اپریل ۲۰۱۵

فہرست مضامین

مذاہب اور جنسیت

ریاض اختر | اپریل ۲۰۱۵ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

گذشتہ چند دہائیوں سے پوری دنیا جنسی مسائل اور گفتگو میں الجھی ہوئی ہے۔ اس بحث و تمحیص نے ایک واضح خط ِ امتیاز کھینچ رکھاہے ۔ ایک جانب مغربی ممالک ہیں جہاں جنسیت کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دے کر مذہبی اور سماجی پابندیوں سے آزاد کر دیا گیاہے،اور دوسری طرف مشرق کی اپنی قدیم روایات اور اخلاقی تعلیمات ہیں جو لوگوں کو کھل کھیلنے کی اجازت نہیں دیتیں۔تاہم اس سے یہ اخذ کرنا کہ مشرقی دنیا اس معاملے سے بے نیاز یا نقطۂ معکوس پر کھڑی ہے،خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔

آزاد روی کے سیلاب ِ بلا خیز کی ابتدا مغرب سے ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یورپ نے تو اس کا آسان حل نکالا کہ تمام معاملات کو شخصی اور ذاتی قرار دے کرمعاشرے کو اپنی ذمہ داریوں سے آزاد کر دیا۔ اس حل کے پیچھے فی الحقیقت صدیوں پرانا وہ رویّہ تھا جس کے تحت ’انفرادیت‘ کو ہمیشہ ’اجتماعیت‘ پر فوقیت دی گئی۔ اس کے برعکس مشرق میں دور ِ قدیم ہی سے اجتماعیت کو اوّلیت دی گئی ہے۔ اسی وجہ سے فرد کو اپنے قول و فعل کے اظہار سے قبل اجتماعی، یعنی معاشرتی سوچ اور رد ِعمل کو مد ِ نظر رکھنا پڑتا ہے۔

پوری دنیا کے سنجیدہ مزاج اور صورت ِ حال سے متفکر لوگ اس نقطہ ِ فکر پر متفق ہیں کہ ہماری اخلاقی زبوں حالی اور جنسی مسائل کی کھائی میں گرنے، اورتیزی سے اس جانب بڑھنے کی اہم ترین وجہ مذہب سے دوری ہے۔ اس کے برعکس ایک طبقے کی راے میں جنسیت انسانی زندگی کا انتہائی قوی پہلو ہے،اور مذہب اس معاملہ میں یا تو خاموش ہے، یا برق پا تغیر پذیرحالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہمیں اس سے اتفاق نہیں۔مذاہب بالخصوص یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے مطالعے سے ہمارے اس دعویٰ کی تائید ہو جاتی ہے کہ ان میں سے کسی نے نہ تو سکوت اختیار کیا ہے، اور نہ ماوراے فطرت پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان مذاہب میں جنسی تقاضوں کو فطرت ِ انسانی سمجھتے ہوئے راہ ِ عمل متعین کی گئی ہے۔        

یھودیت

یہاں ہم سب سے پہلے یہودیت کا جائزہ لیتے ہیں، لیکن اس میں ’’قوانینِ موسوی‘‘ اور بعد ازاں ربّیوں کی تعلیمات میں فرق ملحوظ ِ خاطر رکھنا ہو گا۔ یہودی قوانین توریت ، تالمود اور دیگر علماے یہود کے مجموعے کا نام ہے جسے حضرت موسٰی ؑ کے احکام سمجھ لیا گیا ہے، حالانکہ ایک بنیادی قانون ہے، اور دوسرا تشریحی۔ 

توریت کی کتاب ’پیدایش‘ میں آدم کی پسلی سے عورت کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد مرد اور عورت کی قربت اور ازدواجی زندگی کا یوں بیان ہوا ہے کہ ’’ اسی لیے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اپنی بیوی کا ہو جاتا ہے، اور وہ دونوں ایک ہی جسم بن جاتے ہیں‘‘ ( پیدایش ۲ : ۱۸- ۲۴)۔ اب  اس میں اشتباہ کی گنجایش نہیں کہ دونوں کا ایک جسم ہو جانا اپنے اندر کیا مفہوم رکھتا ہے ۔

کتابِ خروج میں ہر مرد و زن کو بدکاری سے اجتناب کرنے، دوسرے لوگوں کی چیزیں اور پڑوسی کی بیوی ، اس کے خادم اور خادمائوں کو لینے کی خواہش سے منع کیا گیاہے ( خروج ۲۰ : ۱۴، ۱۷)۔ گویا اس میں دوسروں کے مال و اسباب کی طمع کرنے اور پڑوسی کی بیوی کے ساتھ جنسی تعلقات کی استواری کی خواہش ممنوع ہے۔ ’پڑوسی کی بیوی‘ محدود مفہوم میں نہیں بلکہ وسیع تر معنوں کی حامل علامت ہے کہ کسی بھی غیر عورت کے بارے میں ایسے خیالات اور خواہش کو دل میں لاناخدا کی نگاہ میں اسفل فعل ہے۔ علاوہ ازیں، دوسری شادی کرنے کے بعدخاوند اپنی پہلی بیوی کے تین حقوق کی ادایگی کا پابند ہے۔ کھانا اور لباس دینے کے بعد اس کا تیسرا فرض یہ ہے کہ وہ بیوی کو ’’مسلسل وہ چیزیں دیتا رہے جنھیں حاصل کرنے کا اختیار شادی سے ملا ہے‘‘ ( خروج ۲۱ : ۱۰)۔ یہ الفاظ بیوی کے جنسی حقوق کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور اس میں یہ حقیقت مضمر ہے کہ: بیوی کو ان حقوق سے محروم رکھنا اسے اپنے فطری تقاضوں کی تسکین کا رخ موڑنے کا جواز بن سکتا ہے۔ تالمود میں Nashim یعنی ’عورت‘ کے عنوان کے تحت بیوی کی جنسی آسودگی سے متعلق قواعد و ضوابط بیان کیے گئے ہیں۔ اس میں خاوند کے پیشہ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ وہ ہر شب اپنی بیوی کے ساتھ سوئے، مگر اس استثنیٰ کے ساتھ کہ شتر بان ہر ۳۰ دن میں کم از کم ایک مرتبہ اور جہاز راں چھے ماہ میں ایک بار ضرور اپنی بیوی سے قربت کرے۔ اس حکم یا نصیحت میں دماغ سوزی کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں خاوند کی مصروفیت کو مد ِ نظر رکھا گیا ہے۔

توریت کی کتاب ِ احبار کے اٹھارھویں باب میں جنسی معاملات سے متعلق قوانین اور ضوابط کا تفصیلی ذکرہے جو خداکی طرف سے بنی اسرائیل کو پہنچانے کے لیے حضرت موسٰی ؑ کو دیے گئے تھے۔ یہاں ایک بار پھر پڑوسی کی بیوی کے ساتھ جنسی اختلاط سے منع کیا گیا ہے(کتاب ِ استثناء ۵ :۲۱ میں اس حکم کا پھر اعادہ کیا گیاہے)۔ صرف یہی نہیں، بلکہ دائرۂ حُرمت میں آنے والے تمام رشتوں کا بیان بھی ہے ۔ اسی باب میں ہم جنسیت کو ’ بھیانک گناہ‘ کہنے کے علاوہ کسی جانور کے ساتھ مرد یا عورت کے جنسی تعلق کی بھی مناہی کی گئی ہے۔اوّل الذکر عمل ِ قبیح کا ذکر قوم ِ لوط کے ضمن میں قدرے تفصیل سے آیا ہے۔ اس کو محض سرسری نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ صدیوں قبل ایک محدود علاقے یا قوم میں اس کا ارتکاب آج کے مہذب ترین معاشرے میں ہم جنس پرستی کی تبلیغ، اجازت اور  ’انسانی حقوق‘ کی علَم برداری کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ خداے علیم و خبیر نے پہلے ہی نوعِ انساں کو متنبہ کر دیا تھا۔ یقینا اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ مستقبل میں اس کا ارتکاب روز افزوں بھی ہو گا اور باعث ِ ندامت بھی نہیں، بلکہ اس کو قانونی تحفظ بھی مل جائے گا۔

کتاب استثناء کے باب ۲۲ میں شادی سے متعلق قوانین کا بیان ہے۔ یہاں منجملہ دیگر، شب ِ عروسی اگر خاوند اپنی بیوی کو باکرہ نہ پائے اور عورت کے والدین بھی اس کے کنوار پن کاکوئی ثبوت نہ دے سکیں (اسی باب کے مطابق کنوار پن کا ثبوت اس کپڑے پرخون کے دھبے ہیں جو شب ِ زفاف کے بعد عورت اپنے پاس رکھتی ہے)، تو لڑکی کو سنگسار کرنے کا حکم ہے۔ رجم کا یہی حکم زنا بالرضا کے مرتکب مرد اور عورت کے لیے بھی ہے ۔ کنواری اور ایسی لڑکی جس کی کسی کے ساتھ نسبت نہ ٹھیری ہو، کے ساتھ زنا بالجبر کی سزا میں مرد کو جرمانہ اور اس لڑکی کے ساتھ شادی اور تا حیات طلاق نہ دینے کی پابندی ہے۔ شادی شدہ یا کنواری مگر نسبت شدہ لڑکی کے ساتھ زبردستی جنسی اختلاط کرنے والے مرد کی سزا قتل ہے۔ عورت کو اس گمان میں معاف کر دیا گیا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے شاید شور کیا ہو گا مگر کوئی اس کی مدد کو نہ آیا تھا۔

تالمود میں جنسی جرائم کے ارتکاب پر مختلف سزائیں بیان کی گئی ہیں۔ سگی یاسوتیلی ماں اور بہو کے ساتھ جسمانی تعلق، ہم جنسیت اورجانوروں سے اختلاط پر سر قلم کرنے ، مجرم کو لٹا کر اس کے گلے میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیلنے یا گلا گھونٹ کر مار ڈالنے کی سزائیں مقرر ہیں۔ ان سب قوانین سے معلوم ہوتا ہے کہ جنسی بے راہ روی کی بیخ کنی کے لیے انتہائی قدم اٹھانا بعض اوقات لازم ہو جاتا ہے۔

مرد عورت کوجانوروں کے ساتھ جنسی اختلاط سے ممانعت کوبھی جدید دور کی آزاد خیالی اور انتہائی بے راہ روی کے پس ِ منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آج کی روشن خیال اور مادر پدر آزاد دنیا میں اس قبیح تعلق کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔    

عیسائیت

 خدا کی محبوب ترین قوم بنی اسرائیل جلد ہی قوانینِ موسوی کو فراموش کرکے توریت کی  من چاہی تاویلات میں الجھ گئی۔مصر سے خروج کے وقت وہ جن عقائد کو اپنے ساتھ لائے انھوں نے پھر سے لوگوں کی زندگیوں کو آلودہ کرنا شروع کر دیا۔ عہد نامہ عتیق میں شامل متعدد کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔ علاوہ ازیں، مصری فراعین اور رومی شہنشاہیت کا دائرہ وسیع تر ہو چکا تھا   جس کی وجہ سے یہودیوں میںایک خداکی عبادت کا عقیدہ متزلزل ہو رہا تھا۔فسق و فجور کے دیگر عوارض ان کے روح و بدن کو متاثر کر رہے تھے۔اس صورت ِ حال میں حضرت عیسیٰ کی آمد سنجیدہ مزاج اور مذہبی رجحان کے حاملین کے لیے تقویت کا باعث ہونی چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہو سکا۔

حضرت عیسیٰ کی تعلیمات ان کے حواریوں نے قلم بند کیں۔ سب سے پہلے ضبط ِتحریر میں آنے والی مرقس کی انجیل پہلی صدی عیسوی کے چھٹے یا ساتویں عشرہ میں سامنے آئی۔ باقی اناجیل اس کے بعد لکھی گئیں۔ اپنی مختصر حیات میں حضرت عیسٰی ؑ کو زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرنے کی مہلت نہ ملی۔بعد ازاں پولس کی تعلیمات کو بھی عیسائیت کے بنیادی قوانین کی حیثیت حاصل ہوگئی۔

مرقس اور لوقا کی اناجیل میں طلاق کے بارے میں حضرت عیسیٰ کے خیالات دو اہم نکات کی جانب اشارہ کرتے ہیں، یعنی میاں بیوی کا دائمی بندھن، اور طلاق کے بعد شادی کی صورت میں انھیں زنا کا مرتکب قراردینا ( مرقس کی انجیل ۱۰ :۱۰-۱۲، اور لوقا کی انجیل، ۱۶ :۱۸)۔ اوّل الذکر کے مطابق خاوند یا بیوی کی وفات تک شادی ایک ناقابل ِ تنسیخ معاہدہ ہے ۔ گویا خاندان کا وجود تسلیم شدہ حقیقت ہے، اور انسانی زندگی میں رہبانیت کو اہمیت نہیں دی گئی۔ دوسرا نکتہ زنا کی مذمت ہے کہ طلاق کے بعددوسری شادی گویامتعلقہ فریق کا ارتکابِ زنا ہے۔ بالفاظِ دیگر ، زنا کو ایک انتہائی ناپسندیدہ فعل کہا گیا ہے۔ ہم پولس کے خیالات اور تعلیمات میں شامل قوانین اور ضوابط کو کسی طور بھی الہامی قرار نہیں دے سکتے۔ چونکہ عیسائی دنیا انھیں عیسائیت کا جزو سمجھتی ہے اس لیے ان کا ذکر ناگزیر ہو جاتا ہے۔

پولس کے مکتوبات میں تجرد کی مدح سرائی اورشادی شدہ زندگی کے بارے میں اس کے نصائح دو متضاد سوچوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ فی اوقت ہمیں اس سے بحث نہیں۔ ہمیں اس کے مکتوبات سے پاک باز زندگی گزارنے ، فواحش اور ارتکاب ِ زنا سے اجتناب کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے۔ عبرانیوں کے نام خط( ۱۳: ۴) میں وہ تلقین کرتا ہے کہ ’’شادی کا بستر پاک رکھنا چاہیے۔ خداہی ان لوگوں کا فیصلہ کرے گا جو حرام کاری کے گناہ اور زنا کرتے ہیں‘‘۔ اسی طرح ایک اور خط میں وہ لوگوں کو حرام کاری کرنے والوں کی صحبت سے پرہیز کا مشورہ دیتا ہے کہ ’’ ایسے شخص کے ساتھ کھانا بھی نہیں کھانا چاہیے‘‘ ( ۱- کرنتھیوں کے نام خط، ۵ : ۹-۱۱)۔ اسی مکتوب میں حرام کاری سے اجتناب کرنے کی باربار تلقین کی گئی ہے ( ۶ : ۹، ۱۶، ۱۸، اور ۷ : ۱-۴)۔گلتیوں کو عیسائیت کی تبیلغ کرتے ہوئے وہ جنسی گناہ، برے جذبات اور لالچ کو بت پرستی کے برابر قرار دیتا ہے کہ ’’ایسے گناہ کے اعمال پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے‘‘۔ ( ۳ : ۵ - ۷)

کلیسائی تعلیمات میں جسمانی تعلقات کو بنگاہ ِ حقارت دیکھا گیا ۔ اسی وجہ سے شادی کے بجاے تجرد کی زندگی کو اہمیت دی جانے لگی ۔ اس ضمن میں متعدد مذہبی پیشوائوں، بشمول سینٹ پال، کا حوالہ دیا جا سکتا ہے، جنھوں نے عیسائیوں کو مجرد زندگی گزارنے کا مشور دیاکہ ’’ جو لوگ شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں وہ شیطان کے کام کی تکمیل کرتے ہیں‘‘۔ایک روایت کے مطابق حضرت عیسٰی ؑ سے استفسار کیا گیاکہ موت کب تک فرماں روائی کرے گی؟ آپ کا جواب تھا کہ جب تک عورتیں بچوں کو جنم دیتی رہیں گی۔مزید فرمایا کہ جب تک کہ تم لباس ِ خجالت اپنے پائوں تلے نہیں روندتے، عورت مرد کا امتیاز ختم نہیں ہو جاتا،اور دونوں میں یک جائی نہیں ہو جاتی، موت تمھارے سروں پرمنڈلاتی رہے گی۔ حضرت عیسٰی ؑ سے یہ بات بھی منسوب کی گئی ہے کہ’ میں نسوانی کاموں کو ختم کرنے آیا ہوں، یعنی شہوت اور عمل ِ پیدایش۔۱؎ یہی وجہ ہے کہ عیسائیت میں راہبانہ زندگی کو معراج سمجھا گیا ہے۔

 ایسی تعلیمات ہی کے تحت کلیسا نے مذہبی امورکی بجاآوری کے لیے ہر عورت کو اجازت نہیں دی تھی بلکہ وہ بیوائیں جو راہبانہ زندگی گزارنے کی خواہش مند تھیں اور وہ کنواری لڑکیاں جنھوں نے تا عمر شادی نہ کرنے کا عہد کیا ہوا تھا، کلیسائی کاموں کی اہل تھیں۔ان کا قیام چونکہ کلیسا ہی میں تھا اس لیے بتدریج ایک غیر اخلاقی صورت ِ حال نے جنم لیا۔

جی- ایچ- ٹاورڈ (G. H. Tavard) نے لکھا ہے کہ کلیسا کے غیر شادی شدہ منصب داروں اور رہنمائوں نے نہ صرف دوشیزائوں اور بیوائوں کے گھروں میں رہنا شروع کر دیا تھا بلکہ ان کے ساتھ ایک ہی بستر پر بھی سونے لگے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اکٹھے سونے کے باوجودان کے مابین کسی قسم کے جنسی تعلقات نہیں تھے۔انطاکیہ کے بشپ کے گھر میں تو متعدد ایسی عورتیں موجود تھیں اور اسی وجہ سے کلیسا کی انطاکیہ کونسل نے اپنے اجلاس منعقدہ ۲۶۸ء میں اسے عہدے سے معزول کر دیاکیونکہ ضبط ِ نفس اور اجتنابِ اختلاط کے باوصف لغزش کا شائبہ بہر حال پایا جاتا تھا۔ اسے ناپسندیدہ سمجھنے کے باوجود بھی اکٹھے رہنے اور سونے پر کوئی پابندی نہ لگائی گئی۔ حتیٰ کہ   ۳۲۵ء میں ہونے والی اہم اور مشہور نائسیا (Nicea ) کونسل میں بھی پابندی کا کوئی فیصلہ نہ ہوا اور یوں اس فعل کے ارتکاب کو جاری رکھنے کا در کھلا رہا۔(بحوالہ وائٹرنگٹن، ص ۲۰۴)

ان تعلیمات کے برعکس عیسائیوں کے کارپوکریٹی (Carpocratians) فرقے کا فلسفہ آزادخیالی پر مبنی تھا۔ا ن لوگوں کا عقیدہ تھا کہ چونکہ انسان صرف اسی دنیا کے لیے ہے اس لیے دنیاوی زندگی میں لذات جسمانی اور شہوت رانی پر کوئی پابندی نہیں۔ اور یہ کہ خدا کے پاس لوٹنے سے قبل روح کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، لہٰذا لازم ہے کہ ہر قسم کی آزاد روی ، سرمستی اور اختلاط ِ بدنی سے لطف اٹھا لیا جائے تاکہ انھیں حیات ِ نو کی ضرورت ہی نہ رہے۔ 

گویا عیسائیت میں توازن کے بجاے دو انتہائوں پر زور دیا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی لوگوں کو موقع ملا انھوں نے ہر بند اور شرم و حیا کو توڑ کر مادر پدر برہنگی اور جسمانی لذائذ کی راہ اختیار کی۔ آج صرف امریکا میں ہر شخص اوسطاً آٹھ افراد کے ساتھ زنا کا مرتکب ہورہاہے۔

اسلامی تعلیمات

اب ہم اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیتے ہیں جو فی الحقیقت گذشتہ الہامی قوانین کا تسلسل بھی ہیں اور حرف ِ انتہا بھی۔ اوّل الذکر کی وضاحت خود اللہ تعالیٰ نے فرما دی کہ :’’آج ہم نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیںاور تمھارے لیے اسلام کو دین پسند کیا‘‘۔(مائدہ ۵: ۳)

اس میں انتہائی مختصر مگر جامع الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے کہ آج کے بعد قوانین میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگا اور یہ کہ انسان زندگی گزارنے کے لیے اپنی مرضی کا نہیں، بلکہ ان اصولوں اور امرو نہی کے تابع ہوگا جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ اس لحاظ سے جنسی معاملات میں بھی ہم انھی حدود و قیود کے پابندہیں جو قرآن میں واضح کر دیے گئے ہیں۔ اپنی رضا و منشا، خوشی، مسرت یا حالاتِ زمانہ کے مطابق ان میں کسی قسم کی کمی بیشی کا تصور ہی نہیں۔

حکمِ الٰہی ہے کہ ’’ زنا کے پاس بھی نہ جانا کہ وہ بڑی بے حیائی اور بہت ہی بری راہ ہے‘‘ (بنی اسرائیل۱۷: ۳۲)۔ قرآن نے وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی کے الفاظ استعمال کرکے تمام راستوں کو بند کر دیا ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ ’’ زنا مت کرو‘‘ ، بلکہ حکم ہے کہ ’’ اس کے پاس بھی نہ جائو‘‘، یعنی ہر وہ کام ، صحبت اور راہ جو انسان کو بلا ارادہ یا ارادتاً اس جانب لے جانے والی ہو جہاں زنا کے ارتکاب، یا کم از کم سوچ، خواہش یا منظر کا معمولی سا بھی احتمال ہو، اس سے گریز کرو۔ گویا یہ ارتکاب ِ زنا کی بنیاد ہے۔ جب انسان پہلا قدم ہی رکھنے سے مجتنب ہو گا تو یقینا وہ اپنے اگلے ارادوں پر بھی قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اسی فرمان ِ الٰہی میں اسے ’’بڑی بے حیائی اور بہت بُری راہ‘‘ کہہ کر ذہن کو دعوت ِ فکر دی گئی ہے کہ یہ فعل محض تلذذ اور خوش وقتی کے لیے نہیں بلکہ بے حیائی اس کا لازمی عنصر ہے ، اور بری راہ اس لیے کہ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ اس فعلِ بد کا صرف ایک بار ہی ارتکاب کرنے کے بعد تائب ہو جائے گا۔ایک مرتبہ ملوّث ہونے کے بعدوہ گویا ایک راستے پر چل پڑا ہے جہاں اس کے قدم اسے آگے ہی آگے لیے جاتے ہیں۔

سورۂ فرقان میں کہا گیا ہے، ’’ اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں پکارتے اور جس جانور کو مارنااللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے، مگر جائز طریقے سے، اور بدکاری نہیں کرتے، اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہو گا‘‘ ( الفرقان ۲۵: ۶۸)۔یہاں بظاہر بدکاری کو انتہائی برا فعل اور سخت گناہ کہا گیا ہے۔ شرک اور جانوروں کو ممنوعہ طریقے سے قتل (ذبح) کرنے کے ساتھ ہی بدکاری کا ذکر کرنا بذات ِ خود اس امر کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں افعالِ بد کا ارتکاب شرک وغیرہ سے کم نہیں۔ یہ ایک ایسی تنبیہ ہے جس پر معمولی سا غور بھی انسان پر لرزہ طاری کردیتا ہے۔اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بدکاری کس حد تک قابل ِ اجتناب و نفرین ہے۔

زنا اور شرم گاہوں کو ظاہر کرنا لازم و ملزوم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس نکتے پر خاص طور سے زور دیا ہے۔ ارشاد ِ ربانی ہے: ’’ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں، کچھ شک نہیں کہ ان کے لیے اللہ نے بخشش اور اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہیــ‘‘ (احزاب ۳۳:۳۵)۔ اسی طرح سورۂ مومنون میں ایمان لانے والے کو فلاح کی بشارت دی گئی ہے۔ صرف ایمان باللسان نہیں بلکہ ان لوگوں کو جو ’’ اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دور رہتے ہیں، زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں اور ان عورتوں کے جو ان کی ملِک ِ یمین میں ہوں کہ ان پر وہ قابل ِ ملامت نہیںہیں، البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں‘‘۔ (المومنون ۲۳: ۱-۷)

قرآن نے انسان کو احسن و بامقصد زندگی گزارنے کے زریں اصولوں سے شناسا کیا ہے۔ ہر حکم اور اصول کو اس کی اہمیت کے اعتبار سے بتکرار بیان کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا نکتہ چونکہ حیات ِ انسانی میں دور رس نتائج کا حامل ہے اس لیے اسے صاف صاف الفاظ میں واضح کیا جا رہا ہے۔ سورۂ نور میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ اے نبیؐ ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔۔۔۔ اور اے نبیؐ ! مومن عورتوں سے کہہ دوکہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور پنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بنائو سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں  ۔۔۔۔۔  وہ اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو، اس کا لوگوں کو علم ہو جائے‘‘۔  (النور ۲۴: ۳۰-۳۱)

ان آیات ِ مبارکہ میں غضِ بصر، شرم گاہوں کی حفاظت، عورتوں کا اپنے سینوں پر آنچل ڈالنا، زینتوں کو نامحرموں سے چھپانا اور پائوں کو اس غرض سے زمین پر مارنا کہ پوشیدہ زینتوں (یعنی پائل، جھانجھر وغیرہ) کی آواز دوسروں کے کان میں جائے، سب ہی ممنوعات میں شامل ہے۔ غور کیا جائے تو اس میں کڑی سے کڑی ملتی جاتی ہے ۔ ہر دانستہ یا غیر دانستہ فعل خیالات ِ بد، ہیجان اور ژولیدہ فکری کی راہ سے ہوتا ہوا نفسانی خواہش، اور مآل کار زنا تک جا پہنچتا ہے۔ ان دو آیات میں زنا سے بچنے کا حکم دیا ہے تو ساتھ ہی اس سے مجتنب رہنے کی راہ بھی دکھا دی ہے۔ امام غزالی خواہشات ِ جماع اور بدکاری کے بیان میں نصیحت کرتے ہیں کہ ’’ نا محرمات عورتوں کو نہ دیکھے ۔ اگر کسی پر اتفاقاً نگاہ پڑ جائے تو دوبارہ احتیاط کرے ورنہ پھر بہت مشکل ہو گا۔نفس ِ شہوت اس معاملے میں قطعی حیوانوں کی طرح ہے کہ پہلے پہلے تو اس کو جس طرح چاہو سدہا سکتے ہو، اور اگر اس میں کوئی ہٹ پیدا ہو جائے تو پھر قابو سے باہر ہو جائے گا۔ لہٰذا اپنی آنکھ کو محفوظ رکھو ‘‘ ۔۲؎ سورۂ معارج میں جنتی لوگوں میںان کا بھی ذکر ہے جو’ ’ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔(المعارج ۷۰:۲۳-۳۱)

اللہ تعالیٰ نے جب ا نسان کی جنسی طلب و خواہش کی تکمیل کے لیے ایک جائز راستہ مقرر کیا ہے تو اس سے متجاوز کرنے پروہ قابلِ تعزیر بھی ہے۔’’ زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو، اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو دامن گیر    نہ ہواگر تم اللہ اور روز ِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ِ ایمان کی ایک جماعت موجود ہو‘‘ (النور۲۴: ۲)۔ایک اور جگہ فرمایا ہے کہ ’’ تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروںمیں بند رکھویہاں تک کہ انھیں موت آ جائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ اور تم میں سے جو اس فعل کا ارتکاب کریں، ان دونوں کو تکلیف دو، پھر اگر وہ توبہ کریں، اور اپنی اصلاح کرلیں تو انھیں چھوڑ دو‘‘۔ (نساء ۴: ۱۵-۱۶)

مفسرین کے مطابق سورۂ نساء میں بیان کی گئی سزا ابتدائی احکام میں سے ہے جب ابھی اسلامی معاشرہ تشکیل پا رہا تھا، جب کہ سورۂ نور میں سزائوں کو زیادہ شدت سے نافذ کرنے کا حکم ہے۔ ان معاملات میں معمولی سی رعایت، نیم دلی یا گنجایش سے حالات کبھی بھی قابو میں نہیں رہتے۔  اس کے ایک نہیں، متعدد نمونے ہمیں تاریخ کے مختلف اَدوا ر میںاور اپنے ارد گرد ملتے ہیں ۔

یہیں پر بر سبیلِ تذکرہ تعدد ِ ازواج کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ معاشرتی، سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے اللہ نے مرد کے لیے چار تک شادیوں کی اجازت دی ہے، مگر اسے عدل سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جنسی تقاضوں کے مد ِ نظر بھی اس کی افادیت تسلیم شدہ ہے کہ مرد عورت کو بدکاری اور حرام کاری سے بچنے کے لیے ایک جائز راستہ دکھایا گیا ہے۔ ، اللہ کی  نظر میں پسندیدہ راہ تو پرہیزگاری اور ضبط ِ نفس ہے، اور اگر انسان خود پر قابو نہ رکھ سکے توبجاے اس کے کہ وہ ارتکاب ِ زنا کر بیٹھیں، شادی کرکے حرام کو حلال میں بدل لیں۔

اسلام میں تجرد کی زندگی کو سراہا نہیں گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ نکاح میری سنت ہے۔ اس کا مقصد ہی یہی ہے کہ مجرد زندگی میں انسان کے بھٹک جانے کا بہت حد تک امکان پایا جاتا ہے۔ قرآن اور احادیث میں ضبط ِ نفس کا ذکر تو ضرور ہے مگر ان معنوں میں نہیں کہ انسان جنسی فعل کو ناجائز سمجھے یا اسے برا جان کر تائب ہو جائے۔ اسلام شادی اور جنسی فعل کو جائزقرار دیتا ہے مگر اس وقت تک اپنے آپ کو فواحشات اور اعمال ِ بد سے بچائے رکھنے کا حکم بھی دیتا ہے۔

امام غزالی نے لکھا ہے کہ نکاح کی فضیلت عمل ِ بد سے بچنے اور فساد سے علیحدہ رہنے کے باعث ہے۔ اس لیے کہ آدمی کے دین کو فساد سے دوچار کرنے والی چیزیں اکثر شرم گاہ اور پیٹ ہی ہوتی ہیں، اور شادی کرنے سے وہ ایک آفت سے بچ جاتا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ نکاح سے صرف دوچیزیں روکتی ہیں، یا عاجز ہونا یا بدکار ہونا۔ حضرت ابن عباسؓ کے مطابق عابد کی عبادت پوری نہیں ہوتی جب تک کہ شادی نہ کر لے۔بقول امام غزالی ،نکاح والے کی فضیلت مجرد پر ایسی ہے جیسے جہاد کرنے والے کو نہ جانے والے پر ہے، اور بی بی والے کی ایک رکعت مجرد کی ستر رکعتوں سے بہتر ہے۔ ۳؎ 

قرآن میں جس شدت کے ساتھ اپنی شرم گاہوں کے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے اس میں ایک جہانِ معنی پوشیدہ ہے۔ اسلام نے غضِ بصر کا حکم دیا ہے خرابی کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔  جو رفتہ رفتہ دونوں جنسوں کے درمیان دوستی، ملاقاتوں، ہنسی مذاق، سنجیدہ بات چیت سے لایعنی اور بے تکلفانہ فحش گفتگو اور حرکات و سکنات کی جانب لے جانے والی سیڑھیاں ہیں، جس کی آخری منزل دونوں کے مابین جنسی تعلقات کی استواری ہے۔ پندرہ صدیاں قبل کے یہ نصائح اور پابندیاں بظاہر دلوں پر بوجھ محسوس ہوتے ہیں مگر جب ان کو آج کے انتہائی تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرہ کے پس منظر میں دیکھتے ہیں تو انسان کی اخلاقیا ت کو راہ ِ راست پر رکھنے کے لیے اس سے بہتر کوئی نسخہ دکھائی نہیں دیتا۔شخصی آزادی کے فلسفے نے مرد و زن کو ایک دوسرے کے سامنے بالکل برہنہ کر دیا ہے۔ جب شرم گاہوں کو پوشیدہ رکھنے کے مذہبی، سماجی اور اخلاقی قوانین شخصی آزادیوں کی لہر میں بہہ گئے تو رشتوں کا احترام، حیا کے تقاضے، عصمت کی حفاظت اور خاندان کا تصور دھواں ہو کر    اُڑ گیا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ شادیوں سے فرار، طلاقوں کی شرح میں اضافہ، بن بیاہی مائوں کی تعداد میں  شرم ناک کثرت۔

یونانی اور رومی تھذیبوں کا انحطاط

تورات اور قرآن میں زنا کی سزائوں کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ مغرب کے آزاد خیال اور مذہب سے تہی معاشرے کے علاوہ خود مسلمانوں کی ایک انتہائی قلیل تعداد روشن خیالی، یا آزادیِ بے مہار کی خواہش لیے ہوئے، ان تعزیرات پر معترض ہے۔ یقینا انھوں نے قبل از اسلام معاشروں کا مطالعہ نہیں کیا کیونکہ ان ادوار میں بھی زنا کو ناقابل ِ معافی جرم سمجھاجاتا تھا۔ مثال کے طور پر حمورابی قوانین، جنھیں قدیم ترین اور اوّلین تحریری اور باضابطہ قوانین کہا جاتا ہے ،میں واضح الفاظ میں لکھا گیا تھا کہ : ۴؎

شادی شدہ عورت کے کسی دوسرے مرد کے ساتھ جسمانی تعلق کی سزا دونوں کی مشکیں باندھ کر دریا برد کرنا تھی (قانون نمبر ۱۲۹)۔ اور اگر خاوند بیوی کو معاف کر دیتا تو اس کے باوجود بھی رسم ِ زمانہ کی رو سے زانیہ کوبالکل برہنہ شہر میں گشت کرایا جاتا تھا۔

 منکوحہ مگر باپ کے گھر میں رہنے والی عورت کے ساتھ زنا بالجبر کرنے والے مرد کی سزا قتل تھی۔(قانون نمبر ۱۳۰)

قوانین نمبر ۱۳۳ تا ۱۳۵ قیدی کی بیوی کے لیے وضع کئے گئے تھے۔ ان کی رو سے اگر بیوی کو خاوند کی عدم موجودگی میں نان و نفقہ کی پریشانی نہ ہو، اور اس کے باوجود وہ کسی اورمرد کے ساتھ اس کے گھر رہایش اختیار کر لے تو اس عورت کو دریا میں ڈبو دینے کی سزا ہے ۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو کہ قیدی کے گھر میں کھانے پینے کی اشیا کا فقدان ہو ،اس کی بیوی کسی اور مرد کے ہاں رہنا شروع کر دے ،تو اس صورت میں عورت قصوروار سمجھی نہیں جاتی تھی۔

یونانی علم و فلسفہ کی روشنی نے پوری دنیا کو منور کیا ہوا تھا۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو جیسے قدآور فلسفیوں نے کئی صدیوں تک زمانے کو اپنے آگے سرنگوں رکھا۔ مگر جب ہم افلاطون کے مکالمات میں مجوزہ ریاست کے خد و خال دیکھتے ہیں تو وہ اپنے دور کا ایک عام سا انسان نظر آتا ہے۔ اس کے خیال میں بہترین ریاست کے لیے بہترین افراد کا انتخاب ضروری ہے، اور اس ریاست کا انتظام چیدہ چیدہ افراد کے سپرد ہونا چاہیے۔ یہ چیدہ چیدہ افراد کون ہیں؟ یہاں وہ مشترک خاندان اور اولاد کا تصور پیش کرتا ہے، یعنی منتخب کردہ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے ایک دوسرے کے ساتھ رشتۂ زوجیت تو رکھیں مگر بغیر شادی کے۔ ان کی اولاد ریاست کی اولاد سمجھی جائے گی۔ انھیں جنم دینے والے ان کی زندگی سے بے دخل ہو جائیں گے۔ بہترین منتظمین ِ ریاست کے لیے جنسی آزادی کی راہ دکھائی گئی ہے۔ ایتھنز ہی کے بارے میں مشہور عالم ِ بشریات رابرٹ بریفالٹ کا بیان ہے کہ ’’کہا جاتا ہے کہ قدیم ایتھنز میں ایک زمانہ وہ بھی تھا جب عام بے راہ روی کی وجہ سے لوگوں کو اپنے باپ کا علم نہیں تھا‘‘۔۵؎ ایتھنز کی تمام شادی شدہ عورتوں پر یہ الزام انتہائی خوفناک اور قابلِ تحقیق ہے۔ مانا کہ افروڈائٹ وغیرہ کی وجہ سے عام اخلاقی حالت باعث ِ فخر نہیں تھی مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ ہر عورت کو اخلاق باختہ اور جنسی بے راہ روی کی شکار قرار دے دیا جائے۔عقل بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ کسی شہر میں کوئی شادی شدہ عورت بھی عفت مآب نہ ہو مگرہم اس کو کثرت ِ زنا ضرور کہہ سکتے ہیں۔ قانون کے تحت زنا کی سزا موت تھی ، لیکن ’’یونانی اتنے مہربان لوگ تھے کہ ہوس ِ نفسانی کے کسی مجرم کو سزا نہیں دیتے تھے‘‘۔۶؎

ایتھنزکی ہمسایہ ریاست اسپارٹا اگرچہ علم و فن سے دور تھی مگر آزاد روی میں کسی سے کم نہیں تھی۔ رقص و سرور کی عوامی محفلیں ہوں یاجلوس وغیرہ، عورتوں کو برہنہ ہو کر ان میں شمولیت اختیار کرنا پڑتی تھی حالانکہ نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی بحیثیت شرکا یا تماشائی وہاں موجود ہوتی تھی۔ عورتوں کی برہنگی کامقصد اپنے بدن کو سڈول، خوب صورت اور پُرکشش بنانے کی ترغیب دینا اور جسمانی نقائص کو دور کرنا تھا ۔پلوٹارک جیسے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل مؤرخ اور دا نش ورکی نگاہ میںعورتوں کی عالم ِ برہنگی میں شرکت باعث ِ شرم نہیں تھی کیونکہ اس حالت میں بھی وہ ’’عفت و حیاکا دامن تھامے رنگین مزاجی سے دُور تھیں‘‘۔ اس کی نظر میںتو اسپارٹا میں زناکاری اور کثیر الزوجیت معدوم تھی۔  عیسائی عالم وائٹرنگٹن بھی پلوٹارک کے بیان پر تذبذب کا اظہار کرتا ہے ۔ اس کی راے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنی رفعت ِ خیالی ۔(وائٹرنگٹن،ص ۲۲۴)

ایک طرف یہ دعویٰ کہ اہل اسپارٹا میں زناکاری معدوم تھی، اور دوسری جانب یہ معاملہ کہ ایک بھائی کی بیوی بعض اوقات اس کے دوسرے بھائیوں کی بھی تسکین کا ذریعہ تھی۔اس کی تائید یونانی مؤرخ پولی بئس (Polybius, 200-118 BC) نے بھی کی ہے ۔ نہ صرف بھائیوں بلکہ بعض اوقات مہمانوں کو بھی دعوت ِ شرکت ِ زوج دی جاتی تھی۔ ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں  جن سے پتا چلتا ہے کہ خاوند کی عدم موجودگی میں بیوی اپنے لیے ایک عارضی خاوند کا بندوبست کر لیا کرتی تھی۔ اہل ِ اسپارٹا کی روایات میں ایسے فعل کو قابل ِ مذمت و شرم بے شک نہ سمجھا جاتا ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ اسے زنا کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔

اس جنسی آزاد روی کے باوجود قدغن بھی تھی۔لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے بالترتیب ۳۰ اور ۲۰برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل شادی کرنا لازم تھا ۔ تجرد کو جرم گردانا جاتا تھا۔ سزا کے طور پر نہ تو وہ  اپنا حق ِ راے دہی استعمال کر سکتے تھے نہ کسی ایسے جلوس اور اجتماع میں شرکت کی اجازت تھی جہاں برہنہ لڑکیاں اور لڑکے شامل ہوں۔ پلوٹارک کا کہناہے کہ غیر شادی شدہ نوجوانوں کا ان جلوسوں میں، شدید سردیوں میں بھی، بالکل برہنہ ہو کر شامل ہوناگویا اعتراف تھا کہ ان کی سزا بر حق ہے۔ اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ نوجوانوں کو مجرد رہنے کی صورت میںسخت سردی میں بالکل برہنہ ہو کر جلوس میں شرکت کرنے کی سزا دی جاتی ہو گی ۔

اس عہد کی طاقت ور اور وسیع سلطنت روم پر بھی نگاہ ڈالیں تو صورت ِ حال مختلف دکھائی نہیں دیتی۔ رومی شاعر پبلئس اوویدیئس ناسو (Publius Ovidius Naso, 43 BC - AD 17/18) کی نظر میں پاک دامن عورت صرف وہ ہے جسے کوئی پوچھتا تک نہیں۔ایک اور رومی مدبر، فلسفی اور ڈراما نگار سینیکا(Seneca) سمجھتا ہے کہ جس کے دو عشاق ہوں وہ انتہائی وفاداربیوی کہی جاتی ہے۔اسی طرح رومی امیر اور طنز نگار جوینل(Jovenal) بڑے زہر آلود لہجے میں کہتا ہے کہ روم میں شاید ہی کوئی عورت شادی کے قابل رہ گئی ہو۔ ایک محقق ڈی رین کورٹ (De Riencourt) نے بڑا دل چسپ انکشاف کیاہے کہ شدید جنسی بے راہ روی کا نتیجہ شادیوں کو ملتوی کرنے، شادی شدہ عورت کا عملِ پیدایش سے گریز اور ضعف ِ قوت کی صورت میں سامنے آیا جس سے شرحِ پیدایش پریشان کن حد تک گر گئی تھی ۔ اس کو دیکھتے ہوئے مختلف شہنشاہوں نے زوال پذیر تولید ِ نسل کو بڑھانے کے لیے کثیر تعداد میں بربریوں کو روم آنے کی ترغیب دی ۔ لوگوں کی اخلاقی حالت بہتر بنانے کے لیے مذہب کی جانب ازسرِ نو رجوع کرنا ضروری سمجھا گیا۔    اس میں ریاست کی خواہش اور کوشش بھی شامل تھی۔لہٰذ دیوی سائبل (Cybele) یعنی ’ مادر ِ عظمیٰ‘  (Magna Mater)کے مذہب کو دساور سے روم لایا گیا۔191  ق م میں اسے سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی ۔ جولیس سیزر ( ۱۰۰-۴۴ ق م )  کے زمانے میں روم میں ایک اور دیوی ’ما‘ (Ma) کی پرستش شروع ہوئی جسے رومی سپاہی ایشیائے کوچک سے اپنے ہمراہ لائے تھے ۔۷؎یعنی اخلاقی تنزل کو روکنے کے لیے مذہب کا سہارالیا جانے لگا۔ 

گرتی ہوئی اخلاقی صورت ِ حال کے باعث رومی شہنشائیت کے بانی آگسٹس نے اخلاقیات، شادی بیاہ، ولدیت کی تصدیق ، پاک دامنی اور سادہ بود و باش کے لیے ’ جولیئن قانون‘ (Julian Law) کا نفاذ کیا۔ اس کے تحت عورتوں کو جسمانی ورزشوں کے مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ اہم ترین قانونی ضابطہ زناکاری کے خاتمے اور پاک دامنی کے فروغ سے متعلق تھا۔ رومی تاریخ میں پہلی بار شادی کے تحفظ کو ریاست کے ماتحت کیاگیا۔ اپنی بے راہ رو بیٹی اور اس کے آشنا کو قتل کرنے کا اختیار باپ کو واپس مل گیا۔ اسی طرح خاوند کو اپنی بیوی کے عاشق کو قتل کرنے کا اختیار حاصل ہوا بشرطیکہ وہ اس کے گھر میں موجود پایا گیا ہو۔بیوی کو اپنے گھر میں ارتکاب ِ زنا کی صورت میں ۶۰ روز کے اندر اندر عدالت کے رو برو پیش کیا جانا ضروری تھا ۔    جرم ثابت ہونے پر زانیہ کو تاحیات شہر بدر کرنے، ایک تہائی جایداد اور نصف جہیز کی ضبطی، اور دوبارہ شادی کی پابندی جیسی سزائیں دی جاسکتی تھیں۔

 رومی معاشرہ جس خطرناک حد تک جنسی بے قاعدگی کا شکار ہو رہا تھا اس کے مد ِ نظر قیود وحدود کا تعیّن اور نفاذ ِ قوانین وقت کی ضرورت تھی مگر عدمِ توازن یہ کہ جولئین قانون میں صرف عورت ہی کو ہدف بنایا گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی حدود سے باہر نکلنے میں ہمیشہ ایک جنس دوسرے کی اعانت کرتی ہے۔ مردوں کی مدد اور خواہش کے بغیر عورت کا اخلاقی حدود سے تجاوز کرنا ممکن نہیں۔ روم میں بھی ایسا ہی ہوا مگر رومی قانون اس ضمن میں مرد کو فریق نہیں ٹھیراتا۔ اس کا استثنا اس حد تک ہے کہ بیوی اپنے شوہر پر بے لگام جنسیت کا الزام تک نہیں لگا سکتی کیونکہ قانون نے اس کی جسمانی اور شہوانی خواہشات کی تکمیل کے لیے لائسنس یافتہ پیشہ ور طوائفوں کی شکل میں راہ پیدا کر دی تھی۔(ول ڈیورنٹ، ص ۲۲۳)

ان چند مثالوں کے پیش ِ نظر اسلام کے تعزیراتی قوانین کا مقصد معاشرے کو ان برائیوں سے بہت حد تک پاک کرنا ہے جن کا مشاہدہ ہم آج کی دنیا میں بھی کر رہے ہیں۔ سزائوں کے نفاذسے قبل لوگوں کو اخلاقی باختگی، بے راہ روی اورجنسی آزادی سے دوری کی تعلیم دی گئی، اور اس ضمن میں عورت مرد کے مابین کوئی امتیاز روا نہیں رکھا گیا۔ بحیثیت ِ مجموعی تعلیمات و احکامِ الٰہی نے انسانوں کی زندگی کو ایک ضابطے اور دائرے کے اندر رہنے کا درس دیا ہے تو اس میں لوگوں کی ذاتی، عائلی اور مجموعی بھلائی ہے۔

 

حوالے

۱-            Witherington III, ben (1996), Women in the Earliest Churches, Cambridge University Press, Cambridge, p 190

۲-            امام غزالی، کیمیاے سعادت (مترجم: نائب نقوی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، تاریخ ندارد، ص۴۲۶-۴۲۷

۳-            امام غزالی، احیاء العلوم (مترجم: مولانا محمد حسن نانوتوی) مکتبہ رحمانیہ، لاہور، تاریخ ندارد، ج۲، ص۴۳-۴۴)

۴-            مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، ۱۹۷۴ئ، ج۱،ص ۲۳۲

۵-            مالک رام، حموربی اور بابلی تہذیب و تمدن،اپنا ادارہ، لاہور، ۲۰۰۰ئ، ص ۷۰-۷۱

۶-            Briffault, Robert (1959), The Mothers (abridged by Gordon Rattray Taylor), George Allen & Unwin, London, p 87.

۷-            Durant Will, The Story of Civilization: The life of Greece, Simon & Schuster, N.Y., p 305.

۸-            De Riencourt, Amaury (1989), Woman and Power in History, Sterling Publishers (Pvt) Ltd., New Delhi, pp 126-9