نوازتا ہے۔ ایسے ہی خوش نصیبوں میں ایک بڑا نام ڈاکٹر ولفریڈ ہوف مین ہیں جنھوں نے قبولِ اسلام کے بعد اپنا نام مراد ہوف مین رکھا۔ وہ مراد ہوف مین، جو قبولِ اسلام کے بعد بے لاگ اسلامی مفکر کی حیثیت سے مغرب کے اُفق پر جلوہ افروز ہوئے۔ مترجم قرآن، مصنف، تجزیہ نگار، داعی، مفکر اور ایک سفارت کار کی حیثیت سے نہ صرف عیسائی دنیا میں بلکہ عالم اسلام میں بھی مشہور ومعروف ہیں۔
مراد ہوف مین ۶جولائی ۱۹۳۱ء کو اُسچا فنبرگ (جرمنی) کے ایک کیتھولک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے نیو یارک میں یونین کالج سے گریجویشن کی اور پھر میونخ یونی ورسٹی سے قانون میں Contempt of Court Publication under American and German Law کے موضوع پر ۵ ۱۹۷ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ہارورڈ یونی ورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کی۔ اس کے بعد NATOکے انفارمیشن ڈائرکٹر کے طور پر تعینات رہے، اور ۱۹۸۳ء سے ۱۹۸۷ء تک برسلز میں انفارمیشن ڈائرکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ موصوف پہلے(۱۹۸۳-ء۱۹۹۰ء)الجیریا اور بعدازاں(۱۹۹۰ء-۱۹۹۴ء) مراکش میں جرمنی کے سفیر جیسی اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے۔
- قبولِ اسلام :مراد ہوف مین ۲۵؍ دسمبر ۱۹۸۰ء کو مشرف بہ اسلام ہوئے۔ قبولِ اسلام کے متعلق انھوں نے ماہنامہ الدعوۃ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:’’ سفارت کاری نے مجھے یہ موقع دیا کہ میں نے مغربی فکر و تہذیب کا گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کیا ۔ اسلام کے متعلق میرا علم سطحی معلومات پر مبنی تھا‘‘۔ وہ اپنی کتاب Journey to Makkah میں لکھتے ہیں: ’’میں ۱۹۶۲ء میں الجیریا کے جرمن سفارت خانے میں تعینات تھا۔ اس دوران میں نے اسلام کے متعلق پڑھنا شروع کیا۔ میں اس مذہب کے بارے میں واقفیت حاصل کرنے کا متمنی تھا، جس کے ۱۰لاکھ متبعین نے اپنے وطن کو آزاد کرانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ ۱۹۶۲ ء میں الجیریا کے عوام آزادی کی جنگ لڑرہے تھے۔ پھر میں نے اسلام کو سمجھنے کے لیے عربی زبان سیکھی اور قرآن مقدس کو پڑھنا شروع کیا ،اور جوں جوں اس کی گہرائیوں میں اترتا گیا، اس کے ساتھ تعلق خاطر پختہ سے پختہ تر ہوتا گیا۔ یوں اس کتاب انقلاب کے ساتھ میرا یہ تعلق قائم ودائم ہوگیا۔ یہ مقدس کتاب علم وفکر کا محور اور دل کی جملہ بیماریوں کے لیے نسخۂ کیمیا ہے‘‘۔
مراد ہوف مین نے ایک انٹرویو میں بتایا: ’’یوں اسلام نے میری روحانی ضرورتوں کو اطمینان اور یک سوئی کے ساتھ میری زندگی کو متوازن بنا دیا۔اور سب سے حیرت انگیز تجربہ یہ ہوا کہ قبولِ اسلام کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں نے مجھے گلے سے لگالیا‘‘۔ انھوں نے ۱۹۸۰ء میں پہلا عمرہ کیا۔ جب وہ جدہ کے پاسپورٹ آفس پہنچے تو اچانک ان کے پاس ایک افسر آیا اور ان کی آنکھیں نم تھیں۔ اس نے انھیں گلے سے لگایا اور کہا: ’میرا اسلامی بھائی‘۔ پھر جب مَیں نے ’ناٹو‘کے صلاح کار کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا تو اسلام کے خلاف مغرب کے بُرے عزائم اور فریب کاریوں کا پتا چلا۔ ایک دن میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یورپ کی نوجوان نسل عیسائیت سے کیوں دُوری اختیار کرتی جارہی ہے؟ تو جواب ملا: ’’ان کو کسی متبادل کی تلاش ہے‘‘۔ اسی لیے مَیں نے ۱۹۸۵ء میں اپنی پہلی کتاب ایک جرمن مسلم کاروزنامچہ (Diary of German Muslim) لکھی اور ۱۹۹۳ء میں اسلام بطور متبادل (Islam the Alternative) شائع کی‘‘۔
اسلام بطور متبادل میں جب انھوں نے مغرب کو دعوت دی کہ آپ اسلام کے جھنڈے تلے ہی زندگی گزاریں تو جرمنی میں سیاست دانوں، پادریوں ، صحافیوں اور نام نہاد حقوقِ نسواں کے علَم برداروں نے ان کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھیں ’بنیاد پرست‘ کہا۔ ہوف مین نے سفارت کاری سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ ترکی میں قیام کیااور اپنا سارا وقت دعوتی کام پر صرف کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی فکر وتہذیب کی پستی وزوال پر علمی سطح کا کام کیا ۔ یہ کتاب فوکویاما کی کتاب The End of Historyکا جواب ہے۔جس میں وہ لکھتے ہیں:’’اسلام پوری انسانیت کے لیے متبادل نظام ہے‘‘۔ ۱۹۹۶ء میں ان کی کتاب Islam-2000 کے عنوان کے تحت شائع ہوئی۔ ۱۹۹۶ء میں مکہ کا سفر (Journey to Makkah) اور ۲۰۰۰ء میں ’اسلام تیسرے ہزاریےمیں‘ (Islam in the Third Milliennium)جیسی علمی کتابیں شائع ہوئیں، جو جرمن، عربی اور انگریزی میں بھی دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے قرآن مجید کا ترجمہ جرمن زبان میں کیا ہے، جو ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا۔
مراد ہوف مین بین الاقوامی سطح کے علمی وفکری جرائد میں لکھتے رہے ہیں، جس میں برطانیہ کا Encounter اور American Journal of Social Science قابل ذکر ہیں۔ موصوف ’دی اسلامک فاؤنڈیشن‘ برطانیہ کے رسالے The Muslim World Book Reviewکے مستقل تبصرہ نگاروں میں شامل رہے ہیں۔ ان کی زیادہ تر کتابوں اور مقالات کا موضوع مـغربی دنیا میں اسلام کی نمایندگی ہے۔ ۲۰۰۷ء میں انھوں نے آپ کے اور ہمارے درمیان مشترکہ نقطۂ نظر کے عنوان سے ایک کھلا خط لکھا، جس میں مسیحی دنیا کو بہت سی مشتر کہ باتوں پر متوجہ ہونے کے لیے اُبھارا گیا۔ ۱۳جنوری ۲۰۲۰ء کو یہ عظیم داعی خالقِ حقیقی سے جاملے ،انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
- اسلام ایک متبادل : ’’دنیاے انسانیت کے لیے اسلام ایک نجات دہندہ دین ہے، جو وحی الٰہی پر مبنی ہے ۔اسلام نے ابتدا ہی سے انسانی مسائل کو حل کیا اور عصر حاضر کے مسائل کا حل بھی اسلام ہی کے پاس ہے، اور اسلام ہی اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اُمید کی واحد کرن ہے ‘‘۔
’’لاریب، دنیا کا مستقبل اسلام کے سائے میں ہے ۔ اسلام کو بطورِ متبادل پیش نہ کرنے کی ذمہ دار مغربی مراکز دانش، میڈیا اور مذہبی مقتدرہ پر تو ہے ہی، لیکن اس کے برابر ذمہ دار مسلمان بھی ہیں۔ اسلام مادہ پرستانہ زندگی پر ایک شدید چوٹ ہے اور مغرب میں مادہ پرستانہ سوچ عروج پر ہے، جس کا شکار مغرب کا ہر فرد ہے۔ تاہم، وہاں اب اس مادہ پرست زندگی سے ہر فرد تنگ آچکا ہے جس کاوہ برملا اظہار بھی کرتا ہے۔ یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغرب اب اللہ پر ایمان رکھنے کے بجاے مادیت، ترقی، فحاشی، ہم جنسی اور انسانی حقوق کی پامالی پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ مغرب کو پتا ہے کہ اسی پیغام میں انسانیت کے مصائب اور مسائل کا حل ہے اور اسلام ہی پیغام رحمت ہے، جو زمان و مکان کی قید سے مبرا ہے‘‘۔ (Al-Dawah,2003)
- دعوتِ دین ، ذرائع ابلاغ اور اسلوب : ’’مغرب میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے وجود پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، اس لیے ان سے یہ کہنا آسان بات نہیں ہے کہ اللہ نے فلاں فلاں بات کہی ہے اور وہ مان جائیں۔ اس مقصد کے لیے آپ کو قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ سائنسی اسلوب اختیار کرنا چاہیے۔ اس طریقے سے ان کو اللہ اور اللہ کے وجود پر ایمان لانے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ ہمارے پاس جو لٹریچر موجود ہے، وہ پوری طرح اس ضرورت کا شافی جواب نہیں ہےکہ جس کی ضرورت ہے۔لہٰذا، جدید اسلوب میں لٹریچر تیار کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
اسی طرح مغر ب سے مکالمے کی آج کئی گنا زیادہ ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو خود سے پیش قدمی کر نی چاہیے۔ہمیں اکیسویں صدی میں رہناہے اور اسلام کی نمایندگی کرنی ہے، نہ کہ پیش آمدہ چیلنج کے مقابلے میں فرار کی راہ اختیار کرنی ہے۔ جن لوگوں تک پیغامِ حق ابھی تک نہیں پہنچا ،ان تک یہ پیغام بہم پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہے اور اس کے لیے ان تمام معروف اورجدید ذرائع کو بروے کار لانے کی ضرورت ہے جو آج کل میسر ہیں‘‘۔ (ایضاً)
’’پہلے اپنے آپ کو اُن کے لیے قابلِ قبول بنایئے کہ جن کو دعوت دینی ہے، اور پھر ان تک پیغامِ رحمت پہنچائیں۔ یہ دعوت کا سب سے کار آمد اور مفید پہلو ہے۔داعی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مشرق اور مغرب دونوں کی فکر و علوم سے واقف ہو۔ اس طرح مغربی زبان اور تہذیب سے بھی بخوبی واقف ہو تاکہ ان تک صحیح اور مؤثر انداز سے بات پہنچا سکے۔ اسلام دنیاے انسانیت کے لیے کوئی نیا مذہب نہیں ہے بلکہ یہ انبیاے کرام کے تسلسل کا ایک حصہ ہے۔ اسلام حضرت عیسٰیؑ ہی کے طریق کار کا ایک مظہر ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عیسائی دنیا نے ان مسیحی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا بلکہ ان میں بے شمار تحریفات بھی کیں۔ بعد کے ادوار میں بھی عیسائی راہبوں اور عالموں نے تحریفات کا سلسلہ جاری رکھا، یہاں تک کہ جان پال نے عیسائیت کی پوری تصویر بدل کے رکھ دی، جس کے نتیجے میں آج کی عیسائیت درحقیقت سینٹ پال کی تعلیمات اور خرافات کا مرکب بن گئی ہے ۔اسلام کا کردار یہ ہے کہ وہ عیسائیت کو اصل مقام کی طرف واپس لایا اور اس کے ان تمام خرافات اور تحریفات کی نشان دہی کی، جس کی وجہ سے عیسائت فکری انحراف اور انتشار کی شکار ہوئی۔ اب ضرورت ہے کہ ان کے پاس اس الٰہیاتی ہدایت اور انبیاے کرام کی دعوت کی آخری قسط (Episode) کو سائنٹفک اسلوب میں پہنچایا جائے‘‘۔
- احیاے اسلام اور تجدید: مراد ہوف مین کے نزدیک: ’’تجدید اور احیا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں۔ تجدید کا کام اسلام کے کن موضوعات پر ہوگا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اسلام میں تجدید کا کام عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق بنانا ہوگا۔ عقائد، عبادات اور اخلاقیات کو چھوڑ کر اس کے تہذیبی پہلوؤں پر تجدید کا کام کرنا انتہائی ضروری ہے۔
’’معیاری اور ہمہ جہت نصاب میں قرآن ،تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت اور علم کلام کے ساتھ ساتھ عصری علوم کو شامل کیا جائے۔ قرآن کے مطالعے کے ساتھ کائنات کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ دراصل ان دونوں کا مطالعہ ہمارے فکر و عمل میں توازن قائم رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔اور میرا یقین ہے کہ احیاے اسلام کا آغاز یورپ سے ہوگا‘‘۔
- مغربی فکر و تہذیب کا زوال: مراد ہوف مین کے نزدیک: ’’مغربی تہذیب اپنی ساخت کے اعتبار سے کامل شربن چکی ہے۔ اس انسانیت خور تہذیب میں منشیات کے ساتھ ساتھ ٹی وی اور انٹرنیٹ بھی شامل ہے ۔مغرب کی اس بے شرم اور روح فرسا تہذیب کی اندرونی صورتِ حال پر اپنے ایک لیکچر میں لکھتے ہیں:’’ مغرب میں طلاق کی شرح خوف ناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں آدھے گھر مجرد فرد چلا رہے ہیں، جس میں وہ عورتیں بھی شامل ہیں جو بچہ تو چاہتی ہیں، لیکن شوہر نہیں ۔بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد بن باپ کے پل رہی ہے۔ بہت سے بچے ذہنی عدم توازن کا شکار ہیں ۔انسان نے خدا کے تصور سے دامن چھڑا کر خود کو ہرشے کا معیار قرار دے لیا۔ مذہب تیزی سے انسان کا ذاتی معاملہ بنتا چلا گیا۔ سائنسی علوم نے اس کی جگہ لے لی اور نتیجہ یہ کہ سائنٹزم اور ریشنلزم (Scientism and Rationalism) خود ساختہ مذاہب کا درجہ اختیار کر گئے‘‘۔
- حقوق نسواں اور اسلام : مراد ہوف مین کہتے ہیں:’’دنیا میں اسلام کے سوا ہرمذہب اور تحریک نے صنفِ نازک کو استحصال کے سوا کچھ بھی نہیں دیا اور صرف اسلام نے ہی ان کو ان تمام حقوق سے نوازا، جن کی وہ حق دارہیں اور جو ان کی فطرت کے عین مطابق ہیں‘‘۔
’’عورت کے حقِ خودارادیت اور مردوں سے کندھے سے کندھا ملا کر کام کرنے کے نتیجے میں، مغرب اب بے تحاشا مسائل کا سامنا کر رہا ہے ۔بچوں کو رحم مادر ہی میں گلا گھونٹ دینے کا نعرہ مغرب کا ہی ہے اور جس پر وہ فخر کے ساتھ رُوبہ عمل بھی ہے‘‘ ۔دورِ جاہلیت اور دورِ حاضر کے درمیان فرق کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’دورِجاہلیت میں بچپن میں ہی لڑکیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا، جب کہ دورِ جدید میں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ تو اب لڑکوں کا بھی اسقاط حمل کے ذریعے سے گلا گھونٹا جا رہا ہے‘‘ ۔مراد ہوف مین کہتے ہیں کہ ’’دنیا میں نصف سے زیادہ آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ کوئی بھی قوم یا تہذیب، جو ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے میں ناکام رہے گی، اسے بالآخر خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مغرب میں مردوں کے برعکس دوشیزاؤں کے اسلام کی طرف زیادہ مائل ہونے کے باوجود بحیثیت مجموعی مغرب میں عورتیں، اسلام سے بہت حد تک شدید بُغض رکھتی ہیں۔ جس کی وجہ محض یہ غلط فہمیاں ہیں کہ اسلام مردوں کا مذہب ہے اور اگر مسلمان مردوں نے ہرجگہ خواتین کو قرآن کے عطاکردہ حقوق دیے ہوتے، تو ہمیں اس غلط فہمی کا سامنا نہ کرنا پڑتا‘‘۔
’’یہ حقیقت ہے کہ روایت پسند مسلم معاشروں نے اپنی عورتوں کو کئی قرآنی حقوق نہیں دیے۔ کیا ہم بھول گئے کہ قرآن کو ہم تک منتقل کرنے والوں میں حضرت حفصہؓ بنت عمر الخطاب بھی ہیں،یا یہ کہ ایک عورت نے مسجد نبوی میں جمعہ کے خطبے میں امیرالمومنین کو عین خطبے کے درمیان روک کر ان پر تنقید کی تھی؟‘‘
- اسلام اور جمہوریت: مغرب ہی کیا عالم اسلام میں بھی سب سے زیادہ جو موضوعِ بحث ہے، وہ اسلام اور جمہوریت ہے ۔اس حوالے سے بعض اسلامی مفکرین اور اسکالرز اسلام اور جمہوریت کو دو متضاد شے قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض ان دونوں کو ہم آہنگ ٹھیراتے ہیں۔ مراد ہوف مین ثانی الذکر طبقے سے تعلق رکھتے اور لکھتے ہیں کہ ’’منطقی طور پر سب سے پہلے مسلمانوں کو اس غلط تصور کا خاتمہ کرنا ہوگا کہ اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔ جو لوگ اسلام اور جمہوریت کو باہم متضاد سمجھتے ہیں، وہ نہ اسلام کے بارے میں کچھ جانتے ہیں اور نہ جمہوریت کے بارے میں۔ دنیا کو سب سے پہلے جمہوری اصول اسلام نے سکھائے ہیں۔ ایک چھوٹی اکائی سے لے کر پارلیمنٹ تک اسلام نے ٹھوس اصولوں کو متعین کیا ہے۔ ہم ،جنھوں نے سب سے پہلے اپنا خلیفہ منتخب کیا اور اسے دنیا کے سامنے بھرپور دلیل بنایا کہ خلفاے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین دنیا کی تاریخ میں پہلے منتخب سربراہانِ مملکت تھے‘‘ــ۔
ان کے نزدیک: ’’اسلام جمہوریت کا جو تصور پیش کرتا ہے، اس میں حاکمیت الٰہیہ کو مرکزی مقام حاصل ہے اور قانون سازی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے،جس میں تبدیلی کرنے کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔اسلامی جمہوریت میں کوئی بھی پارلیمان اپنے اہل دستور، یعنی قرآن و سنت میں دیے گئے خدائی احکامات کو اپنے تمام تر قانونی اختیار کے باوجود تبدیل نہیں کر سکے گی۔ اسلام میں جمہوریت نہ مذہبی علَم برداروں کی ہوتی ہے نہ سیکولر علَم برداروں کی بلکہ یہ نظریاتی حکومت ہوتی ہے، جس کا دستورِ اساسی قرآن مجید ہوتا ہے‘‘ (Islam 2000 ،ص۱۲)۔
مراد ہوف مین کا کہنا ہے کہ ’’دنیا میں ہرشخص نے کسی دوسرے شخص سے فیض حاصل کیا اور ہر شخص نے کسی دوسرے شخص کی کامیابیوں پر عمارت کھڑی کی‘‘ ۔موصوف کے نزدیک ’’اسلام تصادم کا قائل نہیں، بلکہ افہام و تفہیم سے تہذیبوں کو آگے بڑھاتا ہے‘‘ ۔
مولانا مودودی ؒ نے اپنی پوری زندگی ملت اسلامیہ کی فکری و عملی رہنمائی کے لیے وقف کررکھی تھی۔ انھوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اسلامی نظام کی تشریح و تفسیر اور اس کے قیام کی جدوجہد میں صرف کردیا۔ پھر دورِ حاضر کو اسلام کی ایسی ہم آہنگی سے پیش کیا، کہ اُمت کے بہی خواہ اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام عصرِ حاضر کا دین ہے۔
مولانا مودودی ؒنے اس فکر کو عام کرنے کے لیے اس دور میں ہر معروف ذریعۂ ابلاغ کو استعمال کیا۔ پاکستان میں ایسی کوئی قابلِ ذکر جگہ نہیں رہی ہو گی، جہاں انھوں نے دینِ مبین کو عام کرنے کے لیے دورہ نہ کیا ہو۔مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش ) میںبھی مولانا مودودیؒ نے کئی بار دعوتی دورے کیے۔تاہم، اگست ۱۹۴۷ء سے قبل متحدہ ہندستان میں بھی انھوں نے دہلی ،اورنگ آباد، بہار، لکھنؤ، علی گڑھ ، حیدر آباد دکن، گورداس پور (پنجاب) کے علاوہ متعدد جگہوں کا دورہ کیا۔
مولانا مودودی نے ۱۹۲۵ء سے، جب اخبار الجمعیۃ ،دہلی کے ذریعے بڑے پیمانے پر اسلامی فکر اور اُمت کے مسائل کو موضوع بنایا تو اسی زمانے میں آپ کا نام جموں و کشمیر کے اہلِ علم میں معروف ہوچکا تھا۔ پھر جب ۱۹۳۳ء میں ماہنامہ ترجمان القرآن ،حیدرآباددکن کے ذریعے احیاے اسلام کا علَم بلند کیا، تو یہ آواز بہت جلد ریاست جموں و کشمیر بالخصو ص وادی کشمیر میں بھی پہنچ گئی، اور مختصر مدت میںایک بڑی تعداد اس دعوت اور فکر سے متعارف ہوگئی۔ ماہنامہ ترجمان القرآن ۱۹۳۶ء کے اوائل ہی سے کشمیرکے معروف کتب فروشوں کی دکانوں پر دستیاب رہتا تھا۔ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے مؤسس مولانا سعدالدینؒ ترجمان القرآن کے ذریعے ہی مولانا مودودیؒ کی فکر سے شناسا ہوئے تھے۔ انھی ایام میں سری نگر کے ایک کتب فروش سے انھیں ترجمان القرآن کا ایک شمارہ ملا، جسے پڑھ کر انھوں نے محسوس کیا جیسے یہ ان کے دل کی آواز ہے، اور پھر وہ اس کے مستقل قاری بن گئے۔ ایک سال کے بعد، یعنی ۱۹۳۸ء میں انھوں نے ’دارالاسلام ‘ (جمال پور، پٹھان کوٹ) میں خود کو وقف کرنے کی درخواست بھی دی تھی۔
دوسری اہم شخصیت جناب مولانا احرارا حمد تھے۔وہ بھی ۳۸ ۱۹ ء کے اوائل میں یا آس پاس مولانا مودودی کے افکار سے متعارف ہوئے۔ ۱۹۴۰ء میں تاسیس جماعت سے قبل، اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر عبدالبشیر آذری [مولانا مودودی کے ایک قریبی ساتھی، م:۲۷مارچ ۱۹۸۳ء ] کے ساتھ مولانا مودودی کشمیر کے دورے پر آئے۔ عبد۱لبشیر آذری اکثر گرمیوں میں کشمیر آیا اور شوپیان میں قیام کیا کرتے تھے۔ انھی کی دعوت پر مولانا نے کشمیر کا دورہ کیا تھا ا ور انھی کے کہنے پر شوپیان میں قیام فرمایا تھا۔
مولانا امین شوپیانی صاحب نے بتایا ہے کہ: ’’جب مولانا مودودی سرینگر سے شوپیان کی طرف جارہے تھے، تو ان کے ہمراہ پردہ نشین خواتین میں ان کی والدہ ، اہلیہ ،ایک بچہ اور ملازمہ شامل تھے۔ مولانا امین صاحب کا کہنا ہے کہ: ’’جب راستے میں نماز کا وقت آیا تو ہم نے ایک ساتھ نماز ادا کی۔ امرواقعہ ہے کہ اس نماز کے دوران ہی مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کتنی عظیم شخصیت ہیں‘‘۔ ڈاکٹر حمید فیاض صاحب کے مطابق: ’’مولانا مودودی نے چند دن (ایک روایت کے مطابق ایک مہینہ) وادیِ کشمیر کے اس خوب صورت اور مردم خیز علاقے میں قیام کیاتھا۔یہاں آپ نے ملک عزیز شاہ اکرم شاہ کا بنگلہ کرایے پر لیا۔
مولانا احرار احمد صاحب کے مطابق:’’اس مکان کے مالک نے مولانا مودودی سے بدسلوکی کی اور انھیں گھر خالی کرنے پر مجبور کیا‘‘۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ:’’ جس گائوں میں مولانا مودودی نے قیام کیا تھا، وہاں کے مولوی صاحب اور متولیوں نے مولانا پر وہابی ہونے کا ’الزام‘ لگایا اور شاہ اکرم شاہ کو اس بات کے لیے اکسایا کہ وہ مولانا مودودی کو گھر سے نکال دیں۔ شاہ صاحب نے ایسا ہی کیا۔ وہاں سے نکلنے کے بعد مولانا مودودی نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ محمد عبداللہ وانی صاحب کے ہاں قیام کیا اور پھر شالیمار بھی تشریف لے گئے۔
کشمیر میںقیام کے دوران بہت سے لوگوں نے مولانا مودودی سے استفادہ کیا۔ پروفیسر جناب عبدالبشیر آذری نے مولاناا حرار احمد صاحب کو مولانا مودودی کی چند کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔ جس کے بعد مولانا احرار صاحب کامولانا سعدالدین سے رابطہ ہوا، اور یہ رابطہ ایسا تھا جو زندگی کے آخری دم تک باقی رہا۔ اس مختصر قافلۂ سخت جان میں جب قاری سیف الدین صاحب اور چودھری محمد شفیع صاحب نے شمولیت اختیار کی، تویہ قافلہ منظم اور مضبوط ہوگیا۔ چودھری محمد شفیع صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ۱۹۴۲ء میں ریاست جموں و کشمیر کے اوّلین ناظم حلقہ مقرر ہوئے تھے اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ عبدالبشیر آذری صاحب ہی نے کشمیر کے اولین تحریکی اجتماع سے خطاب کیا تھا۔
جب ۱۹۴۵ء میں جماعت اسلامی کا کل ہند اجتماع بمقام پٹھانکوٹ منعقد ہوا، جس میں وادیِ کشمیر سے مولانا سعدالدین اور محمد شفیع صاحب کے علاوہ مولانا احرار صاحب اور قاری سیف الدین نے بھی اس تاریخی اور روح پرور اجتماع میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔مذکورہ اجتماع نے ان تینوں بزرگوں میں انقلابی تبدیلیاں پروان چڑھائیں، کیوں کہ ابھی تک یہ مولانا مودودی کے افکار کا مطالعہ ترجمان القرآن سے ہی کرتے تھے، لیکن اس اجتماع میں انھوں نے مولانا مودودی سے براہِ راست استفادہ کیا جس سے ان درویش صفت انسانوں کی تحریک سے وابستگی اور بھی مستحکم ہوگئی۔ مولانا مودودی نے اسی تاریخی اجتماع میں سلامتی کا راستہ کے نام سے جو خطاب کیا، اس کو انھوں نے براہِ راست سماعت فرمایا۔
دارالاسلام (پٹھان کوٹ) سے واپس لوٹنے کے بعد اس مختصر قافلے نے آپس میں صلاح مشورے کے بعد کشمیر میں تحریک اسلامی کے کام میں وسعت کا آغاز کیا۔سب سے پہلے ۱۹۴۶ء میں دارالمطالعہ نوابازار میں ایک بڑا اجتماع منعقد ہوا، جس میں وادی کے اطراف و اکناف سے تقریباً ۱۰۰ کے قریب تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی۔ یہ افراد پہلے ہی سے جماعت اسلامی کے نصب العین سے واقف تھے۔اس اجتماع میں مولانا سعدالدین نے انتہائی بصیرت افروز تقریر کی، جس میں انھوں نے کشمیر میں اسلام کے پہلے داعی امیر کبیر میر سید علی ہمدانی ؒکی انقلاب آفرین دعوت و تحریک کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’امیر کبیر سیّد علی ہمدانی نے کفر و شرک کی تاریکیوں کو چیر کر اسلام کی آفاقی کرنوں سے پورے علاقے کو منور کیا اور لاکھوں انسانوں کو جہالت سے نکال کر صراط مستقیم پر لاکھڑا کیا۔ آج ہم ان کے اسوہ پر چلتے ہوئے جماعت اسلامی کی دعوت اور کام کو وسعت کی راہوں پر استوار کر رہے ہیں‘‘۔اس بصیرت افروز خطاب کے بعد تحریک اسلامی کشمیر کھل کر منصہ شہود پر آگئی اورمولانا سعدالدین کو باقاعدہ امیر منتخب کیا گیا۔ مولانا مودودی کی برپا کردہ تحریک اسلامی نے برصغیر کے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت ریاست جموں و کشمیر میں بہت تیزی سے اپنا سفر آگے بڑھایا۔
دوسری جانب یہ اگست ۱۹۶۵ء کی بات ہے کہ وادیِ کشمیر سے تباہ حال مہاجرین خطِ متارکۂ جنگ (کنٹرول لائن)کو عبور کرکے آزاد کشمیر جارہے تھے کہ مولانا مودودی نے ان کی تائید کے لیے اپیل کرتے ہوئے بیان دیا:’’خدا وہ وقت جلد لائے ،جب ہم مال ہی سے نہیں بلکہ جان سے بھی کشمیری بھائیوں کی آزادی کے لیے آگے بڑھ سکیں‘‘۔ ۶ستمبر ۱۹۶۵ء کی صبح بھارتی افواج نے لاہور پر یلغار کی تو مولانا مودودی نے بیان دیا: ’’اہلِ کشمیر کا جہادِ آزادی نہ صرف ان کا حق بلکہ فرض بھی ہے‘‘۔
پاک بھارت جنگ ستمبر ۱۹۶۵ء کے دوران گفتگوئوں میں کشمیر کے حقِ خود ارادیت کا ذکر بھی آتا رہا، جو پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل وجۂ نزاع ہے۔ ایک نوجوان نے کہا: ’’بھارت کا کہنا ہے کہ [مقبوضہ]کشمیر میں متعدد بار انتخابات ہوچکے ہیں اور عوام ان انتخابات کے ذریعے اپنی راے ظاہر کرچکے ہیں، اس لیے مزید کسی راے شماری کی ضرورت نہیں‘‘۔
مولانا مودودی نے جواب میں فرمایا: ’’مقبوضہ کشمیر میں جو انتخابات ہوئے ہیں، انھیں کسی بھی راے شماری کے مترادف قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق راے شماری کے ذریعے ہی کشمیری عوام کی مرضی معلوم کرنا مقصود تھا کہ آیا وہ بھارت سے الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان سے؟ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اب تک اس ایشو کے بارے میں عوام کی راے کبھی معلوم نہیں کی گئی۔ بھارت کے زیرتسلط وہاں جو انتخابات ہوئے ہیں، ان کی بنیاد یہ ایشو کبھی قرار نہیں دیا گیا، اس لیے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا مقصد پورا نہیں ہوا، اور اسی لیے وہاں کے عوام کو اپنی راے کے اظہار کا حق ملنا چاہیے‘‘۔
اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودی نے فرمایا:
اگر بھارت کی اسی نام نہاد دلیل کو درست مان لیا جائے کہ چوں کہ مقبوضہ کشمیر میں کئی بار انتخابات ہوچکے ہیں، اس لیے اب وہاں راے شماری کی ضرورت نہیں ہے، تو پھر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ متحدہ ہندستان کو آزادی نہیں ملنی چاہیے تھی، اور انگریزی حکومت قائم رہنی چاہیے تھی، کیوں کہ متحدہ ہندستان میں بھی ۱۹۴۷ء سے پہلے کئی انتخابات منعقد ہوچکے تھے۔ کیا کوئی ہوش مند آدمی اس دلیل کو انگریز سے آزادی کی جدوجہد کے خلاف پیش کرسکتا ہے؟‘‘ (۵-اے ، ذیلدار پارک، دوم، مرتبہ:رفیع الدین ہاشمی، ۱۹۷۹ء، ص۳۸)
انھی دنوں ۶نومبر ۱۹۶۵ء کو وکلا کی دعوت پر ملتان بار ایسوسی ایشن سے خطاب کیا تو ایک وکیل نے سوال پوچھا: ’’کیا سلامتی کونسل کے رویے کے پیش نظر مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی اُمید کی جاسکتی ہے؟‘‘ مولانا مودودی نے جواب دیا:
اقوام متحدہ کے قیام کے بعد ابتداً یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ادارہ دنیا کو لڑائی سے نجات دلائے گا اور امن و انصاف کی بنیادوں پر بین الاقوامی جھگڑوں کا حل پیش کرے گا۔ لیکن جب سے یہ ادارہ قائم ہے، تب سے آج تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ادارہ امن و انصاف کے اصولوں پر کوئی فیصلہ کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ [ا س دوران میں] سلامتی کونسل نے جو کچھ کیا ہے وہ کوئی نئی اور حیرت کی چیز نہیں۔ اس بات کو نگاہ میں رکھیے کہ دنیا کی طاقتیں بنیے کی طرح دونوں فریقوں کو ترازوں میں رکھ کر دیکھتی ہیں اور فریقین کے موقف کا نہیں بلکہ فریقین کا وزن دیکھ کر کوئی راے قائم کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک مسائل کے حل کا یہی پیمانہ ہے۔ انھیں اس سے بحث نہیں کہ انصاف کیا شے ہے؟ بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادیں علی الاعلان اس کے منہ پر دے ماریں، لیکن کوئی بولا نہیں کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ کسی کو کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ سب دیکھتے رہے اور بھارت نے علی الاعلان کشمیر کو اپنا داخلی مسئلہ قرار دے ڈالا۔(ہفت روزہ آئین، لاہور، ۱۵نومبر ۱۹۶۵ء،ص ۸)
۲۴نومبر ۱۹۶۵ء کو آزاد کشمیر حکومت کی دعوت پر مولانا مودودی لاہور سے راولپنڈی پہنچے، جہاں سے ۲۵نومبر کو کار کے ذریعے مظفرآباد روانہ ہوئے۔ میاں طفیل محمد، نعیم صدیقی، سیّدصدیق الحسن گیلانی ان کے ہمراہ تھے۔ ڈیڑھ بجے مظفرآباد سے باہر ہزاروں شہریوں نے ان کا استقبال کیا اور ایک بڑے باوقار جلوس کی شکل میں مظفرآباد لے کر گئے۔ جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد ڈگری کالج کے گرائونڈ میں مولانا مودودی خطاب کے لیے پہنچے جہاں صدر جلسہ سردار عبدالقیوم تھے۔ انھوں نے مولانا کا استقبال کرتے ہوئے کہا:
کشمیر کے لیے مولانا مودودی نے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں، مہاجرین کشمیر کے لیے جماعت اسلامی نے جو کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں، اسے اہلِ کشمیر اور ان کی آیندہ نسلیں کبھی نہیں بھلا سکیں گی۔
جواب میں مولانا مودودی نے مسئلہ کشمیر کا بڑی تفصیل سے تذکرہ کیا، اور ابتدائی کلمات میں یہ فرمایا : ’’ایک مدت سے میری تمنا تھی کہ مجھے آزاد کشمیر آنے کا موقع ملے، اور بارہا یہاں کے دوستوں نے آنے کی دعوت بھی دی، مگر آنا ممکن نہ ہوسکا۔ لیکن اب اس جنگ کے زمانے میں جوحالات یہاں گزرے اور جس طرح ہزارہا مہاجرین مقبوضہ کشمیر سے نکل نکل کر تباہ حال یہاں پہنچے، ان کے حالات سننے کے بعد دوسری تمام مصروفیتوں کو چھوڑ کر اس لیے یہاں آیا ہوں کہ اپنے بھائیوں کی حالت سے براہِ راست واقفیت حاصل کروں، اور جو خدمت میرے بس میں ہے، وہ انجام دوں۔اس جنگ کے دوران میں پاکستان کی سرحدوں پر بھی لاتعداد انسان بے گھر ہوئے ہیں اور ایک بہت بڑی تعداد مقبوضہ کشمیر سے بھی تباہ حالی کے ساتھ نکلنے پر مجبور ہوگئی۔میں نے وہاں بھی اس طرح کی داستانیں سنی ہیں اور یہاں آکر بھی ایسی داستانیں سنی ہیں جن کو حقیقت میں صبر کے ساتھ سننا نہایت مشکل ہے۔ پتھر کا جگر ہی چاہیے ان چیزوں کو سن کر برداشت کرنے کے لیے۔ لیکن جو بات مجھے کہنی ہے، وہ یہ ہے کہ، وہ کم ہمت اور بزدل قومیں ہوتی ہیں جو اس طرح کے حالات میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر کسی قوم میں غیرت و حمیت اور زندگی موجود ہو، تو ایسے حالات اس کی سوئی ہوئی روح کو بیدار کردیتے ہیں۔ پھر وہ ہمت کے ساتھ اُٹھتی ہے اور حالات کو بدلنے میں لگ جاتی ہے‘‘۔
مغرب کی نماز اد ا کرنے کے بعد مولانا مودودی نے مظفرآباد کے کلب ہوٹل میں درسِ قرآن دیا۔ اس موقعے پر صدر مجلس، آزاد کشمیر حکومت کے صدر[۶۹-۱۹۶۴ء] جسٹس عبدالحمید خان [م: ۱۳؍اگست ۱۹۸۶ء] تھے۔ درس کے بعد حاضرین کے سوالات کے شافی جوابات دیے۔
۲۷نومبر کو مولانا مودودی نے ریڈیو آزاد کشمیر، مظفرآباد میں تقریر ریکارڈ کرائی، جب کہ کلب ہوٹل کے سبزہ زار میں سردار محمد عبدالقیوم احباب کے ہمراہ گھاس پر بیٹھے مولانا کی واپسی کے منتظر تھے۔ جوں ہی مولانا واپس آئے تو سردار عبدالقیوم صاحب نے مولانا کو اپنی گاڑی میں بیٹھنے کی دعوت دی اور پھر خود کار چلاتے ہوئے کوہالہ پُل تک الوداع کہنے آئے۔ مولانا نے ظہرکی نماز مری میں پڑھی اور پھر راولپنڈی کی طرف کوچ کیا۔
۲۸نومبر کا دن راولپنڈی میں گزارا، اور سوموار، یعنی ۲۹نومبر کو مولانا مودودی آزاد کشمیر کے دوسرے بڑے شہر میرپور روانہ ہوئے، جہاں کے ڈپٹی کمشنر مرزا عزیز احمد اور معززین شہر نے آپ کا والہانہ استقبال کیا۔ ڈھائی بجے سہ پہر گورنمنٹ کالج میرپور کی مجلس اسلامیات کے سیمی نار میں مولانا نے تقریر کے بجاے حاضرین کے بہت سے سوالوں کے جوابات دیے۔
ایک استاد نے سوال پوچھا:’’ کیا بھارت اور پاکستان کی جنگ کو دونوں ملکوں کی ہوسِ ملک گیری کہا جاسکتا ہے؟‘‘
مولانا مودودی نے جواب دیا: ’’بھارت کی حد تک یہ بات درست ہے، مگر پاکستان کے بارے میں ہوسِ ملک گیری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ [اگست ۱۹۴۷ء میں] برعظیم ہند کی تقسیم جس اصول پر ہوئی تھی اور جسے ہندوئوں اور انگریزوں نے بھی تسلیم کیا تھا، وہ یہ تھا کہ مسلم آبادی سے متصل علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے، اور ہندو اکثریت کے متصل علاقے بھارت میں___ اس لحاظ سے جموں و کشمیر کو آپ سے آپ پاکستان میں شامل ہونا چاہیے ۔ اس لیے اگر پاکستان کشمیر کے لیے لڑائی پر مجبور کر دیا جائے تو اسے ہوسِ ملک گیری نہیں کہا جاسکتا‘‘۔
ایک صاحب نے پوچھا: ’’عہد ِخیرالقرون کے شہدا اور شہداے کشمیر میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟‘‘
مولانا مودودی نے جواب میں فرمایا:
شہادت کا درجہ جذبے کی شدت کے حساب سے ہوتا ہے۔ ایک شخص لاکھوں روپے اللہ کی راہ میں پیش کرتا ہے، دوسرا صرف ایک کھجور___ کھجور والے کے پاس جو کچھ تھا اس نے سب کچھ پیش کر دیا۔گویا اس کے جذبے کی Intensity [شدت] لاکھوں روپے دینے والے کے مقابلے میں زیادہ ہے، تو اس کو اجر زیادہ ملے گا۔ اللہ کی راہ میں جس شخص کا جذبہ جتنا صادق ہوگا، اتنا ہی بڑا درجہ اس کو نصیب ہوگا، مگر درجات کا فیصلہ کرنا بہرکیف ہمارا کام نہیں ہے ۔ ہم تو صرف اس قدر جانتے ہیں کہ ایک شخص بندئہ مومن تھا، لڑا اور شہید ہوگیا۔ اللہ اس کی شہادت اور جذبۂ شہادت کو قبول فرمائے‘‘۔
سوال و جواب کی اس بھرپور نشست کے بعد مولانا مودودی آزاد کشمیر کا دورہ مکمل کر کے ۳۰نومبر ۱۹۶۵ء کی صبح لاہور روانہ ہوئے۔(۵-اے، ذیلدار پارک، دوم، ص ۵۰-۷۹)
مولانا مودودی کشمیر کے بارے میںپُرخلوص ، نہایت سنجیدہ اور فکر مند رہتے تھے۔ وہ اہلِ کشمیر کی سیاسی ،فکری ،عملی اور دینی رہنمائی کے لیے متحرک رہتے تھے اورخطۂ کشمیر کے لیے ان کا دل ہمیشہ بے چین رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں کشمیر اور اس کے مسئلے کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔مولانا مودودی جن بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے تشریف لے جاتے، وہاں اس دیرینہ مسئلے کومدبرانہ اور مدلل انداز سے پیش کرکے اس کے حق میں قرارداد ضرور منظور کرواتے تھے۔
۱۹۶۶ء میں حج ِ بیت اللہ کے موقعے پر مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے انھوں نے ایک مقالہ تحریر فرمایا، جس کو عربی ،فرانسیسی، بنگلہ اورانگریزی زبان میں ترجمہ کرکے مختلف ممالک میں ۳۰ہزار کی تعداد میں تقسیم کیا گیا،تاکہ دنیا اس حساس مسئلے کی طرف توجہ دے۔ مولانا مودودی کشمیر کے اس دیرینہ اور انسانی مسئلے کے حل کے لیے نہایت کوشاں رہتے تھے، جس میں ریاست جموں و کشمیر کے عوام ایک طویل عرصے سے مبتلا ہیں۔مولانا مودودی نے مسئلہ کشمیر کو سب سے اہم اور حساس مسئلہ قرار دیا اور اس مسئلے پر جو عالمانہ اور قائدانہ کردار ادا کیا، وہ ان کی دینی، فکری ،سیاسی بصیرت کے شایان شان تھا۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی رفاہِ عام اور سماجی خدمت کے کام بہت ضروری ہیں اور کچھ پہلوؤں سے قدرے مشکل بھی۔ اسلام اور اسلامی تاریخ سے رہنمائی حاصل کی جائے تو قدم قدم پر خدمت کی ترغیب ملتی ہے۔ اسلام میں نیکی اور رفاہِ عامہ کا تصور بہت وسیع ہے۔ اس میں پس ماندہ افراد کے حقوق کی ادایگی کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے۔خدمت خلق کادائرۂ کار اپنوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سب تک پھیلاہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف ، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنادل پسند مال رشتے داروںاور یتیموں پر ، مسکینوں اور مسافروں پر ، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ (البقرہ۲:۱۷۷)
اسلام نے نہ صرف فرد بلکہ ریاست کو بھی عام لوگوں کی فلاح و بہبود کا پابند بنایا ہے اور حکمرانوں کو جواب دہ بنایا ہے کہ وہ رعایا کی ضروریات کو پیش نظر رکھیں۔ اسلام انفرادی، اجتماعی اور ریاستی و حکومتی سطح پر انسانوں کی فلاح و بہبود کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اسلام میں رفاہِ عامہ کا تصور ارتقائی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی تاریخ کا آغاز ظہور اسلام کے ساتھ ہی نظر آتا ہے اور مسلمان ہردور میں سماجی ومعاشرتی بہبود انسانی کی خاطر مسلسل مصروف عمل رہے ہیں۔ ان کا مطمح نظر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مسلمان، حاجت مند اور محتاج افراد کی ضروریات کی تکمیل کی ذمہ داری کتاب و سنت کے عائد کردہ احکامات کے مطابق محسوس کرتا ہے۔
رفاہی کاموں اور انسانی خدمات کے سلسلے میں ہمارے سامنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ موجود ہے۔آپؐ انسانی خدمت کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے تھے۔ بعثت نبویؐ سے قبل کے دور میںبھی آپؐ ہی تھے جو دُکھی لوگوں کی دست گیری کرتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کا تعارف ان سنہرے اور جامع الفاظ میںکرایا :
کَلَّا وَاللہِ لَا یُخْزِیَکَ اللہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِ یْ الضَّیْفَ وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ(بخاری ، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ، حدیث:۳) اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی رنج نہ دے گا ، آپؐ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، آپؐ ناتوانوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، آپؐ ناداروں کے لیے کماتے ہیں ، آپؐ مہمان نوازی کرتے ہیں ، آپؐ حوادث کے زمانے میں متاثرہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
ایثاراور خدمت کے اسی جذبے سے آپؐ نے صحابہ کرامؓ کی ایک مثالی ٹیم بنا دی تھی۔ اللہ کے رسو لؐ سے تربیت پاکروہ ہر معاملے میں دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ خود بھوکے رہتے اور دوسروں کو کھانا کھلاتے ، خود تکلیف برداشت کرتے اور دوسروں کو آرام پہنچاتے تھے۔ خدمت خلق اور جذبۂ ایثار صحابہؓ کی زندگی کا مقصد بن گیا۔ ہر کمزور اور مظلوم کو ان سے اُمید پیدا ہوگئی کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی ظالم و جابر ہمارا استحصال نہیں کر سکے گا۔
۱- مکہ کے حدود میں کسی پر ظلم نہیں کرنے دیں گے۔
۲- ہم سب مل کر مظلوم کی مدد کریں گے اور اسے اس کا حق دلوائیں گے۔
۳- کسی شخص کو کسی کے مال و آبرو پر دست درازی نہ کرنے دیں گے۔
۴- مکہ میں رہنے والے اور باہر سے آنے والوں کی یکساں داد رسی کی جائے گی۔
لَقَدْ شَھِدْتُ فِی دَارِ عَبْدِاللہِ بْنِ جُدْعَانَ حِلْفًا مَا اُحِبُّ اَنَّ لِیْ بِہٖ حُمْرَ النَّعَمِ وَلَوْ اُدْعٰی بِہٖ فِی الْاِسْلَامِ لَأَ حْبَبْتُ (ابو محمد عبدالملک ابن ہشام ، السیرہ النبویہ، ج۱، ص۱۳۴) میں عبدللہ بن جدعان کے مکان میں ایک ایسے حلف (حلف الفضول) میں موجود تھا جو مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ پیارا تھا اور اگر اسلام میں بھی کوئی ایسے عہد کی طرف بلائے تو میں قبول کر لوں گا۔
داعی کو اس پہلو پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ ایسا راستہ ہے جس سے داعی اپنے مخاطب کو ابدی سچائیوں سے روشناس کرا سکتا ہے۔ اسی لیے داعی یا تحریکوں اور تنظیموں کو تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور اپنے وسائل میں ایک بڑا حصہ اس پر صرف کرنا چاہیے۔ معیاری تعلیمی ادارے،تعلیم بالغاں، کیرئیر گائیڈنس اور مفت کوچنگ سنٹرزاس ضمن میں کافی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۰ۭ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۶۰(التوبہ۹ : ۶۰) یہ صدقات تو در اصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہو ں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو ، نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔
ایسی سرگرمیوں سے مسلمانوں کی خدمت کے ساتھ، معاشرتی امن اور دعوتِ دین کے کاموں کو زیادہ مؤثر انداز سے ترقی دی جاسکتی ہے۔
اکیسویں صدی کے پہلے ڈیڑھ عشرے میں بچوں پر مظالم اور جرائم کا گراف وسیع پیمانے پر بڑھ گیا ہے، بلکہ بچوں کے خلاف پیش آنے والے جرائم اور مظالم کا گراف آسمان کو چھونے لگا ہے۔ کہیں درندہ صفات انسان بچوں کو گولیوں سے چھلنی کرکے موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ کہیں مفاد پرست انسانوں نے بچوںکو غلامی سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے ۔ کہیں بچوں کو جرائم کی طرف زبردستی دھکیلا جاتا ہے ۔ کہیں آوارگی ، جنسی استحصال، ڈکیتی ، چوری اور بالآخر خودکشی پر مجبور کیا جارہاہے ۔ غرض دنیا کے ہرکونے میں غریب ، لاچار اوربےسہارا بچوں کا درندہ صفات انسانوں اور حکومتوں نے جینا دوبھر کردیا ہے ۔ روز سیکڑوں کی تعداد میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، جو مظلوم بچوں کے ظلم و استحصال سےمتعلق ہوتے ہیں ۔ ان واقعات و حادثات اور مظلومیت کی آہوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ ہے، جو ہر روز بڑھتا ہی جارہا ہے۔
۲۰۱۲ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کی جانب سے کرائے گئے سروے سے اس خطرناک صورت حال کا پتا چلا کہ ۱۳، ۱۴ سال کی عمر، یعنی نویں جماعت میں آنے سے پہلے ۵۰ فی صد بچے کسی ایک نشے کا کم سے کم ایک بار استعمال کرچکے ہوتے ہیں۔پھر زیادہ تر مزدور بچوں کی عمر ۱۴سال سے زیادہ نہیں ہے اور ان میں ۷۱ فی صد لڑکیاں ہیں، جن کے جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا (بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان) کی بات کی جائے تو یہاں ۶۰ فی صد آبادی ۱۸ سال سے کم عمر کی ہے۔ یہاں بچوں کے خلاف جرائم میں، بالخصوص پچھلے چار برسوں کے دوران جرائم میں بے حد اضافہ ہو ا ہے۔یہاں کسی حد تک بھارت میں جرائم کے اعداد و شمار پیش کیے جارہے ہیں، جن سے ملتی جلتی صورتِ حال پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی پائی جاتی ہے:
انڈین نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ۲۰۱۴ ء میں بچوں کے خلاف جرائم کے مقدمات ۹۰ ہزار درج کیے گئے ۔ جس میں ۳۷ ہزار اغواکے اور ۱۴ہزار ریپ سے متعلق ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ۴۳ لاکھ بچوں کو انتہائی جفا کشی سے زبردستی مزدوری کروائی جارہی ہے ۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ۹۸ لاکھ بچے ایسے بھی ہیں جنھوں نے اسکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا ہے جن میں ۸۰ فی صد کارخانوں اور کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ ان بچہ مزدوروں کی تعداد تقریباً ۶کروڑ تک ہوسکتی ہیں۔ گلیوں میں کوڑا دان ، گداگری وغیرہ سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔بچوں کے جنسی استحصال، ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا سلسلہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ’کئیرانڈیا‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ۵۲فی صد طالبات سے مردوں نے زبر دستی چھیڑچھاڑ کی حرکتیں کی ہیں۔ چھیڑ چھاڑ کے یہ واقعات زیادہ تر بس اسٹینڈ، اسکول اور کالج کے راستے اور احاطے میں پیش آئے۔ (روزنامہ انقلاب، ۲۶؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)
بچوں کو جرائم کی دہلیز پر پہنچانے کے لیے انٹر نیٹ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے ۔ انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس کا چلن عام ہے، جہاں بڑے پیمانے پر فحش مواد رکھا گیا ہے ۔ اس کے ذریعے سے بچے جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ بچے جب یہ فحش اور اخلاق سوز سائٹس دیکھتے ہیں تو ان کے دل و دماغ اور ان کے اعصاب پر برے اثرات پڑتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں وہ آسانی سے نہ صرف جنسی جرائم کی طرف لپکتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کو ترغیب دی جاتی ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ ایک سروے کے مطابق زیادہ تر بچے ۱۱ سے ۱۴سال کی عمر تک اس فحش مواد سے کسی نہ کسی صورت میں متعارف ہوچکے ہوتے ہیں۔ گویا کہ دونوں کام ساتھ ساتھ چلتے ہیں کہ بچوں پر جان بوجھ کر ذہنی تشدد کیا جاتا ہے اور ان پر تشدد کرنے کے لیے ساز گارماحول بھی بنایاجاتا ہے۔
بچوں کے خلاف جرائم اور مظالم کے خلاف اگر چہ کچھ کوششیں ہوتی ہیں لیکن وہ صرف کانفرنسوں تک محدود ہیں۔ ۲۰۱۲ء میں بچوں پر تشدد کے حوالے سے کولمبو میںایک کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں مندر جہ ذیل تجاویز پیش کی گئیں :
۱- بچوں پر تشدد کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں ۔۲-ادارہ اور کمپنیوں اور گھروں میں کام کرنے والے بچوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے مربوط کوششیں کی جائیں ۔ ۳-بچوں کے تحفظ کے لیے مضبوط قانون ،پالیسیاں اور ضابطۂ اخلاق بنایا جائے ۔
یہ تجاویز تو اپنی جگہ ٹھیک ہیں، لیکن جرائم کے سد باب کے لیے ان میں گہرائی سے کوئی بات نہیں کی گئی ۔ یہ قراردادیں جو ان کانفرنسوں میں پاس ہوئی ہیں بس کچھ رسمیات ہیں جن کو پُر کیا جاتا ہے۔ حقوق انسانی کے علَم بردار وں نے بھی اس اہم مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیاہے۔ وہ بھی کبھی چند قرار دادوں سےآگے بڑھنے کی زحمت نہیں اٹھاتے ہیں۔
دنیا میں تین طبقے اس وقت زیادہ مظلوم ہیں: ۱- مزدور طبقہ ۲-خواتین اور ۳- بے سہارا بچے ۔ ان تینوں طبقوں کو ظلم و تشدد سے نکالنے کے لیے اور ان کی فلاح و بہبود اور ان کی اصلاح و تربیت کے لیے کوشش کرنا اہم ترین کام ہے ۔ اسلام نے ان تینوں طبقوں کی نگہداشت اور ان کی بہتر زندگی کے لیے جد وجہد کی بے حد تاکید کی ہے۔ معاشرہ پُرامن اور صحت مند تبھی بن سکتا ہے جب اس میں مزدوروں ، یتیموں، بے سہارا بچوں ،حاجت مندوں اور مظلوم خواتین کا خاص خیال رکھا جائے۔ اِن کی مالی اعانت، تعلیم و تربیت اور ان کو آگے بڑھانے کے لیے جد و جہد کرنا اسلام میں لازم ٹھیرایا گیاہے۔اس کے علاوہ بے سہارا بچوں کے غریب رشتہ داروں کو اس بات کا مکلف بنایا گیا ہے کہ ان کے حقوق ادا کیے جائیں اور ان کی تعلیم وتربیت کے نظم و نسق کا اہتمام کیا جائے اگر قریبی رشتہ دار اس ذمہ داری کو ادا نہ کرسکیں تو حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ظلم و تشدد کے شکار بچوں کی فلاح و بہبود اور ان کی اچھی زندگی کابندو بست کریں۔ بچوں سے محبت اور شفقت سے پیش آنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے ۔ بچوں کے حقوق ادا نہ کرنا اور ان کے ساتھ محبت و شفقت کے ساتھ پیش نہ آنا قساوت قلب کی علامت ہے ۔
دور جدید میں نام نہاد عالم گیریت، گلیمر اور انٹرنیٹ کی سہولیات سے دنیا مزین ہوگئی ہے۔ انٹرنیٹ کی جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہیں اس کے بہت سےمنفی اثرات بھی ہیں۔ آج کے اس سائبر کلچر نے گناہوں اور جرائم کو نہایت دل کش بنا کر پیش کیا ہے ۔ سائبر کلچر نے نت نئی برائیوں کو جنم دیا اور اس کے ذریعے روز بروز جرائم میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ دوسری جانب اس کو اتنا آسان بنا دیا گیا ہے کہ ہر فرد کی اس تک رسائی آسان بنا دی گئی ہے ۔جہاں بالغ اور باشعور لوگ اس کی زد میں آجاتے ہیں وہیں بچے بھی آسانی سے اس کا شکار ہوجاتے ہیں ۔کہیں سے بھی اس کو کنٹرول کرنے یا اس کے سدباب کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ کیاکیا جائے جس سے بچے اس قسم کے جرائم سے محفوظ و مامون رہ سکیں؟
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔(التحریم ۶۶:۶)
جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمرؓ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم اپنے آپ کو بچاتے ہیں ،لیکن اپنے اہل و عیال کو کس طرح بچائیں؟ تو آپؐ نے فرمایا : تم ان کو ان امور سے روکو ، جن سے اللہ تعالیٰ نے تم کو روکا ہے اور ان باتوں کا ان کو حکم دو جن کا اللہ نے حکم دیا ہے۔(الجامع الاحکام القرآن)
وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ (الانعام ۶: ۱۵۱) اور کھلی اور چھپی بے حیائی کی باتوں کے قریب مت جاؤ ۔
فواحش کے معنی بہت وسیع ہیں اس میں صرف بدکاری ہی شامل نہیں ہے بلکہ بدکاری ، بے حیائی اور فواحش کی تمام صورتیں اس میں شامل ہیں ۔بچوں کو حرام کاری، بے حیائی اور جرائم سے محفوظ رکھنے کے لیے گھروں اور اسکولوں میں ایک ایسا ماحول بنایا جائے، جس سے بچوں کی فطری صلاحیتوں کو ابھارنے کے ساتھ ساتھ ان کو عفت وعصمت کی حفاظت اور پاک دامنی کے طریقے بھی سکھائے جائیں ۔ ان میں خدا خوفی کا عنصر بھی پیدا کیا جائے۔ اس کار عظیم کو صرف والدین اور اساتذہ ہی بہتر اندازسے انجام دے سکتے ہیں لیکن ان کو سب سے پہلے خود مثالی بننا پڑے گا ۔ والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اللہ کی محبت ، آخرت کا خوف اوراپنا احتساب کرنا بھی سکھائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے ،اس وقت میں تمھیں بتادو ں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو‘‘۔ (لقمان ۳۱:۱۵)
اے میرے بیٹے نماز کا اہتمام کرو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو مصیبت تمھیں پہنچے اس پر صبر کرو۔ بے شک یہ باتیں عزیمت کے کاموں میں سے ہیں۔ (لقمان ۳۱: ۱۸)
اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس کا اہتمام کریں۔(طٰہٰ ۲۰:۱۳۲)
تربیت جتنے اچھے ڈھنگ سے کی جائے گی ،اتنا ہی وہ بچے کے لیے مفید رہے گی۔ اللہ کے رسولؐ نے اولاد کی عزت و اکرام کرنے کی بھی تلقین فرمائی ہے تاکہ انھیں غیرت ،احساس ذمہ داری، خود داری، حوصلہ اور باکردار زندگی گزارنے کا جوش وجذبہ ملتا رہے ۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
اَکْرِمُوْا اَوْلَادَ کُمْ وَ اَحْسِنُوْا اَدَبَھُمْ ( سنن ابن ماجہ) اپنی اولاد کی تکریم کرو، اور ان کی بہتر تربیت کرو۔
بہت سے ناعاقبت اندیش لوگ بچوں کو مزدوری پر لگاتے ہیں اور ان سے پر خطر کام لیتے ہیں جو ان کے بس اور طاقت میں نہیں ہوتا ہے ۔ بچوں کو آمدنی کا ذریعہ بنانا اور ان کو بنیادی تعلیم و تربیت سے محروم کرنا انتہائی بے رحمی اور ظلم ہے جو ناقابل تلافی جرم ہے ۔ کیونکہ یہی عمر ان کی شخصیت کی فکری و ذہنی نشوونما کے لیے نہایت اہم ہوتی ہے۔ اس عمر میں اگر ان کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی برتی جائے اور ان کی جسمانی نگہ داشت اچھی طرح سے نہ کی جائے تو مستقبل میں یہی بچے قوم و ملت کے معمار بننے کے بجاے تخریب کار بن جائیں گے۔ بچوں سے مزدوری کروانااور ان کے مستقبل کو پامال کرنا خود غرضی کی انتہا ہے ۔بچہ مزدوری دستور ہند میں Fundamental Rights کے تحت’استحصال سے محفوظ رہنے کا حقــ‘‘(Rights against Expolitation)کے عنوان کے ذیل میں۱۴ سال سے کم عمر بچوں کے لئے فیکٹریوں ، کانوں اور اسی طرح کی مزدوری کے دوسرے راستوں کو ممنوع قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بچہ مزدوری میں ہر جگہ اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔ اسلام میں بچہ مزدوری یا بچوں کو کسب معاش کا ذریعہ بنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ :۲۸۶) اللہ تعالیٰ تکلیف نہیں دیتا کسی کو مگر جس قدر اس کی گنجایش ہو۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان پر ایسا بوجھ نہ ڈالا جائے جس کے وہ متحمل نہ ہوں، کیونکہ ان سے مشقت کا کام لینا جائز نہیں ہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ولا تکلفوا ما یغلبھم(بخاری ، کتاب الادب)’’ اور ان کو ایسے کام کا حکم نہ دو جو ان پر غالب آجائے‘‘۔
ایک اور موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :بچہ پر کمائی کرنے کی مشقت نہ ڈالو اس لیے کہ اگر وہ کبھی کمائی نہ کرسکے تو وہ چوری ضرورکرےگا۔ ظاہر سی بات ہے جب بچہ مشقت برداشت نہیں کرے گا تو وہ ضرور کوئی دوسرا راستہ تلاش کرے گا جو اس کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ بچوں سے متعلق تصرفات سے بھی روک دیا گیاہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :تین افراد سے قلم اٹھا لیا گیا ہے سوتے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے ، بچہ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے اور مجنون سے یہاں تک کہ اس کو عقل آجائے۔ بچہ کی نگہداشت ، پرورش کرنا اور اس کے لباس و اخراجات کو برداشت کرنا اور باعزت زندگی گزارنے کا اہل بنانا والدین کی ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری کو اچھی طرح سے ادا کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے ۔
How can we claim to be the largest democracy in the the world , when our children are deprived of their right to ply and enjoy childhood ?
ہندوستان میں بچیوں کے رحم مادر میں قتل کیے جانے کے واقعات میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق چھے تا آٹھ سال تک کی بچیوں کا آبادی میں نمایاں فرق سامنے آیا ہے۔ اسلام میں قتل اولاد سے واضح طور پر منع کیا گیاہے اور اس بھیانک جرم سے باز رہنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ـــہے :
وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ (الانعام ۶:۱۵۱ ) اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے قتل نہ کرو ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے :
وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَ اِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا O (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۱) غربت کے ڈر سے اولا د کو قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی، بے شک ان کا قتل بڑی غلطی ہیں ۔
ایک اور جگہ پر قرآن مجید میں شدید الفاظ میں اولاد کو ضائع کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعا لیٰ ہے : ’’وہ لوگ انتہائی گھاٹے میں ہیں جنھوں نے اپنی اولاد کو ناسمجھی میں موت کے گھاٹ اتار دیا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے بندوںتک اپنی وحدانیت اور اپنی بندگی کی طرف دعوت دینے کے لیے انبیا کرامؑ کو مبعوث فرمایا، جن کی بعثت ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے۔ جب بھی دنیا میں نظام حق و عدل درہم برہم ہوجاتا اور زمین فساد کا گہوارہ بن جاتی اور کفر و شرک اور جہالت عروج پر پہنچ جاتے، تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آجاتی اور اپنے خاص،مقرب اور منتخب بندوں کو دنیاے انسانیت کی طرف مبعوث فرماتا، تاکہ نوع انسانیت کو طاغوت کی بندگی اور کفرو شرک سے نکال کے اللہ کی وحدانیت اور ا س کی بندگی کی طرف دعوت دے۔ یہ وہ بنیادی کا م ہے جسے حضرت آدم ؑسے نبی آخرالزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا کرامؑ نے اپنا مشن بنایا۔ ہرپیغمبرؑ نے اللہ کی بندگی، اصلاح عقیدہ اور تمام عبادتوںکو اللہ کے لیے خالص کرنے اور شرک سے اجتناب کرنے کو اپنی دعوت کا مرکز و محور قراردیا۔
اسی لیے قرآن نے بت پرستی اور مشرکانہ رسوم کو اقوام کے زوال و ہلاکت کا سب سے بڑا سبب قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس نے متعدد مقامات پر بتایا ہے کہ جن قوموں پر عذاب نازل ہوا ان میں پہلے نبی بھیجے گئے جنھوںنے لوگوںکو توحید کی دعوت دی لیکن کفارو مشرکین نے ان نبیوں کا مذاق اُڑایا، ان کی تکذیب کی اور اپنی بت پرستی پر بدستور قائم رہے۔
حضرت نوح ـؑاور ان کی قوم کا قرآن میں ۴۳ مقامات پر ذکر آیا ہے۔ حضرت نوح ـؑ کی دعوت و تبلیغ اس سر زمین سے وابستہ تھی جو دجلہ اور فرات کے درمیان واقع ہے اور یہ دونوں دریا آرمینیا کے پہاڑوں سے نکلتے ہیں اور جدا جدا بہہ کر عراق کے حصے زیر می میں آکر ملتے اور خلیج فارس میں جا گرتے ہیں ۔ وہیں اراراطہ کا پہاڑی سلسلہ ہے جس کی ایک چوٹی جودی پر کشتی نوح ـؑ اُترنے کے بارے میں روایات ہیں۔ ۱حضرت نوح ـؑ ایک اُولو العزم پیغمبر تھے۔ انھوں نے اپنی قوم میں ۹۵۰سال تک دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا ۔ ان کی دعوت میں توحید کو بنیادی ترجیح حاصل تھی ۔ حضرت نوح ـؑ کی قوم کفرو شرک کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ اس فساد سے دور رہنے کے لیے حضرت نوح ؑاپنی قوم کو دن رات، اُٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے سمجھاتے رہے ۔حافظ ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں:
بَعَثَہُ اللہُ تَعَالٰی لَمَّا عُبَدَتِ الْاَصْنَامُ وَالطَّوَاغِیْتُ وَشَرَعَ النَّاسُ فِی الضَّلَالَۃِ وَالْکُفْرِ فَبَعَثَہُ اللہُ رَحْمَۃً لِلْعِبَادِ فَکَانَ اَوَّلُ رَسُوْلٍ بُعِثَ اِلٰی اَہْلِ الْاَرْضِ ۲
اللہ تعالیٰ نے انھیں اس لیے مبعوث فرمایا کیونکہ لوگ بت پرستی اور طاغوت کی پرستش کرنے لگے اور لوگوں نے کفرو ضلالت کو ہی اپنا دین بنا لیا اور اللہ تعالیٰ نے نوح ـؑ کو لوگوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ اس لحاظ سے وہ پہلے نبی ہیں۔ حضرت نوح ـؑ کی دعوت کا مر کز و محور توحید تھا ۔انھوں نے اپنی قوم کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے ساتھ شریک نہ ٹھیرانے کی طرف دعوت دی۔ یہ ان کی دعوت کا سب سے بنیادی نکتہ تھا ۔ قرآن مجید میں اس تعلق سے ارشاد ہے :
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍO (الاعراف۷:۵۹) ہم نے نوح ـؑ کو کنعان کی قوم کی طرف بھیجا تو انھوں نے ان سے فرمایا: اے میری قوم!تم اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود ہونے کے قابل نہیں۔ مجھ کو تمھارے لیے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
ایک اور موقعے پر حضرت نوح ـؑنے اپنی قوم کو دعوتِ توحید سے انکار کر نے اور اللہ کی بندگی نہ کرنے پر دردناک عذاب کی وعید سنائی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖٓ ز اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ O اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍO (ھود۱۱: ۲۵-۲۶) ، ہم نے نوح ـؑ کو اس کی قوم کی طرف رسول بناکر بھیجا کہ میں تمھیں صاف صاف ہوشیار کر دینے والا ہوں کہ تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو۔ مجھے تو تم پر دردناک دن کے عذاب کا خوف ہے۔
اور ایک جگہ اس کی تفصیل یوں ہے :
اِنَّآ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖٓ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ O قَالَ یٰـقَوْمِ اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ O اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ O (نوح۷۱: ۱-۳) ہم نے نوح ـؑ کو ان کی قوم طرف مبعوث فرمایا کہ اپنی قوم کو ڈرا دو کہ اس سے پہلے کہ ان کے پاس دردناک عذاب آجائے۔ نوح ـؑ نے کہا: اے میری قوم میں تمھیں صاف صاف ڈرانے والا ہوں کہ تم اللہ کی عبادت کرو۔ اسی سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔
یعنی تمام معبودانِ باطلہ کی راہ سے منہ موڑ کر صرف اللہ کی بندگی اختیار کرو اور اس کے ساتھ ساتھ میری اطاعت کرو۔ اسی میں تمھاری نجات اور خیر خواہی پنہاں ہے۔
عاد کا مرکزی مقام ارض احقاف ہے۔ یہ حضرموت کے شمال میں اس طرح واقع ہے کہ اس کے شرق میں عمان ہے اور شمال میں ربع الخیال۔ آج یہاں ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ ان کی آبادی عرب کے سب سے بہترین حصہ حضرموت اور یمن میں خلیج فارس کے سوا حل سے حدود عراق تک وسیع تھی۔۳ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو ہر قسم کی خوش حالی اور متنوع نعمتوں سے نوازا تھا ۔ مزید یہ کہ زمین کو زراعت کے قابل بنایا، چٹانوں سے محلات اور گھر تعمیر کرنے کا ہنر عطا کیا اور جسمانی طاقت سے بھی سرفراز فرمایا تھا لیکن اس کے باوجود یہ قوم بت پرستی میں غرق ہوچکی تھی۔ اس قوم نے ڈھٹائی کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولؑ سے بغاوت کردی۔
حضرت ہودؑ کی دعوت ،دعوت توحید ہی تھی۔ انھوں نے اپنی قوم کو اللہ کی بندگی اختیار کرنے اور شرک سے اجتناب برتنے کے لیے ہر ممکن طریقے سے منوانے کی کوشش کی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا ط قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اَفَلَا تَتَّقُوْنَO (اعراف۷:۶۵)اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہودؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے برادران قوم اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی الٰہ نہیں۔ پھر کہا: تم غلط رویے سے پرہیز نہ کروگے ؟
ایک اور موقعے پر حضرت ہودؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اللہ تعالیٰ سے رُوگردانی کرکے اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراکر اس پر کیوں جھوٹ باندھ رہے ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ O (ھود۱۱:۵۰) اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔ تم تو صریح بہتان باندھ رہے ہو۔
قومِ عاد کی سرکشی اور رُوگردانی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ انھوں نے حضرت ہودؑ اور ان کی دعوت کا کھلے عام تمسخر اڑانا شروع کیا۔ چنانچہ وہ انتہائی ڈھٹائی اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت ہودؑ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ :
مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَۃٍ وَّ مَا نَحْنُ بِتَارِکِیْٓ اٰلِھَتِنَا عَنْ قَوْلِکَ وَ مَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْنَO (ھود۱۱:۵۳) اے ہودؑ! تو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر کیوں نہیں آیا ہے اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے اور تجھ پر ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
یہ جواب سن کر حضرت ہود ؑنے بے حد دکھ اور ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
اِنِّیْٓ اُشْھِدُ اللّٰہَ وَ اشْھَدُوْٓا اَنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ O (ھود۱۱:۵۴) اور تم گواہ رہو یہ جو اللہ کے سوا دوسروں کو تم نے اُلُوہیت میں شریک ٹھیرارکھا ہے اس سے میں بے زار ہوں۔
قومِ ثمود اپنے زمانے کی ایک طاقت ور قوم (super power) تھی۔ اس کا رہایشی علاقہ حجازاور شام کے درمیان حجر کا علاقہ ہے، جسے ’مدین صالح‘ بھی کہا جاتاہے۔ یہ علاقہ خلیج عقبہ کے مشرق میں واقع شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔۴ قوم ثمود ایک خوش حال اور طاقت ور قوم تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو زمین کے ایک بڑے علاقے کی قیادت و سیادت عطا کی تھی اور سرسبز و شاداب باغات اور چشموں سے بھی خوب نوازا تھا، لیکن ان عنایتوں کے باوجود اس قوم میں بت پرستی نمایاں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر رحمت نازل کرکے حضرت صالحؑ کو اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور اس کی عبادت کرنے کے لیے مبعوث فرمایا ۔ حضرت صالحؑ نے بھی دیگر انبیا کرامؑ کی طرح اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی لیکن اس قوم نے اللہ کے یکتا ہونے اور اس کی بندگی کرنے سے صاف انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس منظر کو یوں بیان کیا ہے:
وَ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًام قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط ھُوَ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَکُمْ فِیْھَا فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ ط (ھود۱۱:۶۱) اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح ؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے میری قوم کے لوگو!اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے۔ لہٰذا تم اس سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ فَاِذَا ھُمْ فَرِیقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ O ( النمل ۲۷:۴۵) ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالحؑ کو بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو۔ پھر بھی وہ دو فریق بن کر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔
حضرت ابراہیمؑ کا تذکرہ قرآن مجید میں ۶۹مرتبہ آیا ہے۔ آپؑ کو خلیل اللہ بھی کہا جاتاہے۔ سرزمین حجاز انھی کی اولاد نے بسائی اور دعوت و تبلیغ کا مر کز بنایا۔ حضرت ابراہیمؑ عالم انسانیت کے ایک عظیم داعی گزرے ہیں۔ دنیاے انسانیت کو شرک و بت پرستی سے مقابلہ کرنے اور اللہ کی وحدانیت اور اس کی بندگی کی طرف بلانا آپ کی دعوت کا نمایاں پہلو تھا۔
اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا (مریم ۱۹: ۴۲) یاد کرو وہ وقت جب ابراہیمؑ نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں کر رہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیـںاور نہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکیں۔
حضرت ابراہیمؑ نے نہایت شفقت اور ادب و احترام کے تمام تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے باپ کو توحید کی دعوت دی۔ حضرت ابراہیمؑ کو اس کا انجام معلوم تھا اور انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس دعوت کو پیش کر کے سنگسار یا جلا وطن بھی ہونا پڑ سکتا ہے، لیکن انھوں نے کسی خوف یا دھمکی کی پروا نہیں کی بلکہ اپنے مشرک باپ کو اعتماد کے ساتھ معبودان باطل سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور صرف ایک معبود برحق کی بندگی اختیار کرنے کو کہا۔
اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَا تَعْبُدُوْنَ O قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَھَا عٰکِفِیْنَO (الشعراء۲۶: ۷۰-۷۱) اور انھیں ابراہیمؑ کا واقعہ بھی سنادو ، جب کہ انھوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں ۔
حضرت ابراہیمؑ اپنی قوم کو کئی سال تک توحید کی دعوت دیتے رہے اور انھیں اللہ کی بندگی اختیار کرنے پر مائل کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بت پرستی کے انجامِ بد سے بھی باخبر کرتے رہے اور وہ صاف صاف ان سے کہتے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہووہ ہرگزبھی اس قابل نہیں۔
حضرت یعقوبؑ پیغمبرانہ قوم سے تعلق رکھتے تھے اور ایک برگزیدہ پیغمبر تھے۔ ان کے والد کا نام حضرت اسحاق ؑاور ان کے دادا کا نام ابوالانبیا حضرت ابراہیمؑ تھا۔ حضرت یعقوبؑ کو اللہ تعالیٰ نے کنعان کی طرف بھیجا تھا۔ قرآن مجید میں ان کا تذکرہ دس جگہ واردہے۔ حضرت یعقوبؑ نے اپنی پوری زندگی دعوتِ دین کی راہ میں گزاردی ۔ جب حضرت یعقوبؑ بستر مرگ پر تھے اور بچنے کی اُمید نہ تھی تو اس وقت انھوں نے اپنی اولاد کو جمع کرکے وصیت کی جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رہتی دنیا تک کے لیے محفوظ رکھا ہے ۔قرآن مجید میں اس کا تذکرہ یوں ہے کہ جب حضرت یعقوبؑ اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو انھوں نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا: مَا تَعْبُدُوْنَ مِنم بَعْدِیْ ط؟(البقرہ۲:۱۳۳) ’’میرے بچو ! میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟‘‘ ان سب نے جواب دیا:
قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَ اِلٰہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰھًا وَّاحِدًا ج وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ O (البقرہ۲:۱۳۳) سب ایک خداکی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیم ؑ، اسماعیل ؑاور اسحاق ؑنے خدا مانا ہے اور ہم اس کے مسلم ہیں۔
مولانا امین احسن اصلاحی اس کی تو ضیح کرتے ہیں: ’’ایک شفیق و مہربان باپ، جو خدا کا ایک پیغمبر بھی ہے، اپنی اولاد سے جو عہد و اقرار اپنے بالکل آخری لمحات زندگی میں لیتا ہے، اس کے اور اس کی اولاد کے درمیان سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا واقعہ وہی عہدواقرار ہو سکتا ہے، اور باوفا اولاد کا یہ سب سے بڑا اور سب سے مقدس فرض ہے کہ وہ ہر طرح کے حالات کے اندر اس عہد کو نبھا ئے‘‘۔ ۵
حضرت یوسفؑؑ کا تذکرہ قرآن مجید میں ۳۶مرتبہ آیا ہے اور ان کے نام پر قرآن مجید میں ایک پوری سورت موجود ہے جس میں تفصیل سے حضرت یوسفؑؑ کی زندگی اور ان کے دعوتی سفر کی روداد موجود ہے۔ حضرت یوسفؑؑ کے واقعے میں عظیم عبرتیں ، نصائح اور بے نظیر بصیرتیں پنہاں ہیں۔ ان کا ایک واقعہ زندان کے ساتھیوں کو دعوتِ توحید ہے۔ جب حکومت وقت نے انھیں قید خانے میں ڈال دیا تو وہاں انھوں نے اپنے دوساتھیوں کو جو ایک طویل عرصے سے جیل میں مقید چلے آرہے تھے ،دعوت توحید دی اور انھیں معبود برحق اور اس کے خالق ہونے کے متعلق تفکر و تدبر کرنے اور عقل سے کام لینے پر اُبھارا۔ قرآنِ مجید میں اس کی تفصیل یوں ہے:
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ O مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط (یوسف ۱۲:۳۹-۴۰) اے میرے قید خانے کے ساتھیو! تم خودہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جوسب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کررہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ فرماںروائی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔
اس واقعے سے پتا چلتاہے کہ حضرت یوسفؑ نے دعوت توحید کے ضمن میں کو ئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ وہ اس کے لیے ہر وقت مواقع نکالتے رہتے تھے۔
حضرت شعیبؑ کو اللہ تعالیٰ نے مدین کی طرف نبی بناکر بھیجا ۔ مدین حضرت ابراہیم ؑکے بیٹے یا پوتے کا نام تھا۔ پھر انھی کی نسل پر قبیلے کا نام مدین پڑگیا ۔ مدین کا قبیلہ بحیرہ قلزم کے مشرقی ساحل کے ساتھ عرب کے شمال مغرب اور خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل پر اسی نام کی بستی کے آس پاس آباد تھا۔ یہ جگہ شام کے (اردن) کے متصل حجاز کی آخری حد تھی۔ مدین کا علاقہ تبوک کے بالمقابل واقع ہے۔۶ اسی قوم کو دعوت توحید اور دین حق کی آواز پہلی مرتبہ حضرت شعیبؑ کے ذریعے سے دی گئی تھی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس قوم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: شعیب ؑکے ظہور کے وقت ان کی حالت ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم کی تھی جیسی ظہور موسٰی کے وقت بنی اسرائیل کی حالت تھی۔ حضرت ابراہیمؑ کے بعد چھے سات سو برس تک مشرک اور بد اخلاق قوموں کے درمیان رہتے ہوئے یہ لوگ شرک بھی سیکھ گئے تھے اور بد خلقیوں میں مبتلا ہوگئے تھے ۔۷ حضرت شعیبؑ کی قوم میں بت پرستی کے علاوہ دوسری اخلاقی برائیاں بھی در آئی تھیں، مثلاً ناپ تول میں کمی، معاملات میں بگاڑ اور ڈاکا زنی وغیرہ ۔حضرت شعیبؑ نے اس قوم کو اللہ کی وحدانیت اور اس کی بندگی کی طرف دعوت دینے اور آخرت پر یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ ان اخلاقی برائیوں سے اجتناب کرنے کے لیے بھی کہا۔ قرآن مجید میں اس کا قصہ یوں ہے:
وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ O(العنکبوت ۲۹:۳۶) اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا ۔انھوں نے کہا: اے میری قوم کے لوگو!اللہ کی عبادت کرو اور قیامت کے دن کی توقع رکھو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔
دوسری جگہ اس کی وضاحت یوں ہے:
وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا ط قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط قَدْ جَآئَ تْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَO (الاعراف ۷:۸۵) اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمھارے رب کی طرف سے صاف رہنمائی آئی ہے لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھٹا کر نہ دو، اور زمین میں فساد نہ کرو۔ اس میں تمھاری بھلائی ہے اگر تم سچے مومن ہو۔
گویا کہ اس قوم میں دو بڑی ا خلاقی خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ ایک اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہ کرنا اور ا س کی بندگی سے منہ موڑنا اور دوسری تجارتی معاملات میں بددیانتی اور فریب کاری جنھیں حضرت شعیبؑ نے اولین فرصت میں مخاطب کیاتھا۔
قرآن مجید میں انبیا کرامؑ میں سے سب سے زیادہ تذکرہ حضرت موسٰی کا ۱۳۶ مرتبہ ہوا ہے۔ حضرت موسٰی کی پرورش نہایت ہی متکبر اور دنیا کے سب سے بڑے مشرک ، کافر اور ظلم و طغیان کے سب سے بڑے علَم بردار فرعون کے گھر میں ہوئی ۔ فرعون نے ظلم و استبداد اور سرکشی میں ایسی مثال قائم کردی جس سے انسانیت آج بھی شرمسار ہے۔ اس نے زمین میں ہر طرف فساد پھیلا دیا تھا اور اس کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ اس نے اَنَـا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی (النازعات ۷۹:۲۴)کا دعویٰ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی کو فرعون کے پاس بھیجا تاکہ اس سے غرور و تکبر اور اس کے دعواے ربوبیت کا پُرزور دلائل سے توڑ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی O فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِلٰٓی اَنْ تَزَکّٰی O (النازعات۷۹: ۱۷-۱۸) تم فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہو کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کر۔
اللہ کے آخری رسولؐ کی دعوت عالم گیر اور ہمہ گیر ہے۔ سابق انبیاے کرامؑ کی دعوت اپنی اپنی قوم اور علاقے تک محدود ہوتی تھی ، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہے۔ آپؐ کی دعوتِ توحید کے بارے میں کہا گیا ہے:
قُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ ص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ (الاعراف۷ :۱۵۸) اے محمدؐ! کہہ دو، اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس الٰہ واحد کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں ہے۔ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمّی پر۔
جب یہ آیت فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَر نازل ہوئی تو اللہ کے رسولؐ کوہِ صفا پر چڑھ گئے اور یاصباہ کہہ کر پکارنے لگے ( یہ کلمہ عرب کی سرزمین پر اس وقت بولا جاتا تھا جب دشمن اچانک حملہ اور غارت گری کر دے ۔ اس پکار کے ذریعے سے قوم کو خبردار کیا جاتا تھا )۔ یہ پکار سن کر جب قریش کے لوگ جمع ہوگئے تو آپؐ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے عقب میں دشمن کا ایک لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے، کیا تم یقین کرلو گے؟ سب نے کہا: ہاں، یقینا ہم تصدیق کریں گے کیوں کہ آپؐ کو ہمیشہ سے ہم نے سچ بولتے ہوئے دیکھا ہے۔ آپؐ نے فرمایا :مجھے اللہ نے نذیر بناکر بھیجا ہے۔ میں تمھیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں ۔ آپؐ نے سبھی قبیلوں کا نام لے کر صدا لگائی :
اے بنی کعب، اپنے آپ کو دوزخ سے بچائو، اے بنو مرہ بن کعب، اپنے آپ کو دوزخ سے بچائو ، اے بنو عبد شمس ،اپنے آپ کو دوزخ سے بچائو ، اے عبدالمطلب ،اپنے آپ کو دوزخ سے بچائو۔ میں اللہ کے ہاں تمھارے کوئی کام نہیں آسکوں گا ۔۸ دوسری روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ’’ موت کے بعد تمھیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے، پس تم شرک سے باز آجائو‘‘ ۔
خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ جوبات سب سے اہم ہو اس کو انسان اپنے قریبی ساتھی، دوست، اور رشتہ دار کو باخبر کرے ۔ اس خیر خواہی کی بنیاد پر اللہ کے رسولؐ نے سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں کو اللہ کی بندگی اختیار کرنے کی دعوت دی ۔کیونکہ تعلق خاطر اور رشتہ داری کی بنیاد پر وہ اس کے زیادہ مستحق تھے کہ ان تک دعوت حق پہنچائی جائے ۔کسی بڑے مشن اور تحریک کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کے داعیوں اور علَم برداروں کو ایسے افراد مل جائیں جو ان کے مشن اور تحریک کو آگے بڑھانے میںممد و معاون ثابت ہوں ۔اسی لیے اللہ کی مشیت کے مطابق اس کے رسولؐ نے سب سے پہلے اپنے خاندان اور رشتہ داروں کو توحید کی دعوت دی۔
اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کا آغاز عقیدۂ توحید ، اللہ کی خالص بندگی اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے سے کیا تھا۔ آپؐ کو اللہ کی طرف سے یہ حکم ملا کہ:
اِنَّـآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہٗ الدِّیْنَ O(الزمر۳۹:۲) (ا ے نبیؐ) یہ کتاب ہم نے تمھاری طرف برحق نازل کی ہے لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔
دوسری آیت میں یہ ارشاد ہے :
قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ O (الزمر۳۹:۱۱) (اے نبیؐ )کہو مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اُس کی بندگی کروں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ۲۳ سالہ دعوتی سفر میں ہر فرد اور ہر قبیلے تک اللہ کا پیغام پہنچایا اور آپؐ کی دعوت کا موضوع زیادہ تر عقیدۂ توحید،اللہ کی خالص بندگی اور طاغو ت سے بے زاری کی طرف تھا۔ مثلاً آپؐ نے ایک قبیلے کو دعوت دیتے ہوے فرمایا:
یَا بَنِیْ فُلَانُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَعْبُدُوْہُ وَلَا تُشْرِکُوْابِہٖ شَیْئًا وَأَنْ تَخْلَفُوْا مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ۹ اے بنی فلاں، میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتاہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھیرائو اور اللہ تعالیٰ کے سوا تمام معبودوں کو چھوڑدو۔
ابن اسحاق نے طارق کی روایت نقل کی ہے کہ طارق بن عبداللہؓ نے کہا میں نے رسولؐ اللہ کو ذوالمجاز کے قبیلے میں دیکھا ، جب کہ میں خرید و فروخت کے سلسلے میں وہاں گیا تھا۔ نبی کریمؐ ہمارے سامنے سے گزرے۔ میں نے آپؐ کو یہ فرماتے ہوے سنا: اے لوگو ! لا الہ الا اللہ کہو، تم فلاح پاؤگے۔۱۰ اللہ کے رسولؐ نے دعوتِ توحید کو تمام کاموں پر ترجیح دی اور اسی راہ میں اپنی پوری زندگی صرف کردی ۔ اسی مقصد کی خاطر پوری صلاحیت لگا دی اور لوگوں کو اللہ سے جوڑنے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کی ۔
حاصل بحث :مذکورہ بالا تمام انبیا ؑ کا دین یا ملت ایک ہی ہے اور وہ ہے دین توحید ۔ اس دین توحید کی طرف ہر نبی اور رسول نے بلایا۔ گویا ان کی ایک ہی پکار تھی وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایک ہے اور اسی کی خالص بندگی کی جائے۔ یہی وہ پکار ہے جسے انبیاے کرامؑ نے مختلف علاقوں، زمانوں اور انسانی نسلوں تک پہنچایا۔ آخر میں خاتم النبیینؐ نے لوگوںتک دعوت توحید پہنچائی۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے عالم گیر رسول بناکر بھیجا ہے اور آپؐ کی دعوت کسی قبیلے ،علاقے یا قوم یا کسی مخصوص زمانے تک نہیں بلکہ اقوام عالم اور قیامت تک تمام انسانوں کے لیے ہے اور اسی دعوتِ حق میں تمام انسانوں کے لیے فلاح ونجات ہے۔یہ دعوت سب سے پاکیزہ اور متوازن نظام زندگی پیش کرتی ہے۔ اس سے بہتر کوئی دعوت نہیں ہوسکتی ۔اس مقدس دعوت کی آغوش میں جو شخص بھی آتا ہے اس سے بڑا کوئی خوش قسمت نہیں ہوسکتا ۔
۱- مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی ، قصص القرآن ، (مکتبہ قاسمیہ اردو بازار لاہور )، جلد اوّل، ص۸۵
۲- ابو الفداء اسماعیل بن کثیر ، قصص الانبیا ، (دارالحدیث القاہرہ، ۲۰۰۴ )،ص۶۰
۳- قصص القرآن ، جلد اول، ص۱۰۴
۴- ڈاکٹر شوقی ابو خلیل ،اطلس القرآن (اردو ترجمہ: حافظ محمد امین )، (مکتبہ دار السلام، ۱۴۲۴)، ص۶۳
۵- مولانا امین احسن اصلاحی ، تدبر قرآن ، جلد :اول (فاران فائونڈیشن، لاہور، جون ۱۹۹۶ء)،ص ۳۴۶
۶- اطلس القرآن ،ص۱۲۸
۷- سیّدمودودی ، تفہیم القرآن ، (ادارہ ترجمان القرآن ، لاہور، ۲۰۰۳ء) ،جلد دوم، ص۵۴-۵۵
۸- مسلم ، باب وَأَنذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْن
۹- ابن ہشام ، السیرہ النبویہ، ص ۳۸۶
۱۰- سیرت ابن اسحاق، محمد بن اسحاق بن یسار،تحقیق و تعلیق : ڈاکٹر محمد حمیداللہ، (نئی دہلی ۲۰۰۹ء)، ص ۳۲۶
میڈیا کا مطلب ، زندگی کے مختلف شعبوںکے متعلق خبروں، واقعات اور حادثات کا جائزہ لے کر ایک خاص تر تیب سے معلو مات جمع کر ناپھر اس کو عام فہم انداز میں پیش کر نا ہوتا ہے۔ میڈیا انگر یزی میں میڈیم(Medium) کی جمع ہے، جس کے معنی وسائل و ذرائع ابلاغ اور نشرواشاعت کے ہیں۔ بالفاظِ دیگر: میڈیا کے معنی یہ ہیں کہ اخبار،اورٹیلی وژن یا ریڈیو کے ذریعے عوام تک پروگرام یا معلومات پہنچائی جائیں۔
ہر دور میں خیالات ،پیغامات ،اور معلومات کی ترسیل کا کو ئی نہ کو ئی ذریعہ رہا ہے۔ عصرِحاضر میں پہلے ٹیلی گراف ، پھر ریڈیو اور اس کے ساتھ اخبار ،رسائل وجرائد اور ٹیلی وژن کا دور آیا۔ اب انٹر نیٹ کا زمانہ ہے جو معلو مات فراہم کر نے کا تیز ترین ذریعہ ہے۔ میڈیا (ذرائع ابلاغ) کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں:o پرنٹ میڈیا oالیکٹرانک میڈیا oسائیبر میڈیا ۔
۱- پر نٹ میڈیاسے مراد اخبارات اوررسائل و جرائد ہیںجو معلومات حاصل کر نے کا اور لو گوں کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کا سب سے آسان، سستا اور مستقل ذریعہ ہے۔ یہ ابلاغ کا پرانا ذریعہ ہے لیکن اس کی اہمیت و افادیت آج بھی بر قرار ہے۔
۲- الیکٹرانک میڈیا جس میں ریڈیو،ٹی وی اور کیبل وغیرہ شامل ہیں یہ ابلاغ کے جدید ذرائع ہیں ۔اس میں فلمیں،سیریلز اور اشتہارات کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے کیو نکہ یہ بھی پیغام پہنچانے کے مؤثر ذرائع ثابت ہورہے ہیں ۔الیکٹرانک میڈیا کے اُبھار کا زمانہ ۱۹۹۱ء میں شروع ہوا۔
۳- سائیبر میڈیا: یہ میڈیا کی جدید ترین شکل ہے۔ آج دنیا میں اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور اس کی اہمیت، افادیت اور وسعت روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔سائیبر میڈیا میں انٹرنیٹ، ویب سائٹس ، بلاگز وغیرہ شامل ہیں۔
میڈیا کی اہمیت و افادیت
ہر قو م،ملک اور تحریک اپنی بات لو گوں تک پہنچا نے کے لیے میڈ یا کا ہی سہارا لیتی ہے۔ میڈ یا یا ذرائع ابلاغ ایک ایسا ہتھیار ہے جو بہت ہی کم وقت میں کسی بھی مسئلے یا ایشوکے متعلق لوگوں کے ذہنوں کو ہموار کر تا اور ان کی راے بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ میڈیا ہی ہے جو کسی کام پر اُکساتا ہے اور کسی اہم کام سے توجہ ہٹاتا ہے۔ اس لیے آج فرد سے لے کر حکومت تک کی نکیل میڈیا ہی کے ہاتھ میں ہے۔
بہت عرصے سے مقننہ،انتظامیہ اور عدلیہ کو کسی بھی ریاست کے تین اہم ستون تصور کیا جاتا ہے اور ان تینوں اہم اداروں کے ذریعے کو ئی بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے، لیکن اب کسی بھی ریاست یا جمہوری ملک کا چوتھا ستون میڈ یا کو گردانا جاتا ہے۔
میڈ یا نہ صرف سماج کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ ایک جمہو ری ملک کا بھی اہم ستون ہے۔ یہ مجموعی طور پر ہر ملک و قوم میں لو گوں کی آواز اور ہتھیار ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ عصرِحاضر میں میڈیا کی اہمیت اور ضرورت ہر لحاظ سے پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے کیوںکہ یہ راے عامہ کو ہموار کر نے میں اہم کردار ادا کر تاہے۔
طاقت ور میڈ یا ہی ملک و قوم کو صحیح خطوط پر استوار رکھنے کے لیے اہم رول ادا کر سکتا ہے اور جب میڈ یا ہی اصول پسندی اور اقدار پر مبنی طرز عمل کو نظر انداز کر تا ہے تو یہ عام لوگوں کی تباہی کا ذر یعہ بنتا ہے۔ میڈیا کی آواز بعض اوقات پار لیمنٹ اورعدلیہ سے بھی طاقت ور ہو تی ہے کیونکہ یہ ظالم کے کر تو ت اور مظلوم پر روا رکھی گئی نا انصافی اور پھر اس کی بے بسی کو نمایا ں کر نے میں ایک کارگر ہتھیا ر کے طور پر ثابت ہو تا ہے ۔میڈیا تعمیر و تر قی کا بھی ایک ذریعہ ہے اور تخریب کاری کا بھی ۔ہم آج ایسے دور میں جی رہے ہیں، جس میں میڈیا کے سہارے بڑے پیمانے پر جنگ لڑی جارہی ہے۔
مغربی میڈیا اس وقت دنیا کے ۷۰ فی صد ابلاغی ذرائع پر قابض ہے۔ اس نے تمام اخلاقی اصولوں کو بالاے طاق رکھا ہے۔ سیاہ کو سفید ،ظالم کو مظلوم اور امن پسند کو دہشت گرد ثابت کرنا مغر بی میڈ یا کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔مغر ب نے میڈ یا کے ذریعے سے انتہائی منظم منصوبہ بند ی کے ساتھ اپنی فکر و تہذیب کی خوب تشہیر کی ہے۔ موجودہ دور میں مغرب نے ذرائع ابلاغ کی وساطت سے علم و فکر سے لے کر سوچنے سمجھنے کے زاویے تک اور کھانے پینے، رہنے سہنے اور طرزِگفتگو سے لے کر گھر یلو معاملات کے طور طریقے تک بد ل کر رکھ دیے ہیں۔
عالمی میڈیا نے بالعموم اور مغر بی میڈ یا نے بالخصوص، اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ایک بڑا محاذکھول رکھا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کی شبیہہ بگاڑنے کے در پے ہیں۔ مغربی میڈیا جب چاہتا ہے کو ئی نہ کوئی نئی اصطلاح وضع کر دیتا ہے اور کو ئی نیا شو شہ چھوڑ دیتا ہے۔ دنیا کے بہترین رسائل جن میں ادبی، تحقیقی اور سیاسی پرچے شامل ہیں،مغر بی دنیا سے شائع ہو کر ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ان رسائل میں خاص نقطۂ نظر پیش کیا جاتا ہے، جو مغر بی دنیا کے عین مطابق ہوتاہے۔
گذشتہ صدی کے اختتامی برسوں سے بالعموم اور نائن الیون سے بالخصوص، مغرب نے اپنے ناپاک سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ذرائع ابلاغ کو شاہ کلید کے طور پر استعمال کیاہے جس کے ذریعے وہ اسلام اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کو بنیاد پرست،انتہا پسند، دہشت گرد اور جنونی قرار دے کر، دنیا کے کونے کو نے میں اسلام اور اس کے علَم بردار وں کا خوب مذاق اڑا رہا ہے۔ اس کے ہاں اب دہشت گرد اور مسلمان میں زیادہ فرق نہیں رہا۔ مغر بی مفکر ین میں سے برنارڈ لوئیس اور پروفیسر ہن ٹنگٹن نے یہ بات منظم انداز سے پیش کی ہے کہ مغر ب کا اصل مسئلہ بنیاد پرستی نہیں بلکہ خود اسلام ہے ۔ ہن ٹنگٹن کا کہنا ہے کہ اسلام ایک مخصوص تہذیب کا نام ہے، جس کے ماننے والے اپنی فکر وتہذیب کے اعلیٰ ہو نے کے دعوے دارہیں اور اپنی تہذیبی بر تر ی کو کھو دینے پر کف افسوس مل رہے ہیں۔۱
دنیا میں تمام اسلام دشمن قوتوں میں سے اسلام کی شبیہہ بگاڑنے میں سب سے زیادہ سرگرم عمل نسل پرست یہودی ہیں، جنھوں نے عالمی ذرائع ابلاغ کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے۔ یہودیوں کے پاس دنیا کی بڑی بڑی خبررساں ایجنسیاں ہیں، جن کے ذریعے سے وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنارہے ہیں۔ان میں سے چند ایک کا تعارف اس طر ح سے ہے:
۱- رائٹر : عالمی خبر رساں ایجنسیوں میں رائٹر کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے۔دنیا میں ہرجگہ تمام اخبارات و ٹی چینلز اسی ایجنسی پر انحصار کر تے ہیں،حتیٰ کہ بی بی سی ،وائس آف امریکا کے اخبارات، اس سے ۹۰ فی صد خبریں حاصل کر تے ہیں۔ ۱۵۰ملکوں کے اخبارات، ریڈیو ، ٹی وی ایجنسیوں کو روزانہ لاکھوں الفاظ پر مشتمل خبریں اور مضامین بھیجے جاتے ہیں۔
۲- یونائیٹڈ پریس: دنیا کی چند بڑی خبر رساں ایجنسیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
۳- فرانسیسی نیوز ایجنسی( اے ایف پی) : فرانسیسی نیوز ایجنسی کی بنیاد فرانس میں ڈالی گئی۔ فرانس میں صرف ۷ لاکھ یہودی ہیں، لیکن وہاں شائع ہو نے والے ۵۰ فی صد اخبارات و رسائل پر ان کی حکمرانی چلتی ہے۔
۴- ایسوسی ایٹڈ پریس : یہ بھی ایک بڑی نیو ز ایجنسی ہے۔ اس ایجنسی سے ۱۶۰۰ روز نامہ اور ۴۱۸۸ ریڈیو ،ٹی وی اسٹیشن وابستہ ہیں۔
۵- والٹ ڈزنی: والٹ ڈزنی دنیا کی سب سے بڑی میڈیا کمپنی ہے۔ اس کے پاس تین بڑے ٹیلی وژن چینلز ہیں ۔ اے بی سی نام کا دنیا میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا کیبل نیٹ ورک ہے۔ دنیا کے ۲۲۵ ٹیلی وژن چینلز والٹ ڈزنی سے وابستہ ہیں۔
۶- ٹائم وار نر: یہ دوسری بڑی میڈیا فر م ہے ۔ پہلے یہ AOL کے نا م سے کام کرتی تھی۔ اس کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ دکھائے جانے والے چینل ایچ بی او ، ٹرنر براڈکاسٹنگ، سی ڈبلیو ٹی وی، وارنرز، سی این این، ڈی سی کو مکس، ہولو، ٹی این ٹی، ٹی بی ایس، کارٹون نیٹ ورک، ٹرنر کلاسک موویز، ٹرو ٹی وی، ٹرنر سپورٹس وغیرہ شامل ہیں۔
۷- وائی کام : یہ دنیا کی تیسری بڑ ی فر م ہے۔ اس کے پاس ٹی وی اور ریڈیو کے ۱۲ یا ۱۴چینلز ہیں ۔یہ کتابیں شائع کر نے والے تین بڑے اداروں اور ایک فلم ساز ادارے کی بھی مالک ہے۔پیرا ماؤنٹ پکچرز اور ایم ٹی وی اسی کمپنی کی ملکیت ہے ۔یہ پوری دنیا کے میڈیا پر حاوی ہے۔
۸- نیوز ہائوس: یہ یہودیوں کی ایک اشاعتی کمپنی ہے۔یہ کمپنی ۲۶ روزنامے اور۲۴میگزین شائع کر تی ہیں۔
ان کے علاوہ دی نیویارک ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ دنیا کے تین بڑے اخبارات ہیں۔ نیو یارک ٹائمز روزانہ ۹۰ لاکھ کی تعداد میں شائع ہو تا ہے۔ یہ جن ایشوز کو چھیڑتے ہیں، وہ آگے چل کر دنیا بھر کے اخبارات کے لیے خبر بنتے ہیں۔میڈیا کے ذریعے سے یہ انسانی ذہنوں کو خاموشی سے مسخر کر رہے ہیں ۔
اس کے علاوہ انٹر نیٹ پر بھی انھی لو گوں کاجال بچھا ہواہے۔ انٹر نیٹ پر انھوں نے ۱۰۳جعلی اسلامی ویب سائٹس بنا رکھی ہیں، جن کے ذریعے یہ نو مسلم اور ضعیف الایمان مسلمانوںاور نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
مغر ب کے لیے اسلام کی عالم گیر بر تری اور اس کا تیزی سے پھیلنا سر دردبنا ہوا ہے۔ ان کو اس بات کا خوف ستاتا رہتا ہے کہ مستقبل میں مسلمان ہی دنیا کی قیادت و سیادت کریں گے۔۲
اس لیے وہ اسلام اورعالم اسلام کو متنوع حربوں اور طر یقوں سے بد نام کر نے کی مسلسل کوشش کررہا ہے۔وہ میڈیا کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں پر مند ر جہ ذیل الزامات لگا کر لو گوں کو گمراہ کر رہا ہے:
۱- اسلام تشدد پر مبنی مذہب ہے اور اس کے ماننے والوں میں زیادہ تر دہشت گر د اور انتہاپسند ہیں۔
۲- اسلامی شریعت کی وجہ سے مسلمان پس ماندہ ہے۔
میڈیا کے ذریعے سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھا وا دینا مغر بی اور یورپی میڈیا کا سب سے اہم مشغلہ بن گیا ہے۔ ۱۹۹۶ء سے لے کر ۲۰۰۰ء تک یعنی چار سال میں صرفThe Sydeney Morning ، The West Australian Herald کے۱۰۳۸ مضامین شائع ہو ئے، جن میں ۸۰ فی صد مضامین میں مسلمانوں کو دہشت گرد،بنیاد پرست اور انتہاپسند کی حیثیت سے دکھا یا گیا ۔۷۳ فی صد مضامین میں مسلمانوں کو انسانیت کے قاتل ٹھیرا یا گیا اور صرف ۴ فی صد مضامین میں مسلمانوں کو انسانیت نواز بتا یا گیا ۔ ۳
غر ض یہ کہ عالمی میڈ یا اسلام اور عالم اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے مصروف عمل ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹے پر وپیگنڈے میں کو شاں ہے ۔ اسلام کے ماننے والوں نے ہر دور میں اپنی بات دوسروں تک منظم انداز میں حُسن وخو بی کے ساتھ پہنچائی اور اس میں کسی بھی قسم کی کوتاہی اور لاپروائی نہیں برتی۔قرآن مجید نے اس کے لیے دعوت کا لفظ استعمال کیا۔ ایک دور وہ بھی تھا جب انبیا، سلف صالحین اور اسلام کے علَم بردار گھر گھر تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے زبانی گفتگو اور تقریروں کا سہارا لیا کر تے تھے۔ اس حوالے سے حضرت نوحؑ کا کردار قرآن نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا :
اس نے عرض کیا: ’’ اے میر ے رب میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میر ی پکار نے ان کے فرار میں اضافہ کیا۔ جب بھی میں نے ان کو بلایا تاکہ تو انھیں معاف کردے، انھوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اَڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔ پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی ۔ پھر میں نے علانیہ بھی تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھا یا۔( نوح ۷۱: ۶-۸)
اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی o فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی o (طٰہٰ ۲۰:۴۳-۴۵ ) جائو تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کرلے یا ڈر جائے۔
اس تسلسل کو جاری رکھتے ہو ئے اللہ کے رسول ؐ نے سرزمین عرب میں لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دی۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ؐ کو اس بات کا حکم دیا کہ:
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ط وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَo (المائدہ ۵ :۶۷) اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچادو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔ یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمھارے مقابلہ میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا۔
مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ ط (المائدہ۵:۹۹) رسولؐ پر تو صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وقت میں ذرائع ابلاغ کی قوت سے بے خبر نہیں تھے اور نہ اس اہم چیلنج کو آپؐ نے نظر انداز کیا، بلکہ محدود افراد ی قوت اور وسائل کو بروے کار لا کر لو گوں تک رب کا پیغام پہنچایا ۔مثلاً چھٹی صدی عیسوی میں مکّہ میں اگر کسی کو ضروری اعلان یا کسی اہم بات کو دوسروں تک پہنچا نا ہوتا تو وہ اپنے جسم سے کپڑے اتار کر سر پر رکھ لیتا اور کوہِ صفا پر چڑھ کرزور زورسے چلّانا شروع کر دیتا : ’ہاے صبح کی تباہی‘۔ لوگ اس طرح کے اعلان کوتوجہ سے سنتے تھے۔ اللہ کے رسول ؐ نے بھی ابلاغ کے اس ذریعے کو استعمال کیا لیکن کپڑے اُتارنے اور چلّانے کے بجاے اس کو اسلامی رنگ عطا کیا۔
لوگوں تک الٰہی پیغام پہنچانے کے لیے انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا تھا۔ کارِدعوت کے سلسلے میں مختلف ممالک کے حکمرانوںتک دعوتی خطوط اور وفود بھیجے۔نیز ہر علاقے میں مبلغین روانہ کرتے رہے تاکہ ان تک پیغام الٰہی پہنچ سکے۔
عرب میں شعر و شاعری اور خطابات کا بھی بڑا دبدبہ تھا۔ مشرکین مکہ کو زبان دانی اور شاعری پر فخر اور ناز تھا اور وہ شعرو شاعری کے ذریعے سے بھی اللہ کے رسولؐ پر تکبر انہ لہجے میں حملے کرتے تھے۔اس چیلنج کو قبول کر تے ہوئے اللہ کے رسول ؐ نے صحابہؓ کو ترغیب دی کہ وہ اس فن کے ذریعے سے کفر کا مقابلہ کریں اور مشر کین مکہ کے حملوں کا جواب دیں۔ چنانچہ بہت سے صحابہؓ نے اس فن میں خوب جو ہر دکھا ئے۔ان میں حضرت حسانؓ بن ثابت ،حضرت کعبؓ بن مالک اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔انھوں نے شعر و شاعری کو اظہار ابلاغ کا ایک مؤثر ذریعہ بناکر کفار کا زبردست مقابلہ کیا اور اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کے دفاع میں جنگ لڑی۔حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کافروں کی ہجو میں شعر کہتے تھے۔ حضرت کعب بن مالک اسلام کے دشمنوں پر نفسیاتی رعب ڈالتے تھے اور حضرت حسانؓ بن ثابت مشرکین مکہ کی طر ف سے اللہ کے رسول کے خلاف کہے گئے اشعار کا نہ صرف جواب دیتے تھے بلکہ اللہ کے رسول ؐ کی مدح بھی کہتے۔ حضرت حسانؓ بن ثابت نے اپنی شاعری سے دین دشمنوں کو زبردست ضر بیں لگا ئیں اور ان کی زبانوں کو بند کیا ۔۴
اس دور میں خطابت کو بھی بڑی اہمیت حاصل تھی۔ خطبا کارول اپنے اپنے قبیلوں میں انتہائی اہم ہوا کر تا تھا۔ اس فن کو بھی دورِ نبوت میں متعدد صحابہ نے اختیار کیااور اس کو اظہار و ابلاغ کا ذریعہ بنا کر اسلام کے بول بالا کے لیے استعمال کیا۔ ان میں سے ایک خاص نام حضرت ثابت بن قیسؓ کا ہے جنھیں خطیب اسلام کے لقب سے بھی نوزا گیا۔ان کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیقؓ،حضرت عمر بن الخطابؓ ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے خطابت کے میدان میں زبردست جوہر دکھائے۔
اُمت مسلمہ ایک ذمہ دار امت ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے ایک عظیم منصب پر فائز کیا اور اس کو خیراُمت کے خطاب سے نوازا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط ( ٰال عمرن۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو، جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اس خیرِاُمت کی ذمہ داری ہے کہ لو گوں تک سچائی پہنچائی جائے کیو ںکہ اگر خیرِاُمت یہ کام نہیں کر ے گی تو دنیا شرو فسادسے بھر جائے گی۔ اس کے لیے موجودہ ذرائع ابلاغ کو استعمال کرکے انسانیت کو ہدایت کی روشنی میں لانے کے لیے مدد لی جانی چاہیے۔
میڈیا کے فرائض
عصرِ حاضر میں اسلام اور مسلمانوں پر مغربی ذرائع ابلاغ کی جو یلغار ہے، وہ ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے۔ اس نے ہر انسان کے فکر و خیال کومتزلزل کر کے نت نئی اُلجھنوں اور مسائل کا شکار بنایا ہے۔ عریانیت اورفحاشی کو اتنا عام کیا کہ اب یہ معاشرتی زندگی کا ایک اہم اور لازمی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ میڈیا ہی کے سہارے سے مغرب نے اپنی فکرو تہذیب پوری دنیا میں پھیلا دی ہے۔ مادہ پرستانہ ذہنیت، عیش پرستانہ مزاج،فیشن پر ستی،گلیمر،کلچر اور جاہ وحشمت کے حصول کے لیے تمام اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈالنا، جذبۂ مسابقت، فتنہ پروری اور اشتعال انگیزی کو میڈیا ہی کے ذریعے خوب فروغ دیا جارہا ہے۔
مغربی اور یورپی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کو ہر جگہ ذہنی غلام بنانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ چوںکہ یہ دور جسمانی غلامی کا نہیں بلکہ ذہنی غلامی کا ہے۔ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے کہیں زیادہ طاقت ور ہوتی ہے اور بدتر بھی۔یہ استعماریت کی ایک نئی شکل ہے، جسے مغر ب پوری کامیابی سے استعمال کر رہا ہے۔ لہٰذا نہ صرف اس کے تدارک کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ایک اچھا متبادل پیش کرنا بھی ضروری ہے، جو نہ صرف انتہائی صحیح فکر و خیال کی آبیاری کر ے بلکہ اس کی تہذیب وثقافت کو بھی پلید اور گندا ہو نے سے محفوظ رکھے۔اصولی طور پر میڈ یا چند بنیادی مقاصد کے تحت کام کر تا ہے جو میڈ یا کے فرائض بھی ہیں:
۱- میڈیا کا پہلا فر یضہ یہ ہے کہ وہ عوام تک صحیح معلومات فراہم کر ے۔
۲- میڈیا کا دوسرا فر یضہ ذہن سازی ہے کہ وہ صحیح خطوط پر عوام کی ذہن سازی کا کام کرے۔
۳- میڈیا کا ایک اور مقصد لو گوں کو تفریح فراہم کرنا بھی ہے۔لیکن اگر یہ تفر یح انسان کو انسان کے مر تبے سے گرادے تو پھر یہ تفریح نہیں بلکہ اذیت ہے۔
اسلامی میڈیا کا کام ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے۔ اس کا کام نہ صرف مخالفین اسلام کے اعتراضات کا جواب دینا،غلط فہمیوں کا ازالہ کر نا ہے بلکہ آگے بڑھ کر اسلام کو متبادل کے طور پر پیش کر نا بھی ہے۔اسلامی میڈیا کی وسعت میں بہت گہرائی اور گیرائی ہے۔اس لیے کہ: اسلامی میڈیاصرف مذہبی پروگرام کو نشر کرنے کا نام نہیں بلکہ اس میں آرٹ ،تہذیب، علم و تحقیق اور دوسرے عالم گیر نو عیت کے پروگرام بھی شا مل ہیں، جنھیں اسلامی تعلیمات کے مطابق پیش کیا جانا چاہیے۔
اسلامی اصولو ں پر مبنی میڈیاسماج کو صحیح ڈگر پر رکھنے کے لیے جو رہنما اصول فراہم کر تا ہے ان میں فرد اور معاشرے کے لیے الٰہی ہدایات پر مبنی اقدار ہیں اور اس کے مقاصد میں بہت وسعت ہے۔اسلامی ذرائع ابلاغ کے تین مقاصد ہیں:
۱- اسلام ایک دعوتی مذہب ہے، اس لیے اپنے ماننے والوں پر یہ ذمہ داری عائد کر تا ہے کہ اس کو ہر فرد تک پہنچا یا جائے۔
۲- اسلام حق و صداقت، علم اور وحی الٰہی پر مبنی ہے۔ اس لیے اس کو مختلف ذرائع استعمال کر تے ہوئے انسانیت کو اسے اختیار کرنے پر مائل کیا جائے۔
۳- اسلام صحیح فکر اور زندگی کے حقیقی مقصد سے آگاہ کرتا ہے، اس لیے اس کی روشنی اور نور سے دوسروں کی زندگی کو بھی منور کیا جائے۔
اسلامی اسکالر اور مفکرین الیکٹرانک، پرنٹ اور سائیبر میڈیا کواسلام کی اشاعت اور پھیلائو کے لیے اور عالمِ اسلام کی مضبوطی اور ترقی کے لیے، ایک اہم عنصر تصور کرتے ہیں اور اس کو نظرانداز کرنے یا اس کو کم اہمیت اور ترجیح دینے کو بڑی لاپروائی اور غیر سنجیدگی سمجھتے ہیں ۔اگر مسلمان علم و استدلال کے ذریعے ذرائع ابلاغ کی دنیا میں بہتر کار کر دگی کا مظاہرہ نہیں کر یںگے تو اسلام کو دائمی اور عالمی مذہب کے طور پر ہر گزپیش نہیں کر سکیں گے۔ صرف تیر و تفنگ اور بندوق کے میدان میں دشمن کا مقابلہ کر نا مطلوب نہیں بلکہ قرطاس و قلم اور نشرواشاعت کی دنیا میں بھی اس کا مقابلہ ضروری ہے اور اس طرح سے ہر چیلنج کا جواب دینا ضروری ہے جو اسلام کو درپیش ہے۔
اس وقت مسلمانوں کے پاس عالمی معیار کا کو ئی میڈیا موجود نہیں ہے، جو یہود و نصاریٰ اور معترضین کے برپا کیے ہو ئے فتنوں، ساز شوں،پروپیگنڈوں اوراعتراضات کا انتہائی معقول اور منظم طر یقے سے سد باب کر سکے۔ اس سلسلے میں اسلامی تحریکوں ،اداروں ،علما اور دانش وَروں کو سنجید گی سے غور کرنا چاہیے تاکہ ان صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے ساتھ ساتھ مالی قربانیوں سے بھی عصرِحاضر کے اس درپیش چیلنج کا مقابلہ بہ حُسن و خوبی کر سکیں۔لہٰذا، میڈیا پر صرف اپنی گرفت مضبوط ہی نہیں کر نی بلکہ اس کی سمت کو بھی صحیح اور پایداررُخ دینا ہوگا۔
اس بات کی بار بار ضرورت محسوس ہو تی ہے کہ مسلم ممالک کے پاس نہ صرف خبررساں ایجنسیاں اور نیوز چینلز ہوں بلکہ الیکٹرانک،پرنٹ اور سائیبر میڈیا کے تمام ادارے بھی ہوں، جو عالمی اور مغربی ذرائع ابلاغ کی ہرزہ سرائیوں ، کارستانیوں اور ان کے پروپیگنڈے کامنہ توڑ جواب دے سکیں۔
۱-مسلم ممالک اعلیٰ معیار کی میڈیا تعلیم و تربیت کے اداروں کا قیام عمل میں لائیں، جہاں سے جدید تعلیم یافتہ نوجوان اور ماہر ین تیار ہوں جو رپورٹنگ اور تجزیہ نگاری میں جاںفشانی سے کام کریں اور دنیا کو واقعات کی حقیقی شکل سے بھی روشنا س کرا ئیں۔
۲- سرکاری اور نجی سطح پر بھی ایسے ٹی وی چینلز قائم کیے جائیں جودعوتی جذبے کے ساتھ اور حق و صداقت کے بل پر آگے بڑھیں اور پروپیگنڈے کا پردہ چاک کریں۔
۳- ذہین اور باصلاحیت طلبہ کو میڈیا کورس میں داخلہ لینے کے لیے ترغیب دی جا ئے اور ان کے لیے مالی معاونت کا انتظام بھی کیا جائے۔
۴-ایسی ورکشاپس اور کانفرنسوں کا تسلسل سے اہتمام کیا جائے جو نہ صرف ابلاغیاتِ عامہ کی تعلیم حاصل کر نے والوں کے لیے ہوں، بلکہ ان تمام افراد کے لیے بھی ہوں جو صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان کی صحیح تربیت کر نے کے لیے مختلف مراحل میں پرو گرام منعقد کیے جائیں تاکہ ان میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ اسلامی روح بھی بیدار ہو۔
۵- مغر بی فکرو تہذ یب اور فلسفہ نے پورے انسانی معاشرے کو جن اُلجھنوں ،مسائل اور مشکلات سے دو چار کر دیا ہے،تجز یہ و تحقیق اور دلائل سے ان خرابیوں کو اُجاگر کیا جائے تاکہ پو ری نوعِ انسانی ان مسائل اور خرابیوں سے آگاہ رہے۔
۶-عالمی اور مغر بی ذرائع ابلاغ، لابیاں اور تحقیقی ادارے اسلام کے مختلف احکام اور تعلیمات کے بارے میں بڑے پیمانے پر دنیا میں جو شکوک و شبہات پھیلا رہے ہیں ان کا جواب احتجاجی مظاہروںکے بر عکس علمی اور فکر ی سطح پر دینے کی ضرورت ہے۔چو نکہ علمی و فکر ی شبہات اور اعتراضات کا جواب علمی اور فکر ی زبان میں ہی دیا جا سکتا ہے، اس لیے یہ اسلامی دانش وروں، علما، مصنفین، تحر یکوں،تنظیموں اور اداروں کی ذمہ دار ی ہے۔
۱- سموئیل ہن ٹنگٹن،تہذیبوں کا تصادم، (اردو ترجمہ ،سہیل انجم )کر اچی اوکسفرڈ پریس ،ص ۱۲۹۔
۲- ایڈورڈ سعید، Orientalism ۱۹۷۷ء، ص ۴۶۔
۳- حسن الامین، فرح افضل، Hamdard Islamicus، جولائی،ستمبر ۲۰۱۵ء، ص ۵۶۔
۴- احمد حسن زیات،تاریخ الادب العربی (اردو تر جمہ عبد الرحمٰن طاہر سورتی) ۱۹۸۵ء ،البران، الٰہ آباد، ص: ۱۳۵
نو مبر ۱۹۸۹ء میں دیوارِ برلن کے گرنے کے ساتھ ہی بین الاقوامی سیا ست میں سرد جنگ بھی اختتام کو پہنچی ۔اس کے بعد مغر بی سیا ست دانوں،پالیسی سا زوں اور دانش وروں نے آیندہ اپنی خار جہ پالیسی کے لیے ایک نئی حکمت عملی وضع کی۔اس تعلق سے سب سے پہلے ایک امریکی مفکر فرانسس فو کو یاما نے ۱۹۸۹ء میں ایک امریکی رسالے The National Interest میں The End of History(انتہاے تاریخ) کے نام سے ایک مضمون لکھا کہ مغر بی تہذیب انتہائی عروج پر ہے اور یہ ساری دنیا پر چھا جائے گی۔ اسی مضمون میں فو کو یا مانے Liberal Democracyکا تصور پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہی انسان کی نظر یاتی تر قی کی آخری فتح ہے اور یہ کہ دنیا میں رائج نظریات کے درمیان کش مکش ختم ہو گئی ہے اور مغر بی آزاد جمہوریت کے سوا اب دنیا میں کو ئی نیا نظر یہ یا نظام آنے والا نہیں ہے ۔ ۱؎
اس کے بعد بر نارڈ لیوس نے اس نظر یے کو نئے قالب میں پیش کرتے ہوئے Return of Islam کے نام سے مقالہ لکھا۔ پھر اس مقالے کو نئی شکل دے کرماہ نامہ Atlantic میں The Roots of Muslim Rage (مسلم غم و غصہ کی جڑ یں) کے زیرعنوان زہریلی تحریر بناکر تہذیبی تصادم کا نظر یہ پیش کیا:
دراصل ہم ایک ایسی تحر یک اور صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں جو حکومتوں ،مسائل اور منصو بوں سے حد درجہ بڑھ کر ہے۔یہ صورت حال ایک تہذ یبی تصادم سے کم نہیں ہے۔ یہ ہمارے یہودی عیسا ئی ورثے ،ہمارے سیکو لر اور ان دونوں کی ساری دنیا میں اشاعت کے قابل رد عمل ہے۔۲؎
پرسٹن یونی ورسٹی کے پروفیسر بر نارڈ لیوس کا شمار اسلام اور مشرق وسطیٰ پر مغرب کے معروف دانش وروں میں ہوتا ہے ۔ وہ اپنی تحریروں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلے جذبات کا اظہار کرنے سے احتراز کرتے ہیں، لیکن اس ہاتھ کی صفائی کے باوجود متعصبانہ سوچ اور بغض چھپا ہو ا ہوتا ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح اور نظریے کے اصل خالق یہی ہیں ۔۳؎
برنارڈ لیوس کے بعد جس مغر بی مفکر اور پالیسی ساز نے تہذ یبی تصادم کے نظر یے کو انتہائی منظم انداز سے آگے بڑھا یا، وہ ہار ورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر سیموئیل پی ہن ٹنگٹن ہیں، جو نیشنل سیکورٹی کونسل میں منصوبہ بندی کے بھی ڈائرکٹر رہ چکے تھے ۔
انھوں نے فرانسس فو کو یا ما کے نظریاتی کش مکش کے خاتمے کے نظریے کو مسترد کرتے ہوئے یہ پیش گوئی کی کہ: ’’آیندہ دنیا میں تصادم نظریات کی بنیادد پر نہیں بلکہ تہذ یبوں کی بنیاد پر ہوگا۔مغر بی تہذیب جو اس وقت غالب تہذ یب کی صورت اختیار کر چکی ہے پوری دنیا کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتی ہے۔اس کا اسلامی تہذ یب سے ہر حال میں تصادم ہو نا ہے بلکہ شروع ہو چکا ہے‘‘۔ ہن ٹنگٹن نے ۱۹۹۳ء کے فارن افیئرز میںThe Clash of Civilizations کے عنوان سے مضمون لکھا، جسے ۱۹۹۶ء میں پھیلاکر The Clash of Civilizations and Remaking of the New World Order (تہذیبوں کا تصادم اور نئے عالمی نظام کی تشکیل)کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا، اور پھر اس پر دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر مباحثے کا آغاز ہوا ۔ نائن الیون کے بعد اس مباحثے نے نہ صرف طول پکڑا بلکہ شدت بھی اختیار کر لی۔
مغر بی مفکر ین اور پالیسی سازوں نے اس مفر وضے کو منطقی انداز میں پیش کر کے کہاکہ تہذیبوں (بالخصوص اسلامی اور مغر بی تہذ یب )کے مابین تصادم اور ٹکرائو لازم بلکہ ناگزیر بھی ہے۔ ہن ٹنگٹن کے مطابق آنے والے زمانے میں تصادم ،ٹکرائو اور جنگ، سیاست ،اقتصادیات اور سرحدوں پر ٹکرائو کی بنیاد پر نہیں بلکہ تہذ یبوں کی بنیاد پر ہوگی:
اس دنیا میں تصادم کا بنیادی سبب نہ تو مکمل طور پر نظر یاتی ہوگا،اور نہ مکمل طور پر معاشی، بلکہ نوع انسان کو تقسیم کر نے والے بنیادی اسباب ثقافتی ہو ں گے۔ عالمی معاملات میں قو می ریاستیں اہم کردار ادا کر تی رہیں گی، لیکن عالمی اہمیت کے بڑ ے تصادم ان ریاستوں اور گروہوں کے درمیان ہوں گے،جو مختلف تہذیبوں سے وابستگی کو اہمیت دیتے ہیں۔۴؎
مغر ب اپنی تہذ یب کی عالم گیریت پر یقین رکھتا ہے اور اس کا تصوریہ ہے کہ مغر ب کی تہذ یبی بالاتری اگر چہ رُوبہ زوال ہے، لیکن ہن ٹنگٹن کے بقول: مغرب اپنی برتری (pre-eminent position)کو قائم رکھنے کے لیے کو شش کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ وہ اپنے مفادات کو عالمی برادری کے مفادات کے طور پر پیش کرکے ان مفادات کی حفاظت کر رہا ہے ۔۵؎
ماہرین نے تہذ یبوں کا گہرائی سے مطالعہ پیش کیا ہے۔ مشہور مؤرخ ٹائن بی نے پہلے ۲۱ اور بعد میں دنیا کو ۲۳تہذیبوں میں تقسیم کیا۔ اسپنگر نے دنیا کی آٹھ بڑی ثقافتوں کی نشان دہی کی، میک نیل نے تہذ یبوں کی تعداد ۹بتائی،سلکیو نے ۱۲تہذ یبوں کی نشان د ہی کی ہے ۶؎ ، جب کہ خود ہن ٹنگٹن نے دنیا کی آٹھ بڑی تہذ یبوں کا تذکرہ کیا اور کہا ہے کہ مستقبل میں تصادم انھی تہذیبوں کے درمیان ہوگا : ۱-چینی ( کنفیوشس) ۲- جاپانی ۳- ہندو۴- اسلامی۵- قدامت پرست عیسائی ۶- لاطینی ۷- افر یقی۸- مغر بی تہذ یب۔
جنگ جو سیاسی مفکر، ہن ٹنگٹن نے تہذ یبی تصادم کے اس دور میں تین تہذ یبوں کو اہم قرار دیا ہے: ۱- مغر بی تہذیب ۲-چینی تہذ یب ۳- اسلامی تہذ یب۔ ہن ٹنگٹن کے مطابق پانچ تہذ یبوں کا ایک دوسرے کے ساتھ یا مغر ب کے ساتھ جزوی طور پر اختلاف ہو سکتا ہے،لیکن یہ اختلاف تصادم کی صورت اختیار نہیں کرے گا۔
ہن ٹنگٹن کے مطا بق اسلام اور مغر ب کے درمیان اختلاف اور باہمی تنازعے کو روز بہ روز بڑھا وا مل رہا ہے، جن میں پانچ عوامل کو مرکزیت حاصل ہے :
(۱) مسلم آبادی میں اضافے نے بے روزگاری اور بد دل اور مایوس نو جوانوں کی ایک بڑی تعداد کو جنم دیا ہے جو اسلامی تحر یکوں میں داخل ہو جاتے اور مغر ب کی طر ف نقل مکانی کر تے ہیں۔
(۲) اسلامی نشاتِ ثانیہ نے مسلمانوں کو اپنی تہذ یب کی امتیازی خصوصیات اور مغر بی اقدار کے خلاف نیا اعتماد عطا کیا ہے۔
(۳) مغر ب کا اپنی قدروں اور اپنے اداروں کو عالم گیر بنا نے اور اپنی خوبی اور اقتصادی برتری قائم کر نے اور عالم اسلام میں مو جود اختلافات میں مدا خلت کی مسلسل کو شش مسلمانوں میں شدید ناراضی پیدا کر تی ہے ۔
(۴) اشتراکیت کے انہدام نے مغر ب اور اسلام کے ایک مشترکہ دشمن کو منظر سے ہٹایا، مگر ان دونوں کو ایک دوسرے کے لیے ایک بڑے متوقع خطرے کی صورت میں لاکھڑا کیا ہے۔
(۵) اسلام اور مغرب کے درمیان بڑھتے ہو ئے تعلقات ان کے اندر یہ احساس ابھارتے ہیںکہ ان کی شنا خت کیا ہے اور وہ ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہیں ۔۷؎
ہن ٹنگٹن کے مطابق تہذیبوں کا تصادم انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر واقع ہوتا ہے۔ انفرادی سطح پر تصادم ، تہذ بیوں کے درمیان فوجی ٹکرائو اور ایک دوسرے کے علاقے پر قبضہ جمانے کے لیے ہو تا ہے،جب کہ اجتماعی سطح پر مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والی حکو متیں علاقوں میں اپنی فوجی و سیاسی بر تری کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر تی ہیں۔یہ اپنی اپنی سیا سی اور مذ ہبی اقدار کے فروغ کے لیے ایک دوسرے پر برتری لینے کی تگ ودو میں رہتے ہیں۔ ۸؎
ہن ٹنگٹن کے نزدیک، اسلام اور مغر بی تہذ یب کے در میان تصادم پچھلے ۱۳۰۰ سال سے جاری ہے۔ اسلام کے آغاز کے بعد عر بوں نے مغر ب پر چڑھائی کی۔ اس کے بعد صلیبیوں نے عیسائی حکومت قائم کر نے کی کوششیں کیں۔ انیسویں اور بیسویں صد ی کے ابتدا ئی دور میں عثما نی حکومت بھی زوال پذیر ہو گئی۔اور دیکھتے ہی دیکھتے برطا نیہ،فرانس اور اٹلی کی حکو متیں قائم ہوگئیں اور شمالی افر یقہ کے علاوہ،مشر ق وسطیٰ پر مغر ب کا اقتدار قائم ہوا۔۹؎
اسلام اور عیسائیت،مسیحی اور مغر بی دونوں کے درمیان تعلقات اکثر ہنگا مہ خیز رہے ہیں۔ یہ ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی رہے ہیں۔آزاد جمہو ریت اور مارکسی لنین ازم کے درمیان انیسویں صدی کا تنازع اسلام اور عیسائیت کے درمیان مسلسل اور گہرے مخاصمانہ تعلقات کے مقابلے میں ایک عارضی اور سطحی مظہر ہے۔۱۰؎ ہن ٹنگٹن کو معلوم تھا کہ مغر ب، اسلام کے خلاف سیاسی پر وپیگنڈ ے اور سیا سی سازشوں سے زیا دہ دیر تک عا لم اسلام میں اپنا و جو د قائم نہیں رکھ سکتا اور نہ فو جی اور اقتصادی بنیادوں پر باقی دنیا کو اپنے پنجۂ استبداد میں رکھ سکتا ہے۔ اسی لیے اس نے اسلام اور اس کی تہذ یب کو مغر ب کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا :
مغر ب کا بنیادی مسئلہ اسلامی بنیاد پر ستی نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام ہے جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے لوگ اپنی ثقافت کی بر تری کے قائل اور اپنی طاقت کی کم تری پر پر یشان ہیں۔ ۱۱؎
ہن ٹنگٹن مذ ہبی عالم گیریت، بالخصوص اسلامی عالم گیر یت کا اطلا قی اندازہ لگا تا ہے۔ مراد ہوف مین کے بقول: ہن ٹنگٹن غلط ہو سکتا ہے، لیکن وہ احمق ہر گز نہیں ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی، دہشت گردی، انتہا پسندی اور سیاسی اسلام جیسے الزامات لگانے میں مغر ب کا بنیادی ہدف اسلام ہے۔ اور اس نے اس کے لیے بے شمار ذرائع کو استعمال میں لا کر راے عامہ کو ہموار کیا، تاکہ پو ری دنیا اسلام اور عالم اسلام کے خلاف صف آرا ہو جائے۔مغر ب کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ مغربی فکر اور تہذیب کا اگر کسی تہذ یب میں مقابلہ کر نے کی صلاحیت اور طاقت ہے تو وہ صرف اسلامی تہذیب ہے۔ اسلامی تہذیب میں متبادل پیش کر نے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے، جو ان کے مطابق اگرچہ فی الوقت ایسا نہیں ہورہا ہے لیکن مستقبل میں ایسا ضرور ہو گا۔اسی لیے ان کے صحافی، مصنفین، ادبا، مفکر ین ، پا لیسی ساز، اداکار اور سیا ست داں اس بات کا بر ملا اظہار کرتے ہیں کہ The Red menace is gone, but here is Islam ۱۲؎(سرخ خطرے کا خاتمہ ہوگیا، لیکن اب اسلام ہے)۔
اسی لیے مغربی ماہرین ،اسلامی تحر یکات اور احیاے اسلام کو مغر ب کے لیے خطر ے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسلام کو اپنا اصل دشمن قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے اسلام کو شکست دینا اپنا ہدف قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک مغر بی انتہاپسند ڈینیل پایپس [امریکی تھنک ٹینک Middle East Forum کے صدر] نے یروشلم پوسٹ میں The Enemy has a Name کے عنوان سے مضمون میں لکھا ہے:’’ اصل میں یہ دشمن ایک واضح اور جا مع نام رکھتاہے اور وہ ہے ’اسلام ازم‘ ۔اسلام کے تخیلاتی پہلو کا انقلابی تصور ،اسلام پر ست آمر انہ نظر یہ کہ جو بھر پور مالی مدد سے اسلامی قوانین( شر یعہ) کو عالمی اسلامی ضا بطے کے طور پر نافذ کر نے کا خواب ہے ــ‘‘۔۱۳؎ وہ ایک انٹرویو میں اس بات کا بھی برملا اظہار کرتا ہے:
میں کئی عشروں سے یہ بات کہتا آیا ہوں کہ ’ریڈیکل اسلام‘ مسئلہ بنا ہوا ہے اور ’جدید اسلام‘ ہی اس مسئلے کا حل ہے۔۱۴؎
یو ر پ اور امریکا کے عام لو گوں کے لیے آج اسلام انتہائی ناگوار خبر کا عنوان بنا ہوا ہے۔ وہاں کا میڈیا ،حکو مت، پالیسی ساز اور محققین یہ تسلیم کیے بیٹھے ہیں کہ اسلام، مغربی تہذ یب کے لیے خطرہ ہے۔۱۵؎
یہ سلسلہ بیسویں صدی کے آٹھویں عشرے سے مسلسل آگے بڑھا یا جارہا ہے۔ پہلے اسلام کو خطر ے کے طور پر پیش کر نا اور اس کے بعد تہذ یبی تصادم کے نظریے کو وجود میں لانا مغر ب کی اہم کار ستانیاں ہیں۔۱۶؎ امریکی پالیسی ساز ادارے رینڈکارپوریشن نے ۲۰۰۴ء میں مسلمانانِ عالم پر ایک مفصل رپورٹ تیار کی۔ جس کا عنوان ـCivil Democratic Islam: partners resources and strategies ہے۔ اس رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکا اور مسلمان ایک دوسرے کے حریف ہیں، جس کی بنیادی وجہ مسلمانوں کا دینی رجحان ہے۔۱۷؎مسلمانوں کی بڑ ھتی ہوئی آبادی سے ہن ٹنگٹن اور دیگرمغر بی مفکر ین کو زبردست تشویش لاحق ہے۔ ہن ٹنگٹن کے بقول: مسلمانوں کی بڑ ھتی ہو ئی آبادی مغر بی اور یو رپی ممالک کے لیے خطر ہ بنتی جارہی ہے۔ دنیا کے دوبڑے تبلیغی مذاہب اسلام اور عیسائیت کے ساتھ وابستگی رکھنے والوں کے تناسب میں گذشتہ ۸۰برسوں میں بے حد اضافہ ہو۔۱۹۰۰ء میں دنیا کی کل آبادی میں مغربی عیسائیوں کی تعداد کا اندازہ ۹ئ۲۶فی صد اور ۱۹۸۰ء میں ۳۰ فی صد لگا یا گیا۔اس کے برعکس ۱۹۰۰ء میں مسلمانوں کی کل آبادی ۴ئ۱۲فی صد اور ۱۹۸۰ء میں ۵ئ۱۶ یا دوسرے اندازے کے مطابق ۱۸فی صد تک بڑھ گئی۔ ہن ٹنگٹن نے مغرب میں مسلمانوں کی مسلسل بڑھتی ہو ئی آبادی سے خبردار کر تے ہوئے لکھا ہے:
عیسائیت تبدیلیِ مذہب سے پھیلتی ہے، جب کہ اسلام تبد یلی مذ ہب اور افزایش نسل سے پھیلتا ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ڈرامائی طور پر بڑھ کر بیسویں صدی کی تبد یلی کے وقت دنیا کی کل آبادی کا ۲۰ فی صد ہو گیا اور چند برسوں بعد ۲۰۲۵ء میں یہ تعداد دنیا کی کل آبادی کی تقریباً ۳۰ فی صد ہوگیــ‘‘۔۱۸؎
مغربی دانش وروں نے اسلام اور مغر بی تہذ یب کے درمیان تصادم، مختلف پہلوئوں سے ظاہر کرنے کے لیے بے شمار حر بے استعمال کیے۔ اسلام پرپہلے شبہا ت کو جنم دیا، اور پھر الزامات عائد کرکے تصادم کے لیے راہیں ہموار کی گئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: اسلام، جد ید یت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مغر بی فکرو تہذیب، ثقافت اور عورتوں کی آزادی کے خلاف ہے۔ پھر اسلام اور جمہوریت میں کوئی مطابقت نہیں بلکہ واضح تضاد ہے۔
مشہور انگریزی لغت یونیورسل انگلش ڈکشنری میں یہ معنی دیے گئے:
Civilization : A state of social, moral, intellectual and industrial development.۲۰؎
یعنی انسان کے سماجی،اخلاقی ،فکر ی اور اس کی ترقیاتی تعمیر کے مختلف پہلو ئوں کا نام تہذیب ہے۔
’تہذیب‘ ایک ایسی اصطلاح ہے، جس میں کافی وسعت پائی جاتی ہے۔اس میں تصورِزندگی، طرزِ زندگی، زبان ، علم وادب ،فنونِ لطیفہ،رسوم ورواج،اخلاق و عادات،رہن سہن، کھانے پینے کا انداز،خاندانی و قومی روایات ،فلسفہ و حکمت،لین دین،اور سماجی معاملات، سب شامل ہیں۔یہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زند گی سنوارنے کا بھی نام ہے۔
اسلام نے تہذ یب کو نہ صرف مزیدوسعت اور جامعیت بخشی بلکہ اسے اخلاق عالیہ کے مرتبے تک پہنچا یا۔ اسلام نے تہذ یب کو دین و دنیا سنوارنے اور اصلاح کر نے کا ذر یعہ بھی بتایا، کیوںکہ اس میں انسان کے اخلاق و کردار،معاملات و معاشرت ،تعلیم و تمدن،سیاست،معیشت، قانون اور اداروں کی اصلاح، ان کو درست رکھنے کے لیے اصل رہنمائی موجود ہے۔اسلام مکمل دین ہے۔ اس نے جہاں انسان کو کارِ جہاں چلانے کے لیے مکمل رہنمائی دی، وہیں اسے ایک مکمل تہذ یب بھی عطا کی۔
کیا تہذ یبوں کے درمیان تصادم ہو سکتا ؟ یا کیا تہذ یبیں تصادم کی طر ف جا رہی ہیں ؟ اس حوالے سے اسلام کا مو قف بہت واضح ہے۔
اسلام تہذیبوں کے تصادم کا قائل نہیں۔ اسلام نے تو ماضی میں بھی دوسری تہذیبوں سے تصادم اور جنگ کے بجاے دعوت کے راستے ہی کو اوّلیت دی ہے۔ بقول پروفیسر خورشیداحمد: ’’تہذیبوں میں مکالمہ، تعاون، مسابقت حتیٰ کہ مثبت مقابلہ سب درست لیکن تہذیبوں میں تصادم، جنگ و جدال، خون خرابا اور ایک دوسرے کو مغلوب اور محکوم بنانے کے لیے قوت کا استعمال انسانیت کے شر ف اور تر قی کا راستہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ تہذ یبوں کا تصادم ہمارا لائحہ عمل نہیں۔ یہ مسلمانوں پر زبردستی ٹھونسا جارہا ہے‘‘۔ ۲۱؎ مراد ہوف مین کے نزدیک: ’’ تہذیبوں کے ارتقا میں کبھی کو ئی زیرو پوائنٹ نہیں ہو تا۔ دنیا میں ہر شخص نے کسی دوسرے شخص سے فیض پایا اور ہر شخص نے کسی دوسرے شخص کی کامیا بیوں پر اپنی عمارت کھڑی کی ہے‘‘۔۲۲؎
اسلامی تہذ یب نے اپنا دامن بہت وسیع رکھا ہے، تنگنائیوں اور محدودیت کے دائرے کی کو ئی گنجایش نہیں رکھی ۔اسی لیے اس نے ہر دور میں اور ہر جگہ ہردل عزیز رہنما اور تاب ناک نقوش چھوڑے ہیں اور ہر تہذ یب کو فائدہ پہنچایا ہے۔ مغر بی دانش ور اس بات کا خو د بھی اعتراف کر تے ہیں۔برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے ستمبر ۱۹۹۲ء میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی کے اسلامی سنٹر میں تقریر کر تے ہو ئے کہا کہـ: ’’ہماری تہذ یب و تمدن پر اسلام کے جو احسانات ہیں، ہم ان سے بڑی حد تک ناواقف ہیں۔وسطی ایشیا سے بحراوقیانوس کے ساحلوں تک پھیلی ہو ئی اسلامی دنیاعلم و دانش کا گہوارہ تھی، لیکن اسلام کو ایک دشمن مذہب اور اجنبی تہذ یب قرار دینے کی وجہ سے ہمارے اندر اپنی تاریخ پر اس کے اثرات کو نظرانداز کرنے یا مٹانے کا رجحان رہا ۔ مغر ب میں احیا ے تہذ یب کی تحریک میں مسلم اسپین نے گہر ے اثرات ڈالے ۔یہاں علوم کی تر قی سے یو رپ نے صدیوں بعد تک فائدہ اٹھایا‘‘ ۔ ۲۴؎
اسلام نے کبھی عیسائیت کے خلاف جارحانہ محاذآرائی نہیں کی اور نہ عیسا ئیوں کو اپنا دشمن باور کیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مسلمانوں نے عیسائیوں کو دوستانہ تعلقات قائم کر نے کے لیے نہ صرف اُبھارا بلکہ تاکید بھی کی ۔ اس بنیاد پر نہیں کہ وہ محض اللہ کے وجود کے قائل ہیں بلکہ وہ بہت سے انبیاے کرام ؑپر ایمان رکھتے ہیں، جن میں حضرت ابراہیم ؑ ،حضر ت اسحاقؑ، حضر ت یعقوب ؑ، حضرت یو سفؑ، حضرت مو سٰی ؑ شامل ہیں۔ان کے علاوہ اور بھی انبیاے کرام ؑ ہیں، جن پر وہ ایمان رکھتے ہے، جن کاتذکرہ قرآن مجید اوربائبل میں ہے۔جب دور نبوت میں مسلمان ابتلا وآزمایش کا شکار ہو ئے تو انھوں نے حبشہ کے ایک عیسا ئی بادشاہ کے ہاں ہجرت کی۔اس کے علاوہ اور بھی متعدد مثالیں مو جود ہیں۔ عیسائیت ہی کیا، اسلام نے کبھی بھی مذہب،تہذ یب ،نسل یا کسی بھی علاقے کے رہنے والوں کو اپنا دشمن تصور نہیں کیا ۔لیکن فساد پھیلانے والوں کی مذمت اور مزاحمت ضرور کی۔
اللہ تعالیٰ نے لو گوں کو راہ حق کی طر ف دعوت دینے اور ان کے خدشات کو دور کر نے کے لیے متعدد ذرائع اختیار کر نے کی تعلیم دی ہے۔جن میں سے ایک ذریعہ مکالمہ (Dialogue)بھی ہے۔ یہ دعوت کا ایک انتہا ئی مؤثر ،پُرکشش اورا ٓسان ذریعہ ہے۔قرآن کر یم میںمتعدد مکالموں کا تذ کرہ آیا ہے، مثلاً: (۱) حضر ت ہودؑ کا اپنی قوم کے ساتھ مکالمہ، (۲) حضرت مو سٰیؑ کا اپنی قوم سے مکالمہ ،(۳) حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے باپ آزر اور نمرود کے ساتھ مکالمہ، (۴) حضرت یو سف ؑ کا زنداں کے ساتھیوں کے ساتھ مکالمہ، (۵) ملحد اور موحد شخص کے درمیان مکالمہ ،وغیرہ وغیرہ۔
اسلام میں دوسرے مذ اہب اور تہذ یبوں سے مکالمہ کر نے پر ابھارا گیا ہے، تاکہ اللہ کی زمین پر عدل و انصاف،حقوق انسانی کا لحاظ اور فساد ،جنگ و جد ل قتل وغارت گری کا خاتمہ ہو، اور اقدار پر مبنی ایک پرامن اور صحت مند سماج وجود میں آ ئے ۔ اسلام کا مزاج عملاً دعوتی ہے۔ اس لیے مکالمہ اس کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کے سخت تر ین دشمن سے بھی مکالمے کے ذریعے تعلق پیدا کر نا فرائض دعوت میں شامل ہے۔شرک اور طاغوت سے نفر ت تو کی جائے گی، لیکن مشر ک اور طاغی کو مسلسل مکالمے کے ذریعے حق کی دعوت دی جاتی رہے گی، نفرت شرک سے ہے، مشرک سے نہیں۔ مکالمے میں مخاصمت، نزاع اور جرح کا کو ئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ باہم محبت و اُلفت اور عزت و اکرام کا خاص خیال رکھا جائے، نیز الزامات اور طعن و تشیع سے بالکل گریز کیا جائے۔ اس کے علاوہ خوش گوار انداز ،تعلقات اور ماحول میں مکالمہ کیا جائے اور خوش اسلو بی کوا ختیار کیا جائے۔
(۱) مشترکہ باتوں کو موضوعِ گفتگو بنانا (۲) تعارف اور (۳) دعوت وتبلیغ کے اصول
۱- قرآن کر یم نے اہل کتاب کے ساتھ مشتر کہ باتوںکو مو ضوعِ گفتگو بنا نے کے لیے ہدایت دی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ م بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ o( اٰل عمرٰن۳:۶۴) ’’اے اہل کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طر ف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بند گی نہ کر یں،اس کے ساتھ کسی کو شر یک نہ ٹھیرائیں۔اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے‘‘۔اس دعوت کو قبول کر نے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے)ہیں۔
اسی آیت میں یہود و نصاریٰ کو ان کے ظلم و جبر اور ان کے مشر کانہ عقائد کی بنیاد پر اے کافرو یا اے مشر کو! کہہ کر خطاب نہیں کیا گیا، بلکہ انھیں ایسے لقب سے خطاب کیا گیا ہے جس میں ان کا بھر پور عزت و اکرام کا لحاظ رکھا گیا۔
اسلام اور عیسائیت یا مغرب کے درمیان مکالمے کا آغاز دور نبوت سے ہی ہواتھا، جب اللہ کے رسول ؐ نے مشر ق و مغر ب کے حکمرانوں کو کھلے دل سے نیک تمنائوں اور خیر خواہی کے ساتھ اسلام کے عالم گیر پیغام پر غور اور تسلیم کر نے اور انھیں کفرو ظلمات سے نکل کر نو ر اسلام کو اختیار کرنے پر دعوت دی تھی۔قبولِ دعوت کی صورت میں انھیں دین و دنیا کی کامیابی اور سلامتی کی خوش خبر ی بھی سنائی گئی۔اہل کتاب کے فر ماں روائوں کے نام اللہ کے رسول ؐ نے جو دعوتی خطوط بھیجے ہیں ان میں اسلام قبول کر نے کی دعوت دینے کے بعد یہ جملہ بھی ہے: یُؤْتِکَ اللّٰہُ اَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ۲۴؎ اللہ تمھیں دہرے اجر سے نوازے گا۔
مغر ب سے مذ اکرات اور مکالمہ کی جتنی پہلے ضرورت تھی آج موجود ہ دور میں اس سے کئی درجے زیادہ ضرورت ہے۔اس سلسلے میں ۲۰۰۷ء میں عالم اسلام کے ۱۳۸؍اسلامی دانش وروں نے عیسا ئی رہنمائوں کے نام A common word between us and you کے عنوان سے ایک کھلا خط لکھا، جس میں بہت سی مشتر کہ باتوں کا تذکر ہ کیا گیا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طر ح کی پیش رفت کو آگے بڑھایا جائے ۔۲۵؎
مذاہب اور تہذ یبوں کے درمیان باہم تعارف ہو، تاکہ ایک دوسرے کے موقف کو سمجھ کر معاملات طے کر نے میں آسانی ہو۔تعارف سے ہی نزاع، ٹکرائو، تصادم اور جنگ کے مختلف اسباب کو اچھی طر ح سے ختم کیا جاسکتا ہے ۔ایک دوسرے کو جاننے اور تعارف حاصل کر نے کے بے شمار فوائد ہیں،جیسے آپس میں محبت سے رہنا ،ایک دوسرے کے قریب آنا،ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ کر نا وغیرہ وغیرہ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیںتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔
اس آیت مبارکہ میں تمام تہذ یبوں کی تعمیر و بقا اور باہم تال میل اور ساتھ رہنے کے رہنما اصول مو جود ہیں۔پہلے تمام انسانوں سے بلالحاظ مذ ہب و ملت خطاب کیا گیا:’’ اس لحا ظ سے تمام انسان اپنے اختلافات،تنوع اور زما ن ومکاںکی دوری کے باوجود ایک انسانی اصل سے باہم مربوط ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لو گ اس حقیقت کو اچھی طر ح اپنے دل و دماغ میں جاگزیں کرلیں اور اس کو ایک اخلاقی ضابطے کی حیثیت سے اپنے لیے اختیار کر لیں ۔اور اسی نقطۂ نظر سے دیگر قوموں اور تہذیبوں کو بھی دیکھیں ۔گویا کہ وہ روے زمین پر بسنے والے ایک ہی خاندان کے افراد ہیں‘‘۔ ۲۶؎
لِتَعَارَفُوْا کے بارے میں علا مہ ابن کثیر لکھتے ہیں: ای لیحصل التعارف بینھم کل یر جع الی قبیلتہ ۲۷؎ یعنی قبیلے کا ہر آدمی باہم تعارف حاصل کر ے۔
اسلام کے پیغام رحمت و عدل کو عام کر نا اور اس کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں تک پہنچانا مسلمانوں کا بنیادی اور سب سے اہم فر یضہ ہے۔ اس فر یضے سے غفلت اور کو تاہی بر تنا ایک مسلمان کے ہر گز شایان شان نہیں ہے۔دعوت و تبلیغ کے فر یضے کو انجام دینے کے لیے چند اہم باتوں کو ذہن میں تازہ رکھنابے حد ضروری ہے ۔اس میں حکمت ،خیر خواہی اورقولِ سدید خاص طور سے قابل ذکر ہے۔نیز مد عو قوم سے گفتگوانتہائی عمدہ طر یقے سے کر نے کی تاکید بھی کی گئی ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ o (النحل ۱۶:۱۲۵)اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ تمھارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اورکون راہِ راست پر ہے۔
اس آیت میں تین بنیادی اصولوں کا تذ کر ہ کیا گیا کہ حق سے آشنا لوگوں تک کیسے پیغام الٰہی پہنچا یا جائے، اور ان کو کس طر ح سے پیغام حق کی طر ف دعوت دی جائے۔ دعوت و تبلیغ کے یہ تینوں اصول وہی ہیں جو منطقی استدلال میں عمو ماً کام میں لائے جاتے ہیں۔ایک تو برہانیات جن میں یقینی مقد مات کے ذر یعے سے دعوے کے ثبوت پر دلیلیں لا ئی جاتی ہیں۔دوسرے خطبات جن میں مؤ ثر اقوال سے مقصود کو ثابت کیا جاتا ہے، اور تیسرا اصول فریقین کے مسلّمہ مقدمات سے استدلال کیا جانا ہے۔ ۲۸؎لہٰذا، دعوت و تبلیغ کے یہ تین اصول، یعنی حکمت وموعظت حسنہ اور جدال احسن جواہر پاروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۱- فوکویاما، The End of History، ۱۹۹۲ئ ۲- برنارڈ لیوس، ماہ نامہ The Atlantic، ستمبر ۱۹۹۰ء
۳- لیوس کی چند کتب What Went Wrong? Western Impact and Middle Eastern Response ،۲۰۰۲ئ، Crisis of Islam، ۲۰۰۳ئ، مقالہ Muslims to the War on Europe، یروشلم پوسٹ، ۲۹ جنوری ۲۰۰۷ئ۔ ۴- ہن ٹنگٹن ، مجلہ فارن افیئرز، گرما، ۱۹۹۰ئ۔
۵- ہن ٹنگٹن، تہذیبوں کا تصادم، ترجمہ: محمد شفیع شریعتی، سری نگر، ۲۰۱۳ئ، ص ۲۵۴۔
۶- حوالہ سابق، ص ۶۱ ۷- حوالہ سابق، ص ۲۳۹ ۸-ہن ٹنگٹن ،مجلہ فارن افیئرز، گرما، ۱۹۹۰ئ۔
۹- ایضاً ۱۰- ہن ٹنگٹن، تہذیبوں کا تصادم،ص ۲۹۰
۱۱- مراد ہوف مین، تہذیبوں کا تصادم، اکیسویں صدی میں،سہ ماہی مغرب اور اسلام، اسلام آباد، جولائی تا دسمبر۲۰۰۰ئ۔
۱۲- عبداللہ احسن، The Clash of Civilizations Thesis and Muslims، مشمولہ Islamic Studies، گرما، ۲۰۰۹ئ،ص ۱۹۸۔
۱۳- ڈینیل پایپس، The Enemy Has a Name، یروشلم پوسٹ، ۱۹ جون ۲۰۰۹ئ۔
۱۴- ڈینیل پایپس، Radical Islam Creates Terrorism، دی ٹائمز آف انڈیا، ۲۱مارچ ۲۰۱۶ء
۱۵- ایڈورڈ سعید: Covering Islam، نیویارک ۱۹۸۱ئ، ص ۱۳۶۔
۱۶- تفصیل دیکھیے: جان اسپوزٹیو، The Islamic Threat, Myth or Realty، نیویارک ۱۹۹۹ئ۔
۱۷- احمد سجاد، مغرب سے نفرت کیوں؟ سہ ماہی مطالعات، جلد۶، شمارہ ۱۷، ۱۸،۱۹۔
۱۸- پروفیسر ہن ٹنگٹن ، تہذیبوں کا تصادم، ص ۹۰۔
۱۹- فیروز اللغات، دارالکتاب، دیوبند، یوپی، ۱۹۹۹ئ، ص ۳۹۵۔
۲۰- The Universal English Dictionary
۲۱- پرو فیسر خورشید احمد،تہذیبوں کا تصادم۔حقیقت یا واہمہ ،تر جمان القرآن لاہور مئی ۲۰۰۶ئ،ص۲۲
۲۲- مرادہوف مین ،تہذیبوں کا تصادم ـاکیسویں صدی میں،سہ ماہی مغرب اور اسلام،اسلام آباد، جولائی تا دسمبر ۲۰۰۰ء
۲۳- مولانا عیسیٰ منصوری، مغرب اور عالم اسلام کی فکری و تہذیبی کش مکش ،ورلڈ اسلامک فورم، ۲۰۰۰ئ،ص:۸۸
۲۴- ڈاکٹر انیس احمد ،تہذیبی روایات کا مکالمہ، سہ ماہی مغرب اور اسلام، اسلام آباد، جنوری تا مارچ،۲۰۰۱ئ۔
۲۵- تفصیل کے لیے دیکھیے،islamic studies ,A common word between us and you, 2008,p:243 to 263.
۲۶- زکی المیلاد ،تہذیبوں کے باہمی تعلقات: مفاہمت ومذاکرات،(اردوترجمہ،ڈاکٹر نگہت حسین ندوی)، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹیڈیز، ۲۰۰۴،ص۳۱
۲۷- عمادالدین ابی الفداء اسماعیل بن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت دیو بند، ۲۰۰۲ئ، ص۲۷۵
۲۸- علامہ سید سلیمان ندوی، سیرۃالنبی، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ،۲۰۰۳، جلد:۴، ص۲۵۷
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ۱۵ سال سے لے کر ۲۴ سال تک کی عمر کو نوجوان کہا جاتا ہے ۔ اسی میں بچپن اور لڑکپن کا دور بھی شامل ہیں ۔ World Population Statistics کے مطابق دنیا کی کُل آبادی میں ۵۰فی صدآبادی ۲۵سال سے نیچے کی عمر پرمشتمل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نوجوانوں کی آبادی بڑھتی ہی جارہی ہے۔
قوتو ں، صلاحیتوں، حوصلوں، اُمنگوں ، جفا کشی ،بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے ۔ کسی بھی قوم وملک کی کامیابی وناکامی ،فتح و شکست ، ترقی وتنزل اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی ،معاشرتی سطح کا ہویا ملکی سطح کا، سائنسی میدان ہو یا اطلاعاتی ونشریاتی میدان، غرض سبھی میدانوں میں نوجوانوں کا کردار نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے ۔روس کا انقلاب ہو یا فرانس کا،عرب بہار ہو یا مارٹن لوتھرکنگ کا برپا کردہ انقلاب، ہر انقلاب کو برپا کرنے کے پیچھے نوجوانوں کا اہم حصہ کار فر ما رہا ہے۔ ماضی میں بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے ذریعے آئی ہے۔ زمانہ حال میں بھی ہر چھوٹی بڑی تنظیم یا تحریک چاہے سیاسی ہو یا مذہبی، سماجی ہو یا عسکری، ان میں نوجوان ہی پیش پیش ہیں۔ مستقبل میں بھی ہر قوم وملک اور تنظیم انھی پر اپنی نگاہیں اور توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
اب قرآن مجید کی طرف رجوع کریں گے کہ وہ نوجوانوں کی اہمیت اور کردار کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ قرآن مجید اصحاب کہف کے حوالے سے نوجوانوں کا کردر اس طرح سے بیان کرتا ہے: ’’ہم ان کا اصل قصہ تمھیں سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میںترقی بخشی تھی‘‘۔ یہ وہ نوجوان تھے جنھوں نے وقت کے ظالم حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر حق پرستی کاا علان کیا ۔
اللہ تعالیٰ ان کے عزائم وحوصلے اور غیر متزلزل ایمان اور ان کے عالم گیر اعلان کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے: وَّ رَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰھًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا o (الکھف ۱۸:۱۴) ’’ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اٹھے اور انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا رب بس وہی ہے جو آسمانوں ور زمین کا رب ہے، ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریںگے۔ اگر ہم ایسا کریںتو بالکل بے جا بات کریں گے‘‘۔
ان چند نوجوانوں نے اپنے زمانے میں جو کردار ادا کیا وہ تمام نوجوانوں کے لیے نمونۂ عمل ہے ۔ اسی طرح سے قرآن مجید نے حضرت موسٰی ؑ پر ایمان لانے والے چند نوجوانوں کا تذکرہ کیا۔ حضرت موسٰی ؑ کو قوم نے ہر طرح سے جھٹلایا لیکن وہ چند نوجوان ہی تھے جنھوں نے کٹھن حالات میں حضرت موسٰی ؑ کی نبوت پر ایمان کا اعلان کیا۔ اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے: فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاْئِھِمْ اَنْ یَّفْتِنَھُمْ ط وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِج (یونس ۱۰:۸۳)’’موسٰی ؑ کو اسی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربراہ لوگوں کے ڈر سے کہ فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا‘‘ ۔
مذکورہ بالا آیت میں ذریۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بہت ہی جامع اور معنی خیز ہے۔ سیدمودودیؒ نے ذریۃ کی تشریح پُرمغز انداز میں اس طرح کی ہے: ’’متن میں لفظ ذریۃ استعمال ہوا ہے جس کے معنی اولاد کے ہیں۔ ہم نے اس کا ترجمہ نوجوان سے کیا ہے۔ دراصل اس خاص لفظ کے استعمال سے جو بات قرآن مجید بیان کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس پُرخطر زما نے میں حق کا ساتھ دینے اور علم بردارِ حق کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جراء ت چند لڑکوں اور لڑکیوں نے تو کی مگر مائوں اور باپوں اور قوم کے سن رسیدہ لوگوں کو اس کی تو فیق نصیب نہ ہوئی۔ ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی اور عافیت کوشی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ وہ ایسے حق کاساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے جس کاراستہ ان کو خطرات سے پُر نظر آرہاتھا ‘‘۔(ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی، ص ۵۶۵- ۵۶۷ )
احادیث رسولؐ میں بھی نوجوانوں کے کردار اور ان کے لیے رہنما اصول کثرت سے ملتے ہیں۔ نو جوانی کی عمر انسان کی زندگی کا قوی ترین دُور ہوتا ہے ۔ اس عمر میں نوجوان جو چاہے کرسکتا ہے۔ انسان اس عمر کو اگر صحیح طور سے برتنے کی کوشش کرے تو ہر قسم کی کامیابی اس کے قدم چومے گی اور اگر اس عمر میں وہ کوتاہی اور لاپروائی برتے گا تو عمر بھر اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جوانی کی عمر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر فرد کے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔ اسی لیے اس کے بارے میں قیامت کے دن خصوصی طور سے پوچھا جائے گا ۔حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فر مایا: ’’یعنی قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پا نچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے ۔ عمر کن کاموں میں گنوائی؟ جوانی کی توانائی کہاں صرف کی؟ مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ جوعلم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا؟ (ترمذی باب صفۃ القیامۃ)
اس حدیث مبارکہ میں چارسوال جوانی سے متعلق ہیں۔ ایک عمر کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اس میں جوانی کادور بھی شامل ہے۔ مال کمانے کا تعلق بھی اسی عمرسے شروع ہوتا ہے۔ حصول علم کاتعلق بھی اسی عمر سے ہے۔ نوجوانی کی عمر صلاحیتوں کو پیدا کرنے اور اس میں نکھار پیدا کرنے کی ہوتی ہے ۔اسی عمر میں نوجوان علوم کے مختلف منازل طے کرتا ہے۔ یہی وہ عمر ہے جس میں نوجوان علمی تشنگی کو اچھی طرح سے بجھا سکتا ہے۔ اسی دور کے متعلق علا مہ اقبال نے ع ’شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہے کاری‘ فرمایا ہے ۔عمر کے اسی مرحلے میں نوجوان صحابہؓ نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ۔یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت اسامہ بن زیدؓ نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے بار گاہِ نبوت سے سیف اللہ کا لقب حاصل کیا ۔دورِ شباب ہی میں حضرت علی ؓ ،حضرت مصعب بن عمیرؓ ، حضرت عمار بن یاسرؓ ، اور چارعباد اللہ جن میں ابن عمرؓ ،ابن عباسؓ، ابن زبیرؓاور ابن عمرو ابن العاص ؓ نے اللہ کے رسولؐ سے شانہ بشانہ عہد وپیمان باندھا۔ اسی عمر میں ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،اور امام غزالی جیسے مجدد علوم کی گہرائیوں میں اترے ،اسی دورشباب میں صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمدبن قاسم نے اسلامی تاریخ کو اپنے کارناموں سے منور کیا۔ اسی عمر میں حسن البنا شہید نے مصر کی سرزمین کو جہاں فرعون کے انمٹ نقوش ابھی بھی بہر تلاطم کی طرح باقی ہیں دعوت الی اللہ کے لیے مسکن بنایا۔ مولاناابوالکلام آزاد نے صحافت کا میدان نوجوانی ہی میں اختیار کیا اور سید مودودی نے ۲۳سال کی عمر میں ہی الجہاد فی الاسلام جیسی معرکہ آراکتاب لکھ کر تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جن کا اس وقت نہ صرف غیر مسلم بلکہ مسلمان بھی شکار تھے ۔ اللہ کے رسولؐ نے اسی عمر کو غنیمت سمجھنے کی تلقین کی ہے ۔ کیونکہ بڑے بڑے معر کے اور کارنامے اسی عمر میں انجام دیے جاسکتے ہیں۔ حضرت عمر بن میمونؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ اللہ کے رسولؐ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: ایک جوانی کوبڑھاپے سے پہلے، صحت کوبیماری سے پہلے، خوش حالی کو ناداری سے پہلے، فراغت کومشغولیت سے پہلے، زندگی کوموت سے پہلے۔ (ترمذی )
ذیل میں ہم ان چند اہم مسائل کا تذکرہ کریں گے جن کاسامنا ہر مسلم نوجوان کر رہا ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم ناجی نے اپنے کتاب Have you Discovered its Real Beauty میں ایک واقعے کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے ناروے کے ایک ہوٹل میں کرس نام کے ایک شخص سے پوچھا کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ انھوں نے حیران ہوکر جواب دیا کہ مجھ سے آج تک کسی نے بھی اس طرح کا سوال نہیں کیا اور اس کے بعد اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میری زند گی کا کوئی مقصد نہیں ہے اور زندگی کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہے کیا ؟۔
عصرِجدید میںجب نوجوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے تو ان کا بھی جواب کرس کی طرح ہی ہوتاہے۔ مقصدِ زندگی کے تعلق سے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں Eat, Drink and be Happy ’یعنی خوب عیش کر لے کیو نکہ عالم دوبار ہ نہیں ہے‘جیسے فرسودہ اور پُرفریب نعروں پر نہ صرف یقین کرتے ہیں بلکہ ان پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ اسلام کا مقصد زندگی کے حوالے سے واضح موقف ہے۔ زندگی کی غرض و غایت کے متعلق قرآن وحدیث میں جگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے۔ قرآن میں ایک جگہ انسان کو یہ ہدایت دی گئی کہ: اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط (میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ البقرہ ۲:۳۰) ، تو دوسری جگہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo (میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ الذاریات ۵۱:۵۶)کہہ کر اللہ تعالیٰ نے واشگاف الفاظ میںزندگی کا مقصد ومدعا بیان کیا ہے۔ ایک جگہ اگر حُسنِ عمل کو مقصد زندگی قرار دیا ہے: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط (جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ الملک ۶۷:۲)، تو دوسری جگہ مقصد اور کامیاب زندگی کو تزکیۂ نفس پر موقوف ٹھیرایا گیا ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیo (فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔ الاعلٰی۸۷:۱۴)۔ زندگی کی غرض غایت کے متعلق احادیث سے بھی خوب رہنمائی ملتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’دنیا بہت مٹھا س والی اور سرسبز و شاداب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں تمھیں خلافت کا منصب عطا کیا ہے تاکہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘ (مسلم، کتاب الذکر)۔ اللہ کے رسولؐ نے یہ بھی فر مایا: ’’عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کیا ‘‘۔ (ترمذی)
اس وقت امت کے نوجوانوں میں سب سے بڑا لمیہ یہ ہے کہ وہ الہی تعلیمات سے نابلد اور دوری اختیار کیے ہوئے ہیں۔نوجوا ن طبقہ عموماً قرآن مجید کو ایک رسمی اور مذہبی کتاب سمجھتا ہے۔ اس کتاب کے متعلق ان کا تصور یہ ہے کہ اس کے ساتھ اگر تعلق قائم بھی کر لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ تلاوت ہی تک محدود رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب زمانہ حال کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کتاب انقلا ب ہے۔ یہ عصر حاضر کے چیلنجوں کا نہ صرف مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے بلکہ تمام مسائل کاحل بھی فراہم کرتی ہے۔ قرآن جہاں انسان کو آفاق کی سیر کراتا ہے وہیں یہ ہمیں انفس کی ماہیئت وحقیقت سے بھی روشناس کراتا ہے ۔ جہاں عبادت کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے وہیں سیاسی معاملات کے لیے بھی رہنما اصول بیان کرتا ہے۔ جہاں اخلاقی تعلیمات کے بارے میں ہدایات دیتا ہے وہیں یہ اقتصادی نظام کے لیے بھی ٹھوس بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ یہ جہاں حلال وحرام کے درمیان تمیز سکھاتا ہے وہیں یہ حق و باطل کے در میان فرق کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔ نوجوان اس کتاب انقلاب کے بغیر حقیقی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا اسی کتاب کو کا میابی اور نجات کا واحد ذریعہ سمجھنا چاہیے۔
عصرِ حاضر میں تعلیم کا مقصد صرف اور صرف پیشہ (profession) مقام (placement) اور پیسہ و سرمایہ بٹورنا رہ گیا ہے ۔ہر نوجوان انھی تین چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔ آج سائنس ٹکنالوجی اور دوسری طرف علمی انفجار کا دور مسابقت اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دھن نے ایسا ماحول قائم کر رکھا ہے کہ ہر نوجوان دائیںبائیں اور پیچھے کی طرف دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کر تا اور ہر ایک کیرئیر کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے دن رات ایک کردیتا ہے ۔وہ سماج میں ر ہنے والے دوسرے افراد سے ہی کیا وہ تو اپنے بغل میں رہنے والے ہمسایے سے بھی بے گانہ ہے کیو نکہ وہ اس خود ساختہ اصول پر عمل کرتا ہے کہ مجھے اپنے علاوہ کسی اور سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ وہ اپنے علاوہ کسی اور کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کر تا ہے۔ وہ چاند پر کمندیں ڈالنے کے لیے ہر وقت کو شاں رہتا ہے لیکن اپنے مقصد وجو د سے ناآشنا ہے ۔وہ قابل ذکر اسناد کا حامل تو ہوتا ہے لیکن اس کے اندر دوسروں کے لیے حمایت اور ہمدری کا جذبہ نہیں ہوتا۔ اس کے پاس وافر مقدار میں معلومات ہوتی ہیں لیکن علم حق سے محروم رہ کر زندگی اس گدھے کی طرح گزارتا ہے جس کی پیٹھ پر کتا بوں کا بوجھ لاد دیا جائے لیکن بیچارے گد ھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی پیٹھ پر کس قسم کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔
اسلام کیرئیر اور مستقبل کو خوب سے خوب تر بنانے اور نکھارنے سے منع نہیں کر تا ہے۔ اسلام توقاعدے اور سلیقے کے ساتھ منظم اور اچھے طریقے سے کیر ئیر بنانے پر زور دیتا ہے ۔ اور اس بات کی بھی تلقین کر تا ہے کہ حُسنِ عمل(excellence) کسی بھی لمحے آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جائے، البتہ اسلام جس چیز سے منع کرتا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے لوگوں سے منہ پھیر کر زندگی گزارے۔ اندھی کیر ئیر پرستی ایک نوجوان کو سماج سے الگ تھلگ کر دیتی ہے ۔اس سے قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ منع کیا ہے ۔اللہ تعالی نے اس حوالے سے حضرت لقمان کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فر مایا: وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ(لقمان ۳۱:۱۸) ’’اورتم لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کرو‘‘۔صعر اصل میں ایک بیماری کانام ہے جو عرب میں اُونٹوں کی گر دنوں میں پائی جاتی ہے ۔یہ بیماری جب اونٹ کولگ جاتی ہے تو وہ اپنی گردن کو دائیں بائیں گھما نہیں سکتا۔ بالکل اسی طرح کیر ئیر پرستی کے شکار نوجونوں کا رویہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کیر ئیر پرستی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
آج امت کا نوجوان بے شمار مسائل اور الجھنوں میں گھر اہوا ہے ۔ ایک طرف غیرمتوازن نظام تعلیم کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے تودوسری طرف اقتصادی مسائل سے دوچار ہے ۔ ایک طرف اگر وقت پر نکاح نہ ہونے کے مسائل ہیں تو دوسری طرف بے روز گاری کے مسائل نے پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اسی طرح ناقص تعلیم و تر بیت، حیا سوز مغربی فکر و تہذیب کے پیدا کردہ مسا ئل علاوہ ازیں نت نئے افکار کے پیدا کرد ہ مسائل اور الجھنوں کا انبار لگا ہو ا ہے جن سے اُمت کا یہ اہم طبقہ دو چار ہے ۔یہ واضح رہے کہ نوجوان طبقہ مسائل کا سامنا کرنے سے کتراتا بھی ہے ۔ کیونکہ ان کو اس سلسلے میں مطلوبہ رہنمائی نہیں مل رہی ہے تاکہ وہ ان مسائل سے باآسانی نبرد آزما ہو سکے۔
اس سلسلے میں ماں باپ ،علما اور دانش وروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مربیانہ کردار اداکریں تاکہ نوجوان طبقہ مستقبل میں ملت اور سماج کی تعمیر اور اصلاح کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکے ۔ اس حوالے سے اللہ کے رسول ؐکا وہ تربیتی منہج سامنے رکھنا چاہیے جس کی بدولت انھوں نے نوجوانوں کی ایک بہترین ٹیم تیار کی تھی ۔ جس نے بعد میں بڑے بڑے معرکہ سرانجام دیے ۔ اللہ کے رسولؐ نوجوانوں کی ان کے رجحان اور طبیعت کو مد نظر رکھتے ہوئے تربیت کر کے ذمہ داریاں سونپتے تھے ۔
اللہ کے رسولؐ کاتربیتی منہج بڑا شان دار اور منفرد انداز کا ہے۔ آپؐ ا ن کی کردار سازی پر بہت توجہ فر ماتے تھے ۔اور نہ صرف ان کے خارجی مسائل حل کرتے تھے بلکہ ان کے نفسیاتی مسائل بھی حل کرتے تھے ۔ ایک دن قریش کا ایک نوجوان رسولؐ اللہ کی خد مت میں آیا اور بلا خوف و تردد عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے زنا کی اجازت دے دیجیے۔ صحابہ کرام ؓ اس نوجوان کی بے ہودہ جسارت پر بپھر گئے اور اس کو سخت سے سخت سزا دیناچاہی مگر رسولؐ نے بالکل منفرد انداز اختیار کیا۔ آپؐ نے اس نوجوان کو قریب بلایا اور کہا: کیا تم یہ بات اپنی ماں کے لیے پسند کرتے ہو؟ نوجوان نے کہا :میر ی جان آپؐ پر قربان ہو، یہ بات میں اپنی ماں کے لیے کبھی پسند نہیںکر سکتا۔ پھر آپؐ نے اس کی بہن ، پھوپھی اور خالہ کے بارے میں اس طرح کے سوالات کیے۔ بعد میںاس سے پوچھتے، کیا تم اسے ان کے لیے پسند کرتے ہو۔ وہ ہر بار یہی کہتا: میری جان آپؐ پر قربان ہو، خدا کی قسم! یہ بات میں ہر گز پسند نہیں کر سکتا ۔پھر آپؐ نے ا س نوجوان کو اپنے قریب بلایا اور اس کے لیے اللہ سے دعا کی جس کے بعد وہ کبھی بھی اس بے ہودہ کام کی طرف مائل نہیں ہوا(مسند احمد)۔ اس واقعے سے ہم کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل کو کس طرح پیار سے سمجھانے اور حل کرنے کی ضرورت ہے ۔
آج فحاشی وعریانیت ، ننگا ناچ اور حیا سوز ذرائع ابلاغ ہر گھر اور خاندان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں ۔ بے شمار رسائل وجرائد اور اخبارات بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں ۔انٹر نیٹ پر اَن گنت حیا سوز ویب سائٹس موجود ہیں جن تک ہر نوجوان کی رسائی باآسانی ہو جاتی ہے ۔ گھر سے لے کر کالج تک اور کالج سے لے کر بازار تک بے حیائی پر مبنی ماحول کا سامنا ہے۔ ایسا معا شرہ اور فضا نوجوان کی جنسی خواہشات کو بر انگیختہ کر دیتی ہیں ۔ بے حیائی اخلاق باختگی ایک ایسی وبا ہے جو بڑی تیزی کے سا تھ اپنے اثرات دکھا رہی ہے جس کی بدولت آج نوجوانوں میں خوف تنائو، ذہنی اور نفسیاتی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں ۔ برائیوں ، پریشانیوں بے حیائی اور فحاشی اور رذائل اخلاق دیمک کی طرح نوجوانوں کو کھا ئے جارہے ہیں ۔اطمینانِ قلب ، تطہیر ذہن ،حیا پسندی، پاک دامنی اور حُسن اخلاق سے نوجوانوں کو متصف کرنا وقت کا ایک تجدید ی کام ہوگا ۔ بقول مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ امت کے نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقے میں اسلام کی اساسیات اور اس کے نظام و حقائق اور رسالت محمدیؐ کا وہ اعتماد واپس لایا جائے جس کا رشتہ اس طبقے کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور اِن نفسیاتی اُلجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جس میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بُری طرح گرفتار ہے اور اس کی عقلیت اور علمی ذہن کو اسلام پر پوری طرح مطمئن کر دیا جائے۔(نیاطوفان اور اس کا مقابلہ، ص۲۶)
اسلام نہ صرف برائیوں کو قابو میں کرنا چاہتا ہے بلکہ ان کا قلع قمع بھی کرتا ہے جن میں نوجوان طبقہ مبتلا ہے۔ اسلام نے برائیوں سے دور رہنے کی سخت تاکید کی ہے ۔ اب اگر برائیوں کو جاننے اور اس کے انجام بد سے باخبر ہونے کے باوجود اجتناب نہیں کریں گے تو اللہ کے رسولؐ کا یہ مبارک ارشاد ذہنوں میں مستحضر رکھنا چاہیے کہ ’’لوگوں نے اگلی نبوت کی باتوں میں جو کچھ پایا اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ جب تم کو شرم نہ رہے تو جو چاہے کرو‘‘۔(بخاری، عن ابن مسعود )
اعتدال وتوازن ہر کام میں مطلوب ہے۔ جس کام میں اس کا فقدان ہو وہ صحیح ڈگر پر زیادہ دیر اور دُورتک نہیں چل سکتا ۔ جب اور جہاں بھی اعتدال اور توازن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو وہیں انتہاپسند ی اور غلو،شدت پسندی اور تخریب کاری کا عمل شروع ہو نا لازمی ہے ۔ اعتدال پسندی و توازن کھانے پینے ، چلنے پھرنے ، بات چیت ، سو نے جاگنے ،محنت ومشقت ،مال کمانے ، سیروتفریح، حتیٰ کہ عبادات میں بھی مطلوب ہے ۔ اسلام اعتدال وتوازن کا دین ہے ۔ یہ جہاں شدت پسندی سے روکتا ہے وہیں غلو کرنے سے اجتناب کی تلقین کر تا ہے ۔اسلا م زندگی کے ہرشعبے میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن جگہ جگہ اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے رہنما اصول فراہم کرتا ہے ۔ اُمت مسلمہ کے حوالے سے قرآن کاموقف یہ ہے کہ یہ امت وسط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ۲:۱۴۳)۔ ا للہ تعالیٰ نے نہ صرف اُمت کے ہر فرد کو اعتدال وتوازن پر قائم رہنے کی تاکید کی بلکہ پیغمبر اعظمؐ کوبھی اعتدال کی روش اختیار کر نے کی تلقین کی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ (اعراف ۷:۲۹) ’’اے محمدؐ! کہہ دیجیے کہ میرے رب نے اعتدال کی راہِ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے‘‘۔شدت پسندی، غلو اور افراط وتفریط سے اجتناب کرکے نوجوانوں کو اعتدال کی روش کو اپنانا چاہیے۔
ایک اور مسئلہ جس کی وجہ سے نوجوان مختلف مسائل اور مشکلات میں گھر اہوا ہے وہ ماں باپ کی ناقص تعلیم وتربیت ہے ۔ جو نوجوان بھی ماں باپ کی تعلیم وتربیت سے محروم رہ جا ئے گا لازمی طور سے مسائل اوراُلجھنوں کا شکار ہو گا ۔ایک نوجوان کی اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی تعلیم وتربیت سے محرو م رہے ۔اس کے ماں باپ تعلیم وتر بیت اور اس کو صحیح رہنمائی کرنے میں کوتاہی یا بے اعتنائی برتیں۔ حقیقی معنوں میں یتیم اسی کو کہا جاتا ہے جیسے عربی کاایک مشہور شعر ہے ؎
لیس الیتیم من انتھی ابوہ من ھم الحیات وخلفاہ ذلیلا
ان الیتیم ھو الذی تلقی لہ اماتخلت او ابا مشغولا
(یتیم وہ نہیں ہے جس کے والدین فوت ہو چکے ہوں اور اس کو تنہا اوربے سہارا چھوڑ رہے ہوں۔ یتیم تو وہ ہے جس کی ماں نے اس سے بے اعتنائی بر تی ہو اور باپ مصروفِ کار رہا ہو )۔
اسلام نے بچوں کی پرورش اور پرداخت کے ساتھ ساتھ ماں باپ پر یہ بھی ذمہ داری عائد کی ہے کہ ان کو تعلیم وتر بیت اور اسلام کی اساسی تعلیمات سے روشناس کراکے صحت مند معاشرے کے لیے بہترین اور کار آمد افراد تیار کریں۔جہاں ماں باپ کو اس بات کے لیے مکلف ٹھیرایاہے کہ سات سال سے ہی بچوں کو نماز کی تلقین کریں وہیں ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کا مناسب وقت پر نکاح کا اہتمام کریں کیونکہ یہ ان کے بچوں کی عزت وعصمت اور پاک دامنی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
رائج نظام تعلیم بر طانوی مفکر لارڈ میکاولے کے افکار ونظر یات پر مبنی ہے۔ عصر حاضر میں تنگ نظری ، مقامیت ، مادیت ،اخلاقی بے راہ روی اور عورت کا استحصال ، نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے جرائم، نیز خود کشی کے گراف میںاضافہ، یہ سب ناقص نظام تعلیم کی دین ہے ۔نظام تعلیم میں ان خرابیوں سے یہ ثابت ہوتا ہے اس کو صحیح رُخ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ فرد اور سماج دونوں کی اصل ضروریات کو پورا کرسکے ۔
ہر قوم وملت کی تعمیروترقی بامعنی اور اقدار پر مبنی نظام تعلیم پر منحصر ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ قوم یا ملت کا بہتر مستقبل نظام تعلیم پر ہی منحصر ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ ایک مشہور ماہر تعلیم سے پوچھا گیا آپ ملت کے مستقبل کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے ۔تو ان کا جواب تھا:(مجھے اپنا نظامِ تعلیم دکھائو جو بتا سکتا ہے کہ اس کامستقبل کیا ہوگا )۔
رائج نظام تعلیم کے بر عکس اسلام کا نظام تعلیم الٰہی ہدایات پر مبنی ہے جو کسی بھی کمی یا نقص سے پاک ہے۔ اس میں فرد کی تعمیر و تطہیر کے لیے جامع ہدایات موجود ہیں ۔یہ فرد کی شخصیت کو منور کرتا ہے۔اس نظام تعلیم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ زندگی کے بنیادی اور اہم سوالات کے جوابات فراہم کرتا ہے، مثلاً میں کون ہوں؟ میری زندگی کامقصد کیا ہے؟ مجھے پیدا کرنے والا کون ہے ؟ اس نے مجھے دنیامیں کیوں بھیجا ؟اور وہ کیا کام لینا چاہتا ہے ؟۔ خالق اور مخلوق کے درمیان اور پھر مخلوق اور مخلوق کے مابین کیا تعلقات ہیں ؟
اپنی تہذیب و تاریخ اور علمی ورثہ سے مانوس و باخبر رہنا اشد ضروری ہے ۔ جو قوم اپنی تاریخ اور علمی ورثے سے غفلت برتتی ہے۔ تو وہ صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہے یا مٹادی جاتی ہے۔ اپنی تاریخ سے ناآشنا ہوکر کوئی بھی قوم یا ملت بہتر مستقبل اور ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی ۔ اس وقت اُمت مسلمہ کی صورت حال یہ ہے کہ اس کا یہ اہم سر مایہ اپنی تاریخ سے بالکل نابلد ہے ۔ ملت کے نوجوانوں کو اسلامی فتوحات کا کچھ علم نہیں۔ خلفاے راشدین کے کارناموں سے کوئی واقفیت نہیں ۔ وہ رسولؐ کے جانباز ساتھیوں کی زندگیوں سے کو سوں دُور ہیں ۔ ان کو پتا ہی نہیں کہ امام غزالی، ابن خلدون ،ابن تیمیہ جیسی نامور شخصیات کون تھیں؟ انھیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ سید قطبؒ ، حسن البناؒ اور سید مودودیؒ نے کیا کیا خدمات انجام دیں ۔ملت کے اس طبقے کو اسلام کے سرمایۂ علم اور تاریخ سے جوڑنا وقت کی اہم ترین پکار ہے ۔
عالم کاری(Globalization) کے ذریعے مغرب پوری دنیا میں آزاد تجارتی منڈی قائم کر چکاہے جس کے نتیجے میںسیکولرزم اور الحادی نظریات کی تخم ریزی ہو رہی ہے۔ عالم کاری ایک ایسا رجحان ہے کہ مغرب اس کے ذریعے دنیا کے ہر کونے میں آزاد معیشت اور تجارتی منڈی کو فروغ دے رہا ہے ۔ گلیمر کی اس دنیا میں اہلِ مغرب اپنی تہذیب کے اثرات بھی تیزی کے ساتھ مرتب کررہے ہیں ۔ا س تہذ یب کی ظاہری چمک دمک نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے حالانکہ یہ تہذیب اقبال کے الفاظ میں :
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیرِپاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف
عالم کاری کے ذریعے سے مغرب جن چار چیزوں کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لیے مصروف عمل ہے وہ یہ ہیں : تہذیب، ٹکنالوجی، معیشت،جمہوریت اور اس کے علاوہ سرمایہ داروں اور ایم این سیز (Multi National Companies)کو بھی خوب پذیرائی مل رہی ہے ۔ ان سبھی اداروں نے سب سے زیادہ جس طبقے کو اپنی گرفت میں کر رکھا ہے وہ نوجوان طبقہ ہے ۔
مسلم نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام عالم گیر نظام زندگی ہے، یہ خالق کائنات نے انسان کے لیے بنایا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنا تعارف قرآن مجید میں رب العالمین سے اور اپنے رسولؐ کا تعارف رحمۃللعالمین سے کراتا ہے،اور قرآن پاک کو ھُدًی لِّلنَّاسِ کہتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی تہذیب ایسی تہذیب ہے جس میں متبادل ہونے کی صفات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ بقول اقبال ؎
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے