ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ۱۵ سال سے لے کر ۲۴ سال تک کی عمر کو نوجوان کہا جاتا ہے ۔ اسی میں بچپن اور لڑکپن کا دور بھی شامل ہیں ۔ World Population Statistics کے مطابق دنیا کی کُل آبادی میں ۵۰فی صدآبادی ۲۵سال سے نیچے کی عمر پرمشتمل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نوجوانوں کی آبادی بڑھتی ہی جارہی ہے۔
قوتو ں، صلاحیتوں، حوصلوں، اُمنگوں ، جفا کشی ،بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے ۔ کسی بھی قوم وملک کی کامیابی وناکامی ،فتح و شکست ، ترقی وتنزل اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی ،معاشرتی سطح کا ہویا ملکی سطح کا، سائنسی میدان ہو یا اطلاعاتی ونشریاتی میدان، غرض سبھی میدانوں میں نوجوانوں کا کردار نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے ۔روس کا انقلاب ہو یا فرانس کا،عرب بہار ہو یا مارٹن لوتھرکنگ کا برپا کردہ انقلاب، ہر انقلاب کو برپا کرنے کے پیچھے نوجوانوں کا اہم حصہ کار فر ما رہا ہے۔ ماضی میں بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے ذریعے آئی ہے۔ زمانہ حال میں بھی ہر چھوٹی بڑی تنظیم یا تحریک چاہے سیاسی ہو یا مذہبی، سماجی ہو یا عسکری، ان میں نوجوان ہی پیش پیش ہیں۔ مستقبل میں بھی ہر قوم وملک اور تنظیم انھی پر اپنی نگاہیں اور توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
اب قرآن مجید کی طرف رجوع کریں گے کہ وہ نوجوانوں کی اہمیت اور کردار کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ قرآن مجید اصحاب کہف کے حوالے سے نوجوانوں کا کردر اس طرح سے بیان کرتا ہے: ’’ہم ان کا اصل قصہ تمھیں سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میںترقی بخشی تھی‘‘۔ یہ وہ نوجوان تھے جنھوں نے وقت کے ظالم حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر حق پرستی کاا علان کیا ۔
اللہ تعالیٰ ان کے عزائم وحوصلے اور غیر متزلزل ایمان اور ان کے عالم گیر اعلان کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے: وَّ رَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰھًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا o (الکھف ۱۸:۱۴) ’’ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اٹھے اور انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا رب بس وہی ہے جو آسمانوں ور زمین کا رب ہے، ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریںگے۔ اگر ہم ایسا کریںتو بالکل بے جا بات کریں گے‘‘۔
ان چند نوجوانوں نے اپنے زمانے میں جو کردار ادا کیا وہ تمام نوجوانوں کے لیے نمونۂ عمل ہے ۔ اسی طرح سے قرآن مجید نے حضرت موسٰی ؑ پر ایمان لانے والے چند نوجوانوں کا تذکرہ کیا۔ حضرت موسٰی ؑ کو قوم نے ہر طرح سے جھٹلایا لیکن وہ چند نوجوان ہی تھے جنھوں نے کٹھن حالات میں حضرت موسٰی ؑ کی نبوت پر ایمان کا اعلان کیا۔ اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے: فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاْئِھِمْ اَنْ یَّفْتِنَھُمْ ط وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِج (یونس ۱۰:۸۳)’’موسٰی ؑ کو اسی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربراہ لوگوں کے ڈر سے کہ فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا‘‘ ۔
مذکورہ بالا آیت میں ذریۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بہت ہی جامع اور معنی خیز ہے۔ سیدمودودیؒ نے ذریۃ کی تشریح پُرمغز انداز میں اس طرح کی ہے: ’’متن میں لفظ ذریۃ استعمال ہوا ہے جس کے معنی اولاد کے ہیں۔ ہم نے اس کا ترجمہ نوجوان سے کیا ہے۔ دراصل اس خاص لفظ کے استعمال سے جو بات قرآن مجید بیان کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس پُرخطر زما نے میں حق کا ساتھ دینے اور علم بردارِ حق کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جراء ت چند لڑکوں اور لڑکیوں نے تو کی مگر مائوں اور باپوں اور قوم کے سن رسیدہ لوگوں کو اس کی تو فیق نصیب نہ ہوئی۔ ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی اور عافیت کوشی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ وہ ایسے حق کاساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے جس کاراستہ ان کو خطرات سے پُر نظر آرہاتھا ‘‘۔(ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی، ص ۵۶۵- ۵۶۷ )
احادیث رسولؐ میں بھی نوجوانوں کے کردار اور ان کے لیے رہنما اصول کثرت سے ملتے ہیں۔ نو جوانی کی عمر انسان کی زندگی کا قوی ترین دُور ہوتا ہے ۔ اس عمر میں نوجوان جو چاہے کرسکتا ہے۔ انسان اس عمر کو اگر صحیح طور سے برتنے کی کوشش کرے تو ہر قسم کی کامیابی اس کے قدم چومے گی اور اگر اس عمر میں وہ کوتاہی اور لاپروائی برتے گا تو عمر بھر اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جوانی کی عمر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر فرد کے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔ اسی لیے اس کے بارے میں قیامت کے دن خصوصی طور سے پوچھا جائے گا ۔حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فر مایا: ’’یعنی قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پا نچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے ۔ عمر کن کاموں میں گنوائی؟ جوانی کی توانائی کہاں صرف کی؟ مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ جوعلم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا؟ (ترمذی باب صفۃ القیامۃ)
اس حدیث مبارکہ میں چارسوال جوانی سے متعلق ہیں۔ ایک عمر کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اس میں جوانی کادور بھی شامل ہے۔ مال کمانے کا تعلق بھی اسی عمرسے شروع ہوتا ہے۔ حصول علم کاتعلق بھی اسی عمر سے ہے۔ نوجوانی کی عمر صلاحیتوں کو پیدا کرنے اور اس میں نکھار پیدا کرنے کی ہوتی ہے ۔اسی عمر میں نوجوان علوم کے مختلف منازل طے کرتا ہے۔ یہی وہ عمر ہے جس میں نوجوان علمی تشنگی کو اچھی طرح سے بجھا سکتا ہے۔ اسی دور کے متعلق علا مہ اقبال نے ع ’شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہے کاری‘ فرمایا ہے ۔عمر کے اسی مرحلے میں نوجوان صحابہؓ نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ۔یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت اسامہ بن زیدؓ نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے بار گاہِ نبوت سے سیف اللہ کا لقب حاصل کیا ۔دورِ شباب ہی میں حضرت علی ؓ ،حضرت مصعب بن عمیرؓ ، حضرت عمار بن یاسرؓ ، اور چارعباد اللہ جن میں ابن عمرؓ ،ابن عباسؓ، ابن زبیرؓاور ابن عمرو ابن العاص ؓ نے اللہ کے رسولؐ سے شانہ بشانہ عہد وپیمان باندھا۔ اسی عمر میں ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،اور امام غزالی جیسے مجدد علوم کی گہرائیوں میں اترے ،اسی دورشباب میں صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمدبن قاسم نے اسلامی تاریخ کو اپنے کارناموں سے منور کیا۔ اسی عمر میں حسن البنا شہید نے مصر کی سرزمین کو جہاں فرعون کے انمٹ نقوش ابھی بھی بہر تلاطم کی طرح باقی ہیں دعوت الی اللہ کے لیے مسکن بنایا۔ مولاناابوالکلام آزاد نے صحافت کا میدان نوجوانی ہی میں اختیار کیا اور سید مودودی نے ۲۳سال کی عمر میں ہی الجہاد فی الاسلام جیسی معرکہ آراکتاب لکھ کر تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جن کا اس وقت نہ صرف غیر مسلم بلکہ مسلمان بھی شکار تھے ۔ اللہ کے رسولؐ نے اسی عمر کو غنیمت سمجھنے کی تلقین کی ہے ۔ کیونکہ بڑے بڑے معر کے اور کارنامے اسی عمر میں انجام دیے جاسکتے ہیں۔ حضرت عمر بن میمونؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ اللہ کے رسولؐ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: ایک جوانی کوبڑھاپے سے پہلے، صحت کوبیماری سے پہلے، خوش حالی کو ناداری سے پہلے، فراغت کومشغولیت سے پہلے، زندگی کوموت سے پہلے۔ (ترمذی )
ذیل میں ہم ان چند اہم مسائل کا تذکرہ کریں گے جن کاسامنا ہر مسلم نوجوان کر رہا ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم ناجی نے اپنے کتاب Have you Discovered its Real Beauty میں ایک واقعے کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے ناروے کے ایک ہوٹل میں کرس نام کے ایک شخص سے پوچھا کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ انھوں نے حیران ہوکر جواب دیا کہ مجھ سے آج تک کسی نے بھی اس طرح کا سوال نہیں کیا اور اس کے بعد اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میری زند گی کا کوئی مقصد نہیں ہے اور زندگی کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہے کیا ؟۔
عصرِجدید میںجب نوجوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے تو ان کا بھی جواب کرس کی طرح ہی ہوتاہے۔ مقصدِ زندگی کے تعلق سے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں Eat, Drink and be Happy ’یعنی خوب عیش کر لے کیو نکہ عالم دوبار ہ نہیں ہے‘جیسے فرسودہ اور پُرفریب نعروں پر نہ صرف یقین کرتے ہیں بلکہ ان پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ اسلام کا مقصد زندگی کے حوالے سے واضح موقف ہے۔ زندگی کی غرض و غایت کے متعلق قرآن وحدیث میں جگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے۔ قرآن میں ایک جگہ انسان کو یہ ہدایت دی گئی کہ: اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط (میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ البقرہ ۲:۳۰) ، تو دوسری جگہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo (میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ الذاریات ۵۱:۵۶)کہہ کر اللہ تعالیٰ نے واشگاف الفاظ میںزندگی کا مقصد ومدعا بیان کیا ہے۔ ایک جگہ اگر حُسنِ عمل کو مقصد زندگی قرار دیا ہے: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط (جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ الملک ۶۷:۲)، تو دوسری جگہ مقصد اور کامیاب زندگی کو تزکیۂ نفس پر موقوف ٹھیرایا گیا ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیo (فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔ الاعلٰی۸۷:۱۴)۔ زندگی کی غرض غایت کے متعلق احادیث سے بھی خوب رہنمائی ملتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’دنیا بہت مٹھا س والی اور سرسبز و شاداب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں تمھیں خلافت کا منصب عطا کیا ہے تاکہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘ (مسلم، کتاب الذکر)۔ اللہ کے رسولؐ نے یہ بھی فر مایا: ’’عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کیا ‘‘۔ (ترمذی)
اس وقت امت کے نوجوانوں میں سب سے بڑا لمیہ یہ ہے کہ وہ الہی تعلیمات سے نابلد اور دوری اختیار کیے ہوئے ہیں۔نوجوا ن طبقہ عموماً قرآن مجید کو ایک رسمی اور مذہبی کتاب سمجھتا ہے۔ اس کتاب کے متعلق ان کا تصور یہ ہے کہ اس کے ساتھ اگر تعلق قائم بھی کر لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ تلاوت ہی تک محدود رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب زمانہ حال کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کتاب انقلا ب ہے۔ یہ عصر حاضر کے چیلنجوں کا نہ صرف مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے بلکہ تمام مسائل کاحل بھی فراہم کرتی ہے۔ قرآن جہاں انسان کو آفاق کی سیر کراتا ہے وہیں یہ ہمیں انفس کی ماہیئت وحقیقت سے بھی روشناس کراتا ہے ۔ جہاں عبادت کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے وہیں سیاسی معاملات کے لیے بھی رہنما اصول بیان کرتا ہے۔ جہاں اخلاقی تعلیمات کے بارے میں ہدایات دیتا ہے وہیں یہ اقتصادی نظام کے لیے بھی ٹھوس بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ یہ جہاں حلال وحرام کے درمیان تمیز سکھاتا ہے وہیں یہ حق و باطل کے در میان فرق کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔ نوجوان اس کتاب انقلاب کے بغیر حقیقی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا اسی کتاب کو کا میابی اور نجات کا واحد ذریعہ سمجھنا چاہیے۔
عصرِ حاضر میں تعلیم کا مقصد صرف اور صرف پیشہ (profession) مقام (placement) اور پیسہ و سرمایہ بٹورنا رہ گیا ہے ۔ہر نوجوان انھی تین چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔ آج سائنس ٹکنالوجی اور دوسری طرف علمی انفجار کا دور مسابقت اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دھن نے ایسا ماحول قائم کر رکھا ہے کہ ہر نوجوان دائیںبائیں اور پیچھے کی طرف دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کر تا اور ہر ایک کیرئیر کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے دن رات ایک کردیتا ہے ۔وہ سماج میں ر ہنے والے دوسرے افراد سے ہی کیا وہ تو اپنے بغل میں رہنے والے ہمسایے سے بھی بے گانہ ہے کیو نکہ وہ اس خود ساختہ اصول پر عمل کرتا ہے کہ مجھے اپنے علاوہ کسی اور سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ وہ اپنے علاوہ کسی اور کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کر تا ہے۔ وہ چاند پر کمندیں ڈالنے کے لیے ہر وقت کو شاں رہتا ہے لیکن اپنے مقصد وجو د سے ناآشنا ہے ۔وہ قابل ذکر اسناد کا حامل تو ہوتا ہے لیکن اس کے اندر دوسروں کے لیے حمایت اور ہمدری کا جذبہ نہیں ہوتا۔ اس کے پاس وافر مقدار میں معلومات ہوتی ہیں لیکن علم حق سے محروم رہ کر زندگی اس گدھے کی طرح گزارتا ہے جس کی پیٹھ پر کتا بوں کا بوجھ لاد دیا جائے لیکن بیچارے گد ھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی پیٹھ پر کس قسم کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔
اسلام کیرئیر اور مستقبل کو خوب سے خوب تر بنانے اور نکھارنے سے منع نہیں کر تا ہے۔ اسلام توقاعدے اور سلیقے کے ساتھ منظم اور اچھے طریقے سے کیر ئیر بنانے پر زور دیتا ہے ۔ اور اس بات کی بھی تلقین کر تا ہے کہ حُسنِ عمل(excellence) کسی بھی لمحے آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جائے، البتہ اسلام جس چیز سے منع کرتا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے لوگوں سے منہ پھیر کر زندگی گزارے۔ اندھی کیر ئیر پرستی ایک نوجوان کو سماج سے الگ تھلگ کر دیتی ہے ۔اس سے قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ منع کیا ہے ۔اللہ تعالی نے اس حوالے سے حضرت لقمان کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فر مایا: وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ(لقمان ۳۱:۱۸) ’’اورتم لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کرو‘‘۔صعر اصل میں ایک بیماری کانام ہے جو عرب میں اُونٹوں کی گر دنوں میں پائی جاتی ہے ۔یہ بیماری جب اونٹ کولگ جاتی ہے تو وہ اپنی گردن کو دائیں بائیں گھما نہیں سکتا۔ بالکل اسی طرح کیر ئیر پرستی کے شکار نوجونوں کا رویہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کیر ئیر پرستی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
آج امت کا نوجوان بے شمار مسائل اور الجھنوں میں گھر اہوا ہے ۔ ایک طرف غیرمتوازن نظام تعلیم کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے تودوسری طرف اقتصادی مسائل سے دوچار ہے ۔ ایک طرف اگر وقت پر نکاح نہ ہونے کے مسائل ہیں تو دوسری طرف بے روز گاری کے مسائل نے پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اسی طرح ناقص تعلیم و تر بیت، حیا سوز مغربی فکر و تہذیب کے پیدا کردہ مسا ئل علاوہ ازیں نت نئے افکار کے پیدا کرد ہ مسائل اور الجھنوں کا انبار لگا ہو ا ہے جن سے اُمت کا یہ اہم طبقہ دو چار ہے ۔یہ واضح رہے کہ نوجوان طبقہ مسائل کا سامنا کرنے سے کتراتا بھی ہے ۔ کیونکہ ان کو اس سلسلے میں مطلوبہ رہنمائی نہیں مل رہی ہے تاکہ وہ ان مسائل سے باآسانی نبرد آزما ہو سکے۔
اس سلسلے میں ماں باپ ،علما اور دانش وروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مربیانہ کردار اداکریں تاکہ نوجوان طبقہ مستقبل میں ملت اور سماج کی تعمیر اور اصلاح کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکے ۔ اس حوالے سے اللہ کے رسول ؐکا وہ تربیتی منہج سامنے رکھنا چاہیے جس کی بدولت انھوں نے نوجوانوں کی ایک بہترین ٹیم تیار کی تھی ۔ جس نے بعد میں بڑے بڑے معرکہ سرانجام دیے ۔ اللہ کے رسولؐ نوجوانوں کی ان کے رجحان اور طبیعت کو مد نظر رکھتے ہوئے تربیت کر کے ذمہ داریاں سونپتے تھے ۔
اللہ کے رسولؐ کاتربیتی منہج بڑا شان دار اور منفرد انداز کا ہے۔ آپؐ ا ن کی کردار سازی پر بہت توجہ فر ماتے تھے ۔اور نہ صرف ان کے خارجی مسائل حل کرتے تھے بلکہ ان کے نفسیاتی مسائل بھی حل کرتے تھے ۔ ایک دن قریش کا ایک نوجوان رسولؐ اللہ کی خد مت میں آیا اور بلا خوف و تردد عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے زنا کی اجازت دے دیجیے۔ صحابہ کرام ؓ اس نوجوان کی بے ہودہ جسارت پر بپھر گئے اور اس کو سخت سے سخت سزا دیناچاہی مگر رسولؐ نے بالکل منفرد انداز اختیار کیا۔ آپؐ نے اس نوجوان کو قریب بلایا اور کہا: کیا تم یہ بات اپنی ماں کے لیے پسند کرتے ہو؟ نوجوان نے کہا :میر ی جان آپؐ پر قربان ہو، یہ بات میں اپنی ماں کے لیے کبھی پسند نہیںکر سکتا۔ پھر آپؐ نے اس کی بہن ، پھوپھی اور خالہ کے بارے میں اس طرح کے سوالات کیے۔ بعد میںاس سے پوچھتے، کیا تم اسے ان کے لیے پسند کرتے ہو۔ وہ ہر بار یہی کہتا: میری جان آپؐ پر قربان ہو، خدا کی قسم! یہ بات میں ہر گز پسند نہیں کر سکتا ۔پھر آپؐ نے ا س نوجوان کو اپنے قریب بلایا اور اس کے لیے اللہ سے دعا کی جس کے بعد وہ کبھی بھی اس بے ہودہ کام کی طرف مائل نہیں ہوا(مسند احمد)۔ اس واقعے سے ہم کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل کو کس طرح پیار سے سمجھانے اور حل کرنے کی ضرورت ہے ۔
آج فحاشی وعریانیت ، ننگا ناچ اور حیا سوز ذرائع ابلاغ ہر گھر اور خاندان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں ۔ بے شمار رسائل وجرائد اور اخبارات بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں ۔انٹر نیٹ پر اَن گنت حیا سوز ویب سائٹس موجود ہیں جن تک ہر نوجوان کی رسائی باآسانی ہو جاتی ہے ۔ گھر سے لے کر کالج تک اور کالج سے لے کر بازار تک بے حیائی پر مبنی ماحول کا سامنا ہے۔ ایسا معا شرہ اور فضا نوجوان کی جنسی خواہشات کو بر انگیختہ کر دیتی ہیں ۔ بے حیائی اخلاق باختگی ایک ایسی وبا ہے جو بڑی تیزی کے سا تھ اپنے اثرات دکھا رہی ہے جس کی بدولت آج نوجوانوں میں خوف تنائو، ذہنی اور نفسیاتی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں ۔ برائیوں ، پریشانیوں بے حیائی اور فحاشی اور رذائل اخلاق دیمک کی طرح نوجوانوں کو کھا ئے جارہے ہیں ۔اطمینانِ قلب ، تطہیر ذہن ،حیا پسندی، پاک دامنی اور حُسن اخلاق سے نوجوانوں کو متصف کرنا وقت کا ایک تجدید ی کام ہوگا ۔ بقول مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ امت کے نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقے میں اسلام کی اساسیات اور اس کے نظام و حقائق اور رسالت محمدیؐ کا وہ اعتماد واپس لایا جائے جس کا رشتہ اس طبقے کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور اِن نفسیاتی اُلجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جس میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بُری طرح گرفتار ہے اور اس کی عقلیت اور علمی ذہن کو اسلام پر پوری طرح مطمئن کر دیا جائے۔(نیاطوفان اور اس کا مقابلہ، ص۲۶)
اسلام نہ صرف برائیوں کو قابو میں کرنا چاہتا ہے بلکہ ان کا قلع قمع بھی کرتا ہے جن میں نوجوان طبقہ مبتلا ہے۔ اسلام نے برائیوں سے دور رہنے کی سخت تاکید کی ہے ۔ اب اگر برائیوں کو جاننے اور اس کے انجام بد سے باخبر ہونے کے باوجود اجتناب نہیں کریں گے تو اللہ کے رسولؐ کا یہ مبارک ارشاد ذہنوں میں مستحضر رکھنا چاہیے کہ ’’لوگوں نے اگلی نبوت کی باتوں میں جو کچھ پایا اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ جب تم کو شرم نہ رہے تو جو چاہے کرو‘‘۔(بخاری، عن ابن مسعود )
اعتدال وتوازن ہر کام میں مطلوب ہے۔ جس کام میں اس کا فقدان ہو وہ صحیح ڈگر پر زیادہ دیر اور دُورتک نہیں چل سکتا ۔ جب اور جہاں بھی اعتدال اور توازن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو وہیں انتہاپسند ی اور غلو،شدت پسندی اور تخریب کاری کا عمل شروع ہو نا لازمی ہے ۔ اعتدال پسندی و توازن کھانے پینے ، چلنے پھرنے ، بات چیت ، سو نے جاگنے ،محنت ومشقت ،مال کمانے ، سیروتفریح، حتیٰ کہ عبادات میں بھی مطلوب ہے ۔ اسلام اعتدال وتوازن کا دین ہے ۔ یہ جہاں شدت پسندی سے روکتا ہے وہیں غلو کرنے سے اجتناب کی تلقین کر تا ہے ۔اسلا م زندگی کے ہرشعبے میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن جگہ جگہ اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے رہنما اصول فراہم کرتا ہے ۔ اُمت مسلمہ کے حوالے سے قرآن کاموقف یہ ہے کہ یہ امت وسط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ۲:۱۴۳)۔ ا للہ تعالیٰ نے نہ صرف اُمت کے ہر فرد کو اعتدال وتوازن پر قائم رہنے کی تاکید کی بلکہ پیغمبر اعظمؐ کوبھی اعتدال کی روش اختیار کر نے کی تلقین کی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ (اعراف ۷:۲۹) ’’اے محمدؐ! کہہ دیجیے کہ میرے رب نے اعتدال کی راہِ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے‘‘۔شدت پسندی، غلو اور افراط وتفریط سے اجتناب کرکے نوجوانوں کو اعتدال کی روش کو اپنانا چاہیے۔
ایک اور مسئلہ جس کی وجہ سے نوجوان مختلف مسائل اور مشکلات میں گھر اہوا ہے وہ ماں باپ کی ناقص تعلیم وتربیت ہے ۔ جو نوجوان بھی ماں باپ کی تعلیم وتربیت سے محروم رہ جا ئے گا لازمی طور سے مسائل اوراُلجھنوں کا شکار ہو گا ۔ایک نوجوان کی اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی تعلیم وتربیت سے محرو م رہے ۔اس کے ماں باپ تعلیم وتر بیت اور اس کو صحیح رہنمائی کرنے میں کوتاہی یا بے اعتنائی برتیں۔ حقیقی معنوں میں یتیم اسی کو کہا جاتا ہے جیسے عربی کاایک مشہور شعر ہے ؎
لیس الیتیم من انتھی ابوہ من ھم الحیات وخلفاہ ذلیلا
ان الیتیم ھو الذی تلقی لہ اماتخلت او ابا مشغولا
(یتیم وہ نہیں ہے جس کے والدین فوت ہو چکے ہوں اور اس کو تنہا اوربے سہارا چھوڑ رہے ہوں۔ یتیم تو وہ ہے جس کی ماں نے اس سے بے اعتنائی بر تی ہو اور باپ مصروفِ کار رہا ہو )۔
اسلام نے بچوں کی پرورش اور پرداخت کے ساتھ ساتھ ماں باپ پر یہ بھی ذمہ داری عائد کی ہے کہ ان کو تعلیم وتر بیت اور اسلام کی اساسی تعلیمات سے روشناس کراکے صحت مند معاشرے کے لیے بہترین اور کار آمد افراد تیار کریں۔جہاں ماں باپ کو اس بات کے لیے مکلف ٹھیرایاہے کہ سات سال سے ہی بچوں کو نماز کی تلقین کریں وہیں ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کا مناسب وقت پر نکاح کا اہتمام کریں کیونکہ یہ ان کے بچوں کی عزت وعصمت اور پاک دامنی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
رائج نظام تعلیم بر طانوی مفکر لارڈ میکاولے کے افکار ونظر یات پر مبنی ہے۔ عصر حاضر میں تنگ نظری ، مقامیت ، مادیت ،اخلاقی بے راہ روی اور عورت کا استحصال ، نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے جرائم، نیز خود کشی کے گراف میںاضافہ، یہ سب ناقص نظام تعلیم کی دین ہے ۔نظام تعلیم میں ان خرابیوں سے یہ ثابت ہوتا ہے اس کو صحیح رُخ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ فرد اور سماج دونوں کی اصل ضروریات کو پورا کرسکے ۔
ہر قوم وملت کی تعمیروترقی بامعنی اور اقدار پر مبنی نظام تعلیم پر منحصر ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ قوم یا ملت کا بہتر مستقبل نظام تعلیم پر ہی منحصر ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ ایک مشہور ماہر تعلیم سے پوچھا گیا آپ ملت کے مستقبل کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے ۔تو ان کا جواب تھا:(مجھے اپنا نظامِ تعلیم دکھائو جو بتا سکتا ہے کہ اس کامستقبل کیا ہوگا )۔
رائج نظام تعلیم کے بر عکس اسلام کا نظام تعلیم الٰہی ہدایات پر مبنی ہے جو کسی بھی کمی یا نقص سے پاک ہے۔ اس میں فرد کی تعمیر و تطہیر کے لیے جامع ہدایات موجود ہیں ۔یہ فرد کی شخصیت کو منور کرتا ہے۔اس نظام تعلیم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ زندگی کے بنیادی اور اہم سوالات کے جوابات فراہم کرتا ہے، مثلاً میں کون ہوں؟ میری زندگی کامقصد کیا ہے؟ مجھے پیدا کرنے والا کون ہے ؟ اس نے مجھے دنیامیں کیوں بھیجا ؟اور وہ کیا کام لینا چاہتا ہے ؟۔ خالق اور مخلوق کے درمیان اور پھر مخلوق اور مخلوق کے مابین کیا تعلقات ہیں ؟
اپنی تہذیب و تاریخ اور علمی ورثہ سے مانوس و باخبر رہنا اشد ضروری ہے ۔ جو قوم اپنی تاریخ اور علمی ورثے سے غفلت برتتی ہے۔ تو وہ صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہے یا مٹادی جاتی ہے۔ اپنی تاریخ سے ناآشنا ہوکر کوئی بھی قوم یا ملت بہتر مستقبل اور ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی ۔ اس وقت اُمت مسلمہ کی صورت حال یہ ہے کہ اس کا یہ اہم سر مایہ اپنی تاریخ سے بالکل نابلد ہے ۔ ملت کے نوجوانوں کو اسلامی فتوحات کا کچھ علم نہیں۔ خلفاے راشدین کے کارناموں سے کوئی واقفیت نہیں ۔ وہ رسولؐ کے جانباز ساتھیوں کی زندگیوں سے کو سوں دُور ہیں ۔ ان کو پتا ہی نہیں کہ امام غزالی، ابن خلدون ،ابن تیمیہ جیسی نامور شخصیات کون تھیں؟ انھیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ سید قطبؒ ، حسن البناؒ اور سید مودودیؒ نے کیا کیا خدمات انجام دیں ۔ملت کے اس طبقے کو اسلام کے سرمایۂ علم اور تاریخ سے جوڑنا وقت کی اہم ترین پکار ہے ۔
عالم کاری(Globalization) کے ذریعے مغرب پوری دنیا میں آزاد تجارتی منڈی قائم کر چکاہے جس کے نتیجے میںسیکولرزم اور الحادی نظریات کی تخم ریزی ہو رہی ہے۔ عالم کاری ایک ایسا رجحان ہے کہ مغرب اس کے ذریعے دنیا کے ہر کونے میں آزاد معیشت اور تجارتی منڈی کو فروغ دے رہا ہے ۔ گلیمر کی اس دنیا میں اہلِ مغرب اپنی تہذیب کے اثرات بھی تیزی کے ساتھ مرتب کررہے ہیں ۔ا س تہذ یب کی ظاہری چمک دمک نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے حالانکہ یہ تہذیب اقبال کے الفاظ میں :
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیرِپاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف
عالم کاری کے ذریعے سے مغرب جن چار چیزوں کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لیے مصروف عمل ہے وہ یہ ہیں : تہذیب، ٹکنالوجی، معیشت،جمہوریت اور اس کے علاوہ سرمایہ داروں اور ایم این سیز (Multi National Companies)کو بھی خوب پذیرائی مل رہی ہے ۔ ان سبھی اداروں نے سب سے زیادہ جس طبقے کو اپنی گرفت میں کر رکھا ہے وہ نوجوان طبقہ ہے ۔
مسلم نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام عالم گیر نظام زندگی ہے، یہ خالق کائنات نے انسان کے لیے بنایا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنا تعارف قرآن مجید میں رب العالمین سے اور اپنے رسولؐ کا تعارف رحمۃللعالمین سے کراتا ہے،اور قرآن پاک کو ھُدًی لِّلنَّاسِ کہتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی تہذیب ایسی تہذیب ہے جس میں متبادل ہونے کی صفات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ بقول اقبال ؎
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے